جوانوں کو امام علي (ع) کي وصيتيں
جوانوں کو امام علي عليہ السلام کي وصيتيں
اس مقالے کي سند نہج البلاغہ کا خط ۳۱ ہے۔ سيد رضي کے بقول صفين سے واپسي پر”حاضرين“ کے مقام پرحضرت نے يہ خط اپنے فرزند امام حسن بن علي عليہ السلام کے نام تحرير فرمايا۔ حضرت اس کے حکيمانہ کلام کا مخاطب امام حسن عليہ السلام کے توسط سے حقيقت کا متلاشي ہرجوان ہے۔ ہم يہاں فقط چند اہم بنيادي اصولوں کو بيان کريں گے۔
۱۔ تقوي اور پاک دامني
امام فرماتے ہيں :
”واعلم يابني ان اجب ماانت آخذبہ الي من وصيتي تقوي اللہ“۔
بيٹاجان لو کہ ميرے نزديک سب زيادہ محبوب چيزاس وصيت نامے ميں تقوي الہي ہے جس سے تم وابستہ رہو۔ مضبوط حصار(قلعہ)
جوانوں کے لئے تقوي کي اہميت اس وقت اجاگرہوتي ہے جب زمانہ جواني کے تمايلات،احساسات اور ترغيبات کو مدنظر رکھا جائے۔ وہ جوان جوغرائز، خواہشات نفساني، تخيلات اور تندوتيز احساسات کے طوفان سے دوچارہوتا ہے ايسے جوان کے لئے تقوي ايک نہايت مضبوط ومستحکم قلعے کي مانند ہے جو اسے دشمنوں کي تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتا ہے يا تقوي ايک ايسي ڈھال کي طرح ہے جوشياطين کے زہرآلود تيروں سے جسم کو محفوظ رکھتي ہے۔
امام فرماتے ہيں:
اعلمواعباد اللہ ان التقوي دارحصن عزيز.
ترجمہ : اے اللہ کے بندوجان لوکہ تقوي ناقابل شکست قلعہ ہے۔
شہيد مطہري فرماتے ہيں
”يہ خيال نہيں کرنا چاہئے کہ تقوي نماز و روزے کي طرح دين کے مختصات ميں سے ہے بلکہ يہ انسانيت کا لازمہ ہے انسان اگرچاہتا ہے کہ حيواني اورجنگل کي زندگي سے نجات حاصل کرے تو مجبور ہے کہ تقوي اختيارکرے“۔
جوان ہميشہ دوراہے پرہوتا ہے دومتضاد قوتيں اسے کھينچتي ہيں ايک طرف تو اس کا اخلاقي اورالہي وجدان ہے جو اسے نيکيوں کي طرف ترغيب دلاتا ہے دوسري طرف نفساني غريزے،نفس امارہ اورشيطاني وسوسے اسے خواہشات نفساني کي تکميل کي دعوت ديتے ہيں۔ عقل وشہوت ،نيکي و فساد،پاکي وآلودگي اس جنگ اورکشمکش ميں وہي جوان کامياب ہو سکتا ہے جو ايمان اورتقوي کے اسلحہ سے ليس ہو۔
يہي تقوي تھا کہ حضرت يوسف عزم صميم سے الہي امتحان ميں سربلند ہوئے اورپھرعزت وعظمت کي بلنديوں کو چھوا۔ قرآن کريم حضرت يوسف کي کاميابي کي کليد دواہم چيزوں کوقرارديتا ہے ايک تقوي اوردوسرا صبر۔
ارشاد ہے:
”انہ من يتق و يصبر فان اللہ لايضيع اجرالمحسنين“ يوسف۹۰۔
ترجمہ: جوکوئي تقوي اختيارکرے اورصبر(واستقامت) سے کام لے تواللہ تعالي نيک اعمال بجا لانے والوں کے لئے اجرکو ضائع نہيں فرماتا۔
ارادہ کي تقويت :
بہت سے جوان ارادے کي کمزوري اورفيصلہ نہ کرنے کي صلاحيت کي شکايت کرتے ہيں۔ کہتے ہيں : کہ ہم نے بري عادات کو ترک کرنے کا بارہا فيصلہ کيا ليکن کامياب نہيں ہوئے امام علي عليہ السلام کي نظرميں تقوي ارادے کي تقويت نفس پرتسلط ،بري عادات اورگناہوں کے ترک کرنے کا بنيادي عامل ہے آپ فرماتے ہيں ”آگاہ رہو کہ غلطياں اور گناہ اس سرکش گھوڑے کے مانند ہيں جس کي لگام ڈھيلي ہو اورگناہ گاراس پرسوار ہوں يہ انہيں جہنم کي گہرائيوں ميں سرنگوں کرے گا اورتقوي اس آرام دہ سواري کي مانند ہيں جس کي لگام ڈھيلي اور گناہ گاراس پرسوارہوں يہ انہيں جہنم کي گہرائيوں ميں سرنگوں کرے گا اور تقوي اس آرام دہ سواري کي مانند ہے جس کا مالک اس پر سوار ہے اس کي لگام ان کے ہاتھ ميں ہے اوريہ سواري اس کوبہشت کي طرف لے جائے گي“۔
متوجہ رہنا چاہئے کہ يہ کام ہونے والا ہے،ممکن ہے۔ جو لوگ اس وادي ميں قدم رکھتے ہيں اللہ تعالي کي عنايات اورالطاف ان کے شامل ہوجاتے ہيں جيسا کہ ارشاد ہے:
”والذين جاہدوافينالنھدينھم سبلنا“ عنکوبت۶۹۔
ترجمہ : اوروہ لوگ جوہماري راہ ميں جدوجہد کرتے ہيں ہم باليقين وبالضرور ان کو اپنے راستوں کي طرف ہدايت کريں گے۔