اسلامی حکومت اور جائز آزادی اوراقدار کی رعایت
1۔ حکومت کی ضرورت پر ایک اشارہحکومت کے فرائض میں سے ایک فریضہ قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ھے، جو دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں مقبول ھے، اسی طرح اسلامی حکومت میں بھی جس میں قوانین یا تو براہ راست شریعت مقدسہ سے لئے جاتے ھیں یا وہ قوانین ان افراد کے ذریعہ مرتب ھوتے ھیں جن کو شریعت کی طرف سے اجازت حاصل ھوتی ھے، لھٰذا قوانین کو جاری ھونا چاھئے پھلے درجہ میں خود عوام الناس کو قوانین پر عمل کرنا چاھئے اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنے وظائف پر عمل کرنا چاھئے، نیز معاشرتی، گھریلو اور بین الاقوامی روابط؛ اسلامی قوانین کے تحت ھونے چاھئیں۔اپنے وظائف کو انجام دینے اور اجتماعی قوانین پر عمل پیرا ھونے کے لئے ایک مصمم ارادہ ھونا چاھئے ، کیونکہ عوام الناس پھلے اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچتے ھیں اور اجتماعی امور کے بارے میں کم ھی فکر کرتے ھیں، خصوصاً اس وقت جبکہ اجتماعی امور انجام دینے میں ان کا کوئی خرچ یا نقصان ھو،اس صورت میں ان کے درمیان بھت کم رجحان پایا جاتا ھے، مگر وہ افراد جو بھترین تربیت یافتہ ھوں اور معاشرہ کے فوائد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتے ھوں اس بنا پر اجتماعی امور میں اکثر خلاف ورزی اسی بنیاد پر ھوتی ھے کہ عوام الناس میں اجتماعی ذمہ داریوں کا زیادہ احساس نھیں پایا جاتا، اسی وجہ سے کچھ لوگوں کا ان قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت اپنے ذمہ لینا ضروری ھے تاکہ عوام الناس کو اجتماعی قوانین پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کریں،اور مخالفت کرنے کی صورت میں ان کو سزا بھی دلائیں۔لھٰذا ایسی حکومت کا ھونا ضروری ھے جو(ضرورت کے وقت) اپنی طاقت کے ذریعہ ان قوانین پر عمل کرائے، اور جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ ھر معاشرہ میں شروع ھی سے اس کی ضرورت کے تحت قوانین بنائے جاتے ھیں، مثلاً اگر کوئی شخص کسی کے مال کو غصب کرنا چاھے تو اس کی سزا معین کی جاتی ھے تو اگر کسی نے اس قانون پر عمل نہ کیا اور دوسرے کے مال پر ھاتہ بڑھایا تو قانون کے رکھوالے اس کو سزا دیتے ھیں بعض حالات میں بات واضح نھیں ھوپاتی جس کے نتیجہ میں اختلاف اور کشمکش پیدا ھوتی ھے یھاں تک کہ بعض موقع پر ایسے حالات بن جاتے ھیں کہ طرفین میں سے کوئی ایک بھی خلاف ورزی نھیں کرنا چاھتا لیکن چونکہ حق (بات) ظاھر نھیں ھے لھٰذا اپنے وظیفہ کو معین کرنے میں غلطی کرجاتے ھیں، ایسے ھی حالات کے لئے “قوھٴ قضائیھ” (عدالت) کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ھے تاکہ وہ قوانین کو ان کے مصداق پر منطبق (ٹیلی) کرے اور یہ طے کرے کہ کون حق پر ھے؟ اور اگر عدالت کی طرف سے فیصلہ ھونے کے بعد طرفین میں پھر بھی اختلاف باقی رھا اور اس فیصلہ کو نہ مانا تو اس موقع پر پولیس کے ذریعہ اس فیصلہ کو منوایا جاتا ھے لھٰذا یہ (بھی) طے ھوگیا کہ عدالت کا ھونا بھی ضروری ھے، البتہ ھمارے بیان کے مطابق عدالت کو قوہ مجریہ کے تحت ھونا چاھئے، لیکن بھت سے سیاسی فلاسفہ کے نزدیک قوہ قضائیہ کوحکومت اور پارلیمنٹ سے مستقل ھونا چاھئے۔اس تقسیم کے تحت پارلیمنٹ کا کام قوانین بنانا، افراد کے حقوق کو معین کرنا اور خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرنا ھے، مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون معین کیا جاتا ھے کہ فلاں خرید وفروخت صحیح ھے یا باطل ھے، اس کے بعد مقرر شدہ قوانین کے تحت معاملہ ھوتا ھے لیکن اگر اس قانون کے منطبق کرنے میں شک ھو جائے اور معلوم نہ ھوسکے کہ معاملہ صحیح ھے تاکہ لین دین ھوسکے، یا باطل ھے؛ المختصر یہ کہ طرفین کے درمیان اختلاف ھوجائے تو اس صورت میں عدالت جانا ھوگا اور چونکہ عدالت کی ذمہ داری کلی قوانین کو ان کے مصادیق پرمنطبق کرناھے اور قاضی کے فیصلہ کے بعد معلوم ھوجاتا ھے کہ مثلاً زید ، خالد کو فلاں مقدار میں مال دے ، تو اگر طرفین نے یہ فیصلہ مان لیا ھے اور قانون کے مطابق عمل کیا تو ان کے درمیان معاملہ ختم ھوجائے گا ، ورنہ حکومت کو درمیان میں آنا ھوگا اور پویس کے ذریعہ زید سے مال لے کر صاحب حق (خالد) کو دینا ھوگا۔ھم نے عرض کیا کہ حکومت کے اصل وظائف میں سے ایک وظیفہ اجتماعی قوانین اور احکام کو جاری کرنے کی ضمانت ھے، لیکن اس بات پر بھی توجہ رھے کہ قوانین جاری کر نا فقط حکومت میں منحصر نھیں ھے بلکہ دوسروں (عوام الناس) کو بھی قوانین جاری کرنے چاھئیں،جس طرح سے حکومت کی ذمہ داری صرف قوانین کو جاری کرنا نھیں ھے بلکہ وہ بعض مواقع پر قوانین بھی بنا سکتی ھے جیسا کہ “تفکیک قواھ” (تینوں قدرتوں کا مستقل ھونا) کی بحث میں بیان کریں گے، کیونکہ قانون گذاری اور قوانین کو جاری کرنے میں جدائی ممکن نھیں ھے اور ان کے درمیان رابطہ دنیا کی تمام ھی حکومتوں میں مقبول ھے، یعنی درحالیکہ حکومت کا کام قوانین کا جاری کرنا ھے لیکن بعض مواقع پر قوانین اور مقرارات بھی بنانے ھوتے ھیں دوسری طرف پارلیمنٹ بھی بعض اجرائی کاموں میں دخالت کرتا ھے اور بعض موارد میں بعض اجرائی امور پارلیمنٹ میں طے پاتے ھیں؛ مثال کے طور پر تیل وغیرہ کے سلسلے میں دوسری حکومتوں اور بیرونی کمپنیوںسے معاملہ کرنا جبکہ معاملہ کرنا ایک اجرائی کام ھے، لیکن بغیر پارلیمنٹ کے طے کر نا ممکن ھے لھٰذا ان قدرتوں کے درمیان کوئی سرخ خط (لائن) نھیں ھے،جس سے ایک دوسرے کے کاموں میں بالکل دخالت نہ کرسکے، نہ حکومت قوانین بنانے کی قدرت رکھتی ھو اور نہ پارلیمنٹ اجرائی امور میں دخالت کرنے کی صلاحیت رکھتا ھو، بھر حال یہ قدرتیں اپنے مخصوص مختلف کام رکھتی ھیں۔اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مذکورہ تکونی تقسیم (قوہ مجریہ، قوہ قضائیہ اور پارلیمنٹ )دنیا کی تمام ھی حکومتوں میں مقبول ھے، لیکن اسلامی حکومت قانون گذاری کے سلسلہ میں دوسری حکومتوں سے مختلف ھے: لائیک حکومتوں میں قانون گذاری کا معیارلوگوں کے دنیاوی اور اجتماعی امور ھوتے ھیں، لھٰذا قانون کو طے کرنے کے علاوہ ان کو جاری کرنے کا سلیقہ بھی اسی لحاظ سے ھوتا ھے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے قانون گذاری میں دنیاوی امور کے علاوہ اُخروی اور معنوی مصالح کو بھی نظر میں رکھا جاتا ھے، بلکہ قوانین مرتب کرتے وقت معنوی مصالح کو زیادہ اھمیت دی جاتی ھے اسلامی حکومت اور سیکولر اور لائیک حکومتوں میں یھی بنیادی اور اصل فرق ھے اور ظاھر سی بات ھے کہ ایسی (اسلامی) حکومت کی ذمہ داری بھی دوسری حکومتوں کے نسبت زیادہ ھوتی ھے؛ یعنی (اسلامی) حکومت لوگوں کو اجتماعی امور کی رعایت کرنے اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنے سے روکنے نیز ھرج ومرج (بد امنی)سے روک تھام کے علاوہ اسلامی اقدار کی بھی رعایت کرے اور ان کو جامہ عمل پھنائے۔
2۔ انسانی کردار میں اصل اوّلیاس میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے کہ انسان کی مھم اور برجستہ صفات میں سے انتخاب اور اختیار کی قوت ھے، اسی وجہ سے انسان؛ حیوانات اور فرشتوں سے فرق رکھتا ھے: کیونکہ حیوانات کے کام ان کی شھوت کے تحت ھوتے ھیں جن میں انتخاب کی کوئی خاص اھمیت نھیں ھوتی اور اگر اتفاقی طور پر انتخاب ھوتا بھی ھے تو وہ بھی شھوت کی وجہ سے ھوتا ھے یعنی ان کا انتخاب عقل وفکر کی بنیاد پر نھیں ھوتا اگر ھم دیکھتے ھیں کہ کسی حیوان کی تربیت کے ذریعہ اس کو بعض چیزیں سکھادی جاتی ھیں اور وہ اپنے مالک (مربی) کے اشارہ کے مطابق کام کرتا ھے یا کسی گھوڑے کی ایسی تربیت کی جاتی ھے جس سے وہ مالک کے بتائے ھوئے راستہ پر ھی چلتا ھے ؛ تو اگرچہ یھاں پر (حیوان کی طرف سے) انتخاب ھوتا ھے لیکن یہ انتخاب بھی غرائز اور شھوات کی بنا پر ھوتا ھے۔لیکن فرشتوں میں ملکوتی اور آسمانی صفات ھوتے ھیں ، ان میں گناہ ومعصیت اور حق کی خلاف ورزی کا مادہ نھیں پایا جاتا ان کا شمار مقدسین اور مقربین میں ھوتا ھے ان کا مقام؛ عالی اور پاک وپاکیزہ ھوتا ھے، لیکن ان میں بھی انتخاب کا مادہ نھیں ھوتا، حقیقت میں ان کے اندر عبادت اور خداوندعالم کی بے چون وچرا اطاعت کا مادہ پایا جاتا ھے لیکن یہ انسان ، خلیفہ خدا اور امانت الٰھی کا حامل ایک الگ ھی مخلوق ھے اس کے سامنے ھمیشہ دو راستے اور دو جاذبے سامنے رھتے ھیں ایک خدا کی طرف اور دوسرا شیطان کی طرف ان میں سے ایک راستہ کو انتخاب کرنے کی صلاحیت اس میں ھونا چاھئے، ورنہ اگر اس سے انتخاب کی قدرت سلب کرلی جائے اور مجبوراً کسی ایک راستہ پر لگا دیا جائے تو اس میں انسانی خصوصیات اور امتیازات ختم ھوجائیں گے۔لھٰذا انسانی کردار اور اس کی تربیت میں چاھے وہ انفرادی مسائل میں ھو یا گھریلو مسائل میں اور چاھے اجتماعی اور بین الاقوامی مسائل ھوں سبھی میں اس کے لئے انتخاب کی راہ ھموار ھونا چاھئے تاکہ اپنے انتخاب کے ذریعہ صحیح راستہ کو اپنائے؛ نہ یہ کہ اس پر کوئی راستہ تھونپ دیا جائے لیکن کبھی کبھی اجتماعی مسائل انسان پر سختی کا تقاضا کرتے ھیں در حقیقت قوہ مجریہ اور حکومت ایک ثانوی مصالح کی بنا پر ھے نہ اصل اولی کی بنا پر،یعنی اگر ھم یہ کھتے ھیں کہ معاشرہ کے لئے ایک حکومت کا ھونا ضروری ھے تاکہ وہ قوانین کو نافذ کرے یھاں تک کہ بعض حالات میں حکومت اپنی قدرت کے بل بوتے پر مجرموں کو بھی قوانین کی رعایت کرنے پر مجبور کرے، یہ اصل اولی کے برخلاف ھے کیونکہ اصلی اولی یہ ھے کہ قانون عوام الناس کے اختیار میں ھو وہ اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اس پر عمل کریں اور کوئی (بھی) اس کی مخالفت نہ کرے، کوئی شخص بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے، رشوت نہ لے، چوری نہ کرے اور لوگوں کی جان و مال پر ھاتہ نہ بڑھائے لیکن اگر دیکھنے میں یہ آیئے کہ ھمیشہ معاشرہ میں اس طرح کی خلاف ورزی ھوتی رھی ھیں، تو اس صورت میں پولیس کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ قانون کی خلاف ورزی ھونے سے روک تھام کرے لیکن اگر ایسا نہ ھو تو پھر پوری دنیا میں تباھی اور فساد پھیل جائے گا اور جو افراد صحیح راستہ پر چلنا (بھی) چاھتے ھیں ان کے لئے راستہ بند ھوجائے گا۔لھٰذا معاشرہ کی اکثریت کے لئے صحیح راستہ کے انتخاب کی راہ ھموار رھنے کے لئے جرائم پیشہ اور خلاف ورزی کرنے والوں کی روک تھام ضروری ھے اور ضرورت کے تحت ان کو سزا بھی دینا ھوگی تاکہ ترقی او رپیشرفت کا موقع فراھم رھے، ورنہ بعض جسمانی یا علمی قدرت اپنی شیطانی چالوں کی بنا پر معاشرہ کے مصالح کو خطرہ میں ڈال دیں گے جس سے انسان کو پیدا کرنے کا الٰھی مقصد پامال ھوجائے گا۔یہ بات بجا ھے کہ انسان کو آزادی اور اختیار کی بنا پر صحیح راستہ کا انتخاب کرنا چاھئے لیکن یہ آزادی نامحدود نھیں ھے اور دوسروں کو اتنا اختیار نھیں دینا چاھئے تاکہ وہ دوسروں کے انتخاب کا راستہ ھی بند کردیں، اور قرآنی اصطلاح کے مطابق دوسروں کو خدائی راستہ پر چلنے سے روک دیں ۔(1)لھٰذا طے یہ ھوا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کا سد باب کیا جائے تاکہ وہ مومنین کو خدا کے راستہ پر چلنے سے نہ روکیں، لیکن اس بات پر بھی توجہ رھے کہ خلاف ورزی کی روک تھا م اورقوانین کو جاری کرنے کے لئے حکومت کے زور اور طاقت کا استعمال بھی خاص قوانین کے تحت اور بھت ھی ظرافت اورباریکی کے ساتھ ھونا چاھئے جن مواقع پر اسلام معاشرہ کے فوائد کے پیش نظر طاقت اور زور کے استعمال کی اجازت دیتا ھے اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا دھیان بھی رکھتا ھے کہ اس وقت بھی انتخاب کی راہ مسدود نہ ھونے پائے، خلاف ورزی کرنے والے کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رھے مگر جرم اتنا خطرناک ھو کہ معاشرہ کے مصالح وفوائد کی حفاظت کرنے اور معاشرہ میں فساد وتباھی سے روک تھام کی غرض سے مجرم کو سزائے موت دینا پڑے۔
3۔ سزا دینے کے سلسلہ میں اسلام کا تربیتی پھلواسلام نے بعض جرائم کے لئے بھت سخت سزا معین کی ھیں، لیکن ان کو ثابت کرنے کے بھی سخت طریقہ پیش کئے ھیں جن سے جرم کا ثابت کرنا بھت مشکل ھوتا ھے دوسری طرف اگر کوئی خطرناک جرم کا مرتکب ھوتا ھے تو اس کے لئے سزابھی ایسی ھی سخت معین کی ھے تاکہ دوسروں کے لئے بھی عبرت ھو اور وہ اس کو دیکہ کر اس طرح کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں کیونکہ سزا کے فلسفہ میں ایک حکمت یہ ھے کہ لوگ اس سزا کو دیکہ کر عبرت حاصل کریں جس کے نتیجہ میں جرائم کم سے کم ھوں لھٰذا اس مقصد تک پھنچنے کے لئے جرم کے لحاظ سے سزا بھی ھونا چاھئے اور خطرناک جرائم کے لئے سزا بھی سخت سے سخت ھونا چاھئے، مثال کے طور پر چوری کے لئے کم سزا معین کی جائے مثلاً ایک مقدار جرمانہ یا کم مدت کے لئے قید، اس طرح جو لوگ چوری کرتے ھیں ان کے لئے وہ سزا (ایک حد تک) آسان ھو ، تو اس صورت میں معاشرہ میں ھونے والی چوریوں کو نھیں روکا جاسکتا، جس کے نتیجہ میں خداوندعالم نے سزا کی جو حکمت رکھی ھے وہ پوری نھیں ھوگی۔لیکن اگر جرائم ثابت کرنا آسان ھوجائے اور لوگوں کو آسانی سے سزا ھوجایا کرے تو پھر معاشرہ میں سزا زیادہ ھوجائے گی کیونکہ بھت سے لوگ جرائم کے مرتکب ھوتے ھیں، جس کے نتیجہ میں بھت سے خاندان کی حیثیت اورآبرو خاک میں مل جائے گی، اسی وجہ سے اسلام نے جرم کو ثابت کرنے کے طریقوں کو سخت قرار دیا ھے مثلاً زنا کے سلسلہ میں اسلامی سزا سخت ھے یھاں تک کہ اسلام نے حکم دیا ھے کہ زنا کار مرد اور عورت کو عوام الناس کے سامنے سزا دی جائے اور انسانی احساسات اور ھمدردی “حدود الٰھی” (اسلامی سزا) کے آڑے نہ آئیں معاشرہ سے اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کے لئے زنا کی سزا عوام الناس کے سامنے دی جائے، ایسا نہ ھو کہ کسی مسلمان کی عزت وآبرو کے خیال سے اس کو چھوڑ دیا جائے لیکن دوسری طرف سے جرم کو ثابت کرنے طریقے ایسے سخت قرار دئے ھیں تاکہ کم ھی لوگوں کے جرم ثابت ھوں، اور کم ھی افراد سزائے اعمال تک پھنچ پائیں۔زنا کے سلسلہ میں اسلام کا حکم یہ ھے کہ چار عادل افراد گواھی دیں کہ ھم نے اپنی آنکھوں سے ان کو زنا کرتے دیکھا ھے، یھاں تک کہ اگر تین افراد گواھی دیں اور چوتھا آدمی گواھی کے لئے نہ ھو تو ملزم کو بری کردیا جائے گا اور قاضی ان تینوں کو سزا دے گا اور ان پر “حد قذف”(2) جاری ھوگی۔اسلامی احکام میں اس طرح کی ظرافت ، باریکی اور دقت خصوصاً سزا کے سلسلہ میں اس بات کی عکاسی کرتی ھے کہ اسلام کامقصد بلند وعالی اھداف کو جامہ عمل پھنانا اور عالی ترین اقدر کی رعایت کرنا ھے نیز معاشرہ کی حقیقتوں کی رعایت کرنا بھی ھے، اور صرف خیالی اور تصوراتی چیزوں پر اکتفاء نھیں کرتا در حقیقت معاشرہ کی ترقی کے لئے اسلامی طریقہ کار وھی ھے جس کو اسلام نے معین کیا ھے اور وہ “آرمان گرائی” (خیالی اور تصوراتی دنیا) اور “واقع گرائی” (حقیقت) کا درمیان راستہ ھے جس میں دونوں چیز شامل ھیں اسلام بلند اقدار کی رعایت ضروری مانتا ھے اور اس معاشرے کے اقدار کوخطرہ میں پڑ جانے کی اجازت نھیں دیتا؛ جیسا غیر اسلامی معاشرہ میں کیا کیا فسادات نظر نھیں آتے جس سے بھت زیادہ فساد اور بھت سی رسوائی سامنے آتی ھیں لھٰذا اسلامی معاشرہ کو ان برائیوں سے دور رکھنے کے لئے مجرموں کے لئے سخت سزا مقرر کی گئیں ھیں،دوسری طرف اسلام واقع گرا ھے اور یہ جانتا ھے کہ معاشرہ میں بعض لوگوں سے جرائم ھوں گے اسی وجہ سے حتی الامکان ان جرائم کو ثابت نہ ھونے کے لئے سخت طریقہ کار مقرر کئے ھیں الغرض قانون جاری ھونا چاھئے اور ان کو جاری کرنے والا ضامن ھونا چاھئے تاکہ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو طاقت کے ذریعہ اس کو جاری کیا جاسکے، اس کے علاوہ انسانی خلقت کے اغراض ومقاصد کی بھی رعایت ھونا چاھئے اور وہ یہ ھیں کہ انسان کا کردار اختیاری اور اپنی مرضی سے ھو، دوسری طرف معاشرہ کے امور پر توجہ ھونا چاھئے تاکہ بے لگام آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھوئے معاشرہ کے مصالح کو خطرہ میں نہ ڈال دیا جائے۔
4۔ حکومت کے مخصوص ثابت او رمتغیر کامجس وقت ھم قوانین کو دیکھتے ھیں تو ان میں بھت سے قوانین عوام الناس سے متعلق ھوتے ھیں جن پر عمل کرنا عوام کی ذمہ داری ھوتی ھے اور ان میں حکومت کا کام صرف کنٹرول کرنا، لوگوں کے قوانین کا لحاظ رکھنے کے سلسلہ میں منصوبہ بندی تیار کرنا اور خلاف ورزی سے روک تھام کرنا ھوتا ھے لیکن بعض قوانین خود حکومت سے متعلق ھوتے ھیں، اور خود حکومت کو ان پر عمل کرنا ھوتا ھے بلکہ عوام الناس ان پر عمل کرتی ھے کیونکہ قوانین کا یہ حصہ شھریوں کی ضرورتوں اور اقتصادی، سرمایہ گذاری اور خدمات سے متعلق ھوتا ھے جس کو عوام الناس انجام نھیں دے سکتی، اور عوام الناس ان کو انجام دینے کی قدرت نھیں رکھتے یا اگر قدرت رکھتے ھیں لیکن پھر بھی رضا کارانہ طور پر کوئی ان کو انجام نھیں دیتا، جن کے انجام نہ پانے سے معاشرہ کو نقصان کا سامنا کرنا ھوتا ھے؛ لھٰذا اس بات ایک منظم تنظیم اور ھم آھنگ کمیٹی بنام حکومت کو اس کام کی ذمہ دارہ سنبھالنے کی ضرورت ھے مثال کے طور پربیرونی دشمن کے مقابلہ میں ملک کا دفاع کرنا ، جنگ کرنا اور اس سلسلہ میں اسلحہ وغیرہ فراھم کرنا، یاپھیلنے والی خطرناک بیماریوں جیسے فلج اطفال (بچوں کا فالج)کے لئے “واکسیناسین” “vaccinatin” لگاناجو پورے ملک میں ایک معین دن صرف حکومتی پیمانہ پر ھی ممکن ھوسکتا ھے، اسی طرح عام صفائی یا بیماروں کے لئے ھاسپٹل وغیرہ کا انتظام کرنا، یا افیون وغیرہ جیسی نشہ آور چیزوں سے مقابلہ اور ان کے آنے جانے کے راستوں کو بند کرنا، اگرچہ عوام الناس بھی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے ذریعہ تا حد امکان لوگوں کو اس کام سے روک سکتے ھے لیکن وسیع پیمانہ پر اس عظیم برائی کی روک تھام کرنا عوام الناس کے بس کی بات نھیں ھے ، اسی طرح ان برائیوں کا مقابلہ جو معاشرہ میں کافی پھیل چکی ھیں وغیرہ وغیرہ یہ سب کام حکومت ھی کرسکتی ھے۔قوانین کی تیسری قسم (عوام الناس)کی ضرورتیں ھیں جن کو خود عوام الناس بھی اور حکومت بھی انجام دے سکتی ھے لیکن زمانہ کے لحاظ سے ان اجتماعی امور کو انجام دینے کا طریقہ کار مختلف ھوجاتا ھے کیونکہ معاشرہ کے بھت سے امور مختلف زمانوں میں محدود طریقہ پر خود عوام الناس کے ذریعہ انجام پاتے رھے ھیں، لیکن آج کل کے لحاظ سے ان کو انجام دینے کی قدرت عوام الناس میں نھیں ھے اور اگر یہ ذمہ داریاں عوام الناس کے سپرد کردی جائیں تو پھر وہ پوری نھیں ھوپائیں گی،جس کے نتیجہ میں معاشرہ کے مصالح پورے نھیں ھونگے؛ اسی وجہ سے حکومت کو اس سلسلہ میں قدم اٹھانا ضروری ھوتا ھے جیسے بچوں کا تعلیمی سلسلہ ، اگر چہ بچوں کی تعلیم خود والدین کی ذمہ داری ھوتی ھے لیکن آج کل کے حالات اس طرح کے ھیں کہ اگر ملک میں تعلیمی ادارے نہ ھوں تعلیم سے متعلق قوانین الزامی اور ضروری نہ ھوں اور مذکورہ ادارے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں تو پھر تعلیمی ترقی رک جائے گی اور جھل ونادانی کا رواج بڑھتا چلا جائے گا۔اسی طرح آج کل کے ترقی یافتہ دور میں عام صفائی اور عام روشنی کا مسئلہ ھے اور یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ھے، جب کہ گذشتہ زمانے میں حکومتوں کی یہ ذمہ داری نھیں ھوتی تھی اور بھت سی چیزوں کا تو بالکل وجود ھی نھیں تھا جیسے محکمھٴ ٹیلویزن، لھٰذا یہ بات مسلم ھے کہ اس ترقی یافتہ دور میں حکومت کی بعض نئی ذمہ داریاں پیدا ھوگئی ھیں اور وہ ذمہ داریاں جن کو خود عوام الناس بھی انجام دی سکتی ھے لیکن چونکہ کوئی رضاکارانہ طور پر تیار نھیں ھوتا اور اگر حکومت بھی ان ذمہ داریوں کو انجام نہ دے تو پھر معاشرہ کا برا حال ھوجائے گا، جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ علم ، ٹکنالوجی اورصنعت میں پیچھے رہ جائے گا،اور اس کے علمی اور معنوی مصالح پورے نھیں ھوپائیں گے، کیونکہ معنوی ترقی اور کمال؛ علم ھی کے زیر سایہ ھوتا ھے ،معاشرہ میں علم ھی نہ ھوتو اس میں معنوی ترقی نھیں ھوسکتی۔قارئین کرام ! ھماری بیان شدہ باتوں کے ذریعہ حکومت کی اھمیت، اس کا ثابت ڈھانچہ اور اس کے ارکان واضح ھوجاتے ھیں،حکومت کے مقومات اور اس کے عناصر کے نہ ھونے پر حکومت کھوکھلی ھوجاتی ھے، اور وہ عناصر درج ذیل ھیں:1۔ قوانین مدنی (شھری قوانین) اور معاشرہ کے حقوقی قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت، تاکہ اگر کوئی مخالفت کرے تو حکومت اپنی طاقت کے ذریعہ عوام الناس کو ان پر عمل کرنے پر مجبور کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے۔2۔ معاشرہ میں ھمیشہ ضروری ثابت مصالح کو پورا کرنا، جن مصالح میں زمان ومکان کے بدلنے سے تبدیلی نھیں آتی، اور ان کو وسیع پیمانے پر صرف حکومت ھی انجام دے سکتی ھے مثلاً معاشرہ میں امن وامان کا برقرار کرنا حکومت کی ھمیشگی ذمہ داری ھوتی ھے، چاھے اس ملک کے عوام کی تعداد لاکھوں، کروڑوں اور اربوں ھی کیوں نہ ھو؟۔لیکن وہ متغیر مصالح جو ھمیشہ حکومت کے ذمہ نھیں ھوتے اور اگر حکومت ان کاموں کو انجام نہ دے تو خود عوام الناس ان کو انجام دے سکتے ھیں لیکن آج کل کے نئے حالات ان ذمہ داریوں کو حکومت کے کاندھے پر رکہ دیتے ھیں، نیز نئی پیش آنے والی ضرورتیں حکومت کے مقومات میں قرار نھیں پاتیں۔
5۔ قوانین جاری کرنے کے طریقہ کار میں اسلامی اور غیر اسلامی حکومتوں میں فرقاب جبکہ حکومت کی اھمیت اور اس کے وظائف معلوم ھوگئے ھیں ، تواسلامی حکومت اور دوسری حکومتوں کا فرق مختصر طور پر بیان کرنا مناسب ھے: اسلامی حکومت قوانین کے سلسلہ میں سیکولر اور لائیک حکومت سے بھت زیادہ فرق رکھتی ھے اور اسلامی حکومت کا دائرہ دوسری حکومتوں سے وسیع تر ھے؛ کیونکہ اسلامی حکومت میں معنوی اور روحانی مصالح کو بھی اھمیت دی جاتی ھے، اسی طرح قوانین جاری کرنے کا طریقہ کار بھی دوسری حکومتوں سے مختلف ھوتا ھے مثال کے طور پر دنیا کی تمام حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں در آمد کی محتاج ھوتی ھے جس کا ایک حصہ ٹیکس وغیرہ سے حاصل ھوتا ھے اسلامی حکومت بھی ولی فقیہ کی اجازت سے لوگوں سے ٹیکس حاصل کرنے کے لئے قوانین مرتب کرتی ھے اور ان کو نافذ کرتی ھے چنانچہ ٹیکس کے سلسلہ میں بھی اسلامی حکومت دوسری حکومتوں سے فرق رکھتی ھے اور وہ یہ ھے کہ اسلام؛ مالیات اورٹیکس وغیرہ کے سلسلہ میں بھی انسانی وجود کے فلسفہ کو پیش نظر رکھتا ھے۔یعنی اسلام اس بات پر زیا دہ زور دیتاھے کہ انسانی کام اور اس کی کارکردگی اپنے انتخاب اور مرضی سے ھوں جن کے سبب اس کی معنویات میںاضافہ ھو مالیات وصول کرنے میں حکومت اپنی قدرت بھی استعمال کرسکتی ھے اور لوگوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کرسکتی ھے اور ترقی یافتہ ممالک میں تاکہ لوگوں کے ذھن پر ٹیکس وغیرہ گراں نہ گذرے اس لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ھیں جن کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات وغیرہ کم ھوجاتے ھیں جن میں ایک طریقہ یہ ھے کہ روزانہ کا وہ سامان جو عوام الناس ھر روز خریدتی ھے اسی میں ٹیکس رکھا جاتا ھے، اور عوام الناس اشیاء کی قیمت کے علاوہ ایک مقدار ٹیکس بھی حکومت کو ادا کرتی ھے۔ظاھر سی بات ھے کہ (مذکورہ طریقہ پر) ٹیکس ادا کرنے سے کسی کو کوئی ثواب اور جزا نھیں ملتی؛ لیکن اسلام اس موقع پر بھی انسان کے معنوی کمال کو مد نظر رکھتا ھے اسی وجہ سے لوگوں کو مالیات دینے پر مجبور نھیں کیا ھے اور خمس جیسے اسلامی ٹیکس کو جمع کرنے کے لئے کسی نمائندہ کو نھیں بھیجتا (جیسا کہ شیعہ فقہ میں ذکر ھوا ھے کہ اسلامی حکومت خمس کو زبردستی نھیں لیتی خصوصاً ” ارباح مکاسب ” (تجارت وغیرہ کی آمدنی) کا، ان چیزوں میں اگرچہ خمس واجب ھوچکا ھے لیکن خود مومنین اپنی مرضی اور رغبت سے اپنے سال کا حساب کرکے خمس نکالیں)اسی طرح زکوٰة میں اگرچہ اسلامی حکومت زکوٰة کو جمع کرنے کے لئے اپنا نمائندہ بھیجتی ھے،لیکن اس میں بھی لوگوں کی آزادی کا خیال رکھا جاتا ھے اسی وجہ سے جب زکوٰة جمع کرنے والے افراد مومنین کے پاس پھنچتے ھیں تو زکوٰة کی مقدار کو خود معین نھیں کرتے بلکہ خود مومنین حاصل شدہ جنس کی مقدار بیان کرتے ھیں تاکہ اس کی زکوٰة کا حساب کرکے، اور اس کو جمع کیا جاسکے یھاں پر (بھی) حقیقت حال جاننے کے لئے زکوٰة دینے والے کو مجبور نھیں کیا جاتا کہ زکوٰة دینے والا سچ کھہ رھا ھے یا جھوٹ بول رھا ھے، مگر جبکہ اس کا جھوٹ واضح ھورھا ھو اور اسلامی حکومت کا نقصان ھورھا ھو، یا ان افراد کے لئے جو علی الاعلان کھتے ھیں کہ ھم زکوٰة نھیں دیں گے، چنانچہ ان مواقع پر اسلامی حکومت اپنے طریقوں سے زکوٰة ادا کرنے پر مجبور کرتی ھے۔قارئین کرام ! معلوم یہ ھوا کہ اسلامی حکومت کا دوسری حکومتوں پر ایک امتیاز یہ ھے کہ قوانین کو جاری کرنے کے طریقہ کار میں اسلامی اقدار کا لحاظ رکھا جائے، اور اس موقع پر عوام الناس کی آزادی، ان کے انتخاب اور انسانی اقدار وشرافت کے طرفدار افراد اس نکتہ پر توجہ کریںکہ اسلام نے عوام الناس کی معقول آزادی کو مکمل طور پر نظر میں رکھا ھے، اور اس بات کی کوشش ھے کہ مومنین اپنی مرضی سے اپنے وظائف پر عمل کریں، جس کی بنا پرمعنوی ترقی اورکمال کے درجات پر فائز ھوں اور اگر بعض موارد میں اسلام شدت سے پیش آتا ھے اور بعض لوگوں کے مطابق تشدد (شدت پسندی) سے کام لیتا ھے، تو وہ اس وجہ سے ھے کہ دوسرے افراد کے معنوی کمالات حاصل کرنے کی راہ مسدود نہ ھوجائے اور اگر بعض لوگوں کو سخت سزا دی جانے کی وجہ یہ ھے کہ لوگ اس کو دیکہ کر عبرت حاصل کریں،اور وہ اس طرح کے کام کرنے سے باز رھیںجس کے نتیجہ میں معاشرہ میں مادیات اور معنویات کی ترقی ھو بھرحال اسلامی نقطہ نظر سے انفرادی آزادی مطلق (نا محدود) نھیں ھے اور جب یہ آزادی معاشرہ کے لئے نقصان دہ ھو تو پھر یہ آزادی محدود ھوجاتی ھے، اور ضرورت کے وقت یہ آزادی محدود کر دی جاتی ھیںاور ضرورت کے وقت تشدد سے بھی کام لیا جاتا ھے، بعض مجرموں کو کوڑے لگتے ھیںاور بعض کے ھاتہ کاٹے جاتے ھیں اور بعض حالات میں بھت ھی کم تعداد میں مجرموں کو سزائے موت بھی دی جاتی ھے لیکن یہ تمام سزائیں اس وجہ سے ھیںکہ ان کو دیکہ کرمجرمین عبرت حاصل کریں اور قانون کے مطابق عمل کریں۔ظاھر سی بات ھے کہ جب اسلام نے چوری کرنے اور عوام الناس کے چین وسکون اور امنیت کو ختم کرنے والے کے ھاتہ کاٹنے کا حکم دیا ھے، تاکہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں اور چوریاں کم ھوں، اور اس رسوائی میں پھنسنے کے راستے کم ھوں لیکن اگر اسی چوری کے لئے آسان سے آسان سزا رکھی جاتی مثلاً چور کو کچھ مدت کے لئے قید کرنا یا ایک مقدار میں جرمانہ ادا کرنا تو پھر چوروں کی تعداد بھت زیادہ ھوجاتی، اور ممکن تھا جو لوگ کسی جرم کی بنا پر زندان میں ھوں تو چوروں کے ساتھ رھنے سے وہ بھی چوری کرنا سیکہ جاتے۔! قارئین کرام ! ھم حقیقت کھنے سے نھیں ڈرتے اور واضح طور پر کھتے ھیں کہ اسلام میں شدت عمل اور (سخت) سزائیں اور غیروں کے مطابق تشدد ھے مجرموں اور فاسدوں کے لئے بھی تشدد روا ھے اور کفار اور اسلام کے دشمنوں کے لئے بھی؛ جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:( مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھمْ )(3)”محمد (ص) اللہ کے رسول ھیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ھیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ھیں “اسی طرح خداوندعالم لوگوں کو عبرت دینا اور مجرم کو ذلیل کرنا ضروری سمجھتا ھے :(وَلْیَشْھدْ عَذَابَھمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِین )(4)”اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رھنا چاھئے “قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام اور قرآن بعض موارد میں تشدد کے ساتھ عمل کرنے اور مجرم کو ذلیل کرنے کو ضروری سمجھتا ھے، اور ھم ان آیات کو قرآن سے نھیں مٹاسکتے اگر اس طرح کی سزا کو بعض لوگ انسانی شرافت کے خلاف سمجھتے ھیں تو ھم عرض کرتے ھیں کہ اجتماعی مصالح کی حفاظت کے لئے بعض مواقع پر مجرموں اور فاسدوں کے ساتھ انسانی شرافت کے خلاف کام واجب اور ضروری ھے جب کہ حقیقت یہ ھے کہ اس طرح کی سزا حقیقی خشنونت نھیں ھیں بلکہ عوام الناس کی اجتماعی معقول آزادی سے بھرہ مند ھونے کی راہ ھموار کرنا اور اس کا ایک مقدمہ ھے۔
حوالے:(1) “الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ اٴَضَلَّ اٴَعْمَالَھمْ “( سورہ محمد آیت اول)جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو راہ خدا سے روکا خدا نے ان کے اعمال کو برباد کردیا(اضافہ مترجم(2)) ” حدّ قذف ” زنا کی تھمت لگانے والے پر 8۰ کوڑے لگائے جاتے ھیں،جس کی صراحت سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں وارد ھوئی ھے (مترجم)(3)سورہ فتح آیت 2۹(4)سورہ نور آیت 2