اسلامی زندگي میں نظم و ضبط

681

مقصد اور ارادے سے پہلے ان مقاصد کی ترجیحات اور نظام الاوقات کی ضرورت پر تاکید کی تھی اس مرحلے کے بعد اب نوبت ہے ہدف کے آ‏‏غاز کی سمت قدم بڑھانے کے زمانے کی ، یعنی کس وقت ہدف کی سمت قدم اٹھایا جائے چنانچہ اگر ہم مقصد کے آغاز سے متعلق کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کرسکیں تو ہمارے اہداف و مقاصد صرف خواب اور آرزو ہی بن کر رہ جائيں گے ۔ اسی بناء پر عقل و بصیرت سے کوئی فیصلہ کرنا چاہئے اور ساتھ ہی منظم طریقے سے نیز اپنے اختیار ميں جو وسائل و ذرائع ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے ، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے ہدف کی جانب قدم بڑھانا چاہئے ۔ کوئی بھی چیز کاموں کے انجام اور ہدف تک رسائی میں درست طریقے سے منصوبہ بندی سے زیادہ موثر نہيں ہے ۔ چنانچہ امیرالمو منین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں مقصد تک رسائی کے لئے وسائل و ذرائع ہونے سے زیادہ منصوبہ بندی میں دقت اور باریکی کو اہمیت حاصل ہے ۔
منصوبہ بندی کے متعدد معانی اور تعریفیں بیان کی گئ ہیں اور ان ہی تعریفوں میں سے ایک خرد مندانہ پیشگوئي اور بامقصد سرگرمیوں میں نظم ونسق اور اس پر عمل کرنے والے کی صلاحیت اور خواہش کے تناسب سے ترجیحات کی بنیاد پرشیڈول کا تعین کرنا ہے ۔ بالفاظ دیگر منصوبہ بندی ، تدبیر اور کام کی تقسیم نیز مستقبل میں کام انجام دینے کے لئے فیصلہ کرنے سے عبارت ہے ۔ منصوبہ بندی اور پلاننگ کے، انسان کی زندگي پر انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ منصوبہ بندی ہوتی ہے تو سارے کام، ذمہ داریاں اور سرگرمیاںبہت منظم طریقے سے ثمر بخش واقع ہوتی ہیں ۔ جدید ٹکنالوجیز کی اس دنیا میں علم کے حصول اور فکری و سماجی اور معاشی ترقی کے لئے انسان کو منصوبہ بندی کرنے اور نظام الاوقات کی ضرورت ہے ۔
اسلام ایک مکمل دین الہی کی حیثیت سے انسان کی زندگي میں منصوبہ بندی پر تاکید کرتا ہے ۔ اسلامی کتب اورماخذ میں چند وجوہات کی بناء پر منصوبہ کو لازم اور ضروری قراردیا گيا ہے منجملہ ان وجوہات کے ایک یہ ہے کہ انسان کی عمر اور وقت تیزی سے گذر جانے والے ہيں کہ جسے انسان محسوس نہیں کرپاتا ہے ۔ اسی طرح جو وقت ہاتھ سے چلا جائے وہ پلٹ کر نہيں آنے والا ہے اور کسی بھی صورت میں اس کی واپسی ناممکن ہے ۔ اس لئے وقت ایسی چیز ہے جس کا بدل نہيں ہے ۔ جو بھی سرمایہ انسان کے ہاتھ سے چلا جائے وہ قابل بازگشت ہے اوراس کی تلافی کسی نہ کسی طرح سے ممکن ہے لیکن عمر اور وقت وہ سرمایہ ہے جو قابل تلافی نہیں ہے ۔ دوسری جانب اس بات کی بھی ضرورت ہےکہ تمام کاموں کو اس کے وقت مقررمیں انجام دیا جائے اوریہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب منصوبہ بندی ہو ۔ رسولخد (ص) اس سلسلے ميں فرماتےہیں ہر کام اپنے وقت پر منحصر ہے ۔
منصوبہ بندی کے ساتھ تمام مواقع اور وسائل و ذرائع سے زیادہ سے زیادہ اور بطور صحیح استفادہ کیا جاسکتاہے ۔ منصوبہ بندی کے اہم ترین اثرات میں مفید عادتوں کا وجود میں آنا ہے ۔ نتیجے ميں سارے کام مزید سہولت کے ساتھ انجام پاسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح منصوبہ بندی انسان کی زندگي میں اس کی پسندیدہ روش میں مدد کرتی ہے ۔ بہت سی پشیمانیوں اور زندگي کے مسائل کو ، ہر کام کے انجام دینے سے پہلے منصوبہ بندی اورفکر نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ فرزند رسولخدا حضرت امام محمد تقی (ع) اس سلسلے میں فرماتے ہيں ہر کام انجام دینے سے پہلے تدبیر اور منصوبہ بندی انسان کو پشیمانی سے محفوظ رکھتی ہے ۔
منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے کے لئے نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے منصوبہ بندی کے کے بعد امور میں نظم و ترتیب کی پابندی کرنی چاہئے ۔ اسلامی تعلیم و ثقافت میں منصوبہ بندی اور نظم کی اہمیت میں یہی کافی ہے کہ حضرت علی نے اپنی زندگي کے آخری لمحات میں امام حسن اور امام حسین علیھماالسلام اور اپنے ديگر فرزندوں کو اور ان تمام افراد کو جن تک امام علی (ع) کا وصیت نامہ پہنچے اس طرح سے نصیحت فرمائی ہے: میں تمہیں تقوائے الہی اورتمام کاموں میں نظم ونسق کی تلقین کرتا ہوں ۔
زندگي کے امور میں بہت سی مشکلات اور بے نظمی کا سبب ، نظم و ضبط کا نہ ہونا ہے ۔ نظم جیسی پسندیدہ صفت ، معجزاتی طور پرطرز زندگي میں مثبت تبدیلیاں وجود میں لاتی ہے ۔ کاموں میں نظم و ضبط ، فرد اور معاشرے میں بہت زیادہ آثار وبرکات کا حامل ہے۔ نظم اور منصوبہ بندی کے سبب وقت اور سرمایوں کے ضائع ہونے کی روک تھام ہوتی ہے انسان کی ضروریات اس طرح سے مختلف اور متنوع ہیں کہ جنہیں بیک وقت انجام دینا انسان کی طاقت و توانائی سے باہر ہے یہاں تک کہ ان سب کو دنوں اور راتوں میں انجام دینا مشکل ہے ۔ اسی بناء پر انسان مجبور ہوکر ان ہی کاموں کو جو اہمیت رکھتےہیں انہیں کا انتخاب کرتا ہے اور ہر ایک کام کی انجام دہی کے لئے وقت اور زمانے کا تعین کرتا ہے تاکہ رفتہ رفتہ دیگر اوقات میں اپنے تمام کاموں کو انجام دیتا رہے ۔ اس بناء پر انسان اپنے کاموں کے انتشار سے پرہیز کرتا اور اپنی عمر ،کہ جو اس کا اصلی ترین سرمایہ ہے ، بہترین فائدہ حاصل کرتا ہے ۔ جو انسان اپنے روزو شب کے اوقات کے لئے منصوبہ بندی کرتا اور اپنے انفرادی و اجتماعی کاموں کے لئے وقت کو مد نظر قرار دیتا ہے وہی ان اوقات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے ۔ کاموں میں نظم وضبط اس بات کا موجب بنتا ہےکہ ہرکام اپنے وقت پر انجام پائے اور مفید بھی واقع ہو ۔
انفرادی و اجتماعی رویوں میں نظم و ضبط ، انسان کی فکرکے منظم ہونے میں موثر عامل ہے ۔ جس شخص کے تمام کام منظم ہوں تو اس کی فکر میں بھی ایک خاص نظم پیدا ہوجاتا ہے ۔ انسان اس خصوصیت کا حامل ہونے کے ساتھ ترقی وکمال کے زینے با آسانی طے کرسکتا ہے ۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) فکرميں نظم وترتیب کو انسانی افعال میں پائے جانے والے نظم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے ميں فرماتےہيں اگر ہم اپنی زندگي میں اپنے افعال و کردار کو منظم کریں تو ہماری فکر بھی منظم ہوگي اور جب فکر منظم ہوگئی تو یقینا انسان خدا کے مکمل فکری نظام کا حامل ہوجائے گا ۔
اب جب کہ حضرت امام خمینی (رہ ) کا ہم نے ذکر خیر کیا تو ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ عظیم انسانوں کی کامیابی کا ایک اہم راز ، ان کی زندگی ميں نظم و نسق کا ہونا ہے ۔ حضرت امام خمینی (رح) کی زندگي اور افعال وکردار اسلامی ثقافت اور پیغمبر اسلام (ص) اور ان کے اہل بیت کی سیرت کا آئینہ دار ہے ،اور ان کی زندگي ميں مثالی منظم منصوبہ بندی ، دوسروں کی زندگي پر اثراندازرہی ہے ۔ امام خمینی (رہ) کےایک شاگرد کہتے ہيں ۔ میں تقریبا دس سال نجف اشرف میں ان کی خدمت میں تھا ۔ میں نے ان میں ایسے امور کا مشاہدہ کیا جو واقعا ہمارے لئے نمونۂ عمل تھے ۔ امام نےحتی اپنے مطالعے اور تلاوت قرآن اور مستحب کاموں یہاں تک کہ زیارتوں اور دعاؤں کے لئے بھی کہ جن کا کوئی مخصوص وقت نہیں تھا ، ان کے لئے بھی امام (رح) نے وقت منظم کیا تھا ۔ اور ہرکام کو اسی وقت میں انجام دیتے تھے اس طرح سے کہ اگر کوئی بھی ان سے ایک مدت تک مانوس ہوجاتا تو اس پر یہ واضح ہوجاتا کہ اس وقت امام کس کام میں مشغول ہیں ۔ اگر چہ وہ امام خمینی (رہ ) کے پاس نہیں ہوتا تھا اور ہزاروں کیلو میٹر دور رہ کربھی اس بات کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس وقت امام کا مشغلہ کیا ہوگا ۔ امام خمینی (رہ) اس قدر منظم تھے کہ نجف اشرف کے بازار کا ایک دکاندار ان کی آمد و رفت سے اپنی گھڑی کو تنظیم کرتا تھا ۔ امام (رہ ) کا یہ نظم ونسق ان افراد کے لئے جو امام کے اعمال پر ناظر تھے ایک درس تھا اور وہ امام کی اس خصلت کو اپناتے تھے ۔
انسان وہی منظم ہے جو اپنے تمام کاموں میں نظم و ضبط کو حاکم بناکر ، دوسروں کے وقت اور عمر کا احترام کرے ۔ اور ایک لمحہ بھی وقت کو ضائع نہ ہونے دے ۔ جو انسان اپنی زندگي ، رفتار و کردار اور حتی فکر کو منظم کرلے اور خود کو اس پسندیدہ صفت سے آراستہ کرلے تو وہ دوسروں کے لئے بھی موثر نمونۂ عمل قرار پاسکتا ہے اور ان کو کاموں میں نظم و ضبط پر عملدرآمد کے لئے مجبورکرسکتا ہے ۔
اس بناء پر طرز زندگی میں تبدیلی کے لئے ہدف کے تعین ، نظم و ترتیب اور منصوبہ بندی کے بعد ، زندگی کو ایک نیا رنگ حاصل ہوجاتا ہے اور آرام و سکون کا احساس ہونے لگتا ہے اور تمام اضطراب اور ذہنی الجھنیں برطرف ہوجاتی ہیں اور کاموں میں نظم پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ ہم سب نظم اور منصوبہ بندی کی مشق کے ساتھ اپنی زندگي ميں مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں آخر ميں حضرت علی علیہ السلام کا یہ قول ذکر کرنے جارہے ہيں ۔ حضرت امام علی (ع) زندگي میں نظم و ضبط کی اہمیت کے پیش نظر نصیحت فرماتے ہيں کوشش کرو کہ تمہاری زندگي کے اوقات چار حصوں میں تقسیم ہوں ۔ ایک حصہ خدا سے مناجات کے لئے ، ایک حصہ کسب معاش کے لئے، اور ایک حصہ اپنے ان بھائیوں سے معاشرت کے لئے جو تمہارے عیوب سے تم کو آگاہ کریں اور تم سے ظاہر وباطن میں مخلصانہ رویہ اپنائیں ، اور بعض اوقات کو اپنی جائز خوشی سے مختص کرو ۔ اور جان لو کہ اس حصے کے ذریعے سے تم دیگر تین حصوں پر بھے تسلط حاصل کرلوگے ۔ ( بحارالانوار ، ج78 ، ص321 ، روایت 3 )

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.