تحريف عملي و معنوي قرآن کريم ، ايک جائزہ

173

يہ ايک تاريخي حقيقت ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے دنيائے عرب ميں ايک عالم گير شخصيت رونما ہوئي، جس کا نام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا اور جس نے اس بات کا دعوي کيا کہ ميں اللہ کا بھيجا ہوا نبي ہوں اس شخص کے دعوي نبوت پر کچھ ہي عرصے ميں عرب اور عجم کي اکثريت ايمان لے آئي اور اس عظيم شخصيت کے پاس ايک کتاب تھي جسے وہ اپنے رب کي طرف منسوب کرتا تھا اور کہتا تھا کہ يہ کتاب تم کو الہي معارف، احکام شريعت اوراخلاق انساني کي تعليم دينے کے لئے نازل ہوئي ہے اوروہ شخص اپني نبوت اور اپنے لائے ہوئے دين پراسي کتاب کو دليل بنا کرپيش کرتا تھا۔ وہ اس کتاب سے لوگوں کي ہدايت کرتا اور مخالفين کے لئے حجت قرار ديتا تھا اس کا کہنا تھا
کہ اگر تم کو ميري نبوت اور اس مقدس کتاب پر يقين نہيں ہے تو تم بھي اس کے مقابل اپني کوئي کتاب لے آو اور اگر ساري کتاب کا جواب تم سے ممکن نہيں ہے تو صرف ايک سورہ يا چند آيتيں ہي لا کر بتلا دو ۔
عرب کو اس زمانے ميں اپني زبان و بيان پر بڑا ناز تھا۔ ليکن اس کے باوجود کہ چودہ سو سال سے بھي زيادہ کا عرصہ گذر گيا ہے، اس کتاب کا کوئي جواب نہيں يا اور جن لوگوں نے اس کتاب کے جواب ميں چند سطريں بھي پيش کيں تو خود مخالفين کتاب نے اس مقدس سماني کتاب کا دفاع کيا اور کہا کہ زبان و بيان اور معني و مفہوم ….. و ہنگ کلام کے اعتبار سے يہ جواب عرب کے جاہلوں کے کلام سے بھي گيا گذرا ہے تو کجا يہ مقدس کتاب کہ جس کے مطالب و مفاہيم بھي عالي ہيں اور از لحاظ زبان و بيان حرف آخر ہے۔
سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي اس مقدس کتاب کا نام قرآن اور جو دين آپ لے کر آئے ہيں اسے اسلام کہتے ہيں اور جو کتاب مسلمانوں کے بيچ بنام قرآن رائج ہے ،يہ وہي کتا ب ہے جو آپ پر نازل ہوئي تھي اور جس کا جواب آج تک نہ سکا اور جو آج بھي محمد مصطفي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي نبوت پر محکم اور متقن دليل ہے۔
جس طرح حضرت محمد مصطفي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبياء ہيں، اسي طرح يہ کتا ب بھي کاروان ہدایت کا آخري چراغ ہے اور دين اسلام عالم بشريت کي نجات کا آخري راستہ ہے ۔
اب ايسي اہم کتاب صرف مسلمانوں کے لئے ہي نہيں ، بلکہ ساري بشريت کے لئے آب حيات کي حيثيت رکھتي ہے ۔ اس کے بغير ايک حقيقي زندگي گذارنا مشکل ہي نہيں، بلکہ محال ہے۔ يہ کتاب بشريت کي روح ہے يعني اس کے بغير انسان ايک زندہ لاش ہے ۔
لیکن يہ مقدس آسماني کتاب، اسي وقت راہ ہدايت کا چراغ بن سکتي ہے جب يہ کتاب تحريف و تغيير کے ناپاک ہاتھوں سے محفوظ رہے ۔ اس لئے کہ اسلام سے پہلے تمام سماني کتابيں تحريف کا شکار رہي ہیں اور اسي تحريف کي وجہ سے ان کتابوں ميں موجود معارف پر اعتماد اور اعتقاد کو نقصان پہونچا ہے۔ اب چونکہ اسلام آخري اور کامل ترين دين ہے اور يہ دين ايسے قوانين کا حامل ہے جو انسان کي مادي و معنوي ضروريات کو پورا کرتے ہيں اور ان تمام قوانين کا جاوادانہ ماخذ او ر منبع يہي قرآن ہے ، پس اس کتاب کا تحريف سے پاک ہونا لازمي ہے ۔
اگر چہ پچھلي آسماني کتابوں ميں تحريف و تغيير نے اديان الھٰي کو خدشہ دار بنا ديا ہے، ليکن الھٰي قوانين کا تدريجي سفر اور پچھلي شريعتوں کے بعد نے والي نئي شريعتوں نے تحريف سے ابھرنے والے خطرات کو کسي حد تک کم کر ديا ہے۔ ليکن سوال يہ اٹھتا ہے کہ يا قرآن مجيد بھي اپني تاريخ کے نشيب و فراز ميں اس حالت سے دچار ہوا يا نہيں ؟اور اس سوال کا جواب اس لئے بھي ضروري ہے کيوں کہ خود قرآن مجيد ميں خدا وند عالم نے اس کتاب کو مھيمن سے ياد کيا ہے۔ يعني يہ کتاب پچھلي آسماني کتابوں کي مصدق اور محافظ ہے ۔
و انزلنا اليک الکتاب بالحق مصدقا لما بين يديہ من الکتاب و مھيمنا عليہ فاحکم بينھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوائھم مما جا ئک من الحق (مائدہ ٨ ٤ )
ترجمہ : اور اس کتاب کو ہم نے حق کے ساتھ تم پر نازل کيا، جبکہ يہ گذشتہ کتب کي تصديق کرتي ہے اور ان کي محافظ اور نگہبان ہے۔ لھٰذا اللہ نے جو احکام نازل کيئے ہيں ان کے مطابق عمل کرو ۔ اور ہوا و ہوس کي پيروي نہ کرو اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اس سے منھ مت پھيرو ۔
قرآن مجيد کي يہ خصوصيت اسي وقت باقي رہ سکتي ہے جب يہ قرآن دو اعتبار سے اپنا تشخص قائم رکھے ۔
اوّل : يہ معجزہ بن کر ابھرے
دوّم : يہ صرف معجزہ بن کر ابھرنا بھي کافي نہيں ہے ، بلکہ اس قرآن کو اپني حقانيت ثابت کرنے کے لئے تحريف سے محفوظ رہنا ہو گا، کيونکہ ايک تحريف شدہ کتاب معجزہ کي صلاحيت نہيں رکھ سکتي ۔
اب بحث کا آغاز يوں ہوگا کہ قرآن تحريف سے محفوظ ہے يا نہيں ؟ ليکن اس بات کو بھي روشن کرنا ضروري ہے کہ’’ تحريف قرآن کي بحث تاريخ اسلام کے ايک خاص زمانے سے مربوط ہے، کيونکہ اس زمانے کے بعد تحريف قرآن کا تصور بھي نہيں ہو سکتا اور وہ زمانہ خليفہ ثالث کي جمع وري قرآن کا زمانہ تھا‘‘
يہاں پرحضرت عثمان کي جمع آوري قرآن سے مراد يہ ہے کہ حضرت عثمان نے صرف ايک قرآت پرقرآن کوجمع کيا ہے۔ کيونکہ قرآن تو رسول کے زمانے ہي ميں جمع کرديا گيا تھا اورایک کتاب کي صورت ميں محفوظ تھا چنانچہ جيسے ہي آيت نازل ہوتي حفاظ اسے حفظ کرتے اورکاتبان وحي اسکي کتابت کرليتے تھے اور حضرت علي ٴ ان کاتبان وحي ميں سرفہرست تھے اور اسي طرح حضرت علي ٴکے قرآن جمع کرنے کا مطلب يہ نہيں کہ آپ سے پہلے قرآن کتاب کي شکل ميں موجود نہيں تھا، بلکہ آپ نے قرآن کوشان نزول کے اعتبارسے مرتب کيا تھا۔پس ابتدائے اسلام سے خلافت عثمان تک جوزمانہ ہے، اسي زمانہ ميں تحريف قرآن کي حقيقت کا پتہ لگايا جائے گا۔(جاری ہے)
تحریر: محمد عباس حيدر آبادي
 بشکریہ تبیان ڈاٹ نیٹ

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.