فتح خیبر
فتح خیبرجب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذی الحجہ اور ہجرت کے ساتویں سال کے محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں توقف کیا، اس کے بعد اپنے اصحاب میں سے ان ایک ہزار چار سوافراد کو جنهوں نے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ هوئے ،(جو اسلام کے برخلاف تحریکوں کا مرکز تھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مناسب فرصت کے لئے گن گن کردن گزار رھے تھے کہ اس مرکز فساد کو ختم کریں۔روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم “حدیبیہ” سے پلٹ رھے تھے توحکم خدا سے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ” فتح خیبر” کی بشارت دی ، اور تصریح فرمائی کہ اس جنگ میں صرف وھی شرکت کریں گے ، اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انھیں کے ساتھ مخصوص هوگا تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا ۔لیکن جو نھی ان ڈر پوک دنیا پرستوں نے قرائن سے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جنگ میں جو انھیں درپیش ھے یقینی طور پر کامیاب هوں گے اور سپاہ اسلام کو بہت سامال غنیمت ھاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے هوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاھی اور شاید اس عذر کو بھی ساتھ لیا کہ ھم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنے ، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ھلکا کرنے ، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام وقرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لئے یہ چاہتے ھیں کہ ھم میدان جھاد میں آپ کے ساتھ شرکت کریں ، وہ اس بات سے غافل تھے کہ وحی الٰھی پھلے ھی نازل هوچکی تھیں اور ان کے راز کو فاش کرچکی تھیں، جیسا کہ قرآن میں بیان هوا ھے ۔” جس وقت تم کچھ غنیمت حاصل کرنے کے لئے چلو گے تو اس وقت پیچھے رہ جانے والے کھیں گے : ھمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیں اور اس جھاد میں شرکت کرنے کا شرف بخشیں “۔[88]بھرحال قرآن اس منفعت اور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتا ھے :”وہ یہ چاہتے ھیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں “۔ [89]اس کے بعد مزید کہتا ھے :”ان سے کہہ و : تم ھرگز ھمارے پیچھے نہ آنا” تمھیں اس میدان میں شرکت کرنے کا حق نھیں ھے ،یہ کوئی ایسی بات نھیں ھے جو میں اپنی طرف سے کہہ رھاهوں ” یہ تو وہ بات ھے جو خدا نے پھلے سے ھی کہہ دی ھے ” ۔[90] اور ھمیں تمھارے مستقبل (کے بارے میں ) باخبر کردیا ھے ۔خدا نے حکم دیا ھے کہ ” غنائم خیبر”،”اھل حدیبیہ ” کے لئے مخصوص ھیں اور اس چیز میں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے ، لیکن یہ بے شرم اور پرا دعا پیچھے رہ جانے والے پھر بھی میدان سے نھیں ہٹتے اور تمھیں حسد کے ساتھ متھم کرتے ، اور عنقریب وہ یہ کھیں گے : کہ معاملہ اس طرح نھیں ھے بلکہ تم ھم سے حسد کررھے هو ۔[91]اور اس طرح وہ ضمنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب بھی کرتے تھے یھی لوگ”جنگ خیبر”میں انھیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کو شمار کرتے ھیں۔
دعائے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم”غطفان”کے قبیلہ نے شروع میں تو خیبر کے یهودیوں کی حمایت کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن بعد میں ڈرگئے اور اس سے رک گئے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت”خیبر” کے قلعوں کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو رکنے کا حکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیا اور یہ دعا پڑھی:”خداوندا ! اے آسمانوں کے پروردگار اور جن پر انھوں نے سایہ ڈالا ھے، اور اے زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھارکھا ھے میں تجھ سے اس آبادی اور اس کے اھل میں جو خیر ھے اس کا طلب گارهوں، اور تجھ سے اس کے شراور اس میں رہنے والوں کے شر اور جو کچھ اس میں ھے اس شرسے پناہ مانگتاهوں” ۔اس کے بعد فرمایا:” بسم اللہ “آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات کے وقت “خیبر” کے پاس جاپہنچے‘ اور صبح کے وقت جب ا”ھل خیبر” اس ماجرا سے باخبر هوئے تو خود کو لشکر اسلام کے محاصرہ میں دیکھا، اس کے بعد پیغمبر نے یکے بعد دیگرے ان قلعوں کو فتح کیا،یھاں تک کہ آخری قلعہ تک ، جو سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشهور یهودی کمانڈر”مرحب” اس میں رہتا تھا، پہنچ گئے ۔انھیں دنوں میں ایک سخت قسم کا دردسر، جو کبھی کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عارض هوا کرتا تھا، آپ کو عارض هوگیا ، اس طرح سے کہ ایک دو دن آپ اپنے خیمہ سے باھر نہ آسکے تو اس موقع پر (مشهور اسلامی تواریخ کے مطابق ) حضرت ابوبکر، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر یهودیوں کے لشکر پر حملہ آور هوئے ، لیکن کوئی نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آئے دوسری دفعہ ” حضرت عمر” نے علم اٹھایا، اور مسلمان پھلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑے،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے ۔
فاتح خیبر علی علیہ السلامیہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:”خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ھے، اور خدا اور پیغمبر اس کو دوست رکھتے ھیں ،اور وہ اس سے قلعہ کو طاقت کے زورسے فتح کرے گا “۔ ھرطرف سے گردنیں اٹھنے لیگیں کہ اس سے مرادکون شخص ھے؟ کچھ لوگوں کا اندازہ تھا کہ پیغمبر کی مراد علی علیہ السلام ھیںلیکن علی علیہ السلام ابھی وھاں موجود نھیں تھے،کیونکہ شدید آشوب چشم انھیں لشکر میں حاضر هونے سے مانع تھا، لیکن صبح کے وقت علی علیہ السلام اونٹ پر سوار هوکر وارد هوئے، اور پیغمبر اکرم کے خیمہ کے پاس اترے درحالیکہ آپ کی آنکھیں شدت کے ساتھ درد کررھی تھیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :میرے نزدیک آؤ،آپ قریب گئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دہن مبارک کا لعاب علی علیہ السلام کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک هوگئیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم ان کے ھاتھ میں دیا۔علی علیہ السلام لشکر اسلام کو ساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑھے تو یهودیوں میں سے ایک شخص نے قلعہ کے اوپر سے پوچھا کہ آپ کون ھیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں علی بن ابی طالب” هوں، اس یهودی نے پکار کر کھا : اے یهودیو! اب تمھاری شکست کا وقت آن پہنچا ھے ، اس وقت اس قلعہ کا کمانڈر مرحب یهودی ، علی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے نکلا، اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ھی کاری ضرب سے زمین پر گرپڑا ۔مسلمانوں اور یهودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع هوگئی، علی علیہ السلام قلعہ کے دروازے کے قریب آئے ، اور ایک قوی اورپُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کو اکھاڑا اور ایک طرف پھینک دیا، اور اس زور سے قلعہ کھل گیا اور مسلمان اس میں داخل هوگئے اور اسے فتح کرلیا ،یهودیوں نے اطاعت قبول کرلی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ھاتھ آئے اور وھاں کی زمینیں اور باغات آپ نے یهودیوں کو اس شرط کے ساتھ سپرد کردئیے کہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے ۔آخرکار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواریخ کی نقل کے مطابق غنائم خیبرصرف اھل حدیبیہ پر تقسیم کئے، یھاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگ خیبر میں شریک نہ هوسکے ان کے لئے بھی ایک حصہ قراردیا ، البتہ ایسا آدمی صرف ایک ھی تھا، اور وہ ” جابربن عبداللہ ۻ تھا ۔
[88] سورہ فتح آیت ۱۵۔[89] سورہ فتح آیت ۱۵۔[90] سورہ فتح آیت ۱۵۔[91] سورہ فتح آیت ۔