علی (ع) کی علی بیٹی

320

علی (ع) کی علی بیٹیتحریر: ندیم عباس
رحمت کے گھرانے میں رحمت بن کے آنے والی، رسالت کی محبت و شفقت پانی والی، زہراؑ کے دل کا چین، آبروئے اسلام، خاندان پیغمبر کی روشن قندیل، ہدایت کا منار، فصاحت و بلاغت میں علی (ع)، شرم و حیاء کی فاطمہ (س)، اطاعت خدا میں شب و روز بسر کرنے والی، حسن (ع) کی آنکھوں کی ٹھنڈک حسین (ع) کے دل کا سکون، ظلم و جبر کے پہاڑوں سے یکتا ٹکرا جانے والی، وقت کے فرعون کو اس کے دربار شکست دینے والی، سرزمین شام میں حسینیتؑ کا پرچم سر بلند کرنے والی، اسلام کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام کرنے والی، آبرو اسلام حضرت زینب ؑ جنہیں عالمہ غیر معلمہ، عقیلہ بنی ہاشم بھی کہا جاتا ہے آپ کے مشہور القابات میں ثانیِ زہرا، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغٰری، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء ہیں۔ حضرت زینب ؑ خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم خواتین میں سے ہیں۔ آپ کا نام آپ کے نانا تاجدار مدینہ حضرت محمد (ص) نے رکھا آپ کو حضرت فاطمہؑ بنت محمد (ص) کی عظیم گود میسر آئی آپ کی تعلیم و تربیت حضرت علی ؑ اور نبی آخرالزمان نے کی اسی لیے آپ کی ذات میں تمام صفات حسنہ اپنے بام عروج پر ملتی ہیں۔
علم:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو جب کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آتا اور کوئی بھی اس مسئلہ کو نہ جانتا ہوتا تو حضرت زینب ؑ کی طرف رجوع فرماتے جو بھی سوال کرتے اس کا جواب پاتے اور پھر جب اس مسئلہ کو اپنے شاگردوں میں بیان کرتے تو فرمایا کرتے تھے، “حدثنا عقیلتنا” کہ اس مسئلہ کو ہماری عقیلہ یعنی حضرت زینب بنت علی ؑ نے بیان کیا ہے آپ کی عظمت ہے کہ امت جسے سب سے بڑا عالم اور مفسر قرآن کہتی ہے وہ مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے یہ صحبت نبی (ص)، تعلیم علی ؑ اور تربیت زہراء ؑ کا اثر تھا حضرت امام زین العابدین ؑفرماتے ہیں۔ اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِیمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَةاے پھوپھی جان خدا کا شکر ہےکہ آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں آپ ایسی فہم و فراست رکھتی ہیں جو آپ کو کسی نے دی نہیں ہے
سخاوت:آپ کے بچپن کا عالم ہے آپ کے گھر میں ایک مہمان آ گئے حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ ؑ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کو ہے تو بی بی معظمہ نے فرمایا کہ تھوڑا سا کھانا تو ہے مگر وہ زینب ؑ کے لیے ہے حضرت زینب ؑ یہ سن رہیں تھیں، فورا مادر گرامی سے کہا اماں جان کھانا مہمان کو دے دیں میں بعد میں کھا لوں گی یہ خاندان نبوت کی تربیت تھی، حضرت زہراء نے بیٹی کا جذبہ دیکھ کر گلے سے لگا لیا۔ یہ تو عام مہمان تھا دروازہ حضرت زینب ؑ پر دشمن بھی آ جائے تو بھوکا نہیں جاتا۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت علی اکبرؑ کا قاتل مہمان بن کے حضرت امام زین العابدین ؑ کے پاس آیا، بھوکا پیاسا تھا امام گھر تشریف لائے اور حضرت زینب ؑ سے کھانے تیار کرنے کو کہا، بی بی نے دریافت کیا مہمان کون ہے؟ امام نے غمگین لہجے میں بتایا کہ آج ہمارا مہمان کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ حضرت علی اکبر ؑ کا قاتل ہے، بی بی کی حضرت علی اکبر ؑ سے محبت ناقابل بیان ہے مگر بی بی نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھانا پکا کر دیا وہ جب تک رہا بی بی کھانے دیتی رہیں کیا اخلاق اہلبیتؑ ہے؟ اپنے قاتلوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں جنہوں ان کے جگر کے ٹکڑوں شہید کیا، نہ صرف شہید کیا بلکہ ان کے سروں کو تن سے جدا کیا، جنہوں نےخاندان نبوت کو کوچہ کوچہ شہر شہر پھرایا ان کی مہمان نوازی اللہ اللہ ایسا کیوں نہ ہو یہ اس کی نواسی ہے جس نے کوڑا پھینکنے والی کو دعائیں دیں، جنہوں نے پتھر مار کر لہولہان کر دیا ان کی ہدایت کے لیے گڑگڑا کر اللہ سے ان کی مغفرت مانگی، یہ سیرت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے ہم نے معاشرے میں جو خود ساختہ دیواریں بنا لی ہیں ان کو گرانے کی ضرورت ہے۔
عبادت:مصر کی ایک خاتون مصنفہ نے لکھا ہے میں حیران ہوں علی ؑ کی بیٹی پر جس کی صبح سے لیکر عصر تک اٹھارہ بھائی شہید ہو گئے تھے جس کے بیٹوں کو نیزوں پر چڑھا دیا گیا تھا مگر کربلا کی شام سے لیکر کوفہ کے کوچہ و بازار تک اور کوفہ کے بازار سے شام کے دربار تک بی بی کی ایک نماز بھی قضا نہیں ہوئی، ایسا کیوں نہ ہو یہ معظمہ اس خاتون کی بیٹی جو اللہ سے دعا کرتی ہیں کہ راتوں کو لمبا کر دے تاکہ میں تیرے حضور لمبے سجدے کرسکوں۔ اس مرد حق کی دختر ہیں جو شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے تھے، ان کے نانا نے خدا کی اتنی بندگی کی کہ خدا نے قرآن کی آیت نازل کر دی، “میرے نبی اپنے عبادت کو کم کر دو” یہ اس حسین (ع) کی بہن ہے جس نے عین جنگ کے عالم میں اول وقت میں نماز ادا کی اور جب شہید ہونے کو جا رہے تھے تو اپنی اس عابدہ بہن سے ایک گذارش کی، کہ اے بہن مجھے نماز شب کی دعا میں ضرور یاد رکھنا۔ آج ہم لوگ آفس میں کام زیادہ ہے، امتحان نزدیک ہے، مہمان بیٹھے ہیں کہہ کے نماز چھوڑ دیتے ہیں، مگر اہلبیتؑ خدا کی عبادت کے لیے ان سب کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ایمان باللہ:امام الموحدین کی بیٹی اور زمانے کو درس توحید دینے والے کی نواسی ایمان باللہ میں یقین کے درجے پر فائز تھیں، اسی لیے جب گنج شہداء پر تشریف لائیں، اٹھارہ بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کی لاشیں سامنے تھیں، ہاتھ پروردگار کے حضور دعا کے لیے اٹھ گئے اے ہمارے پاک پروردگار ہم اہلبیتؑ کی یہ قربانی قبول فرما۔ یقینا اس دعا نے آسمان پر ہلچل مچا دی ہو گی، خدا نے فرشتوں سے کہا ہو گا یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے آدم مسجود ملائکہ ٹھہرے تھے اور جب فتح کے نشے میں ڈوبے ہوئے بدمست انسان نما شیطان نے یہ کہا تھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا تو بی بی تڑپ گئیں اور وہ عظیم جواب دیا کہ ما وجدت من اللہ الا خیر میں نے خدا کی بارگاہ سے سوائے خیر کے کچھ نہیں پایا۔ اللہ اکبر یہ عشق توحید تھا جس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا کہ چہار سو عظمت توحید کا ڈنکا بجتا رہے۔
شجاعت:شجاعت خاندان اہلبیتؑ کی میراث ہے، حضرت زینب ؑ حضرت علی ؑ جنہیں اشجع الناس کہا گیا یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کی بیٹی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں جن کے بارے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے، دشمن کے حملے تیز ہوتے، تو ہم نبی اکرم (ص) کے پاس آ کر پناہ لیتے تھے۔ بی بی نے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا بلکہ ہر جگہ اپنے بھائی کی ڈھارس بندھاتی تھیں۔ دس محرم کے دن پیش آنے والے واقعات جنہیں سن کر انسان برداشت نہیں کر سکتا بی بی کی آنکھوں کے سامنے ہوئے مگر بی بی نے ان تمام کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ دس محرم کی شام کو جب خیام کو جلا دیا گیا جب سب مرد شہید کر دیئے گئے تو خاندان نبوت کو آپ نے ہی سہارا دیا۔ بھائیوں کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں جانا آسان نہ تھا، ایسا مشکل کام تھا کہ جب امام زین العابدین سے پوچھا جاتا کہاں سب سے زیادہ دکھ اٹھائے تو فرماتے تھے الشام الشام۔ بی بی نے ان تمام معرکوں کو کامیابی کے ساتھ سر کیا، یہ آپ کی شجاعت تھی کہ ہر جگہ یزید کو رسوا کر دیا۔
زینبؑ اور کربلا:جنگ کربلا کے دو حصے ہیں، ایک خیموں سے باہر لڑی جا رہی ہے اور اس کے لیے تیاری خیمہ کے اندر جا رہی ہے یہ بی بی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ہر ماں اپنے بیٹوں کو، ہر بہن اپنے بھائی کو مرنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ ہر بیوی یہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر سب سے پہلے فرزند زہراء کے قدموں اپنی جان دے دے۔ امام حسین ؑجب خیمہ میں تشریف لاتے تھے تو بی بی اس انداز میں اپنے بھائی کا استقبال کرتی تھیں کہ امام جنگ کی سختی کو بھول جاتے تھے۔ امام کی شہادت کے بعد جس انداز میں یہ بدطینت لوگ خیموں پر یہ کہتے ہوئے حملہ آور ہوئے
لوٹو لوٹو تبرکات علیؑ بتول ؑ کوقیدی بنا کر لے چلو آل رسول ؐ کو
بی بی نے خاندان کے بچوں اور خواتین کو ان وحشیوں کے حملوں سے بچایا، امام زین العابدین ؑ کو جلتے خیمہ سے نکال کر لائیں دس محرم کی شام سے بی بی زینب ؑ کا جہاد شروع ہوتا ہے۔ آپ نے کوفہ میں عبیداللہ ابن زیاد کو رسوا کیا اور شام میں یزید کو رسوا کیا۔ آپ کے خطبات نے کوفہ و شام کی فضا کو تبدیل کر دیا یزید کی چالوں کو قطع کر دیا۔ اسلام کے خلاف اس کی سازشوں کو نابود کر دیا۔
عورتوں کے لیے نمونہ عمل:بی بی زینب ؑ کا کردار تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل ہے بطور بیٹی ایک اطاعت گزار فرمانبردار بیٹی بن کر رہیں اپنے والدین کی تربیت کو قبول کیا بھائیوں سے ہمیشہ حسن اخلاق اور قربانی کا جذبہ اختیار کیا۔ شوہر کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا اپنے بچوں کی ایسی اعلٰی تربیت کی کہ وہ خود کو اسلام پر قربان کرنے کے لیے بےچین تھے۔ جب حق کو بچانے اور دین اسلام کے تحفظ کا سوال آیا تو شجاعانہ کردار ادا کرتے ہوئے کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام اور پھر مدینہ تک تاریخ کا سب سے بڑا لانگ مارچ کیا جس کے نتیجہ میں اسلام اور انسانیت کو زندہ باد کر دیا، یزید اور اس کے نظریات کو دفن کر دیا۔تھا دخترِ زہرا کی جبیں پر یہی تحریرطفلی میں پیئے خونِ دل اپنا عوضِ شیرگھر میں تو ملے اوڑھنے کو چادر تطہیراور کوفے میں سر ننگے پھرے خواہرِ شبّیرتقدیر تھی نازاں خطِ تقدیر کے اوپرلال اس کے فدا ہوئیں گے شبّیر کے اوپر
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.