حکومت کی عظیم منصوبہ بندی (1)
1۔ حکومت کی ضرورت دوسری حکومتوں کی طرح اسلامی حکومت کے بھی دو بنیادی محور ھوتے ھیں:1۔ قانون اور قانونگذاری ۔2۔ مدیرت اور قوانین کو نافذ کرنا۔ھماری گذشتہ بحث پھلے محور پر ھوئی ھے مثلاً قانون کی اھمیت، مطلوبہ قانون کے خصوصیات، اسلام کی نظر میں قانون گذاری، اور اس کے شرائط کے سلسلہ میں بحث ھوئی ، نیز اسی بحث کے ضمن میں مذکورہ سلسلہ میں ھونے والے بعض اعتراضات وشبھات کا بھی جواب دیا گیا۔لیکن اب ھم دوسرے محور (یعنی مدیریت اور نفوذ قوانین) کے سلسلہ میں بحث کریں گے، اس بحث کے نقشہ کو روشن کرنے کے لئے اس مقدمہ پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ کسی موٴسسہ یا سازمان کا ھدف جس قدر واضح اور صاف وشفاف ھوگا اسی مقدار میں اس سازمان کا نقشہ یا اس میں کام کرنے کی شرائط، اسی طرح اس کے منتخب ھونے والے اعضاء کی خصوصیات واضح اور روشن ھوگی اس بنا پر اگر ھم اسلامی حکومت یا حکومت بمعنی خاص یعنی حکومت اسلامی کی مدیریت کے بارے میں بحث کرنا چاھیں اور اس بات کا پتہ لگانا چاھیں کہ اس طاقت کا ڈھانچہ کیسا ھونا چاھئے؟ اس سلسلہ میں کون افراد فعالیت اور کارکردگی کرسکتے ھیںاور ان کی خصوصیات اور ان کے اختیارات کیا کیا ھیں؟تو سب سے پھلے اسلامی حکومت کی تشکیل کے اھداف اور ان میں بھی اسلامی حکومت کی مدیریت کے ھدف اور مقصد سے آگاہ ھونا ضروری ھے کیونکہ اگر حکومت کی تشکیل کا ھدف معین اور مشخص نہ ھو تو پھر مدیریت کا ڈھانچہ، اس کے ذمہ دارافراد کی خصوصیات اور ان کے اختیارات واضح نھیں ھوپائیں گے لھٰذا مناسب ھے کہ پھلے حکومت (خاص شکل میں یعنی قوہ مجریہ)کی تشکیل کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں بحث کریں۔ان لوگوں کے نظریہ کو نظرانداز کرتے ھوئے جو حکومت کو ضروری نھیں مانتے اکثر فلسفہ سیاسی دانشمند افراد حکومت کو ضروری مانتے ھیں یعنی ان کا ماننا یہ ھے کہ معاشرہ میں ایسی انجمن یا مجموعوں کا ھونا ضروری ھے جو احکامات صادر کریں اور دوسرے افراد ان کی اطاعت کریں، یا وہ قوانین جن کو معاشرہ قبول کرتا ھے ان کو معاشرہ میں نافذ کریں اور ان قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو مخالفت سے روکیں ، یا ان کو مخالفت پر سزا دیں چنانچہ اس بات پر تقریباً سبھی دانشمنداتفاق رکھتے ھیں تجربہ کی بنیاد پر کم و بیش سبھی لوگ اس بات کے قائل ھیں کہ معاشرہ کو حکومت کی ضرورت ھے اسی طرح اسلام بھی اس نظریہ کو قبول کرتا ھے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے (نھج البلاغہ میں) فرمایا ھے:یھاں تک کہ اگر معاشرہ میں نیک لوگوں کی حکومت نہ ھو تو ایسے حالات میں ایک فاجر اور برے فرد کی حکومت (حکومت نہ ھونے سے) بھتر ھےوَإنَّہ لٰا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اٴمیرٍ بَرٍّ اٴوْ فَاجِرٍ یَعْمَلُ فِی إمْرَتِہ الْمُوٴْمِنُ وَیَسْتَمْتِعُ فِیْھا الکٰافِرُ ۔(1) ” یعنی لوگوں کے ایک حاکم کی ضرورت ھوتی ھے چاھے وہ نیک ھو یا برا، تاکہ اس کی حکومت میں مومنین اپنا کام کرسکیں اور کافر اپنا فائدہ حاصل کرسکیںکیونکہ اگر حکومت یا قوانین کو جاری کرنے والا ضامن موجود نہ ھو تو پھر معاشرہ کا نظام درھم وبرھم ھوجائے گا، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے حقوق پامال اور معاشرہ کے مصالح وفوائد نابود ھوجائیں گے لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سے “بے حکومتی” قابل قبول نھیں ھے، بلکہ مومنین کے اھم و واجب وظائف میں سے ایک یہ ھے کہ نیک افراد کی حکومت بنائیں تاکہ معاشرہ کے مصالح اور فوائد تامین اور پورے ھوں۔
2۔قوہ مجریہ کے اھداف کے سلسلہ میں مختلف نظریاتاب جب کہ حکومت اور قوہ مجریہ کی ضرورت ثابت ھوگئی تو اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ حکومت اور قوہ مجریہ کے اھداف ومقاصد کیا کیا ھیں؟جبکہ اس بات کو تقریباً سبھی جانتے ھیں کہ قوہ مجریہ کا کام قوانین کو نافذ کرنا ھے، پس یہ طے ھوگیا کہ اس کا کام قوانین کو جاری کرناھے، لیکن اب یہ دیکھنا ھوگا کہ وہ قوانین جن کو حکومت نافذ کرنا چاھتی ھے وہ کس طرح کے اور کس ماھیت کے ھونے چاھئیں؟ چنانچہ اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال پر متوقف ھے اور وہ یہ ھے کہ قانون کا ھدف اور مقصد کیا ھے؟ معاشرہ کو قانون کی کیا ضرورت ھے؟ اور وہ قانون لوگوں کے لئے کس چیز کو مد نظر رکھے؟ اس سوال کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ قانون کے اھداف و مقاصدکی دو قسمیں ھوتی ھیں:پھلی قسم: مادی ااغراض و مقاصد۔دوسری قسم: معنوی اغراض و مقاصد۔کلی طور پر سیاسی فلسفہ کے بارے میں بحث کرنے والے دانشوروں نے اس بات کا اعتراف کیا ھے کہ حکومت کو چاھئے کہ وہ لوگوں کے مادی مصالح ومنافع کو تامین کرے، لیکن معنوی مصالح کے بارے میں اختلاف کیا ھے کہ آیا قانون کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی پورا کرنا ضروری ھے یا نھیں؟ کیا معنوی مصالح کا بھی قانون میں لحاظ کرنا ضروری ھے، اور اس طرح حکومت کو ایسے قوانین کا نافذ کرنا ضروری ھے یا نھیں؟قدیم زمانہ سے بعض فلسفی مکاتب اس نظریہ کو مورد توجہ قرار دیتے تھے کہ حکومت کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی تامین کرنا چاھئے،اور وہ قانون جس کی حکومت ذمہ دارھوتی ھے اس قانون کو ایسا ھونا چاھئے جو انسانی فضائل کو مد نظر رکھے غیر دینی فلسفی مکاتبمیں بھی یونانی قدیم فلاسفہ مثل “افلاطون” (انسانی) فضیلت پر توجہ دیتے تھے، اور حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ انسانی فضائل کے رشد و نموکے لئے راستہ ھموار کرے، چنانچہ اسی لئے کھتے تھے : “حکومت کرنے کا حق صرف انھیں افراد کو ھے جو حکیم (عالم وعاقل) ھوں، جو انسانی فضائل کے اعتبار سے دوسرے لوگوں سے بھتر ھوں، جیسا کہ افلاطون کاکھنا ھے: “حکیمان باید حاکم بشوند” (حکماء کو حاکم ھونا چاھئے) لھٰذا غیر مسلمان اور غیر الٰھی فلاسفہ (وہ لوگ جو آسمان ادیان کے کو نھیں مانتے تھے) کے نزدیک بھی انسانی فضائل اور اخلاق کی اھمیت تھی یھاں تک کہ وہ فلاسفہ جو کسی دین اور مذھب کو نھیں مانتے تھے وہ بھی یھی نظریہ رکھتے تھے کہ معاشرہ میں اخلاقی فضائل اورلوگوں کی اخلاقی رشد ونموھونا چاھئے۔جس وقت یورپ میں عیسائیت پھیلی اور “کنسٹانٹین” روم کا بادشاہ ایک عیسائی ھوا ، اس نے یو رپ میں عیسائیت کو رائج کیا، عیسائیت یورپین ممالک کے تمدن کا قانونی مذھب بن گئی ،دین اور حکومت ایک ساتھ مل گئے اور حکومت کے اھداف میںدینی اغراض و مقاصد کو بھی مد نظر رکھا گیا یعنی جو کچھ عیسائیت نے کھا اس کے قوانین کو جاری بھی کیا گیا۔لیکن “رنسانس” کے بعد مغربی نظریات میں تبدیلی آئی ، جس کی بنا پر انھوں نے اخلاقی مسائل کو حکومت کے دائرہ سے نکال دیا کیونکہ رنسانس اور نوزائی کے بعد یورپ میں تغیر و تبدیلی پیدا ھوئی جس کے نتیجہ میں مغربی جدید تمدن کا آغاز ھوا، جس کی سب سے بڑی خصوصیت دین کا حکومت سے جدا کرنا تھا اس دور میں فلاسفہ نے اس سلسلہ میں گفتگو کی، کتابیں لکھیں جس کی بنا پر مختلف فکری مکاتب وجود میں آئے، اور اخلاقی اور معنوی فضائل کو بالائے طاق رکہ دیا گیا۔انھیں فلاسفہ میں سے “ھابز” نامی فلسفی بھی گذرا ھے جس کا نظریہ یہ تھا کہ حکومت کی ذمہ داری صرف ھرج ومرج (بد امنی) پھیلنے سے روکنا نھیں ھے کیونکہ اس کے نظریہ کے مطابق بعض بھیڑیا صفت لوگ ھوتے ھیں جو ایک دوسرے کی جان پر ٹوٹ پڑتے ھیں اور ایک دوسرے کو نابود کرنا چاھتے ھیں تو ان کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ھوتی ھے جو ان بھیڑیا صفت انسان پر کنٹرول کرے اور ان کی درندگی اور ظلم وستم کو روکے، لھٰذا حکومت کا صرف یھی مقصد ھوتا ھے۔اس کے بعد “جان لوک” (2) نے حکومت کے اھداف کوبیان کرتے ھوئے کھا کہ حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی ؟اور ان کی حفاظت کرنا ھے، اس کی نظر میں انسانوں کے پاس صرف ایک حکومت کی کمی ھوتی ھے کہ اگر وہ نہ ھو تو پھر معاشرہ کا نظام وجود میں نھیں آسکتا، افرا تفری پھیل جائے گی، امن وامان ختم ھوجائے گا، انسان کی جان ومال خطرہ میں پڑجائے گی جیسا کہ وہ کھتا ھے : “ھمیں اپنی ضرورت تحت حکومت چاھتے ھیں، ورنہ تو دوسری چیزوں کا حکومت سے کوئی مطلب وواسطہ نھیں ھے۔”البتہ دین وحکومت اور اجتماعی مسائل کی جدائی کا یہ مطلب نھیں ھے کہ اس نظریہ کے ماننے والے اخلاقی فضائل اور معنوی اقدارکی اھمیت کے قائل نھیں ھیں، بلکہ ان کا کھنا یہ ھے کہ ان چیزوں کا حکومت سے کوئی ربط نھیں ھے بلکہ خود عوام الناس کو ان اخلاقی ومعنوی فضائل کی طرف قدم بڑھانا چاھئے: جو لوگ خدا کو مانتے ھیں ان کو چاھئے کہ خود مسجد یا گرجا گھر میں جائیں یا کسی دوسری جگہ پر جاکر خدا کی عبادت کریں، لیکن اس سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نھیں ھے اسی طریقہ سے اخلاقی فضائل جیسے سچ بولنا، نیک کردار، دوسروں کا احترام واکرام کرنا،فقیر وفقراء کی مدد کرنا وغیرہ یہ فضائل قابل قدر ھیں لیکن یہ فردی (ذاتی) مسائل میں شمار ھوتے ھیں اور اس سلسلہ میں خود افراد کو تلاش وکوشش کرنا چاھئے تاکہ اپنے کو ان اخلاقی فضائل سے آراستہ کرلیں، لیکن ان کا حکومت سے کوئی تعلق نھیں ھے۔پس اجتماعی قوانین ، یعنی وہ قوانین جو حکومت کے ذریعہ جاری ھوتے ھیں ان کا ھدف اور مقصد معاشرہ کے امن وامان کو تامین اور ان کی حفاظت کرنا ھے تاکہ لوگوں کی جان ومال؛ ھر طرح کے خطرہ سے محفوظ رھے پس حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ھے،اور یہ بات کہ حکومت کا مقصد امن وامان قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے مختلف تحریروں میں بیان کیا گیا ھے، جیسا کہ “لاک” کی تحریروں میں جان ومال کی حفاظت کے علاوہ فردی آزادی کو بھی امنیت کا ایک حصہ شمار کیا ھے، یعنی اس نے امنیت میں جان ومال اور آزادی کو بھی داخل کیا ھے، لیکن اخلاقی اور معنوی مصالح کے بارے میں صرف اس بات کو قبول کرتا ھے کہ اجتماعی قانون کو اخلاق کے مخالف نھیں ھونا چاھئے، یا خدا پرستی سے نہ ٹکراتا ھو، لیکن اجتماعی اور حکومتی قوانین پر؛ اخلاقی اقدار ، دینی اقدار کو حفظ کرنے اور معنوی رشد کرنے کی راہ ھموار کرنے کی کوئی ذمہ داری نھیں ھوتی، چنانچہ اس کا کھنا ھے کہ یہ تمام چیزیں حکومت سے متعلق نھیں ھیں۔آج کل دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی مکاتب میں اسی “لاک” کا نظریہ انجیل کا حکم اور بنیادی قانون ھوتا ھے اس کا اصلی نعرہ یہ ھے کہ حکومت کو امن وامان اور آزادی کو برقرار کرنے کے علاوہ دینی مسائل یا اخلاقی فضائل کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نھیں ھے۔قارئین کرام! مغربی نقطہ نظر اور اسلامی نقطہ نظر میں سب سے بڑا نقطہ اختلاف یھی ھے۔
3۔ انبیاء (ع) کی حکومت کے اغراض ومقاصدانبیاء علیھم السلام اور ھمارے نبی اکرم (ص) کا نظریہ خاص طور پر یہ ھے کہ حکومت کی ذمہ داری ،مادی مصالح اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوپورا کرنا بھی ھے یھاں تک کہ معنوی مصالح کا پورا کرنا مادی مصالح پر فوقیت رکھتا ھے اور ان پر مقدم ھے یعنی حکومت کو ایسے قوانین جاری کرنا چاھئے جن کا آخری ھدف معنوی ، روحی، اخلاقی اور انسانی مصالح کو تامین (حفاظت) کرنا ھے وھی مسائل جن کو دین انسان کا آخری ھدف شمار کرتا ھے اور انسانی کمال کو ان سے متعلق گردانتا ھے ، اس دنیا میں انسان کی خلقت اور اس کے لئے انتخاب اور آزادی کی طاقت کا ھونا؛ یہ تمام کی تمام چیزیں اسی وجہ سے ھیں کہ انسان اپنے نھائی اور آخری ھدف کو پھچان لے اور اسی پر قدم بڑھائے ان تمام مسائل کا محور” قربت خدا “ھے جیسا کہ الحمد لله آج ھمارے اسلامی معاشرہ میں سب پر واضح ھے بلکہ ھمیشہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات رائج تھی یھاں تک کہ جو لوگ اس کے صحیح معنی بھی نھیں جانتے لیکن پھر بھی اس لفظ سے مانوس ھیں کیونکہ جاھل اور کم پڑھے لکھے افراد بھی جملہ “قربة الی الله” کو زبان پر جاری کرتے ھیں۔اب جبکہ یہ بات معلوم ھوگئی کہ انسان کا آخری ھدف خلقت، قربت خدا ھے تو پھر معاشرہ میں ایسے قوانین کا نافذ ھونا ضروری ھے جو اس ھدف تک پھچانے میں مدد کریں اور انسان کی زندگی بھی اسی سمت آگے بڑھے، اور انسان کے دوسرے حیوانی پھلو کے دوسرے مسائل اسی صورت میں مھم ھوسکتے ھیں جب وہ مسائل انسان کو معنویات اور قربت خدا کی طرف رشد وترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں مددگار ثابت ھوں۔اور جب یہ بات ثابت ھوچکی کہ اجتماعی قوانین کو بنانے کا ھدف مادی مصالح کو تامین کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوتامین کرنا بھی ھے تو پھر ظاھراً حکومت کا مقصد بھی مشخص اور معین ھوجاتا ھے اور حکومت کو بھی صرف لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ھی کو اپنی ذمہ داری نھیں سمجھنا چاھئے؛ بلکہ ان کے علاوہ معنویات کے رشد کے لئے بھی راہ ھموار کرنا نیز اس راہ میں جو چیز مانع اور ضدیت رکھتی ھوں ان کو راستہ سے ھٹانا بھی حکومت کی ذمہ داری ھوتی ھے، حکومت کو صرف اسی پر اکتفاء نھیں کرنا چاھئے کہ میںنے تو تمھاری روٹی کے اسباب فراھم کردئے ھیں اور تمھاری جان کی امنیت برقرار کردی ھے،اور بس البتہ یہ ذمہ داری تو سبھی حکومتوں کی ھوتی ھے اور سبھی اس سلسلہ میں متفق بھی ھیں کہ ھر ایک معاشرہ میں؛ چاھے وہ اسلامی ھو یا غیر اسلامی، لائیک ھو یا غیر لائیک اس میں جو بھی حکومت تشکیل پائے تو اس کے لئے امنیت برقرار کرنا ضروری ھے تاکہ لوگوں کی جان ومال محفوظ رھے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے حکومت اپنی ذمہ دار ی کو صرف اسی چیز میں محدود نھیں کرسکتی بلکہ اس کو اپناسب سے پھلا وظیفہ یہ سمجھنا چاھئے کہ فضائل انسانی ، معنوی والٰھی رشد کے لئے راستہ ھموار کرے، طبیعی طور پر اس مقصد تک پھونچنے کے لئے امن وامان اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے سلسلہ میں امنیت برقرار کرنا ضروری ھوتا ھے، البتہ اس امنیت کا برقرار کرنا ایک مقدمہ ھے نہ کہ اصل مقصد نھیں ھے۔دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ جانی مالی امنیت برقرار کرنا متوسط اھداف میں ھیں نہ نھائی او ر اصلی ھدف، ایک دوسرے طریقہ سے یوں عرض کیا جاسکتا ھے کہ یہ امنیت بلند وعالی ھدف تک پھنچنے کا ایک وسیلہ ھے اور وہ بلند ھدف معنویات کا رشد ھے پس معاشرہ میں وہ قوانین نافذ ھوں جو نہ فقط دین سے ضدیت نہ رکھتے ھوں اور دین کے مخالف نہ ھوں بلکہ ان کو مکمل طریقہ سے دینی اصول ومبانی سے ھم آھنگ اور موافق ھونا چاھئے، اورانسان کے معنوی اور الٰھی رشد میں معاون ومددگار ، ان کا دین کے مخالف نہ ھونا کافی نھیں ھے بلکہ دین کے اھداف میں مددگار ھونا ضروری ھے، یعنی اسلامی حکومت کا کردار نہ صرف یہ کہ ضد دین نہ ھو بلکہ بے دینی اور دینی ضدیت سے مقابلہ کرے اور دینی اھداف ومقاصد کو پایہ تکمیل تک پھنچائے۔لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سےحکومت یا قوہ مجریہ کا ھدف، صرف جان ومال کی حفاظت کرنا نھیں ھے بلکہ اس سے مھم تر معنوی مسائل پرتوجہ دینا نھایت ھی ضروری ھے، یھاں تک کہ ممکن ھے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر مادی ضرورتیں تامین نہ ھوں، اور اگر اسلامی احکام جاری ھوں تو پھر آئندہ میں لوگوں کی مادی ضرورتیں دیگر حکومتوں سے بھتر طریقہ پر پوری ھوں گی، لیکن اگر فرض کریں کچھ مدت تک لوگوں کی تمام مادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے دین کے ضعیف ھونے کا اندیشہ ھو تو پھر ایسے موقع پر ضروری ھے کہ لوگوں کی ان ضرورتوں کو پورا کیا جائے جن سے دین ضعیف نہ ھو، کیونکہ معنوی مصالح مقدم او راھم ھیں لیکن اس سلسلہ میں مغربی ممالک کا نقطہ نظر ھمارے نظریہ سے الگ ھے کیونکہ وہ لوگ فقط مادی مسائل اور مادی اھداف پر توجہ کرتے ھیں اور ان کی حکومت معنوی مصالح کو تامین کرنے کی ذمہ دار نھیں ھوتی۔
4۔ لیبرل “Liberal”(آزادی خواہ)نظام میں اجتماعی مشکلات کا اثرکبھی کبھی بعض لوگ تحریری یا شفاھی طور پر یہ اعتراض کرتے ھیں کہ مغربی ممالک میں بھی دینی مسائل پر توجہ دی جاتی ھے کہ وہ لوگ بھی ایثار وفداکاری کرتے ھیں اور اجتماعی مسائل پر توجہ کرتے ھیں، اگر چہ یہ مطلب صحیح ھے اور ھم یہ یقین رکھتے ھیں کہ تمام مغربی لوگ خود پسندنھیں ھیں اور لیبرل نظریہ کے رائج ھونے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام مغربی لوگ اس نظریہ سے متاٴثر ھوں، بلکہ ھماری مراد یہ ھے کہ لیبرل نظریہ اکثر معاشروں پر غالب ھے اور وہ لوگ پیش آنے والے بعض مسائل کی بنا پر ایسے کام کرنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ اپنے فلسفہ کے خلاف عمل کرتے ھیں یعنی وہ تمام لوگ جو لیبرل نظریہ کو قبول رکھتے ھیں اور خود پسند ھوتے ھیں وہ بھی ضرورتوںکے تحت مجبور ھوتے ھیں تاکہ اجتماعی مسائل پر توجہ کریں اور شورش اور بلوے کے ڈر سے کہ کھیں اکثر لوگ قیام نہ کرلیں ، لھٰذا محرومین کے حقوق کی رعایت کرتے ھیں عملی طور پر بھت سی سوسیالیسٹ “Socialiste” ڈیموکریٹک “Democratic” حکومتیں لوگوں سے حاصل کئے گئے ٹیکس وغیرہ کے کافی حصہ اجتماعی خدمات پر خرچ کرتے ھیں، جبکہ ان کا مادی فلسفہ اس چیز کی اجازت نھیں دیتا، لیکن اس کام کو اس وجہ سے کرتے ھیں تاکہ عوام الناس اعتراض نہ کرے، اور امنیت محفوظ رھے اور لوگ قیام وشورش نہ کریں ، ایک دوسرے کی جان کے پیچھے نہ پڑیں ،پس یہ لوگ اپنی مجبوری کی بنا پر اس طرح کی سھولیات فراھم کرتے ھیں۔لیبرل نظریہ کیا چاھتا ھے؟ اور اس کے طرفدار کیا کرتے ھیں؟ یہ دونوں الگ الگ باتیں ھیں، اتفاقاً یہ اعتراض تو خود ان پر(بھی) ھوا ھے کہ تمھارے لیبرالی نظریہ کے تحت تم کو ان مسائل کی رعایت نھیں کرنا چاھئے، پس تم لوگ ایسے کام کیوںکرتے ھو جس سے محروم طبقے کا فائدہ ھوتا ھوجیسے عام لوگوں کے لئے بیمہ اسکیم، یا دوسری سھیولیا ت کا فراھم کرنا اس سوال کا جواب یہ ھے کہ یہ سب چیزیں اس لئے ھیں تاکہ سرمایہ داروں اور مالدار لوگوں کا سرمایہ اور پراپرٹی خطرہ میں نہ پڑجائیں، اور کمیونسٹی اور مارکسسٹی انقلاب رونما نہ ھوجائیں۔یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ مارکسسٹی ممالک میں مارکسسٹی نظریہ آنے سے پھلے یہ نظریہ مغربی ممالک میں رائج ھوچکا تھا اور اپنا اثر دکھا چکا تھا “مارکس” نامی دانشمند جرمن کا تھا اور انگلینڈ میں رھتا تھا شروع میں اس کے نظریات اور اس کی کتابیں انگلینڈ میں نشر ھوئیں،چنانچہ انگلینڈ کے سیاست مداروں نے اس کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد مارکس کے بیان شدہ خطرات پر توجہ کی اور پھلے ھی سے ان کی روک تھام کا بندو بست کیا۔حزب کارگر اور سوسیالسٹی طرز تفکر جو انگلینڈ میں وجود میں آئے اور انھوں نے جو محروم اورکم درآمد لوگوں کے لئے کچھ پر وگرام رکھے ان سب کا مقصد مارکسسٹی طرز تفکر سے روک تھام تھا؛کیونکہ پھلے ھی سے یہ پیشن گوئی کردی گئی تھی کہ سرمایہ داری کی پیشرفت اور ترقی، لوگوں کی اکثریت کو انقلاب اور شورش کرنے پر مجبور کرسکتی ھے لھٰذا انگلینڈ میں مارکسسٹی انقلاب کو روکنے کے لئے فقیر اور غریب لوگوں پر توجہ کی جانے لگی، اور ان کو اطمینان دلایا جانے لگا اگرچہ ان کا یہ رویہ “کاپیتالسٹی” طرز تفکر سے سازگار اور ھم آھنگ نہ تھا، لیکن سرمایہ داروں اور مالداروں کے منافع کے حق میںتھا بھرحال لیبرل نظریہ کا ماحصل یہ ھے کہ حکومت کی معنوی امور کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نھیں ھے۔ممکن ھے کوئی شخص ھم پر یہ اعتراض کرے کہ مغربی ممالک میں حکومت گرجاگھروں کے لئے ٹیکس لیتی ھے ، تو پھر ان پر دین اور معنویات سے بے توجھی کا الزام کیونکر لگایا جاسکتا ھے ؟!تو اس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ یہ بھی لیبرالیزم کا مقصد نھیں ھے بلکہ یہ کام اس لئے کرتے ھیں تاکہ دیندار لوگوں کا دل جیت لیں، اور حکومت بناتے وقت گرجا گھر کی طاقت سے استفادہ کریں ھماری بحث تو صرف اس میں ھے کہ لیبرل طرز تفکر کا مقصد او رمطلب کیا ھے؟چنانچہ جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ان کے نظریہ کے مطابق ؛ دینی مصالح کی تامین اور ترویج کرنا حکومت کی ذمہ داری کے ذمہ نھیں ھے، اور اگروہ حکومتیں بعض مذھبی مصالح پر توجہ کرتی ھیں تو وہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے ھوتا ھے، یہ صرف الکشن میں کامیاب ھونے کے لئے ھوتا ھے اور وہ لوگ دینداروں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتے ھیں تاکہ دینداروں کے دلوں کو جیت لیں تاکہ ان کو ووٹ مل جائیں ، کبھی کبھی امریکہ میں ووٹنگ کے وقت یہ دیکھا جاتا ھے کہ بعض ممبران گرجا گھروں میں جاتے ھیں تاکہ ان لوگوں کو اپنے سے مانوس کرلیں، البتہ اس کے یہ معنی ھرگز نھیں ھیں کہ وہ دین کے طرفدار ھوتے ھیں۔
5۔ لیبرل نظام سے لوگوں کی انسیت کی دلیلاسلامی نقطہ نظر سے معنوی مسائل کا تحفظ ھی ، جو دین کے زیر سایہ امکان پذیر ھوتا ھے وھی اصل اور اولی اھداف میں سے ھیں اور یھی اسلامی اور دنیا میں رائج دوسرے نظریات میںمھم ترین نقطہ اختلاف ھے، اور ھم حکومت کے سلسلہ میں مغربی ممالک کے تابع نھیں ھوسکتے؛ کیونکہ ان کے اور ھمارے درمیان حکومت کے اھدف کے سلسلہ میں بنیادی اختلاف پایا جاتا ھے اور اگر ھم (حکومت کے) ھدف ھی کو بھول جائیں تو حکومت کا ڈھانچہ، شرائط ، ذمہ داریاں اور اختیارات عوض ھوجائیں گے۔در حقیقت بعض لوگوں کے نظریات میں انحراف اور شک وشکوک کا ایجاد ھونا یھاں تک کہ جو لوگ خود غرضی کے بھی شکار نہ ھوں ، جیسا کہ بعض انحرافات اور اعتراضات جو کتابوں اور اخباروں میں بیان ھوتے ھیں ان کی اصل وجہ یھی ھے کہ انھوں نے اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کے قوانین کے اھداف پر توجہ نھیں کی ھے اور نہ ھی اسلامی نظریہ اور دوسرے نظریات کے اختلاف پر توجہ کی ھے انھوں نے اصلِ اسلام کو تو قبول کرلیا ھے واقعاً ایسے لوگ خدا کو مانتے ھیں ، نماز پڑھتے ھیں، روزہ رکھتے ھیں اور دین کے منکر اور کافر نھیں ھیں؛ لیکن اجتماعی اور سیاسی عملی میدان میں سو فی صد مغربی ممالک کے تابع ھوجاتے ھیں اور پھر ان کو یہ کوئی فکر نھیں ھوتی کہ ان کا یہ طریقہ کار اسلامی نظریہ سے ھم آھنگ بھی ھے یا نھیں؟ اور کھتے ھیں کہ آج کل دنیا میں یھی رویہ رائج ھے لھٰذا ھم بھی اسی رویہ کو اختیار کریں اور اس کی مخالفت (بھی) نھیں کرسکتے آج کی دنیا کا تمدن ، مغربی تمدن ھے، اور لیبرل کلچر حاکم ھے ، لھٰذا ھم اس کی مخالفت نھیں کرسکتے۔!!لیکن سب سے پھلے ھمیں تھیوری اور نظری لحاظ سے یہ سمجھنا چاھئے کہ اسلام کیا کھتا ھے ، کیا وہ سب کچھ جو مغربی ممالک میں ھوتا ھے، اسلام کی نظر میں آیا وہ قابل قبول ھے یا نھیں ؟ دوسرے یہ کہ ھم مقام عمل میں دیکھیں کہ اسلام کے دستور العمل کو رائج کرسکتے ھیں یا نھیں؟ اور اگر بالفرض مقام عمل میں اسلامی قوانین کو عملی جامہ نھیں پھناسکتے تو کم سے کم ھمیں یہ تو پتہ ھونا چاھئے کہ اسلام ؛ لیبرل نظریہ کو قبول نھیں کرتا، لھٰذا ھماری یہ ذمہ داری بنتی ھے کہ غیر اسلامی طریقہ کار کو اسلام کا نام نہ دیں ھم شاہ کے زمانہ میں بھی بعض اسلامی طریقہ کار پر عمل نھیں کرسکتے تھے لیکن یہ جانتے تھے کہ شاہ کی حکومت اسلامی نھیں ھے، اور اس کے بعض کام دین کے مخالف تھے پس اسلام کے احکام کا جاری نہ ھوسکنا اس بات کا سبب قرار نھیں پاسکتا کہ ھم یہ کھنے لگیں کہ اسلام بدل گیا ھے، ھم آج بھی بعض موارد میں اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کی طاقت نھیں رکھتے، لیکن ھمیں یہ کھنے کا حق نھیں ھے کہ یھی اسلام ھے جو ھم کرتے ھیں، اسلام کو تو اسی طرح پھنچانیں جیسا وہ ھے اور اگر کسی مقام پر اسلام پر عمل نھیں کرسکتے تو خداوندعالم سے عذر خواھی کریں کہ ھم سے فلاں مورد میں اسلام کے احکام پر عمل نھیں ھوا، اور اگر خدا نخواستہ ھماری غلطی ھے تو ھمیں ملت اسلامی سے عذر خواھی کرنا چاھئے کہ اسلامی قوانین کے نافذ کرنے میں ھم سے غلطی ھوئی پس ھمیں اسلام میں ردّ وبدل اور تغییر کرنے کا کوئی حق نھیں ھے نیز ھمیں توجہ رکھنا چاھئے کہ اسلام وھی دین ھے جو 1400 سال پھلے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ ھم تک پھنچا ھے۔
6۔ اسلامی حکومت کے ڈھانچہ کے سلسلہ میں ایک طریقہمذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اسلامی حکومت کا ھدف؛ معاشرہ میں اسلامی اور معنوی اقدار کو رواج دینا ھے اور اسی کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا ھے، نہ کہ بالعکس(مثلاً معنوی اقدار کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا)، تو اب ھم کو یہ دیکھنا ضروری کہ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ کیسا ھونا چاھئے اور جو افراد حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں ان کے شرائط کیا کیا ھیں؟اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ کسی بھی حکومت میں قوہ مجریہ کی اصلی ذمہ داری قوانین کو نافذ کرنا ھے، اس مطلب پر سبھی اتفاق رکھتے ھیں؛ اور اسلامی حکومت یعنی وہ سسٹم جو اسلامی قوانین نافذ کرنے کا ضامن اور اسی قانون کے اھداف کو پورا کرناھے تو اب یہ دیکھنا ھے کہ کوئی بھی حکومت ھو ، چاھے مشرقی اور مارکسسٹی حکومت ھو یا مغربی اور لیبرل حکومت یا دیگر حکومتیں، ان کے ذمہ دار افراد میں کیا کیا خصوصیات ھونا ضروری ھیں؟ اس سوال کے جواب میں عرض ھے کہ کسی بھی حکومت کے ذمہ دار افراد میں کم سے کم دو صفات کا ھونا ضروری ھے:
1۔قانون کی شناخت:جو شخص نفوذ قوانین کا ضامن ھونا چاھتا ھے اگر اس کو قانون کا صحیح علم نہ ھو تو پھر وہ کس طرح قانون کو جاری کرسکتا ھے؟ قوانین سے آگاہ او رآشنا ھونا حکومتی افراد کی پھلی خصوصیت ھے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طورسے نبھاسکے، کیونکہ حکومت قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ھوتی ھے تو اگر اس کو قوانین اور دیگر پھلوٴوں کا صحیح علم نہ ھو تو پھر عملی میدان میں غلطی کرسکتی ھے اس سلسلہ میں سب سے بھترین طریقہ کار یھی ھے کہ جو شخص حکومت میں سب سے بڑے درجہ پر فائز ھو وہ قوانین پر سب سے زیادہ علم رکھتا ھو اور ان کو اچھے طریقہ سے جانتا ھو، تاکہ اس کی غلطی کا احتمال سب سے کم ھو۔
2۔قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت:وہ حکومت جو قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ھوتی ھے اس کے پاس اتنی طاقت ھو جس کے ذریعہ مورد نظر قوانین کو نافذ کرسکے، اگر کوئی حکومت ۶0/ ملین لوگوں پر بلکہ ایک ارب لوگوں پر (مثلاًچین اور ھندوستان) حکومت کرے اور ان پر احکام اور مقررات کو جاری کرنا چاھے تو اس کے لئے کافی مقدار میں قدرت وطاقت کا ھونا ضروری ھے چنانچہ یہ مسئلہ اتنی اھمیت کا حامل ھے کہ آج کی دنیا کے بھت سے فلسفی نظریات میں حکومت کو قدرت کے برابر جانتے ھیں اور اسی “قدرت وطاقت” کو فلسفہ سیاست کے مھم ترین مفاھیم میں سے ایک مفھوم سمجھتے ھیں بھرحال اس بات پر توجہ رھے کہ حکومت کو صاحب قدرت وطاقت ھونا ضروری ھے۔لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ “طاقت و قدرت ” کیا ھے؟تو مختصر طور پر یہ سمجھئے کہ قدیم زمانہ سے انسانی معاشرہ میں تحویل وتحول کے ساتھ ساتھ قدرت وطاقت کے مختلف معنی کئے جاتے رھے ھیں، چنانچہ ابتدائی اور سادہ حکومت (3)میں عام طور پرحاکم یا قبیلہ کے سردار میں جسمانی قدرت شامل ھوتی تھی، کیونکہ اس زمانہ میں جو شخص حاکم ھوتا تھا اس کی جسمانی قدرت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ھوا کرتی تھی کیونکہ اگر کوئی شخص ایک ھزار افراد پر مشتمل خاندان ھے اوراس پر حکومت کرتا تھا، اور کوئی شخص حاکم کے قوانین کی مخالف کرتا تھا تو اس کو سزا دینے کے لئے حاکم اپنی جسمانی طاقت سے استفادہ کرتا تھا لھٰذا طے یہ ھوا کہ اس زمانہ میںطاقت سے مراد صرف ظاھری اور جسمانی طاقت مراد ھوتی تھی۔لیکن جب سے انسانی معاشرہ کے مسائل پیچیدہ تر ھوتے گئے اور معاشرہ نے ترقی کی تو اس وقت ایک شخص کی طاقت نے ایک کمیٹی کی صورت اختیار کرلی ؛ یعنی اگر خود حاکم میں جسمانی طاقت کافی مقدار میں موجود نہ ھو تو اس کے پاس ایسے افراد ھونا چاھئے جو جسمانی اعتبار سے بھت زیادہ طاقتور اور قوی ھوں اس حاکم کے پاس طاقتور لشکر ھونا ضروری تھا ، لیکن اس کے بعد جب علم و دانش نے ترقی کی تو پھر قدرت اپنے ظاھری اور فیزیکی شکل سے نکل کر علمی اور ٹیکنالوجی شکل میں تبدیل ھوگئی یعنی گویا حاکم کے پاس ایسے اسلحے وآلات ھوں جن کے ذریعہ بدنی طاقت کا کام لیا جاسکے۔اگرچہ ایک موقع پر حاکم کو معاشرہ کا ادارہ کرنے کے لئے اس کی جسمانی طاقت ھی کافی تھی لیکن جیسے جیسے معاشرہ نے علم وفن میں ترقی کی اور بھت سے فوجی اسلحہ بنائے تو پھر حکومت کے لئے بھی ضروری ھوگیا کہ وہ بھی فیزیکی ، صنعتی اور ٹکنالوجی خصوصاً فوجی اسلحہ جات کافی مقدار میں رکھتی ھو، تاکہ خلاف ورزی کا سد باب کیا جا سکے، اور اگر کچھ لوگ شورش اور بغاوت کرنا چاھیں تو آسانی سے ان کا سر کچل دیا جائے، یا اگر کچھ لوگ دوسروں کی جان ومال کے لئے خطرہ بن رھے ھوں تو اپنی طاقت کے ذریعہ ان کو روک سکے۔
7۔ عوام الناس میں حکومت کی مقبولیت ضروری ھے۔جس طاقت وقدرت کے بارے میں ھم نے آپ کی خدمت میں عرض کیاوہ جسمانی اور فیزیکی طاقت میں منحصر تھی،جو ابتدائی حکومتوں میں ھوتی تھی، اس کے بعد پیشرفتہ حکومتوں میں مورد توجہ ھوتی تھی یھاں تک کہ آج کل اسی معنی میں استعمال ھوتی ھے ، جیسا کہ ھم دیکھتے ھیں کہ حکومتیں اپنی طاقتوں کو بڑھانے میں لگی ھوئی ھیں ، ان کی کوشش یہ ھوتی ھے کہ اپنے اسلحہ خانہ کو جدید اور اھم اسلحوں سے بھرلیں تاکہ موقع پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے لیکن یہ توجہ رھے کہ حکومت کی طاقت اور اس کا اقتدار صرف اسی چیز میں منحصر نھیں ھے؛ بلکہ پیشرفتہ معاشرہ میں حکومت کی طاقت کو معاشرہ میں نفوذ اور لوگوں کی مقبولیت کو پھلا درجہ دیا جاتا ھے کیونکہ حکومت اپنے تمام پروگراموں اور اپنی خواھشات کو قوت بازو کے زور پر معاشرہ میں نافذ نھیں کرسکتی؛ اصل یہ ھے کہ عوام الناس اپنی خوشی اور رغبت کے ساتھ مقررات اور قوانین کو قبول کریں اور قوانین کے سامنے گردن جھکائیں لھٰذا طے یہ ھوا کہ جو شخص بھی قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ٹھھرے یا سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ھو تو عوام الناس میں اس کی مقبولیت ضروری ھے، اور ظاھری طاقت اور قوتِ بازو کی بنا پر کبھی بھی ایک طولانی مدت کے لئے حکومت باقی نھیں رہ سکتی۔پس طے یہ ھوا کہ قوانین کا جاری ونافذ کرنے والا طاقتور اور معاشرہ میں مقبولیت رکھتا ھو، یھی وجہ ھے کہ مدیریت میں بد نظمی سے روک تھام اور معاشرہ کے فوائد کو نابودی سے بچانے کے لئے حکومت کے ذمہ دار افراد میں خاص صفات کا ھونا ضروری ھے تاکہ حکومت اور قانون کے اھداف ومقاصد کو پورا کرسکیں؛ یعنی حقیقت میں حکومت کے ذمہ دار افراد اور قانون کے نافذ کرنے والے ضامن افراد کے لئے ایک خاص صلاحیت کا ھونا ضروری ھے چنانچہ اس بات کو سیاست کے فلسفہ میں مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ھے جس کو معمولاً اجتماعی مشروعیت اور عام مقبولیت سے تعبیر کیا جاتا ھے یعنی حکومت عقلائی طریقہ کار کو اپنا ئے اور قوانین کو نافذ کرنے میں صحیح طریقہ بروئے کار لائے، اور عوام الناس بھی اس کے لئے قانونی اعتبار کے قائل ھوں قوانین کو نافذ کرنے والے ذمہ دار افراد کے لئے صاحب اقتدار ھونے کے ساتھ ساتھ (تاکہ قوانین کی مخالفت سے روک تھام ھوسکے) عوام الناس بھی ان کے اعتبار کے قائل ھوں اور حکومت کو انھیں کا حق سمجھے۔قارئین کرام ! خلاصہ یہ ھوا کہ اقتدار کی تین قسمیں ھیں پھلی اور دوسری قسم دوسرے تمام ھی معاشروں میں جانی پھچانی ھیں، اگرچہ ان کو جاری کرنے کے سلسلہ میں مختلف قسم کے نظریات اور طریقہ کار پائے جاتے ھیں، لیکن ھماری نظر میں جس چیز کی زیادہ اھمیت ھے وھی تیسری قسم کا اقتدار(مقبولیت عام) ھے۔
حوالے:1 نھج البلاغہ خطبہ نمبر 40(2) اسی شخص نے مغربی لیبرل “Liberal”)آزادی خواہ)نظریہ کی بنیاد رکھی جو آج کل کی سیاسی گفتگو اور یونیورسٹی وغیرہ میں بیان ھوتی ھے اور کم وبیش سبھی لوگ اس کو قبول کرتے ھیں(3)مثلاً ھزاروں سال قبل تقریباً دنیا بھر میں قبائلی حکومتیں ھوا کرتی تھیں