ولايت کے مختلف پہلو

165

ہمارامقصدولايت کے حوالے سے سامنے نے والے مسائل کي تشريح ہے ۔ہماري گفتگو ولايت کے بارے ميں ہے ‘اوراس بارے ميں ہے کہ ولايت کيا ہے اور قرنِ مجيد ميں کہاں سے اسکے بارے ميں معلوم ہوتا ہے‘اور يہ کتنے پہلوؤں ‘ کتني جہات اور کتنے جوانب کي حامل ہے ۔يہ چيزيں ہم اس سے پہلے بھي بيان کرچکے ہيں ۔ہاں‘کچھ مسائل ايسے ہيں جو ولايت کے لئے ضمني مسائل شمار کئے جاتے ہيں۔ اگرچہ خودان مسائل ميں سے ہر ايک مسئلہ اپني جگہ پراصولي اورايک خاص جہت کا حامل مسئلہ ہے۔ اسلام کي بنياد پر معاشرے کي سمت متعين کرنے اور اسلامي معاشرے کي راہِ عمل کے تعين کے لئے ان مسائل سے استفادہ کرناچاہئے۔ ئندہ سطور ميںہم ان چند مسائل کو ترتيب وار بيان کريں گے ۔
سب سے پہلي بات يہ ہے کہ ہم نے قرنِ مجيد سے ثابت کياہے کہ مسلمان معاشرے کے اندروني اتحادواتصال کو محفوظ رکھنے اوراُسے بيروني وابستگيوںسے دور رکھنے کے لئے لازم ہے کہ اسلامي معاشرے ميں ايک مرکزي قوت موجود ہو۔يہ قوت اس معاشرے کي تمام سرگرميوں کي نگراںہو‘ تمام ميدانوں ميں اس کي سمت اوراسکي پاليسيوںکا تعين کرے اور معاشرے کے تمام گروہوں اور دھڑوں کي رہنمائي اوراُن کي تنظيم کرے۔ ہم نے اسے ’’ولي‘‘ يعني فرمانروا قرار دياتھا۔يعني وہ ہستي جس سے تمام قوتيں رہنمائي ليں‘اور تمام کاموں ميں اُس سے رجوع کيا جائے۔مختصر يہ کہ وہ ايک ايسا شخص ہو کہ فکري اور عملي ‘ ہر دو ميدانوںميں اسلامي معاشرے کا نظم ونسق اسي کے ہاتھ ميں ہو۔ اسے ’’ولي‘‘ کہتے ہيں ۔
يہ شخص کون ہو سکتا ہے ؟
اگرپ ہم سے کہيں کہ ’’ہم ولي کو پہچاننا چاہتے ہيں؟ ‘‘ توکيا ہمارے پاس کوئي ايسا مختصر جملہ ہے جس کے ذريعے ہم اسے بيان کر سکيں ؟ البتہ ہم نے اس سوال کا جواب گزشتہ گفتگو کے درميان ‘ گاہ بگاہ عرض کيا ہے ‘ اور پ بھي جانتے ہيں ‘ کوئي انجاني بات نہيں ہے‘ ليکن ہم چاہتے ہيں کہ منطقي اسلوب اوراس نکتے کے فطري تسلسل کے لحاظ سے بھي ہم اس بات کا جائزہ ليں ۔
اس سوال کے جواب ميں قرنِ مجيد کي ايک عبارت ہے ‘ کہتاہے : وہ ہستي جو معاشرے کي واقعي ولي ہے ’’خدا ‘‘ ہے۔ خدا کے سوا کوئي اوراسلامي معاشرے کا حاکم نہيں۔ يہ وہي بات ہے جو توحيد بھي ہم سے کہتي ہے ‘اور نبوت بھي اسي اصول کو ہمارے لئے ثابت کرتي ہے ۔
اب پ ديکھ رہے ہيں کہ ولايت بھي ہم سے يہي کہتي ہے۔ بنيادي طور پر ايک مکتب اور مسلک کے اصولوں کو اسي طرح ہونا چاہئے ‘کہ ان ميں سے ہراصول وہي نتيجہ دے جو نتيجہ اسکے دوسرے اصول ديتے ہيں ۔ ايسا نہ ہو کہ ہم مکتب کے ايک اصول سے جو نتيجہ اخذ کرتے ہيں‘ اسکے دوسرے اصولوں سے اسکے مخالف نتيجہ اخذ کريں ۔
افسوس کہ جو اسلام ج کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن ميں ہے ‘ اس کے بعض اصولوں سے جو نتائج حاصل ہوتے ہيںاُن کے بالکل برعکس نتائج دوسرے اصولوں سے حاصل کئے جاسکتے ہيں۔لہٰذا وہ ہستي جو اسلامي معاشرے ميں امر و نہي کا حق رکھتي ہے‘ اور احکام وفرامين کے نفاذ اور معاشرے کي راہ و روش کے تعين کي حقدار ہے ‘ مختصر يہ کہ انساني زندگي کے تمام شعبوں ميں حاکميت کا حق رکھتي ہے‘وہ خداوند ِ عالم کي ذات ہے۔ وَاُ وَلِيُّ الْمُوْمِنينَ۔
جن يات ميںولي يا اوليا کے الفاظ استعمال ہوئے ہيں ‘ہم نے اُن يات ميں سوچ بچارکيا ہے‘اوران سب کا تقريباً اجمالي مطالعہ کيا ہے‘اور ديکھا ہے کہ يہ بات کہ’’ خدااسلامي معاشرے کا ولي ہے‘ مومنين کا خدا کے سوا کوئي ولي اور مدد گار نہيں‘اور خدا کو انسان کے تمام امور کا حاکم ہونا چاہئے ‘‘ايک ايسا مسئلہ ہے ‘ جو قرنِ مجيد کے مسلّمات ميں شامل ہے ۔
جن افرادکے ذہن ميںشايد مفاہيم خلط ملط ہوجائيں ‘ہم اُنہيں يہ ياد دہاني کرانا ضروري سمجھتے ہيں کہ ہماري گفتگو خداوند ِعالم کي تکويني حاکميت کے بارے ميں نہيں ہے ۔يہ بات اپني جگہ ثابت اور معلوم ہے کہ زمين اورسمان کي گردش کوخدا وند ِ عالم اپنے ارادہ قاھرہ سے تنظيم کرتا ہے۔ ہماري گفتگو اس بارے ميں ہے کہ انسانوں کي زندگي کے قوانين اور اسلامي معاشرے کے انفرادي اور اجتماعي روابط بھي خدا کے احکام وفرامين پر مبني ہونے چاہئيں۔يعني نظامِ اسلامي اور حکومت و نظامِ علوي کے زير سايہ الٰہي‘ اسلامي اور قرني معاشرے کاقانوني حاکم وفرمانروا صرف اور صرف خداہے۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ ’’حاکم وفرمانرواخدا ہے ‘‘ سے کيا مراد ہے ؟
اپنے احکام پر عملدرمد کرانے کے لئے خدا ئے متعال تو لوگوں کے سامنے نے سے رہا؟
دوسري طرف انسانوں پر ايک انسان ہي حکومت کر سکتا ہے۔لازم ہے کہ انسانوں کے امور و معاملات کي باگ ڈور ايک انسان ہي کے ہاتھ ميں ہو۔ البتہ يہ جو ہم ’’ايک انسان ‘‘کہتے ہيں اس سے مراد يہ نہيںہے کہ ہم ’’ايک‘‘ پرزور دے رہے ہيں اور اجتماعي رہبري کي نفي کرنا چاہتے ہيں۔بلکہ ہماري مراد يہ ہے کہ ايسے انسان کي ضرورت ہے جو انسانوں کے امور و معاملات کي باگ ڈور ہاتھ ميں لے۔ وگرنہ اگر انساني معاشرے ميں صرف قانون موجود ہو ‘ چاہے وہ الٰہي قانون ہي کيوں نہ ہو‘ ليکن وہاںحکومت کرنے کے لئے کوئي امير ‘ کوئي فرمانروا يا کوئي کميٹي نہ ہو ‘ مختصر يہ کہ اگر انساني معاشرے ميں قانون کے اجرااور نفاذ کے لئے کوئي ناظر ونگہبان نہ ہو‘ تو اس کا نظم و نسق قائم نہ رہ سکے گا۔
رہي بات يہ کہ يہ انسان کون ہوسکتا ہے ؟
وہ ايک يا کئي انسان ‘جنہيں انسان اور انساني معاشرے پر عملاً حکومت کااختيارحاصل ہے‘جنہيں عملاً معاشرے کا ولي تسليم کيا گيا ہے‘جنہيںعملاً معاشرے کي ولايت اپنے ذمے ليني ہے‘ کون لوگ ہوسکتے ہيں ؟
اس سوال کے مختلف جوابات ديئے گئے ہيں ۔
تاريخي حقائق بھي اس سوال کے مختلف جواب ديتے ہيں ۔
بعض نے کہا ہے : اَلْمُلْکُ لَمِنْ غَلَب ۔مراد يہ ہے کہ جو کوئي غالب جائے ‘وہي مملکت کا مالک ہوگا۔يعني جنگل کاقانون ہے۔بعض نے کہا ہے کہ جس کسي ميں زيادہ تدبير پائي جائے‘ وہي حکمراني کے لائق ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جسے لوگوں کي تائيد حاصل ہو‘وہي حکومت کا حقدار ہے۔بعض نے کہا ہے کہ جو کوئي فلاں اور فلاں قبيلے سے تعلق رکھتا ہو‘وہي حکمراں بننے کا اہل ہے۔کچھ دوسرے لوگوں نے اور مختلف باتيں کي ہيں اور دوسري منطق اورافکار کا اظہار کيا ہے ۔
دين اور مکتب نے اس سوال کا جواب يہ ديا ہے کہ :اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ۔ پروردگارِ عالم کي جانب سے عملاً جو ہستي معاشرے ميںحکم وفرمان اور امر ونہي کي ذمے دار قرار دي گئي ہے‘ وہ اس کا ’’رسول ‘‘ہے ۔لہٰذا معاشرے ميں جس وقت ايک پيغمبر جائے‘تو پيغمبر کي موجودگي ميںاُس کے سوا کسي اور حاکم کي حکومت کي کوئي گنجائش نہيں ۔پيغمبر ‘يعني وہ ہستي جس کا معاشرے پر اقتدار ہونا چاہئے۔
ليکن جب دوسرے انسانوں کي طرح پيغمبر کي بھي وفات واقع ہو جائے ‘ تو پھر کون حاکم وفرمانروا بنے گا ؟
يت ِ قرني جواب ديتي ہے:وَالَّذِيْنَ ٰامَنُوا۔مومنين تمہارے ولي ہيں۔
کونسے مومنين ؟
کيادين و مکتب پر ايمان لانے والا ہر شخص اسلامي معاشرے کا ولي اور حاکم ہے ؟
اس صورت ميں جتنے مومن ہوں گے‘ اُتني ہي تعداد ميں حاکم بھي ہوجائيں گے۔
يت ِ قرن ايک معلوم اور متعين انسان کي نشاندہي کے ساتھ ساتھ‘ اور اسلام کے شارع اور قانون گزار کي نظر ميںمعين ايک ہستي کوحکومت کا حقدار قرار ديتے ہوئے ‘اسکے انتخاب يا انتصاب کي وجہ بھي بيان کرتي ہے‘ اور اس طرح ايک معيار فراہم کرتي ہے۔ لہٰذا کہتي ہے کہ : وَالَّذِيْنَ ٰامَنُوا۔وہ لوگ جو ايمان لائے ہيں ‘اور واقعي ايمان لائے ہيں۔کيونکہلفظ’’ٰامَنُوا‘‘ کے اطلاق کا لازمہ يہ ہے کہ ’’وَالَّذِيْنَ ٰامَنُوا‘‘ اُن لوگوں کے بارے ميں کہا گيا ہے جنہوں نے اپنے عمل سے اپنے ايمان کي تصديق کي ہے ۔پس الَّذِيْنَ ٰامَنُوا۔پہلي شرط يہ ہے کہ واقعاً مومن ہو ‘ دوسري شرائط بھي ہيں :الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔اوراُن مومنين ميں سے ہوجو نماز قائم کرتے ہيں ۔يہ نہيں فرماياہے کہ جونماز پڑھتے ہوں۔کيونکہ نماز پڑھنا ايک چيز ہے اور نماز کا قيام کرنا دوسري چيز۔ اگر نماز پڑھنا مقصود ہوتا‘ تو ’’يصلّون‘‘ کہا جاسکتا تھا ‘جو ايک مختصر تعبير ہے ۔ايک معاشرے ميں ’’اقامت ِ صلات ‘ ‘کے معني يہ ہيں کہ معاشرے ميں روحِ نماز زندہ ہو‘معاشرے ميں نماز پڑھنے کا چلن عام ہو۔ اور پ جانتے ہيں کہ نماز خواںمعاشرے سے مراد ايک ايسامعاشرہ ہے جس کے تمام گوشوں ميں ذکر ِ خدا اور ياد ِ خدا مکمل طور پر موجزن ہو۔
پ کے علم ميں ہے کہ ايک ايسا معاشرہ جس ميں خدا کا ذکر اور اسکي ياد موجزن ہو‘ اُس ميں کوئي جرم ‘ کوئي خيانت واقع نہيں ہوتي۔ اس معاشرے ميں انساني اقدار کي کوئي توہين نہيں ہوتي۔ايسا معاشرہ جس ميں خدا کي ياد موجزن ہو ‘ اور جس ميں زندگي بسر کرنے والے افراد ذکر ِ خدا ميں مشغول ہوں‘ اُس کا رخ خدا کي جانب ہوتا ہے‘ اور لوگوں کے تمام کام خدا کے لئے ہوتے ہيں۔
معاشرے ميں پائي جانے والي گھٹيا باتوں‘مظالم اورظلم و زيادتي کے سامنے تسليم ہوجانے کاواحد سبب خدا فراموشي ہے ۔ايسامعاشرہ جس ميں خدا کي ياد پائي جاتي ہے ‘اُس کا حاکم علي ابن ابيطالب ٴکي طرح ہوتا ہے ‘جو ظلم نہيں کرتا ‘ بلکہ ظلم کاقلع قمع کرتا ہے ۔اسکے عوام ابوذر غفاري۱ کي مانند ہوتے ہيں ‘ جو مار پيٹ سہنے کے باوجود‘ جلاوطن کئے جانے کے باوجود ‘ڈرائے دھمکائے جانے کے باوجود‘ بے وطن کئے جانے اور بے کس رہ جانے کے باوجود ظلم کے گے سر نہيں جھکاتے ‘ خدا کا راستہ نہيں چھوڑتے۔يہ وہ معاشرہ ہے جس ميں ذکر ِ خداہے‘يہ وہ معاشرہ ہے جس ميں قيامِ نماز ہے ۔ايسا مومن جو معاشرے ميں نماز قائم کرتا ہے ‘ يعني معاشرے کا رُخ خدا کي جانب کرتا ہے ‘ اور معاشرے ميں ذکر ِ الٰہي کو رائج اوربرقرار کرتا ہے ‘وہ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔۔۔۔۔ان لوگوں ميں سے ہے جو نماز قائم کرتے ہيں۔
بات يہيں پر ختم نہيں ہوجاتي‘ہ لوگ:وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ۔دولت کي عادلانہ تقسيم کرتے ہيں ‘ زکات ديتے ہيں ‘ راہِ خدا ميں خرچ کرتے ہيں ۔اسکے فوراً بعد فرماتا ہے:وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔ يعني رکوع کي حالت ميں(زکات ديتے ہيں ) ۔يہ ايک خاص موقع اور داستان کي جانب اشارہ ہے۔ بعض دوسرے مفسرين نے کہا ہے کہ: وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ کے معني يہ ہيں کہ يہ لوگ ہميشہ رکوع کي حالت ميں رہتے ہيںاور يہاں کسي خاص واقعے کي جانب اشارہ نہيں ہے ۔ليکن عربي زبان سے واقفيت اس احتمال کو مسترد کرديتي ہے‘اور ہُمْ رَاکِعُوْنَ کے معني يہ ہيں کہ ايک انسان مساوات کو اس قدرپسند کرتا ہو ‘ راہِ خدا ميں خرچ کا اس قدرمشتاق ہو ‘ فقر اور فقير کو ديکھنا اسکے لئے اتناتکليف دہ ہوتاہو کہ اپني نماز ختم ہونے کا انتظار نہ کرے۔اس انسان ميں راہِ خدا ميں خرچ کي جانب اس قدر شديدرجحان پايا جاتا ہے اور يہ انسان اس فريضے کي ادائيگي ميں اس قدر محو ہوتاہے کہ اس سلسلے ميںصبر نہيں کرسکتا ‘ تحمل کي مجال نہيں رکھتا ۔جب وہ ايک فقير کو ديکھتا ہے ‘ايک ايسا منظرديکھتا ہے جس منظر کو خداپسند نہيں کرتا‘اور اسے بھي وہ پسند نہيں ہوتا ‘اور اس وقت اسکے پاس ايک انگوٹھي کے سوا کوئي اور چيز نہيں ہوتي ‘تو وہ اسي حالت ِ نماز ميں اپني وہ انگوٹھي اتار کر سائل کو دے ديتا ہے ۔لہٰذا يہ تاريخ ميں ايک جانا پہچانا اورخاص واقعہ ہے‘جو امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے ہاتھوں وقوع پذير ہوا تھا۔نجناب ٴنماز پڑھ رہے تھے کہ ايک فقير يا ‘ پ ٴنے راہِ خدا ميں اسے اپني انگوٹھي عطا کردي‘ جس پر يہ يت نازل ہوئي ۔
پس جيسا کہ پ نے ملاحظہ فرمايا ۔يت اشارتاً علي ابن ابي طالب ٴکو ولي امرمقرر کر رہي ہے ۔البتہ اس انداز سے معين نہيں کررہي جس طرح تاريخ ميں لوگوں کو زور زبردستي کے ساتھ معين کيا گيا ہے ۔مثلاً جب معاويہ اپنے لئے جانشين معين کرنا چاہتے ہيں ‘تو کہتے ہيںکہ ميرا جانشين ميرا بيٹا ہے‘ اور وہي ميرے بعد ميرے تخت پر بيٹھے گا۔خدا ئے متعال اس انداز سے پيغمبر کا جانشين معين نہيں کررہا ‘ ليکن کيونکہ سربراہِ حکومت کي خصوصيات خدا پر ايمانِ کامل‘معاشرے ميں قيامِ نماز اوراپنے پ کو فراموش کردينے کي حد تک انفاق اور زکات کي ادائيگي سے لگاؤ حضرت علي ابن ابي طالب ٴہي ميں پائي جاتي تھيں‘لہٰذا خداوند ِمتعال حضرت علي ابن ابي طالب ٴکو خليفہ کے طور پر معين اور نصب کر تے ہوئے اُن کي خلافت کا پيمانہ ‘ کسوٹي اور حکمت بھي واضح کررہا ہے ۔اس بنياد پر اسلام ميں ولي امر ايسا شخص ہوتا ہے جو خدا کا بھيجا ہوا ہو ‘ايسا شخص ہوتا ہے جسے خود خدا معين کرتا ہے۔
کيونکہ تصور يہ ہے کہ کائنات کي طبيعت کے مطابق يہاں کسي انسان کو دوسرے انسانوں پر حکمراني کااختيارحاصل نہيں ہے ‘اور کيونکہ وہ واحد ہستي جسے حکومت کا حق حاصل ہے وہ خدا ہے ‘لہٰذا وہ انسانوں کي مصلحت کے مطابق جسے چاہے يہ حق دے سکتا ہے ۔ اور ہم جانتے ہيں کہ خدا کے کام بغيرمصلحت کے نہيں ہوتے ‘ مرانہ نہيں ہوتے‘اُن ميں زور زبردستي نہيں ہوتي۔بلکہ خدا کے کام انسانوں کي مصلحت کے مطابق ہوتے ہيں۔لہٰذا وہ معين کرتا ہے اور ہميں (اسکے انتخاب کو ) تسليم کرنا چاہئے ۔
خدا وند ِعالم پيغمبر اور امام کو معين کرتا ہے ۔اور امام کے بعدنے والے حاکم کے لئے بھي کچھ صفات معين کرتا ہے ‘اور کہتا ہے کہ ان صفات کے حامل لوگ ائمہ معصومين ٴکے بعد اسلامي معاشرے کے حکمراں ہوں گے ۔پس ولي کو خدا معين کرتا ہے ۔وہ خود ولي ہے ‘ اُس کا پيغمبر ولي ہے ‘ پيغمبر کے بعد نے والے امام بھي ولي ہيں۔خاندانِ پيغمبر سے تعلق رکھنے والے امام متعين کئے گئے ہيں جن کي تعداد بارہ ہے ‘ اور بعد کے مدارج ميں ‘ وہ لوگ جو خاص معيارات اور کسوٹيوں پر پورے اُترتے ہوں‘اُنہيںحکومت اور خلافت کے لئے معين کياگياہے ۔
البتہ يہ ايک يت تھي جسے ہم نے پ کے لئے بيان کيا ۔قرنِ کريم ميں اور دوسري يات بھي ہيں‘ جن ميں سے بعض کاذکر ہم نے ان تقارير ميں کيا ہے‘اور بعض کو خود پ کو قرن ميں تلاش کرنا چاہئے ۔اس بارے ميں بکثرت يات ہيں ۔
اسلام سختي سے اس بات پرزور ديتا ہے کہ لوگوںکے امور کي باگ ڈور ايسے افراد کے ہاتھوں ميں نہيں ہوني چاہئے جو انسانوں کولے جاکر جہنم ميں جھونک ديں ۔
کيا تاريخ نے ہمارے سامنے اس نکتے کي نشاندہي نہيں کي ہے؟ کيا ہم نے نہيں ديکھا کہ اسلام کے ابتدائي شاندار دور کے کچھ ہي عرصے بعد اسلامي معاشرے کے ساتھ کيا گيااوراسکے ساتھ کيا ہوا ؟ اور اس معاشرے پر کيا اُفتاد پڑي ؟يہ ايک ايسا معاشرہ بن گياجس ميں لوگ نيک افراد کي قدر نہيں کرتے ‘ ايک ايسا معاشرہ بن گياجس ميں لوگ نيکي اور بھلائي کے پيمانوں کو بدل ڈالتے ہيں اور اپنے ناصح ‘ خير خواہ اور مصلح کو نہيں پہچان پاتے۔ اس معاشرے کے افراد کو اس حد تک پہنچانے کے لئے اُن پر کس قدر کام کيا گيا ہوگا؟ !
ظالم اور جابر حکمرانوں کي جانب سے اسلامي معاشرے ميں کئے جانے والے مسموم پروپيگنڈے نے لوگوں کي معلومات کے دائرے اور اُن کے طرزِ فکر کو اس قدربدل ڈالاتھا اور اُن کي حالت يہ کردي تھي کہ وہ سياہ کو سفيد اور سفيد کو سياہ سمجھنے لگے تھے ۔لہٰذا جب انسان دوسري اور تيسري صدي ہجري کي تاريخ کا مطالعہ کرتا ہے ‘اور حکومت اور خلافت کي جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے لوگوں کي بے اعتنائي کوديکھتا ہے ‘تو حسرت وياس کي تصوير بن جاتا ہے اورحيران ہوتا ہے کہ کيا يہ وہي لوگ ہيں جن کا پيمانہ صبرحضرت عثمان کے زمانے ميں لبريز ہوگيا تھا‘اور جنہوں نے ان کا محاصرہ کر ليا تھا‘اور انہيں اس دردناک انداز سے خلافت سے معزول کر ديا تھا ؟ کيا يہ وہي لوگ ہيں جو ج ايک عباسي خليفہ کي شادي کي رات اس قدر خطير رقم خرچ ہوتے ديکھ کربے حس وحرکت بيٹھے رہتے ہيںجس کے ذريعے اسلامي معاشرے کے ايک بڑے حصے کے حالات سدھارے جاسکتے تھے۔وہ ديکھتے ہيں کہ يہ مال کس قسم کے کاموں اور کيسي کيسي عياشيوں پر خرچ کيا جارہا ہے‘ ليکن دم نہيں مارتے ؟ مسلمانوں کا پيسہ کس طرح ذاتي معاملات ميں اُڑايا جارہا ہے اور وہ اسکے صحيح يا غلط ہونے سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ؟ !
اگر ايک ہزار افراد کاپيسہ کوئي ايک فرد اپني ذات پر خرچ کرے۔اسے اپني عياشيوں پر نہيں بلکہ اپنے نماز اور روزے پر خرچ کرے ‘ تب بھي کيا يہ عمل جائز ہے ؟ !
لوگ ديکھا کرتے تھے کہ اسلامي معاشرے کے بيچوں بيچ اس قسم کے کام انجام ديئے جاتے ہيں ‘ اسکے باوجود اُن کے کانوں پر جوں تک نہ رينگتي تھي ۔
شايد ہم نے کسي مناسبت سے يہ واقعہ بيان کيا ہوکہ ہارون رشيد کا محبوب اور پسنديدہ وزيرجعفر برمکي ٢٨ تا ٣٠ سال کي عمرميں اپني انتہائي محبوبيت کے دور ميں شادي کرتاہے ۔کيونکہ ہارون رشيد‘ جعفر برمکي سے انتہائي محبت کرتا تھا‘ لہٰذا شادي کي اس تقريب ميں شريک معزز مہمان ديکھتے ہيں کہ شادي کي رات دولہااور دلہن پرنُقل کي بجائے کوئي اور چيز نچھاورکي جارہي ہے ۔يہ مہمان جھپٹ پڑتے ہيں اور يہ چيزجتني جس کے ہاتھ ميں تي ہے اتني وہ اٹھا ليتاہے ۔ اس چيز کو اٹھاکر غور سے ديکھنے پر اُنہيں پتا چلتا ہے کہ يہ انگلي کے پورکے برابر نازک ڈبيائيں ہيں‘جنہيں خالص سونے سے بنايا گيا ہے۔ جب وہ ان ڈبياؤں کو کھولتے ہيں‘تواُن کے اندر سے ايک انتہائي نازک کاغذ برمد ہوتا ہے۔اورجب وہ اس کاغذ کو کھولتے ہيں‘ تو انتہائي تعجب کے ساتھ ديکھتے ہيں کہ يہ اس قدر چھوٹا کيا گياکاغذايک بڑا ورقہ ہے ‘جس پر تحرير ہے کہ ملک کے فلاں حصے کي زمين تمہاري ملکيت قرار دي گئي ہے !
خدا جانتا ہے کہ صرف ايک رات ميں نہ جانے پانچ سو ‘ ٹھ سو ‘ ہزارجاگيروں کے فرمان انتہائي نازک کاغذ پرتحرير کرکے ‘ سونے کي ڈبيوں کے اندر ايک دولہا دلہن پر نچھاور کئے گئے ‘ اور انہيں ايسے لوگوں نے اٹھايا جنہيں خليفہ جانتا بھي نہ تھا کہ وہ کون ہيں ۔مثلاً فرض کيجئے ‘ فلاں وسيع باغ اور فلاں علاقہ ايک بچے کے ہاتھ لگ گيا‘ يا ايک بدمست بدمعاش کے ہاتھ چڑھ گيا ‘ يا ايک کمين اور گھٹيا انسان کے ہاتھ ميں گيا ۔ان لوگوں سے خليفہ توواقف نہيں تھا ‘ اس نے توبس ڈبيائيں پھينک دي تھيں ۔اب اس علاقے ميں جس کا قطعہ زمين اس شخص کے ہاتھ يا ‘ لوگوں کا کس قدر حق پامال ہوگا ‘ کس قدر مال و دولت برباد ہوگا ‘ کس قدر حقوق پامال اور ضائع ہوں گے‘ ان کے لئے يہ اہم بات نہيں تھي اور وہ ان باتوں کے بارے ميں نہيں سوچتے تھے ۔
عين اسي زمانے ميں جبکہ يہ فياضياں‘ بخششيں اورفضول خرچياں جا ري تھيں‘يحييٰ علوي ‘ طبرستان کي پہاڑيوں ميں ظلم و ستم کے خلاف بر سر پيکار تھے ‘ اور اُن کي حالت يہ تھي کہ اُن کے اور اُن کے اہلِ خانہ کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے صرف ايک کپڑاہوتا تھا‘جسے نماز پڑھتے ہوئے پہلے شوہر استعمال کرتااور اسکے بعد اپني بيوي کو دے ديتا تھاکہ وہ اس سے اپنابدن چھپاکر نمازاداکرے ۔ پيغمبر کا گھرانہ جو ظلم و ستم کے خلاف برسر پيکار تھا‘ وہ اِن حالات ميں زندگي بسر کر رہا تھااورلوگ يہ سب کچھ ديکھنے کے باوجود بے پروائي کا مظاہرہ کرتے تھے ۔
ہمارا مقصد ہارون سے گلہ شکوہ کرنانہيںہے۔ہارون اگر يہ کام نہ کرے‘ تو وہ ہارون ہي نہيں ۔طبقہ ہارون کا توتقاضا ہي يہ ہے۔ جب تک يہ طبقہ موجود ہے‘ ايسے کام انجام دئيے جاتے رہيں گے۔لہٰذا ہميں اُس سے شکايت نہيںہے ۔شکايت اور ہمارا گلہ اُن لوگوں سے ہے جو اسلام کے ابتدائي دور کي طرح حساس نہيں رہے تھے ۔وہ ہوشياري اورشعورجو اسلام کے ابتدائي دور ميں ان کے اندر پايا جاتا تھا ‘وہ اس سے محروم ہوچکے تھے ‘اور اس صورتحال کے مقابل ذمے داري کا احساس کھوچکے تھے ۔يہ حالات ديکھ کراُنہيںکوئي دکھ نہيں ہوتا تھا ۔
خر يہ لوگ ايسے کيوں ہوگئے تھے ؟
اسکي وجہ يہ تھي کہ انتہائي مضر‘شرانگيز اورگھٹيا پروپيگنڈہ شدت کے ساتھ جاري تھا‘اور پروپيگنڈے کے ذرائع اور مراکز سے لوگوں کے اذہان پر کام کيا گيا تھا ۔
اسلامي معاشرے کے مختلف طبقات پر اور مملکت ِاسلاميہ ميں سالہاں سال لوگوں کے اذہان پر ‘ لوگوں کي روحوں پر‘ لوگوں کي نفسيات پر کام کيا گيا تھا‘جس کے نتيجے ميں نوبت يہاں تک جاپہنچي تھي۔
پس پ ديکھئے کہ اسلامي معاشرے ميں حاکم کس قدر اہميت رکھتا ہے ‘يہ بات کس قدر اہم ہے کہ حاکم کسے ہونا چاہئے ۔اسلامي معاشرے کا حاکم ايسے شخص کوہونا چاہئے جسے خدا نے معين کيا ہو۔
قرنِ کريم کي ايک دوسري يت کہتي ہے:
’’اَطِيْعُوا اَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔‘‘
’’خدا اور اسکے رسول کي اطاعت کرو‘اور اپنے درميان موجود صاحبانِ امر کي بھي فرمانبرداري کرو ۔‘‘(سورہ نسا٤۔يت٥٩)
صاحبانِ امر سے کيا مراد ہے ؟
وہ جاہل اور نادان مسلمان سمجھتاتھا کہ صاحب ِ امر سے مراد ہر وہ شخص ہے جوحکمراں بن بيٹھا ہو اور ہروہ شخص جوفرمان دينے پر قادر ہو‘ وہ ’’اولي الامر ‘‘ ہے ۔
ہم کہتے ہيں‘نہيں ‘ايسا شخص اولي الامر نہيں ہے ۔اگر ہرفرمانروا اولي الامر ہے اورقرن کي رو سے اسے قانوني حيثيت حاصل ہے‘ تو فلاں پہاڑ پر‘ فلاں طاقتور لٹيرے کا فرمان چلتا ہے‘ وہاں سارے معاملات اسي کے اختيار ميں ہوتے ہيں ۔پس کيا وہاں وہ اولي الامر ہے ؟
شيعہ جس اولي الامرکے قائل ہيں ‘وہ ايک ايسا شخص ہوتا ہے جسے خدا نے حکمراني کا اختيار ديا ہو‘ وہ ايک ايسا شخص ہوتاہے ‘ جو اگرچہ ’’مِنْکُمْ ‘‘ کے مطابق انسانوں ميں سے ہے ‘ ليکن اس نے ولايت خدا سے حاصل کي ہے ‘ کيونکہ ولايت ِ کبريٰ کا مالک خدا ہے ۔
اب کياہارون رشيدجيسے شخص کواُسکي اس حالت کے ساتھ‘ اُسکي ان بے حساب بخششوں اوراُسکي ان فضول خرچيوںکے ساتھ ‘ اس دم کشي کے ساتھ (کہ ايک روز اُس نے اسي جعفر برمکي اور اسکے خاندان کے بہت سے افراد کوموت کے گھاٹ اتار ديا ‘ان کونيست ونابود کر ديا اور بہت سے مومن مسلمانوں کو تہ تيغ کر ڈالا ‘ اور اسي طرح کے دوسرے کام کئے ) اولي الامر قرار ديا جاسکتا ہے ؟ !
اُس دور کا مفتي کہاکرتا تھا کہ ہارون اولي الامر ہے ‘ اور امام جعفر صادق عليہ السلام کے ساتھ اُن لوگوں کي جنگ اور تنازع اسي مسئلے پر تھي ‘کہ وہ امام ٴسے کہتے تھے کہ پ کيوں اپنے زمانے کے اولي الامر کے خلاف ہيں ۔
پس اس مسئلے ميں تشيع کانکتہ نظر انتہائي ٹھوس اور گہراہے ۔ تشيع ‘قرنِ مجيد کے ذريعے يہ ثابت کرنے کے ساتھ کہ اولي الامر کا تقرر خدا کي طرف سے ہوتا ہے ‘ ايسے معياراور پيمانے standards) ( بھي لوگوں کے حوالے کرتي ہے جن کي موجودگي ميں لوگ فريب نہ کھاسکيں ‘ يہ نہ کہيں کہ علي ابن ابي طالب ٴہمارے سر نکھوں پر ليکن ان کا جانشين ہارون رشيد بھي ہميںاسي طرح محترم ہے۔منصور عباسي کہاکرتاتھا کہ ميں امام حسن ٴکو خليفہ مانتا ہوں ‘ ليکن انہوں نے (نعوذبا ) پيسے لے کر خلافت کو فروخت کر ديا تھا ‘لہٰذا اُنہيں خلافت کا حق حاصل نہيںاور جن لوگوں کو انہوں نے خلافت فروخت کي تھي ہم نے اُن سے بزور بازو خلافت چھيني ہے‘ لہٰذااب يہ ہماري ملکيت ہے۔وہ اسي قسم کي باتيں کيا کرتے تھے‘ وہ لوگ بظاہرعلي ابن ابي طالب ٴ کي خلافت کے قائل تھے ‘ اسکے باوجودمنصور عباسي کواُن کے جانشين کے طور پر قبول کرتے تھے۔ انہيں ان دونوں کے درميان کوئي تضاد اور ٹکراؤ نظر نہيں تا تھا ۔
ليکن شيعہ کہتے ہيں کہ يہ بات درست نہيں ہے۔اگر تم علي ٴکو مانتے ہو‘ تو تمہيں خلافت اور ولايت کے معيار کو بھي قبول کرناچاہئے ۔تمہيںيہ بات مانني چاہئے کہ علي ابن ابي طالب ٴکيونکہ ان تمام معيارات پر پورے اُترتے تھے‘ اس لئے ولي کے طورپراُن کا انتخاب ہوا تھا ؟
پس اگر کوئي ان معيارات پر پورا نہ اُترتا ہو ‘ يااُس ميں ان کے برعکس خصوصيات پائي جاتي ہوں ‘ تو اُسے اپنے پ کو علي ابن ابي طالب ٴکا جانشين کہنے کا حق نہيںہے ۔اسے حق نہيں پہنچتا کہ وہ شيعوں کي ولايت کااور ولي امر ہونے کا دعويٰ کرے ‘اور کسي کو اسے ماننے کا حق بھي حاصل نہيںہے ۔يہ وہ اوّلين نکتہ ہے جو ولايت کے مسئلے ميں پيش تا ہے ۔البتہ ہم نے دوسرے نکتے کي جانب بھي اسي جگہ اشارہ کيا ہے اور اس کے بارے ميں يت بھي بيان کي ہے ۔
اگر کوئي يہ سوال کرے کہ پ کس دليل کي بنياد پر کہتے ہيں کہ ولايت ِامر خدا کے اختيار ميں ہے اور خدا کي چيز ہے؟تو اس کا جواب يہ ہے کہ ہمارے اس دعوے کي بنياد ايک طبيعي حکمت ہے ‘ جسے اسلامي تصورِکائنات ميں مشخص اور معين کيا گياہے ۔اسلامي تصورِ کائنات کي رو سے کائنات کي ہر چيز کا سرچشمہ قدرت ِ الٰہي ہے : وَ لَہ مَا سَکَنَ فِي الَّيْلِ وَ النَّہَارِ۔ (١)روز و شب ميںجو کچھ ساکن ہے وہ خدا کي طرف سے ہے ۔جب تمام موجوداتِ خلقت کا مالک وہ ہے ‘ اور تمام چيزوں پر تکويني حکومت اسکے اختيار ميں ہے‘تو تشريعي اور قانوني حکومت بھي اسي کے اختيار ميں ہوني چاہئے ۔اسکے سوا کوئي چارہ نہيں ۔
يہ دوسرا نکتہ تھا ‘ اب ہم بعد کے نکات کي جانب تے ہيں ۔
اب بعد کي يات پر توجہ ديجئے ‘ جو بيان کرتي ہيں کہ :

١۔سورہ انعام ٦۔يت ١٣
اِنَّ اَ يَاْمُرُکُمْ اَنْ تَُدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰي اَہْلِہَا(بے شک خدا تمہيں حکم ديتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کو پلٹا دو )
وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ(اور جب لوگوں کے درميان فيصلہ ‘ حکومت اور قضاوت کرو ‘ تو عدل وانصاف کے مطابق کرو)
اِنَّ اَ نِعِمَّا يَعِظُکُمْ بِہ اِنَّ اَ کَانَ سَمِيْعًا بَصِيْرًا (بے شک پروردگار تمہيں بہترين چيز کي نصيحت کرتا ہے کہ بے شک پروردگار سننے اور ديکھنے والا ہے)(١)پس وہ تمہيںجس چيز کا حکم ديتا ہے اسکي بنياد اُس کاکامل سننا ‘ جاننا اور ہمہ گيرعلم و دانش ہے ۔کيونکہ وہ تمہاري اندروني حوائج و ضروريات سے بھي باخبر ہے اور تمہارے مستقبل پر بھي نظر رکھتاہے ۔ لہٰذا تمہيںجس چيز کي ضرورت ہے ‘ وہ تمہيںفراہم اور عطاکرتا ہے ۔
اس پہلي يت ميں امانت کے بارے ميں گفتگو کي گئي ہے ‘ اور کہاگيا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے حوالے کرو ‘ اوريہ درحقيقت دوسري يت کے لئے زمين ہموار کرناہے ۔
ہميں يہ بات ذہن نشين رکھني چاہئے کہ امانت فقط يہ نہيں ہے کہ ميں پ کوايک روپيہ دوںاورپ مجھے وہ ايک روپيہ واپس لوٹا ديں ۔امانت کے اہم ترين مظاہر اور نمونوں ميں سے يہ ہے کہ انسان اُس شئے کو جو لوگوں کے درميان خدا کي ہے اُسکے اصل مقام اور اُسکے اہل کے حوالے کرے ۔’’ اطاعت ِ الٰہي ‘‘ جو انسان کا خدا کے ساتھ ميثاق اور معاہدہ ہے ‘ اُس پر صحيح صحيح عمل ہونا چاہئے ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خدا کي اطاعت کرے ‘ اور جس کي اطاعت کا خدا نے حکم ديا ہے اسکي اطاعت کرے ۔يہ امانتداري کي بہترين مصداق ہے ۔
بعد والي يت ‘ يعني سورہ نسا کي انسٹھويں يت ميں ارشادِ الٰہي ہے : يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَٰامَنُوْآَ (اے ايمان لانے والو ) اَطِيْعُواا (خدا کي اطاعت کرو)وَاَطِيْعُواالرَّسُوْل(اور خدا کے رسول کي اطاعت کرو ) وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْکُم(اور ان لوگوں کي اطاعت کرو جو تمہارے درميان

١۔سورہ نسا٤۔يت٥٨
صاحب ِ امر ہيں )
ولي امرِ مسلمين حکمِ خدا کا نفاذکرتا ہے
يہاںدوسرے نظريات اورتصورات پر اسلامي نظريئے کے امتياز کي وجہ اور اُن سے اسکے محلِ اختلاف کا پتا چلتا ہے ۔اسلامي نظريہ يہ نہيں کہتا کہ ايک دن ايسا ئے گا جب حکومت کي ضرورت نہيں رہے گي ‘اوريہ کسي ايسے دن کي پيش گوئي نہيں کرتا جس دن معاشرے ميں حکومت نہيں ہوگي۔جبکہ بعض دوسرے مکاتب ‘ ايک ايسے دن کي پيش گوئي کرتے ہيں جب معاشرہ ‘ ايک ئيڈيل معاشرہ بن جائے گا اور اس ئيڈيل معاشرے کي ايک خصوصيت يہ ہوگي کہ اس ميں کوئي حکومت نہيں ہوگي۔ليکن اسلام ايسي پيش گوئي نہيں کرتا ۔
خوارج نے حکومت ِالٰہي کانعرہ لگا کرکہا کہ علي ابن ابي طالب ٴ کو (حکمران) نہيں ہونا چاہئے۔وہ کہتے تھے :لاٰحُکْمَ اِلاَّللّٰہ‘يعني حکومت صرف خدا کا حق ہے ۔جبکہ ان کے جواب ميںامير المومنين کا کہنا يہ تھا کہ:کَلَمِۃُ حَقٍّ يُرٰادُ بِھَاالْبٰاطِل (١) ان کي بات درست ہے اور حقيقي حاکم خدا ہے ۔ وہ ہستي جواحکام و فرامين وضع کرتي ہے اورجس کے ہاتھ ميں زندگي کے تمام امورکي باگ ڈور ہے ‘ وہ خدا ہے ۔ ليکن کيا تمہارا کہنا يہ ہے کہ : لاٰحُکْم اِلاَّ لِلّہِ‘ يا يہ کہہ رہے ہو کہ:لاَاِمْرَۃَ اِلاَّلِلّہ؟ قانون اور حکومت خدا کي ہے ‘ ليکن قانون کا اجراونفاذ کون کرے گا ؟ کيا تمہاري مراد يہ ہے کہ خدا کے سوا کسي اور کو قانون کا اجرا نہيں کرنا چاہئے ؟ لہٰذا پ نے ان کے جواب ميں فرمايا: لاٰ بُدَّلِلنّا سِ مِنْ اَميرٍ‘بہرحال انساني معاشرے کے لئے ايک امير ضروري ہے ‘ ايک حاکم اور فرمانروا ضروري ہے۔ يہ انساني فطرت ہے کہ اسکي حيات ِ اجتماعي کے لئے ايک مجري قانون ہونا لازم ہے ۔صر ف قانون کا ہونا کافي نہيں ہوتا ‘ بلکہ ايک ايسا فردبھي ہونا چاہئے جو اس قانون کا اجرا کرے‘اور اسکے صحيح صحيح نفاذ پر نظر رکھے اوريہي اُولِي الْاَمْرِ مِنْکُم ہے ۔

١۔بات صحيح ہے ليکن اس کا مقصد باطل ہے ۔(نہج البلاغہ۔ خطبہ ٤٠)
ليکن کيا محض اولي الامر مراد ہے؟اور جو کوئي بھي فرما نروابن بيٹھے درست ہے ؟! جبکہ کثرت سے ديکھا گيا ہے کہ ايک ہي جگہ دو افراد ايک دوسرے کے برعکس فرمان جاري کرتے ہيں۔ اس صورت ميں کيا دونوں اولي الامر ہوں گے ؟! يا بکثرت ديکھا گيا ہے کہ ايک انسان نے ايسا فرمان جاري کيا ہے جو عقل کے برخلاف ہے اور عقل و خرد اس فرمانروا کي نفي کرتي ہے ۔کيا پھر بھي ايسا فرمانروااولي الامر ہوگا ؟! يہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے اوراہلِ سنت کے طرزِ فکرکے درميان ايک بنيادي اختلاف پيدا ہوجاتا ہے ۔ہم کہتے ہيں کہ اولي الامر اور فرمانروا ‘ ايسے شخص کو ہونا چاہئے جو خدا کے فراہم کردہ معيارات پر پورا اترتا ہو ۔ جبکہ اہلِ سنت عملاً اس قسم کي شرط کو شرط نہيں سمجھتے اور اسکے مطابق عمل نہيں کرتے ۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَي اِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُْمِنُوْنَ بِاِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَيْر وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلااً (پس اگر کسي چيز ميں تنازع اور اختلاف پيداہو جائے‘تواُسے خدااور رسول کي طرف پلٹادو ‘ اگر تم خدااور روزِ خرت پر ايمان رکھتے ہو ‘يہي تمہارے حق ميں بہتراورانجام کے اعتبار سے بہترين بات ہے )
يہ يت لائق حکمرانوں کي حکمراني کے اچھے نتائج اور نالائق حکمرانوں کي حکمراني کے بُرے نتائج کي جانب لوگوں کومتوجہ کرتي ہے۔ بعد والي يت ميںاس فرمان سے منھ موڑنے والے لوگوںکي مذمت کي گئي ہے ۔
اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ(کيا پ نے اُن لوگوں کونہيں ديکھا جن کا خيال يہ ہے کہ وہ پ پر اور پ سے پہلے نازل ہونے والي چيزوں پر ايمان رکھتے ہيں )
وہ اپنے پ کو مومن سمجھتے ہيں ‘جبکہ وہ ايسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہيں جو خدا پر ايمان کے منافي ہيں ۔
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاکَمُوْآ اِلَي الطَّاغُوْت(اور اسکے باوجود چاہتے ہيں کہ طاغوت سے فيصلہ کرائيں)
يعني اپنے معاملات کے حل اور اُن کے بارے ميں فيصلوں کے لئے طاغوت سے رجوع کريں ‘طاغوت سے رائے ليں ‘ اس سے حکم حاصل کريں ‘اور اسکي رائے کے مطابق اپني زندگي بسر کريں۔ان لوگوں کا يہ عمل ايمان کے منافي ہے ۔
وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ يَّکْفُرُوْا بِہ (جبکہ اُنہيں حکم ديا گيا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کريں)
وَ يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّہُمْ ضَلٰلااً بَعِيْدًا(اور شيطان توچاہتا ہي يہ ہے کہ انہيں گمراہي ميں دور تک کھينچ کر لے جائے۔سورہ نسا٤۔يت٦٠)
ہمارے خيال ميں يہاں شيطان سے مرادکوئي اور چيز نہيں بلکہ خود طاغوت ہے۔
يہ لوگ طاغوت کي پيروي کرنا چاہتے ہيں ‘اور اس بات سے غافل ہيں کہ يہ شيطان‘جسے قرنِ کريم ميں طاغوت قرار ديا گيا ہے‘ انہيں راہِ راست سے دور کرتا ہے ‘اور انہيں گمراہي کي واديوں ميںدھکيل ديتا ہے۔ شيطان انہيں اس راہِ راست سے اس قدر دور کر ديتا ہے کہ پھر ان کا اس پرپلٹ کر نا کوئي سان کام نہيں رہتا ‘بلکہ راہِ راست اور راہِ ہدايت پر واپس نے کے لئے انہيں بہت زيادہ کوشش اور جدوجہد کي ضرورت ہوتي ہے ۔
بعد کا نکتہ ولايت ِ خدا کے بارے ميں ہے ‘اور مومنين کي طرف سے اسے قبول کرنے کي بنياد بھي وہ حکمت ہے جو اسلامي تصور ِکائنات ميں مقرر کي گئي ہے ۔ لہٰذايہ ايک فطري امر ہے۔
يہ جو ہم کہتے ہيں کہ خدا کي اطاعت کرني چاہئے ‘اور ولي امر خدا ہے ‘اسکي ايک فطري اور واضح حکمت ہے ‘ کيونکہ تمام چيزيں خدا کي ملکيت ہيں ‘ اور يت ِقرن: وَ لَہ مَا سَکَنَ فِي الَّيْلِ وَ النَّہَارِ۔ ميںاس نکتے کو اچھي طرح واضح کيا گيا ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.