بازار اسلامی میں نگراں کا وجود

201

چنانچہ ان فرائض کی ادائیگی کے لئے ایسے ذمہ دار افراد کی ضرورت ہے جو بازار کی نگرانی اور اس پر کنٹرول کی سر پر ستی کرسکیں اور انھیں عملی اقدام کا اختیار بھی حاصل ہو اسلام میں اس بارہ میں خاموشی سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے۔اس سلسلہ میں بڑا اہتمام کیا ہے ،بازار پر ایک مامور رکھا گیاہے جو بازار کے امور ذمہ دار اور سرپرست ہوتا تھا اسے اختیارات بھی حاصل تھے اور وہ عملی طور پر اقدام و نفاذ کی طاقت بھی رکھتا تھا۔
بازار کا سرپرستجب بھی کوئی ہمارے زمانہ تک پہنچنے والی روایات و احادیث کا جائزہ لے تو اسے نظر آئے گا کہ پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المومنین نے اپنے بعض اصحاب کو بازار پر نگراں و سرپرست معین فرمایا تھا اسی طرح ان روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺنے سعید بن سعید العاص کو بازار مکہ کا نگراں معین کیا تھ (۱) یہ روایت بھی ہے کہ آنحضرت نے عمر بن الخطاب کو مدینہ کے بازار کا نگراں بنایا تھا (۲)حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ حضرت نے ابن عباس کو قاضی و ناظر کی حیثیت سے بصرہ روانہ کیا (۳)اور علی ابن اصمع کو بارجاہ (۴)پر نگراں معین فرمایا (۵)اور اپنی جانب سے اہواز پر منصوب قاضی رفاعہ ابن شداد کو ایک خط لکھا اور اس میں حکم دیا کہ “ابن ہرمہ” کو بازار سے ہٹا کر کسی دوسرے شخص کو بزار کا سر پرست بنائے (۶)
بدعت پھیلانے والا بازار کا سرپرست نہ ہوحضرت امیر المونین علیہ السلام نے اہواز میں اپنی طرف سے منصوب قاضی “رفاعہ بن شداد “کو لکھا:”لو تول امر السوق ذا بدعۃ، و الا فاٴنت اعلم” (۷)اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ بدعت پھیلانے والے کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو بدعت کی طرف دعوت دینے اور اسے پھیلانے کی غرض سے بازار پر اپنے تسلط کے ذریعہ لوگوں پر اقتصادی دباوٴ سے کام لیتا ہے ،نیز ایسا شخص اپنے تسلط و رسوخ کے ذریعہ لوگوں پر دباوٴ ڈال کر انھیں اپنی بدعتوں کے خلاف آواز اٹھانے سے روک دیتا ہے یا انھیں اس پر مجبور کرتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے اس کی مالی مدد کریں یا اسے ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائیں۔
بازار کے سرپرست کے اختیاراتبازار کے متولی و سرپرست کے اختیارات کیا ہیں اس پر واضح طور سے دلالت کرنے والی کوئی چیز دسترس میںنہیں ہے چہ جائےکہ کہ اس کے حدود و موارد کے بارہ میں کوئی دلیل یا سند بیان کی جائے سوائے اس کے کہ وہ باتیں جو ہم نے اس سلسلہ بحث میں پہلے نقل کی ہیں اور ان امور و اقدامات کو دیکھتے ہوئے جو حضرت پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المومنین نے بازار میں انجام دیئے تھے،ہم یہ گمان کرسکتے ہیں کہ بازار کے متولی و سرپرست کے اختیارات اور اس کی ذمہ داریاں حسب ذیل رہی ہیں۔الف: احتکار و ذخیرہ اندوزی سے روکنا جیسا کہ حضرت پیغمبر اکرم نے یہ اقدام فرمایا اورحضرت امیر المومنین نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں اس کی صراحت کی ہے۔ب: قیمتوں پر نگرانی اور ان کی حد سے زیادہ پڑھنے پر روک۔ج: وزن اور ناپ تول کی چیزوں پر نگرانی اور ان کی جانچ پڑتال۔د: بازار کی حدود سے آگے بڑھ جانے اور ان کے غیر قانونی قبضہ و تصرف پر روک۔ھ: ملاوٹ اور دھوکہ دھڑی کی جانچ پڑتال ،چاہے مال سایہ میں بیچنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو ،ان پر روک اور اچھی جنس کو خراب جنس میں ملا کر فروخت کرنے پر پابندی اور انھیں الگ الگ بیچنے پر مجبور کرنا۔و: ان تاجروں کو تجارت کی اجازت دینا جن میں مطلوبہ اوصاف و شرائط پائے جاتے ہوں ۔ز: ان مشکلوں اور دشواریوں کوحل کرنا جو معمولاً بازاروں میں وجود میں آتی ہیں لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا اور صاحب حق کو اس کا حق دلانا ۔جیسا کہ حضرت امیر المومنین نے اس کنیز کے سلسلہ میں عمل کیا جس نے خرمے خرید ے تھے اور وہ خرمے اس کے مالک کو پسند نہیں آئے تھے۔ح: گمشدہ افراد کی رہنمائی کرنا۔ط: کھوئے ہوئے افراد کو تلاش کرنا۔ی: کمزوروں کی مدد کرنا۔ک: جانوروں کے ذبح کے طریقہ پر نگرانی رکھنا اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دینا۔ل: تاجروں اور سودا گروں کے امور کی دیکھ بھال ۔م: ان کی عزت و احترام کی حفاظت ۔ن: دوسروں سے ان کا حق حاصل کرنا۔س: ان کے راستوں کو پُرامن بنانا۔ع: کھانے پینے کا سامان بازار میں لانے والوں کو خاطر مدارات اور جب تک وہ بازار سے باہر نہ ہوں ان کی میزبانی کرنا۔ف: راستہ میں ان کا جو مال برباد ہوگیا ہے اس کی بھر پائی کرنا۔ص: ذمی کفار کو صرافہ کے کارو بار سے روکنا،اور ہر اس شخص کو اس قسم کی تجارت سے روکنا جس کا وہ حق نہ رکھتا ہو۔ق: ان جگہوں پر خرید و فروخت سے روکنا جو مال بیچنے کی جگہیں نہ ہوں۔ر: ممنوعہ چیزوں مثلا ًشراب و غیرہ یا پانی میں مری ہوئی مچھلی کی تجارت سے روکنا اورغیر شرعی پیشے مثلا ًقصہ گوئی و غیرہ پر پابندی لگانا۔ش: ان روایات سے،جن سے “ابن ہرمۃ”کی خیانت پر اس کی سزا اور “علی بن اصمع” کی انگلیاں کاٹے جانے کا ذکر ہے، معلوم ہوتا ہے کہ بازار کا متولی و سرپرست بازار کے مالی امور کا بھی سرپرست ہوتا تھا کہ احتمال کے طور پر یہ امور ذمی کا فروں سے ٹیکس لینے یا بازار میں موجود اموال کی نگہبانی و غیرہ سے متعلق رہے ہیں۔ان کے علاوہ بازار کے سرپرست کے اور دوسرے اختیارات بھی سلسلہ بحث میں مذکور روایات اور ان روایات سے جنھیں نقل کرنا مقصود نہیں تھا، معلوم کئے جاسکتے ہیں۔
خیانت کی صورت میں بازار کے سرپرست کو سزامعلوم ہوتا ہے کہ بازار کے سرپرست کی ذمہ داریاں فقط حالات پر کنٹرول اور نگرانی نہیں تھی بلکہ ان کے علاوہ اس کے کاندھوں پر بازار میں موجود اموال کی حفاظت کی ذمہ داری بھی رہی ہے،یہی وجہ تھی کہ بعض متولی و سرپرست بازار کی حدود اور ان کے اختیارات کے دائرے میں موجود اموال کی خیانت کے مرتکب ہوتے تھے اور کبھی بعض خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کرنے یا بعض افراد کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے رشوت لیا کرتے تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین اس طرح کی خیانتیں کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دیا کرتے تھے”علی بن اصمع “کو آپ نے “بارجاہ “کے علاقہ میں بازار کا متولی مقرر فرمایا تھا اور جب اس نے خیانت کی تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔یہ شخص حجاج بن یوسف کے زمانہ تک زندہ رہا۔ ایک روز اس نے حجاج سے کہا : میرے خاندان والوں نے میرے ساتھ بدی کیحجاج نے پوچھا :کیسے ؟جواب دیامیرا نام علی رکھا ہےحجاج نے کہا کیا اچھی بات کہی ہے اس کے بعد اسے ایک علاقہ کی ولایت و حاکمیت بخش دی ،ساتھ میں یہ بھی کہا : اگر مجھے خبر ملی کہ تو نے خیانت کی ہے تو تیرا جتنا ہاتھ علی علیہ السلام نے باقی رکھ چھوڑا ہے اسے میں کاٹ ڈالوں گ (۸)یوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اہواز میں اپنی جانب سے منصوب قاضی رفاعہ بن شداد کو بازار اہواز کا متولی ابن ہرمہ ۔جس نے خیانت کی تھی ۔کے بارے میں لکھا کہ -:”اذا قراٴت کتابی ھٰذا فنح ابن ہرمہ عن السوق و اوفقہ للناس ،و اسجنہ،وناد علیہ ،واکتب الیٰ اھل عملک ، تعلمھم رایی فیہ، ولا تاخذک فیہ غفلۃ،و لا تفریط ، فتہلک عنداللہ ،و اعز لک عزلۃ و اعیذ ک با للہ منہفاذا کان یوم الجمعۃ، فاخرجہ من السجن ، وا ضربہ خمسۃ و ثلاثین سوطا وطف بہ الیٰ الاسواق ؛فمن اتیٰ علیہ بشاھد ؛فحلفہ مع شاھدہ ؛وادفع الیہ من مکسبہ ما شھد بہ علیہو مر بہ الی السجن مھانا منبوحا ؟واحزم رجلیہ بحزام ،واخرجہ ولا تحل بینہ و بین من یاتیہ بمطعم او مشرب ،او ملبس ،او مفرشولا تدع احدا یدخل الیہ ممن یلقنہ اللدد و یرجیہ الخلاص (الخلوص خ ل ) فان صح عندک ؛ان احدا لقنہ ما یضر بہ مسلما فاضربہ با لدرہ ،واحبسہ حتیٰ یتوبو مربا ء خراج اھل السجن فی الیل الیٰ صحن السجن لیتفرجوا (لیفرجوا خ ل ) ،غیر ابن ھرمۃ ،الا ان تخاف موتہ؛فتخرجہ مع اھل السجن الی الصحنفان رایت بہ طاقۃ ،او استطاعۃ ؛ فاضربہبعد ثلاثین یوما خمسۃ و ثلاثین سوطا ،بعد الخمسۃ و الثلاثین الاولیٰواکتب الی بما فعلت (صنعت خ ل ) فی السوق ،و من اخترت الخاین واقطع عن الخا ئن رزقہ )) (۹)”میرا یہ خط پڑھتے ہی “ابن ہرمہ ” کو بازار سے نکال دو اسے لوگو ں کے سامنے لا کھڑا کرو،قیدی بناؤاور لوگوں کو ( اس کی خیا نت ظاہر کرنے اور پہچنوانے کے لئے ) آواز دو اور اکٹھا کرو ،اپنے کار گزاروں کو خط لکھ کر انھیں اس کے بارے میں میرے نظرئیے سے اگاہ کرو،اس کے بارے میں غفلت و سہل انگاری نہ کرو کہ خدا کے نزدیک ہلاک ہو اور میں تمھیں تمھارے عہدہ سے بری طرح سے علیٰحدہ کردوں میں اس سلسلہ میں تیرے لئے خدا کی پناہ مانگتا ہوںپس جب جمعہ کا دن آئے تو قید سے باہر لا کر اسے پینتیس (۳۵)کوڑے لگاؤ اور بازار میں پھراؤ ،جو بھی اس کے خلاف (اپنے خسارہ کا ) دعویٰ کرے اور گواہ لائے تو خود اور اس کے گواہ کو قسم دلاوٴا س کے بعداس (ابن ہرمہ )کے مال میںسے اتنی مقدار مدعی کو ادا کر وپھر اسے ذلت وخواری کے ساتھ قید خانہ میں واپس لے جاکر اس کے پیروں میں بیڑی ڈال دو ۔ اور نماز کے اوقات میں انھیں کھولو۔اس کے اوراس شخص کے درمیان ہائل مت ہو جو اس (خائن ) کے لئے کھانے پینے کی چیزیں ،لباس اور بستر لائے ،اور کسی ایسے شخص کو اس کے پاس نہ جانے دو اسے کینہ ودشمنی سکھاتاہے اور آزاد ہونے کی امید دلاتاہےاگر تم پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ کسی نے اسے کوئی ایسی بات سکھائی ہے جو مسلمانوں کے لئے مضرہے تواسے تازیانے لگاوٴاور اس وقت تک قید رکھو کہ وہ توبہ کرلے ۔قیدیوں کو حکم دو کہ شب میں قیدخانہ کی صحن میں نکل کر ٹہلیںاور آرام کریں لیکن ابن ہرمہ کو اس کی اجازت مگر یہ کہ تمھیں اس کے مرجانے کا خوف ہو کہ ایسی صورت میں اسے بھی قیدیوں کے ساتھ صحن میں لے آوٴ۔اور جب اس طاقت وتوانائی دیکھو تو تیس روز کے بعد دوبارہ پینتیس کوڑے لگاوٴ ۔نیز تم نے بازار میں کیا اقدام کیا ہے اور کس شخص کو اس خیانت کار کی جگہ پر معین کیا ہے ، مجھے لکھو اور خائن کی روزی بند کر دو”——————–۱)۔الاصابہ ج/۲ص/۴۷،ازابن شاہین ،السیرۃ الحلبیۃ ج/۳ص/۳۲۷،اسد الغابۃ ج/۲ص/۳۰۹،از ابی عمرہ ابن مندہ الاستیعاب (طبع بر حاشیہ ،ج/۲ص/۸) الاصناف فی العصر العباسی ص/۱۳۹،معالم الحکومہ النبویۃ ص/۲۴۴،نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی (السلطۃ القضائیۃ ص/۵۹۱و۶۱۵،اور یہی کتاب کی فصل الحیاۃ الدستوریۃ ص/۴۹) الترتیب الاداریہ ج/۱ص/۲۸۵تا۲۸۸۲)۔ السیرۃ الحلبیہ ج/۳ ص/۳۲۷،الاصناف ص/۱۳۹ ،التراتیب الاداریۃ ج/۱ص/۲۸۶و۲۸۷”یعنی کسی بدعتی کو بازار کے امور کا سرپرست نہ بناوٴ،ورنہپس تم بہتر جانتے ہو”۳)۔ نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ اسلامی (السلطۃ القضائیہ )ص/۷۰،از ادب القاضی مادردی ج/۱ص/۱۳۵۴)۔ بصرہ کے علاقہ کا نام یہ فارسی کا لفظ بارگاہ ہے عربی میں بارجاہ ہو گیا ہے۵)۔ الاشتقاق ص/۲۷۲نیز کتاب و فیات الاعیان ج/۳ص/۱۷۵ میں آیا ہے کہ حجاج نے اسے بصرہ کے علاقہ بارجاہ میں مچھلی کے بازار پر نگراں بنایا تھ۶)۔ دعائم الاسلام ج/۲ص/۵۳۲،نہج السعادۃ ج/۵ص/۳۵و۳۸ ،مجلہ نور علم چوتھی جلد شمارہ /۴ ص/۴۴ از دعائم الاسلام و معاون الحکمۃ ص/۳۸۲۷)۔دعائم الاسلام ،ج/۲،ص/۵۳۰۔نہج السعادۃ،ج/۵،ص/۳۳۸)۔ الاشتقاق ج/۱ص/۲۷۲، وفیات الاعیان ج/۳ص/۱۷۵۹)۔ دعائم الاسلام ج/۲ ص/۵۳۲ وص/۵۳۳ نہج السعادہ ج/۵ ص/ ۳۵ وص/۳۸ “مجلہ نور علم “سال دوم شمارہ ۳ ص/۴۴ نقل از حاشیہ معاون الحکمۃ ص/۳۸۲

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.