انبیاء علیہم السلام کی صفات میں اختلاف

130

انبیاء علیہم السلام کی صفات میں اختلاف اور اس کے اسباب

نبیاء علیہم السلام کی صفات کے بارے میں بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے:

 انبیاء علہیم السلام کے آثار سے تبرک لینا اور ان کی قبور مبارکہ کو عبادت کی جگہ قرار دینا شرک ہے۔

 انبیاء علہیم السلام کی قبور پر عمارت کھڑی کرنا بھی شرک کے مترادف ہے۔

 

 

 
 

 انبیاء علہیم السلام اور اولیاءکی ولادت کے ایام میں محافل برپا کرنا گناہ، بدعت اور حرام ہے۔

 

 

 
 

 غیر اللہ کے ذریعے خدا کے ہاں وسیلہ ڈھونڈنا شرک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت طلب کرنا شریعت اسلامیہ کے منافی ہے۔

 

 

لیکن اس نظریے کے جواب میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں۔
 
 

 

 

الف۔ انبیاء علیہم السلام  کے آثار سے تبرک لینا

 

 

 
 

انبیاء علہیم السلام کی نشانیوں اور آثار کو باعث تبرک سمجھنے کا جواز تمام کتب احادیث میں مروی ان متواتر روایات سے ثابت ہے جن کے مطابق صحابہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں خود آنحضرت(ص) اور آپ (ص) کے آثار سے تبرک حاصل کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گاہے خود اس کا عملی مظاہرہ کرتے تھے اور کبھی لوگوں کو اس کی دعوت دیتے تھے۔ آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد بھی لوگ آپ(ص) کے آثار سے تبرک لیتے رہے۔ یہاں ہم اس سلسلے میں بعض امور کا ذکر کرتے ہیں جن سے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔

 

 

 
 

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن سے تبرک چاہنا

 

 

 
 

صحیح بخاری کی کتاب المغازی کے ”ما قیل فی لواء النبی صلی الله علیہ والہ وسلم“ نامی باب میں سہل ابن سعدسے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن فرمایا:”کل میں یہ علم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا۔ وہ خدا اور رسول(ص) کا محب بھی ہو گا اور محبوب بھی“۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے وہ رات بے چینی سے گزاری اور سوچتے رہے کہ ان میں سے کل کس کو علم عطا ہو گا؟

 

 

 
 

جب صبح ہو گئی تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے۔ ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ علم اس کو ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: علی کہاں ہیں؟“

 

 

صحابہ  نے عرض کیا:
 
 

اے اللہ کے رسول(ص) ان کی آنکھیں دکھ رہی ہیں۔

 

 

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی مرتضی(ع) کو بلا لائے ۔ صحیح بخاری کی کتاب الجہاد والسیر کے الفاظ یہ ہیں:

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے ان کو بلایا گیا۔ پھر آنحضرت(ص) نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا جس سے وہ ایک دم ٹھیک ہو گئے گویا ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ,۱ 
 
 

صحیح مسلم میں حضرت سلمہبن اکوع نے ان الفاظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے:

 

 

میں حضرت علی(ع) کے پاس آیا اور ان کو لے کر آگے آگے چلا کیونکہ اس وقت ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ میں ان کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس پہنچا۔ پس آپ (ص)نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا جس سے وہ ٹھیک ہو گئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو علم عطا فرمایا۔,۲ 
 
 

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے آب وضو سے حصول تبرک

 

 

صحیح بخاری میں انس بن مالک  سے مروی ہے:میں نے عصر کی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا۔ آپ(ص) نے لوگوں سے وضو کا پانی مانگا لیکن انہیں نہیں ملا۔ پھر(کہیں سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پانی مل گیا تو آپ(ص) نے اس برتن میں اپنا دست مبارک ڈالا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کا حکم دیا۔ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پھوٹ کر نکل رہا ہے، یہاں تک کہ اس پانی سے ان سب نے وضو کر لیا۔۳ 
 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نخامہٴ مبارک سے حصول تبرک

 

 

 
 

امام بخاری نے صلح حدیبیہ کے بیان میں عروہبن مسعود سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے بارے میں نقل کیا ہے کہ اللہ کی قسم جب بھی رسول اللہ(ص) نخامہ تھوکتے تو وہ لوگوں میں سے کسی کی ہتھیلی پر جا پڑتا تھا اور وہ شخص اس کو اپنے چہرے اور جسم پر ملتا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وضو فرماتے تو لوگ آپ کے وضو کے پانی کے لئے گتھم گتھا ہو جاتے تھے۔4

 

 

 
 

 

 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سے حصول تبرک

 

 

 
 

امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منیٰ کے مقام پر پہنچ کر رمی اور قربانی کے بعد موئے مبارک ترشوائے ۔ اس کے بعد آپ(ص) نے وہ بال لوگوں کو دینے شروع کر دیئے۔

 

 

 
 

ایک اور روایت کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بال تراشنے والے کو بلایا۔ اس نے آپ کے بال تراشے۔ آپ(ص) نے وہ بال ابو طلحہکو دے دئیے تو ابو طلحہنے کہا:

 

 

میں انہیں لوگوں میں تقسیم کروں گا۔ 5
مسلم نے انس  سے ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا:
 
 

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو اس حالت میں دیکھا کہ بال تراشنے والا آپ(ص) کے بال تراش رہا تھا اور اصحابآپ کو گھیرے ہوئے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ آجائے۔6

 

 

 
 

اسد الغابہ میں خالد بن ولید کے بارے میں مرقوم ہے:

 

 

 
 

ایران اور روم کے ساتھ جنگ میں خالد کا کردار مشہور و معروف رہا ہے۔ اس نے دمشق فتح کیا۔ جس ٹوپی کو پہن کر وہ جنگ کرتا تھا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک بال موجود تھا۔ وہ اس بال کو اپنے لئے باعث نصرت سمجھتا تھا۔ اسی بال کی برکت سے وہ ہمیشہ فتح حاصل کرتا رہا۔

 

 

 
 

خالد بن ولید کے بارے میں ہی اسد الغابہ، الاصابہ اور مستدرک امام حاکم میں ایک اور واقعہ مرقوم ہے جسے ہم مستدرک سے نقل کرتے ہیں: جنگ یرموک کے دن خالد بن ولید کی ٹوپی گم ہو گئی۔ خالد نے کہا:

 

 

اسے ڈھونڈو۔
 
 

لیکن وہ ٹوپی نہ ملی۔ اس کے بعد لوگوں نے پھر تلاش شروع کی تو مل گئی۔ یہ ایک پھٹی پرانی ٹوپی تھی۔ اس وقت خالد نے کہا:

 

 

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عمرہ کیا اور اپنے بال تراشے۔ لوگ آپ(ص) کے بالوں کی طرف ٹوٹ پڑے۔ میں نے سبقت کرتے ہوئے پیشانی کے بال حاصل کئے اور انہیں اس ٹوپی میں رکھا۔ جب بھی میں ان بالوں کے ہمراہ کسی جنگ میں شرکت کرتا ہوں تو مجھے فتح حاصل ہوتی ہے۔ 7

 

 

 
 

اس کے علاوہ بخاری نے نقل کیا ہے کہ زوجہ ٴ رسول(ص) حضرت ام سلمہکے پاس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کچھ موئے مبارک تھے۔ جب کسی انسان کو نظر بد لگ جاتی تو ان (ام سلمہ ) کے پاس پانی کا ایک کٹورا بھیجتے تھے۔ وہ اس پانی میں بالوں کو ڈبوتی تھیں اور بیمار اس پانی سے اپنا معالجہ کرتا تھا۔8

 

 

 
 

اس کے علاوہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ عبیدہ نے کہا:

 

 

 
 

اپنے پاس رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک بال رکھنا مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز ہے۔,9

 

 

 
 

 

 

 

 

 

 
 

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تیر سے طلبِ برکت

 

 

 
 

بخاری نے صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی فوج کے ساتھ حدیبیہ کے آخری حصے میں ایسے مقام پر اتر گئے جہاں پانی کم تھا۔ لوگ اس پانی سے بمشکل کام چلاتے تھے۔ تھوڑی دیر میں لوگوں نے اس پانی کو نکال کر ختم کر دیا اور حضور بنی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ترکش سے ایک یر نکالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ تیر کو اس جگہ رکھیں۔ اللہ کی قسم پانی خوب جوش مار کر نکلتا رہا یہاں تک کہ وہ سب وہاں سے واپس لوٹے۔,10

 

 

 
 

 

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلی کے نشان سے حصول تبرک

 

 

 
 

صحابی رسول(ص) حضرت حنظلہکے حالات میں الاصابہ اور مسند احمد میں جو واقعہ منقول ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: حضرت حنظلہ نے کہا کہ میرا دادا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لے گیا اور عرض کرنے لگا میرے کئی بیٹے ہیں۔ ان میں سے بعض بڑے ہیں اور بعض چھوٹے۔ یہ ان سب سے چھوٹا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کیجئے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:

 

 

خدا تجھے برکت دے۔
 
 

راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت حنظلہکے پاس ایسے انسان کو لاتے ہوئے دیکھا جس کا چہرہ سوجا ہوا ہو یا ایسے حیوان کو جس کا تھن سوجا ہوا ہو۔ اس وقت حضرت حنظلہاپنے ہاتھوں پر لعاب دہن ڈال کر کہتے تھے ”بسم اللہ“ پھر وہ اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر کہتے تھے:

 

 

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم“ کی ہتھیلی رکھنے کی جگہ کی برکت سے۔

 

 

 
 

اس کے بعد ہاتھ اس پر پھیرتے تھے تو سوجن فوراً ختم ہو جاتی تھی۔11 الاصابہ کے الفاظ یہ ہیں:

 

 

 
 

وہ بسم اللہ کہہ کر اپنا ہاتھ اپنے سر پر اس جگہ رکھتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا وہاں اپنا ہاتھ پھیرتے تھے۔ اس کے بعد سوجن والی جگہ پر ہاتھ پھیرتے جس سے سوجن ختم ہو جاتی تھی۔

 

 

 
 

          حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وجود مبارک سے آپ(ص) کے آس پاس والوں کی طرف برکت اسی طرح پھیلتی تھی جس طرح سورج سے روشنی پھیلتی ہے یا پھول سے خوشبو۔ برکت ہر جگہ آپ(ص) کے ساتھ رہتی تھی، خواہ آپ(ص) کے بچپن کی زندگی ہو یا اس کے بعد والی زندگی، آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، رات ہو یا دن، خواہ آپ (ص)جناب حلیمہ سعدیہکے اونی خیمے میں دودھ پی رہے ہوں یا شام کے سفر تجارت میں ہوں، خواہ ہجرت کے دوران ام معبدکے خیمے میں ہوں یا مدینے میں قائد و حاکم کی حیثیت میں ہوں۔ بہر کیف یہاں ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ تو آپ کی برکات کی صرف ایک جھلک ہے ورنہ

 

 

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے
 
 

کیونکہ ان امور کا مکمل بیان ممکن نہیں ہے۔ علاوہ بریں صاحبان عقل و دل کے لئے مذکورہ مثالیں ہی کافی ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے طلب شفاعت کے مسئلے پر روشنی ڈالیں گے۔ اس کے بعد تمام لوگوں کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعض امتیازی خصوصیات کے بارے میں امت کے درمیان اختلاف کی وجوہات کا ذکر کریں گے انشاء اللہ۔

 

 

 
 
 
 

 

 

حوالہ جات

 

 

 
 

 

 

۱صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة خیبر ج۳ صفحہ ۳۵باب دعاء النبی الی الاسلام ج۲صفحہ ۱۰۷، صحیح مسلم باب فضائل علی بن ابی طالب، سنن ترمذی باب مناقب علی بن ابی طالب

 

 

۲صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر ۷۱۳۲ 
 
 

 

 

۳صحیح بخاری باب التماس الوضوء اذا حانت الصلوة ج۱ صفحہ۳۱

 

 

 
 

 

 

۴ صحیح بخاری باب الشروط فی الجہاد والمصالحة ج۲ صفحہ ۸۲، باب البزاق والمخاط، باب استعمال فضل وضوء الناس، مسند امام احمد ج۴ صفحہ ۳۲۹ طبع مصر

 

 

5 صحیح مسلم باب بیان ان السنتہ یوم النحر حدیث نمبر ۳۲۳، ۳۲۶ 
 
 

 

 

6 صحیح مسلم باب قرب النبی من الناس حدیث نمبر ۱۷۴

 

 

 
 

 

 

7 المستدرک علیٰ الصحیعین باب مناقب خالد بن ولید ج۳ صفحہ ۲۹۹طبع دکن، کنز العمال بر حاشیہ مسند امام احمد ج۵ صفحہ ۱۷۸، البدایہ و النھایہ ج۷ صفحہ ۱۱۳ طبع مصر

 

 

 
 

 

 

8 صحیح بخاری باب ما یذکر فی الشیب ج۴ صفحہ ۲۷

 

 

 
 

 

 

9 صحیح بخاری باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان ج۱ صفحہ ۳۱، طبقات ابن سعد ج۶ صفحہ ۶۳

 

 

 
 

 

 

10 صحیح بخاری باب الشروط فی الجھاد ج۲ صفحہ ۲۹، وباب ذکر علامات بعد نزول وحی

 

 

 
 

 

 

11 مسند امام احمد ج۵ صفحہ ۶۸ طبع مصر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.