آیات برأة کی تبلیغ کا واقعہ

381

آیات برأة کی تبلیغ کا واقعہ

سورہ برأة کی تبلیغ کا واقعہ صحیح ترمذی، تفسیر طبری، خصائص نسائی، مستدرک علیٰ الصحیحین اور دیگر کتب میں انس بن مالک، ابن عباس، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر، ابوسعید خدری، عمر بن میمون، حضرت علی ابن بی طالب اور ابوبکر سے مروی ہے۔ یہاں ہم مسند احمد سے روایت نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اہل مکہ سے اظہار برائت کے لئے بھیجا (تاکہ یہ اعلان کیا جائے) کہ اس سال کے بعد سے کوئی مشرک حج نہ کر سکے گا اور نہ ہی ننگے بدن طواف بیت اللہ کی اجازت ہو گی۔ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور جن لوگوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ معاہدہ موقت ہے
ان لوگوں کے ساتھ مذکورہ مدت تک معاہدے کی پابندی کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین سے بیزار ہیں۔ حضرت ابوبکر اس آیت کے ساتھ سوئے مکہ روانہ ہوئے۔
اس کے تین دن بعد حضور(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:
جا کر ابوبکر کو واپس میرے پاس بھیج دیں اور یہ اعلان آپ خود کریں۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب ابوبکر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو روئے اور کہا:
اے اللہ کے رسول(ص)! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات نازل ہو گئی ہے؟
آپ(ص) نے فرمایا:
نہیں کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے حکم ہوا ہے کہ ان لا یبلغہ الا انا او رجل منی۔ اسے میں خود پہنچاؤں یا میرے اہل بیت(ع) کا کوئی شخص لے جائے۔
عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے:
لیکن مجھ (رسول) سے کہا گیا ہے: تیری طرف سے تبلیغ کو نہ جائے سوائے تیرے یا تیرے (گھر کے) ایک فرد کے۔
ابو سعید خدری کی روایت ہے:
قیل لی انہ لا یبلغ عنک الا انت او رجل منک۔ ۲
تیرا پیغام نہیں پہنچائے گا مگر تو خود یا تیرے گھر کا کوئی فرد۔
یہ واقعہ اور اس سے مربوط (آیات و روایات کے) الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان روایات نیز ان جیسی دیگر روایات میں مذکور تبلیغ سے مراد ان احکام کی تبلیغ ہے جن کو لوگوں تک پہنچانے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول(ص) کو شروع شروع میں حکم دیا۔ اس قسم کے احکام کو میرا حبیب(ص) خود یا ان کی اہل بیت سے کوئی شخص پہنچا سکتا ہے۔ اس تبلیغ کے مقابلے میں تبلیغ کی وہ قسم ہے جسے وہ لوگ جو شریعت کی طرف سے ان احکام کے پابند ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان احکام سے آگاہی کے بعد انجام دیتے ہیں۔ اس وقت وہ دوسروں کے لئے ان چیزوں کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی تبلیغ کا جواز اور اس کا بہتر ہونا ہر جگہ اور سب کے ہاں جانی پہچانی چیز ہے۔ حکم شریعت سے آگاہ ہونے کے بعد کی جانے والی اس تبلیغ کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جاری و ساری رہے گا۔ واضح ہو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا: لا یبلغ عنی غیری او رجل منی۔ پیغام صرف میں پہنچاؤں گا یا ایسا آدمی جو مجھ سے ہو تو اس سے آپ کی مراد پہلی قسم کی تبلیغ تھی۔
مذکورہ بالا احادیث میں لفظ ” منی“ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کی تشریخ و تفسیر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ”حدیث منزلت“ سے بھی ہوتی ہے جس کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔
نبی(ص) سے علی(ع) کی نسبت وہی ہے جو موسیٰ سے ہارون کی ہے۔
صحیح بخاری، مسلم، مسند طیالسی، مسند احمد، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب میں حدیث منقول ہے۔ وہ حدیث بخاری کے الفاظ میں یوں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:
انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لیس نبی بعدی آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے حاصل تھی ہاں بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
مسلم وغیرہ کے الفاظ یہ ہیں:
الا انہ لا نبی بعدی۔
طبقات ابن سعد میں حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ جب غزوہ جیش العسرة یعنی جنگ تبوک پیش آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا:
لازم ہے کہ میں ٹھہر جاؤں یا آپ ٹھہر جائیں۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ کے لئے چلے تو کچھ لوگوں نے کہا:
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی(ع) کو کسی ناپسندیدہ بات کے سبب چھوڑا ہے۔
اس کی خبر علی(ع) کو مل گئی۔ چنانچہ وہ آنحضرت (ص)کے پیچھے چلے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) سے ملاقات ہو گئی۔ آپ نے فرمایا:
اے علی کیوں آئے؟
حضرت علی(ع) نے کہا:
میرے آنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے مجھے کسی ناپسندیدہ بات کی بنا پر چھوڑا ہے۔
یہ سن کر آپ ہنس پڑے اور فرمایا:
اے علی(ع) کیا آپ کو منظور نہیں کہ آپ کی نسبت مجھ سے وہی ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی؟ ہاں آپ نبی نہیں ہیں۔
حضرت علی(ع) نے عرض کیا:
کیوں نہیں اے اللہ کے رسول(ص)۔ پس بات یہی ہے۔ ۳
اس حدیث کے بعض الفاظ جنگوں کے دوران مدینہ میں رسول اللہ (ص) کی طرف سے جانشین بنائے جانے والوں کے تذکرے میں گزر چکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو متعدد موقعوں پر بیان فرمایا ہے۔
احادیث رسول (ص) میں منّی سے کیا مراد ہے؟
متواتر حدیث انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ میں مذکور لفظ ”منی“ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر احادیث میں بھی اس لفظ کے مفہوم و مقصود کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب حضرت ہارون نبوت میں موسیٰ کے شریک تھے اور موسیٰ علیہ السلام کے وزیر بھی تھے۔ ادھر حضرت علی(ع) کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت حاصل تھی جو ہارون(ع) کو موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ علی(ع) نبی نہ تھے تو پھر حضرت علی(ع) کے لئے امر تبلیغ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وزارت باقی رہ جاتی ہے۔ بنابرایں آپ (ص) نے ان احادیث میں لفظ ”منی“ کے ذریعے مکمل طور پر اس بات کو واضح اور روشن کر دیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں تک دینی تعلیمات کو پہنچانے کے سلسلے میں حضرت علی (ع) کا رسول (ص) کے ساتھ شریک ہونا ہے۔ یہیں سے دیگر احادیث میں بھی حضرت علی(ع) کے حق میں بغیر وضاحت کے استعمال شدہ اس لفظ کا مقصود واضح ہو جاتا ہے مثال کے طور پر حضرت بریدہ سے مروی شکایت والی حدیث جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا۔ اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بریدہ سے فرمایا:
لاتقع فی علی فانہ منی
علی (ع) کی برائی مت کرو کیونکہ وہ مجھ سے ہے۔
نیز عمران بن حصین کی روایت میں بھی فرمایا:
ان علیاً منی۔
علی (ع) مجھ سے ہے۔
ان تمام روایات میں حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی(ع) اور آپ کی نسل کے گیارہ امام لوگوں کے لئے براہ راست تبلیغ دین کی سنگین ذمہ داری سنبھالنے کے معاملے میں رسول(ص) کے شریک ہیں نیز ان کی ذمہ داری وہی رسول (ص) والی ذمہ داری ہے۔ بنابرایں وہ سب رسول (ص) سے ہیں اور رسول (ص) ان سے ہیں نیز تبلیغ کے کام میں وہ ایک جیسے ہیں۔ البتہ فرق اس بات میں ہے کہ رسول (ص) وحی کے ذریعے احکام کو اللہ تعالیٰ سے لے کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور ائمہ اہل بیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ بنابرایں یہ ہستیاں امت کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبلغ ہیں۔ اللہ اور رسول(ص) نے تبلیغ کی سنگین ذمہ داریان سنبھالنے کے لئے انہیں خصوصی طور پر تیار کیا ہے اور وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی پلیدی و برائی سے محفوظ قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح پاک کیا ہے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت تطہیر میں اس کی خبر دی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر ہونے والی وحی کے اسرار و رموز سے حضرت علی(ع) کو خصوصی طور پر آگاہ کیا ہے۔ اس کے بعد یہ علوم حضرت علی مرتضیٰ(ع) سے باقی ائمہ کی طرف یکے بعد دیگرے منتقل ہوتے چلے گئے جیسا کہ درج ہونے والی روایات میں اس نکتے کو واضح طورپر بیان کیا گیا ہے۔

۱ سورہ نجم آیت۳۔ ۴
۲ مسند احمد ج۱ صفحہ ۳ حدیث ۴، کنز العمال تفسیر سورة برأة ج۲ صفحہ ۲۶۷، ۲۷۰، ذخائر العقبیٰ صفحہ ۶۹، مستدرک حاکم ج۳ صفحہ ۵۱
۳ طبقات ابن سعد صفحہ ۱۵، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۱۱

اقتباس از دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ۔ حصہ اول

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.