رشتہ د اروں سے نیکی کرنا

287

رشتہ د اروں سے نیکی کرنا

 
 

 

 
 
 

رشتہ داروں سے مراد ماں باپ کے حسبی اور نسبی رشتہ دار مراد ہیں۔

 
 

 

 
 
 

انسان کا چچا، ماموں، پھوپھی، خالہ، اولاد، داماد ،بہو اور اولاد کی اولاد رشتہ دار کہلاتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

بھائی ، بہن،بھتیجے، بھانجے، داماد اور بہوویں اور ہر وہ شخص جو نسبی یا سببی رشتہ رکھتا ہو انسان کے رشتہ دار حساب ہوتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

ان کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی یہ ہے کہ ان سے ملاقات کرے، ان کی مشکلات کو دور کرے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرے۔

 
 

 

 
 
 

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کرنا خداوندعالم کا حکم اور ایک اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے، جس کا اجر ثواب عظیم اور اس کا ترک کرنا عذاب الیم کا باعث ہے۔

 
 

 

 
 
 

قرآن مجید نے پیمان شکنی، قطع تعلق اور زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے کو خسارہ اور گھاٹااٹھانے والوں میں شمار کیا ہے:

 
 

 

 
 
 

(الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اﷲِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا َمَرَ اﷲُ بِہِ َنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الَْرْضِ ُوْلَئِکَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ).(١)

 
 

 

 
 
 

‘جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑ نے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً خسارہ والے ہیں’۔

 
 

 

 
 
 

رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ایک غیر شرعی عمل ہے اگرچہ انھوںنے کسی کو رنجیدہ خاطر بھی کیا ہو۔

 
 

 

 
 
 

رشتہ داروں کے یہاں آمد و رفت،ایک خداپسند عمل اور اخلاق حسنہ کی نشانی ہے۔

 
 

 

اگر چہ انسان کے بعض رشتہ دار دین و دینداری سے دور ہوں اور حق و حقیقت کے مخالف ہوں لیکن اگر ان کی ہدایت کی امید ہو تو ان کی نجات کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے لئے ان کے یہاں رفت و آمد کرنا چاہئے۔
 
 
 

صلہ رحم کے سلسلہ میں بہت سی اہم روایات رسول خدا ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بیان ہوئیں ہیں جن کے حکیمانہ مطالب پر توجہ کرنا ہر مومن پر لازم و واجب ہے۔

 
 

 

 
 
 

حضرت رسول خدا ۖ سے بہت سی اہم روایات صلہ رحم کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جو واقعاً بہت ہی اہم ہیں:

 
 

 

‘اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیْرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ’۔(۲)
 
 
 

‘بے شک ثواب کی طرف تیزی سے جانے والا کار خیر صلہ رحم ہے’۔

 
 

 

 
 
 

‘صِلَةُ الرَّحِمِ تُھَوِّنُ الْحِسابَ، وَتَقی میتَةَ السُّوئِ’۔(۳)

 
 

 

 
 
 

‘صلہ رحم کے ذریعہ روز قیامت میں انسان کا حساب آسان ہوجاتا ہے، اور بُری موت سے محفوظ رہتا ہے’۔

 
 

 

 
 
 

‘صِلُوا اَرْحَامَکُمْ فِی الدُّنْیا وَلَوْ بِسَلامٍ’۔(۴)

 
 

 

 
 
 

‘دنیا میں صلہ رحم کی رعایت کرو اگرچہ ایک سلام ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو’۔

 
 

 

 
 
 

‘صِلْ مَنْ قَطَعَکَ ،وَاَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَسائَ اِلَیْکَ ،وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْعَلیٰ نَفْسِکَ’۔(۵)

 
 

 

 
 
 

‘جن رشتہ داروں نے تجھ سے قطع تعلق کیا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کرو، اور جس نے تمہارے ساتھ بدی کی ہے اس کے ساتھ نیکی کرو، نیز ہمیشہ سچ بات کہو چاہے تمہارے نقصان میں تمام ہو’۔

 
 

 

 
 
 

‘اِنَّ الرَّجُلَ لَیَصِلُ رَحِمَہُ وَقَدْ بَقِیَ مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُ سِنینَ فَیُصَیِّرُھَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثینَ سَنَةً، وَیَقْطَعُھا وَقَدْ بَقِیَ مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُونَ سَنَةً فَیُصَیِّرُھَا اللّٰہُ ثَلاثَ سِنینَ (۶)ثُمَّ تَلا:(یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ ُمُّ الْکِتَابِ).(۷)

 
 

 

 
 
 

‘بے شک جب انسان صلہ رحم کرتا ہے تو اگرچہ اس کی عمر کے تین سال باقی رہ گئے ہوں تو خداوندعالم اس کی عمر تیس سال بڑھادیتا ہے، اور جو شخص رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے اگرچہ اس کی عمر تیس سال باقی رہ گئی ہو توبھی خداوندعالم اس کی عمر تین سال کردیتا ہے، اس کے بعد ]امام علیہ السلام نے[ مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کی: (خداوندعالم جس چیز کو چاہے مٹادے اور جس چیز کو چاہے لکھ دے)’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

 
 

 

 
 
 

‘وَأَکْرِمْ عَشِیرَتَکَ فَاِنَّھُمْ جَناحُکَ الَّذِی بِہِ تطیر،وَاَصْلُکَ الَّذِی اِلَیْہِ تَصیرُ ،وَیَدُکَ الَّذِی بِھا تَصولُ’۔(۸)

 
 

 

 
 
 

‘اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لطف و کرم کرو، وہ تمہارے بال و پر ہیں جن کے ذریعہ تم پرواز کرسکتے ہو، اور وہی تمہاری اصل ہیں کہ ان کی طرف پلٹ جانا ہے، نیز تمہاری طاقت ہیں کہ انھیں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر حملہ کرسکتے ہو’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں: جناب موسیٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:

 
 

 

 
 
 

‘فَما جَزائُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَہُ قَالَ:یا مُوسیٰ اُنْسِی ئُ لَہُ اَجَلَہُ ، وَاُھَوِّنَ عَلَیْہِ سَکَراتِ الْمَوْتِ’۔(۹)

 
 

 

 
 
 

‘خداوندا! صلہ رحم کرنے والے کی جزا کیا ہے؟ جواب آیا: اس کی موت دیر سے بھیجوں گا، اور اس کے لئے موت کی سختیوں کو آسان کردوں گا’۔

 
 

 

یتیموں پر احسان
 
 
 

قرآن مجید نے تقریباً ١٨ مقامات پر یتیم سے محبت اور اس کے مال کی حفاظت اور اس کی تربیت و ترقی کی سفارش کی ہے۔

 
 

 

 
 
 

(… وَیَسَْلُونَکَ عَنْ الْیَتَامَی قُلْ ِصْلاَح لَہُمْ خَیْر وَِنْ تُخَالِطُوہُمْ فَِخْوَانُکُمْ وَاﷲُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَائَ اﷲُ لََعْنَتَکُمْ ِنَّ اﷲَ عَزِیز حَکِیم).(۱۰)

 
 

 

 
 
 

‘اور یہ لوگ تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دوکہ ان کے حال کی اصلاح بہترین بات ہے اور اگر ان سے مل جل کر رہو تو یہ بھی تمہارے بھائی ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ مصلح کون ہے اور مفسد کون ہے اگر وہ چاہتا تو تمہیں مصیبت میں ڈال دیتا لیکن وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے’۔

 
 

 

 
 
 

(وَآتُوا الْیَتَامَی َمْوَالَہُمْ وَلاَتَتَبَدَّلُوا الْخَبِیثَ بِالطَّیِّبِ وَلاَتَْکُلُوا َمْوَالَہُمْ ِلَی َمْوَالِکُمْ ِنَّہُ کَانَ حُوبًا کَبِیرًا).(١۱)

 
 

 

 
 
 

‘اور یتیموں کو ان کامال دیدو اور ان کے مال کو اپنے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاؤ کہ یہ گناہ کبیرہ ہے’۔

 
 

 

 
 
 

(ِنَّ الَّذِینَ یَْکُلُونَ َمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا ِنَّمَا یَْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا).(۱۲)

 
 

 

 
 
 

‘جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنم ہوں گے’۔

 
 

 

 
 
 

(…وََنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَِنَّ اﷲَ کَانَ بِہِ عَلِیمًا).(۱۳)

 
 

 

 
 
 

‘…اور ان کمزور بچوں کے بارے میں انصاف کے ساتھ قیام کرو اور جو بھی تم کا ر خیر کروگے خدا س کا بخوبی جاننے والا ہے’۔

 
 

 

 
 
 

(وَلاَتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ ِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ َحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ َشُدَّہُ…).(۱۴)

 
 

 

 
 
 

‘اور خبردار مال یتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو یہاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں…’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت رسول خدا ۖ سے فرماتے ہیں:

 
 

 

 
 
 

‘مَنْ قَبَضَ یَتیماً مِنْ بَیْنِ الْمُسْلِمینَ اِلیٰ طَعامِہِ وَشَرابِہِ ،اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّةَ اَلْبَتَّةَ اِلا اَنْ یَعْمَلَ ذَنْباً لَا یَغْفَرُ’۔(۱۵)

 
 

 

 
 
 

‘جو شخص کسی مسلمان یتیم بچہ کی پرورش اور خرچ کی ذمہ داری لے لے تو یقینا خداوندعالم اس پر جنت واجب کردیتا ہے، مگر یہ کہ غیر قابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوجائے’۔

 
 

 

 
 
 

نیز آنحضرت ۖ کا فرمان ہے:

 
 

 

 
 
 

‘اِنَّ فِی الْجَنَّةِ داراً یُقالُ لَھا دارُ الْفَرَحِ ،لَا یدْخُلُھا اِلاَّ مَنْ فَرَّحَ یَتامَی الْمُؤمِنینَ’۔(۱۶)

 
 

 

 
 
 

‘بے شک جنت میں ایک مکان ہے جس کو ‘دار الفرح’ ]یعنی خوشیوں کا گھر[ کہا جاتا ہے، اس میں صرف وہی مومن داخل ہوسکتے ہیں جنھوں نے یتیم مومن بچوں کو خوشحال کیا ہو’۔

 
 

 

 
 
 

‘اَتَی النَّبِیَ رَجُل یَشْکُو قَسْوَةَ قَلْبِہِ ،قالَ:اَتُحِبُّ اَنْ یَلینَ قَلْبُکَ وَتُدْرِکَ حاجَتَکَ؟اِرْحَمِ الْیَتیمَ ، وَامْسَحْ رَأْسَہُ،وَاَطْعِمْہُ مِنْ طَعامِکَ،یَلِنْ قَلْبُکَ ،وَتُدْرِکَ حاجَتَکَ’۔(۱۷)

 
 

 

 
 
 

‘ایک شخص پیغمبر اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اپنی سنگدلی کی شکایت کی، آنحضرت ۖ نے فرمایا: اگرتم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے، اور اپنی مراد حاصل کرلو؟ تم یتیم بچوں پر مہربانی کرو، ان کے سرپر دست شفقت پھیرو، ان کو کھانا کھلائو، تو تمہارا دل نرم ہوجائے گااور تمہیں تمہاری مرادیں مل جائیں گی’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

 
 

 

 
 
 

‘مامِنْ مُؤمِنٍ وَلَا مُؤمِنَةٍ یَضَعُ یَدَہُ عَلیٰ رَأْسِ یَتیمٍ تَرَحُّماً لَہُ اِلّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مَرَّتْ یَدُہُ عَلَیْھَا حَسَنَةً’۔(۱۸)

 
 

 

 
 
 

‘جب کوئی مومن کسی یتیم کے سر پر دست نوازش پھیرتا ہے تو خداوندعالم اس کے ہاتھ کے نیچے گزرنے والے ہر بال کے بدلہ نیکی اور حسنہ لکھ دیتا ہے’۔

 
 

 

 
 
 

مسکینوں پر احسان کرنا

 
 

 

 
 
 

مسکین یعنی وہ شخص جو زمین گیراورلاچار ہوگیا ہو، اور تہی دستی اور غربت کا شکار ہوگیا ہو، جس کے لئے درآمد کا کا کوئی طریقہ باقی نہ رہ گیا ہو۔

 
 

 

 
 
 

ہر مومن پر خدا کی طرف سے ذمہ داری اور وظیفہ ہے کہ اپنے مال سے اس کی مدد کرے، اور اس کی عزت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کی مشکلات کو دور کرنے کوشش کرے۔

 
 

 

 
 
 

قرآن مجید نے مساکین پر توجہ کو واجب قرار دیا ہے، اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کو عبادت خدا شمار کیا ہے، کیونکہ خداوندعالم مساکین پر خاص توجہ، اور ان کے چین و سکون کا راستہ ہموار کئے جانے کو پسند کرتا ہے۔

 
 

 

 
 
 

مساکین کی نسبت لاپرواہی کرنا بہت بُرا ہے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق روز قیامت ایسا شخص عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا۔

 
 

 

 
 
 

(وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلاَتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا).(۱۹)

 
 

 

 
 
 

‘اور دیکھو قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کاحق دیدو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا’۔

 
 

 

 
 
 

(… وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ…).(۲۰)

 
 

 

 
 
 

‘…اور محبت خدا میں قرابتداروں ،یتیموں ،مسکینوں ،غربت زدہ مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے…’۔

 
 

 

 
 
 

(ِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اﷲِ وَاِبْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِنْ اﷲِ وَاﷲُ عَلِیم حَکِیم).(۲۱)

 
 

 

 
 
 

‘صدقات و خیرات بس فقراء ،مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے راہ خدا میں اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والاہے اور صاحب   حکمت ہے’۔

 
 

 

 
 
 

مساکین کی نسبت بے توجہی اور ان کی مدد نہ کرنا نہ صرف یہ کہ آخرت کے عذاب کا باعث ہے بلکہ انسان کی زندگی میں بھی اس کے برے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

خداوندعالم نے سورہ ‘ن و القلم’ آیات ١٧ تا ٣٣ میں ان بھائیوں کی داستان کو بیان کیا ہے جن کو باپ کی میراث میں ایک بہت بڑا اور پھل دار باغ ملا، لیکن انھوں نے اپنے باپ کے برخلاف عمل کیا ان کا باپ غریب غرباء کا بہت خیال رکھتا تھا،انھوں نے باپ کی میراث ملتے ہی ایک میٹنگ کی اور یہ طے کیا کہ کل صبح جب باغ کے پھلوں کو اتارا جائے گا تو کسی بھی غریب و مسکین کی مدد نہیں کی جائے گی، اور باغ کے دروازہ کو بند کردیا جائے تاکہ کوئی غریب و مسکین آنے نہ پائے، لیکن ان کی اس شیطانی و پلید فکرکی وجہ سے بحکم خدا اسی رات بجلی گری اور پھلوں سے لدے ہوئے تمام باغ کو جلا ڈالا، اور اس سرسبز علاقے میں اس باغ کی ایک مٹھی راکھ کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا۔

 
 

 

 
 
 

جیسے ہی وہ لوگ صبح صبح اپنے منصوبہ کے مطابق پھل اتارنے کے لئے باغ میں پہنچے تو باغ کی یہ عجیب و غریب حالت دیکھی تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے، اور فریاد بلند کی کہ افسوس !!ہمارے اوپر کہ ہم نے احکام الٰہی اور اس کے حدود سے تجاوز کیا اور اہل طغیان و تجاوز ہوگئے۔

 
 

 

 
 
 

قرآن مجید مشکلات نازل ہونے اورفقر و تنگدستی میں مبتلا ہونے کا باعث مساکین کی مدد نہ کرنے کو بیان کرتا ہے:

 
 

 

 
 
 

(وَأَمَّا اِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّی أَھَانَنِ ٭ کَلَّابَلْ لَا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ٭وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَیٰ طَعَامِ الْمِسْکِینِ٭ وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّماً وَتُحِبُّونَ الّمَالَ حُبًّا جَمّاً).(۲۲)

 
 

 

 
 
 

‘اورجب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا توکہنے لگا کہ میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے.ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو.اور لوگوں کو مسکینوں کوکھانا کھانے پر آمادہ نہیں کرتے ہو اور میراث کے مال کو اکٹھا کر کے حلال وحرام سب کھاجاتے ہو.اور مال دنیا کو بہت دوست رکھتے ہو’۔ 

 
 

 

 
 
 

قرآن مجید نے سورہ الحاقہ میں ایک گروہ کے لئے بہت سخت عذاب کے بارے میں بیان کیاہے جن کے عذاب کے دو سبب بیان کئے ہیں:

 
 

 

 
 
 

١۔ خدا پر ایمان نہ رکھنا۔

 
 

 

 
 
 

 ٢۔ مساکین کو کھانے کھلانے میںرغبت نہ رکھنا۔

 
 

 

 
 
 

آیات کا ترجمہ اس طرح ہے:

 
 

 

 
 
 

‘لیکن جس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: ‘اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ہوتا۔ اے کاش اس موت ہی نے میرا فیصلہ کردیا ہوتا۔میرا مال بھی میرے کام نہ آیا۔ اور میری حکومت بھی برباد ہوگئی’۔ اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اور لوگوں کو مسکینوں کے کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا۔تو آج اس کا یہاں کوئی غمخوار نہیں ہے۔ اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے۔ جسے گناہگاروں کے علاوہ کوئی نہیں کھاسکتا’۔(۲۳)

 
 

 

 
 
 

قارئین کرام! واقعاً غرباء اورمساکین کی طرف توجہ کرنا اتنااہم ہے کہ جس سے غفلت کرنے والا خداوندعالم کی نظر میں قابل نفرت ہے اور روز قیامت سخت ترین عذاب کا حقدار ہوگا۔

 
 

 

 
 
 

جناب جبرئیل سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا:

 
 

 

 
 
 

‘اَنا مِنَ الدُّنْیا اُحِبُّ ثَلاثَةَ اَشْیائَ:اِرْشادَ الضّالِّ وَاِعانَةَ الْمَظْلومِ وَمَحَبَّةَ الْمَساکِینِ’۔(۲۴)

 
 

 

 
 
 

‘میں دنیا کی تین چیزوں کو دوست رکھتا ہوں: راستہ بھٹکے ہوئے کی راہنمائی، مظلوم کی مدد اور مساکین کے ساتھ محبت’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 
 

 

 
 
 

‘فَمَنْ واسا ھُمْ بِحَواشِی مالِہِ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ جِنانَہُ وَاَنالَہُ غُفْرانْہُ وْرِضْوانَہُ…(۲۵)

 
 

 

 
 
 

‘جو شخص اپنے پاس جمع ہوئے مال سے مساکین کی مدد اور ان کی پریشانیوں کودور کرے،تو خداوندعالم اس کے لئے جنت کو وسیع فرمادیتا ہے اور اس کو اپنی رحمت و مغفرت میں داخل کرلیتا ہے’۔

 
 

 

 
 
 

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 
 

 

 
 
 

‘جو شخص کسی مومن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو روز قیامت اس کی جزاکو کوئی نہیں جان سکتا، نہ مقرب فرشتے اور نہ پیغمبر مرسل ، سوائے خداوندعالم کے ، کہ صرف وہی اس شخص کے اجر کے بارے میں آگاہ ہے’۔

 
 

 

 
 
 

کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا باعث مغفرت و بخشش ہے اور اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی(۲۶):

 
 

 

 
 
 

(اَوْ اِطْعَام فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَةٍ٭یَتِیماً ذَا مَقْرَبَةٍ٭اَوْ مِسْکِیناً ذَامَتْرَبَةٍ).(۲۷)

 
 

 

 
 
 

‘یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا .کسی قرابتدار یتیم کو.یا خاکسار مسکین کو’۔         

 
 

 

حوالہ جات
 
 
 

(١)سورۂ بقرہ آیت ٢٧.

 
 

 

 
 
 

(۲)کافی ج٢،ص١٥٢،باب صلة الرحم ،حدیث ١٥؛بحار الانوارج٧١،ص١٢١،باب٣،حدیث ٨٣.

 
 

 

 
 
 

(۳)امالی طوسی ص٤٨٠،مجلس ١٧،حدیث ١٠٤٩؛بحار الانوار ج٧١،ص٩٤،باب٣،حدیث٢١.

 
 

 

 
 
 

(۴)نوادر راوندی ص٦؛بحار الانوار ج٧١،ص١٠٤،باب٣،حدیث٦٢.٣

 
 

 

 
 
 

(۵)کنز الفوائد ج٢،ص٣١،فصل من عیون الحکم ؛بحار الانوار ج٧٤،ص١٧٣،باب٧،حدیث٧.

 
 

 

 
 
 

(۶)امالی طوسی ص٤٨٠،مجلس ١٧ ،حدیث ١٠٤٩؛بحار الانوار ج٧١،ص٩٣،باب٣،حدیث٢١.

 
 

 

 
 
 

(۷)سورۂ رعد آیت ٣٩.

 
 

 

 
 
 

(۸)نہج البلاغہ ص٦٤٢،نامہ ٣١،فی الرأی فی المرأة ؛بحار الانوار ج٧١،ص١٠٥،باب٣،حدیث٦٧.

 
 

 

 
 
 

(۹)امالی صدوق ص٢٠٧،مجلس ٣٧ ،حدیث ٨؛بحار الانوار ج٦٦،ص٣٨٣،باب٣٨،حدیث٤٦.

 
 

 

 
 
 

(۱۰)سورہ٧ بقرہ آیت٢٢٠.

 
 

 

 
 
 

(۱۱)سورۂ نساء آیت ٢.                          

 
 

 

 
 
 

(۱۲)سورۂ نساء آیت ١٠.

 
 

 

 
 
 

(۱۳)سورۂ نساء آیت ١٢٧.

 
 

 

 
 
 

(۱۴)سورۂ انعام آیت ١٥٢.

 
 

 

 
 
 

(۱۵)الترغیب ج٣،ص٣٤٧.

 
 

 

 
 
 

(۱۶)کنزالعمال ص٦٠٠٨؛تفسیر معین ص١٢،

 
 

 

 
 
 

(۱۷)الترغیب ج٣،ص٣٤٩.

 
 

 

 
 
 

(۱۸)ثواب الاعمال ص١٩٩،ثواب من مسح یدہ علی رأس یتیم؛بحار الانوار ج٧٢، ص٤، باب٣١، حدیث٩.

 
 

 

 
 
 

(۱۹)سورۂ اسراء آیت ٢٦.

 
 

 

 
 
 

(۲۰)سورۂ بقرہ آیت ١٧٧.

 
 

 

 
 
 

(۲۱)سورۂ توبہ آیت ٦٠.

 
 

 

 
 
 

(۲۲)سورۂ فجر آیت ١٦تا ٢٠.

 
 

 

 
 
 

(۲۳)سورۂ حاقہ آیت ٢٥تا ٣٧.                  

 
 

 

 
 
 

(۲۴)مواعظ العددیہ ص١٤٧.

 
 

 

 
 
 

(۲۵)تفسیر امام حسن عسکری ص٣٤٥،حدیث ٢٢٦؛تفسیر صافی ج١،ص١٥١،ذیل سورۂ بقرہ آیت ٨٣ ؛بحار الانوار ج٦٦، ص٣٤٤، باب٣٨.

 
 

 

 
 
 

(۲۶)کافی ج٢،ص٢٠١،باب اطعام المؤمن ،حدیث ٦؛وسائل الشیعہ ج٢٤،ص٣٠٩،باب ٣٢،حدیث٣٠٦٢٧.

 
 

 

 
 
 

(۲۷)سورۂ بلد آیت ١٤۔١٦.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.