عقیدہ مہدویت اور متعرضین کا اعتراض

142

عقیدہ مہدویت اور متعرضین کا اعتراض

جس طرح منکرین عقیدہ مہدویت نے شیعوں کے عقیدہ مہدویت پر اعتراض کئے ہیں اسی طرح اس عقیدے کے ظاہرا معتقد اہل سنت لوگوں نے بھی حضرت امام مہدی(عج) سے متعلق شیعوں کے تصور کو مورد حملہ قرار دیا ہے ، قارئین محترم کی اطلاع کے لئے ہم یہاں پر دو مصنفین کے اقوال پیش کرتے ہیں ۔

۱۔مصر کے منصف ، سعد محمدحسن، ” المہدیہ فی الاسلام “ میں اس عنوان [عقیدہ مہدویت کے آثار جوامع اسلامی پر] کے تحت لکھتے ہیں ” شیعوں کا عقیدہ مہدی(ع) قرون وسطی (ہجری) میں دوسرے فرق اسلامی میں بھی سرایت کرگیا ، انہوں نے دیکھا جب شیعوں کا ” مہدی(ع)“ ہے توہمارا کیوں نہیں ؟ اسی لئے قبائلی تعصب کی بنیاد پر ہر قوم نے اپنے لئے ایک ” مہدی“بنالیا مثال کے طور پر ، اہل یمن کا ” مہدی“ قحطانی ہے ،مصر والے” تمیمی“ کو ” مہدی“ سمجھتے ہیں ، پھر بنی امیہ کا ”مہدی“کیوں نہ ہو ، انہوں نے ”سفیانی “کو مہدی بنالیا ، عباسیوں نے بھی روایت جعل کی اور مہدی عباسی کو ” مہدی“ بنالیا ، جب کہ خود ” مہدی عباسی“کے باب ” منصور “ نے اس کا انکار کیا، دیگر اہل سنت کے مہدی محمد بن عبداللہ جو آخری زمانے میں پیدا ہوں گے۔

اسی طرح شیعوں کے پندرہ (۱۵) فرقے ہیں ہرایک کا ” مہدی“ الگ الگ ہے ، ان میں شیعہ اثنی عشریہ جو علی بن ابی طالب (ع) کی اولاد میں سے بارہویں شخص کو” مہدی“ سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ گیارہویں امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام عسکری(ع) کی کوئی اولاد نہ تھی یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ سوڈان میں ” محمد بن احمد“ نے مہدی کے نام پر قیام کیا اورایک حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا، ایران میں ” علی محمدباب“ اور ”محمد حسین بہاء“نے مہدویت کا دعویٰ کیا، پھر ہندوستان کیوں ” مہدی“ سے خالی رہے چنانچہ وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے جناب ” احمد اربلی“ متوفی ۱۷۸۶ءنے ” مہدویت “ کا اعلان کیا اوربہت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا اس طرح ” عقیدہ مہدویت“ کے سایہ میں برصغیر [ پاک وہند] میں وہابیت کی ترویج ہویی ، وہ لکھتے ہیں ” واعتنق ارائة الوہابیة الآف مسلمین وبویع لہ فی کل مکان علی انّہ ” مہدی المنتظر“ وقد عمل ہذا المہدی[ سید احمد باربلی] خلال الرّبع الاول من القرن التاسع عشر علی نشر المذہب الوہابی فی بقاع مختلفة من الہند الاسلامیة“(المہدیہ فی الاسلام، ص ۸۶۲۔)

پھر اس کے بعد ، غلام احمد قادیانی، متوفی۱۹۰۸ھ نے ”مہدویت “کا اعلان کیا [ کہ ان کا دعویٰ ہے کہ حقیقی اہل حدیث وہی ہیں ]

آخرمیں مصنف مذکورلکھتے ہیں ” حقیقت یہ ہے کہ سب کہانی اور افسانے ہیں اور قبائلی تعصب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے ورنہ اسلام میں ” مہدی“ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔

ہمارا جواب

ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ ” عقیدہمہدویت“ صدر در صد اسلامی عقائد میں سے ایک ہے اور ان کا یہ کہنا کہ یہ کہانی ہے جسے شیعوں نے گڑھ لیا ہے حقائق سے چشم پوشی اور تعصّب کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ منکرین کی دلیل ، وہی ایک تاریخی روایت تھی جسے جناب طبری نے عبداللہ بن سبا کے بارے میں نقل کیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے اور عبداللہ بن سبا ایک افسانہ ہے نہ حقیقت رہا حضرت امام مہدی(عج) کے نام اور اس پر مختلف لوگوں کا قیام کرنا اور مختلف فرقوں کا وجود میں آنا تو یہ بھی اس عقیدے کے غلط اور فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ مفاد پرست لوگوں نے اس عقیدے سے غلط استفادہ کیا ہے اور اگر بعض جھوٹے لوگوں کا ادعا کسی عقیدے کے فاسد

۱ہونے کا سبب ہوتو نبوت اور رسالت پیغمبر اکرم (ص) کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیوں کہ حضور اکرم کی وفات کے بعد کئی لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔

لہذا کسی عقیدے کا بیجا استعمال اس عقیدے کے غلط یافاسد ہونے کی دلیل نہیں ہے پس اصل عقیدہ کو جھٹلانا کم فہمی ، اسلامی تعلیمات سے صحیح معنی میں آشنا نہ ہونا، یاکم از کم خود غرضی اور تعصّب ہے ۔

دوسرے یہ کہ خود جعلی اور جھوٹے مہدیوں کا طول تاریخ میں ادعای مہدویت اس بات کی دلیل ہے کہ ” عقیدہمہدویت“ صدر اسلام ہی سے موجود تھا جسے بعد کی پیداوار ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

۲۔ اسلامی تاریخ کے چند جھوٹے مہدی

مدعیان مہدی نے اسلام کو کیا کیا نقصان پہنچایا؟

یہ عنوان سپاہ صحابہ پاکستان کے سابق سربراہ جناب ضیاءالرحمن فاروقی کی کتاب ” حضرت امام مہدی(ع) “ سے لیا گیا ہے ، جناب فاروقی نے یہ کتاب ” عقیدہ مہدویت “ کے اثبات میں لکھی ہے لیکن تعصّب مذہبی کی وجہ سے شیعوں پر بھی خوب حملے کئے ہیں ۔

موصوف لکھتے ہیں:آنحضرت کی چھبیس(۲۶)سے زائد متواتر احادیث ہیں جس میں امام مہدی (ع) کے ظہور کی خبردی گئی ہے ، اگرصرف یہی ایک تصوّر دنیا مین موجود ہوتا تو ملت اسلامیہ کو اس صدی میں بیشمار جھوٹے مدعیان مہدی کا چرچہ سہنا نہ پڑتا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہرصدی کے دامن میں کئی کئی ایسے افراد جو مدعیان نبوت ومہدی سے الودہ ہے جنہوں نے شیعوں کے طرح کردہ امام مہدی(ع) کے کارناموں اور علامات کی آڑ میں امت مسلمہ کو افتراق واشتقاق سے دوچار کیا ،مہدی کے نام سے کئی افراد نے سادہ لوح مسلمانوں سے رقم ہتیانے کا مشغلہ جاری کیا، تو کئی مدعیان نے اسے شعبدہ بازی اور جاہ کے فسون کاری کے لئے استعمال کیا لاعلم اورجاہل مسلمانوں کو اس مقدس نام سے ہر صدی میں فریب دیا گیا علم نجوم کی کرشمہ سازی اورعلم اعداد کے کئے اسرارکھو لے گئے ، دین محمد سے ناواقف اورامام مہدی(ع) کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے ناآشنا عوام کی کئی مسلم گروہوں نے کئی جھوٹے مدعیان مہدویت کو سرپر اٹھایا ان کی نیاز مندی اور عقیدہ وتوسل کا ڈھنڈورا پیٹا گیا جونہی اہل حق کے کسی گروہ نے ان کی تکذیب وضلالت کی نشاندھی کی تو موت نے انہیں جہنم رسید کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

مختصریہ کہ ہردور میں جھوٹے ” مہدی“ پیدا ہوئے ، یہ سب کچھ شیعوں کے اس تصور امام مہدی کا نتیجہ ہے جس کو ماننے کے بعد اسلام کی پوری عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے ۔(حضرت امام مہدیؑ ، فاروقی، ص ۶۴۱سے ۹۴۱۔)

ہمارا جواب

موصوف اوران کے ہمنواوں کی خدمت میں عرض کروں اگر شیعوں کے تصور امام مہدی(عج) کو قبول کرتے ، یاوقت کے ظالم وجابر حکمران شیعوں کے تصور مہدی(عج) کی اشاعت کی اجازت دیتے تو نہ جھوٹے مدعیان مہدی پیدا ہوتے اورنہ امت اسلامی میں افتراق ہوتا کیوں کہ شیعہ وہ واحد اسلامی فرقہ ہے جس کے یہاں حضرت امام مہدی(عج) کی واضح تصویر موجود ہے شیعہ آپ کی طرح کسی مجہول الحال مہدی کا تصور نہیں رکھتے جس کی وجہ سے مفاد پرست لوگوں کو اس مقدس نام سے غلط فایدہ اٹھانے کا موقع ملا ہو، شیعوں کا تصور مہدی باالکل واضح ہے اورشیعوں کے یہاں حضرت امام مہدی(عج) کا سلسلہ نسب ، نام اوصاف حتی شکل وشمائل بھی ، جو رسول اللہ (ص) نے بیان فرمایا تھا واضح ہیں لہذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شیعہ عقیدہ مہدی(عج) کاقائل ہو اورپھر ادعای مہدویت بھی کرے ! اس لئے کہ شیعہ اثنی عشری کے یہاں حضرت امام مہدی(عج) کا تصور باالکل واضح ہے ، اس

کی وجہ یہ ہے کہ شیعوں کا مسلسل اپنے اماموں سے رابطہ رہا ہے اور شیعہ کبھی بھی منبع وحی سے جدا نہیں ہوئے ، جب کہ حضرات اہل سنت سو ۱۰۰سال سے زیادہ عرصہ تک حضور اکرم (ص) کی احادیث کے نقل و بیان سے محروم رہے نتیجہ میں محدثین جنہوں نے خود حضور سے حدیثیں حفظ کیں تو خلفاء اور بعد کے نام نہاد حکمرانوں کی طرف سے احادیث نبوی کی اشاعت پر پابندی اور زودکوب و ظلم کی بناء پر جب وہ دنیا سے چلے گیے اور بعد میں جعلی احادیث کا ایک سلسلہ قائم ہوگیا کہ جس کا ناقابل تلافی نقصان جواسلام کو پہنچا قابل انکار نہیں ۔ جب کہ ایسے استبداد وگھٹن کے ماحول میں شیعہ اپنے ائمہ معصومین(ع) سے [جوکہ آل رسول ہیں ] جڑے رہے اس لئے انہیں ہرعقیدہ ، ہر فکر شفاف وواضح مستقیماً مخزن وحی سے ملتی رہی ، نتیجہ میں حضرت امام مہدی(ع) کی غیبت تک چار سو (۴۰۰)کتب حدیثی [ جسے کتب اربعماة کہا جاتاہے ] لکھ کر شیعہ علما نے محمد وآل محمد (ص) کے علوم کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کرلیا۔

لہذا حق وانصاف کی بات تویہ ہے کہ ، اگر امت مسلمہ شیعوں کے عقیدہ مہدی(ع) [کہ جس کے بیان کرنے والے خود رسول اکرم (ص) ہیں] کو قبول کرلیتی تو یقینا وہ ذلت و رسوائی جو آج مسلمانوں کے دامن گیر ہے نجات مل جاتی اوربھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ہربات کو اسلام سے جوڑ کر یا اس سے جدا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو اغوا نہ کرتے ” وماذا بعد الحق الاّ الضلال “ (القران) ۔

اگرچہ آپ پہلے ملاحظہ کرچکے ہیں کہ بہت سے انصاف پسند علماءاہل سنت نے اس عقیدہ مہدی(ع) کو جو کہ شیعوں کے یہاں پایا جاتا ہے نہ فقط قبول کیا ہے بلکہ اس پر مفصل کتابیں بھی لکھی ہے ۔

۳:جھوٹے مدعیان مہدویت اور من گھڑت بارہویں امام

مصنف مذکورہ عوان کے تحت بحث کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں :

” اسی حقیقت کو [یعنی شیعہ تصورمہدی کی وجہ سے اسلام کی پوری عمارت زمین بوس ہوگئی] آشکار کرنے کے لئے ہم زیر باب میں چند جھوٹے مہدیوں کا مختصر تعارف اوران کی جعل سازی کاآئینہ ناظر ین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

پہلا مہدی

نام ولدیت ، صالح بن طریف برغوانیسرزمین اندلس کے قلعہ” باطر“ میں پیدا ہوئے ۱۳۵ھ میں پہلے دعوی نبوت کیا پھر مہدی اکبر ہونے کا دعویٰ کیا اور بعد میں شمالی افریقہ میں ایک وسیع علاقے میں حکومت قائم کہ “(حضرت امام مہدی ، فاروقی، ص۱۵۱۔)

تعجب کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۲۳اور ۶۴ پر بہ زعم خود ثابت کیا ہے کہ اصل عقیدہ امامت ومہدویت ، بقول ان کے ، شیعوں کے عہد انحراف ۳۰۱ھ کے بعد کی فسون کاری ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ” شیعہ مذہب کے عقاید کی تدوین ۳۰۱ھ میں ہوئی اس سے پہلے بارہویں امام کا وہ شیعی تصور جو اصول کافی اوربعد کے شیعہ مجتہدین کی کتب میں اگلی نسلوں تک پہنچا اس کادور دور تک کوئی ذکر نہیں ۔(حضرت امام مہدی ، فاروقی، ص۲۳و۶۴۔)

ملاحظہ فرمایا: مصنف نے اپنے دونوں دعوے کا جھوٹا ہونا خود ثابت کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ لکھتے ہیں کہ ، پہلا جھوٹا مہدی” صالح بن طریف“ برغوانی نے شیعوں کے تصور مہدی کی وجہ سے ۱۳۵ ھ میں ادعای مہدویت کیا ، دوسری طرف لکھتے ہیں بارہویں امام کا شیعی تصور اور شیعہ مذہب کے تمام عقاید کی تدوین ۳۰۱ھ یعنی برغوانی کے ادعاءمہدویت سے ڈیڑھ سوسال بعد!! میں ہوئی ہے !!

لیکن ان کا یہ کہنا شیعوں کے تصور مہدی کی تدوین جناب کلینی رح نے کی ہے سراسر جھوٹ اور

بہتان ہے کیونکہ ہم پہلے ہی ثابت کرچکے کہ امام مہدی(عج) کا امام حسن عسکری کا فرزند بلافصل ہونا نہ صرف شیعوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے بلکہ اہل سنت کے بہت سے علمانے بطور متواتر نقل کیا ہے کہ امام مہدی(عج) امام عسکری(ع) کے فرزند ہیں اور وہ ۲۶۰ھ میں پیداہوچکے ہیں واقعا افسوس ہوتا ہے اوران لوگوں کی حالت پر رحم آتا ہے کہ اتنے واضح وروشن حقایق کے باوجود گمراہی کی طرف چلاجائے اور دو دن کی زندگی کی خاطر ابدی اور دائمی زندگی سے غافل رہے ۔

میری دعا ہے کہ خداوند متعال ہم سب کو راہ حق کی طرف ہدایت کریں مختصر یہ کہ ، مصنف کے بقول پہلا مہدی” صالح بن طریف برغوانی ہے ۔

دوسرامہدی:صالح بن طریف کا بیٹا” الیاس “ ہے جس نے ۲۲۴ھ میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔

تیسرا مہدی:الیاس کابیٹا ” یونس“ ہے جو ۲۹۷ھ میں ہلاک ہوا

چوتھا مہدی:یونس کے بعد اس کا قریبی ساتھی” ابو عفیر محمدبن معاذ“ اس کا جانشین ہوا۔

پانچواں مہدی: محمدبن معاذ کے بعد اس کا بیٹا عبداللہ جانشین ہوا اور چوالیس (۴۴)سال حکومت کی ۔

صالح اوراس کے فرزندوں کی خود ساختہ شریعت کی ایک جھلک

۱۔ دن رات میں دس (۱۰) نماز فرض ہے ۔

۲۔ مسح میں ناف اور کمر کا دہونا بھی واجب ہے ۔

چھٹا مہدی: عبداللہ بن میمون باطنی ۔

ساتھواں مہدی:”عبداللہ “جس کی موت کے بعد احمد بن عبداللہ جانشینی پائی ۔

آٹھواں مہدی: احمدبن کیان بلغی۔

نواں مہدی: حمدان بن اشعت قرامط۔

دسواں مہدی: عبیداللہ مہدی جس نے ۲۷۰ھ میں مہدویت کا اعلان کیا۔

گیارہوں مہدی:حسین کرویہ معروف بہ صاحب شمامہ۔

بارہواں مہدی: سعید حسن بن مہران قرامطی جس نے ۲۸۱ھ میں مہدی آخر الزمان ہونے کا دعویٰ کیا۔

تیرہواں مہدی: محمدبن عبداللہ تومرت ۴۸۵ھ میں شوش ، میں پیدا ہوئے ۔

چودہواں مہدی: ابو طاہر قرامطی۔

پندرہواں مہدی: محمود واحد گیلانی جس نے ۶۰۰ھ میں مہدویت کا دعویٰ کیا ۔

سولہواں مہدی: احمد بن عبداللہ مصری ۶۸۹ھ میں مہدی موعود ہونے کا دعوا کیا۔

سترہواں مہدی: عبدالعزیز طرابلی جس نے ۷۱۷ ھ میں مہدویت کا دعویٰ کیا ۔

اٹھارہواں مہدی: سید محمد جونپوری جو ۸۴۷ھ میں پیدا ہوئے ۔

انیسواں مہدی: شمس الدین جو سید محمد نور بخش سے مشہور ہے [ اور مذہب نوربخشیہ کے بانی ہےں۔]

بیسواں مہدی : جلال الدین اکبر، سندہی جنہوں نے اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا

اکیسواں مہدی: احمد بن علی محیرثی یمنی

بائیسواں مہدی: محمد مہدی ازمکی

تیسواں مہدی: مہدی کردی منتظر کا دعویٰ ۱۰۷۵ھ میں سننے میں آیا۔

چوبیسواں مہدی: مرزا علی محمد باب جنہوں نے ۱۲۶۰ھ میں دعوا کیا۔

البتہ مصنف مذکورہ نے ان کے عقاید ، افکار اور کارناموں کو بھی ذکر کیا ہے ہم نے اختصار کی خاطر صرف فہرست پر اکتفا کیا ہے۔

اس فہرست کو بیان کرنے کے بعد جناب مصنف لکھتے ہیں ہم نے اس باب میں تاریخ کے۲۵ ایسے مدعیان مہدی کا آئینہ ناظرین کے سامنے پیش کیا ہے جنہوں نے شیعہ ہی کے مختلف فرقوں سے ہونے کے باوجود خود کو اپنے ہی مذہب کے تصور ” امام مہدی “ کا محور بنانے کی کوشش کی۔

ہمارا جواب

ان کا یہ کہنا کہ یہ لوگ شیعہ تھے کذب محض ہے کیوں کہ اولاً یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص بارہ اماموں کے قائل ہو اور مہدویت کا اعلان بھی کرے ایک پاگل انسان بھی اس بات کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ مصنف کے بقول جناب” برغوانی “ نے ۱۳۵ھ میں دعویٰ مہدویت کیا ، جب کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق اس وقت سلسلہ امامت کے چھٹے تاجدار ، یعنی حضرت امام جعفر الصادق (ع) کا دور امامت تھا ، تو اگر جناب ” برغوانی“ شیعہ تھا، تو اکم از کم ان کو ساتواں امام ہونے کا دعویٰ کرنا چاہئے تھا نہ بارہواں امام ! تعجب کی بات یہ ہے فاضل مصنف اوران کے ہم فکر لوگوں نے اسے شیعہ اثنا عشری کے خلاف ایک ایشو بنادیا۔ موصوف اگر غور وفکر کرنے کے بعد قلم اٹھاتے تو قلم کی آبرو بھی بچ جاتی مگر کیاکیا جائے کبھی کبھی تعصب کی وجہ سے عقل وخرد بھی معطل ہوکررہ جاتی ہے اور ایسی خندہ آور باتیں لوگ تحریر کرجاتے ہیں کہ ایک داغ دیدہ ماں کو بھی ہنسنے پر مجبور کردیتی ہے ۔

ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور وہ یہ ہے کہ فاضل مصنف نے اپنی عادت کے مطابق یہاں پر بھی کتربیونت سے کام لیتے ہوئے کچھ جعلی اور جھوٹے مدعیان کا ذکر کرنے سے گریز کیا منجملہ، بنی امیہ کا مہدی” سفیانی“ بنی عباس کا مہدی ” مہدی عباسی“ بعض اہل سنت کے مہدی” محمدبن عبداللہ “ جو آخری زمانے میں پیدا ہوں گے اور وہابیوں کا مہدی ” احمد باربلی“ جن کے طفیل سے آج فاضل مصنف اور ان کے ہمنوا اسلام کی ٹھیکداری کا دعویٰ کرتے ہیں اوربقول ڈاکٹر سعد حسن مصری ” احمد باربلی “ نے عقیدہ مہدویت کے زیر سایہ برصغیر ، پاک وہند میں وہابیت کی ترویج کی۔

( المہدیہ فی الاسلام، ص ۱۸۴۔)

لہذا جناب مصنف اوران کے ہم فکر لوگوں کو تو شیعوں پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا ، چونکہ آپ کے مکتب کے بانی ہی انہیں جھوٹے مدعیان ” مہدویت“ میں سے ایک ہیں یہی وجہ ہے کہ جناب سعد حسن اوربہت سے دوسرے نام نہاد علماءاہل حدیث نے اصل عقیدہ مہدویت کاانکار کیا، اوراپنے بزرگوں کے کئے ہوئے گناہوں کو شیعوں کے گردن پر ڈالنے کی کوشش کی اورکوشش کررہے ہیں لیکن اس میں انہیں ناکامی ہی ہوگی ، اس لئے کہ حق کو کچھ عرصہ تک دبایا تو جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔

ہماری دعا ہے کہ خداوند متعال ان سب کو راہ حق کی طرف ہدایت فرمائے اورانہیں علمی خیانتوں سے نجات دے آمین ثم آمین یارب العالمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.