صرف مومنين کيلئے دعا
اس وقت دعا کی تين حالتيں ہوتی ہيں ؟١۔دعا کرنے والا الله سے لو لگا تا ہے ۔٢۔ دعا کرنے والا روئے زمين پر بسنے والی امت مسلمہ اور طول تاریخ کا جائزہ ليتے ہو ئے دونوں سے رابطہ رکهتا ہے ۔٣۔وہ اپنے برادران اوررشتہ داروں سے رابطہ پيدا کرتا ہے اور یہ اس کی زندگی کابہت ہی وسيع ميدان ہے ۔
سلامی روایات ميں نام ليکر دعا کر نے کو بڑی ا ہميت دی گئی ہے ۔ ہم ذیل ميں ان عناوین کے متعلق واردہونے والی روایات کے نمونے بيان کر رہے ہيں :
ا۔غائب مومنين کيلئے دعاحضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے : ( <دعاء المرء لاخيہ بظہرالغيب یدرالرزق،و یدفع المکروہ>( ١”انسان کے غائب مومنين کيلئے دعا کرنے سے رزق ميں کشاد گی ہو تی ہے اور بلائيں مشکليں دورہوتی ہيں “حضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے: ( <اوشک دعوة واسرع اجابة دعاء المرء لاخيہ بظہر الغيب >( ٢۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴،حدیث / ٨٨۶٧ ۔ / ١)اصول کا فی / ۴٣۵ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴۵ )٢)اصول کا فی / ۴٣۵ ۔ )” انسان کی غائب شخص کيلئے کی جانے والی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے “ابو خالد قما ط سے مروی ہے کہ امام محمد باقرعليہ السلام نے فرما یاہے : <اسرع الدعاء نجحاللاجابة دعاء الاخ لاٴخيہ بظہرالغيب۔یبداٴ بالدعاء لاخيہ ( فيقول لہ ملک موکّل بہ:آمين ولک مثلاہ >( ١”غائب شخص کيلئے کی جانے والی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے جب انسان اپنے غائب بهائی کيلئے دعا کرنا شروع کرتاہے تو دعا کر نے والے کا موکل فرشتہ اس کی دعا کے بعد آمين کہتا ہے اور کہتا ہے تمہارے لئے بهی ایسا ہی ہوگا” سکونی نے حضرت امام جعفر صادق سے اور آپ نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے:( <ليس شی ء اسرع اجابة من دعوة غائب لغائب >( ٢”غائب شخص کی غائب شخص کيلئے دعا جتنی جلدی قبول ہوتی ہے کو ئی چيز اُتنی جلدی قبول نہيں ہوتی ہے “جعفر بن محمد الصادق عليہ السلام نے اپنے آباؤاجداد سے اور انهوں نے نبی صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے نقل کيا ہے :<یاعلی اربعة لاتردلهم دعوة :امام عادل،والوالد لولدہ ،والرجل یدعو لاخيہ ( بظہرالغيب،والمظلوم ۔یقول اللّٰہ عزّوجلّ:وعزّتی وجلالی لاٴنتصرنّ لک ولو بعد حين >( ٣”اے علی ،چار آدميوں کی دعا کبهی ردنہيں ہوتی ہے :امام عادل ،باپ کا اپنے بيڻے کيلئے دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اصول کا فی / ۴٣۵ ۔ )۴،حدیث / ٨٨٧ ۔ / ٢)وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴۶ )٣)خصال صدوق جلد ١صفحہ/ ٩٢ اور فقيہ جلد ۵ صفحہ/ ۵٢ ۔ )کرنا ،انسان کا اپنے غائب بهائی ،اور مظلوم کيلئے دعاکرنا ،الله عزوجل فرماتا ہے ميری عزت وجلال کی قسم ميں تمہاری مدد ضرور کرو نگا اگرچہ کچه مدت کے بعد ہی کيوں نہ کروں “رسول خدا (ص)سے مروی ہے:( <مَنْ دعا لموٴمن بظہرالغيب قال الملک :فلک بمثل ذلک >( ١”جو انسان کسی غائب مومن شخص کيلئے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تمہارے لئے بهی ایسا ہی ہوگا “حمران بن اعين سے مروی ہے :ميں نے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کی خدمت بابرکت ميں عرض کيا :مجهے کچه نصيحت فرمایئے تو آپ نے فرمایا :<اوصيک بتقوی اللّٰہ وایاک والمزاح فانہ یذہب بہيبة الرجل وماء وجہہ،وعليک ( بالدعا لاخوانک بظہر الغيب؛فانّہ یہيل الرزق۔یقولهاثلاثاً>( ٢”الله کا تقویٰ اختيار کرو ،مذاق کر نے سے پر ہيزکرو اس لئے کہ اس سے انسان کی ہيبت اور اس کے چہر ے کی رونق ختم ہوجاتی ہے اور تم اپنے غائب بهائی کيلئے دعا کرو چو نکہ اس طرح رزق ميں وسعت ہوتی ہے “آپ نے ان جملوں کوتين مرتبہ دُہرایا “معاو یہ بن عمار نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے: <الدعاء لاخيہ بظہرالغيب یسوق الیٰ الداعي الرزق،ویصرف عنہ البلاء،ویقول ( الملک:ولک مثل ذلک >( ٣۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ / ٩۵ ۔بحار الانوار جلد ٩٣ ۔صفحہ/ ٣٨۴ ۔ )٢)السر ائر صفحہ/ ۴٨۴ ۔بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٨٧ ۔ )٣)امالی طوسی ج ٢ص ٢٩٠ ،بحار الانوار ج ٩٣ ص ٣٢٧ )”اپنے کسی غير حاضر بهائی کيلئے دعا کرنا رزق کی طرف دعوت دیناہے ،اس سے بلائيں دور ہوتی ہيں اور فرشتہ کہتا ہے :تمہار ے لئے بهی ایسا ہی ہے ”
ب:چاليس مومنوں کيلئے دعااسلامی روایات ميں نام بنام چاليس مومنوں کيلئے اورانهيں اپنے نفس پر مقدم کر کے دعا کر نے پر بہت زیادہ زور دیاگيا ہے ۔علی بن ابراہيم نے اپنے پدر بزگوار سے اور انهوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے: <مَنْ قدّم في دعائہ اربعين من الموٴمنين،ثم دعا لنفسہ ( استجيب لہ >( ١”جو انسان اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے چاليس مومنوں کےلئے دعا کرتا ہے اسکی دعا مستجاب ہوتی ہے”عمر بن یزید سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے:<مَنْ قدّم اربعين رجلا من إخوانہ قبل اٴنْ یدعولنفسہ استجيب لہ فيهم و فی ( نفسہ >( ٢”جس نے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اپنے چاليس بهائيوں کےلئے دعا کی تو پروردگار عالم اس کی دعا ان کے اور خود اس کے حق ميں قبول کرتا ہے”
ج:دعاميں دوسروں کوترجيح دیناابو عبيدہ نے ثویر سے نقل کيا ہے کہ ميں نے علی بن الحسين عليہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے: انّ الملائکة اذاسمعواالموٴمن یدعولاٴخيہ الموٴمن بظہرالغيب،او۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴،حدیث / ٨٨٩٨ ۔ / ٩٣ ؛وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵۴ / ١)المجالس صفحہ ٢٧٣ ؛بحا رالانوار جلد ٣٨۴ )۴،حدیث / ٨٨٩٨ ۔ / ٢)المجالس صفحہ ٢٧٣ ؛الامالی صفحہ ٢٧٣ ؛وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵۴ )یذکرہ بخير،قالوا:نعم الاٴخ انت لاٴخيک،تدعولہ بالخير،وهوغائب عنک وتذکرہ بخير،قد اعطاک اللّٰہ عزّوجلّ مثلَي ماساٴلت لہ،واثنیٰ عليک مثلي ما اثنيت عليہ،ولک الفضل ( عليہ >( ١”جب فرشتے کسی مومن کواپنے غير حاضر بهائی کےلئے دعا کرتے ہوئے یا اسکو اچهائی سے یاد کرتے ہوئے دیکهتے ہيں تو وہ کہتے ہيں:ہاں وہ تمہارا بهائی ہے تم اس کيلئے خير کی دعا کرو ،وہ تمہارے پاس نہيں ہے تم اسکو خير کے ساته یاد کرو خداوند عالم تم کو اسی کے مثل عطا کرے گا جو تم نے اس کيلئے خدا سے مانگا ہے ویسی ہی تعریف تمہاری ہے جو تعریف تم نے اس کےلئے کی ہے اور تمہارے لئے فضل ہے۔یونس بن عبدالرحمن نے عبدالله بن جندب سے نقل کيا ہے: <الداعی لاخيہ الموٴمن بظہرالغيب ینادیٰ من عنان السماء:لک بکل واحدة ( مائةالف>( ٢” ميں نے ابو الحسن موسی عليہ السلام کو یہ فرماتے سناہے:غير حاضر مومن کےلئے دعا کرنے والے کو عنانِ سماء سے آوازآتی ہے:تمہارے لئے ایک دعا کے عوض ایک لاکه دعائيں ہيں “ابن ابو عميس نے زید نرسی سے نقل کيا ہے: “کنت مع معاویة بن وهب فی الموقف وهویدعو،فتفقدت دعاء ہ فما راٴیتہ یدعو لنفسہ بحرف،وراٴیتہ یدعولرجل رجل من الآفاق ویُسمّيهم،ویُسمّي آباء هم حتّی افاض الناس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴،حدیث / ١)اصول کا فی / ۵٣۵ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴٩ ) ٨٨٨٢ ۔ /٢)رجال کشی صفحہ ٣۶١ ۔ )فقلت لہ :یاعمّ لقدراٴیت عجباً ! قال:وماالذي اٴعجبک مماراٴیت؟قلت:ایثارک اخوانک علی نفسک فی مثل هذاالموضع،وتفقدک رجلاّرجلاً۔فقال لي:لاتعجب من هٰذایابن اخي،فاني سمعت مولي۔۔۔وهویقول من دعالاٴخيہ بظہرالغيب ناداہ ملک من السماء الدنيا:یاعبد اللّٰہ ،لک مائة اٴلف وضعف ( ممّادعوت ۔۔۔”الخ( ١”ميں موقف(حج)ميں معاویہ بن وہب کے ساته تها وہ اپنے علاوہ سب کےلئے دعا کر رہے تهے اپنے لئے دعاکاایک بهی فقرہ نہيں کہہ رہے تهے اورآفاق ميں سے ایک ایک شخص اور ان کے آباؤ اجداد کا نام لے لے کر ان کےلئے دعا کر رہے تهے یہاں تک کہ سب کوچ کر گئے ۔ميں نے ان کی خدمت عرض کيا:اے چچا ميں نے بڑی عجيب چيز دیکهی انهوں نے کہا: تم نے کيا عجيب چيز دیکهی؟ميں نے عرض کيا :اس طرح کے مقام پر آپ کا اپنے نفس کو چهوڑکر دوسرے برادران کے لئے دعا کرنا یہاں تک کہ ان ميں سے ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ انهوں نے مجه سے کہا:اے برادرزادہ اس بات سے متعجب نہ ہوميں نے اپنے مولاکو یہ فرماتے سنا ہے:۔۔۔جس نے اپنے غير حاضر بهائی کيلئے دعا کی تو آسمان کے فرشتے اس کو آواز دیتے ہيں جو کچه تم نے اس کيلئے دعا کی ہے تمہارے لئے اس کے ایک لاکه برابر ہے “حضرت امام حسين بن علی عليہ السلام نے اپنے بهائی حضرت امام حسن سے نقل کيا ہے :راٴیت امي فاطمة قامت فی محرابها ليلة جمعتها،فلم تزل راکعة،ساجدة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)عدة الداعی صفحہ / ١٢٩ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧ ،وسا ئل الشيعہ جلد ) ۴،حدیث / ٨٨٨۵ ۔ /١١۴٩حتیّٰ اتضح عمود الصبح،وسمعتها تدعوللموٴمنين والموٴمنات،وتسمّيهم وتُکثرالدعاء لهم ولاتدعولنفسهابشيٴ فقلت لها:یااُماہ:لم لاتدعين لنفسک،کما تدعين لغيرک ؟ ( فقالت:یابُنّي،الجارثم الدار >( ١”ميں نے اپنی مادر گرامی کو شب جمعہ ساری رات محراب عبادت ميں رکوع وسجود کرتے دیکها یہاں تک کہ صبح نمودار ہو جا تی تهی اور آپ مومنين اور مو منات کا نام لے ليکر بہت زیادہ دعا ئيں کيا کر تی تهيں اور اپنے لئے کوئی دعا نہيں کر تی تهيں ۔ميں نے آپ کی خد مت مبارک ميں عرض کيا :اے مادر گرامی آپ اپنے لئے ایسی دعا کيوں نہيں کرتيں جيسی دوسروں کيلئے کر تی ہيں ؟تو آپ نے فرمایا :اے ميرے فرزند ،پہلے ہمسایہ اور پهر گهروالے ہيں ابو ناتانہ نے حضرت علی عليہ السلام سے اور انهوں نے اپنے پدربزگوار سے نقل کيا ہے:”راٴیت عبد اللّٰہ بن جندب فی الموقف فلم اٴرموقفاً اٴحسن من موقفہ،ما زال مادّاً یدیہ الی السماء ودموعہ تسيل علی خدیہ حتّیٰ تبلغ الارض۔فلماصدر الناس قلت لہ:یااٴبامحمّد،ماراٴیت موقفاً اٴحسن من موقفک !قال:واللّٰہ مادعوت الّا لاخواني،وذلک اٴنّ اٴباالحسن مو سیٰ بن جعفر اٴخبرنياٴنّہ مَن دعالاخيہ بظہرالغيب نُودي من العرش:ولک مائة اٴلف ضعف۔فکرهت اٴن اٴدع مائة اٴلف ضعف مضمونة لواحدة لااٴدري ( تستجاب اٴم لا “( ٢”ميں نے عبد الله بن حندب کو موقف حج ميں دیکها اور اس سے بہترميں نے کسی کا موقف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)علل الشر ائع صفحہ / ٧١ ۔ )٢)امالی صدوق صفحہ ٢٧٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۴ ۔ )نہيں دیکها آپ مسلسل اپنے ہاتهوں کو آسمان کی طرف اڻها ئے ہوئے تهے اور آپ کی آنکهوں سے آنسوں آپ کے رخساوں سے بہہ کر زمين پر ڻپک رہے تهے ،جب سب ہٹ گئے تو ميںنے ان سے عرض کيا: اے ابو محمد ،ميں نے آپ کے موقف سے بہتر کوئی موقف نہيں دیکها!انهوں نے کہا :ميں صرف اپنے بهائيوں کےلئے دعا کر رہا تها اسی وقت ابوالحسن مو سیٰ بن جعفر نے مجهکو خبردی ہے کہ جو اپنے غير حاضر بهائی کيلئے دعا کرتا ہے تو اس کوعرش سے ندادی جاتی ہے: تمہارے لئے اس کے ایک لا که برابر ہے :لہٰذا مجه کو یہ نا گوار گذرا کہ اس ایک نيکی کی خاطر ایک لاکه ضما نت شدہ نيکيو ں کو ترک کردوں جس کے بارے ميں مجهے نہيں معلوم کہ وہ قبول بهی ہو گی یا نہيں “عبد الله بن سنان سے مروی ہے :ميں عبد الله بن جندب کے پاس سے گزرا تو ميں نے آپ کو صفا (پہاڑی کے نام )پر کهڑے دیکها اور دوسرے ایک سن رسيدہ آدمی کو دعا ميں یہ کہتے سنا: کہ خداےافلاںفلاں کوبخش دے جن کی تعداد کو ميں شمار نہ کر سکا ۔جب وہ نماز کا سلام تمام کرچکے تو ميں نے ان سے عرض کيا :ميں نے آپ سے بہتر کسی کا موقف نہيں دیکها ليکن ميں نے آپ ميں ایک قابل اعتراض بات دیکهی ہے۔انهوں نے کہا کيا دیکها ؟ميں نے ان سے کہا :آپ اپنے بہت سے برادران کےلئے دعا کرتے ہيں ليکن ميں نے آپ کواپنے لئے دعا کرتے نہيں دیکها تو عبد الله بن جندب نے کہا :اے عبدالله ميں نے امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے: <مَن دعالاخيہ الموٴمن بظہرالغيب نودي من عنان السماء:لک یاهذا مثل ماساٴلت في اخيک مائة الف ضعف فلم اٴحبّ اٴن اٴترُک مائہ اٴلف ضفع مضمونة بواحدة ( لاادری اٴتستجاب ام لا>( ١۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)فلاح السائل صفحہ/ ۴٣ ،بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٩٠ ۔ ٣٩١ ۔ )”جس نے اپنے غير حاضر مو من بهائی کےلئے دعاکی تو اس کو آسمان سے ندا دی جاتی ہے ، جو کچه تم نے اپنے مومن بهائی کےلئے سوال کيا ہے تمہارے لئے اس کے ایک لاکه برابر ہے لہٰذا مجه کو یہ نا گوار گذرا کہ اس ایک نيکی کی خاطر ایک لاکه ضما نت شدہ نيکيو ں کو ترک کردوں جس کے بارے ميں مجهے نہيں معلوم کہ وہ قبول بهی ہو گی یا نہيں “ابن عمير نے اپنے بعض اصحاب سے نقل کيا ہے کہ :”کان عيسیٰ بن اعين اذاحجّ فصارالی الموقف اقبل علیٰ الدعاء لاخوانہ حتّیٰ یفيض الناس،فقيل لہ:تنفق مالک،وتتعب بدنک،حتّیٰ اذاصرت الی الموضع الذي تبث فيہ الحوائج الی الله اقبلت علی الدعاء لاخوانک،وتترک نفسک فقال:انني علیٰ یقين من دعاء الملک لي وشک ( من ا لدعاء لنفسي”( ١” جب عيسیٰ بن اعين حج کرتے وقت موقف پر پہنچے تو انهوں نے اپنے برادران کےلئے دعا کرنا شروع کيا یہاں تک کہ سب لو گ چلے گئے۔ ان سے سوال کيا گيا :آپ نے مال خرچ کيا ، مشقتيںبرداشت کيں اور آپ نے دوسرے برادران کےلئے دعا ئيںکيں اور اپنے لئے کو ئی دعا نہيں کی تو انهوں نے کہا :مجه کو یقين ہے کہ فرشتہ ميرے لئے دعا کرتا ہے اور مجهے خود اپنے نفس کےلئے دعا کرنے ميں شک ہے “ابراہيم بن ابی البلاد (یا عبدالله بن جندب )سے مروی ہے : “قال کنت في الموقف فلماافضت لقيت ابراهيم بن شعيب،فسلّمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)الاختصاص صفحہ ۶٨ ، بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٩٢ ۔ )عليہ،وکان مصاباً باحدیٰ عينيہ واذاعينہ الصحيحة حمراء کاٴنّهاعلقة دم ،فقلتلہ:قد اٴصيت باحدیٰ عينيک ،وانامشفق لک علی الاخریٰ فلوقصرت عن البکاء قليلاً قال :لاوالله یااٴبامحمّد ،مادعوت لنفسي اليوم بدعوة ؟۔فقلت :فلمن دعوت ؟قال:دعوت لاخوانی:سمعت اباعبدالله عليّہ السلام یقول:مَن دعا لاخيہ بظهرالغيب،وکّل الله بہ ملکاً یقول:ولک مثلاہ فاردت ان اکون انماادعو لاخواني ویکون الملک یدعولي لاني في شک من دعائي لنفسي،ولست في شک من دعاء الملک ( لي”( ١”جب ميں موقف ميں تها تو ميری ابراہيم بن شعيب سے ملاقات ہوئی ميں نے ان کو سلام کيا تو ان کی ایک آنکه پر مصيبت کے آثار نمایاں تهے اور ان کی صحيح آنکه اتنی سرخ تهی گو یا خون کا ڻکڑا ہوتو ميں نے ان سے کہا :تمہاری ایک آنکه خراب ہو گئی ہے لہٰذا ميں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کم گریہ کریں اور دوسری آنکه کی خير منائيں ۔انهوں نے کہا:اے ابو محمد خدا کی قسم آج ميں نے اپنی ذات کيلئے ایک بهی دعا نہيں کی ہے ميں نے کہا :تو آپ نے کس کيلئے دعا کی ہے ؟انهوں نے کہا :ميں نے اپنے برادران کيلئے دعا کی ہے :کيونکہ ميں نے امام جعفر صادق کو فرماتے سنا ہے :جس نے اپنے غائب (غير حاضر )مومن بهائی کيلئے دعا کی توخداوند عالم اس پر ایک ایسے فرشتہ کو معين فرما دیتا ہے جو یہ کہتا ہے :تمہار ے لئے بهی ایسا ہی ہے ۔ميں نے اسی مقصد واراد ہ سے اپنے برادران کيلئے دعا کی ہے اور فرشتہ ميرے لئے دعا کرتا ہے مجهے اس سلسلہ ميں کوئی شک ہی نہيں ہے حالانکہ مجهکو اپنی ذات کيلئے دعا کر نے ميں شک ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)الاختصاص صفحہ ٨۴ ، بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٩٢ ۔ )