نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری حصہ دوم

290

٩۔نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنا
بخل اور اضافی نعمت کو مستحقین پر خرچ نہ کرنے کی برائی کو ایک ان پڑھ اور معمولی کسان کی زبانی بھی سن لیجئے:
حقیر تبلیغ کے لئے ایک دیہات میں گیا ہوا تھا، تقریر کے خاتمہ پر ایک محنت کش بوڑھا ہمارے پاس آیا جس کے چہرے پر دن ورات کام کرنے کے آثار ظاہر تھے جس کے ہاتھوں میں گٹھے پڑے ہوئے تھے ، اس نے کہا: ایک بزرگوار شخص آتا ہے اور ہمیں تیار زمین ، بیج اور پانی دیتا ہے اور فصل کی کٹائی کے وقت وہ بزرگوار شخص پھر آتا ہے اور اس کاشتکار کے پاس آجاتا ہے جس کو اس نے زمین، بیج، پانی، سورج کی روشنی ، بارش وغیرہ مفت اس کے اختیار میں دی تھی ،اور اس سے کہتاہے: اس فصل میں سے زیادہ تر حصہ تیرا ہے مجھے اس میں سے کچھ نہیں چاہئے لیکن ایک مختصر سا حصہ جس کو میں کہوں اس کو ہدیہ کردو، کیونکہ اس کی مجھے تو بالکل ضرورت نہیں ہے، اگر یہ کاشتکار اس زمین سے حاصل شدہ تمام فصل کو اپنا حق سمجھ لے اور ایک مختصر سا حصہ اس کریم کے بتائے ہوئے افراد کو نہ دے تو واقعاً بہت ہی بُری بات ہوگی، اور اس کا دل پتھر کی طرح مانا جائے گا، ایسے موقع پر کریم کو حق ہے کہ اس سے منھ موڑلے اور اس کے برے اخلاق کی سزا دے، اور اس کو کسی بلا میں گرفتار کردے، اس کے بعد اس شخص نے کہا: کریم سے میری مراد خداوندکریم ہے کہ اس نے ہمیں آمادہ زمین عطا کی ہے، نہریں جاری کی ہیں ، چشموں کو پانی سے بھر دیا ہے، بارش برسائی ہے، سورج اور چاند کی روشنی ہمیں دی، ہمیں یہ سب چیزیں عطا کی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم مختلف فصلیں حاصل کرلیتے ہیں جو درحقیقت ہمیں مفت حاصل ہوئی ہیں، اس کے بعد ہم سے اپنے غریب بھائیوں کے لئے خمس و زکوٰة اور صدقہ دینے کا حکم دیا ہے، اگر ہم ان کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لیں، تو خداوندعالم کو حق ہے کہ وہ ہم پر اپنا غضب نازل کردے، اور ہمیں سخت سے سخت سزا میں مبتلا کردے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید فرماتا ہے:
( وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاہُمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَہُمْ بَلْ ہُوَ شَرّ لَہُمْ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلِلَّہِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیر)(١)
‘اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ہوئے میں مال میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے ۔یہ بہت برا ہے، اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا، اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی ملکیت ہے اور وہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ‘.
 
 

١٠۔نعمت ، زائل ہونے کے اسباب و علل

 

 

قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں (سورہ اسراء آیت ٨٣،سورہ قصص آیت ٧٦تا٧٩، سورہ فجرآیت ١٧ تا ٢٠، سورہ لیل آیت ٨تا١٠) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ درج ذیل چیزیں، نعمتوں کے زائل ہونے، فقر و فاقہ ، معاشی تنگ دستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب ہیں:
نعمت میں مست ہونا، غفلت کا شکار ہونا، نعمت عطا کرنے والے کو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلینا، احکام الٰہی سے مقابلہ کرنا اور خدا ، قرآن و نبوت اور امامت کے مقابل آجانا، چنانچہ اسی معنی کی طرف درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کرتی ہے:
( وَِذَا َنْعَمْنَا عَلَی الِْنسَانِ َعْرَضَ وَنََی بِجَانِبِہِ وَِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوسًا).(2)
اور ہم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پہلو بچاکر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے’.
نعمت پر مغرور ہونا، مال و دولت پر حد سے زیادہ خوش ہونا ، غریبوں اور مستحقوں کا حق نہ دے کر آخرت کی زادہ راہ سے بے خبر ہونا، نیکی اور احسان میں بخل سے کام لینا، نعمتوں کے ذریعہ شروفساد پھیلانا، اوریہ تصور کرنا کہ میں نے اپنی محنت ، زحمت اور ہوشیاری سے یہ مال و دولت حاصل کی ہے، لوگوں کے سامنے مال و دولت ، اور زر و زینت پر فخر کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام، یہ تمام باتیں سورہ قصص کی آیات ٧٦ تا ٨٣ میں بیان ہوئی ہیں۔
یتیموں کا خیال نہ رکھنا، محتاج لوگوں کے بارے میں بے توجہ ہونا، کمزور وارثوں کی میراث کو ہڑپ لینا، نیز مال و دولت کا بجاری بن جانا، یہ سب باتیں حسب ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں، ارشاد ہوتا ہے:
(کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ ٭وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینَ٭وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَمَّا٭وَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا).(3)
‘ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو،اور لوگوں کو مسکینوں کے طعام دینے پر آمادہ نہیں کرتے ہو،اور میراث کے مال کو اکھٹا کرکے حلال و حرام سب کھالیتے ہو، اور مال دنیا کو بہت دوست رکھتے ہو’۔
اسی طرح خمس و زکوٰة ،صدقہ اور راہ خدا میں انفاق کرنے میں بخل سے کام لینے یا تھوڑا سا مال و دولت حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کے مقابل میں بے نیازی کا ڈنکا بجانے اورروز قیامت کو جھٹلانے، کے بارے میں بھی درج آیت اشارہ کرتی ہے:
(وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنیٰ ٭وَکَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ٭فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْریٰ)(4)
‘اور جس نے بخل کیا اور لا پرواہی برتی اور نیکی کو جھٹلایا ہے ، ہم اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کردیں گے’۔
جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ہوجائے تو اس کو خداوندعالم اور اس کے بندوں کی بابت نیکی و احسان کرنے پر مزید توجہ کرنا چاہئے، خداوندعالم کی عطاکردہ نعمتوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت اور اس کے بندوں کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے، تاکہ اس کی نعمتیں باقی رہیںاور خداوندعالم کی طرف سے نعمت او رلطف و کرم میں اور اضافہ ہو۔
 
 

١١۔اتمام ِنعمت

 

 

تفسیر طبری، تفسیر ثعلبی، تفسیر واحدی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابو السعود، تفسیر فخر رازی، تفسیر ابن کثیر شامی، تفسیر نیشاپوری، تفسیر سیوطی اور آلوسی کی روایت کی بنا پر ،اسی طرح تاریخ بلاذری، تاریخ ابن قتیبہ، تاریخ ابن زولاق، تاریخ ابن عساکر، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن ابی الحدید، تاریخ ابن خلکان، تاریخ ابن حجر اور تاریخ ابن صباغ میں، نیز شافعی، احمد بن حنبل، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، دولابی، محب الدین طبری، ذہبی، متقی ہندی،ا بن حمزہ دمشقی اور تاج الدین مناوی نے اپنی اپنی کتب احادیث میں نیز قاضی ابو بکر باقلانی، قاضی عبد الرحمن ایجی، سید شریف جرجانی، بیضاوی، شمس الدین اصفہانی، تفتازانی اور قوشچی نے اپنی اپنی استدلالی کلامی کتب کی روایت کے مطابق (5) بیان کیا ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم ۖ ہدایت کے تداوم اور و دین کے تحفظ نیز دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے لئے خداوندعالم کے حکم سے امام و رہبر اور فکر و عقیدہ اور اخلاق و عمل میں گناہوں سے پاک شخصیت حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو ١٨ ذی الحجہ کو غدیر خم کے میدان میں اپنے بعد خلافت و ولایت اور امت کی رہبری کے لئے منصوب فرمایا، اس وقت خداوندعالم نے اکمال دین اور اتمام نعمت اور دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا کہ یہی دین قیامت تک باقی رہے گا، ارشاد ہوا:
(…الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِْسْلاَمَ دِینًا…)(6)
‘آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے’۔
جی ہاں، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت ،حکومت ،رہبری اوردین و دنیا کے امور میںآپ کی طاعت کرنا اکمال دین اور اتمام نعمت ہے۔
وضو سے حاصل ہونے والی پاکیزگی و طہارت کے سلسلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے : ‘وضو کا حکم اس لئے دیا گیا ہے اور عبادت کی ابتدا اس لئے قرار دی گئی ہے کہ جس وقت بندگان خدا اس کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور اس سے راز و نیاز کرتے ہیںتو اس وقت انھیں پاک ہونا چاہئے، اس کے حکم پر عمل کریں، اور گندگی اور نجاست سے دور رہیں، اس کے علاوہ وضو کے ذریعہ نیند او رتھکاوٹ بھی دور ہوجاتی ہے، نیز عبادت خدا اور اس کی بارگاہ میں قیام و عبادت سے دل کو روشنی اور صفا حاصل ہوتی ہے’۔(7)
 اسی طرح غسل و تیمم بھی موجب طہارت ہیں جن کے لئے خداوندعالم نے حکم دیا ہے، لہٰذا وضو، غسل اور تیمم اور نماز و عبادت کی حالت حاصل ہونے والے پر قرآن مجید کے مطابق اللہ کی نعمت اس پر تمام ہوجاتی ہے:
آخر میں طہارت اور نماز کے بارے میں بیان شدہ آیات پر غور و فکر کرتے ہیں:
(…مَا یُرِیدُ اﷲُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَکِنْ یُرِیدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ).(8)
‘…خدا تمہارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح سے اس کے شکر گزار بندے بن جائو’۔
اس قسم کی آیات سے نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خداوندعالم کی طرف سے انسان پر اتمام نعمت معنوی مسائل کو انجام دینے اور احکام الٰہی کے بجالانے ،صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔
 
 

١٢۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام

 

 

وہ مومنین و مومنات جن کے دل ایمان سے آراستہ اور نفس برائیوں سے پاک ہیں اور وہ اعمال صالحہ بجالانے والے، حق بات کہنے والے، اپنے مال سے جود و کرم اور سخاوت کرنے والے ، صدقہ دینے والے اور بندگان خدا کی مدد کرنے والوں والے ہیں ؛ان کے لئے اجر و ثواب اور رضوان و جنت اور ہمیشہ کے لئے عیش و آرام کا وعدہ دیا گیا ہے۔
قرآن مجید نے اپنی نورانی آیات میں یہ اعلان کردیا ہے کہ اہل ایمان کے اعمال کا اجر و ثواب ضائع نہیں کیا جائے گا۔
کتاب الٰہی بلند آواز میں یہ اعلان کرتی ہے کہ خداوندعالم کا وعدہ سچا اور حق ہے اور اس کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔
قرآن مجید، اہل ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے والے افراد یا یوں کہا جائے کہ قرآن نے مومنین، محسنین، مصلحین، متقین اورمجاہدین کے لئے کئی قسم کا اجر بیان کیا ہے:
اجر عظیم، اجر کبیر، اجر کریم، اجر غیر ممنون، اجر حسن۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
(وَعَدَ اﷲُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم).(9)
‘اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ‘۔
(…اِلاَّالَّذینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا لصّٰالِحاتِ اُولٰئِکَ لَھُمْ مَغْفِرَة وَاَجْر کَبیر).(10)
‘… وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے مغفرت ہے اور ‘اجر عظیم’ یعنی بڑا اجرہے’۔
(مَنْ ذَا الَّذی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ اَجْر کَریم ).(11)
‘کون ہے جو اللہ کو قرض الحسنہ دے تاکہ وہ اس کو دوگنا کردے اور اس کے لئے اجر کریم بھی ہو’۔
( ِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ َجْر غَیْرُ مَمْنُونٍ)(12)
‘بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے ‘اجر غیر ممنون’ ]منقطع نہ ہونے والا اجر[ ہے’۔
(…فَِنْ تُطِیعُوا یُؤْتِکُمْ اﷲُ َجْرًا حَسَنًا…).(13)
‘…تو اگر تم خدا کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں ‘اجر حسن’ یعنی بہترین اجر عنایت فرمائے گا…’۔
جی ہاں، اگر دل جیسی نعمت کو ایمان کے لئے بروئے کار لایا جائے، عقل جیسی نعمت سے حقائق کو سمجھنے کے لئے مدد لی جائے، اعضاء و جوارح جیسی نعمت کو اعمال صالحہ کے لئے استعمال کیا جائے، مال و دولت جیسی نعمت کو بندگان خدا کی مشکلات حل کرنے کے خرچ کیا جائے، المختصر یہ کہ اگر تمام نعمتوں سے عبادت خدا اور اس کے بندوں کی خدمت، ان کے ساتھ نیکی و احسان اور تقویٰ و عفت میں مدد لی جائے تو انسان کی دنیاوی سعادت کے علاوہ آخرت میں مذکورہ پانچ قسم کا اجر و ثواب عطا ہو گا، ظاہر ہے کہ ان خداداد نعمتوں کو صحیح راستہ میں خرچ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہر عورت ومرد اس کو انجام دے سکتا ہے، اور اگر انسان خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھائے تو پھر انسان اور خدا میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا، اور انسان قرب خدا کے وصال کی لذت سے محظوظ نظر آتا ہے۔
 کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول اکرم ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام، نعمتوں کی قدر پہچانتے ہوئے ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے سامنے سے تمام حجابات اٹھ گئے تھے یہاں تک کہ خداوندعالم اور ان کے درمیان کوئی پردہ نہیں تھا(سوائے اس کے یہ تمام بزرگوار بندگان خدا تھے)!
امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)کی طرف سے شیخ بزرگوار ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید (قدس) کو جو توقیع شریف حاصل ہوئی تھی اس میں ہم پڑھتے ہیں:
‘وَآیاتِکَ وَ مَقاماتِکَ الَّتی لا تَعْطیلَ لَھا فی کُلِّ مَکانٍ ، یَعْرِفُکَ بِھا مَنْ عَرَفَکَ ،لا فَرْقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَھا اِلاَّ اَنَّھُمْ عِبادُکَ وَ خَلْقُکَ:(14)
‘خداوندا! پیغمبرۖ اور ائمہ معصومین تیری نشانیاں ہیں کہ ان سے ہر مقام پر نشانیاں ظاہر ہوں گی، اگر کوئی تیری ذات کو پہچانتا ہے تو ان کے ذریعہ پہچانتا ہے، تیرے اور ان کے درمیان کوئی جدائی اور مبانیت نہیں ہے سوائے اس کے وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ہیں’۔
ہمیں اس مطلب پر غور کرنا چاہئے کہ نعمتیں خود سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب نہیں بن جاتیں، بلکہ ان کا غلط استعمال اور شیطانی کاموں میں خرچ کرنے سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب پیدا ہوجاتا ہے، اگر نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو یہ انسان کو مقام قرب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
انبیاء اور ائمہ علیہم السلام مختلف مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے تھے، وہ بھی اہل و عیال رکھتے تھے، اپنی روزی کو زراعت، تجارت اوربھیڑ بکریاں چراکر حاصل کرتے تھے حالانکہ ان ذوات مقدسہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں تھا۔
اگر انسان کے اندر عباد ت و اطاعت اور بندگی و تسلیم کا حوصلہ مضبوط ہوجائے اور اس کا دل نور معرفت سے روشن ہوجائے اورنفس نیکیوںسے بھرجائے،تو انسان بے شک دنیاوی زندگی اور اس کے تمام وسائل و اسباب اور دوسری نعمتوں کے ذریعہ معنوی مقامات تک پہنچ سکتا ہے،لیکن جو شخص خدا کی عبادت و اطاعت کا حوصلہ نہیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی نعمتوں سے صحیح فائدہ حاصل نہیں کررہا ہے، اور جب بھی اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس میںطغیان و سرکشی ،غرور ونخوت مزید پیدا ہوتا رہتا ہے۔
دعائے کمیل میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ دل جس میں توحید ]خدا[ موجود ہو، وہ دل جو معرفت کا مکان ہو، وہ زبان جس سے ذکر خدا ہو، جس کے باطن میں خدا کی محبت ہو، وہ باطن جو صادقانہ اعتراف اور خداوندعالم کی بارگاہ میں خاضع ہو، پیشانی خاک پر رکھی ہو، جس زبان سے خدا کا شکر اور اس کی توحید کا اقرار کیا ہو، جس دل سے خدا کی الوہیت کا اقرار کیا ہو، جن اعضاء و جوارح سے شوق و رغبت کے ساتھ مساجد کا رخ کیا ہو، کیا کل روز قیامت ان سب کو جہنم میں جلادیا جائے گا!!
جن نعمتوں کے ذریعہ عبادت خدا اور خدمت خلق کی گئی ہو،ان کے ذریعہ کل روز قیامت رضائے الٰہی اور خلد بریں کے دروزاے کھول دئے جائیں گے۔
قارئین کرام! آخر میں دو اہم حقائق کا خلاصہ کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کرتے ہیں:
١۔ مذکورہ تمام آیات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ‘عبادت، بندگی ،اطاعت اور خدمت ‘ نام ہے نعمت و نعمت عطا کرنے والے کی معرفت اور معین کردہ راستے میں اس کی نعمتوں کو استعمال کرنے کا۔
٢۔ ‘گناہ و معصیت، خطا و غلطی، شرک و کفر، فسق و فجور اور فحشا و منکر ‘ نام ہے نعمت عطا کرنے والے سے غفلت، نعمت پر غرور، ذات خدا سے بے رخی اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کو حرام اور و غیر اخلاقی کاموں میں خرچ کرنے کا۔
 
 

اقتباس از توبہ آغوش رحمت استاد انصاریان

 
حوالہ جات
(١)سورۂ آل عمران آیت١٨٠.
(2)سورۂ اسراء آیت٨٣.
(3)سورۂ فجر آیت ،١٧۔٢٠.             
(4)سورۂ لیل آیت ٨۔١٠.
(5)الغدیر ،ج١،ص٦۔٨.
 (6)سورۂ مائدہ آیت ،٣.
(7)عن الفضل بن شا ذان عن الرضا (علیہ السلام ) قال:انما امر بالوضوء و بدأ بہ لان یکون العبد طاہرا اذا قام بین یدی الجبار عند مناجاتہ ایاہ مطیعا لہ فیما امرہ نقیا من الادناس و الجناسة مع ما فیہ من ذھاب الکسل وطرد النعاس و تزکیة الفؤاد للقیام بین یدی الجبار…’.
عیون ا خبار الرضا ١٠٣٢،باب٣٤ ؛علل الشرائع ٢٥٦١،باب ١٨٢ ،حدیث ٩؛وسائل الشیعہ،ج٣٦٧١،باب ١، حدیث٩٦٨.
(8)سورۂ مائدہ آیت٦.
 (9)سورۂ مائدہ آیت٩.                            
(10)سورۂ ھود آیت١١.
(11)سورۂ حدید آیت١١.
(12)سورۂ فصلت آیت ٨.
(13)سورۂ فتح آیت ،١٦.
 
 

(14)مفاتیح ،ص٢٥٥،دعای ہر روزماہ رجب.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.