دینی نظام میں قوانین کامقام
1-اسلام کے سیاسی نظریہ کے اصولاس بات کا خیال رھے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ اور فلسفہ کی بحث سے متعلق اصول موجود ھیں ،بعض افراد ان سب کو قبول کرتے ھیں اور کچھ لوگ صرف بعض کو قبول کرتے ھیں اور چند ایسے بھی ھیں جو ان میں سے کسی کو قبول نھیں کرتے ھیں ، لیکن اس نظریہ کو ثابت اور بیان کرنے کے لئے ضروری ھے کہ اس کے اصول کوبیان کیا جائے اور اس اعتبار سے کہ ان میں سے کچھ اصول بھت واضح ھیں لھٰذا صرف اس کے اشارہ اور مختصر توضیح پر اکتفا کی جائے گی ،اور واضح بحثوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے گاکیونکہ واضح اور روشن بحثوں کو کسی بھی علم میں بیان نھیں کیا جاتا ،اور زیادہ تر اصولی بحث کی جائے گی تاکہ بحث کے لئے راہ ھموار ھوسکے –
الف-قانونھماری بحث کے عناوین اور اصول میں بیان ھوا ھے کہ معاشرہ ،قانون کا محتاج ھے جیساکہ یہ بات بیان کی جاچکی ھے ، اسلام کے سیاسی نظریہ کی دوسری اصل یہ ھے کہ قانون کو خدا کی طرف سے ھو نا چاھیئے اور جیسا کہ یہ بات بھی بیان کی جا چکی ھے کہ اس کا نفاذبھی خداھی کی طرف سے ھونا چاھئے ، قانون الھٰی سے مراد یہ ھے کہ یا خود خدا نے قانون بنایا ھو اور اس کو قرآن میںنازل کیا ھو یا پیغمبر اکرم اور معصوم (ء)اماموںکو قانون بنانے کی اجازت ملی ھو،تاکہ مختلف حالات میںاسی کے اعتبار سے قانون بنائیں، اسی بنا پر قانون کی تین قسمیں ھیں:1-وہ قانون جس کو خدا نے بنایا ھے اور پیغمبر اور امام (ء)اس کے بنانے میں شریک نھیں ھیں -2-وہ قانون جس کو معصوم (ء)نے خدا کی اجازت سے بنایا ھے -3-وہ متغیر قوانین جن کو کچھ افراد معصوم (ء)کی اجازت سے بناتے ھیں، یہ قوانین اسلامی معاشرے کے لئے معتبر قرار دئے گئے ھیں ،اس لئے کہ آخر کا ر ان کی بازگشت حکم خدااور اس کی اجازت کی طرف ھوتی ھے ،اس بنا پر خداوند عالم خود قانون کو بناتاھے اور خدا کے قوانین قرآن میں ذکر ھوئے ھیں لیکن قانون کا نافذکرنے والا خدانھیں ھے قانون کا نافذکرنے والا یسا شخص ھونا چاھیئے جو معاشر ے میں موجودھواور لوگ اس کو دیکھتے ھوں،وہ لوگوںکو امر و نھی کرے اور قوانین کو نافذکرے ،پھلے مرتبہ میں پیغمبر اور امام معصوم (ء)ھیں اوردوسرے مرتبہ میں وہ افراد ھیں جن کو پیغمبریاامام معصوم (ء)کی طرف سے نفاذِقانون کی اجازت ملی ھو ،اس بناپر کچھ حضرات پیغمبراکرم یاامام معصوم (ء)کے زمانے میں اسلامی علاقوں اور صوبوںکے والی اور کارندہ کے عنوان سے اجرا ء قوانین کے لئے بھیجے جاتے تھے اور غیبت امام (ء)میں اس کام کے ذمہ د ار فقھاء اور مراجع کرام ھیں جوبطور عام نصب ھو ئے ھیں ،اور قوانین کے اجراء کے ذمہ دارھیں -اب تک جو کچھ بیان ھو ااس حکومت کے کلیات تھے کہ جس کے دو حصہ تھے قانون گذاری اور قوانین کا نفاز، اور جیسا کہ عدالت کا محکمہ در حقیقت اجرائی محکمہ کا ایک جزھے ، انشائا،،،ھم اس کی اھمیت کی خاطر الگ سے بحث کریں گے-
2-طبعی اور بنائے گئے قوانین کی اھیمتیہ بات بیان جاچکی ھے کہ ھماری بحث کے اصول اورمسلمات میںسے ایک اصل یہ ھے کہ معاشرہ کیلئے قانون کاھونا ضروری ھے،اور دوسری اصل یہ ھے کہ ھماری نظر میں ایسا قانون معتبر ھے جس کا بنانے والا بلاواسطہ یابالواسطہ خداھو،اس نظریہ کے مقابلہ میں ایسے بھی لوگ ھیں جنھوں نے یہ کھا ھے کہ معاشرہ قانون کا نیازمند نھیں ھے خواہ وہ قانون خدا بنائے، خواہ دوسرے افراد، البتہ اس موجودہ دور میں اس نظریہ کے طرفدار موجود نھیں ھیں،کیو نکہ جن حالات میں ھم زندگی بسر کرھے ھیں سب قانون کی ضرورت کا احساس کرتے ھیں اور کوئی بھی ایسا نھیں ھے جومعاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت کامنکر ھو،اس دور میں یھاں تک کہ ایک مختصر سے دیھات کے رھنے والے بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ھیں کہ ایسے قوانین اور دستورات ھونے چاھئیں کہ جنکی وہ پیروی کریں-لیکن گذشتہ زمانے میں زندگی بسرکرنے کا طر یقہ بھت سا دہ تھا کچھ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ھمیں قوانین بنانے کی ضرورت کوئی ضرورت نھیںھے ،ان کی نگاہ میں عقل خود بخودفطری قوانین کو پھچان کرایک طرح کے فطری قوانین سے ٓاگاہ ھوجاتی ھے اور پھر اسے اس کی ضرورت نھیںرھتی کہ کوئی قانون بنائے گویا قدیم زمانہ میںفطری حقوق اور فطری قوانین کانظریہ انسانی معاشرہ میں اس شکل میںبیان ھواکہ جب لوگ یہ کھا کرتے تھے کہ کس قانون پر عمل کریں ؟ تو جواب دیا جاتا تھا کہ اپنے اندر نگاہ کر و یا اس دنیا پر نظر ڈالو تاکہ تمھیں پتہ چلے کہ کون سا حکم اور قانون وھاںپر حکم فرما ھے وھی قانون اپنے معاشرے میں نافذھو گا -جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایایھاں تک کہ فطری قانون کے نظریہ کی بناپر بھی قانون کی ضرورت ایک مسلم بات ھے اور یقینی طور پر اس طولانی تاریخ میں ایسے مفکرین کا وجود نھیں ملتا جو یہ دعوی ٰکریں کہ انسان کسی طرح کے قانون کا یھاں تک کہ قانون فطری کا بھی محتاج نھیں ھے اور اس سلسلے فلسفی حضرات کے یھاں جو بھی بحث پائی جاتی ھیں وہ اس بنا پر رھی ھیں کہ کیا قوانین عقلی ، فطری اور قوانین الھٰی سے مراد وھی قوانین ھیں جن کو تمام انسان اپنی عقل سے درک کرتے ھیں اور وھی معاشرے کے لئے کافی ھیں یا خاص طور پرجو قوانین بنائے گئے ھیں اس کے بھی ھم محتاج ھیں،اور جیسا کہ ھم یہ بیان کرچکے ھیں کہ اگر گذشتہ زمانہ میںفطری قوانین یا عقلی قوانین یا مستقلات عقلیہ اپنی مختلف تفسیروں اور تعبیروں کے ساتھ کہ جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نھیں ھے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ھیں ،تو بغیر کسی شک وتردیدکے ،ھمارے زمانے کے حالات کے پیش نظریہ فریضہ قابل قبول نھیں ھے ،یھاں تک کہ بیان وتوضیح کے لائق بھی نھیں ھے-آج ھر فرد اپنے گردو پیش مشاھدہ کرنے سے یہ سمجہ جاتا ھے کہ ھر روز اپنے دقیق اندرونی ،بیرونی اور بین الاقوامی روابط میں سیکڑوں اجتماعی اور بین الاقوامی قوانین کا نیازمند ھے انھیں میں سے ایک معاشرھی اور اندرونی ملک کے قوانین اور دستورات میں ٹریفک اور ٹریفک سے متعلق قوانین ھیں -یہ حقیقت ھے کہ اگر اس زمانے میں قانون نہ ھوں تو ھر شھر اور علاقہ کے ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا نظام کیا ھوگا ؟ اگر گاڑیوں کی رفتار ، اور انکے چلنے کی سمت(دائیں سمت چلیں یا بائیں سمت )یا ٹریفک کے دوسرے قوانین نہ بنائے جائیں تو کتنے حادثات رونما ھوں گے؟ دنیا کے کس علاقہ میں ایسا گروہ مل سکتا ھے جو بغیرقانون کے ایک ساتھ ایک جگہ پر زندگی گزارتے ھوں ،اور ان کے درمیان خطرات اور حادثات رونمانہ ھوتے ھوں ،یہ بات صحیح ھے کہ تمام ممالک میں ٹریفک کا قانون ایک جیسا نھیں ھواکرتا ھے مثال کے طور پر کچھ ممالک جیسے انگلینڈ،جاپان وغیرہ میں گاڑیاں بائیں سمت سے چلتی ھیں اور کچھ ممالک میں (جن میں سے ایک ایران بھی ھے)گاڑیاں دائیں سمت چلتی ھیں ، بھر حال قانون بنایا جاتا ھے ،اور انسان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ رھتا ھے وہ یہ جانتا ھے کہ کس سمت حرکت کرناچائیے،مذکور ہ مثال معاشرہ میں قانون کی ضرورت کا ایک نمونہ ھے، اور بے شک یہ ضرورت دوسرے مسائل از جملہ خاندانی اور بین الاقوامی حقوق میں بھی پڑتی ھے اور اس کا احساس ھو تاھے-بین الاقوامی قانون بنانے کی ضرورت کا ایک نمونہ د ریائے خزر سے متعلق مسائل ھیں جواب بھی اس کے حاشیہ نشین ممالک کے درمیان اس سے بھرہ مندھونے کے طریقہ میںاختلاف نظر آتا ھے ،فطری طور پر یہ قبول نھیں کیا جا سکتا کہ ھر شخص جس طرح سے چاھے دریا کے نیچے موجود تیل اور منابع اور دوسری ذخائر سے فائدہ اٹھائے اور تیل ،گیس اور دوسری چیزوں کے نکالنے میں کوئی قانون نہ ھو ،بلکہ ایسے قوانین بنائے جانے چاھئےں جو یہ معین کرےں کہ فلاں ملک کس حد تک دریاء کی گھرائی، موجود ہ ذخائر سے فائدہ اٹھا سکتا ھے ،جو مشکلات اس وقت پڑوسی ممالک کے لئے کھڑی ھیں وہ اس وجہ ھے سے ھیں کہ کوئی معین قانون موجود نھیں ھے ،اور سب دریا کے ذخائر کے بارے میں ایک عادلانہ تقسیم کے لئے قوانین اور دستورات کی ضرورت کا احساس کرتے میں لھٰذابشر کی ضرورت کے پیش نظر قوانین و دستورات کی ضرورت پڑ تی ھے،اور جیسا کہ کمیٹیاں اور موافقت نامہ اور دریا اور ساحل سے متعلق قوانین ( فضاء،کنویں وغیرہ )چند صدی قبل موجود نھیں تھے ،کیونکہ بشر کو اس کی ضرورت نھیں تھی ، پھر افراد ،گروھوں ،قوموں اور ملکوں کے درمیان ٹکراوٴ اور اختلاف کی وجہ سے اس طرح کے قوانین کی ضرورت محسوس ھوئی-اس بات کو پیش ِنظر رکھتے ھوئے کہ قانون ھر شخص اور معاشرہ کے دائرئہ حقوق کو معین کرتاھے ،قرآن مجید اس اصول کی طرف کہ معاشرھی زندگی قانون کی محتاج ھے خاص توجہ دلائی ھے ،البتہ شایانِ ذکر ھے کہ قانون کا وجود عام طور پرسماجی زندگی سے مخصوص ھے بلکہ اگر ایک فرد بھی زندگی گذارنا چاھتا ھے تو وہ کمال تک پھونچنے میں قانون کا محتاج ھے، البتہ فردی زندگی کے لئے اخلاقی قوانین ،کا فی ھو تے ھیں لیکن جس وقت اجتماعی مسائل میںلوگوں کے حقوق میںٹکراؤپیداھوجاتاھے تو نتیجہ میں اختلافات وجود میں آتے ھیں اورکبھی کبھی دیکھنے میں آتاھے کہ اگر کسی نے حد سے زیادہ نھر کے پانی سے فائدہ اٹھالیاتو آپس میں لڑائی جھگڑے ھوجاتے ھیں ا ور ایسی صورت میں اجتماعی قوانین بنانے کی ضرورت واضح ھوجاتی ھے-لھٰذا،یہ بات بالکل واضح اور روشن ھے کہ معاشرہ قانون کا محتاج ھے ، اور ھر عقل مند انسان یہ جانتاھے کہ بغیر قانون کے اجتماعی زندگی،انسان کا آرام وسکون اوراس سے بڑہ کر معنوی سعادت خطرے میں پڑجاتی ھے ،جو مثالیں ھم نے عرض کی ھیں ان سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اس طرح کے مقامات کے لئے کافی نھیں ھےں، اور ھم قوانین کے محتاج ھیں اس لئے کہ عقل ،عدل وانصاف کا حکم دیتی ھے ، لیکن ایسی حکمت عملی اپنانے کے لئے جو عدل وانصاف قائم کرے ایک دوسرے قانون کے محتاج ھیں مثال کے طور پر عقل یہ حکم دیتی ھے کہ دریائے خزرکے ذخائر کو پڑوسی ممالک میں عادلانہ طور پر تقسیم ھونا چاھیئے ، تواس وقت یہ مسئلہ پیش آئے گاکہ عادلانہ تقسیم کسے کھتے ھیں ؟کیا عادلانہ تقسیم اس کو کھتے ھیں کہ جس ملک کا رقبہ زیادہ ھو وہ ذخائر سے زیادہ فائدہ اٹھائے ،یا جس ملک کے پاس دریا کا ساحلی حصہ زیادہ ھو یا ساحل نشین کی تعدادزیادہ ھو وہ دریا سے زیادہ فائدہ اٹھائے -قانون سازکے مرکزکو اس طرح کے سوالات کا جواب دینا چاھیئے ،اسکے علاوہ دوسرے تمام مقامات کے لئے بھی قانون سازکا ھو نا ضروری ھے ،دیکھنایہ ھے کہ قانو ن ساز کون ھو؟
ب -قوانین کا مرضی الھٰی اوردین کے مطابق ھونا ضروری ھےاسلام کا دعویٰ ھے کہ قوانین کو خدانے بنایا اور پیغمبر اکرم کے ذریعہ لوگوں پر نازل کیاھے لھٰذا پھلی اصل کو قبول کرنے کے بعد قانون کی ضرورت ھے دوسری اصل یہ ھے کہ دین کو قانون ساز کے مرکز کے عنوان سے قبول کریں ،اس مرحلہ میں اسلامی حکومت میں ایسے لوگوں کا ھونا ممکن ھے جودین کو نہ مانتے ھوں چہ جائیکہ ایک شخص غیر اسلامی حکومت میں دین کو قبول کرتا ھو ،اگر کوئی یہ کھے کہ مجھے خداکے وجود میں شک ھے لھٰذامیں دین اور اس کے قوانین کو قبول نھیں کرتا ھوں تو پھلے مرحلہ میں آپ اس کے لئے یہ نھیںثابت کرسکتے کہ قانون خداکو بنانا چاھیئے ،اور بنیادی طور پر جو شخص خدا کو نھیں مانتا ھے وہ قانون الھٰی کو بھی نھیں مانتا ھے ، پھلے فلسفی اور کلامی بحثوں سے خداکے وجود کو ثابت کرنا ھوگا، پھر کلامی اعتبار سے یہ بات ثابت کرنی ھوگی کہ پیغمبراور دین کا بھی وجود ھے -بعد کے مراحل میں یہ بات بیان کی جائے گی کہ وہ قانون معتبر ھے جس کو خدا نے خود بنایا ھو یا خدا کے کسی وسیلہ کے ذریعہ بناھو ،اس سے پھلے ھم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ممکن ھے کوئی خدا، دین اور نبوت کو قبول کرتا ھو لیکن وہ اس بات کا معتقد نہ ھو کہ سماجی قانون خداکو بناناچاھیئے ،اس کی نظر میںانسان کو خدا کی حمددوثنا، عبادت اور اس سے رازنیاز کرنا چاھیئے مسجدوں اور عبادتگاھوںمیں آمد ورفت رکھنا چاھیئے، لیکن انسان کی سماجی زندگی خداسے متعلق نھیں کہ جس کے لئے خداقانون بنائے ،اس سے قبل کی بحثوں میں ھم نے عرض کیا تھا کہ اس طرح کا نظریہ اسلام کی روسے صحیح نھیں ھے دین اسلام اس بات کو تسلیم نھیں کرتا کہ کو ئی یہ کھے کہ اصل دین یعنی قرآن ، احادیث پیغمبراسلام، متواتر روایات اور پیغمبرو ائمہ علیھم السلام کی سیرت کو تسلیم کرتاھو ںلیکن ایک مسلمان ھونے کی حیثیت سے اسلام کے سماجی قوانین سے میرا کوئی سرو کار نھیں ھے ؟
3-دین کی ضروری باتوں کو قبول کرنا لازمی ھےافکار وعقائد کے مجموعہ میں کچھ ثابت اور یقینی اجزاء ھو تے ھیں جن کو اصطلاح میں -ضروریات کھا جاتا ھے اور جوشخص بھی اس مجموعہ سے واقف ھے چاھے اس کو مانے یا نہ مانے، یہ جانتا ھے کہ وہ مجموعہ ان ثابت اجزاء پر مشتمل ھے دوسرے لفظوں میں ممکن ھے ھر مجموعہ کے سیکڑوں ممبر ھوں، لیکن اس کا ایک معیار ھو نا چاھئے ،تاکہ وہ دوسرے مجموعوں سے الگ ھو سکے ، اس بنا پر اگر کسی نے دین کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے قبول کیاھے تو اسے یہ قبول کر نا ھوگا،کہ یہ مجموعہ مستقل، دائمی اور یقینی ممبر رکھتا ھے تاکہ تمام مجموعہ سے الگ پھچانا جائے ، لیکن افسوس ! کچھ افراد کھتے ھیں کہ ھم اسلام کو قبول کرتے ھیں لیکن ھم یہ نھیں تسلیم کرتے کہ اسلام ثابت اصول رکھتاھے اور تمام اشیاء کو مختلف تفسیروں اور مختلف تعبیروں کے قابل جانتا ھے ، وہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم اسلام کے مخالف نھیں ھیں لیکن اسلام قبول کرنے سے یہ لازم نھیں آتا کہ سب نماز پڑھیں، وہ نمازکا عقیدہ رکھیں اور بعض افراد پڑھنے کے بھی عادی ھیں لیکن یہ ضروری نھیں ھے کہ جو شخص مسلمان ھے وہ ضرور نماز پڑھے اور نماز کو اسلام کے ثابت ارکان سمجھے !روزہ کے سلسلے میں اور اسی طرح دوسرے تمام اجتماعی احکام کے بارے میں معتقد ھیں کہ پیغمبر اکرم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور تمام مسلمان اس پرعمل کرتے ھیں لیکن یہ تسلیم نھیں کرتے کہ اسلام کا دار ومدار اسی روزہ ھی پر ھے، اگر یہ نہ ھو ں تو اسلام باقی نھیں رھے گا ، یھاںپر ایک سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ اسلام کن بنیادوںپر قائم ھے کہ وہ اگر نہ ھوں تو اسلام باقی نھیں رھے گا ؟کیا آپ یہ تسلیم کر تے ھیں کہ اسلام میں تو حید ایک اصل ھے کہ اگر کو ئی اس کو قبول نہ کرے تو مسلمان نھیں ھے ؟تو آپ جواب میں کیا کھتے ھیں کہ ھماری فھم کے مطابق اسلام سے یہ مفھوم سمجھنا صحیح ھے ممکن ھے کہ دوسرا شخص اسلام سے ایک دوسرا مفھوم سمجھتا ھو ،لھٰذا ھم یہ کھہ سکتے ھیںکہ اسلام سے صرف ھمارا سمجھنا صحیح ھے ممکن ھے دوسرا شخص اسلام سے یہ سمجھے کہ خداایک ھے یا چند خدا ھیں یا دین اسلام میںخداکا وجود بالکل ھے نھیں ، -اورھم ایسی دلیل پیش نھیں کر تے جو یہ ثابت کرے کہ ھم جو اسلام سمجھے ھیں وہ سب سے زیادہ صحیح ھے ! اگر ھم یہ دعویٰ کریں کہ ھم نے جو کچھ سمجھا ھے وہ بالکل صحیح ھے اور کسی کو دوسری تفسیر کرنے کا حق نھیں ھے، زیادہ سے زیادہ ھم یہ کھہ سکتے ھیں کہ ھماری سمجہ ھماری نظر میں بھتر ھے تو ایسا دوسرں کے بارے میں بھی صحیح ھے-بے شک ایسے افراد صرف دھوکہ بازی اور چال بازی کا قصہ رکھتے ھیں ورنہ کسی علم اور علمی مرکزمیں دو مجموعہ کہ جن کے ممبران آپس میں شریک ھیں ان کو ایک دوسرے سے جدانھیں کیا جاسکتا ھے دومجموعوں کو ایک دوسرے سے اس وقت جدا کیا جاسکتا ھے جب ان دونوں کے ممبران مختلف ھوں یا کم سے کم ان میں سے کچھ کے درمیان فرق موجود ھو ورنہ دونوں مجموعے میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جدا نھیں ھو سکے گا ، ھمیشہ دو قسم کے مجموعہ میں فرق ھونا چاھئے تا کہ ایک مجموعہ کو دوسرے سے جدا کیا جاسکے ،اگران میں سے ایک مجموعہ کے تمام ممبران دوسرے مجموعہ کی جگہ قائم مقام ھوسکتے ھوں، مثلااس مجموعہ کا (الف) ممبر دوسرے مجموعہ کے (الف) ممبر کی جگہ آئے اور اسی طرح اس مجموعہ کا(ب) کا ممبر دوسرے مجموعہ کے (ب)ممبر کی جگہ آئے تو اس وقت ایک دوسرے کومستقل سمجھنا درست نہ ھوگا -اگر کوئی مجموعہ دین اسلام کے عنوان سے پھچانا گیا ھو اس میں دوسرے دین کے مقابلہ میں کوئی خوبی ھونا چاھئیے تاکہ اس سے الگ پھچانا جائے ، یعنی اس میں ایسے ثابت اصول ھونے چاھئیں جن پر اسلام استوار ھے اور ایسی صورت میں اگر ایسے اصول جیسے توحید،نبوت، معادیا نمازوعبادت کے اصول کے معتقد ھوں اور اسی کے ساتھ ان سب کو قابل تبدیل سمجھیں اور ان کے بارے میں مختلف تفسیریں بیان کریں تو ھم کسی بھی ثا بت رکن کو ثابت نھیں کرسکتے اور نہ ھی یہ دعویٰ کرسکتے ھیں کہ یہ اصول اسلام کی ایک اصل ھے-لھٰذا اگرھم یہ کھیں کہ اسلام کے نام پر کوئی معین مجموعہ موجود نھیں ھے،توایسی شکل میں ھم کس چیز سے دفاع کریں؟کس طرح سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں، اگر ھم ان کو مسلمان ھونے کا طریقہ نہ بتائیں اور ان سے یہ کھیں کہ اسلام کوجس انداز سے اور جس طرح سے سمجھے ھوویسے ھی اس پر عمل کرواوراسلام سے اپنی فھم وادراک کے مطابق عمل کرو!اگرتم اس نتیجہ پر پھونچے کہ نماز پڑھو، تو نماز پڑھو ،اور اگر تم اس نتیجہ تک پھو نچے کہ نماز نھیں پڑھنا چاھیے تو نماز نہ پڑھو،تم آزاد ھو، اور اپنی فھم کے مطابق عمل کرو! ،تو اسلام سے اسطرح کا ادراک،مسیحیت یا دوسرے مذاھب کے ادراک سے کیا فرق رکھتا ھے؟ پھر کیوں لوگوں کو اسلام کی طرح دعوت دیں!اگر یہ طے ھے کہ ھر شخص اپنے فھم وادراک کے مطابق عمل کرے اور کوئی اصول،اور ثابت کلیہ موجود نہ ھو تو ھم صرف لفظی طور سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے رھے ھیں،اس فکر کی بنیاد پر پھر یہ فرق باقی نھیں رہ جاتا کہ ھم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے رھے ھیںیا مسیحیت کی طرف یا اصلاًبے دےنی کی طرف دعوت دے رھے ھیں!
4-اسلام،اصول اور ثابت معرفتیںکسی شخص کا یہ کھنا دھوکہ بازی اور نفاق ھے کہ میں اسلام کو قبول کرتا ھوں لیکن اسلام سے ایک ثابت مفھوم کو درک نھیں کرتا ، اس کے تمام اصول قابل تبدیل ھیں اور مختلف تفسیریں ھیں،ایسی صورت میں اسلام سے وھی بات سمجھنا ممکن ھے جو مسیحیت سے سمجھی جاتی ھے تو ان دونوں میں کوئی فرق نھیں رھے گا اور ایک مسلمان اور مسیحی میں کوئی فرق نھیں رہ جائے گا،مثلاًھر ایک بلنڈ نگ مستحکم اجزاء سے بنتی ھے جیسے ستون، دیوار اور چھت وغیرھ، اور پھر ایک مدت کے بعد ویرانہ میں تبدیل ھوجاتی ھے یہ دعویٰ نھیں کیا جاسکتا کہ بلنڈنگ -کے اجزاء مستحکم نھیں ھیں ،یہ نھیں کھہ سکتے کہ ایک بلنڈنگ میں ستون ،دیوار اور چھت ھےں تو بلنڈنگ ھے اور اگر نھیں ھےں تب بھی بلڈنگ ھے ،اگر زمین ،ھوا اوردریا میں ھو تب بھی بلڈنگ اور اسمیں کسی طرح کی خصوصیت اور مستحکم وثابت اجزا ء موجود نھیں ھوتے ھیں ،اسی طرح اسلام بھی ثابت اور معین اجزاء سے وجود میں آتا ھے اور اگر اسلام میں ثابت اور کلی اصول نہ ھوں تو ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ یہ مجموعہ ھے اور وہ اسی طرح کامجموعہ ھے-اس بنا پر اگر کوئی اسلام کو قبول کرے تو اسے چاھئے کہ اِس مجموعہ سے ایک حصہ کو ثابت اجزاء کے عنوان سے قبول کرے البتہ ممکن ھے کہ اس مجموعہ کا ایک حصہ مشکوک بھی ھو ،یا ایسا کھلاھوا مجموعہ ھو کہ جس میں کچھ اجزاء کم وزیاد ھو سکتے ھوں ،لیکن اس کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ ایک مجموعہ میں کسی طرح کے ثابت اجزاء نھیں پائے جاتے ھیں جس کی وجہ سے ایک مشخص مجموعہ کے عنوان سے باقی رھے -اسلام کے بنیادی اور کلی عناصر کو دوست ودشمن سب جانتے ھیںتوحید،نبوت اور معاد کے علاوہ اسلام میں دوسرے بھی سیاسی امور ھیں جو سب جانتے ھیں حد ھے کہ منکرین خدابھی اس سے واقف ھیں ،نمونہ کے طور پر نمازاور حج کو اسلام کے اصلی عناصر کا جزء سمجھا جاتاھے دنیاکے تمام افراد یہ جانتے ھیں کہ مسلمان مخصو ص دنوں میں حج کرتے ھیں ،ایسی صورت میں کیا کو ئی یہ کھہ سکتا ھے کہ جس اسلام کو میں نے سمجھا ھے اس میں حج نھیں ھے ، سبھی یہ جانتے ھیں کہ اسلام میں نماز ھے اب اگر کو ئی یہ کھے کہ میں اسلام کو قبول کرتاھوں لیکن اسلام سے جو میں سمجھا ھوںاس کی بنیاد پر نماز ،اسلام میں نھیں ھے تو ایسا شخص یا اسلام کو نھیں سمجھا، یا جھوٹے طریقہ سے اپنے کو مسلمان کھلواتا ھے جبکہ منافق یا دھوکہ بازھے، اور یہ اس لئے کرتا ھے کہ اپنے کو مسلمان بتاکر ایک مسلمان کی خصو صیت سے محروم نہ کرے، اور اسے اسلامی معاشرہ سے نکالانہ جائے، ورنہ نماز،روزہ اور حج اس مجموعہ کے ثابت ارکان میں سے ھیں ، اور مسلماً تمام مسلمانوں کے نزدیک دن کے ضروری مسائل کا جزء ھیں -اگر کوئی اسلام سے واقف ھوتو کیا وہ یہ کھہ سکتاھے کہ اسلام میں چوری سے روکنے کے لئے سزاکا قانون نھیںھے جب کہ قرآن نے آیت:(اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ-)(1)میں اس مسئلہ کی صراحت کی ھے ، اسی طرح دوسرے تمام مقامات پر بھی قرآن کی صریح نص موجود ھےلھٰذا اسلام کے ضروری احکام ثابت کر دیئے گئے ھیں اور اب ھمارے لئے یہ ضروری نھیں کہ ھم پھر سے انھیں سمجھیں اور ایک ایک کو ثابت کریں ، اس بناپر اگر یہ ثابت ھو گیا کہ اسلام جس کی بنیاد قرآن پر ھے وہ خدا کی جانب سے آیا ھے اور حق ھے تو یہ قبول کر یں کہ جو کچھ بھی قرآن میں ھے وہ حق ھے اور قرآن ایک طرح کے محکم ، قطعی اور ضروری امور پر مشتمل ، البتہ کچھ آیتوں کی مختلف تفسیریں ھونا ممکن ھےں ،لیکن ایک آیت سے صرف دو مختلف تفسیروںکا وجود اس بات کی غمازی نھیں کرتا کہ قرآن سے کسی ثابت اور قطعی امور کا استنباط نھیں ھو سکتااور ھر شخص جو چاھے اس سے درک کرے-اگر کوئی شخص عربی زبان سے واقف ھے اورقرآن کی طرف مراجعہ کرے تو وہ قرآن سے ایک ایسے مطلب کو درک کرسکتا ھے کہ جو انسان کے مختلف ادراکات سے کوئی ربط نہ رکھتا ھو،اور نہ ھی اس کا گذشتہ افکار و مسلمات سے کوئی رابطہ ھو ، اور نہ ھی ھمارے ان قوانین کے تابع ھو جن کو ھم علوم سے درک کرتے ھیں مثلاًقرآن کی ایک آیةھے جو ھمیں نماز کا حکم دیتی ھے یا ایک ایسی آیت ھے جو چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم دیتی ھے وہ شخص جو کسی زمانے میں عناصرچھار گانہ ، ساتوں آسمان کا معتقد تھاآیت سے وھی سمجہ رھا تھاجو آج” انیشٹن” کی نسبت کی تھیوری کے بعد سمجہ رھاھے اوراستنباط کر رھا ھے اور یہ نھیں کھاجا سکتا کہ آج انیشٹن کی نسبت کی تھیوری پائی جارھی ھے لھٰذاآیت کے معنی بدل گئے ،ممکن ھے کہ ایسی آیت ھو جس کے کلمات لغات میں تبدیل اور دوسرے علمی مسائل سے مربوط ھوں ،لیکن کچھ مطالب ایسے ھیں جن کا سمجھنا دوسرے مختلف علوم سے مربوط نھیں ھے اور فطری طور سے ان میں تبدیلی کا شبہ بھی نھیں پایاجاتا-
5-قرآن کریم کے ثابت اور قطعی احکام ومفاھیمھم یہ بیان کر چکے ھیں کہ اسلام میں ایک طرح کے ضروری احکام موجود ھیں جو کہ ثابت ھیں خواہ کوئی مسلمان ھو نہ ھو یہ جانتاھے کہ اسلام میں کچھ ضروری مسائل ھیں،اسی طریقہ سے ایک طرح کے قطعی مفاھیم قرآن سے بھی استنباط ھوتے ھیں چاھے کوئی قرآن کو قبول کرے یانہ کرے ،وہ قرآن سے ان مطالب کو درک کرتاھے اور ان مطالب کا سمجھنا عربی سے واقفیت پر موقوف ھے ، اس کے مسلمان ھونے پرنھیں، ھماری گفتگوان چیزوں کے بارے میں ھے جو کسی اعتبار سے قابل تغییرنھیںھیںاور نظریات کے اختلاف اور ادراک کے اختلاف کے باوجود اس کے معنی اور مفھوم اپنی جگہ پر ثابت اور قطعی اور قابل اعتراض ھیں مثلاًجملہ(اٴَقِیْمُوْا الصَّلاٰةَ-)(2)کے معنی نمازکے واجب ھونے کے ھیں اور جملہ(کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ-)(3)کے معنی روزہ کے واجب ھونے کے ھیں ،چاھے جیسی علمی تھیوریاں ایجاد ھوں اور اس میں تجدید نظر ھو لیکن قرآن کے فھم و ادراک میں تبدیلی نھیں آئے گی اس کے احکام اپنی جگہ پر مسلم ھیں، جس وقت ھم دین کی ضروری مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں ان کو یقینی ،مستحکم ناقابل تبدیل سمجھتے ھیں کیونکہ ان کو اسلام کے اصلی اور قطعی منابع یعنی قرآن اور احادیث سے حاصل کیاگیا ھے اور جو لوگ ضروریات دین کے منکر ھیں اور لمبی چوڑی باتیں کرتے ھیں کہ اسلام سے مستحکم اور یقینی اصول نھیں سمجھاجاسکتا،تویا تووہ مسئلہ میں شبہ کے شکار اور جاھل ھیں یا تعصب کرتے ھیں اوراسلام پر ایمان نھیں رکھتے ھیں،بلکہ مسلمانوں سے کھیلتے ھیں -اس میں کوئی شک نھیں کہ اسلام کی سیاسی حکمت عملی ثابت اصول اور ضروریات میں سے ایک یہ ھے کہ قانون خداکی طرف سے بنے اور جو لوگ قانون الھی ٰکے منکرھو گئے ھیں در اصل وہ ضروریات دین کے منکرھیں جس طریقہ سے قرآن کریم سے نمازپڑھنے کے وجوب کو سمجھاجاتاھے،زناکار مرد اورزناکار عورت کا حکم سمجھاجاتاھے اور جتنی صراحت کے ساتھ قرآن میں نمازو روزہ کا حکم ثابت ھے اتنی ھی صراحت کے ساتھ پیغمبرکی اطاعت بھی واجب ھے اور شریعت اسلام میںپیغمبر کے مقام کو “مفترض الطاعة”کے عنوان سے پھچاناگیاھے – خداوندعالم اس بارے میں فرماتاھے:(یَااٴَیُّھَا الَّذِیْنَ ءَ امَنُوْا اٴَطِیْعُوْا اللّٰہ وَاٴَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاٴَوْلِی الاٴمْرِ مِنْکُمْ-)(4)
“اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اوراس کے رسول کی اور جو تم میں سے اولی الامر ھوں”اسی طرح ارشاد ھوتاھے:(وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلَ فَخَذُوْا وَمَانَھاکُمْ عَنْہ فَانْتَھوْا… )((5″ھاں جو تم کو رسول دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رھو”جب تک مندرجہ بالا آیات کے مطالب کو تسلیم نہ کیا جائے جن میں اسلام کے ضروری احکام بیان ھوئے ھیں ورنہ اس وقت تک اسلام کو تسلیم نھیں کیا جاسکتااورایسی شکل میں انسان کا ان لوگوں میں شمار کیا ھوگاجن کے قول کی خداوندعالم یوںحکایت کررھا ھے :(وَیَقُوْلُوْنَ نُوٴْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ-)(6)”اور کھتے ھیں کہ ھم بعض (پیغمبروں) پر ایمان لائے ھیں اور بعض کا انکار کرتے ھیں”اور اسی کے بعد خدا ان کے بارے میں یہ بھی فرماتاھے:(اٴُوْلَئِکَ ھُمُ الکَافِرُوْنَ حَقّاً- )(7)”یھی لوگ حقیقتاً کافر ھیں”لھٰذا جو شخص اسلام کا معتقد ھے اس کو ایک سرے سے اس کے تمام قوانین اور احکام کو مانناچاھیئے ،اور یہ عقیدہ رکھنا چاھئے کہ اسلام کے تمام ضروری احکام علمی تبدیلیوں کے تابع نھیںھیں کہ جو علمی نظریات یا نئی علمی تھیوریوں کی وجہ سے ان میںتبدیلی رونما ھوجائے ایسی شکل میں جو نمازسے مربوط آیت کو حق سمجھتا ھے اور چوری سے متعلق آیت کو حق جانتا ھے اگر چہ اسے قرآن میں متشابہ اور محمل آیات ملتی ھیں، جن کو وہ اسلام کے متغیرقانون کی حیثیت سے پاتاھے ،لیکن یہ یقین رکھتاھے کہ قرآن اور اسلام میں ایسے مستحکم اور یقینی اصول موجود ھیں جو دوسرے تمام متغیراصول سے الگ پھچانے جاتے ھیں-
6-اسلام مختلف تعبیربیں رکھتا ھے-(ایک اعتراض اور اس کا جواب)یہ بات تواضح ھے کہ کچھ آیات سے مختلف طرح کے مطالب سمجھے جاتے ھیں اور مختلف طرح کی تفسیریں بیان کی جاتی ھیں اور اسلام کے کچھ احکام میں اختلاف نظرپایا جاتاھے جواس بات کا باعث نھیں بنتاکہ اسلام کے سارے قوانین مشتبہ اور اختلافی ھیں،اسلام میں ایسے ھزاروں قطعی احکام موجود ھیں جن کے بارے میں تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق نظرپایا جاتاھے لیکن فرعی اور بھت مختصر احکام میں شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان اختلاف پائے جاتے ھیں، اور فقہ کے ایک عظیم حصہ میں فریقین کے یھاں اختلاف نظر نھیں پایاجاتاھے اسی طرح سے شیعہ فرقے کے کچھ احکام میں فقھا کے درمیان فتوؤں میں اختلاف کا ھو نا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ تمام احکام میں اختلاف پایاجاتاھے،جس طرح ایک مخصوص بیمار کے بارے میں دو ڈاکٹر وںکی تجویز کا الگ الگ ھونا اور دونوں کے نسخوں کا فائدہ بھی ھونا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ علمِ ڈاکٹر ی میں پائیدار اور استوار قوانین نھیں پائے جاتے ھیں-اسی بناپر اسلام میں ایک طرح کے قطعی اور یقینی احکام موجود ھیں جس میں کسی طرح کا شک وشبہ نھیںپایاجاتاھے ،اور بعض مقامات پر اختلاف نظر کا ھو ناھمیں اس بات کا سبق نھیں دیتا کہ ھم مسلّم احکام نھیں رکھتے اور اس بھانہ سے ھم اسلام سے الگ ھو جائیں ،اس کے باوجود آج جب اسلام کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے تو قلبی مریض اور قرآن کے ارشادکے مطابق: ( اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ-)(8)”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ھے”کھتے ھیںکہ کونسا اسلام ؟وہ اسلام جس کو شیعہ بتاتے ھیں یا وہ اسلام جس کو سنی بتاتے ھیں ؟یا وہ جس کو فقھاء بتاتے ھیں یا وہ جس کو دانشورحضرات بتاتے ھیں ؟اس کے باوجود کہ ھم اعتقادات ،اخلاقیات ، فردی احکام ،سماجی ا حکام،تجارت کے قوانین اور بین الاقوامی قوانین میں ایک طرح سے ثابت حقوق اور ھزاروں متفق علیہ قوانین رکھتے ھیں ، تو پھر کیوں وہ لوگ بجائے اس کے کہ یقینی اور مسلم قوانین کو اپنائیں اختلافات اور افتراقات کو اپنائے ھوئے ھیں ؟اور جب ان سے یہ کھا جاتاھے ھماری یونیورسٹیوں کو اسلامی ھو نا چا ھئے توکیوں روحی بیمار اور کج فکر لوگ پوچھتے ھیںکہ کون اسلام ؟اس کا جواب یہ ھے کہ وھی اسلام جو یہ کھتاھے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نھیں کرنا چاھیئے ،عدالت کو قائم کر نا چاھیئے کیا ان چیزوں میں اختلاف پایا جاتاھے؟اگر آپ انھیں یقینی اور متفق علیہ قوانین کو جن کے بارے میں فریقین میں اختلاف نھیں ھے یونیورسٹیوں میں اپنائیں تو آپ نھایت خوش ھونگے،یہ فطری بات ھے کہ جب وہ لوگ نھیں چاھتے کہ اسلام کے مطابق عمل کریں تو بھانہ تلاش کرتے ھیں کہ کس نے کھا ھے کہ فقھاء کا اسلام نافذکیا جائے اور روشن فکروں کا اسلام نافذ نہ کیا جائے ؟
7-اسلام انسان کی تمام ضرورتوں کو پوراکرتاھےاس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ اسلام میں قوانین اور سماجی احکام موجود ھیں مختلف طرح کے سوالات اور شکوک پیدا ھوتے ھیں انھیں میں سے ایک سوال یہ بھی ھے کہ کیا یہ بات عقلاًممکن ھے کہ انسان کی تمام ضروریات مختلف زمانے میں ایک مجموعہ میں بیان کردی گئی ھوں؟دوسری بات یہ کہ کیاوہ اسلام جس کا منبع قرآن اور معتبر روایات ھیں اس کے اندر اتنی صلاحیت پائی جاتی ھے کہ وہ تما م چیزوں کو ، جس کی انسان کومختلف زمانوں اور صدیوں میں ضرورت پڑتی ھے اپنے اندر رکھتاھو،مذکورہ سوال کے دو حصے ھیں ایک ثبوتی حصہ دوسراثباتی اور دونوں جھتیں یعنی ثبوتی اور ثباتی قابلِ بحث وتحقیق ھیں ،البتہ یہ یقین رکھنا چاھیئے کہ اعتراض قابلِ غور وفکر ھے ،اور آغاز بحث میں اس کا جواب آسانی سے نھیں دیا جاسکتا اور توجیہ نھیں کی جاسکتی ، لیکن ان توضیحات کے مدنظر جو اس سے قبل ھم نے دی ھے اس کا جواب اتنا مشکل اور دشوار نھیں ھے-
الف :سوال کے ثبوتی پھلوکی تحقیقثبوتی نقطہ نظرسے اس اعتراض کہ کس طرح سے قوانین کا مجموعہ ،انسان کی زندگی کے تمام مراحل میں اس کی ضرورتوں کا جواب گو ھوسکتا ھے ،اس کا جواب یہ ھے کہ قطعی طورپر انسانوں کے اندر صلاحیت نھیں پائی جاتی کہ وہ انسان کے لئے مختلف صدیوں اور زمانوں قانون کا ایک کامل مجموعہ میںبنائے ،اس لئے کہ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ھوئے کہ بشر اپنی محدود ذھنیت اور ناقص معلومات کے ذریعہ یہ صلاحیت نھیں رکھتاھے کہ وہ انسان زندگی کے تمام گوشوں اور تمام حالات سے بحث کرے اور ھر ایک کے لئے مناسب قانون بنائے-لیکن اس ذات کےلئے جس نے بشر کو پیدا کیا ھے جو تمام ماکان ومایکون کے حالات سے واقف ھے جس کی نظر ماضی ،حال اور مستقبل پر یکسان ھیں ھزاروں سال قبل وبعد کی اشیاء کو واضح انداز میں دیکھتا ھے اس کے قانون کے مجموعہ کی توضیح اور تشریح ممکن اور میسر ھے، لھٰذایہ نھیں کھا جا سکتا کہ انسان کی اس طولانی تاریخ میں تمام انسانوں کے لئے قوانین کا ایک کامل مجموعہ جو انسان کی زندگی کے تمام مراحل پر مشتمل ھو ممکن نھیں ھے ،اس لئے جو گذشتہ اور آئندہ کی چیزوں کی خبر رکھنے والااور انسانی وجود کے تمام پھلوؤں کی خبر رکھنے والا ھو، وہ اس طرح کے قوانین کو بناسکتا ھے-
ب:-سوال کے اثباتی پھلواعتراض کے اثباتی پھلو یعنی جس چیز کو تم خدا کی طرف منسوب کرتے ھو اور وہ قرآن اور متواترروایات میں بیان ھوئی ھے ،خاص طور سے اگر ھم صرف ان مسلمات اور یقینی قوانین کو اپنائیں ،تو کس طرح ھر زمانہ میں محدود قانون بشر کی تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتا ھے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ یہ ممکن نھیں ھے کہ ھم ھر چیز کے بارے میں خاص قانون پیش کریں جس میں اس جگہ اور اس زمانہ کے تمام شرائط کا لحاظ کیا گیا ھو اور اس وجہ سے کہ قانون کے نیازمند مسائل محدود نھیں ھیں اور اس کی رغبت بے انتھاء ھے اور اس کے مقابلہ میں ھماری ادراک ،فھم ، ذھن اور سمجھنے کی صلاحیت محدود ھے لھٰذا ھم تمام مسائل کو ایک خاص اور معین شکل اور مکمل طریقہ سے حاصل اور معیں نھیں کرسکتے لیکن یہ کھا جاسکتا ھے کہ بے شمار مسائل کے بے شمار دستہ نھیں ھیں ،اِن مسائل میں ھر مجموعہ ایک کلی عنوان رکھتا ھو اور اس عنوان کا ایک خاص حکم ھو ،لھٰذا کلی حکم ثابت اور محدود ھے اور ان کے مصادیق بے شمار ھیں ا ور ان میں تغیّر وتبدّل ھوتا رھتا ھے -ممکن ھے کہ کسی ایک زمانہ میں کوئی ایک مصداق کسی ایک حکم کو شامل ھور دوسرے زمانہ یادوسرے حالات میں ایک دوسرے عنوان کے تحت قرار پائے اور بدل جائے ،لھٰذا موضوعات میں مختلف اور بے شمار تبدیلیاں رونما ھوتی رھتی ھیں ،لیکن لا محدود اورکلی عناوین ثابت رھتے ھیں ،یہ حقیقت ھے کہ انسان کی زندگی کے حالات مختلف ھیں اور ھر روز حالات بڑھتے رھتے ھیں ،اور زمانہ کی ترقی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ نئے مسائل بھی پیداھوتے رھتے ھیں کہ جن کے بارے میں خاص قوانین کی ضرورت ھوتی رھتی ھے ،تاکہ انسانی ضرورت پوری ھو سکے ،البتہ ان متغیر قوانین کو خاص معیار کی ضرورت ھے کہ اگر انسان ان ثابت اور کلی معیار کو پھچان لے اور اس کی اجازت سے کہ جس نے کلی قوانین کو نازل کیا ھے اور لوگوں تک ان قوانین کے کلی معیار کو پھچنواناھے تو پھر کسی بھی خاص مقام کے لئے قانون بناسکتا ھے -ھماری اس بات کا کہ ( قوم و ملت میں اسلام کے قوانین نافذ ھونے چاھئے) مطلب یہ ھے کہ صرف وھی قوانین نھیں ھیں جو براہ راست خدا کی طرف سے نازل ھوتے ھیں بلکہ پیغمبر وامام معصوم (ء)اور وہ حضرات کہ جو ان قوانین کی حقیقت سے آگاہ ھیں اور ان کے معیار کو بخوبی جانتے ھیں اور کلی قواعد اور تزاحم کی صورت میں کسی ایک کی حجیت کو تشخیص دے سکتے ھیں ان کے مصادیق اور قوانین کلی کی حاکمیت اور اھمیت کو معین کر سکتے ھیں اور بدون شک یہ کام الھٰی قوانین کی بنیاد پر قائم ھے-
حوالہ(1)سورہ مائدہ آیت 3۸(2) سورہ بقرہ آیت 43(3)سورہ بقرہ آیت 1۸3(4)سورہ حشر آیت ۷(5)سورہ نساء آیت 5۹(6) سورہ نساءآیت 15۰(7) سورہ نساء آیت151(8) سورہ آل عمران آیت ۷