علی کی بادشاہی ہے

162

کل کا دن عالم ہستی کے تمام مومنین اور ہر اس شخص کے لئے بہت بڑی عید کا دن تھا، جسکا دل میں مولائے متقیان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ولادت باسعادت امیرالمومنین (ع) کا دن، اس شخص کی ولادت کا دن جسکی جائے ولادت خانہ کعبہ اور جائے شہادت مسجد ہے، جو نفس اللہ بھی ہے یداللہ بھی ہے، کائنات کے سب سے بڑے امیر کی ولادت کا دن جو فقراء کا ملجا تھا۔ جو یتیموں کا والی تھا، جو نماز میں زکوٰۃ ادا کرتا تھا، جو محافظ رسول (ص) اور شوہر بتول (س) ہے۔ جو حسنین علیہماالسلام کا بابا اور زینب و ام کلثوم (ع) جیسی شیر دل بیٹیوں کا باپ ہے۔ اس موقع پر اپنے تمام قارئین کی خدمت میں تبریک و تہنیت عرض کرتی ہوں، سید زوار قمر عابدی صاحب کے چند اشعار جو بہت پہلے کہیں پڑھے تھے، اچھے لگنے کی بنا پر عادت سے مجبور ہو کر اپنے پاس محفوظ کر لئے، آج اس پرمسرت موقع پر آپ سب کی نذر کرتی ہوں۔
علی ہی فخرِ قُدرت ہے علی ہی فخرِ انسان ہےعلی ہی لُطِف دُنیا ہے علی ہی وصفِ ایماں ہے علی ہی در حقیقت مظہرِ نورِ حقیقت ہےعلی ہی علمِِ امکان کی رنگین صورت ہے خُدا کی اِک عنایت خُدا کی اک سخاوت ہےعلی ہی در حقیقت دینِ احمد کی شرافت ہے خُدا کی ذات نے اُسکو ہے کتنا مُعتبر جاناعلی کہ واسطے لوگو بنا کعبہ جنم خانہ جو آنکھیں کھول کر دیکھو تو ہر نُدرت میں شامل ہےیہی قُدرت کی قُدرت ہے کہ ہر قُدرت میں شامل ہے علی ہر جنگ کے آغاز اور نُصرت میں شامل ہےعلی ہی در حقیقت دین کی فطرت میں شامل ہے علی کو ڈُھونڈتے ہو تم کہاں تصویر خانوں میںعلی آزاد پھرتا ہے زمیں و آسمانوں میں علی ہے رود باروں میں علی ہے کُہساروں میںعلی ہے صحنِ گُلشن میں علی ہے لالہ زاروں میں علی ہر چاندنی شب میں علی صُبحِ بہاری میںعلی گُلشن کی جو دیکھو تو ہر گُلشن نگاری میں کہیں شہروں میں ملتا ہے، کہیں سُنسان بستی میںجو دیکھو ہر قلند کی یہی ہے کیف و مستی میں علی کا ذکر ہوتا ہے زمین و آسمانوں میںعلی بوڑھوں کی باتوں میں، جواں کی داستانوں میں علی کا ذکر کرتے ہیں بھنور بھی اور دھارے بھیعلی کا نام جپتے ہیں سمندر کے کنارے بھی علی معراج پہ ملتا ہے بحر و بر میں ملتا ہےیہی قُدرت کی قُدرت ہے زمانے بھر میں ملتا ہے علی ہر خانہء دل میں حقیقت بن کے رہتا ہےعلی سب مُنکروں کے دل میں دہشت بن کے رہتا ہے شُجاعت پہ پھی جسکی ناز ہے یہ وہ قبیلہ ہےعلی ہی درحقیقت مُشکلوں میں اک وسیلہ ہے یہی سلماں کا آقا ہے یہی مولائے قمبر ہےامامت کا ستارہ ہے یہ دامادِ پیمبر ہے یہ قُدرت کا گُلستاں ہے یہاں ہر پُھول کھلتا ہےکہیں مقداد ملتا ہے، کہیں بہلول ملتا ہے ارے اس در کی چوکھٹ تو کبھی بوزر بناتی ہےکبھی میثم کبھی براہ کبھی قمبر بناتی ہے تونگر کو تونگری بھی اِسی چوکھٹ سے ملتی ہےقلندر کو قلندری بھی اِسی چوکھٹ سے ملتی ہے سیاہ راتوں کو گر چاہے تو وہ تابندگی دے دےوہ چاہے زندگی لے لے وہ چاہے زندگی دے دے بُلائے اک اشارے سے تو سُورج لوٹ آتا ہےکہ خیبر ٹوٹ جاتا ہے مرحب کو کاٹ آتا ہے جہاں دیکھو جدھر دیکھو اِسی کی شہنشاہی ہےاسی کا نام چلتا ہے اسی کی بادشاہی ہے یہ وہ گھر ہے کہ قُدرت کو بھی فخر و ناز ہوتا ہےعیاں اس در سے ہم پہ زندگی کا راز ہوتا ہے علی کی ذات کا رتبہ رسولِ پاک سے پوچھوشبِ معراج کے وارث شاہِ لولاک سے پوچھو نئی طاقت نیا جذبہ نئی پہچان ملتی ہےعلی کہ در سے لوگوں کو کہ گویا جان ملتی ہر نیا امروز ملتا ہے نیا انداز ملتا ہےاسی سے زندگانی کا ہمیں ہر راز ملتا ہے علی کے عشق کا ساغر کُچھ ایسے بھر کہ رہتا ہےعلی ہے منبعِ جود و سخا ہر شخص کہتا ہے علی سے بُغض رکھنے کو نبوت باز کرتی ہےعلی کہ بازوِ قُدرت پہ قُدرت ناز کرتی ہے علی وہ ہے جو ہر یک چیز کا عرفان کھتا ہےپرایا کون اپنا کون سب گُمان رکھتا ہے اگر ساغر ہی پینا ہو علی کے نام کا پینابنا اس عشق کے یارو بھلا کس کام کا جینا بڑا بدبخت وہ ہو گا جہنم میں بھی جائے گاعلی کے نام سے ماتھے پہ بل اپنے جو لائے گا نہ جب تک وہ زباں دے گا زباں یہ ہل نہیں سکتیعلی کے نام لیوا کو جہنم مل نہیں سکتی علی کا ذکر ایسا ہے ختم ہو گا نہ باتوں سےعلی اور میری اُلفت کو نہ ناپو دن اور راتوں سے ہے لازم بو ترابی پر ہر ایک کام وہ کرنااُسی انداز میں جینا اُسی انداز میں مرنا قلم روکوں ذرا سوچوں میں حد سے نہ گُزر جاوںنصیری کی طرح میں بھی نہ اُلفت میں بھٹک جاوں نہیں یہ ہو نہیں سکتا عقل کو تھام رکھا ہےمیرے ہاتھوں نے مولا کے قلم کو تھام رکھا ہے علی کا نام لیوا ہوں قلم یہ رُک نہیں سکتامیرا سر غیر کی چوکھٹ پہ جا کے جُھک نہیں سکتا یہی ہے آرزو میری میں ایسے پاک ہو جاؤںنجف کی خاک میں مِلکر میں خود بھی خاک ہو جاؤں لگا نعرہ کہ اب جیسے موذن کی اذاں گونجےعلی کی یوں صدا آئے کہ یہ سارا جہاں گونجے
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.