خاندانی اختلافات اور اس کا حل
خاندانی اختلافاتجس طرح مختلف معاشرے اورممالک ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب خاندان کے افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ بعض اوقات اختلافات اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر غم و غصہ نکالنا شروع کرتے ہیں۔اس طرح گلے شکوے سے اپنے سینوں کو خالی کرکے اپنے کو ہلکا کرتے ہیں۔کبھی کبھی یہ گلے شکوے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔اگر اظہار کا موقع نہ ملے تو شعلے کی مانند انسان کو اندر سے جلاتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوںکو درک کرلیتے ہیں تو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا گلے شکوے کو چھپانا مسئلہ کا حل نہیں ہے ،بلکہ ان پر پردہ ڈالنا مشکلات میں مزید اضافے کاباعث بنتا ہے۔۔لیکن دونوں کو احتیاط کرنا چاہئے کہ ان اعتراضات اور گلے شکوے کو انتقام جوئی اور جھگڑا فساد کی بنیاد قرار نہ دیں۔بلکہ ان کو باہمی تفاہم اور عشق و محبت کی ایجاد کیلئے زمینہ قرار دیں۔ کیونکہ زندگی کی لطافت اور خوشی ،صلح و صفا میں ہے نہ جنگ و جدل اور فسادمیں۔یہاں دونوں کو جان لینا چاہئے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد پیار و محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔خواتین کو جاننا چاہئے کہ اگر مردوں کا جہاد محاذوں پر لڑنا اور دشمن پر حملہ آور ہونا اوردشمن کے تیروں کو اپنے سینوں پر لینا ہے تو خواتین کا جہاد جتنا ممکن ہو سکے اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچوں کی تربیت کرنا ہے ۔ امام موسی کاظم(ع)نے فرمایا: جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل -1 عورت کا جہاد اچھی شوہر داری ہے ۔جب اسماء بنت یزید کو مدینہ کی عورتوں نے اپنا نمائندہ بنا کرپیامبر اسلام (ص)کے پاس بھیجا اور اس نے عرض کی : یا نبی اللہ ! خدا نے آپ کو مقام نبوت پر فائز کیا ہم آپ پر ایمان لے آئیں، اور ہم گھروں میں بیٹھ کر اپنے شوہروں کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد لوگ نماز جماعت میں شریک ہوتے ہیں، بیماروں کی عیادت کیلئے جاتے ہیں ،تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں،جھاد میں حصہ لیتے ہیں، مراسم حج کی ادائیگی کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ثواب کماتے ہیں اور ہم بیچاری عورتیں مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال کی حفاظت ،بچوں کی تربیت، گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے میں مصروف رہتی ہیں،کیا ہم بھی ان کے ثواب میں برابر کی شریک ہیں ؟ پیامبر اسلام (ص)نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا :کیاتم لوگوں نے کبھی دینی مسائل اور مشکلات میں کسی خاتون کی زبان سے اس سے بہتر کوئی گفتگوسنی ہے؟اصحاب نے عرص کیا یا نبی اللہ! اس قدر فصیح و بلیغ گفتگو آج تک کسی خاتون سے نہیں سنی تھی۔ اس کے بعد پیامبر(ص)نے فرمایا: جاؤ خواتین سے کہہ دو ، کہ اگر تم اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک کروگی اور اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دوگی اور اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گی تو ان کے تمام اجر اور ثواب میں تم بھی برابر کی شریک ہونگی۔یہ سن کر اسماء بنت یزید اللہ اکبر اور لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پیامبر اسلام (ص) کی خدمت سے اٹھی اور مدینہ کی عورتوں کو یہ خوش خبری سنادی-2اس حقیقت کی طرف مرد اور عورت دونوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ عورتوں کے وجود میں جنگی ، سیاسی ، اور ورزشی میدانوں میں بہادری نہیں پائی جاتی بلکہ انہیں اسلام نے ریحانۂ زندگی یعنی زندگی کی خوشبو کا لقب دیا ہے۔ جس میں خوبصورت پھولوں کی طرح لطافت اور طراوت پائی جاتی ہے۔ اور اس لطافت اور طراوت کو ظالم ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ پھول کی جگہ گلدستہ ،گلدان اور انس و محبت والی محفلیں ہواکرتی ہیں۔امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا: فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ-3۔بیشک عورت گلزار زندگی کا پھول ہے نہ پہلوان۔لیکن یاد رکھو کہ مرد حضرات اپنی جسمانی قدرت اور طاقت کے زور پر کبھی بھی اس گلستان خلقت کے پھولوں کوجنہیں ما ں،بہن،بیٹی اور شریک حیات کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں، جوطراوت اور شادابی کیساتھ کھلا کرتی ہیں ؛اپنے مکہ، طمانچہ اور ٹھوکر کا نشانہ نہ بنائیں ۔دین مقدس اسلام مردوں کو اپنی ناموس خصوصاً شریک حیات کے بارے میں خبردار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو اس لطیف اور نازک بیوی کو جوتیری زندگی کی خوشی ،سکون اور آرام کا باعث ہے ، ضائع کرے ۔: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّمَا الْمَرْأَةُ لُعْبَةٌ مَنِ اتَّخَذَهَا فَلَا يُضَيِّعْهَا -4 پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا عورت گھر میں خوشی کا سبب ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اپنے تحویل میں لے لے اور اسے ضائع کردے۔
خاندانی اختلافات کا علاجگھریلو اختلافات کا طولانی ہونا ایک سخت بیماری ہے جو خاندان کے جسم پر لاحق ہوتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور علاج کرنا بہت ضروری ہے۔1. پہلا علاج تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے وضائف کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں ۔2. دوسرا علاج توقّعات کو کم کرنا ہے حقیقی اکسیر اوردوایہی ہے اور یہ شرطیہ علاج ہے۔ صرف ایک دفعہ آزمانا شرط ہے۔3. تیسرا علاج اپنی خواہشات نفسانی ، خودخواہی اور غرور و خودپسندی کے خلاف قیام کرنا ہے۔ جس سے نہ صرف اختلافات ختم ہوسکتی ہے بلکہ موجودہ اختلافات صلح و صفائی میں بدل سکتی ہے۔4. چوتھا علاج ایک دوسرے کے اعتراضات اور اشکالات کو سننا اور موافقت اور مفاہمت کیلئے قدم اٹھانا ۔چنانچہ قرآن مجید مردوں کو نصیحت کرتا ہے کہ طبیب اور حکیم کی طر ح علاج اور معالجہ کریں۔ اور گھریلو ماحول میں جزّابیت ، طراوت اور شادابی کو برقرار رکھیں۔قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ اگر بیوی نے نافرمانی شروع کی تو فوراً مارنا پیٹنا شروع نہ کریں بلکہ پہلے مرحلے میں وعظ و نصیحت کرکے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی نہ مانے تو دوسرا راستہ اختیار کریں۔یعنی ایک ساتھ سونا چھوڑدیں۔ اور پھر بھی بات نہ مانے تو مار کر اسے مہار کرلو۔ لیکن گھریلو اور خاندانی زندگی میں بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شوہر مظہر احسان ہو ۔ بہترین انسان وہ ہے کہ اگر عورت خطا اور نافرمانی کا مرتکب ہو جائے تو اسے معاف کرتے ہوئے اس کی اصلاح شروع کرے۔اور راہ اصلاح اس سے دوری اختیار کرنا نہیں جو محبت اور آشتی کی راہوں کو بند کرتا ہوبلکہ صحیح راستہ وہی ہے جو محبت اور آشتی کی راہوں کو کھول دے۔ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا الَّذِي إِذَا فَعَلَهُ كَانَ مُحْسِناً قَالَ يُشْبِعُهَا وَ يَكْسُوهَا وَ إِنْ جَهِلَتْ غَفَرَ لَهَا-5۔ کسی نے امام صادق(ع) سے سوال کیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے جسے اگر وہ ادا کرے تو مظہر احسان بن جائے؟ امام نے فرمایا : اسے کھانا دے بدن ڈھانپنے کیلئے کپڑا دے اور اگر کوئی جہالت یا نافرمانی کرے تو اسے معاف کردے۔اوپر آیہ شریفہ میں تیسرے مرحلہ پر مارنے کا حکم آیا ہے ،لیکن مارنے کی کوئی حد بھی مقرر کی ہے یا نہیں؟یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جس چیز کی اطاعت کرنا عورت پر واجب ہے وہ فقط مباشرت اور ہمبستری کیلئے تیار رہنا ہے کہ شوہر جب بھی اس چیز کا تقاضا کرے عورت تیار رہے اور انکار نہ کرے۔باقی کوئی کام بھی اس کے ذمہ نہیں ہے یہاں تک کہ بچے کو دودھ پلانا بھی۔ اور شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے جھاڑو لگانے ، کپڑے دہلانے اور کھانا پکانے پر مجبور کرے بلکہ یہ وہ کام ہیں جو باہمی تفاہم اور رضامندی سے انجام دیے جائیں۔ورنہ شوہر کو ان کاموں میں مار پیٹ کرکے اپنی بات منوانا تو دور کی بات ،مواخذہ تک کرنا جائز نہیں ہے۔مرد کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ بیوی کو کنیز اور نوکرانی کی حیثیت سے گھر نہیں لائی گئی ہے بلکہ بحیثیت ہمسراور یار و مددگارلائی گئی ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ مار پیٹ کی حد کیا ہے ؟جواب یہ ہے کہ یہاں بھی مرد مارپیٹ کے حدود کو معین نہیں کرسکتا بلکہ اسلام نے اس کی مقدار اور حدود کو معین کیا ہے ۔اس قسم کی مار پیٹ کو ہم تنبیہ بدنی کے بجائے نوا زش اور پیار سے تشبیہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔اس سلسلے میں قرآن مجید میں ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز داستان موجودہے جوحضرت ایوب اور ا ن کی زوجہ محترمہ کا قصہ ہے: حضرت ایوبA طویل عرصے تک بیمار رہے آپ کا اللہ اور اپنی زوجہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہا۔وہ خادمہ سخت پریشان تھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان ملعون نے آکر کہا: اگر ایوب مجھ سے شفاء طلب کرے تو میں کوئی ایسا کام کروں گا کہ ایوب ٹھیک ہوجائے۔ جب یہ کنیز خدا اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس بات کا اظہار کیا تو حضرت ایوبA-6سخت ناراض ہوئے اور قسم کھائی کہ اگر میں ٹھیک ہوجاؤں تو تجھے سو کوڑے ماروں گا۔درحالیکہ آپ کی مہربان بیوی کے علاوہ کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا۔ اور جب آپ بیماری سے شفایاب ہوگئے تو خدا نے انھیں دستور دیا: وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌاور ایوبA تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مار و اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو – ہم نے ایوب Aکو صابر پایا ہے – وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہے ۔ صبر ایوب دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور روایات کی بنا پر انہوں نے واقعاً صبر کیا ہے ۔ اموال سب ضائع ہوگئے اولاد سب تلف ہوگئی ۔ اپنے جسم میں بھی طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں لیکن مسلسل صبر کرتے رہے ۔ ا ور کبھی فریاد نہ کی۔ ۔اس واقعہ سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ایسا موقع آئے تو ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ سوچ کراسے درگذر کرے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ہمیں معاف کریگا۔
جہنمی مردرسول اللہ(ص)نے فرمایا : مَنْ أَضَرَّ بِامْرَأَةٍ حَتَّى تَفْتَدِيَ مِنْهُ نَفْسَهَا لَمْ يَرْضَ اللَّهُ لَهُ بِعُقُوبَةٍ دُونَ النَّارِ لِأَنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِلْمَرْأَةِ كَمَا يَغْضَبُ لِلْيَتِيم -7ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو اس قدر اذیت و آذار دے کہ وہ اپنا حق مہر سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے تو خدا تعا لی اس کیلئے آتش جہنم سے کم عذاب پر راضی نہیں ہوگاکیونکہ خداوند عورت کے خاطر اسی طرح غضبناک ہوتا ہے جس طرح یتیم کے خاطر غضبناک ہوتا ہے ۔بس ہمیں چاہئے کہ اپنی آخرت کی فکر کرے۔ ثانیاًمرد اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے اسے کچھ اضافی چیز دیکر آزاد کرے تاکہ اپنا وقار اور تشخّص برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت سلیمان Aنے دیکھا کہ ایک چڑا چڑیا سے کہہ رہا ہے کہ اگرتوچاہے تو میں تخت سلیمان Aکوتیرے قدموں میں نچھاور کردوں۔ جب یہ باتیں حضرت سلیمان7 نے سنی تو فرمایا: کیا تجھ میں اتنی ہمّت ہے؟ توچڑے نے کہا یا نبی اللہ! اتنی ہمت تو کہاں ۔ لیکن مادہ کے سامنے نر کو اپنا وقار برقرار رکھنا چاہئے۔
جن ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو!پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا : َ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ يَضْرِبُ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يَظَلُّ مُعَانِقَهَا ؟ 8یعنی کیسے بیوی کو ان ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو جن سے ان پر تشدد کرتے ہو؟! اور کیا تم میں سے کوئی ہے جو بیوی کو مارے اور پھراسے گلے لگائے؟!بہت ہی احمقانہ رویّہ ہے کہ شخص اپنے ہاتھوں کو اپنی شریک حیات کے اوپر کبھی غیض و غضب اور مار پیٹ کا ذریعہ بنائے اورکبھی انہی ہاتھوں سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنےکیلئے اسے باہوں میں لے!یہ مارنا پیٹنا بڑا گناہ ہے کیونکہ مارنے کا ہمیں حق نہیں ہے، اور مارنے کی صورت میں شریعت نے دیت واجب کردیا ہے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:1. شوہر کے مارنے کی وجہ سے بیوی کے چہرے پر صرف خراش آجائے تو ایک اونٹ دیت واجب ہے۔2. اگر خون بھی جاری ہوا تو دو اونٹ واجب ہے۔3. اگر بیوی کا چہرہ مارنے کی وجہ سے کالا ہوجائے تو چھ مثقال سونا واجب ہے۔4. اگر چہرہ سوجھ جائے تو تین مثقال سونا واجب ہے۔5. اگر صرف سرخ ہوگیاتو ڈیڑھ مثقال سونا واجب ہے۔ ہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دیات کے ساتھ قصاص لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔
مار نا اور گالی دینا جہالتکس قدر نادان اور جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنی شریک حیات کومارتے اور گالی دیتے ہیں۔ایسے شوہر پر تعجب کرتے ہوئے رسول اسلام (ص) نے فرمایا: إِنِّي أَتَعَجَّبُ مِمَّنْ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ وَ هُوَ بِالضَّرْبِ أَوْلَى مِنْهَا لَا تَضْرِبُوا نِسَاءَكُمْ بِالْخَشَبِ فَإِنَّ فِيهِ الْقِصَاصَ وَ لَكِنِ اضْرِبُوهُنَّ بِالْجُوعِ وَ الْعُرْيِ حَتَّى تُرِيحُوا [تَرْبَحُوا] فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة-9۔میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو اپنی بیوی کو مارتاہے جبکہ وہ خود زیادہ سزا کامستحق ہے۔ہاں مسلمانو!اپنی بیویوں کو لاٹھی سے نہ مارنا اگر ان کو تنبیہ کرنے پر مجبور ہوجائے تو انہیں بھوکے اور ننگے رکھ کر تنبیہ کرو۔ یہ طریقہ دنیا اور آخرت دونوں میں تیرے فائدے میں ہے۔اور یہ حدیث اس آیہ شریفہ کی تفسیرہے جس میں فرمایا : وَ الَّاتىِ تخََافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فىِ الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَيهِْنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَلِيًّا كَبِيرًا. 10اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اگر باز نہ آئیں تو خواب گاہ الگ کردو(اور پھر بھی باز نہ آئیں تو )انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو کہ خدا بلنداور بزرگ ہے ۔
————1 ۔ تفسیر المیزان،ج٤،ص٣٧٣۔،الکافی،ج۶، ص۹۔2 ۔ ہمان3 ۔ بحار الانوار،ج۷۴، ص۲۱۵۔4 ۔ ھمان5 ۔ وسائل الشیعہ،ج ۲۱، ص۵۱۱۔6 . سورہ ص ۴۴۔7 ۔ وسائل الشیعہ،ج۲۲ ص ۲۸۲۔8 . وسائل ،ج ۲۰ص ۱۶۷۔9. بحار،ج ۱۰۰، ص۲۴۹۔10 . نساء ۳۴۔