فتح مکہ

283

فتح مکہفتح مکہ نے؛ تاریخ اسلام میںایک نٴی فصل کا اضافہ کیاھے اور تقریباً بیس سال کے بعد دشمن کی مقاومتوں کو ھمیشہ کے لئے ختم کردیا، حقیقت میں فتح مکہ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پر ستی کی بساط لپیٹ دی گئی ،اور اسلام دنیاکے دوسرے ممالک کی طرف حرکت کے لئے آمادہ هوا۔اس واقعہ کا خلاصہ یہ ھے کہ عہد وپیمان اور صلح کے بعد کفار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کونظر انداز کردیا، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی، آپ کے حلیفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حلیفوںکی مددکرنے کا ارادہ کرلیا،اور دوسری طرف مکہ میں بت پرستی شرک اور نفاق کا جو مرکز قائم تھا اس کے ختم هونے کے تمام حالات فراھم هوگئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ھر حالت میں انجام دینا ضروری تھا،اس لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مکہ کی طرف جانے کے لئے آمادہ هوگئے ،فتح مکہ تین مراحل میںانجام پائی ۔پھلا مرحلہ مقدماتی تھا، یعنی ضروری قوااور توانائیوں کو فراھم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی و روحانی قوت و توانائی کی مقدار وکیفیت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کرنا تھا۔دوسرا مرحلہ، فتح کے مرحلہ کوبہت ھی ماھرانہ اور ضائعات و تلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آثار و نتائج کا مرحلہ تھا۔یہ مرحلہ انتھائی دقت، باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا ، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ و مدینہ کی شاھراہ کو اس طرح سے سے قرق کرلیا تھا کہ اس عظیم آمادگی کی خبر کسی طرح سے بھی اھل مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انهوں نے کسی قسم کی تیار ی نہ کی ،وہ مکمل طور پر غفلت میں پڑے رھے اور اسی وجہ سے اس مقد س سرزمین میںاس عظیم حملہ اور بہت بڑی فتح میں تقریباً کوئی خون نھیںبھا۔یھاں تک کہ وہ خط بھی،جو ایک ضعیف الایمان مسلمان “حاطب بن ابی بلتعہ”نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ “مزینہ” کی ایک عورت “کفود”یا “سارہ”نامی کے ھاتھ مکہ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے آشکار هوگیا، علی علیہ االسلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے روانہ هوئے، انهوںنے اس عورت کو مکہ و مدینہ کی ایک درمیانی منزل میںجالیا اور اس سے وہ خط لے کر،خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے۔
مکہ کی طرف روانگیبھر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقرر کر کے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ کی طرف چل پڑے ، اور دس دن کے بعد مکہ پہنچ گئے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستے کے وسط میں اپنے چچا عباس کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ کی طرف آرھے ھیں ۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ھمارے ساتھ چلیں، اور آپ آخری مھاجر ھیں۔آخر کار مسلمان مکہ کی طرف پہنچ گئے اور شھر کے باھر،اطراف کے بیابانوں میں اس مقام پر جسے “مرالظھران”کھا جاتا تھا اور جو مکہ سے چند کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لئے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے) وھاں آگ روشن کردی، اھل مکہ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنھاں تھیں۔ اس رات اھل مکہ کا سرغنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سرغنہ خبریںمعلوم کرنے کے لئے مکہ سے باھر نکلے،اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباس ۻنے سوچا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قھرآلود طریقہ پر مکہ میںوارد هوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نھیں بچے گا، انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت لئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار هوکر کھا میں جاتاهوں ،شاید کوئی مل جائے تو اس سے کهوں کہ اھل مکہ کو اس ماجرے سے آگاہ کردے تا کہ وہ آکر امان حاصل کرلیں۔عباسۻ وھاںروانہ هوکر بہت قریب پہنچ گئے۔ اتفاقاً اس موقع پر انهوں نے “ابو سفیان”کی آواز سنی جواپنے ایک دوست “بدیل” سے کہہ رھا تھا کہ ھم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نھیں دیکھی، “بدیل” نے کھا میرا خیال ھے کہ یہ آگ قبیلہ”خزاعہ”نے جلائی هوئی ھے، ابوسفیان نے کھا قبیلہ خزاعہ اس سے کھیں زیادہ ذلیل وخوار ھیں کہ وہ اتنی آگ روشن کریں،اس موقع پر عباس نے ابوسفیان کو پکارا، ابوسفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کھا سچ سچ بتاؤ کیا بات ھے؟عباسۻ نے جواب دیا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمھاری طرف آرھے ھیں، ابو سفیان سخت پریشان هوا اور کھا آپ مجھے کیا حکم دیتے ھیں۔عباسۻ نے کھا:میرے ساتھ آؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امان لے لو ورنہ قتل کردیے جاؤگے۔اس طرح سے عباس نے”ابوسفیان”کو اپنے ھمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر ھی سوار کرلیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پلٹ آئے ۔ وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یھی کہتے کہ یہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ھیں ،کوئی غیر آدمی ھے، یھاںتک کہ وہ اس مقام پر آئے، جھاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب کی نگاہ ابو سفیان پر پڑی تو کھا خدا کا شکر ھے کہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفیان) پر مسلط کیا ھے، اب تیرے لئے کوئی امان نھیں ھے اور فوراً ھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میںآکرآپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابوسفیان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی ۔لیکن اتنے میں عباسۻ بھی پہنچ گئے اور کھا: کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اسے پنا ہ دے دی ھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں بھی سر دست اسے امان دیتا هوں، کل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے میرے پاس لے آئیں اگلے دن جب عباسۻ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا:”اے ابوسفیان! وائے هو تجھ پر، کیا وہ وقت ابھی نھیں آیا کہ تو خدائے یگانہ پر ایمان لے آئے”۔اس نے عرض کیا: ھاں! ےا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان هوں ،میں گواھی دیتاهوں کہ خدا یگانہ ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے،اگر بتوں سے کچھ هو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا۔آنحضرت نے فرمایا:”کیا وہ موقع نھیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسو ل هوں”۔اس نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان هو ںابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ھے لیکن آخر کار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان هوگئے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عباسۻ سے فرمایا:”ابوسفیان کو اس درہ میں جو مکہ کی گزرگاہ ھے، لے جاؤ تاکہ خدا کا لشکر وھاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے”۔عباسۻ نے عرض کیا:”ابوسفیان ایک جاہ طلب آدمی ھے،اسکو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میں ھے،جوشخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ھے،جو شخص اپنے گھر کے اندر ھے اور دروازہ بند کرلے وہ بھی امان میں ھے”۔بھر حال جب ابوسفیان نے اس لشکر عظیم کو دیکھا تو اسے یقین هوگیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نھیں رھی او راس نے عباس کی طرف رخ کرکے کھا:آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی هوگئی ھے،عباسۻ نے کھا: وائے هو تجھ پر یہ سلطنت نھیں نبوت ھے۔اس کے بعدعباس نے اس سے کھا کہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہ والوں کے پاس جاکر انھیں لشکر اسلام کا مقابلہ کرنے سے ڈرا۔ابوسفیان؛ لوگوں کو تسلیم هونے کی دعوت کرتاھےابوسفیان نے مسجدالحرام میں جاکر پکار کر کھا:”اے جمعیت قریش! محمد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمھاری طرف آیا ھے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نھیں ھے، اس کے بعد اس نے کھا: جو شخص میرے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میںھے،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ھے اور جو شخص اپنے گھر میں رہتے هوئے گھر کا دروازہ بندکرے وہ بھی امان میں ھے”۔اس کے بعد اس نے چیخ کر کھا: اے جمعیت قریش! اسلام قبول کرلو تا کہ سالم رهو اور بچ جاؤ، اس کی بیوی”ہندہ”نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کھا:اس بڈھے احمق کو قتل کردو۔ابوسفیان نے کھا: میری داڑھی چھوڑدے۔ خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تو بھی قتل هو جائے گی،جاکر گھر میں بیٹھ جا۔
علی علیہ السلام کے قدم دوش رسول پراس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر اسلام کے ساتھ روانہ هوئے اور “ذوی طوی”کے مقام تک پہنچ گئے،وھی بلند مقام جھاں سے مکہ کے مکانات صاف نظرآتے ھیں،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور هوکر مخفی طور پر مکہ سے باھر نکلے تھے، لیکن آج دیکھ رھے ھیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل هورھے ھیں،تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی او رسجدہ شکر بجا لائے،اس کے بعد پیغمبر اکرم “حجون” میں (مکہ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جھاں خدیجہ(ع) کی قبر ھے) اترے، غسل کر کے اسلحہ اور لباس جنگ پہن کر اپنی سوار ی پر سوار هوئے،سورہٴ فتح کی قرائت کرتے هوئے مسجدالحرام میں داخل هوئے اور آواز تکبیر بلند کی، لشکر اسلام نے بھی نعرہٴ تکبیر بلندکیا تو اس سے سارے دشت و کوہ گونج اٹھے۔ اس کے بعد آپ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لئے خانہ کعبہ کے قریب آئے، آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سرنگوںکرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:”جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً””حق آگیا اور باطل ہٹ گیا،اور باطل ھے ھی ہٹنے والا”۔کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جن تک پیغمبر کا ھاتھ نھیں پہنچتاتھا،آپ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حکم دیا وہ میرے دوش پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتوں کو زمین پر گرا کر توڑڈالیں، علی علیہ السلام نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔اس کے بعد آپ نے خانہٴ کعبہ کی کلید لے کر دروازہ کھولا اور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہٴ کعبہ کے اندر درودیوار پر بنی هوئی تھیں، محو کردیا۔ اس سریع اور شاندا رکامیابی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہٴ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ھاتھ ڈالا اور وھاں پر موجود اھل مکہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:”اب بتلاؤ تم کیا کہتے هو؟ اور تمھارا کیا خیال ھے کہ میںتمھارے بارے میں کیا حکم دوں گا؟ انهوں نے عرض کیا: ھم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سواراور کوئی توقع نھیںرکھتے!آپ ھمارے بزرگواربھائی اور ھمارے بزرگوار بھائی کے فرزند ھیں،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ھیں، ھیں بخش دیجئے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اورمکہ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “میں تمھارے بارے میں وھی بات کہتا هوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ آج تمھارے اوپر کسی قسم کی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں ھے، خدا تمھےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمین ھے”۔[92]اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کردیا اور فرمایا: “تم سب آزاد هو،جھاں چاهو جاسکتے هو”۔
آج کا دن روز رحمت ھےپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیاتھا کہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجھیں اور بالکل کوئی خون نہ بھایا جائے۔ ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا جو بہت ھی بد زبان اور خطرناک لوگ تھے۔یھاں تک کہ جب آپ نے یہ سنا کہ لشکر اسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ھے اور وہ یہ کہہ رھا ھے کہ:” آج انتقام کا دن ھے” تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا، “جلدی سے جاکر اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاؤ کہ:
” آج عفو وبخشش اور رحمت کا دن ھے”۔!اور اس طرح مکہ کسی خونریزی کے بغیر فتح هوگیا،عفوورحمت اسلام کی اس کشش نے،جس کی انھیں بالکل توقع نھیں تھی،دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ در گروہ آکر مسلمان هوگئے،اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی،اسلام کی شھرت ھر جگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ھر جہت سے دھاک بیٹھ گئی ۔جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہٴ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑے هوئے تھے تو آپ نے فرمایا:”خداکے سوا اور کوئی معبود نھیںھے،وہ یکتا اور یگانہ ھے،اس نے آخر کار اپنے وعدہ کو پورا کردیا، اور اپنے بندہ کی مددکی،اور اس نے خود اکیلے ھی تمام گروهوں کو شکست دےدی، ان لوگوں کا ھر مال ،ھر امتیاز ،اورھر وہ خون جس کاتعلق ماضی اور زمانہٴ جاھلیت سے ھے،سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ھیں”۔(یعنی زمانہٴ جاھلیت میں هوئے خون خرابہ کو بھول جاوٴ ،غارت شدہ اموال کی بات نہ کرو اور زمانہٴ جاھلیت کے تمام امتیازات کو ختم کر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں کو بند کر دیا جائے ۔)یہ ایک بہت ھی اھم اور عجیب قسم کی پیش نھاد تھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پُر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انھیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طور پر خالی تھی۔اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں بہت زیادہ مد دکی اور یہ ھمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستو رالعمل ھے۔
عورتوں کی بیعت کے شرائطپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہ صفا پر قیام فرمایا،او رمردوں سے بیعت لی،بعدہ مکہ کی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر هوئیں تووحی الٰھی نازل هوئی اور ان کی بیعت کی تفصیل بیان کی ۔روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کرتے هوئے فرماتا ھے :”اے پیغمبر !جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں او ران شرائط پر تجھ سے بیعت کرلیں کہ وہ کسی چیز کو خداکا شریک قرار نھیں دیں گی، چوری نھیں کریں گی ،زنا سے آلودہ نھیں هوںگی،اپنی اولاد کو قتل نھیں کریں گی،اپنے ھاتھوں اورپاؤں کے آگے کوئی افتراء اور بہتان نھیں باندھیں گی اور کسی شائستہ حکم میں تیری نافرمانی نھیں کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اوران کے لئے بخشش طلب کرو،بیشک خدا بخشنے ،والا اورمھربان ھے۔ “[93]اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بیعت لی۔بیعت کی کیفیت کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کاایک برتن لانے کا حکم دیا او راپنا ھاتھ پانی کے اس برتن میں رکھ دیا،عورتیں اپنے ھاتھ برتن کے دوسری طرف رکھ دیتی تھیں،جب کہ بعض نے کھا ھے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لباس کے اوپر سے بیعت لیتے تھے ۔
ابو سفیان کی بیوی ہندہ کی بیعت کا ماجرافتح مکہ کے واقعہ میں جن عورتوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوکر بیعت کی ان میں سے ایک ابو سفیان کی بیوی”ہندہ”تھی، یعنی وہ عورت جس کی طرف سے تاریخ اسلام بہت سے دردناک واقعات محفوظ رکھے هوئے ھے،ا ن میں سے ایک میدان احد میں حمزہ سید الشہداء (ع) کی شھادت کا واقعہ ھے کہ جس کی کیفیت بہت ھی غم انگیز ھے ۔اگرچہ آخرکاروہ مجبور هوگئی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے او رظاھراً مسلمان هو جائے لیکن اسکی بیعت کا ماجرا بتاتا ھے کہ وہ حقیقت میں اپنے سابقہ عقائد کی اسی طرح وفادار تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نھیں ھے کہ بنی امیہ کا خاندان اور ہندہ کی اولادنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کی سابقہ زمانہ میں کوئی نظیر نھیں ملتی ۔بھر حال مفسرین نے اس طرح لکھا ھے کہ ہند ہ نے اپنے چھرے پر نقاب ڈالا هوا تھا وہ پیغمبر کی خدمت میں اس وقت حاضر هوئی جب آپ کوہ صفا پر تشریف فرما تھے اور عورتوںکی ایک جماعت ہندہ کے ساتھ تھی، جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایاکہ میں تم عورتوںسے اس بات پر بیعت لتیا هوں کہ تم کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نھیں دو گی، تو ہندہ نے اعتراض کیا او رکھا:”آپ ھم سے ایسا عہد لے رھے ھیں جو آپ نے مردوں سے نھیں لیا ، (کیونکہ اس دن مردوں سے صرف ایمان اورجھاد پربیعت لی گئی تھی ۔)پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گفتگو کو جاری فرمایا:”کہ تم چوری بھی نھیں کرو گی،”ہند ہ نے کھا: ابو سفیان کنجوس اوربخیل آدمی ھے میں نے اس کے مال میں سے کچھ چیزیںلی ھیں، میں نھیں جانتی کہ وہ انھیں مجھ پر حلال کرے گا یا نھیں!ابو سفیان موجود تھا ،اس نے کھا: جو کچھ تو نے گذشتہ زمانہ میں میرے مال میںسے لے لیا ھے وہ سب میں نے حلال کیا ،(لیکن آئندہ کے لئے پابندی کرنا ۔)اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے اور ہندہ کو پہچان کر فرمایا:”کیا تو ہندہ ھے”؟ اس نے کھا :جی ھاں ،یا رسول اللہ !پچھلے امور کو بخش دیجئے خدا آپ کو بخشے “۔!!پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گفتگو کو جاری رکھا:”او رتم زنا سے آلودہ نھیں هوگی،”ہندہ نے تعجب کرتے هوئے کھا:”کیا آزاد عورت اس قسم کا عمل بھی انجام دیتی ھے؟”حاضرین میںسے بعض لوگ جو زمانہٴ جاھلیت میں اس کی حالت سے واقف تھے اس کی اس بات پر ہنس پڑے کیونکہ ہندہ کا سابقہ زمانہ کسی سے مخفی نھیں تھا۔پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے هوئے فرمایا:”اور تم اپنی اولاد کو قتل نھیں کروگی “۔ہند نے کھا:”ھم نے تو انھیں بچپن میں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے هوئے تو آپ نے انھیں قتل کردیا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ھیں”۔( اس کی مراد اس کا بیٹا “حنظلہ”تھا جو بدر کے دن علی علیہ السلام کے ھاتھوں ماراگیا تھا۔)پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اس بات پر تبسم فرمایا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمایا:”تم بہتان او رتھمت کو روا نھیں رکھوگی “۔تو ہندہ نے کھا:”بہتان قبیح ھے او رآپ ھمیں صلاح و درستی ،نیکی او رمکارم اخلاق کے سوا او رکسی چیز کی دعوت نھیں دیتے”۔جب آپ نے یہ فرمایا:”تم تمام اچھے کاموں میں میرے حکم کی اطاعت کروگی “۔تو ہندہ نے کھا:”ھم یھاں اس لئے نھیں بیٹھے ھیں کہ ھمارے دل میں آپ کی نافرمانی کاارادہ هو”۔(حالانکہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نھیں تھا، لیکن تعلیمات اسلامی کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کے پابند تھے کہ ان کے بیانات کو قبول کرلیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.