بوہری اور آغا خانیوں میں فرق

680

بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ کیا ہے اور کیا بوہری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟
بوہری اور آغاخانی میں فرق جانے سے پہلے ان کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے درحقیقت دونوں کی اصل ایک ہے اور دونوں عقیدے کے لحاظ سے شش امامی ہیں پھر فرق کیا ہے اس بارے میں جانے کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ کیا ہے اور کیا بوہری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟
ابنا: امام جعفر صادق(ع) کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق(ع) کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق(ع) کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق(ع) کی زندگی میں ہی ہو گئی، امام صادق(ع) بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ہی وہ امام سمجھتے ہیں، چنانچہ امام(ع) نے اسماعیل کی وفات کے بعد ان کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی تاکہ کوئی اسماعیل کی وفات سے انکار نہ کر سکے۔ جب امام صادق(ع) کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم(ع) کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، لہذا اس گروہ نے ان کے بیٹے کو امام مان لیا اسی وجہ سے یہ لوگ اسماعیلی کہلائے۔کچھ لوگوں نے امام صادق(ع) کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کہلائے۔ جن لوگوں نے امام جعفر صادق(ع) کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔ ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور وہاں قزوین نامی شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انہوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ہوا اور ان کی فدائین کی تحریک بہت کامیاب ہوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام “حسن علی ذکرہ السّلام” آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی، کہا جاتا ہے کہ 19 یا 21 رمضان تھی جب اس امام نے ظاہری شریعت ہٹائی تھی، انہوں نے اپنے امام کے حکم پر اپنے روزے توڑے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے شراب سے افطار کیا۔کیونکہ ان کے امام نے یہی حکم دیا تھا کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، اپنے باطن کی تربیت کرو یہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رہے، ان کے امام کو “آغا خان” کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب “محلاّت” نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی جہاں آغاخان مکمّل داخلی خودمختاری کے ساتھ حکومتت کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے اس امام کو “آغا خان محلاّتی” بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ہوئی تو بھاگ کر ہندوستان میں پہلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ہوا۔ انگریزوں نے ان کو “سر” کا خطاب دیا اور بہت عزّت و تکریم کی۔ ان کی وفات ہندوستان میں ہی ہوئی اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے کو ملی جو تحریک پاکستان کے ابتدائی رہنماؤں میں سے رہی ہے۔صدرالدّین آغا خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کی موجودگی میں ہی انہوں نے اپنے پوتے “پرنس کریم” کو جانشین بنایا جن کی والدہ یورپی تھیں اور مغربی بودو باش رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسماعیلیوں کی امامت کا مرکز “محلاّت، کرمان” سے نکل کر “بمبئی ہندوستان” آیا اور وہاں سے اب مغرب منقتل ہو گیا۔ دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔ ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں داعیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔ آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛ 1) داؤدی بوہرہ اور 2) سلیمانی بوہرہ۔ ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔ البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔ بوہری اب بھی جوق در جوق کربلا اور نجف زیارت کے لئے جاتے ہیں اور شیعہ مراکز کے دروازے بوہریوں کے لئے کھلے ہیں۔ دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ “حلول” کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ “یاعلی مدد” کہتے ہیں تو ان کی مراد ہماری طرح مولا علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔ آغا خانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ “معاد جسمانی” کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جہنّم کا کوئی ظاہری وجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے۔ “معاد جسمانی” ہماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نہیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.