رسول اللہ ( ص)کے ایک سو بیس صفات
رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک سو بیس صفات(1)آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب چلتے تھے تو تکبرانہ انداز میں نہ چلتے بلکہ آہستہ آہستہ اور با وقار انداز میں چلتے۔(2)جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے۔(3)آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں۔(4)آپ ہمیشہ غور و فکر و تدبر میں رہتے۔(5)آپ غم و اندوہ میں غرق رہتے۔(6)ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے۔(7)آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے۔(8)آپ کے عادات و اطوار میں سخیم اور پست کلامی کا وجود نہ تھا۔(9) آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔(10)حق کو اجاگر کرنے والے تھے۔(11)آپ خوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آتے تھے۔(12)آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم نعمت سمجھتے تھے۔(13)آپ نے کسی نعمت کی مذمت نہیں فرمائی۔(14)کھانے پینے کی اشیاء میں جو اچھی لگتی کھا لیتے اور جو پسند نہ کرتے بغیر اس کی مذمت کئے اس کو چھوڑ دیتے۔(15)دنیوی امور میں گھاٹے پر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔(16)خدا کے لئے اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکتا تھا۔(17)اگر اشارہ کرنا ہوتا تو اپنی انگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابروسے۔(18)جب خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے۔(19)آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذونادر ہنستے وقت آپ کی آوازسنائی دیتی۔(20)آپ بار بار فرماتے کہ جو حاضر ہے وہ میرا کلام غائب کو پہنچائے۔(21)آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتاؤ جو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچاسکتے۔(22)کسی کا اس کی لغزش اور خطا پر مواخذہ نہ فرماتے۔23۔ اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم و حکمت سے دامن بھر کرواپس آتا۔24۔آپ لوگوں کے شرسے واقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے۔25۔آپ لوگوں سے خوش روئی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔26۔آپ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے۔27۔آپ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔28۔اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اور آپ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا خیرخواہ ہو۔29۔ آپ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کے ساتھ احسان مدد اور نصرت سے پیش آتے۔30۔عالم مصلح اور اخلاق حسنہ کے مالک افراد کی تکریم فرماتے تھے۔31۔ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے۔32۔آپ کسی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کے ساتھ۔33۔مجلس میں اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ قرار نہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے۔34۔جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کو بھی اس کی نصیحت فرماتے۔35۔لوگوں میں اس طرح گھل مل جاتے کہ ہر آدمی سمجھتا کہ وہی آپ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے۔36۔مجلس میں حاضر ہر فرد آپکے اکرام اور توجہ کا مرکز ہوتا۔37۔جس نے بھی آپ سے کوئی حاجت طلب کی تو مقدور ہونے کی صورت میں اسکی حاجت روا کرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کے ساتھ راضی کرتے۔38۔آپ کی مجلس حیاء بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائی اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہر کرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقوی و پرہیزگاری کی نصیحت فرماتے۔ بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے فقیروں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تھے۔39۔تمام لوگ آپ کی نگاہ میں مساوی اور برابر تھے۔40۔سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضرر کا احساس نہ ہوتا کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے۔41۔کسی وقت آپکی صدا بلند نہ ہوتی حتی کہ غیض و غضب کے وقت بھی۔42۔کسی سے بد کلامی نہ فرماتے۔43۔لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ بہت زیادہ ان کی تعریف کرتے۔44۔کوئی بھی آپ سے نا امید نہ تھا۔45۔آپ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے۔46۔ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔47۔کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو48۔فائدہ سے خالی اشیاء کے درپے نہ رہتے۔49۔کسی کی مذمت نہ کرتے۔50۔کسی کی سرزنش نہ کرتے51۔لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اور نہ اس کی جستجو کرتے۔52۔بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے۔53۔جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی درہم و دینار غلام کنیز بھیڑ بکری اور اونٹ چھوڑ کر نہیں گئے۔54۔جب آپ دار فانی سے چلے گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی تھی جس کے بدلے میں آپ نے اس سے بیس صاع جو اپنے اہل وعیال کے لئے لئے تھے۔55۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تین دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوے تھے کہ معبود حقیقی سے جا ملے۔56۔آپ خاک پر بیٹھتے ،زمین پر بیٹھ کر طعام تناول فرماتے ،زمین پر سوتے بھیڑ اور اونٹ کا پاؤں خود باندھتے بھیڑوں کو خود دوہتے اور اپنے گھر کا دروازہ خود کھولتے تھے۔57۔آپ کمال تواضع کے مالک تھے۔58۔آپ ہر روز بدن کی رگوں کی تعداد کے مطابق تین سوساٹھ مرتبہ الحمد للہ رب العالمین کثیرا علی کل حال کہتے تھے اور ستر مرتبہ استغفراللہ اور سترمرتبہ اتوب الی اللہ کا ذکر کرتے تھے۔59۔روایت میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا جسمیں شہد ملا ہوا تھا آپ نے فرمایا یہ پینے کی دو چیزیں ہیں جن میں سے ایک پر اکتفاہوسکتا ہے۔ میں دونوں کو نہیں پیوں گا اور دونوں کو تم پر حرام بھی نہیں کرتا ہوں میں خدا کے لئے تواضع سے کام لوں گا۔ جو بھی تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ،جو اپنی روزی میں میانہ روی سے کام لے خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے ،جو فضول خرچی اور اسراف کرتا ہے خدا اسے رزق سے محروم کر دیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے۔60۔آپ ہر ماہ کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات ،ماہ کے پہلے دس دنوں میں پہلے بدھ کو روزہ رکھتے تھے شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔61۔آپ سب لوگوں سے زیادہ حکیم ،دانا بردبار ،شجاع عادل اور مہربان تھے۔62۔آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے درہم و دینار گھر میں باقی نہ رکھتے۔63۔سال کے اخراجات کے علاوہ سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے۔64۔معمولی طعام کو بھی استعمال کے لئے محفوظ کرتے جیسے کھجور جو وغیرہ۔65۔جب خادم چکی کے گرد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے۔66۔رات کو وضو کے لئے پانی خود مہیا کرتے۔67۔لوگوں کی موجود گی میں کبھی تکیہ نہ لگاتے۔68۔محتاج کی مدد خود کرتے تھے۔69۔کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتے۔70۔آپ کبھی ڈکار نہ لیتے تھے۔71۔ہدیہ قبول فرماتے گرچہ دودھ کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہوتا۔72۔آپ صدقہ نہیں کھاتے تھے۔73۔لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے تھے۔74۔اکثر بھوک سے کمر پر پتھر باندھ لیتے۔75۔جو کچھ بھی حاضر ہوتا تناول فرما لیتے۔76۔کسی چیز کورد نہیں کرتے تھے۔77۔آپ اکثرسفید لباس زیب تن فرماتے اور سرپرعمامہ باندھتے تھے۔78۔جمعہ کے دن اچھا لباس پہنتے اور پرانا لباس فقیر کو دے دیتے تھے آپ کی ایک ہی عبا تھی جہاں بھی جاتے اسی سے استفادہ فرماتے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں چاندی پہنتے تھے۔79۔بدبو سے کراہت کرتے تھے۔80۔ہر وضو کے ساتھ مسواک کرتے تھے۔81۔اپنی سواری پر کبھی خود اور کبھی دوسرے کو پچھے بٹھاتے تھے۔82۔جو سواری ملتی اس پر سوار ہو جاتے کبھی گھوڑا کبھی خچر اور کبھی اونٹ۔83۔آپ فقرا اورمساکین کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔84۔ہر ایک کے ساتھ ادب سے پیش آتے۔85۔جب کوئی عذر کرتا تو اس کا عذر قبول کر لیتے۔86۔آپ کبھی بھی عورتوں اور خدمت گاروں پر غصہ نہ فرماتے اور نہ انہیں برا بھلا کہتے۔87۔جب بھی کوئی آزاد غلام یا کنیز آپ سے مدد کے طالب ہوتے تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ہمراہ چل پڑتے۔88۔آپ بدی کا نیکی سے جواب دیتے۔89۔جس سے ملتے سلام میں پہل کرتے مردوں سے مصافحہ کرتے اور بچوں و عورتوں کو سلام کرتے۔90۔جس مجلس میں بیٹھتے ذکر خدا کرتے اکثر رو بہ قبلہ بیٹھتے ہرمجلس میں کم از کم پچیس مرتبہ استغفار کرتے۔91۔جو بھی آپ کے پاس آتا آپ اس کا احترام کرتے۔92۔آپ کی رضا اور غضب حق کہنے سے مانع نہ ہوتے۔93۔آپ کو گوشت اور کدو پسند تھا شکار نہیں کرتے تھے لیکن شکار کا گوشت تناول فرماتے پنیر اوراسی طرح گھی بھی آپ کو پسند تھا۔94۔اپنے سامنے سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن خرمہ پہلے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو پیش کرتے۔95۔کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے۔96۔پانی پینے کے وقت بسم اللہ پڑھتے تھوڑا سے پیتے پھر لبوں سے ہٹا لیتے اور الحمد للہ کہتے ،تین وقفوں میں پانی پیتے۔97۔سراور داڑھی کو آب سدر ر(بیر کے پانی ) سے دھوتے۔98۔تیل کی مالش کرنا پسند کرتے تھے۔99۔اپنے سامنے کسی کو کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔100۔دو انگلیوں سے نہیں بلکہ تین انیو ں سے کھانا کھاتے۔101۔کوئی عطر آپ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار نہیں تھا۔102۔روایت میں ملتا ہے کہ آپ ایک سفر میں تھے اور اصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لئے ایک بھڑط ذبح کریں ایک شخص نے کہا میں ذبح کروں گا دوسرا بولا میں کھال اتاروں گا تیسرے نے کہا کہ میں پکاؤں گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑیاں جمع کروں گا اصحاب نے کہا یارسول اللہ ہم ہیں آپ زحمت نہ فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ خود کو تم پر ترجیح دوں ،خدا اس بندے سے نفرت کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں اپنے آپ کو ممتازسمجھے۔103۔انس کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی اور آپ نے اس مدت میں مجھے اف تک نہ کہا۔104۔آپ کے لعاب دھن میں برکت اور شفا تھی۔105۔آپ ہر زبان میں تکلم فرماسکتے تھے۔106۔لکھنے پڑھنے پر قادر تھے لیکن آپ نے کبھی تحریر نہیں فرمایا۔107۔جس حیوان پر سوارہوتے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوتا۔108۔جب آپ کسی پتھر یا درخت کے قریب سے گزرتے تو سلام کرتے۔109۔مکھی مچھر اور ان جیسے جانور آنحضرت پر نہ بیٹھتے تھے۔110۔پرند کبھی بھی آپ کے سرمبارک پر سے پرواز نہیں کرتے تھے۔111۔چلنے کے دوران قدم مبارک کے نشان نرم زمین پر نظر نہ آتے لیکن پتھر پر نشان نظر آتے تھے۔112۔تازہ کھیرے نمک کے ساتھ تناول فرماتے تازہ میووں میں خربوزہ اور انگورپسند تھے اکثر آپ کی غذا پانی کھجور یا دودھ اور کھجور ہوتی تھی۔113۔کھانا سب سے پہلے شروع کرتے آخر تک کھانا کھاتے تاکہ کسی کو اکیلا نہ کھانا پڑے۔114۔آپ کی خدمت میں برتن لایا جاتا اور آپ تبرک کے طورپراس میں ہاتھ ڈالتے اور کراہت نہیں کرتے تھے۔115۔نومولود کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا کہ آپ اس کے لئے دعا فرمائیں آپ بچے کو گود میں لیتے کبھی کبھار بچہ پیشاب کر دیتا تو آپ ہرگز ناراض نہ ہوتے بلکہ دامن کو دھو لیتے تھے۔116۔آپ قیدیوں پر رحم کرتے تھے حاتم طائی کی بیٹی کے ساتھ آپ کا مہربانی سے پیش آنا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔117۔آپ نے کسی عورت کی بے حرمتی نہیں کی۔118۔جب گھر میں داخل ہوتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے۔119۔سرکے نامناسب بالوں سے کراہت کرتے تھے۔120۔یہ سارے اوصاف تواضع کی علامت ہیں۔ یہ ہیں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مجموعہ کمالات کے بعض اعلی نمونے جنہیں قلم بند کرنے کی توفیق ہمیں ملی ہے۔ یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ذات کبریائی کی ولایت کبری کے حامل تھے جو مستجمع جمیع صفات کمال و جلال و جمال ہے لذلا آپ کے صفات کا ان ہی ایک سوبیس صفات حسنہ میں احصاء کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے لیکن بقول شاعرآب دریا را اگرنتوان کشیدہم بقدر تشنگی باید چشید، کے مصداق ہماری ناقص عقل نے ان ہی صفات حسنہ کے احصاء پر اکتفا کیا ہے یہ ہمارے وجود کے نقص کا ثبوت ہے بھلا ذرے کو آفتاب کے نور کی تاب کہاں جتنا ہوسکا سو اپنی عقیدت کا اظہار کر دیا اب اس دریائے فیض کا کرم ہے کہ ہمیں مزید کتنا نوازتا ہے عبع ہم میں ہے اس کی عطا میں نہیں۔٭٭٭