سکولریزم

294

سکولریزم (٢)اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیں اور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ‘لوٹر ‘جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار…………..(2)Secularism.منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ‘ولٹر'(٢) (١٧٧٨۔١٦٩٤ )اور ‘ہگل ‘(٣)(١٨٣١۔١٧٧٠ )نے بھی بیان کیا ہے،اور ‘ ہیکسلی ‘(٤)جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور’ فیور بیچ ‘(٥)(١٨٣٣۔١٧٧٥) ‘مارکس ‘ (٦)( ١٨٨٣۔١٨١٨)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے :یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی (٧)حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(٨) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(٩) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ…………..(1)Deism.(2)Voltaire.(3)Hegel,Friedrich.(4)Huxley,Julian.(5)Feuerbach, von Anseim(6)Mark, karl.(٧)یکتا پرستی یا توحید (Unitarianism)سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔ (٩)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformerنشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ٦٠ سال تک مقدمہ لڑا۔(8)Thomas,Henry,Hexleyسرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(١)نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ‘ا گسٹ کانٹ'(٢)کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ١٩ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے (٣)مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔’ڈیوس ٹونی’اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ‘فیلیپ سیڈنی(٤)، اڈموند اسپنسر(٥) کریسٹو فرمارلو(٦)، جان ڈان(٧) اور جان ملٹن'(٨) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(٩)محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ‘نظشے ‘ کا نعرہ ‘کہ خدا مرگیا ہے ‘ جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ (١٠)’ارنسٹ کیسیرر ‘دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو…………..(١)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ٣٧۔(2)August,conte(٣)گذشتہ حوالہ ، ص ٤١۔(4)Philip,sidney(5)Edmund, spenser(6)Chirs topher Marlowe(7)John,Don(8)John,Milton.(9) (10) العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ٣ و ٤۔
ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔ (١)…………..(١)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ٢١٠۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.