حکومت کی عظیم منصوبہ بندی (2)
اس وقت ھمارے معاشرہ کو اسلام کی ھمیشگی ثقافت ، کلچراور عظیم میراث کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ھے تاکہ دشمنان اسلام کےثقافتی حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے، اور ان چیزوں کو اپنی آئندہ نسل میں صحیح وسالم چھوڑ کر جائے، جواسلامی اور انقلابی اھداف کے لئے بھت ھی زیادہ ضرورت مند ھیں لھٰذا اس ھدف تک پھنچنے کے لئے علمی اور باریک مسائل کو آسان زبان میں پیش کرنے کی ضرورت ھے تاکہ اکثر عوام الناس اس کو سمجھ کر ھضم بھی کرسکے، اور ان کو علمی اور مشکل اصطلاحات میں پھنسنے سے نجات بھی مل جائے۔چنانچہ ھم نے مذکورہ ھدف کے پیش نظر یہ طے کیا کہ اس طرح کے مسائل “اسلامی سیاسی نظریھ” کے تحت دو حصوں میں بحث کریں جس کا پھلا حصہ مکمل ھو چکا ھے ، جس میں یہ بیان کیا گیا کہ انسانی معاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت ھے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے قانون کا بنانے والا صرف خدا یا وہ افراد جو خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ اور قانون گذاری کی کافی ووافی صلاحیت رکھتے ھوں چنانچہ اس سلسلہ میں بحث ھوچکی ھے ، ضمناً اس سلسلہ میں ھوئے اعتراضات کے بھی جلسوںکے لحاظ سے جوابات دئے گئے۔اور ھماری بحث کا دوسرا حصہ حکومت بمعنی خاص کے سلسلہ میں ھے ، در حقیقت پھلے حصے میں حکومت بمعنی عام (جس میں قوہ مقننہ (پارلیمنٹ ) بھی شامل تھی) کے بارے میں گفتگو ھوئی جس کے تحت قانون اور قانون گذاری کے سلسلہ میںبحث ھوئی لیکن اس وقت ھماری بحث حکومت بمعنی خاص؛ یعنی قوہ مجریہ کے بارے میں ھے۔
2۔ حکومت، انسانی معاشرہ کی دائمی اور ھمیشگی ضرورت ھے۔حکومت کی مختلف شکل وصورت اور ڈھانچوں کو چھوڑتے ھوئے (کیونکہ اس کی بحث اپنی جگہ ھوگی) جیسا کہ ھم نے پھلے جلسہ میں بھی اشارہ کیا ؛ تمام سیاسی صاحب نظر افراد، معاشرہ کے لئے حکومت پر اتفاق رائے رکھتے ھوئے اس کو ضروری مانتے ھیں صرف “آنارشیسٹ” “Anarchiste” (مفسدہ جویان) معاشرہ کے لئے حکومت کے قائل نھیں ھیں، یونانی قدیم فلسفہ کے زمانہ میں اس گروہ کے طرفدار پائے جاتے تھے، جن کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر عوام الناس قوانین کو پھچانے اور اخلاقی عھد پر عمل کریں تو پھر ان کوحکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔لیکن حقیقت یہ ھے کہ یہ تھیوری کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ عملی نھیں ھوئی جبکہ اس کے مقابلہ میں عملی طور پر تمام معاشروں میں حکومت کی ضرورت کا احساس ھوا ، اور یہ احساس اسی طرح سے آج تک باقی ھے۔ھم اپنے بھائیوں کے لئے حکومت کی ضرورت کے نظریہ کو مزید روشن کرنے اور ان کو بعض مغالطوںکے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لئے عرض کرتے ھیںکہ مذکورہ نظریہ پر سب کا اتفاق ھے اور انسانی معاشرہ کی واقعیات کی شناخت پر مبنی ھے، اس کی وضاحت یہ ھے کہ اگر کوئی شخص مخلوقات ، روحیات، معاشرہ کے نشیب وفراز اور واقعیت سے آنکھیں بند کرکے ایک بند کمرہ میں اس چیز پر تجزیہ وتحلیل کرے اور انسانوں کو بالکل فرشتوں جیسا تصور کرے جو خیر خواھی اور فضائل کے حصول میں لگے ھوئے ھیں اور پاک وپاکیزہ خصلت وعادت کے مالک ھیں اس کی نظر میں اگر تعلیم کا نظام اور صحیح تربیت عام ھوجائے اور عوام الناس تربیتی لحاظ سے مودب ھوجائیں کہ اپنے اخلاقی خواھشکے تحت قانون کے سلسلے میں عھد کریں اور اس پر عمل کریں اور( کبھی بھی ) مخالفت نہ کریں ، اسی طرح اگر صحیح قوانین اور معاشرہ یا شخص کے فوائد ، نیز قانون شکنی کے مفاسد ونقصانات عوام الناس کے لئے بیان ھوجائیں، اور پھر صحیح راستہ کا انتخاب ان کے اوپر چھوڑدیا جائے تو پھر کوئی بھی شخص قانون کی مخالفت نھیں کرے گا بلکہ قوانین کے مطابق عمل کرے گا بالکل اسی شخص کی طرح جس کو یہ معلوم ھو کہ اس کھانے میں زھر ملا ھوا ھے تو وہ اس کھانے کو نھیں کھائے گا، اسی طرح عوام الناس بھی ایسے کام کریں گے جو ان کے مفاد میں ھوں اور وہ کام جو ان کے یا معاشرہ کے لئے نقصان دہ ھوں گے ان کو انجام نھیں دیں گے لھٰذا حکومت اور قوانین کو تحمیل کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔!!قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ ایک خیالی پلاؤ کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے کیونکہ جو لوگ انسانی زندگی اور معاشرتی زندگی کی واقعیات سے با خبر ھیں یا وہ افراد جو تاریخ بشریت اور گذشتہ معاشروں کی تاریخ سے مطلع ھیں، ھر گز یہ احتمال نھیں دے سکتے کہ کم سے کم آئندہ نزدیک میں اس طرح کا ماحول پیدا ھوجائے گا کہ لوگوں کے درمیان اخلاقی اقدار کے رائج اورپھیلنے کے بعد تمام لوگ آٹومیٹک طریقہ پر نیک کام کرتے ھوئے نظر آنے لگیں، اور ان کو برے کاموں کی ھوا تک نہ لگے، کوئی بھی جھوٹ نہ بولے، خیانت نہ کرے، لوگوں کے مال اور ناموس (عورتوں) کی طرف بری نظر نہ اٹھائے، لوگوں کے حقوق پر تجاوز اور ظلم نہ کرے اسی طرح بین الاقوامی مسائل کے سلسلہ میں کوئی ملک اپنے پڑوسی ملک پر ظلم نہ کرے!!
3۔ حکومت کی ضرورت پر اسلام اور قرآن کا نظریہاسلام نے بھی بغیر حکومت کے معاشرہ کو( کہ اس کی صحیح تربیت ھوجائے نیز مصالح ومفاسد اور قوانین کے آشنائی ھونا کافی ھے) ایک خیال خام اور حقیقت سے دور بیان کیا ھے، اسی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے متعلق آیات میں ، خلقت انسان کو اس طرح بیان کیا ھے کہ انسان کے نقاط ضعف اور اس میں خطا ولغزش کا امکان ظاھر ھوتا ھے:( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاٴَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا اٴَتَجْعَلُ فِیھا مَنْ یُفْسِدُ فِیھا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی اٴَعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ)(1)”اے رسول! اس وقت کو یاد کروجب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ھوں اور انھوں نے کھا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین پر فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ھم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ھیں تو ارشاد ھوا کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم نھیں جانتے ھو۔” جس وقت فرشتوں نے انسان کے بارے میں اجتماعی فساد اور خونریزی کے بارے میں خبر دی تو خداوندعالم نے اس کا انکار نھیں کیا بلکہ ان کے جواب میں انسانی خلقت کی حکمت کی طرف اشارہ کیا جس سے فرشتہ باخبر نھیں تھے۔اسی طرح دوسری آیات میں انسان کی بعض کمزوری کی طرف اشارہ کیا ھے، منجملہ یہ آیات:1۔ (إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ ھلُوعًا إِذَا مَسَّہ الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّہ الْخَیْرُ مَنُوعًا۔)(2)”بیشک انسان بڑ ا لالچی پیدا ھواھے جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبراگیا اور جب اسے ذرا فراخی حاصل ھوئی تو بخیل بن بیٹھا”2۔(اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ )(3(“بے شک انسان بڑا ظالم اور انکار کرنے والا ھے۔ “واقعاً یہ نکتہ قابل توجہ ھے کہ مذکورہ آیت میں خداوندعالم نے انسان کو “ظلوم” کے نام سے پھچنوایا ھے جو مبالغہ کا صیغہ ھے اور بھت ظلم کرنے والے کے معنی میں ھے اور انسان کو اس نام سے یاد کرنے کا مطلب یہ ھے کہ اس کے اندر ظلم، سرکشی اور ناشکری اس قدر ھے کہ اس کو فراموش نھیں کیا جاسکتا اور ھمیشہ انسانی معاشرہ ظلم اور ناشکری سے بھرا ھوا ملے گا، تو پھر یہ نظریہ قابل قبول نھیں ھے کہ تعلیم وتربیت اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ھے جس میں تمام افراد کا اچھا اور پسندیدہ کردارھو، اور کوئی ایک انسان بھی قوانین اور اخلاقی اقدار سے سرپیچی نھیں کرے گا، اور اس صورت میں حکومت اور طاقت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ جیسا کہ قرآن مجید بھی اس نظریہ کا مخالف ھے، جبکہ موجودہ حقائق نے بھی یہ بات واضح کردی کہ انسانی معاشرہ میں مختلف وجوھات کی بنا پر ھمیشہ جرائم اور مخالفت رھی ھے البتہ بعض افراد نے جرائم کے اسباب اور جرائم کی وجوھات کے بارے میں پتہ لگایا ھے اور جھل ونادانی اور وراثتی عوامل وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ھے ، لیکن اس وقت ھم اس کو بیان نھیں کرنا چاھتے ، ھم تو یہ بیان کرنا چاھتے ھیں کہ انسانوں کے درمیان قانون کی مخالفت اور جرائم اور گناہ کا ارتکاب ھمیشہ رھا ھے جس کے پیش نظر آسانی کے ساتھ یہ پیشن گوئی بھی کی جاسکتی ھے کہ آئندہ بھی ایسا ھی رھے گا۔ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ خداوندعالم کے لطف وکرم سے ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ھاتھوں ایک اسلامی نمونہ معاشرہ تشکیل پائے گا لیکن پھر بھی اس بات پر توجہ رھے کہ اس زمانہ میں بھی قوانین کی مخالفت اور گناہ انجام دئے جائیں گے، اس کے علاوہ وہ معاشرہ بھی ھمیشہ نھیں رھے گا یھاں تک کہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ھے کہ حضرت ولی عصر امام زمانہ (ع) کی مخالفت میں قیام کیا جائے گا اور آپ (ع) کو شھید کردیا جائے گا۔پس ھمیں اس چیز کی توقع نھیں رکھنا چاھئے کہ حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے زمانہ حکومت میں ایک نمونہ اور مطلوب معاشرہ تشکیل پائے گا جو گناہ اور نافرمانی سے بالکل پاک وپاکیزہ ھوگا البتہ امام علیہ السلام کی حکومت اور طاقت کا استعمال اس طریقہ سے ھوگا کہ اس میں کسی طرح کے ظلم و جور کو بغیر جواب دئے نھیں چھوڑا جائے گا نیز اس زمانہ میں عدالت عام ھوجائے گی، اسی بنا پر معاشرہ میں جرائم وگناہ کم ھوجائیں گے، لیکن بالکل ھی ان کا خاتمہ نھیں ھوگا؛ کیونکہ انسان فرشتوں کی طرح نھیں بن سکتا، اور اس کی فطرت انسانی رھے گی، اس میں گناہ و عصیان اور جرائم کے امکانات پائے جائیں گے۔لھٰذا طے یہ ھوگیا کہ ان تمام حقائق کے پیش نظر حکومت کا ھونا ضروری ھے لیکن اگر کوئی شخص گھر کے ایک کونے میں بیٹہ کر اپنے محدود ذھن میں اس طرح کے معاشرہ کا تصور کرے کہ اخلاقی اور تربیتی ترقی کے بعد ایک ایسا معاشرہ پیدا ھوجائے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی ظلم وفساد نہ ھو تو یہ بات حقیقت جامعہ سے بھت دور ھے واقعاً عوام الناس کے درمیان جائے اور ان کے کاموں کا مشاھدہ کرے کہ کس طریقہ سے نیکیوں اور اچھائیوںکے ھوتے ھوئے بھی گناہ وانحراف کا شکار ھوجاتے ھیں کیونکہ جو لوگ اخلاقی مسائل کو اھمیت نھیں دیتے ان کی بات تو الگ ھے جو افراد نیک اور اچھے ھوتے ھیں ان سے بھی کبھی کبھی گناہ اور مخالفت ھوجاتی ھے تو پھر یہ بات ظاھر ھے کہ جرائم اور تخلفات کی روک تھام کے لئے معاشرہ میںمناسب اور شائستہ قوانین (4) کا نفوذ ضروری ھے، کیونکہ جب معاشرہ میں قوانین نافذ ھونے کے لئے بنائے گئے ھیں تو پھر ان کو نافذ کرنے والے ضامن کی ضرورت ھے حکومت کے وجود کے لئے سب سے عمدہ اور بھترین دلیل ؛ معاشرہ میں مختلف طریقوں سے قوانین کو نفوذ کرنے کی ضمانت ھے، اور اسی چیز کو ھم بیان کرنا چاھتے ھیں ، انشاء اللہ ھم اپنی آئندہ بحث میں حکومت یا حکومتی شعبہ جات وغیرہ کی ذمہ داریوں اور اس کے اختیارات کی بحث کریں گے
4طاقت و قدرت کی ضرورتقارئین کرام ! قانون بغیر متولی کے نہ رھے اور ان کی تعطیل نہ ھوجائے اور جرائم وخلاف کاریوں کی روک تھام کی جاسکے ، اسی طرح معاشرہ کے امن وامان کو خطرہ میں ڈالنے کی سازشوں کا سد باب کیا جاسکے اور اسی طرح ملک اور اسلامی معاشرہ پرخارجی دشمنوں کے ھجوم کوروکا جاسکے تو ان تمام چیزوں کے لئے ایک طاقتور حکومت کا ھونا ضروری ھے ، تاکہ قوانین کو جاری کرنے ، دیگر امور کی تشریح، عقائد اوراقدارکی حفاظت کرنے اسی طرح معاشرہ کی اندورنی اور بیرونی امنیت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کو نبھا سکے اسی وجہ سے سیاسی فلسفہ میں “مفھومِ قدرت” کو ایک بنیادی مفھوم قرار دیا گیا ھے یھاں تک ان لوگوں کے نزدیک بھی جنھوں نے “سیاست” کو “علم قدرت” سے تعبیر کیا ھے۔ اب جبکہ حکومت اور قوہ مجریہ کا وجود ثابت ھوگیا اور یہ بھی بیان ھوگیا کہ حکومت کا صاحب اقتدار اور صاحب طاقت ھونا ضروری ھے، یہ سوال پیش آتا ھے کہ قدرت کا سرچشمہ کیا ھے؟ اور کس بنیاد پر حکومت کے عھدہ دار قدرت اور اقتدار رکھتے ھوں تاکہ جرائم سے روک تھام اور قوانین کو نافذ کرنے کے ذمہ داری کو پورا کرسکیں؟ چنانچہ فلسفہ سیاست کے بارے میں بھت زیادہ فنّی اور خاص بحثیں ھوئی ھیں لیکن ھم اختصار کو مدنظر رکھتے ھوئے اس کو روان اور سادہ زبان میں عرض کرتے ھیں۔انسانی معاشرہ میں ھمیشہ سے بعض افراد بعض وجوھات کی بنا پر مثل کم عقلی،(ادواری) جنون، بری تربیت یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کی بنا پر جرائم کے مرتکب ھوتے رھے ھیں،مثلاً کسی جگہ آگ لگادےتے ھیں ، چاقو یا روالور کے ذریعہ کسی بے گناہ انسان پر حملہ آور ھوجاتے ھیں اسی طرح دوسرے جرائم کے مرتکب ھوتے ھیں کہ الحمد للہ ھمارے ملک میںجرائم کی تعداد کم ھے لیکن آج کے ترقی یافتہ ممالک (یورپ اور امریکہ وغیرھ) میں جرائم کی تعداد کھیں زیادہ ھے؛ جیسا کہ بعض معتبر اخباروں کے ذریعہ یہ خبر ملی تھی کہ کسی ایک ملک کے پائے تخت میں ھر ایک منٹ میں کئی قتل ھوتے ھیں یا ایک دوسرے ملک کی پائے تخت میں ھر آدھے منٹ میں ایک قتل ھوتا ھے (5)اور یہ رپورٹ ان ملکوں کے سرکاری اخباروں کے ذریعہ نشر ھوتی ھے، در اگر ھمارے 60/ ملین افراد والے ملک میںکبھی کوئی قتل ھوجاتا ھے تو ھمیں تعجب ھوتا ھے کہ کیوں ھمارے اسلامی ملک میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا!!خلاصہ یہ کہ اس طرح کے جرائم اور خلاف ورزیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت ظاھری اور مادی طاقت رکھتی ھو جس وقت کسی بے گناہ انسان پر ظلم وستم ھو، یا کسی پرشدت سے تجاوز ھوتا ھے یا کسی جگہ پر چوری ھوتی ھے یا ڈاکاپڑتا ھے، تو ایسے مقامات پر حکومت کے بعض افراد (پولیس) اپنی بھر پور طاقت کے ذریعہ ان جرائم کا مقابلہ کریں تاکہ قوانین کے نفاذ کی ضمانت ھوسکے۔قارئین کرام ! قوانین کو جاری کرنے اور ان کی ضمانت کے امکان کے لئے نیز مجرموں سے مقابلہ کرنے کے لئے پھلی شرط ظاھری ، مادّی اور جسمانی طاقت کا ھونا ضروری ھے اگرچہ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اسلحہ وغیرہ میں بھی ترقی ھوئی ھے جن کی وجہ سے مجرموں کے ھاتھوں میں نئے نئے قسم کے اسلحے ھوتے ھیں، اسی طرح ادھر حکومت نے بھی مجرموں کو سزا دینے کے لئے الکٹرانک مشینیں ایجاد کرلی ھیں، لیکن پھربھی ان قوانین کو جاری کرنے والے کے لئے جسمانی طاقت سے بھرہ مند ھونا ضروری ھے چنانچہ اسی ضرورت کے تحت تمام حکومتوں کے پاس چاھے چھوٹی ھوں یا بڑی، ترقی یافتہ ھوں یا غیر ترقی یافتھ؛ تمام کی تمام ان جرائم اور ظلم وستم سے مقابلہ نیز اندرونی امنیت کی برقراری کے لئے پولیس کا انتظام کرتی ھے اور ان کو اپنے حساب وکتاب سے اسلحہ وغیرہ دیتی ھے اور حکومت جتنی چھوٹی ھوگی اس کے پاس اسلحہ وغیرہ سادہ اور کمتر ھوگا اور اگر حکومت بڑی، ترقی یافتہ اور پیچیدہ تر ھوگی اسی حساب سے اس کی پولیس بھی جدید طریقہ اور ترقی یافتہ اسلحوں سے لیس ھوگی۔اس بنا پر ھر ملک کی پولیس کا مختلف قسم کے تمام تر اسلحوں سے لیس ھونا ضروری ھے، اور یہ اس بات کی دلیل ھے کہ حکومت بغیر قدرت کے عملی طور پر قوانین کو نافذ نھیں کرسکتی لھٰذا طے یہ ھوا کہ ھر معاشرہ میں قوہ قھریہ ( پولیس ) کا ھونا ضروری ھے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اس سے ڈریں اور جرائم کے قریب نہ جائیں اور اگر جرائم کے مرتکب ھوگئے ھیں تو ان کو سزا مل سکے۔
5۔ مدیروں میں تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت ھونا ضروری ھےقارئین کرام ! اب تک کی باتوں سے یہ اندازہ لگانا آسان ھے کہ قوانین کو نافذ کرنے، امن وامان کو باقی رکھنے،جرائم اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز سے روک تھام کے لئے حکومت کے پاس سبھی طرح کی طاقت کا ھونا ضروری ھے لیکن یہ بھی توجہ رکھنا ضروری ھے کہ اس عھدہ کی حفاظت اور قوانین کو نافذ کرنے اور اس کی ضمانت کے لئے صرف جسمانی اور اسلحہ کی طاقت اور مادّی مھارتیں کافی نھیں ھیں بلکہ وہ شخص جو قوانین جاری کرنے کے لئے منتخب ھو اوراس ھدف کی خاطر ضروری امکانات اور اسلحہ جات اس کے اختیار میں دئے جائیں تو اس کو صاحب تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت کا مالک ھونا چاھئے، کیونکہ اگر کوئی صاحب تقویٰ نہ ھو تو جو طاقت اس کے اختیار میں دی گئی ھے نہ صرف یہ کہ فائدہ نھیں دے گی بلکہ اس سے معاشرہ کا نقصان ھوگااور معاشرہ کے لئے بھت سی مشکلات پیدا ھوسکتی ھیں، کیونکہ وہ اس طاقت اور قدرت سے سوء استفادہ کرے گا اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پھلے اور ملت ایران کے شاہ سے مقابلہ کے دوران حضرت امام خمینی ( رحمةاللہ علیھ) نے ایک بیان میں فرمایاجس کا مضمون یہ ھے کہ اسلحہ نیک اور شائستہ افراد کے ھاتھوں میں دیا جائے، تاکہ شاہ سے مقابلہ کے دوران ، ان کا ھدف عوام الناس کے حقوق دلانا اور اسلام کی حاکمیت کو برقرار رکھنا ھو، نہ یہ کہ وہ صرف قدرت پر قبضہ کرنا چاھیں؛ لیکن اگر اسلحہ غیر شائستہ لوگوں کے ھاتھوں میں چلا گیا، تو در حقیقت یہ قدرت ؛ طاقتور شیطان کے ھاتھوں میں چلی گئی ھے کہ جس کا نتیجہ معاشرہ میں فتنہ وفساد اور تباھی کے علاوہ اور کچھ نھیں ھوگا۔خلاصہ گفتگو یہ ھے کہ صرف ظاھری قدرت معاشرہ کے منافع ومصالح کی ضامن نھیں ھوسکتی ، بلکہ جو شخص قوانین کو جاری کرے اور قدرت کو اپنے ھاتھوں میںلے تو اس میں مادّی اور ظاھری مھارت کے علاوہ تقویٰ اور اخلاقی شائستگی کا ھونا ضروری ھے پس اس صورت میں حکومت اپنے تمام تر امکانات اور طاقت وقدرت کے ساتھ ، نیز ان امکانات سے صحیح طریقہ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ھوئے معاشرہ کی اصلاح کے لئے صحیح رجحان کے تحت اپنی پوری طاقت صرف کردے، اور میدان عمل میں ھویٰ وھوس اور ذاتی مفاد کا شکار نہ ھو لیکن اگر کوئی شخص تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت سے بھرہ مند نہ ھو ،اور اس کے ھاتہ طاقت اور مادّی امکانات آجائیں تو اس کو غرور ھوجاتا ھے اور ھویٰ وھوس، شیطانی خواھشات اور جاہ طلبی وغیرہ کے لئے اس قدرت کو استعمال کرنے لگتا ھے ، جس کے نتیجہ میںصحیح راستے سے منحرف ھوجاتا ھے اور معاشرہ میں تباھی وبربادی کے علاوہ کچھ اور نھیں کرپاتا اس صورت میں معاشرہ میںاس کا نقصان اور ضرر عام تباہ کار سے زیادہ ھوتا ھے؛ جیسا کہ فاسد بادشاہ جس ظلم وبربریت کے مرتکب ھوتے ھیںاس کا دوسرے جرائم سے مقائسہ اور مقابلہ نھیں کیا جاسکتا۔البتہ قانون کا جاری کرنے والا ، قانون اور اس کے مختلف پھلوٴوں کی بحد کافی شناخت رکھتا ھو؛ کیونکہ حکومت قانون کو جاری کرنے کے لئے ھوتی ھے اور حکومتی افراد جس عھدہ پر بھی ھوں ؛ قانون کے مجری ھونے کے ناطے قانون سے بحد کافی آگاھی رکھتے ھوں ورنہ تو اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا چاھے اور قانون پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ھو، لیکن چونکہ قانون سے صحیح طریقہ سے آشنا نھیں ھے مقام عمل میں غلطی کا امکان پایا جاتا ھے، اسی طرح قانون کو اس کے مصداق پر تطبیق کرنے پر بھی قادر نھیں ھوسکتا، درحالیکہ ایسا شخص بری نیت بھی نھیں رکھتا اور اخلاقی صلاحیت سے بھی بھرہ مند ھوتا ھے لیکن چونکہ قانون کے بارے میں علم نھیں رکھتا اور قانون سے صحیح نتیجہ بھی نھیں نکال سکتا جس کے نتیجہ میں منحرف ھوجائے گااور غلط راستہ پر چل پڑے گا اور عملی میدان میں معاشرہ کے منافع کو پامال کردے گا۔بنا برین مجری قانون کو قانون سے آشنا ھونا چاھئے ،وہ قانون جاری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ھو اور تقویٰ و اخلاقی صلاحیت بھی رکھتا ھو۔البتہ متون دینی میں فقیہ کے لئے یہ تین شرطیں قانون جاری کرنے کی قدرت اور مدیریت بیان کی گئی ھیں ،لیکن ان تینوں کلی شرطوں کے بھت سے اجزاء ھیں کہ ھم اس وقت ان کوبیان نھیں کر رھے ھیں چونکہ ھم کلیات بیان کر رھے ھیں جزئیات نھیں ۔
6۔ فلسفہ سیاست میں حکومت کی مشروعیتقارئین کرام ! اس سلسلہ میں ایک بحث کا بیان کرنا مقصود ھے جیسا کہ گذشتہ جلسہ میں بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ھے، اور وہ یہ ھے کہ حکومت کی مشروعیت (حق حکومت)اور اس کے قانونی ھونے کا معیار وملاک کیا ھے؟ لھٰذا اس چیز کی تحقیق اورجائزہ لینا ضروری ھے کہ کن معیار کے تحت ایک ملت کی حکومت کو کسی شخص یا کسی پارٹی کے سپرد کی جاسکتی ھے تاکہ وہ قدرت سے استفادہ کرسکے واقعاً یہ بحث فلسفہ سیاست کی ایک اصل اور بنیادی بحث ھے اور اس کو مختلف نظریات کی بنا پر مختلف طریقہ سے مورد بررسی وتحقیق قرار دیا گیا ھے اور اس کو بیان کرنے کے لئے بھی مختلف تعبیریں پیش کی گئی ھیں ان میں سے ایک تعبیر “قدرت اجتماعی” کے نام سے موجود ھے جسے عوام الناس تسلیم نھیں کرتی،یعنی حکومتی افراد کے اندر مادّی وجسمانی اور مدیریت کی قدرت کے علاوہ ایک دوسری قدرت بھی ھو جس کو “قدرت اجتماعی” کھا جاتا ھے اب سوال یہ ھوتا ھے کہ حکومت قدرت اجتماعی کی مشروعیت اور قانون کو جاری کرنے کا حق کھاں سے حاصل کرتی ھے؟ ایک چہ کروڑافراد کی آبادی میں بھت اھم شخصیات ، ماھر افراد اور شائستہ افراد ھوتے ھیں، ان میں سے کس طرح ایک شخص حکومت کی لگام کو ھاتہ میں لے سکتا ھے؟ کون اس قدرت کو اس کے حوالہ کرتا ھے؟ بنیادی طور پر حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد کی مشروعیت(اور جواز حکومت) کھاں سے آتی ھے؟اس سلسلہ میں مختلف صاحب نظروں نے مختلف جوابات دئے ھیں، لیکن آج کی دنیا میں رائج اور متفق علیہ جواب یہ ھے کہ حکومت یا رئیس حکومت کو یہ طاقت عوام الناس دیتی ھے گویا یہ قدرت عوام الناس کے ارادہ ومرضی سے کسی کو دی جاتی ھے، اور اگر کوئی شخص اس قدرت پر کسی دوسرے راستہ سے قابض ھوجاتا ھے وہ قدرت مشروعیت نھیں رکھتی اس قدرت کو کسی شخص کے لئے اپنے آباء واجداد سے ارث میں لینا ممکن نھیں ھے؛ جیسا کھ(انقلاب سے پھلے) شاہ کی حکومت کا یہ نظریہ تھا کہ قدرت اور حکومت میراثی ھے مثلاً جب کوئی سلطان اس دنیا سے جائے تو اس کا بیٹا میراث کے عنوان سے اس پر قابض ھوجائے اور اس میں عوام الناس کا کوئی کردار نہ ھو اگرچہ حکومت کا یہ طریقہ آج بھی بعض ملکوں میں رائج ھے، لیکن آج کی دنیا میں موجود کلچر اس سسٹم کو قبول نھیں کرتااور یہ تھیوری عام لوگوں کی نظر میں قابل قبول نھیں ھے، اور ایسا نھیں ھے کہ اگر کوئی شخص عوام الناس پر حکومت کی بھترین صلاحیت رکھتا ھے تو اس کا بیٹا بھی وھی صلاحیت اور شائستگی رکھتا ھو اس کے علاوہ عوام الناس اس طریقہ کار کو اچھا نھیں سمجھتی، بلکہ اس کے خلاف دیکھنے میں آیا ھے اور بھت سے ایسے مورد دیکھے گئے ھیں جن میں میراثی حاکم سے بھتر اور مناسب افراد موجود ھو جاتے ھیں۔
قارئین کرام !چونکہ بادشاھت اور سلطنت کا سسٹم آج کے زمانہ میں قابل قبول نھیں ھے اور اس کی مخالفت بھی ھوتی رھی ھے، کیونکہ بعض بادشاھی نظام میں اس طرح کی کوشش کی گئی ھے کہ بادشاھت برائے نام باقی رہ گئی، اور بادشاہ سے قدرت چھن گئی ھے اور جو شخص عوام الناس کا منتخب شدہ ھوتا ھے مثلاً وزیر اعظم ؛ یہ طاقت اس کے حوالہ ھوجاتی ھے در حقیقت ان ممالک میں صرف بادشاھت کا نام باقی ھے جب کہ واقعی قدرت اس سے چھن چکی ھے۔پس عام عقیدہ اور آج کل کے زمانہ میں رائج ڈیموکریٹک”Democratic” نظام کے تحت جو شخص حکومت کرنے کی صلاحیت اور قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت اپنے ھاتہ میں لیتا ھے وہ عوام الناس کا منتخب شدہ ھو ،اور صرف عوام الناس کے ارادہ ومرضی کے ذریعہ حکومت مشروعیت پیدا کرتی ھے البتہ عوام الناس کا طریقہ انتخاب اور ان کے نظریات مختلف ھوتے ھیں ، اور اس سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ھیں، مثلاً بعض ممالک میں صدر حکومت کو عوام الناس اپنی اکثریت سے براہ راست انتخاب کرتی ھے ، جبکہ بعض ملکوں میں حکومت کے رئیس کو پارٹیاں اور پارلیمنٹ کے ممبران انتخاب کرتے ھیں، در حقیقت ممبر آف پارلیمنٹ عوام الناس اور رئیس حکومت کے درمیان واسطہ کے کام کرتے ھیں بھر حال جو شخص براہ راست یا بالواسطہ عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ھوتا ھے اس کو حکومت اور قدرت مل جاتی ھے اور اس کے بعد وہ اجرائے قانون کی سب اھم شخصیت اور معاشرہ کی رھبری اور ھدایت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ھے۔البتہ عوام الناس کی طرف حاکم کو حکومت دینا ایک ظاھری اور فیزیکی چیزوں میں سے نھیں ھے کہ مثلاً عوام الناس اپنے پاس سے کوئی چیز نکال کر اس حاکم کو دیں یا اس کے جسم میں کوئی خارق العادہ طاقت ایجاد کریں بلکہ یہ حکومت غیر مادّی ھے جو عوام الناس کی موافقت سے حاکم کے لئے وجود میں آتی ھے لھٰذا اسی قرار داد کے تحت یہ عھد کیا جاتا ھے کہ مثلاً دو سال، چار سال، سات سال یھاں تک کہ زندگی بھر کے لئے (ان قوانین کے تحت جو آج کے زمانہ میں مختلف ممالک میں رائج ھیں) ان کا حاکم مقرر ھو ، اور عوام الناس اپنے منتخب شدہ حاکم کے فرمان کے تحت باقی رھیں۔اس فرضیہ کے مطابق حکومت اور قوانین کا مجری، عوام الناس سے اپنی قدرت حاصل کرتا ھے ،اور اگر عوام الناس کے موافق نہ ھو تو پھر وہ (صحیح ) کام نھیں کرسکتا اس نظریہ اور تھیوری کے لئے مختلف دلائل پائے جاتے ھیں جن میں سے بعض فلسفی ھیں ، بعض انسانی معرفت کے پھلو رکھتے ھیں اور بعض صرف اعتباری ھوتے ھیں یا عینی اور خارجی تجربوں کی بنا پر قائم ھوتے ھیں؛ یعنی تجربہ اور مختلف حکومتوں کی شکلوں کے مشاھدہ کے بعد اس قسم کی حکومت کو بھترین اور مفید ترین طریقہ قرار دیا گیا ھے۔قارئین کرام ! یہ بات قابل توجہ ھے کہ عوام الناس کی طرف منتخب شدہ شخص کو قدرت دینے کے طریقہ کار اور اس کی تحقیق وبررسی کے لئے ایک طولانی گفتگو درکار ھے کہ اگر خداوندعالم نے توفیق دی تو اس سلسلہ میں بعد میں بیان کریں گے (انشاء اللھ) لیکن یھاں پر صرف مختصر طور پر عرض کرتے ھیں کہ مشروع حکومت تشکیل ھونے کے بعد عوام الناس کا حکومت کے قوانین کو قبول کرنا ضروری ھے اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت پر موافقت کریں اس مطلب پر قبل اس کے دوسرے مکاتب اور مذاھب بیان کریں اسلام نے بیان کرتے ھوئے قبول کیا ھے عوام الناس کی شرکت اوران کی طرف سے عھدہ داران کا انتخاب کرنا اور اس موضوع پر عام موافقت ،قدیم زمانہ سے اسلامی معاشرہ میں یہ تھیوری نہ صرف بیان ھوئی ھے بلکہ اس پر عمل بھی ھوا ھے کیونکہ اگر کوئی میراثی یا طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر حاکم بن جائے تو نہ صرف یہ کہ عملی میدان میں اس کی شکست ھے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی یہ طریقہ کار محکوم(غیر مقبول) ھے لھٰذا دین اور اسلام نے اس پر صحیح کا نشان لگایا ھے کہ تمام لوگوں کی موافقت اور عام مقبولیت ھونے ضروری ھے اس میںکوئی بحث نھیں ھے ، لیکن یھاں پر یہ سوال پیش آتا ھے کہ کیا اسلام کی نظر صرف عوام الناس کا اس حکومت کو مشروعیت دینے میں قبول کرلینا کافی ھے ، اور قانونی نقطہ نظر سے اسلامی حکومت میں جیسا کچھ ھوا ھے یا ھوگا صرف عوام الناس کی موافقت کا نتیجہ ھے؟بعض اخباروں، کتابوں اور مقالات میں لکھا جاتا ھے کہ آج کی دنیا میں “مقبولیت” اور “مشروعیت” ایک ساتھ ھوتی ھیں، یعنی کسی حکومت کی مشروعیت کے لئے عوام الناس کی اکثریت کا ووٹ کافی ھے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ مشروعیت ؛ مقبولیت کی وجہ سے حاصل ھوتی ھے جب عوام الناس نے کسی کو قبول کرلیا اور اس کو ووٹ دیدیا تو اب منتخب شدہ شخص کی حکومت مشروع اور قانونی ھوجاتی ھے۔قارئین کرام ! یہ وھی ڈیموکریٹک”Democratic” نظریہ ھے جو آج کل کی دنیا میں عام مقبولیت رکھتا ھے تو اب یھاں پر ایک سوال پیدا ھوتا ھے کہ اسلام بھی بالکل اسی نظریہ کو قبول کرتا ھے۔؟
7۔ حکومت کی مشروعیت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کا لیبرل معاشرہ سے فرقاب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ اسلامی نقطہ نظر سے حاکم کے لئے ضروری ھے کہ عوام الناس اس کو قبول کرتی ھو اور عوام الناس کی شرکت اور تعاون کے بغیر اسلامی حکومت قوانین کو جاری کرنے پر قادر نھیں ھوسکتی، اور اسلامی احکام کو بھی جاری نھیں کرسکتی، تو سوال یہ ھے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت کے مشروع ھونے میں صرف عوام الناس کا ووٹ کافی ھے، اور قانون کے جاری کرنے والے افراد کی مشروعیت عوام الناس کے ووٹوں کے ذریعہ مشروع ھوجاتی ھے، یا کوئی دوسری چیز بھی اس میں ضمیمہ ھونی چاھئے؟ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ عوام الناس کا قبول کرنا حکومت کے قانونی اور مشر وع ھونے کے لئے شرط لازم وکافی ھے ،یا اس کے عینی طور پر محقق ھونے کے لئے یہ شرط لازمی ھے۔جواب میں ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ جو کچھ “ولایت فقیہ ” کے سلسلہ میں بیان ھوا ھے اور اسی وجہ سے یہ حکومت، دوسری مختلف ڈیموکریٹک حکومت سے صاحب امتیاز بناتی ھے وہ یہ ھے کہ کسی حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ھونا اسلام کی نظر میں صرف عوام الناس کی رائے نھیں ھے بلکہ عوام الناس کی رائے گویا ایک بدن کی طرح ھے اور اس مشروعیت کی روح “اذن الٰھی” ھے ، اور یہ مطلب ایک مسلمان کے عقیدہ میں راسخ ھے۔
وضاحت :ایک مسلمان شخص عالم ھستی کو خدا کی ملکیت جانتا ھے اور یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ تمام افراد؛ خداوندعالم کے بندہ اور غلام ھیں، نیز اس سلسلہ میں افراد کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے ، خدا کی بندگی میں سب برابر ھیں؛ جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے:”اَلْمُوٴمِنُوْنَ کَاٴَسْنَانِ الْمَشْطِ یَتَسَاوُوْنَ فِی الْحُقُوْقِ بَیْنَھمْ” (6)(مومنین آپس میں گنگھے کے دانتوں کی طرح ھیں اور سب کے حقوق مساوی اور برابر ھیں۔)پس معلوم یہ ھوا کہ سب انسان خدا کے بندے ھیں اور سب برابر ھیں نیز اس سلسلہ میں کوئی صاحب امتیاز نھیں ھے ، اسی طرح سب انسانیت میں مساوی ھیں اور کسی ایک کو دوسرے پر کوئی امتیاز نھیں ھے عورت مرد ، کالے سفید اصل انسانیت میں مساوی ھیں توپھر کس معیار اور کس بنیاد کی بنا پر ایک شخص دوسروں پر حکومت کرنے کا حق رکھتا ھے؟ ھم نے یہ بھی قبول کیا کہ قانون کو جاری کرنے والا ایک عظیم طاقت کامالک ھو جس کو ضرورت کے موقع پر استعمال کیا جاسکے، اور ھم نے یہ عرض کیا کہ حکومت بغیر قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) کے بغیر اپنے اھداف تک نھیں پھونچ سکتی اور حکومت کا فلسفھٴ وجودی وھی قوہ قھریہ ھے جو عوام الناس کو قانون کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ھے اب اگر قوہ قھریہ نہ ھو اور حکومت فقط وعظ ونصیحت کے ذریعہ عوام الناس کو قانون پر عمل کرانے پر قادر ھوتی تو پھر قوہ قھریہ کی کوئی ضرورت نہ ھوتی، اور اس کام کے لئے علماء اور اخلاقی معلمین کافی ھوتے پس ثابت یہ ھوا کہ قوہ مجریہ کا فلسفہ وجودی یہ ھے کہ وقت ضرورت اپنی طاقت سے فائدہ اٹھائے اور بڑھتے ھوئے جرائم کی روک تھام کرے مثلاً اگر کوئی شخص لوگوں کے مال وناموس پر دست درازی کرے تو حکومت اس کو پکڑ کر زندان میں ڈال دے یا اس کوکسی دوسرے طریقہ سے سزا دے۔اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ آج کل دنیا بھر میں سزا دینے کے مختلف طریقے پائے جاتے ھیں، اسی طرح اسلام نے مجرموں کو سزا دینے کے لئے طریقہ معین کئے ھیں جن میں سے سب سے زیادہ رائج مجرم کوجیل میں ڈال دینا ھے جس سے اس کی آزادی کا ایک حصہ سلب ھوجاتا ھے جس وقت کسی شخص کوئی طاقت ایک بند کمرہ میں مقید کردیتی ھے اور اس پر دروازہ بند کردیا جاتا ھے، اور اس کی معمولی اور ابتدائی آزادی سلب کردی جاتی ھے تو سوال یہ ھوتا ھے کہ کسی مجرم کی آزادی کو سلب کرنے کا کسی کو کیا حق ھے؟ بے شک مجریان قانون کی طرف سے کسی شخص کی آزادی کا سلب کرنا یا مجرموں کے حقوق کو سلب کرنا جائز اور حق ھو، یہ ٹھیک ھے کہ مجرم کو سزا ملنی چاھئے ، لیکن کوئی خاص شخص ھی سزا دینے کا حق رکھتا ھے ، دوسرا نھیں؟ (یہ کھاں سے؟) ایسے افراد کو معین کرنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون اور خاص ملاک اور دلیل ھونی چاھئے کیونکہ ان کا کام گویا اس شخص میں مالک جیسا تصرف کرنا ھے،جو شخص کسی مجرم کو جیل میں ڈالتا ھے گویا وہ اس کے وجود میں تصرف کررھا ھے نیز اس سے اختیار اور آزادی کو سلب کررھا ھے، اور اس کو ایک بند کمرے میں مقید کررھا ھے ، اس کو اجازت نھیں دیتا کہ جھاں چاھے چلا جائے، جیسے ایک مالک اپنے غلام کی تنبیہ وتادیب کررھا ھے۔پس چونکہ مجرموں اور خطاکاروں سے اس طرح کا برتاؤ ان کی آزادی اور حقوق کا سلب کرنا ھے اور انسان میں مالک جیسا تصرف حساب ھوتا ھے اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی مشروعیت کا معیار وملاک اکثریت کی رائے کے علاوہ خداوندعالم کی اجازت ھے، کیونکہ تمام انسان خدا کے بندے ھیں لھٰذا خدا اپنے بندوں پراگرچہ مجرم بندے ھی کیوں نہ ھوں؛ تصرف کا حق عنایت فرمائے؟ ھر ایک شخص (یھاں تک کہ مجرم بھی) آزادی رکھتے ھیں اور یہ آزادی خدا داد نعمت ھے جو اس نے تمام انسانوں کو عطا کی ھے اور کسی کو اس کے بندوں کی آزادی سلب کرے کا حق نھیں ھے کیونکہ وھی انسان کی آزادی یھاں تک کے مجرم انسان کی آزادی کا حق رکھتا ھے جو ان کا مالک ھے اور تمام انسانوں کا مالک خداوندقدوس ھے ۔اس لحاظ سے اسلامی نقطہ نظر سے ان تمام چیزوں کے علاوہ جو دوسری حکومتوں میں حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری سمجھا جاتا ھے ، ایک دوسرا معیار اور ملاک بھی ضروری ھے اور وہ اعتقادات اور معارف اسلامی میں سر چشمہ رکھتا ھے ھمارے عقیدہ کی بنیاد پر خداوندعالم، انسان اور تمام مخلوقات کا ربّ ھے اور ھمارا یہ عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ خدا کی مخلوقات میں ذرا سا بھی دخل وتصرف؛ خدا کی اجازت اور مرضی سے ھونا چاھئے دوسری طرف وہ قوانین جوشھریوں کی رفتار، چال چلن اور کردارکو معین کرتا ھے اور ان کی آزادی کو محدود کرتا ھے، نیز وہ قوانین خود بخود جاری نھیں ھوتے بلکہ ان کو جاری کرنے کے لئے ایک سسٹم کی ضرورت ھے جو ان کو جاری کرسکے،اسی وجہ سے حکومت کے پاس ایک طاقت (پولیس) کی ضرورت ھے، اور اس بات میں کوئی شک نھیں کہ حکومت اور قوہ مجریہ،خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنے کے بغیر اور ان کی آزادی کو محدود کئے بغیر آگے نھیں بڑہ سکتی، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنا یھاں تک مجرموں اورغنڈوں سے آزادی کا سلب کرنا، صرف اسی شخص کے لئے جائز ھے جس کو خداوندعالم نے اختیار دیا ھے، اور یہ اختیار صرف خداوندعالم کی طرف سے دوسروں کو عطا ھوتا ھے؛ کیونکہ وھی تمام انسانوں کا مالک اور ربّ ھے، اور حکومت کو اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کی اجازت دے سکتا ھے۔حکومت کے سلسلہ میں فلسفہ سیاست میں نظریہ “ولایت فقیھ” کا دوسرے نظریات پر یہ امتیاز ھے کہ یہ نظریہ توحید اور اسلامی عقیدہ میں سرچشمہ رکھتا ھے اس نظریہ حکومت اور انسانوں میں تصرف کرنے کی نسبت خداوندعالم کی اجازت کی طرف ھوتی ھے اس کے مقابلہ میں دوسرا نظریہ جو کہ قوانین کو جاری کرنے اور انسانوں کی آزادی میں تصرف کرنے میں خدا کی اجازت کو ضروری نھیں سمجھتا، یہ نظریہ ایک قسم کا”ربوبیت میں شرک” ھے یعنی اگر قوانین کو جاری کرنے والا فرد یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خدا کے بندوں میں اس کی اجازت بغیرکے دخل وتصرف کا حق رکھتا ھے، حقیقت میں ایسا عقیدہ رکھنا اس ادّعا کے برابر ھے کہ جس طرح خداوندعالم اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ھے میں بھی اسی طرح مستقل طور پر انسانوں میں دخل وتصرف کا حق رکھتا ھوں، اور یہ ایک قسم کا شرک ھے اگرچہ ایسا شرک نھیں جو مرتد ھونے کا سبب بنتا ھو بلکہ کمتر درجہ کا شرک ھے جو غلط فکر اور کج فکری کی وجہ سے وجود میں آتا ھے، جس کے نتیجہ میں عصیان اور لغزش وجود میں آتے ھیں اور یہ کوئی کم گناہ نھیں ھے کیسے کوئی شخص اپنے کو خدا کا ھم پلہ قرار دیتا ھے اور یہ دعوی کرتا ھے کہ جس طرح خدا اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ھے میں بھی ان کی رائے اور انتخاب پر تکیہ کرتے ھوئے؛ ان پر تصرف کا حق رکھتا ھوں؟!! کیا عوام الناس اپنا اختیار رکھتی ھے جو دوسروں کے حوالہ کرسکتی ھے؟ تمام انسان خدا کے بندے ھیں ان کا اختیار بھی خدا کے ھاتہ میں ھے۔قارئین کرام ! ھمیں یہ معلوم ھوچکا ھے کہ اگر ھم اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی تحقیق وبررسی کریں تو اس نتیجہ پر پھنچ جاتے ھیں کہ اس نظریہ میں دوسرے ممالک کے حکومتی معیار کے علاوہ ایک دوسری چیز کا بھی لحاظ کرنا ضروری ھے ، اور وہ ھے خدا کے بندوں میں تصرف کرنے کے لئے خدا کی اجازت لھٰذا اسی نظریہ کی بنیاد پر حکومت کی مشروعیت خداوندعالم کی طرف سے ھے اور عوام الناس کی رائے اور ووٹس نیز عوام الناس میں اس کی مقبولیت؛ حکومت کے تحقق کے لئے ایک شرط ھے۔
حوالے:(1) سورہ بقرہ آیت 30(2)سورہ معارج آیات 19 تا 21)3(سورہ ابراھیم آیت 34(4) جیسا کہ ھم پھلے قوانین کی ضرورت پر گفتگو کر چکے ھیں)5(اگرھر آدھے منٹ میں ایک قتل ھوتا ھے تو تقریباً ایک دن میں2۸۸0/(60 * 2 = 120 * 24 =2880) قتل ھوتے ھیں (مترجم((6) بحار الانوار ج9 ص 49