عبرت حاصل کرنے کے طریقے

332

کلمہ ‘عبر’ ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:
الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے:’آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا’۔ (١)عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ‘دلف بن بحیر’ ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے…. حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا:’کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا’دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔…………………………………١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ‘اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:
جرت الریاح علی رسوم دیارہمفکأنہم کانوا علی میعادان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی…۔ (٢)نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:’تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔'(٣)خداوند متعال فرماتاہے: ‘پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)…………………………………١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة)(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ‘کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی’ (١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:’آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں…۔(٢)مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔
ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ‘اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ ‘ قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:’چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے’۔(٣)…………………………………١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔’خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ‘۔(١)عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ‘خود خواہی ‘ (٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ‘خود خواہی ‘ سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ‘… اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ‘انضباط کا برقرارکرنا’ اور ‘خود پسندی سے نکلنا ‘ (٣)عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔
ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ‘میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا’۔(٤)اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔
د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔…………………………………١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔٢۔ من رضی عن نفسہ ظہرت علیہ المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب۔(غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ‘ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے’۔(١)یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ‘پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو’۔(٢)ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ‘یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ‘۔(٣)قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:١۔ عبرت حاصل کرنا ایک (٤) دور اندیش عقل (٥)اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ‘عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں’۔(٧)٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)…………………………………١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار)سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔٥۔ ( لقد کان فی قصصہم عبرة لاولی الالباب)سورہ ٔیوسفآیت١١١۔٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.