میلادِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ربیع الاوّل نبی برحق ختم رسل حبیب کبریا محمد مصطفیؐ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے پوری بشریت کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں آپؐ کو رحمۃ للعالمین اور نذیر للعالمین قرار دیا ہے۔ آپؐ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا پیغام لے کر آئے۔ آپؐ اللہ رب العزت کی طرف سے مخبرِ صادق بن کر آئے۔ آنحضرت ؐ کی زندگی کو اللہ تعالٰی نے اُسوۂ حسنہ قرار دیا۔ آپؐ انسانیت کی بلند ترین چوٹی پر جلوہ فرما ہیں۔ اسی لیے آپؐ ہی صاحبِ معراج قرار پائے۔ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب آخری اور محفوظ ترین آسمانی کتاب قرار پائی۔ قرآن حکیم آپؐ کا جامع وکامل اور دائمی معجزہ بن کر آج بھی موجود ہے۔ دنیا میں موجود دیگر مقدس کتابوں میں بھی اگرچہ دانائی اور بصیرت کی بہت سی باتیں ابھی تک موجود ہیں، لیکن ان کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ نے انھیں اضطراب آشنا کر رکھا ہے۔
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تورات و انجیل آج اپنے اصل متن کے ساتھ موجود نہیں۔ یہی حال ویدوں اور دیگر مقدس کتابوں کا ہے۔ تاہم یہ امر خوش آئندہے کہ قرآن اپنی اصل زبان اور متن کے ساتھ آج تک محفوظ اور موجود ہے اور اس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس میں ماقبل نازل ہونے والی کتابوں کی تعلیمات موجود ہیں اور وہ کچھ مزید معارف کا بھی حامل ہے۔ قرآن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس میں انسان کی ضرورت کی ہر’مثل‘‘ موجود ہے۔ مزید برآں اس میں رسول اسلامؐ کی زندگی کے اہم واقعات اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے اہم گوشے صراحت سے موجود ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن کا خطاب اور پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن سارے انسانوں کے لیے ایک مقدس ترین اور محفوظ ترین الٰہی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی زندگی اور تاریخ کے اہم پہلو جس انداز سے محفوظ اور واضح ہیں انسانیت کی دیگر عظیم شخصیتوں کی تاریخ اس طرح سے واضح اور محفوظ نہیں ہے، اگرچہ قرآن حکیم نے خود بھی رسول اسلام ؐ سے ماقبل کی تاریخ کا ایک حصہ درس و عبرت لیے بیان کر دیا ہے۔
رسول اسلامؐ کی ابتدائی زندگی، خاندانی پس منظر، گھریلو زندگی، جدوجہد، انتہائی مشکلات کا زمانہ، ہجرت، جنگیں، دیگر اقوام سے معاہدے، عالمی دعوت، انفرادی اور اجتماعی اخلاق، سیاسی و معاشی تعلیمات کے اصول۔ غرض آپؐ کی زندگی کے تمام گوشے اور آپ ؐکی رسالت کے تمام پہلو آج بھی روز روشن کی طرح مبرہن ہیں۔ آپؐ کی زندگی اور سیرت پر جتنا تحریری کام موجود ہے، دنیا کے کسی اور بشر پر موجود نہیں ہے۔ آپؐ کی تعلیمات میں فطری سادگی ہے۔ یہی سادگی اور حسن آپؐ کی سیرت میں جلوہ گر ہے۔ آپ ؐکی تعلیمات کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایک نو عمر مسلمان بچے سے بھی ان کے بارے میں پوچھا جائے تو نہ فقط وہ اس کی بنیادی باتوں سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ انھیں آسانی سے بیان بھی کرسکتا ہے۔ مثلاً توحید پرستی، آخرت پر ایمان، نیک لوگوں کا نیک انجام اور بروں کا برا انجام، ہمسائے کے دکھ سکھ میں شرکت، کمزور اور مظلوم کی مدد، غریب و محروم انسانوں کی دست گیری، سچائی، پاکبازی، حسن ظن، غیبت سے اجتناب، کوشش اور سعی کی اہمیت، خالص اللہ کی عبادت، تمام کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا، امربالمعروف، نہی عن المنکر، ظالم سے نفرت، انسانی مساوات وغیرہ۔
ویسے بھی یہ تعلیمات اپنی دلآویز صداقت کی وجہ سے ایسی قوت رکھتی ہیں کہ تعصب کے پردے حائل نہ ہوں تو کسی صاف دل انسان کو ان کے سامنے سرجھکانے میں باک نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ کو اعلانِ رسالت کے بعد کی اپنی مختصر زندگی میں جتنی بڑی اور عظیم الشان کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپؐ نے انسانیت کو ایک ہمہ گیر عالمی انسانی تہذیب کا تحفہ دیا۔ دنیا میں پہلے سے موجود کھوکھلی تہذیبیں بہت جلد اسلامی تہذیب کی قوت کے سامنے ڈھیر ہوگئیں اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اسلام معلوم دنیا کا سب سے بڑا اور موثر ترین دین بن کر اُبھرا۔
آپؐنے اپنی دعوت کی بنیاد عقل و خرد پر رکھی۔ آپؐ نے ہر نظریئے اور عقیدے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی دعوت دی۔ آپؐ جو کتاب لائے اس نے انسانوں کو جھنجھوڑ کر کہا کہ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے، تم تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ اس نے عقل انسانی کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کیا علم والے اور بے علم آپس میں برابر ہیں۔؟ کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا بھی کچھ ہے۔؟ کیا آنکھوں والے نابیناؤں کی طرح ہیں؟ اس نے جواب انسانی فطرت پر چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ اسے اپنے پیغام کی صداقت پر یقین تھا۔
آپؐ کو اپنوں اور پرایوں نے سچا کہا، آپ ؐ کے پاس دشمنوں نے بھی اپنی امانتوں کو محفوظ جانا، آپ ؐ نے خون کے پیاسوں کے ساتھ عہد نبھائے، آپؐ نے جنگوں میں بھی انسانی اقدار کی پاسداری کی، آپؐ نے قانونی مساوات کا ایسا اہتمام کیا کہ واشگاف اعلان کر دیا کہ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؑ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ آپؐ نے وراثت کا حصہ بن جانے والی عورت کو شریک ورثہ کر دیا، آپؐ نے مسجد نبوی میں غیر مسلموں کو عبادت کرنے کی خوش دلی سے اجازت دی، آپؐ نے عورت اور بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کو باطل قرار دے دیا، آپؐ نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا اور غلام آزاد کرنے کے عمل کو اللہ کی عبادت قرار دے دیا اور آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے جوتوں کو سیا اور پیوند لگا لباس پہنا۔
تاریخ کا حسین اتفاق ہے کہ 17 ربیع الاول نبی پاکؐ کے ایک فرزند امام جعفرؑ ابنِ محمدؑ کا بھی روز ولادت ہے، جنھیں اپنے جدّ بزرگوار کی طرح ‘صادق‘‘ قرار دیا گیا۔ وہ تاریخ کے اس موڑ پر جلوہ افروز ہوئے جب علم کلام نئے سانچے میں ڈھل رہا تھا، مشرق و مغرب کے قدیم فلسفوں کی بازگشت مسجد نبوی تک آپہنچی تھی، حدیث کے بیان کی گرم بازاری تھی، اصول فقہ اور علم فقہ کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں، دنیا بھر سے مختلف مذاہب و افکار کے حامل اپنے نظریات بیان کر رہے تھے، جدید ایجادات منصہ شہود پر آنے کو بے قرار تھیں، الحاد و زندقہ کے نظریات کا شہرہ تھا اور ہند و یونان کے قدیم فلسفے، طب، ریاضی اور ہیئت کی کتب کے تراجم ہو رہے تھے۔ ایسے میں اسلام کو ایک ایسے رہبر صادق کی ضرورت تھی جو دلیل و برہان سے لیس ہو، عصری زبان میں اسلام کی ترجمانی کرسکتا ہو، حدیث نبوی کی صداقت کے لیے مرجع بننے کی اہلیت رکھتا ہو، علم کلام کو اس کی صحیح نہج پر رکھ سکتا ہو، انسانیت کو وہم و انحراف سے بچا سکتا ہو، ہر رائج علم کے عالم کے سامنے اسلامی تعلیمات کی صداقت منوا سکتا ہو اور جس کی علمی عظمت کے سامنے علمائے اسلام اعتماد اور خوشی سے سرجھکا سکتے ہوں۔
اللہ تعالٰی نے رسول اسلامؐ کی اولاد میں سے امام جعفر صادقؑ کو یہی حیثیت عطا کی۔ امام ابوحنیفہ نے ان کے دسترخوان علم سے خوشہ چینی کی، اسلامی تعلیمات اور احکام و روایات پر مبنی سو کتابیں اُن کے شاگردوں نے مرتب کیں، بابائے کیمیا جابر ابن حیان نے ان کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا، تمام علم کے ماہرین نے ان سے گفتگو کی اور ان کی عظمت علمی اور صداقتِ قول کا اعتراف کیا۔ آج بھی دنیا کے فلسفی، سائنسدان، علمائے اصول و فقہ، حدیث شناس اور ماہرین معیشت و معاشرت امام صادقؑ سے مسلسل کسبِ فیض کر رہے ہیں۔ امام صادقؑ نے تاریخ کے ایک نہایت حساس موڑ پر دین اسلام کی حفاظت کا فریضہ بیک وقت چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کا مکتب قائم کرکے بحسن و خوبی ادا کیا۔ ان پر ان کے اجداد کرام اور اولادِ اطہار پر ہمارا لاکھوں درود و سلام ہو۔
یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے اور دل فگار بھی کہ رسول اکرمؐ اور ان کے دین کے نام لیوا آج دنیا میں پس ماندگی، عقب نشینی اور نکبت و خواری کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، البتہ کسی کو اس سے انکار نہیں کہ یہ سب کچھ رسول اسلامؐ کی تعلیمات سے انحراف اور آپؐ کے اسوہ سے غمض نظر کا نتیجہ ہے۔ عزت و سربلندی یہ کہہ کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے کہ بمصطفیٰؐ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوستاگر باو نرسیدی تمام بولہبی ست