عدالت صحابہ دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

579

 

 

عدالت صحابہ دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

 

 

 
 

صحابہ  کی عدالت مکتب خلفاء کی نظر میں

 

 

 
 

مکتب خلفاء کا نظریہ اس طرح ہے کہ سارے صحابہ  عادل ہیں۔ اسی لئے وہ اپنی دینی تعلیمات تک رسائی کے لئے ان سے رجوع کرتا ہے۔

 

 

 
 

اہل جرح و تعدیل کے امام حافظ ابو حاتم رازی ۱  اپنی کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:

 

 

 
 

رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے وحی اور قرآن کا مشاہدہ کیا اور تفسیر و تاویل کی معرفت حاصل کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدائے عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصاحبت، نصرت، اس کے دین کو قائم کرنے اور اس کے حق کو ظاہر کرنے کے لئے چنا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر  کے اصحاب کی حیثیت سے ان سے راضی ہوا اور ان کو ہمارے لئے راہنما اور نمونہ قرار دیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ ان تک پہنچایا، جو بھی قانون یا روش ان کو دی، جو حکم ان کو دیا، جو فیصلے کئے، جس چیز کا امر کیا، سمجھا اور مضبوطی سے اپنی گرہ میں باندھ لیا۔ یوں انہوں نے رسول کی نگرانی میں دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی، خدا کے اوامر و نواہی اور مقاصد سے آگاہ ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن کی تفسیر اور تاویل سیکھی۔ انہوں نے یہ چیزیں آپ سے براہ راست حاصل کیں اور آپ کے گفتار و کردار سے استنباط کا طریقہ سیکھا۔

 

 

 
 

بنا بریں خداوند عزوجل نے اپنے احسانات کے ذریعے ان کو فضلیت دی اور دوسروں کے لئے نمونہ بنا کر عزت بخشی۔ پس ان سے شک، کذب، غلطی، تہمت، فخر و غرور اور عیب جوئی کو دور کر کے ان کا نام عدول الامہ رکھا۔ چنانچہ اس نے قرآن میں فرمایا:

 

 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ۲
 
 

اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔

 

 

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی طرف سے اس کے قول وسطاً کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وسطًا سے مراد عدل ہے۔ پس وہ امت کے عدول، ہدایت کے امام، حُجج دین اور کتاب و سنت کے ناقل قرار پائے۔

 

 

 
 

          خداوند عزوجل نے ان کی رہنمائی سے متمسک رہنے، ان کے طور طریقوں پر چلنے، ان کے راستوں کو اختیار کرنے اور ان کی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا:

 

 

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہالْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوٴْمِنِیْنَ نُوَلِّہمَا تَوَلّٰی۔ 3
 
 

اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے ۔

 

 

 
 

ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی احادیث میں آپ(ص) کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کی ترغیب دی ہے اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ ان احادیث میں اپنے صحابہسے مخاطب ہوئے ہیں۔ ان روایات میں سے ایک میں آپ(ص) ان کے لئے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

 

 
 

خدا اس شخص کو خوشحال زندگی عطا کرے جو میری بات کو سنے پھر اس کو یاد کرے اور محفوظ رکھے یہاں تک کہ دوسروں تک پہنچائے۔

 

 

آنحضرت(ص)نے اپنے خطبے میں فرمایا:
تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائبین تک پہنچائیں۔
نیز فرمایا:
 
 

میری طرف سے پہنچاؤ اگر چہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور میری باتوں کو بیان کرو کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

 
 

پھر صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف شہروں، سرحدوں، مفتوحہ علاقوں اور جنگی محاذوں میں پھیل گئے والی اور قاضی کی حیثیت سے یا احکام لے کر جگہ جگہ چلے گئے اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے علاقے میں ان چیزوں کو پھیلایا جن کو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور سمجھا تھا۔ جب لوگ ان سے سوالات کرتے تو وہ ان سے مشابہ سوالات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دئے گئے جوابات کی روشنی میں فتویٰ دیتے تھے۔ انہوں نے حسن نیت او ر قرب الہٰی کے ارادے کے ساتھ اپنے وجود کو اس بات کے لئے وقف کر رکھا تھا کہ لوگوں کو واجبات ، احکام و سنن اور حلال و حرام کی تعلیم دیں یہاں تک کہ وہ خدا سے جا ملے۔ رضوان الله و مغفرتہ و رحمتہ علیہم اجمعین۔

 

 

حافظ ابن عبد البر اپنی کتاب استیعاب 4  کے مقدمے میں کہتے ہیں:
ان سب کی عدالت ثابت ہے۔
 
 

اس کے بعد وہ ان احادیث اور آیات کو ذکر کرنا شروع کرتے ہیں۔ جو ان میں سے مومنین کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جیسا کہ ہم نے ابو حاتم رازی سے نقل کیا ہے۔

 

 

 
 

ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ5  کے مقدمے میں لکھتے ہیں: وہ روایات جن پر احکام کی تفصیلات، حلال و حرام کی معرفت اور دیگر امور دین کا دارومدار ہے، تب ہی ثابت ہوں گی جب پہلے ان روایات کے راویوں کی معرفت حاصل ہو۔ ان راویوں اور رجال حدیث کا ہر اول دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی پہچان نہ رکھتا ہو تو ان کے بغیر اس کی جہالت شدید تر اور اس کی لاعلمی بھی سخت تر ہو گی۔ بنا بریں لوگوں پر ضروری ہے کہ ان صحابہکے انساب و احوال سے با خبر ہوں۔

 

 

 
 

صحابہان تمام امور میں باقی راویوں کے مانند ہیں سوائے جرح و تعدیل کے کیونکہ سارے اصحاب عادل ہیں اور وہ جرح و تنقید سے بالا تر ہیں

 

 

 
 

حافظ ابن حجر اپنی کتاب الاصابہ 6  کے مقدمے کی تیسری فصل میں صحابہ کے حالات اور ان کی عدالت کے بارے میں کہتے ہیں:

 

 

 
 

اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سارے اصحاب عادل ہیں۔

 

 

 
 

اس امر میں سوائے معدودے چند بد عیتیوں کے کسی نے مخالفت نہیں کی۔

 

 

یہ تھا صحابہکی عدالت کے بارے میں مکتب خلفاء کا نظریہ۔ اب ہم یہاں مکتب اہل بیتکا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔
 
 

عدالت صحابہمکتب اہل بیتکی نظر میں

 

 

 
 

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں مکتب اہل بیتکا نقطہ نظریہ ہے کہ صحابہ کرامکی ایک تعداد مومنین پر مشتمل ہے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کی ہے۔ مثلاً شجرہ کے بارے میں فرمایا:

 

 

بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔ پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا۔ لہذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح نازل فرمائی۔ 7 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیعت الشجرہ میں شرکت کرنے والوں میں سے فقط صاحب ایمان اصحاب کی تعریف کی ہے جو اس بیعت میں شریک منافقین مثلاً عبد اللہ بن ابی اور اوس بن خولی وغیرہ کو شامل نہیں۔ 8 
 
 

اسی طرح قرآن کی روشنی میں مکتب اہل بیت  کا نقطہ نظریہ ہے کہ اصحاب کے اندر بعض منافقین بھی موجود تھے جن کی مذمت اللہ تعالیٰ نے قرآن کی بہت سی آیات میں کی ہے مثلاً قرآن کی ایک آیت یوں ہے:

 

 

وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُوْنَط وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِقف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِقف لَا تَعْلَمُھُمْ ط نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۔سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ۔ 9
 
 

اور تمہارے گردوپیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کے لئے لوٹائے جائے گے۔

 

 

 
 

اصحاب کے درمیان کچھ ایسے بھی تھے جن کے بارے مین قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ افک کے مرتکب ہوئے تھے یعنی انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ پر گناہ کی تہمت لگائی تھی۔

 

 

 
 

(ہم اس قول سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں) بعض اصحاب کے بارے میں خدا نے فرمایا:

 

 

وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَہْوَاْ نِنْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ تَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط 10
 
 

اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشة ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ(ص) کو کھڑے چھوڑ دیا۔

 

 

 
 

یہ واقعہ تب ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صحابہ نے تو آپ کو اس وقت ایک دشوار گزار گھاٹی میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔11  پھر رسول خدا(ص) کی مصاحبت کا مرتبہ آپ کی زوجیت کے مرتبے سے زیادہ تو نہیں کیونکہ ازواج رسول(ص) کی آپ کے ساتھ مصاحبت سے زیادہ قریبی مصاحبت کا تصور نہیں ہو سکتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا:

 

 

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَھَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ط وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا o وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہوَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّوٴْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ لا وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا o یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النَّسَآءِالخ 12
 
 

اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم دوگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا زرق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہوالخ۔

 

 

 
 

ْاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیویوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

 

اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَاج وَ اِنْ تَظٰاہَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صِالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ ج وَ الْمَلٰٓئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌاo 13
 
 

اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہتر ہے ) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس کا مولا ہے اور جبرئیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں۔

 

 

آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَاَنَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ o وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہوَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ o وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَ کُتُبِہوَ کَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o 14
 
 

اللہ نے کفار کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، یہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہیں حکم دیا گیا: تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاوٴ۔ اور اللہ نے مومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، جب اس نے دعا کی: پروردگارا ! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما۔ اور مریم بنت عمران کو بھی ( اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرماں برداروں میں سے تھی۔

 

 

 
 

صحابہمیں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

 

 

 
 

میری امت کے بعض افراد (بروز قیامت) حاضر کئے جائیں گے اور برے لوگوں کے زمرے میں لے جائے جائیں گے۔

 

 

اس وقت کہوں گا:
اے رب! یہ لوگ میرے اصحاب ہیں۔
جواب ملے گا:
 
 

تمہیں پتہ نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا گل کھلائے ہیں۔

 

 

 
 

پس میں یہ کہوں گا جس طرح صالح (حضرت عیسیٰ ع) نے کہا تھا:

 

 

 
 

وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ط15

 

 

 
 

جب تک میں ان کے درمیان رہا، میں ان پر گواہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگران ہے۔

 

 

پس جواب ملے گا:
تیری وفات کے بعد یہ لوگ مرتد ہو گئے اور اسی حالت پر باقی رہے۔16
ایک اور روایت ہے:
 
 

بہ تحقیق میرے پاس حوض پر میرے کچھ اصحاب وارد ہوں گے۔ جب میں یہ مشاہدہ کروں گا کہ (فرشتے) انہیں میرے پاس آنے سے روک رہے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں۔

 

 

جواب ملے گا:
تجھے کیا خبر کہ ان لوگوں نے تیرے بعد کیا کچھ کیا؟ 17
صحیح مسلم کی روایت ہے:
بہ تحقیق حوض پر میرے ہاں کچھ اصحاب وارد ہوں گے۔ یہاں تک کہ میں جب انہیں دیکھوں گا اور وہ میرے سامنے کر دیے جائیں گے تو میرے پاس آنے سے روک دئے جائیں گے۔ بتحقیق میں اس وقت کہوں گا: اے میرے رب یہ میرے اصحاب ہیں۔ پس بتحقیق مجھے جواب ملے گا: تجھے خبر نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا گل کھلائے۔18
 
 

 

 

 

 
 

مومن اور منافق کی پہچان کا معیار

 

 

 
 

چونکہ صحابہ میں سے کچھ منافقین تھے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا اور نبی

 

 

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تھی کہ ”علی(ع) سے فقط مومن ہی محبت کرتا ہے اور اس سے بغض نہیں رکھتا مگر منافق“ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ(ع)، ام المومنین ام سلمہ، عبداللہ بن عباس، ابوذر غفاری، انس بن مالکاور عمرانبن حصین نے روایت کی ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مشہور و معروف تھی۔ حضرت ابوذر  کا بیان ہے:
ہم منافقین کو نہیں پہچانتے تھے مگر اللہ اور رسول(ص) کے انکار، صلوات نہ بھیجنے اور بغض علی ابن ابی طالب(ع) کے مشاہدے سے۔ 19
حضرت ابو سعید الخدری  کہتے ہیں:
ہم انصاری منافقین کو حضرت علی(ع) سے بغض کے ذریعے سے پہچانتے تھے ۔20
حضرت عبد اللہبن عباس کہتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں منافقین کو علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ ان کے بعض کے ذریعے پہچانتے تھے ۔21
اور جابر بن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے:
ہم منافقین کو نہیں پہچانتے تھے مگر بغض علی ابن ابی طالب(ع) کے ذریعے۔ 22
 
 

ان ساری باتوں اور امام علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان :

 

 

اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔23
 
 

خدایا! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی کر اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر۔

 

 

 
 

کے پیش نظر مکتب اہل بیت کے پیروکار اپنی دینی تعلیمات کسی ایسے صحابی سے اخذ کرنے سے احتراز کرتے ہیں جس نے خلیفہ راشد حضرت علی(ع) سے عداوت کی ہو اور آپ سے محبت نہ کی ہو، اس خوف سے کہ کہیں یہ صحابی ان منافقین میں سے نہ ہو جن کی حقیقت سے خدا ہی آگاہ ہے۔

 

 

 

صحابہکے بارے میںدونوں مکاتب فکر کے نظریات کا خلاصہ

 

 
 

صحابہاور عدالت صحابہمکتب خلفاء کی نظر میں

 

 

مکتب خلفاء کی نظر میں صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اگرچہ دن کے ایک پہر کے لئے کیوں نہ ہو اور اسلام پر ہی مرے۔

 

 

مکتب خلفاء کے خیال میں دسویں ہجری تک مکہ اور طائف میں سب کے سب مسلمان ہو چکے تھے اور وہ سب حجة الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ علاوہ بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری دور میں اوس اور خزرج قبیلے میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو مسلمان نہ ہو چکا ہو۔

 

 

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خلفاء مفتوحہ علاقوں میں فقط صحابہکو ہی حاکم بناتے تھے۔ اس قاعدے کے تحت انہوں نے ایسے لوگوں کو بھی اصحاب میں شامل کیا ہے جن کے بارے میں ہم نے ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ نامی کتاب میں دلیلوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ وہ جعلی تھے اور تاریخ میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔

 

 

مکتب خلفاء کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سارے اصحابعادل ہیں، وہ اعتراض و تنقید سے بالاتر ہیں اور جو شخص ان میں سے کسی کے نقائص بیان کرے وہ کافر و زندیق ہے۔

 

ساتھ ہی مکتب خلفاء کے خیال میں جو شخص بھی ان کی اصطلاح کے مطابق ”صحابی“ ہے اس کی تمام روایات صحیح ہیں۔ یوں وہ تمام اصحابسے تعلیمات دین اخذ کرتے ہیں۔
 

صحابہمکتب اہل بیت  کے نظر میں

 

 

مکتب اہل بیت کا عقیدہ ہے کہ صحابی کا لفظ شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ عربی کے دیگر عام الفاظ کی طرح (لغوی معنی کا حامل) ہے۔ عربی زبان میں صاحب سے مراد ساتھی اور باہم زندگی گزارنے والا۔ بنا بریں یہ لفظ اسی شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جس کی مصاحبت کی مقدار کافی طویل ہو۔ اور مصاحبت چونکہ دو افراد کے درمیان ہوتی ہے۔ اس لئے لفظ صاحب یا اس کی جمع اصحاب، صحابہ وغیرہ کو بطور مضاف استعمال کرنا ہو گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں یَا صَاحِبَیِ السِّجْنُ اور اصحاب موسیٰ وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی اسی طرح استعمال ہوتا تھا اور اصحاب رسول اللہ(ص)، صاحب رسول اللہ(ص) وغیرہ کہتے تھے۔ یعنی لفظ صاحب کو مضاف اور رسول اللہ کو مضاف الیہ قرار دیتے تھے۔ اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی مضاف الیہ بناتے تھے۔ مثال کے طور پر ”اصحاب الصفہ“ میں جو مسجد رسول(ص) کے سائبان تلے زندگی گزارنے والوں کے لئے کہا کرتے تھے۔

 

 

رسول اللہ(ص) کے بعد لفظ صحابی مضاف الیہ کے بغیر ہی استعمال ہونے لگا۔ اس سے مراد لوگ اصحاب رسول(ص) کو ہی لیتے تھے۔ اسی طرح یہ لفظ اصحاب رسول(ص) کے لئے نئی اصطلاح بن گیا۔ بنا بریں صحابی اور صحابہ کے الفاظ کا تعلق اصطلاح متشرعہ یا تسمیة المسلمین سے ہے، اصطلاح شرعیہ سے نہیں۔

 

 

رہی ان کی عدالت تو اس کے بارے میں مکتب اہل بیت کا عقیدہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق یہ ہے کہ صحابہ میں سے بعض منافقت پر ڈٹے رہے۔ بعض نے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ پر گناہ کی تہمت لگائی۔ بعض اصحاب نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی اور بعض کے بارے میں حضور(ص)نے خبر دی ہے کہ بروز قیامت ان کو آپ(ص) کے حضور آنے سے روک دیا جائے گا۔ تب خدا کی طرف سے جواب ملے گا:

 

 

آپ(ص) کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ(ص)کے بعد کیا کیا گل کھلائے تھے۔ آپ(ص) کی وفات کے بعد ان لوگوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔

 

 

مکتب اہل بیت  کے خیال میں اصحاب کے درمیان صاحب ایمان ہستیاں بھی تھیں جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی احادیث میں ان کو سراہا ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں جن اصحاب  کی تعریف ہوئی ہے ان سے مراد یہی ہیں۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے محبت یا آپ سے بغض کو مومن اور منافق کی پہچان کا معیار قرار دیا ہے۔ اسی لئے مکتب اہل بیتکے پیروکار راویان حدیث کے بارے میں چھان بین کرتے ہیں۔ پس اگر انہوں نے حضرت علی(ع) یا ائمہ اہل بیت(ع) کے ساتھ جنگ یا دشمنی کی ہو تو وہ اپنے آپ کو ان لوگوں کی روایات اخذ کرنے کے پابند نہیں سمجھتے خواہ یہ لوگ صحابی ہوں یا غیر صحابی۔

 

 

صحابی کی تعریف اور اس کی عدالت کے بارے میں یہ تھا دونوں مکاتب فکر کی آراء کا خلاصہ۔ اب ہم امامت و خلافت کے بارے میں ان دونوں مکاتب فکر کے نظریات پر روشنی ڈالیں گے۔

 

 
 
 
 
 

 حوالہ جات

 

 

 
 

۱ ان کا پورا نام یہ ہے: ابو محمد عبد الرحمن بن ابو حاتم رازی متوفی ۳۲۷ھ ان کی یہ کتاب الجرح و التعدیل ۱۳۷۱ئھ میں دکن سے شائع ہوئی ہے۔ درج بالا عبارت اس کے مقدمہ صفحہ ۷ تا ۹ سے نقل کی گئی ہے۔

 

 

 
 

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۴۳۔

 

 

 
 

3 سورہ نساء آیت ۱۱۵۔ مکتب اہل البیتکی نظر میں ان سب میں مقصود صرف مومنین ہیں۔

 

 

 
 

4 حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد عبد البر نمری قرطبی المالکی متوفی ۴۶۳ھ ان کی مشہور کتاب ”الاستیعاب فی اسماء الاصحاب“ حیدر آباد دکن اور مصر سے طبع ہو چکی ہے۔

 

 

 
 

5 معروف عالم عز الدین علی بن محمد عبد الکریم الجزری المعروف بہ ابن اثیر متوفی ۶۳۰ھ۔ ان کتاب ”اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد اول صفحہ ۳ سے محولہ عبارت نقل کی گئی ہے۔

 

 

 
 

6 الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج۱ صفحہ ۲۲۱۷،مطبوعہ المکتبة النجاریة مصر ۱۳۵۸ئھ۔

 

 

 
 

7 سورة فتح آیت ۱۸

 

 

 
 

8 بیعت رضوان سے متعلق ، کتاب المغازی صفحہ ۵۸۸، الخطظ المقریزیہ صفحہ ۲۸۴ وغیرہ کتب معتبرہ کا مطالعہ کیا جائے۔

 

 

 
 

9 سورة التوبہ آیت ۱۰۱-

 

 

 
 

10 سورة الجمعہ آیت ۱۱

 

 

 
 

11 مسند الامام احمد ج۵ صفحہ ۳۹۰،۴۵۳، صحیح مسلم باب صفات المنافقین، جمع الزوائد ج۱صفحہ ۱۱۰ ج۶ صفحہ ۱۹۵، امتاع الاسماع مقریزی صفحہ ۴۷۷، تفسیر درمنثور للسیوطی ج۳ صفحہ ۲۵۸، ۲۵۹ زیر آیت نمبر ۷۴

 

 

12 سورة الاحزاب آیت ۳۰۔۳۲ 
 
 

13 سورہ تحریم آیت ۴

 

 

 
 

14 سورہ تحریم آیت ۱۰ ۔ سورہ مریم ابتدا سے آخر تک دیکھئے

 

 

 
 

15 سورہ مائدہ آیت ۱۱۷

 

 

 
 

16 حیح بخاری تفسیرسورة مائدہ باب و کنت علیھم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کتاب الانبیاء باب واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔ سنن ترمذی باب ماجاء فی شان الحشر و تفسیر سورة طہ۔

 

 

 
 

17 صحیح بخاری باب فی الحوض ج۴ صفحہ ۹۵ باب ماجاء فی قولہ واتقوا فتنة لا تصیبن، سنن ابن ماجہ باب الخطبة یوم النحر حدیث نمبر ۵۸۳۰، مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۴۵۳ ج۳ صفحہ ۲۸ ج۵ صفحہ ۴۸۔

 

 

 
 

18 صحیح مسلم باب اثبات حوض نبینا ج۴ صفحہ ۱۸۰۰ حدیث نمبر ۴۰۔

 

 

 
 

19 مستدرک علیٰ الصحیحین امام حاکم ج۳ صفحہ ۱۲۹، کنز العمال ج۱۵ صفحہ ۹۱،

 

 

 
 

20        نن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۱۶۷، حلیة الاولیاء ج۶ صفحہ ۲۸۴۔

 

 

 
 

21 تاریخ بغداد ج۳ صفحہ ۱۵۳ طبع بیروت

 

 

 
 

22 الاستعاب ج۲ صفحہ ۴۶۴، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۸۴، تاریخ الاسلام ذہبی ج۲ صفحہ ۱۹۸، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۳۳ طبع قاہرہ۔

 

 

 
 

23 سنن ترمذی باب مناقب علی  صفحہ ۱۶۵، سنن ابن ماجہ باب فضل علی حدیث نمبر ۱۱۶، مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۸۴، ۸۸ مستدرک حاکم ج۲ صفحہ ۱۲۹ ج۳ صفحہ ۹، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۲۲ تا ۲۲۵۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.