پیغمبر اكرم (ص) كے والد اور اجداد كے مومن ہونا

160

آخر كیوں شیعہ حضرات پیغمبروں بالخصوص پیغمبر اكرم (ص) كے والد اور اجداد كے مومن ہونے كے معتقد ہیں جب كہ وہ حضرات اس وقت مكہ والوں كے دین پر زندگی بسر كر رہے تھے ؟
شیعہ علماء كے نظریات
تمام شیعہ اثنا عشری علماء اس بات پر متفق ہیں كہ پیغمبر (ص) كے آباء و اجداد، حضرت آدم علیہ السلام سے لے كر عبد اللہ تك سب كے سب مومن اور موحد تھے ۔ اب ہم ان میں سے كچھ لوگوں كے نظریات كو بیان كرتے ہیں:
1۔ بزرگ محدث، ابو جعفر علی بن حسین بن بابویہ جنھیں ”شیخ صدوق “ كے نام سے شہرت حاصل ہے، اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: پیغمبر (ص) كے آباء و اجداد كے سلسلہ میں ہمارا عقیدہ ہے كہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے كر ان كے والد بزرگوار تك سب كے سب مسلمان تھے ۔ 1
2۔ شیخ مفید ، شیخ صدوق كے مذكورہ جملہ كی وضاحت كرتے ہوئے لكھتے ہیں: پیغمبر (ص) كے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تك موحد ( ایك خدا كے قائل) تھے ۔ اور ابو جعفر شیخ صدوق (ع) كے نظریہ كے مطابق وہ سب خدا پر ایمان ركھتے تھے ۔ اور شیعہ جو برحق فرقہ ہے وہ اس بات پر اجماع ركھتا ہہے ۔ 2
ایك دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: شیعہ اثنا ء عشری علماء اس بات پر متفق ہیں كہ رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد حضرت آدم (ع) سے لے كر عبد المطلب تك سب كے سب خدا پر ایمان ركھتے تھے اور اس كی وحدانیت كے قائل تھے ۔ 3
3۔ شیخ الطائفہ، جناب ابو جعفر طوسی تحریر فرماتے ہیں: یہ بات ہمارے علماء كے نزدیك ثابت ہوچكی ہے اور ان كے درمیان كوئی ایك شخص بھی كافر نہیں تھا ۔ اس سلسلہ میں ان كی دلیل فرقہ برحق كا اجماع ہے اور یہ بات علم اصول میں ثابت وہ چكی ہے كہ یہ اجماع، جن میں معصوم كے دخول كی وجہ سے حجت ہے اور اس مسئلہ میں امامیہ ( شیعہ اثنا عشری) كے درمیان كوئی اختلاف نہیں ہے ۔
4۔ بلند پایہ كے شیعہ مفسر ابو علی طبرسی نے اس مبارك آیت < یا ابت لا تعبدوا الشیطان > كی تفسیر كرتے وقت اس بات كی جانب اشارہ كرتے ہوئے كہ یہ خطاب حضرت ابراہیم (ع) كے ایسے باپ سے ہے جو ماں كی جانب سے حد تھے ورنہ ابراہیم (ع) كے حقیقی باپ كا نام ”تارُخ“ تھا۔ لكھتے ہیں: شیعہ علماء كا اجماع ہے كہ پیغمبر (ص) كے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تك مسلمان اور موحد تھے ۔ 4
5۔ مرحوم مجلسی لكھتے ہیں: كہ تمام شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں كہ پیغمبر (ص) كے والدین گرامی اور تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تك مسلمان بلكہ ان كا شمار صدیقین میں ہوتا ہے۔ان میں سے ایك گروہ نبی مرسل كا ہے اور دوسرا گروہ معصوم اوصیاء كا ہے۔شاید ان میں سے بعض نے دینی مصلحت یا تقیہ كے پیش نظر اپنے اسلام كا اظہار نہیں كیا ۔ 5
6۔ شیعوں كا یہ عقیدہ اس حد تك معروف و مشہور رہا ہے كہ امام فخر رازی اپنی تفسیر میں شیعوں كے حوالے سے نقل كرتے ہیں كہ: شیعوں كا عقیدہ ہے كہ پیغمبر (ص) كے آباء و اجداد میں كوئی ایك شخص بھی كافر نہیں تھا ۔ یہ لوگ ابراہیم (ع) كے والد كے كافر ہونے كا انكار كرتے ہوئے آ زر كو حضرت ابراہیم (ع) كا چچا مانتے ہیں۔ 6
شیعہ اثنا عشری كے موافق حضرات كے نظریات
پیغمبر كے آباء و اجداد مسلمان ہونے كے سلسلہ میں اہل سنت كا ایك گروہ، شیعوں كا ہم فكر اور موافق ہے ۔ لہذا ان میں بعض كے نظریات اور جملوں كو ہم یہاں پر نقل كرتے ہیں:
1۔ آلوسی بغدادی نے اس آیت < وتقلبك فی الساجدین > كے ذیل میں لكھا ہےكہ اس آیت كے ذریعہ پیغمبر (ص) كے والدین گرامی كے ایمان كو ثابت كیا گیا ہے ۔ جیسا كہ بہت سے بزرگ اہل سنت نے اس استدالال كو قبول بھی كیا ہے ۔ 7
پھر دوسری جگہ لكھتے ہیں: اہل سنت كے اكثر علماء اس بات كے قائل ہیں كہ آذرحضرت ابراہیم (ع) كے والد نہیں تھے ۔ اور انھوں نے اس طرح دعوی كیا ہے كہ پیغمبر كے آباء و اجداد میں كوئی بھی شخص كافر نہیں تھا، اور اگر كوئی شخص فخر رازی كی طرح یہ دعویٰ كرے كہ یہ نظریہ اور قول صرف شیعوں كا ہے تو یہ اس كے كم علمی اور مطالعہ كی دلیل ہے ۔
2۔ كتانی ” نظم المتناثر “ نامی كتاب میں بوجوری كے حوالے سے لكھتے ہیں: وہ حدیثیں تواتر كی حد تك ہیں جو یہ كہتی ہیں كہ پیغمبر (ص) كے تمام باپ اور ماں موحد تھے اور انھوں نے ہر گز كفر اختیار نہیں كیا، ان میں كوئی عیب اور پلیدی، اسی طرح اہل جاہلیت كی كوئی بھی چیز ان میں نہیں تھی ۔ 8
3۔ اہل سنت كے ایك برجستہ عالم دین، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بكر سیوطی نے پیغمبر كے آباء و اجداد كے ایمان پر تاكید كرتے ہوئے اس پر كافی زور دیا ہے اور اس سلسلہ میں متعدد كتابیں بھی لكھی ہیں ۔
انھوں نے اس سلسلہ میں جن كتابوں كی تالیف كی ہے وہ اس طرح ہیں:
ا۔ مسالك الحنفاء فی نجاة آباء المصطفی ۔
ب۔ الدرج المنیفة فی الآباء الشریفة ۔
ج۔ المقامة السندسیة فی النسبة المصطفویة ۔
د۔ التعظیم و المنة فی ان ابوی رسول اللہ فی الجنة ۔
ر۔ السبل الجلیة فی الآباء العلیة ۔
س۔ نشر العلمین فی اثبات عدم وضع حدیث احیاء ابویہ و اسلامھما علی یدیہ ۔ 9
ان كے علاوہ اور جو دوسرے لوگ رسول اكرم كے آباء و اجداد كے ایمان كے قائل ہیں ان كے نام اس طرح ہیں: مسعودی اور یعقوبی، ماوردی كے كلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ رازی نے ”اسرار التنزیل “ میں اسی طرح سنونی اور تلسماتی نے بھی رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد كے ایمان كو صراحت سے ساتھ بیان كیا ہے ۔ 10
قاضی ابوبكر بن عربی سے لوگوں نے پوچھا: آپ اس شخص كے بارے میں كیا فرماتے ہیں جو كہتے ہیں: رسول خدا (ص) كے والد ماجد جہنم میں ہیں ؟ !
انھوں نے برجستہ جواب دیا: ایسا شخص ملعون ہے، كیونكہ خدا كا ارشاد ہے < ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرہ > اب اس سے بڑی اذیت اور كیا ہو سكتی ہے كہ كوئی پیغمبر كے والدین كے بارے میں یہ كہے كہ وہ جہنم میں ہیں ۔ 11
انھوں نے ہی ابو نعیم اصفہانی سے نقل كیا كہ: عمر بن عبد العزیز كے لئے ایك منشی لایا گیا جس كا باپ كافر تھا، تو عمر بن عبد العزیز نے كہا: اگر اولاد مہاجر سے ہوتا تو بہتر تھا ۔ منشی نے جواب دیا: پیغمبر كے والد بھی تو كافر تھے ! یہ سن كر عمر بن عبد العزیز كو غصہ آگیا اور كہا: اس حكومت میں ایسے منشی كی ضرورت نہیں ۔ 12
مشہور و معروف محدث و مفسر جناب عجلونی اسی طرح كا عقیدہ ظاہر كرتے ہوئے لكھتے ہیں: كہ پیغمبر كے والدین گرامی كے اسلام سے متعلق بہت سے علامء نے كتابیں لكھی ہیں (خدا وند متعال ان كی اس كوشش پر انھیں جزائے خیر دے) كیونكہ انھوں نے بھی كتاب ”المقاصد“ میں لكھا ہے كہ اس موضوع پر ایك جلد كتاب لكھی ہے ۔ 13
انھوں نے اس عقیدہ كو دوسروں كی جانب منسوب كرتے ہوئے لكھا: حفاظ محدثین اور غیر محدثین حضرات كی اكثریت اسی نظریہ كی حامی اور موافق ہے اور اسی سلسلہ میں ابن شاہین، و حافظ ابو بكر بغدادی، و سہیلی، و قرطی اور محب طبری جیسے لوگوں كا نام لیا جا سكتا ہے ۔ 14
اس كے باوجود بھی اہل سنت كے بہت سے علماء كا عقیدہ یہ ہے كہ پیغمبر اسلام (ص) كے والدین اور آباء و اجداد كافر تھے صرف یہی نہیں بلكہ ان میں سے بعض نے تو اس موضوع كو ثابت كرنے كے لئے كتابیں اور جریدے (میگزین) بھی تالیف كر ڈالی ہیں جیسے ابراہیم حلبی اور علی قاری ۔
امام فخر رازی كہتے ہیں: ہمارے علماء كا یہی خیال اور عقیدہ ہے كہ پیغمبر كے والد ماجد كافر تھے۔ 15
پیغمبر اكرم كے والد ماجد اور اجداد كے ایمان پر دلیلیں
شیعہ اثنا عشری اپنے اس مدعا پر ( كہ پیغمبر كے تمام آباء و اجداد مومن ہیں) كافی دلیلیں بیان كی ہیں جن میں سے بعض كی طرف ہم اشارہ كر رہے ہیں:
1۔ پیغمبر اسلام (ص) كے تمام آباء و اجداد كے ایمان شیعہ اثنا عشری كا اجماع ہے ۔
2۔ خدا كے اس فرمان سے استدلال < الذین یراك حین تقوم، وتقلبك فی الساجدین > معنی آیت یہ ہے كہ خداوند عالم روح پیغمبر كو ایك سجدہ كرنے والے سے دوسرے سجدہ كرنے والے كی طرف منتقل كر دیتا ہے ۔ 16 اس معنی كے پیش نظر آیت اس بات پر دلالت كرتی ہے كہ پیغمبر كے تمام اجداد مسلمان تھے، اسی وجہ سے اس آیت كے ذیل میں ابن عباس، امام محمد باقر اور امام محمد صادق علیہما السلام سے مردوی ہے كہ: پیغمبر یكے بعد دیگرے ایك پیغمبر سے دوسرے پیغمبر كی صلب میں منتقل ہوئے ۔ 17

اسی آیت كے ذیل میں سیوطی ابن عباس سے نقل كرتے ہیں: كہ رسول خدا (ص) ایك پیغمبر كی صلب سے دوسرے پیغمبر كی صلب میں منتقل ہوتے رہے پھر خدا نے ان میں بعنوان پیغمبر مبعوث كیا ۔ 18

3۔ پیغمبر كا ارشاد گرامی ہے :< لم یزل ینقلی اللہ من اصلاب الطاھرین الی ارحام المطھرات، حتی اخرجنی فی عالمكم، ولم ید نسنی بدنس الجاھلیة > خدا نے مجھے دائمی طور سے اور مسلسل پاك صلبوں سے پاك خواتین میں منتقل كیا یہاں تك كہ مجھے آپ كی دنیا میں پیدا كر دیا اور مجھے جاہلیت كی پلیدی اور خباثت سے دور ركھا ۔ 19

اگر پیغمبر كے آباء و اجداد میں ایك شخص بھی كافر ہوتا تو پیغمبر كبھی بھی ان سب كو طہارت سے متصف نہیں كرتے ۔ كیونكہ خدا كا ارشاد ہے < انما المشركون نجس >

4۔ حضرت ابراہیم (ع) تك پیغمبر كے ایمان كو اس آیت كے ذریعہ ثابت كیا جا سكتا ہے جس میں خدا حضرت ابراہیم (ع) اور اسماعیل (ع) كی حكایت بیان كر رہا ہے: < واجعلنا مسلمین لك ومن ذریتنا امة مسلمة لك > 20 پھر اسی آیت میں اس آیت كو ضمیمہ كریں < وجعلھا كلمة باقیة فی عقبہ > 21 ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے كہ كلمہ ” اللہ “ قیامت تك ابراہیم (ع) كی ذریت میں باقی رہنا چاہئے، اسی طرح قیامت تك ذریت ابراہیم كی سرایتی جماعت (یعنی لوگوں) كا ہونا بھی ضروری ہے جو اپنی فطرت كے مطابق خدا كی عبادت كریں ۔ گویا یہ حضرت ابراہیم (ع) كی دعا كی قبولیت كا اثر ہے چونكہ انھوں نے خداسے دعا كی تھی < واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام > مجھے اور میرے فرزندوں كو بتوں كی پرستش سے دور ركھ، اور یہ بھی مطالبہ كیا تھا <رب اجعلنی مقیم الصلاة ومن ذریتی> بار الٰہا ! مجھے اور میری اولاد كو نمازیوں میں شمار فرما ۔

5۔ پیغمبر اسلام (ص) كے جد محترم جناب عبد المطلب كے ایمان كی دلیلوں میں سے ان كا وہ جملہ اور دعا ہے جو انھوں نے حبش كے رہنے والے ابرہہ بادشاہ كے سلسلہ میں اس وقت كی تھی جب اس نے خانۂ كعبہ كو خراب كرنے كی غرض سے حملہ كیا تھا، كیونكہ حضرت عبد المطلب نے اس ہولناك موقع پر بتوں سے پناہ مانگنے كے بجائے خانۂ كعبہ كی حفاظت كے لئے خدا پر بھروسہ كیا۔ 22

بلكہ ہم تو اس حد تك كہہ سكتے ہیں كہ جناب عبد المطلب پیغمبر كے درخشان مستقبل اور ان كی شان و منزلت كے عارف تھے ۔ چونكہ طلب باران كے لئے وہ پیغمبر كو اس وقت صحرا میں لے گئے جب حضرت كا بچپنا تھا ۔ ان كا یہ رد عمل سوائے پیغمبر كی عظمت و منزلت كے اعتقاد كے اور كچھ نہ تھا ۔ 23

اسی وجہ سے ہم تاریخ كے صفحات پر ملاحظہ كرتے ہیں كہ جناب عبد المطلب پیغمبر كے بچپن میں جناب ام ایمن سے تاكید كوتے ہوئے نظر آتے ہیں كہ اس بچہ سے ہر گز غافل نہ ہونا ۔ 24

پیغمبر اسلام (ص) كے والد اور اجداد كا ایمان روایات كی نظر میں:

اہلسنت اور شیعہ اثنا عشری كی كتابوں میں موجود روایتوں كا مطالعہ كرنے پر ایسی بہت سی روایتیں ملیں گی جن میں پیغمبر اسلام (ص) كے والد ماجد كے ایمان كو واضح اور روشن طور پر بیان كیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے بعض روایتوں كو یہاں پر پیش كر رہے ہیں:

الف) روایات شیعہ

1۔ شیخ كلینی اپنی سند كے ساتھ امام صادق (ع) سے نقل كرتے ہیں كہ امام (ع) نے فرمایا: جبرئیل (ع) پیغمبر پر نازل ہوئے اور عرض كی اے محمد ! خداوند متعال آپ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے فرماتا ہے: بے شك میں نے ان صلبوں پر جہنم كو حرام قرار دیا ہے جنھوں نے آپ كو پیدا كیا۔ (اسی طرح) اس رحم پر جس نے آپ كا حمل (اٹھایا) كیا، اور اس مربی كی جس نے آپ كی كفالت كی ۔ 25

2۔ شیخ طوسی اپنی سند كے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری سے انھوں نے پیغمبر اسلام (ص) سے ایك حدیث كے ضمن میں نقل كیا كہ پیغمبر فرماتے ہیں: جب خدا نے مجھے خلق كیا تو مجھے ایك پاك و پاكیزہ نطفہ سے پیدا كیا، پھر اس كو میرے پدر آدم كی صلب میں قرار دیا، اس كے بعد اسی طرح سے ایك پاك صلب سے، پاك رحم میں حضرت نوح و ابراہیم (ع) تك منتقل كیا یہاں تك كہ میرے والد ماجد عبد المطلب تك پہونچا، لہذا جاہلیت كی برائیوں كا میرے نزدیك گذر بھی نہیں ہوا۔ 26

3۔ امیر المومنین حضرت علی (ع) انبیاء مرسلین كے صفات كا تذكرہ كرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” خدا نے پیغمبروں كو بہترین جگہوں پر قابل رشك مكانوں پر مستقر كیا ۔ آباء و اجداد كی كریم صلبوں سے ماؤوں كے پاك رحموں تك منتقل فرمایا تاكہ جب بھی ان میں سے كوئی ایك اس دنیا سے رخت سفر باندھ لے تو دوسرا دین خدا كو آگے بڑھانے كے لئے اٹھ كھڑا ہو یہاں تك كہ نبوت كا عظیم منصب خداكی جانب سے پیغمبر تك پہونچا، ان كے وجود مبارك كو بہترین معدن سے بنایا ان كے وجود كلی كو اصلی اور محبوب ترین زمینوں پر كھلایا اور پھر پروان چڑھایا، انھیں بھی اسی درخت سے پیدا كیا جس سے دوسرے تمام نبیوں اور امینوں كو پیدا كیا، یہی وجہ ہے كہ ان كی عترت اور ان كا خاندان بہترین خاندان اور ان كے مبارك وجود كا درخت سے سے بہتر درخت ہے، ان وجود كا درخت اللہ كے محفوظ حرم میں اگا اور كریم گھرانے كی آغوش میں رشد و نمو پایا، اس كی بلندشاخیں اس حد تك آسمان كی بلندی كی طرف پہونچ گئیں كہ كوئی بھی اس كے میوے تك رسائی نہیں ركھ سكتا“۔27

4۔ شیخ صدوق اپنی سند كے ساتھ حضرت علی (ع) سے نقل كرتے ہیں كہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: خدا كی قسم ! میرے والد ماجد اور جد امجد عبد المطلب ہاشم اور عبد مناف نے كبھی بھی كسی كے سامنے سر نہیں جھكایا، جب حضرت سے پوچھا گیا تو پھر وہ لوگ اس كی عبادت كرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: خدا كے گھر كی طرف رخ كر كے نماز پڑھتے تھے اور حضرت ابراہیم (ع) كے دین پر باقی تھے اور اسی سے تمسك رہے ۔

5۔ شیخ صدوق ہی نے اپنی سند كے ذریعہ جابر بن یزید جعفی سے انھوں نے عبد اللہ انصاری سے نقل كیا كہ پیغمبر سے پوچھا گیا آپ اس وقت كہاں تھے جس وقت حضرت آدم (ع) بہشت میں تھے ؟ جواب دیا: میں ان كے صلب میں تھا اور انھیں كے ساتھ زمین پر آیا، میں كشتی میں اپنے پدر حضرت نوح (ع) كے صلب میں تھا، جس وقت حضرت ابراہیم (ع) كو نار نمرود میں پھینكا جا رہا تھا میں انھیں كے صلب میں تھا ۔ اسی طرح خداوند عالم ہمیں ایسے پاك صلبوں سے پاك و مطہر رحموں میں منتقل كرتا رہا جو سب كے سب ہادی اور مہدی تھے “28

اسی مضمون كو اہل بیت علماء نے بھی لكھا ہے جیسے متقی ہندی نے كنز العمال میں، اور سیوطی نے درمنثور میں ۔

ب) روایات اہل سنت

1۔ امام ترمذی نے اپنی سند كے ساتھ روایت كی ہے كہ پیغمبر نے فرمایا: بے شك خدا نے انسانوں كو پیدا كیا اور خدا نے مجھے انھیں لوگوں میں سے ایسے لوگوں اور فرقوں میں ركھا جو سب كے سب بہترین اور با فضیلت تھے ۔ قبیلوں كو منتخب كرنے كے بعد مجھے سب سے بہترین قبیلہ میں قرار دیا، اسی طرح اس نے بہترین گھرانے كو چنا پھر مجھے سب سے بہترین گھرانے میں ركھا، لہذا میں نسب اور گھرانے كے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں ۔ 29

2۔ قندوزی حنفی طبرانی اپنی سند كے ذریعہ نقل كرتے ہیں كہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں منتخب شدہ اشخاص سے دوسرے منتخب شدہ اشخاص میں یكے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا ۔ 30

3۔ ہیثمی نے اپنی سند كے حوالے سے اس آیت ” وتقلبك فی الساجدین“ كی تفسیر كرتے ہوئے ابن عباس سے نقل كرتے ہیں كہ پیغمبر نے فرمایا: میں ایك پیغمبر كی صلب سے دوسرے پیغمبر كی صلب میں منتقل ہوتا رہا یہاں تك كہ میں خود مبعوث بہ رسالت ہوا ۔ 31

ان لوگوں كی دلیلوں پر تنقید جنھوں نے آباء و اجداد نبی كو غیر مومن بتایا:

جو لوگ پیغمبر كے آباء و اجداد كو مومن نہیں مانتے ہیں انھوں نے بھی كچھ دلیلوں سے تمسك كیا ہے جنھیں ہم ذكر كرنے كے بعد ساتھ ساتھ ان كا بھی جواب دیں گے:

پہلی دلیل

قرآن كریم میں حضرت ابراہیم (ع) كے باپ كو صراحت كے ساتھ كافر بتایا گیا ہے، دلیل كے طور پر قرآن كا یہ جملہ ہے < وما كان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدة وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبروا منہ ان ابراھیم لاواہ حلیم > ابراہیم نے اپنے باپ كے لئے صرف اس وجہ سے طلب مغفرت كی چونكہ وہ ان كو وعدہ دے چكے تھے (لیكن) جب انھیں معلوم ہوگیا كہ وہ دشمن خدا ہے تو ان سے بیزار ہوگئے، بے شك ابراہیم (ع) بہت ہی دلسوز اور برد بار تھے ۔ 32

جواب

پہلی بات تو یہ ہے كہ ابن نے اس بات پر مورخوں كے اجماع كا دعویٰ كیا ہے كہ آذر حضرت ابراہیم (ع)كے والد نہیں تھے بلكہ چچا یا نانا تھے، چونكہ (چچا اور نانا كے سلسلہ میں) اختلاف ہے۔33

حضرت ابراہیم (ع) كے حقیقی والد ”تارُخ“ ہیں34 اور لفظ ”اب“ كا استعمال ”چچا“ پر مجازاً اور از باب توسعہ ہے ۔ جیسا كہ خود قرآن كریم میں اس كی نظیر موجود ہے < ام كنتم شہداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لنبیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھك والہ آبائك ابراہیم و اسماعیل واسحاق الہھا واحداً ونحن لہ مسلمون> تم اس وقت كہاں تھے جب یعقوب كی موت كا وقت آیا اور اپنے بچوں سے كہہ رہے تھے: میرے بعد تم لوگ كس كی عبادت كروگے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اور آپ كے آباء و اجداد ابراہیم و اسماعیل (ع) اور اسحاق كے خدا كی جو كہ وحدہ لاشریك ہے اور ہم اس كے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔ اس آیت میں خدا نے اسماعیل (ع) كو یعقوب (ع)كے آباء و اجداد میں شمار كیا گیا ہے جب كہ ان كے آباء میں سے نہیں تھے بلكہ ان كے چچا ہیں ۔ 35

دوسرے یہ كہ ”اب “ اور ”والد“ كے درمیان فرق ہے چونكہ اب كا استعمال مربی، چچا اور دادا كے لئے بھی ہوتا ہے برخلاف والد كے كہ یہ دو لفظ صرف اس بات كے لئے استعمال ہوتا ہے جو واسطہ كے بغیر ہو اسی وجہ سے مذكورہ آیت میں لفظ اب كا استعمال ہوا ہے لیكن سورۂ ابراہیم میں خدا نے حضرت ابراہیم (ع)كے حوالہ سے اس طرح نقل كیا :< ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب > پروردگارا روز محشر مجھے اور میرے والدین كو بخش دینا ۔ 36

دوسری دلیل

مسلم اور دوسروں نے روایت نقل كی ہے كہ ایك شخص نے پیغمبر سے پوچھا: آپ كے پدر بزرگوار كہاں ہیں ؟ جواب دیا: جہنم میں ۔ وہ جب واپس جانے لگا تو پیغمبر نے اسے بلایا اور فرمایا: بے شك میرے اور تمھارے پدربزرگوار جہنم میں ہیں ۔ 37

جواب

یہ حدیث كئی طرح سے باطل ہے:

پہلی بات تو یہ ہے كہ پیغمبر كے تمام آباء و اجداد مومن تھے اور یہ بات گذشتہ صفحات میں دلیلوں سے ثابت كی جا چكی ہے ۔ دوسری بات تو یہ ہے كہ حماد بن سلمہ نے اس روایت كو ثابت سے انھوں نے انس سے نقل كیا ہے لیكن ”معمر“ نے اسی حدیث كو ثابت سے انھوں نے انس سے ایك دوسری طرح سے نقل كیا ہے جس میں پیغمبر كے والد كو كافر نہیں كہا گیا ہے۔ 38

اہل سنت كے علماء رجال نے صراحت سے لكھا ہے كہ نقل حدیث كے سلسلہ میں ”معمر“ حماد سے زیادہ قوی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلكہ حماد كے حفظ اور محفوظات كے حوالہ سے لوگوں نے شك كا اظہار كیا ہے ۔بعض نے تو یہاں تك كہہ دیا كہ حماد سے مردی حدیثوں میں غلط باتیں زیادہ ہیں ۔ 39

تیسری بات تو یہ ہے كہ یہی روایت شرط شیخین كے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے نقل ہوئی ہے جس كے ذیل میں اس طرح آیا ہے ” حیثما مررت بقبر كافر فبشرہ بالنار “ جب تمھارا گذر كسی كافر كی قبر سے ہو تو اسے جہنم كی بشارت دو ۔ 40

چوتھی بات یہ ہے كہ ہو سكتا ہے اس روایت میں لفظ ”ابی“ سے مراد چچا ابو لہب یا ابوجہل یا دونوں، جیسے چچا ہوں جس طرح قرآن میں حضرت ابراہیم (ع) كے چچا كے لئے لفظ ”اب“ كا استعمال ہوا ہے ۔ 41

ایك سوال اور جواب

بحث كے اختتام میں ایك سوال بیان كر كے اس كا جواب دینا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے كہ آخر كیوں بعض لوگ پیغمبر كے آباء و اجداد كو كافر كہنے پر مصر ہیں ؟

جواب: پیغمبر (ص) كے آباء و اجداد كو كافر ثابت كرنے كی مندرجہ ذیل وجہیں ہو سكتی ہیں:
1۔ حضرت علی (ع) كی دشمنی و عناد كی وجہ سے پیغمبر كے آباء و اجداد میں پیغمبر (ص) كے ساتھ علی (ع) كو شریك كرنا ۔
2۔ بعض لوگ اس بات كو نہیں برداشت كر پاتے ہیں كہ خلفائے بنی امیہ اور دوسروں كے باپ تو كافر ہوں لیكن پیغمبر (ص) كے آباء و اجداد مومن ہوں ۔ لہذا اس كوشش میں لگے ہوئے ہیں كہ اس عظمت و فضیلت كو پیغمبر (ص) سے سلب كر كے انھیں دوسروں كے مساوی و برابر بنادیں ۔

1. تصحیح الاعتقادات، ص۱۱۷.
2. ہمان .
3. اوائل المقالات، ص۵۱.
4. مجمع البیان، ج۳، ص۵۱۶.
5. بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷.
6. مفاتیح الغیب، ج۴، ص۱۰۳.
7. روح المعانی، ج۱۹، ص۱۳۷.
8. النظم المتناثر، ص۲۰۲.
9. بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۲۴، الصحیح من سیرة النبی، ج۲، ص۱۸۶.
10. الصحیح من سیرة النبی ، ج۲، ص۱۸۶.
11. الدرج المنفیہ، ص۱۷.
12. ہمان، ۱۷.
13. كشف الخفاء، ص۶۲.
14. ہمان، ص۶۵.
15. مفاتیح الغیب، ج۴، ص۱۰۳.
16. شعراء (۲۶) آیات ۱۱۸. ۱۱۹
17. تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۴و ۲۳۵، البحر المحیط، ج۷، ص۴۷.
18. الدر المنثور، ج۵، ص۹۸.
19. مجمع البیان، ج۴، ص۳۲۲، تفسیر الرازی، ج۲۴، ص۱۷۴، السیرة الحلبیۃ، ج۱، ص۳۰، الدر المنثور، ج ۵، ص۹۸، البحر المحیط، ج۷، ص۴۷، تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۴، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷، وغیرہ
20. بقرہ (۲) آیہ ۱۲۸.
21. زخرف (۴۳) آیہ ۲۸.
22. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۴۳. ۶۲، الكامل فی التاریخ، ج۱، ص۲۶۰، و بحار الانوار، ج۵، ص۱۳۰.
23. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۱۸۲، الملل و النحل شہر ستانی، ج۲، ص۲۴۸.
24. سیرہٴ زینی دحلان در حاشیہ سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۶۴، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰.
25. كافی، ج۱، ص۴۴۶، ح۲۱.
26. امالی طوسی، ص۴۹۹، ح۱۰۹۵.
27. نہج البلاغہ، خطبہ ۹۴.
28. تفسیر برہان، ج۳، ص۱۹۲، ح۲.
29. سنن ترمذی، ج۵، ص۵۴۴، ح۳۶۰۷.
30. ینابیع المودہ، ج۱، ص۱۵.
31. مجمع الذوائد، ج۷، ص۸۶.
32. توبہ (۹)آ یت ۱۱۴.
33. السیرة النبویہ، ج۱، ص۳۷.
34. تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۵.
35. بقرہ (۲) آیت ۱۳۳.
36. ابراہیم (۱۴) آیت ۴۱.
37. صفۃ الصفوہ بہ نقل از صحیح مسلم، ج۱، ص۱۷۲، الاصابہ، ج۱، ص۳۳۷، عون المعبود، ج۱۲، ص۴۹۴، البدایہ و النہایہ، ج۲، ص۲۸۰، و تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۲.
38. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۵۰. ۵۱.
39. ہمان، ج۱، ص۵۱، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۱۲. ۱۵.
40. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۵۱، البدایہ و النہایہ، ج۲، ص۲۸۰، و عبس الرزاق، المصنف، ج۱۰، ص۴۵۴ .
41. توبہ (۹) آیت ۱۱۴.
منبع: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات؛ علی اصغر رضوانی، ج 1، ص 252 ۔ 262 ۔ ترجمہ سوال و جواب: نور محمد ثالثي ۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.