فقہ کا مقصد انسان کو دنیا و آخرت کی سعادت

304

 ائمہ معصومین علیھم السلام کا دور سب سے اہم دور ہے۔ اس دور میں احکام شرعی دریافت کرنے کا بنیاد مرجع ائمہ اھل بیت علیھم السلام تھے اسکے باوجود ائمہ طاہرین نے امور شرعی میں تفکر و استدلال اور اجتھاد کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ طاہرین علیھم السلام نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ان کا فریضہ اصول و قواعد بیان کرنا ہے اور لوگوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ان اصول وقواعد کے تحت احکام شرعی کا استنباط کریں۔ ائمہ طاہرین علیھم السلام کے شاگردوں میں مختلف علوم کے ماہر پائے جاتے تھے کچھ علم کلام کے ماہرتھے تو کچھ علم حدیث میں ید طولی رکھتے تھے تو کچھ علم فقہ کے حامل تھے۔ ائمہ طاہرین علیھم السلام کے زمانوں میں ان کے بعض اصحاب بھی فقہ و اجتھاد میں شہرت رکھتے تھے اس کے علاوہ ایک گروہ وہ بھی تھا جو استنباط احکام میں عقل کو استعمال کرنے سے شدت سے پرہیز کرتا تھا۔
شیعہ فقہ کو کتابی صورت دینے سے مکتب فقہ تشیع میں ایک نیا موڑ آیا۔ یہ دور جو غیبت صغری کے آغاز سے شروع ہوتا ہے فقہ میں تین اہم رجحانات دیکھے جاسکتے ہیں۔سب سے پہلا رجحان ان علماء کا تھا جو حدیث کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اس میں احکام شرعی کے بیان میں حدیث کو زیادہ دخل رہا ہے۔ اس نقطہ نظر سے وابستہ علماء اجتھاد کے مخالف تھے اور فقہ کو حدیث نقل کرنے میں ہی منحصر سمجھتے تھے۔ ان علماء میں بزرگ محدث یعقوب کلینی رحمۃ اللہ علیہ کا نام صدر فہرست میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی معروف بہ شیخ کلینی کافی گے گرانقدر مصنف ہیں اور اھل تشیع کے بزرگ ترین علماء اور محدثین میں شمارہوتے ہیں۔ یعقوب کلینی رحمۃ اللہ علیہ چوتھی صدی ہجری کے نصف اول میں ایران کے مشہور علاقے شہر ری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائي علوم اپنے والد اور ماموں سے حاصل کئے۔ علم رجال اور حدیث سے آشنا ہونے کے بعد انہوں نے حدیث میں کتابیں لکھنا شروع کردیا اس نے اپنی عمر بھر کی علمی کاوشوں کے نتیجے میں احادیث کا عظیم مجموعہ ترتیب دیا جس کا نام انہوں نے اصول کافی رکھا۔ یہ ان کتاب ان کی بیس سالہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اصول کافی شیعہ مسلمانوں کی حدیث کیا چار کتابوں میں ایک ہے۔ اس میں دو جلدیں اصول کافی کی ہیں، پانچ جلدیں فروع کافی کی ہیں اور ایک جلد روضہ الکافی کی ہے۔ اس کتاب میں رسول خدا اور ان کے اھل بیت علیھم السلام سے نقل کی گئي سولہ ہزار ایک سو ننانوے حدیثیں ہیں۔
فقہ میں دوسرا گروہ ان علماء کا تھا جو اجتھاد کے قائل تھے۔ اجتھاد کے قائل علماء میں جنید اسکافی کو پیشرو کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ چوتھی صدی ہجری میں عراق میں رہتے تھے۔ جنید اسکافی علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گرچہ جنید کو حدیث و کلام میں بھی دستگاہ حاصل تھی لیکن ان کا خاصہ استدلالی فقہ تھا۔ جنید اسکافی مختلف علوم پر عبور رکھتے تھے اور انہیں فقیہ محدث اور اصولی متکلم کہاجاتا ہے۔ انہیں ادب اور فہرست نویسی میں بھی مہارت حاصل تھی۔ علماء رجال اور فہرست نویسوں نے ان کی کتابوں کی تعداد پچاس عدد بتائي ہے جو علم فقہ، اصول، کلام اور علوم ادب میں ہیں۔ جنید اسکافی کی کتاب جو چوتھی اور پانچویں صدی ہجری قمری میں شیعہ فقہ کی معروف ترین کتاب سمجھی جاتی تھی تہذیب الشیعہ ہے۔ جنید اسکافی کا انتقال تین سو اکیاسی ہجری قمری میں شہر ری میں ہوا۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.