اسلام اور تاريخي ماديت
كيا اسلام تاريخي ماديت كا حامي ہے؟ كيا ان تاريخي واقعات كي توجيہ و تحليل ميں جو قرآن ميں آئے ہيں، قرآن كي منطق تاريخي ماديت پر مبني ہے؟بعض لوگوں كا خيال يہي ہے۔ ان كا دعويٰ ہے كہ ماركس سے كم از كم ہزار سال پہلے قرآن محمدي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں تاريخ كي توجيہ و تحليل اسي بنياد پر ہوئي ہے۔ عراق كے شيعہ اساتيد ميں ڈاكٹر علي الوردي جنہوں نے كئي ہنگامہ خيز كتابيں لكھي ہيں، جن ميں مشہور كتاب ”منزل العقل البشري“ بھي شامل ہے، انہي لوگوں ميں سے ہيں اور شايد يہ وہ پہلے شخص ہيں، جنہوں نے اس مسئلے كو چھيڑا ہے، آج كل بعض مسلمان صاحبان قلم كے نزديك زبان اسلام سے اس طرح كا تاريخي جائزہ ايك طرح كي روشن فكرى سمجھي جاتي ہے اور يہ اس دور كا ايك مشن ہوگيا ہے ۔
ہماري نگاہ ميں جو لوگ اس طرح سوچتے ہيں، وہ اسلام كو صحيح طرح سے سمجھ نہيں پائے يا تاريخي ماديت صحيح طور پر ان كے مطالعے سے نہيں گذري يا پھر دونوں كو سمجھنے سے قاصر ہيں ۔
تاريخي ميٹريالزم كے جن ”پانچ مباني“ اور ”چھ نتائج“ كي ہم پہلے تشريح كر چكے ہيں، وہ اسلامي منطق سے واقف افراد كو يہ بتانے كے لئے كافي ہے كہ اسلامي منطق اور تاريخي ماديت دو بالكل مختلف اور متضاد چيزيں ہيں ۔
معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں يہ طرز فكر، خاص طور پر اس وقت جب اس پر جھوٹا اسلامي رنگ چڑھ جائے اور اسلام كي مہر تائيد اس پر ثبت ہوجائے، اسلامي كلچر، معارف اور نظريے كے لئے انتہائي خطرناك ہے۔ ہم يہ ضروري سمجھتے ہيں كہ جن مسائل نے اس توہم كو پيدا كيا ہے يا ممكن ہے، جن كي وجہ سے لوگ اس توہم كا شكار ہو كر يہ سمجھ بيٹھيں كہ اسلام اقتصاد كو معاشرے كي بنياد سمجھتا ہے اور تاريخ كي ہويت كو مادي گردانتا ہے، انہيں سامنے لائيں اور ان كا جائزہ ليں ۔
يہاں اس بات كي وضاحت بھي ضروري ہے كہ جن مسائل كو ابھي ہم پيش كريں گے، وہ ان سے كہيں زيادہ ہمہ گير ہيں، جنہيں خود انہوں نے پيش كيا ہے۔ ان افراد نے دو تين آيتوں اور دو تين حديثوں كا سہارا ليا ہے، ليكن ہم ان مسائل كو بھي پيش كريں گے، جنہيں ان لوگوں نے پيش نہيں كيا اور ممكن ہے بعد ميں كبھي انہيں دليل بنايا جائے ۔اس طرح ہم اپني بحث ايك جامع اور كامل صورت ميں آپ كے سامنے پيش كريں گے:
1۔ قرآن نے بہت سے معاشرتي يا اجتماعي مسائل پيش كئے ہيں۔ معاشرتي بحثوں ميں ہم نے قرآن كے وہ الفاظ جو اجتماعي مفہوم ركھتے ہيں، تقريباً پچاس ذكر كئے تھے۔ قرآن كي ان آيات كے مطالعے سے جن ميں يہ الفاظ استعمال ہوئے ہيں، معاشرہ كچھ دو طبقاتي نوعيت كا دكھائي ديتا ہے۔ قرآن ايك طرف سے معاشرے ميں دو طبقاتي كيفيت كو مادي اساس پر يعني مادي استفادہ اور مادي محروميوں كي بنياد پر پيش كرتا ہے اور ان ميں سے ايك طبقے كو ” مََلَأ “ (صاحب جاہ و جلال و تمكنت) ”مستكبر“، ”مسرف“ اور ”مُترف“ اور دوسرے طبقے كو”مستضعف“ (ضعيف و كمزور قرار ديئے جانے والا، ”ناس“، عوام، ”ذريہ“ (چھوٹے، ناقابل وجہ اور ”ملا“ كے مقابل قرار پانے والے)، ”اراذل“ اور ”ارذلون“ (پست اور بے سروپا لوگ) (بہ تعبير قرآن اپني زبان سے نہيں بلكہ مخالفين كي زبان سے نقل كرتا ہے) كے عناوين سے ياد كرتا ہے اور ان دو طبقوں كو ايك دوسرے كے مقابل قرار ديتا ہے اور دوسري طرف معاشرے كي دو طبقاتي كيفيت كو معنوي مفاہيم كي بنياد پر پيش كرتا ہے، ان ميں سے ايك طبقہ كافروں، مشركوں، منافقوں، فاسقوں اور مفسدوں كا ہے اور دوسرے طبقے ميں مومنين، موحدين، متقين، صالحين، مجاہدين اور شہداء شامل ہيں۔ اگر ہم قرآن مجيد كي آيتوں پر غور كريں، جن ميں دو مادي اور دو معنوي طبقات كو پيش كيا گيا ہے، تو ہم ديكھيں گے كہ پہلے مادي طبقے، پہلے معنوي طبقے اور اسي طرح دوسرے مادي طبقے، دوسرے معنوي طبقے كے درميان ايك طرح كا تطابق پايا جاتا ہے، يعني كافروں، مشركوں، منافقوں كا گروہ مستكبروں، مسرفوں، مترفوں، طاغوتوں اور ملاء كے مفہوم ميں آنے والے لوگوں كا گروہ ہے، كوئي اور نہيں اور نہ يہ ہے كہ كوئي الگ گروہ ہو، ان سے اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں سے مركب ہو اور مومنين، موحدين، صالحين اور مجاہدين كا گروہ فقراء، مساكين، خدمت گار، مظلوم، اور محروم اور مستضعف لوگوں كا گروہ ہي ہے، كوئي اور نہيں اور نہ ان سے اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں سے تشكيل پانے والا كوئي گروہ ہے۔
پس مجموعي طور پر معاشرہ سے زيادہ طبقات كا حامل نہيں، ايك بہرہ مند، ظالم اور استعمار گر طبقہ، جس ميں تمام كافرين آتے ہيں اور دوسرا مستضعف گروہ جو مومنين سے مركب ہے اور اس سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ معاشرہ اس استضعاف گر اور استضعاف شدہ طبقوں ميں منقسم ہے اور اسي سے كافر اور مومنين گروہوں كي تشكيل ہوئي ہے۔ مستضعف بنانے كا عمل شرك، كفر، نفاق اور فسخ و فجور سے ابھرتا ہے اور استضعاف شدگي ايمان، توحيد، صلاح، اصلاح اور تقويٰ سے ظہور پذير ہوتي ہے، اس تطابق كي وضاحت كے لئے كافي ہے كہ ہم سورہ اعراف كي ان چاليس آيتوں كا مطالعہ كريں، جو انسٹھويں آيت ”لقد ارسلنا نو حا الي قومہ“ سے شروع ہو كر137ويں آيت، ”ودمرنا ماكان يصنع فرعون وقومہ وما كانوا يعرشون“ پر ختم ہوتي ہيں، ان چاليس آيتوں ميں حضرات نوح، ہود، صالح، لوط، شعيب اور موسيٰ عليہ السلام كے واقعات كا تذكرہ ہے۔ ان تمام واقعات ميں (سوائے لوط عليہ السلام كے واقعہ كے) يہ بات ديكھنے ميں آتي ہے كہ ان تمام پيغمبروں پر ايمان لانے والے لوگ مستضعف طبقے سے تعلق ركھنے والے ہيں، جب كہ جنہوں نے ان كي مخالفت كي ہے اور كفر اختيار كيا ہے۔ ان كا تعلق ملاء و مستكبر طبقہ سے ہے۔ 1اس تطابق كي سوائے طبقاتي وجدان كے جو تاريخي ماديت كا لازمہ اور اس كا مستلزم ہے، دوسري كوئي دليل و توجيح نہيں، پس درحقيقت قرآن كي روح سے ايمان اور كفر كي ايك دوسرے كے مقابل محاظ آرائي دراصل اس محاظ آرائي كا پرتو ہے، جو استضعاف شدگي اور استضعاف گري كے درميان واقع ہے۔
قرآن اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ مالكيت جيسے وہ لفظ ”غنا“ سے تعبير كرتا ہے، طغيان اور سركشي كا باعث ہے، يعني يہ چيز تواضح، فروتني اور ”سلم“ كي ضد ہے، جسے قرآن يوں بيان كرتا ہے:
ان الانسان ليطغي ان رآہ استغنى. (سورہ علق، آيت ۔7)
”اور جب انسان اپنے آپ كو بے نياز اور دولت مند محسوس كرنے لگتا ہے، تو باغي ہو جاتا ہے ۔“
پھر ہم كہتے ہيں كہ قرآن ”مالكيت“ كے بارے اثرات كو واضح كرنے كے لئے قانون كي داستان ذكر كرتا ہے:
”قارون قبطي نہيں سبطي تھا، يعني اس كا تعلق موسيٰ كي قوم سے تھا اور انہيں ميں سے تھا، جنہيں فرعون نے مستضعف بنايا ہوا تھا، ليكن يہي استضعاف شدہ شخص جب كسي نہ كسي طرح بہت زيادہ دولت كا مالك بن گيا، تو اسي مستضعف قوم كے خلاف كام كرنے لگا، جس ميں كل تك وہ خود تھا۔“
قرآن كہتا ہے:
ان قارون كان من قوم موسيٰ فبغي عليھم.
”قارون، موسيٰ كي قوم كا ايك فرد تھا، جس سے بني اسرائيل كي اپني مستضعف قوم كے خلاف ظلم كيا ۔“
كيا يہ بات خود وضاحت نہيں كرتي كہ ظلم كے خلاف پيغمبروں كا قيام خود مالكيت، سرمايہ داري اور سرمايہ داري كے خلاف قيام تھا ۔
قرآن اپني بعض آيتوں ميں اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ پيغمبروں كے مخالف ليڈروں كا تعلق ”مترفين“ كے طبقے سے تھا، يعني اس طبقے سے جو ناز و نعمت ميں غرق تھا ۔43 ويں آيت ميں اس مفہوم كو ايك كلي اور بنيادي قانون كي صورت ميں پيش كيا گيا ہے:
وما ارسلنا في قريۃ من نذير الا قال مترفوھا انا بما ارسلتم بہ كافرون
”ہم نے كسي گروہ ميں كوئي ايسا ڈرانے والا نہيں بھيجا كہ وہاں كے مترفين نے جس كي مخالفت نہ كي ہو اور يہ نہ كہا ہو كہ ہم تمہاري رسالت اور تمہارے پيغام كے سرے سے مخالف اور انكاري ہيں ۔“
يہ تمام باتيں اس چيز كو ظاہر كرتي ہيں كہ انبياء اور ان كے مخالفين كي آپس ميں محاذ آرائي اور كفر و ايمان كي ايك دوسرے كے خلاف صف آرائي تھى، جو دراصل دو سماجي طبقوں استضعاف شدہ اور اشتضعاف گر كي جنگ تھي ۔
2۔ قرآن نے اپنے مخاطبين كو ”ناس“ قرار ديا ہے اور ”ناس“ سے مراد عام اور محروم لوگ ہيں۔ قرآن كا يہ طريقہ اس بات كي دليل ہے كہ قرآن طبقاتي فكر كا قائل ہے اور دعوت اسلام كي قبوليت كا حامل، فقط محروم طبقے كو جانتا ہے اور اسلامي آئيڈيالوجي صرف اور صرف محروم طبقے كو مخاطب كرتي ہے۔ يہ ايك اور دليل ہے كہ اسلام كي نظر ميں اقتصاد معاشرے كي بنياد ہے اور تاريخ، مادي ہويت كي حامل ہے۔
3۔ قرآن نے اس كي تصريح كي ہے كہ تمام مصلحين، تمام مجاہدين، تمام شہداء حتيٰ كہ تمام انبياء عليہم السلام عوام الناس كے درميان سے ابھرے ہيں، نہ كہ نعمتوں ميں غرق اور خوشحال طبقے سے۔ قرآن مجيد جناب رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بارے ميں ارشاد فرماتا ہے:
ھوالذي بعث في الاميين رسولا . (سورہ جمعہ، آيت2)
”اسي نے لوگوں كے درميان جنہيں امت سے منسوب كيا گيا ہے، ايك رسول بھيجا۔ امت بجز محروم طبقے كے اور كوئي نہيں ۔“
اور اسي طرح شہداء راہ حق كے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے:
و نزعنا من كل امۃ شھيداً فقلنا ہاتوا برھانكم. (سورہ القصص، آيت75)
”يعني ہر امت ميں سے جو عوام الناس كا محروم طبقہ ہي ہے، ہم ايك شہيد كو اٹھائيں گے اور ان سے كہيں گے كہ اپني دليل اور اپنے گواہ ساتھ لاؤ ۔“
اقتصادي اور طبقاتي مقام كے ساتھ اعتقادي اور اجتماعي مقام كے تطابق كي ضرورت دراصل تحريكات اور انقلابات كے قائدين كو محروم طبقے ميں سے ابھارتي ہے اور يہ ضرورت صرف ہويت تاريخ كو ماديت اور اقتصاد كو بنياد قرار دينے كي صورت ميں ہي قابل توجيہ ہے۔
4۔ قرآن كے مطابق انبياء عليھم السلام كے قيام كي ماہيت اور معاشرے كے لئے ان كي راہ متعين كرنا عمارت نہيں بلكہ خود بنياد ہے ۔
قرآن سے استنباط ہوتا ہے كہ انبياء عليہم السلام كي رسالت اور بعثت كا مقصد معاشرے ميں عدل، قسط، برابرى اور مساوات قائم كرنا اور طبقاتي فاصلوں اور ان كے درميان حائل ديواروں كو توڑنا ہے۔ تمام انبياء عليہم السلام ہميشہ بنياد سے چل كر، جو ان كي بعثت كا مقصد رہا ہے۔ عمارت تك پہنچے ہيں، عمارت يعني عقائد، ايمان، اخلاقي اصطلاحات اور راہ و روش، انبياء عليہم السلام كا دوسرا مقصد رہے ہيں، جس كے لئے وہ بنياد كي اصلاح كے بعد جستجو كرتے ہيں۔ جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:
من لا معاش لہ لا معادلہ
”جس كے پاس معاش اور مادي زندگي نہيں ہے، اس كے پاس معنوي زندگي كا سرمايہ معاد بھي نہيں ۔“
يہ جملہ معاد و آخرت پر معاش اور معنوي زندگي پر مادي زندگي كے تقدم كو ظاہر كرتا ہے اور معنوي زندگي كو عمارت اور مادي زندگي كو بنياد كے عنوان سے پيش كرتا ہے۔ جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ايك اور حديث يہ بھي ہے:
اللھم بارك لنا في الخبز، لو لا الخبز ما تصدقنا ولا اصلينا
”خداوندا! ہماري روٹي ميں بركت دے كہ اگر روٹي نہيں، تو زكوٰۃ ہے، نہ نماز ۔“
يہ جملہ بھي معنويت كي ماديت سے وابستگي اور اس كي ثانويت كو ظاہر كرتا ہے ۔
آج اكثر لوگوں كا خيال ہے كہ انبياء عليہم السلام كي كوششيں صرف عمارت كي حد تك رہي ہيں۔ وہ لوگوں كے عقيدہ، اخلاق اور رفتار و كردار كو سنوارنا چاہتے تھے اور انہيں مومن بنانا چاہتے تھے۔ بنياد سے انہيں كوئي غرض نہ تھي اور يا بنيادي امور كي حيثيت ان كے نزديك ثانوي تھي يا پھر وہ يہ چاہتے تھے كہ لوگ مومن اور معتقد بنيں۔ ان كا خيال تھا كہ جب لوگ ايمان اور اعتقاد ميں پختہ ہو جائيں گے تو پھر تمام كام خود بخود سنورنے لگيں گے۔ عدالت اور مساوات كا بول بالا ہوگا، استحصال پسند لوگ درست ہوجائيں گے اور محروموں اور مستضعفوں كے حقوق خود اپنے ہاتھ سے انہيں ديں گے۔ غرض يہ كہ انبياء عليہم السلام نے اپنے ايمان اور عقيدے كے زور سے تمام مقاصد ميں كاميابي حاصل كي ہے اور ان كے پيروكاروں كے لئے بھي ضروري ہے كہ وہ ان كي راہ اختيار كريں۔ يہ خيال اور سوچ ايك فريب اور دھوكا ہے، جسے استحصال پسند افراد اور ان سے وابستہ علماء نے انبياء عليھم السلام كي تعليمات كو بے اثر كرنے كے لئے گھڑ كر اس معاشرے پر ٹھونسا ہے كہ اب لوگوں كي اكثريت ان باتوں پر يقين كرنے لگي ہے۔ بقول ماركس:
”جو لوگ مادي مصنوعات برآمد كرتے ہيں، وہ معاشرے كے لئے فكرى مصنوعات برآمد كرنے كي صلاحيت بھي ركھتے ہيں، جن كے ہاتھ ميں معاشرے كي باگ دوڑ ہوتي ہے، وہ معاشرے كي سوچ پر بھي حكومت كرتے ہيں اور معنوي فرمانروائي بھي ان كے ہاتھ ميں ہوتي ہے ۔“ (جرمن آئيڈيالوجي)انبياء عليھم السلام كا طريقہ كار اور ان كا ميتھڈ (Method) اكثريت كي موجودہ سوچ كے بالكل برعكس رہا ہے۔ انبياء عليھم السلام نے پہلے معاشرے كو اجتماعي شرك، بے جا امتيازات، استحصال اور استضعاف شدگي جيسے اخلاقى، عملي اور اعتقادي شرك سے نجات دلائي اور اس كے بعد اعتقادي توحيد اور اخلاقي اور عملي تقويٰ تك پہنچے۔
5۔ قرآن انبياء عليھم السلام كے مخالفين كي منطق كو پوري تاريخ ميں انبياء عليھم السلام اور ان كے پيروكاروں كي منطق كے مقابل قرار ديتا ہے۔وہ بڑي وضاحت سے اس بات كي نشاندہي كرتا ہے كہ مخالفين كي منطق ہميشہ سے قدامت پرستانہ، روايت پسندانہ اور رجعت پسندانہ رہي ہے، جب كہ انبياء عليھم السلام اور ان كے پيروكار مخالفين كے برعكس ہميشہ تجدد پسند، روايت شكن اور مستقبل پر نظر ركھنے والے رہے ہيں۔
قرآن واضح كرتا ہے كہ پہلے گروہ نے ہميشہ وہي منطق استعمال كي ہے جسے عمرانيات كي رو سے استحصال گر اور استحصال شدہ طبقوں ميں بٹے ہوئے معاشرے ميں استحصال گر طبقہ اپنے مفاد كے پيش نظر استعمال كرتا ہے، ليكن انبياء عليھم السلام اور ان كے ماننے والوں كي منطق وہي رہي ہے، جو تاريخ كے محروم اور مظلوم لوگوں كي منطق ہے ۔
قرآن كا گويا يہ التفات ہے كہ اس نے گذشتہ سے متعلق مخالفين اور موافقين كي منطق كو ہمارے لئے پيش كيا ہے اور بتايا ہے كہ ان دونوں گروہوں كي منطق كيا تھي۔ صرف اس لئے كہ يہ دونوں نقطہ ہائے نظر خود ان دو گروہوں كي طرح پوري تاريخ ميں آج تك ايك دوسرے كے سامنے كھڑے رہے ہيں اور قرآن مخالفين اور موافقين كي منطق كو آشكار كر كے آج كے لئے ہمارے سامنے ايك معيار پيش كرنا چاہتا ہے۔
قرآن ميں ايسے بہت سے مقامات كا ذكر ہے، جہاں يہ دونقطہ ہائے نظر ايك دوسرے كے آمنے سامنے آتے رہتے ہيں۔ اہل تحقيق سورہ زخرف كي چاليسويں سے پچاسويں آيت تك سورہ مومن كي23ويں سے 44ويں آيت تك، سورہ طہٰ كي 49ويں سے 71 ويں آيت تك، سورہ شعراء كي 16ويں سے 49آيت تك اور سورہ قصص كي 36ويں سے 39ويں آيت تك كي طرف اس موضوع كے سلسلے ميں رجوع فرما سكتے ہيں۔ يہاں ہم سورہ زخرف كي 20سے 24 تك كي آيتوں كو بطور نمونہ ذكر كر كے ان كے بارے ميں كچھ وضاحت پيش كرنا چاہتے ہيں:
وقالوا لوشاء الرحمن ماعبدناھم، ما لھم بذالك من علم ان ھم الا يخرصون؛ ام آتيناھم كتاباً من قبلہ فھم بہ مستمسكون؛ بل قالوا انا وجدنا آبائنا علي امۃ وانا علي آثارھم مھتدون؛ وكذلك ما ارسلنا من قبلك في قريہ من نذير الا قال مترفوھا انا وجدنا ابائنا علي امۃ وانا علي اثارھم مھتدون۔ قال اولو جئتكم باھدي مما وجدتم عليہ آبائكم قالوا انا بما ارسلتم بہ كافرون.
”اور انہوں نے كہا، اگر خدا چاہتا ہے كہ ہم فرشتوں كي عبادت نہ كريں تو ہم نہيں كرتے (ليكن اب جو كر رہے ہيں، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خدا كي مرضي يہي ہے، يعني مطلق جبر)يہ لوگ اس قسم كي (جبر پسندانہ) گفتگو از روئے دانائي و ادراك يا علمي و منطقي بنياد پر نہيں كرتے، يہ تو صرف فرض و تخمين سے كام ليتے ہيں۔ كيا ہم نے اس سے پہلے ان كے لئے كوئي ايسي آسماني كتاب نازل كي ہے، جس ميں كسي قسم كي جبريت پر مبني بات ہو اور انہوں نے اسے اختيار كيا ہو (ايسا كچھ بھي نہيں، اس ميں نہ كسي سنجيدہ جبري اعتقاد كا دخل ہے اور نہ كوئي ايسي آسماني كتاب ہے، جسے اس سلسلے ميں دليل بنايا جا سكے) بلكہ ان كا اصلي قول يہ ہے كہ ہم نے اپنے باپ دادا كو جس راہ پر چلتے ديكھا ہے، بس وہي ہماري راہ ہے ۔“
(پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے) ان سے فرمايا:
”اب اگر ميں تمہارے لئے كوئي ايسي راہ اور كوئي ايسا طريقہ پيش كروں، جو تمہارے باپ دادا كي راہ سے بہتر اور برتر ہو، تو (كيا يہ جانتے ہوئے كہ منطقي اعتبار سے ميرا راستہ زيادہ صحيح اور زيادہ اصولي ہے) پھر بھي تم اپنے باپ، دادا كي روش پر قائم رہو گے؟انہوں نے كہا: ہم بہرحال تمہارے پيغام اور تمہارے رسالت كے منكر ہيں۔“
ہم ديكھ رہے ہيں كہ انبياء عليھم السلام كے مخالفين بعض اوقات اس جبري منطق اور جبري قضاء و قدر كے نظريے سے كام ليتے ہيں، جس كے مطابق ہمارا كوئي اختيار نہيں، جيسا كہ عمراني حوالے سے پتہ چلتا ہے كہ يہ منطق موجود حالت سے ان فائدہ اٹھانے والوں كي منطق ہے، جو نہيں چاہتے كہ حالات ميں كسي قسم كي تبديلي واقعہ ہو اور اسي لئے وہ قضاء و قدر كو بہانہ بناتے ہيں اور كبھي يہ باپ دادا كي سنت كا سہارا ليتے ہيں اور گذشتہ دور كو مقدس اور قابل پيروي گردانتے ہيں اور گذشتہ سے كسي چيز كے تعلق كو ہدايت يافتہ اور صحيح ہونے كے لئے كافي سمجھتے ہيں۔ ہميشہ سے قدامت پسند اور حالات سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں كي يہي منطق رہي ہے ۔
ان كے مقابلے پر انبياء عليھم السلام روايت پرستي اور جبر پسندي كي بجائے زيادہ منطقى، زيادہ علمي اور زيادہ نجات بخش بات كرتے رہے ہيں، موجودہ حالات سے بيزار اور انقلابي لوگوں كي منطق ہے۔ انبياء عليھم السلام كي پيش كردہ حجت و دليل كے مقابل مخالفين كي بن نہيں پڑتى، تو پھر وہ آخري بات كرتے ہيں اور كہتے ہيں، بہرحال جبر ہو يا نہ ہو، روايتوں كا احترام كريں يا نہ كريں، تمہارا پيغام، تمہاري رسالت اور تمہاري آئيڈيالوجي ہمارے لئے ناقابل قبول ہے آخر كيوں؟ اس لئے كہ تمہارا پيغام ہماري طبقاتي اور اجتماعي موجوديت كي ضد ہے ۔
6۔ مستضعفين اور مستكبرين كے جھگڑے ميں قرآن كا سب سے روشن اور سب سے واضح فيصلہ يہ ہے كہ كاميابي (جيسا كہ تاريخي ماديت، جدلياتي نظريے كي بنياد پر خوشخبري ديتي ہے) مستضعفين كے لئے ہے۔ قرآن اپنے اس فيصلے ميں تاريخ كے جبري اور لازمي راستے كو پيش كرتا ہے اور بتاتا ہے كہ وہ طبقہ جو بالذات انقلابي خصلت كا حامل ہے، اس طبقے كے ساتھ اپنے جھگڑے ميں كہ جو بالذات اور اپنے طبقاتي موقف كي بناء پر قدامت پسند واقع ہوا ہے، كاميابي سے ہمكنار ہوگا اور زمين كا وارث بنے گا۔
ونريد ان نمن علي الذين استضعفوا في الارض و نجعلھم أئمۃ ونجعلھم الوارثين. (سورہ قصص، آيت5)
”ہم نے يہ ارادہ كر ليا ہے كہ مستضعفين پر احسان سے كام ليں اور انہيں پيشوا اور زمين كا وارث قرار ديں ۔“
سورہ اعراف كي 137ويں آيت ميں بھي يہي بات ہے:
واورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشارق الارض و مغاربھا التي باركنا فيھا و تمت كلمۃ ربك الحسني علي بني اسرائيل بما صبروا و دمّرنا ماكان يصنع فرعون و قومہ وما كانوا يعرشون.
”ہم نے موعودہ بركت والي سرزمين كو ايك كنارے سے دوسرے كنارے تك ان لوگوں كے حوالے كيا، جنہيں زمين پر كمزور بنا ديا گيا تھا ۔
بني اسرائيل كے بارے ميں اللہ كا وعدہ ان كے صبر كے مظاہرے كي بناء پر بحسن خوبي پورا ہوا اور جو كچھ فرعون اور اس كي قوم نے انجام ديا تھا، ان كي تمام بنائي اور پيش كي ہوئي چيزوں كو ہم نے نيست و نابود كر ديا ۔“
قرآن كا يہ نظريہ كہ تاريخ كا دھارا محروم، مصيبت زدہ اور استحصال شدہ لوگوں كي كاميابي كي راہ ميں آگے بڑھتا ہے، مكمل طور پر اس اصول پر منطبق، جسے ہم نے پہلے ماديت تاريخ سے اخذ كيا تھا كہ رجعت پسندي اور فرسودہ خيالي استحصال پسندي كي ذاتي خصلتيں ہيں اور چونكہ يہ خصلتيں عالم خلقت كي تكاملي روايات كے خلاف ہيں، لہٰذا مٹنے والي ہيں، ليكن استحصال شدگي كي ذاتي خصلت، روشن فكرى، حركت اور انقلاب ہے اور چونكہ يہ خصلت خلقت كي تكاملي روايات سے ہم آہنگ ہے، اس لئے كامياب ہ ے۔
يہاں ايك مقالے كے ايك حصے اور اس سے حاصل شدہ نتائج كا تذكرہ مناسب نہيں ہوگا جسے روشن فكر مسلمانوں نے مرتب كيا ہے اور ايك كتابچے كي شكل ميں حال ہي ميں شائع كيا ہے۔ يہ گروہ روشن فكرى سے بھي آگے بڑھ گيا ہے اور ماركس زدہ ہوگيا ہے۔ اس مقالہ ميں مذكورہ بالا آيت كو عنوان قرار دے كر نيچے لكھا ہے:
”۔۔۔ يہاں سب سے زيادہ جاذب توجہ چيز اللہ اور تمام مظاہر وجود كا مستضعفين كے حق ميں موقف اختيار كرنا ہے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ زمين كے مستضعف يا كمزور لوگ قرآني نظريے كي بنياد پر ايك ايسا محروم و بے بس طبقہ ہے، جو اپني تقدير كے بارے ميں جبري اور قہري اعتبار سے كسي كردار كا حامل نہيں ۔۔۔ اس مفہوم كو سامنے ركھتے ہوئے، نيز اللہ اور اس كے تمام مظاہر وجود كے موقف كو ديكھتے ہوئے، يعني وجود پر اس كے مطلق ارادے كي حكمراني اور احسان كے پيش نظر سوال پيدا ہوتا ہے كہ آخر وہ كون لوگ ہيں، جو اس كے ارادے كو عملي جامہ پہنانے والے ہيں؟ اس سوال كا جواب بڑا واضح ہے۔ جب ہم معاشرے كو كمزور اور طاقت ور طبقوں ميں تقسيم كرتے ہيں اور پھر يہ بھي جانتے ہيں كہ خداوند عالم كا ارادہ ايك طرف تو زمين ميں كمزور افراد كي وراثت و امامت سے پورا ہوتا ہے اور دوسري طرف استحصالي يا طاقت ور نظام كي تباہي اس كے مقصد كو پورا كرتي ہے، تو پھر صاف ظاہر ہوتا ہے كہ ارادہ الٰہي كو نمود عيني بخشنے والے لوگ يہي مستضعفين، ان كے انبياء عليھم السلام اور وہ باعزم روشن فكر افراد ہيں، جو انہي ميں سے اٹھتے ہيں۔ ايك اور بيان كے مطابق مستضعفين كے درميان سے چنے گئے يہي وہ انبياء عليھم السلام 2 اور شہداء 3 ہيں، جو طاغوتي اور غارت گر نظام سے ٹكرانے كے لئے پہلا قدم اٹھاتے ہيں اور يہ وہ قدم ہوتا ہے، جو مستضعفين كو امامت اور وراثت تك پہنچانے كے لئے راہ ہموار كرتا ہے، يہ مفہوم درحقيقت توحيدي انقلابات اور تاريخي تبديليوں كے بارے ميں ہماري شناخت كا انعكاس ہے 4اور وہ يوں ہے كہ جس طرح توحيدي انقلابات اجتماعي اعتبار سے زمين پر مستضعفين كي امامت اور ان كي وراثت كے گرد گھومتے ہيں، اسي طرح اس تحريك كے رہبروں اور اس كام ميں سبقت لے جانے والوں كے لئے بھي ضروري ہے كہ وہ مستضعفين ميں سے ہوں اور معاشرے كا موقف اور اس كي آئيڈيالوجي بھي مستضعفين ہي كا موقف اور ان كي آئيڈيالوجي ہو ۔“
الف) قرآن كي رو سے معاشرہ دو طبقات پر مشتمل ہے اور ہميشہ استحصالي اور استحصال شدہ طبقوں ميں تقسيم ہوتا ہے۔
ب) ارادہ الٰہي (كہ جو اس مقالہ كي رو سے خدا اور تمام مظاہر وجود كي طرف سے موقف اختيار كرنے سے عبارت ہے) يہ ہے كہ مستضعفين اور تاريخ كے بے بس لوگوں كو بطور كلي امامت و وراثت عطا كرے ۔
اس ميں موحد، مشرك، بت پرست اور مومن وغيرمومن كي كوئي قيد و شرط نہيں، يعني آيت ميں لفظ ”والذين“ استغراق كے لئے ہے اور عموميت ركھتا ہے اور سنت الٰہي استحصال كرنے والے پر مستضعف كي مستضعف ہونے كے ناطے كاميابي سے عبارت ہے۔ باالفاظ ديگر وہ جھگڑا جو پوري تاريخ كا احاطہ كئے ہوئے ہے، اس كي اصلي ماہيت محرومين اور ستم گروں كا ايك دوسرے كے ساتھ مناقشہ ہے اور كائنات كا تكاملي قانون يہ ہے كہ محروم لوگ ستم گروں پر كاميابي حاصل كريں ۔
ج) ارادہ الٰہي خود معاشرے كے مستضعفين كے ذريعے پورا ہوتا ہے اور تمام رہبر، تمام پيشوا، تمام پيغمبر اور تمام شہداء لازمي طور پر مستضعف طبقے سے ابھرتے ہيں، كسي اور طبقہ سے نہيں ۔
د) ہميشہ فكرى مركزوں، اجتماعي بنيادوں اور طبقاتي موقفوں كے درميان تطابق اور ہم آہنگي پائي جاتي ہے ۔
پس ہم ديكھتے ہيں كہ اس آيت سے كس طرح تاريخ كے بارے ميں كئي ماركسي اصول نكلتے ہيں اور كس طر ح قرآن نے ماركس سے1200 پہلے اس فكر اور اس كے فلسفے كو قلم بند كيا ہے؟
اب جب كہ تاريخ كے بارے ميں اس طرح كا نام نہاد قرآني نظريہ برآمد ہوا ہے، تو ہم اپنے دور كي تاريخ كے تجربے ميں اس نظريے سے كيا نتيجہ اخذ كر سكتے ہيں؟ ان حضرات نے بطور نمونہ ايك فوري امر كي صورت ميں اس نام نہاد قرآني اصول كے سہارے نتيجہ حاصل كرنے كي كوشش كي ہے اور علماء كي موجودہ تحريك سے آزمائش كے طور پر استفادہ كيا ہے۔ وہ كہتے ہيں، قرآن نے ہميں تعليم دي ہے كہ انقلاب كے رہبروں اور پيشواؤں كو لازمي طور پر مستضعف طبقے سے ہونا چاہيے۔ ليكن آج ہم ديكھتے ہيں كہ وہ علماء جو تاريخ كو تباہي سے ہمكنار كرنے والي مثلث كا ايك كونہ تھے، آج اپني اجتماعي پوزيشن بدل كر انقلابي ہوگئے ہيں، تو پھر معاملے كو كس طرح حل كيا جائے؟ آسان سي بات ہے، ہميں سختي كے ساتھ بغير ہچكچاہٹ كے اعلان كرنا ہوگا كہ دال ميں كچھ كالا ہے۔ حكمران طبقے نے اپنے آپ كو معرض خطر ميں ديكھ كر اپنے سے وابستہ علماء كو يہ حكم ديا ہے كہ وہ انقلابي كردار ادا كريں تاكہ اس طرح ان كي كرسي بچ جائے۔ يہ ہے وہ نتيجہ جو ماركسي نظريہ (معاف كيجئے گا بقول ان كے قرآني نظريہ) سے حاصل ہوا ہے اور يہ بات واضح ہے كہ اس كا فائدہ كسے پہنچ رہا ہے؟
اعتراض
ماديت تاريخ كي توجيہ ميں قرآن كي نسبت جو كچھ بھي كہا گيا ہے، وہ غلط ہے۔گذشتہ دلائل كا ہم ايك دفعہ پھر جائزہ لينا چاہتے ہيں:
اولاً: يہ بات خالص جھوٹ ہے كہ قرآن نے معاشرے كو دو مادي اور دو معنوي طبقات ميں تقسيم كيا ہے۔ يہ دو طبقے ايك دوسرے كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں، يعني قرآن كي رو سے كافرين، مشركين، منافقين، فاسقين اور مفسدين ہي ملاء، مستكبر اور جابر افراد ہيں اور اس كے برعكس مومن، موحد، صالح اور شہداء ہي مستضعف اور محروم طبقے ميں آتے ہيں۔ كافروں اور مومنوں كي آويزش ميں بنيادي طور پر ظالموں اور مطلوموں كے اختلاف كا انعكاس ہے۔ ہرگز ايسي كوئي مطابقت قرآن سے سمجھ ميں نہيں آتي بلكہ عدم مطابقت ظاہر كرتي ہے ۔
قرآن اپنے تذكرہ تاريخ ميں ايسے مومنوں كو پيش كرتا ہے، جنہوں نے ملاء و مستكبر طبقے سے ابھر كر اسي طبقے كے خلاف اور اس كي اقدار كے خلاف قيام كيا۔ مومن آل فرعون جس كا واقعہ اسي نام سے منسوب ايك سورہ، يعني سورہ ”مومن“ ميں آيا ہے، انہي مثالوں ميں سے ايك ہے، اس كے علاوہ فرعون كي بيوي جو فرعون كي شريك حيات تھي اور كوئي ايسي نعمت نہيں تھى، جس سے فرعون بہرہ مند نہ ہو اور يہ واقعہ بھي انہي واقعات ميں سے ہے، جس كي قرآن نے نشان دہي كي ہے۔ (سورہ تحريم، آيت11)
قرآن نے فرعون كے جادوگروں كے بارے ميں كئي مقامات پر بڑے ولولہ خيز انداز ميں تذكرہ كيا ہے اور يہ بتايا ہے كہ كس طرح انسان كي فطرى حق جوئي اور حقيقت خواہى، حق و حقيقت كے ساتھ جھوٹ، زور، زبردستي اور گمراہي كے خلاف شورش كرتي ہے، اپنے مفادات كو ٹھوكر لگا ديتي ہے اور فرعون كي اس دھمكي سے نہيں ڈرتي كہ وہ ان كے ايك طرف كا ہاتھ اور دوسري طرف كي ٹانگ كاٹ كر سولي پر چڑھا دے گا۔
بنيادي طور پر حضرت موسيٰ عليہ السلام كا قيام از روئے قرآن ايك ايسا قدم ہے، جو ماديت تاريخ كي تنسيخ كرتا ہے، يہ ٹھيك ہے كہ حضرت موسيٰ عليہ السلام قبطي نہيں سبطي تھے ، مثلاً بني اسرائيل ميں سے تھے۔ آل فرعون سے ان كا تعلق نہيں تھا، ليكن وہ بچپن ہي سے فرعون كے گھر پروان چڑھے اور شہزادوں كي طرح ان كي پرورش ہوئى، اس كے باوجود انہوں نے اس فرعوني نظام كے خلاف بغاوت كي جس ميں وہ خود زندگي گذار رہے تھے۔ اس كي دي ہوئي آسائشوں سے بہرہ مند تھے، انہوں نے ان تمام آسائشات كو ترك كر ديا اور مدين كے ايك بزرگ كي گلہ باني كو اپني شاہزادگي پر ترجيح دي۔ يہاں تك كہ مبعوث برسالت ہوئے اور باضابطہ طور پر فرعون كے مقابل آكھڑے ہوئے۔
جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بچپن ميں يتيم اور آغاز جواني تك غريب تھے۔ جناب خديجہ الكبريٰ سے شادي كے بعد آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي مالي حالت سنبھلي اور آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم خوشحال ہوئے۔ قرآن مجيد اسي نكتے كي طرف اشارہ كرتا ہے اور كہتا ہے: الم يجدك يتيما فاوي و وجدك ضالا فهدي و وجدك عائلا فاغني .
يہي خوشحالي كا زمانہ تھا، جب آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے عبادت و خلوت اختيار كي۔ تاريخي ماديت كے اصول كے مطابق جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اس زمانے ميں ايك قد امت پسند فرد بن جانا چاہيے تھا، جو موجودہ حالت ہي پر راضي رہتا، ليكن يہي وہ دور تھا، جس ميں آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني تحريك كا آغاز كيااور مكہ كے سرمايہ داروں، سود خوروں، بردہ داروں اور اس بت پرستانہ نظام كے خلاف علم بلند كيا، جو اس زمانے كي زندگي كي علامت تھے۔ اسي طرح مومنين، موحدين اور توحيد پرست انقلابي سب كے سب مستضعفين ميں سے نہيں تھے، انبياء عليھم السلام استحصالي طبقوں ميں سے ان بيدار فطرت افراد كو بھي نكال لائے تھے، جو كھوٹ سے عاري تھے يا پھر نسبتاً ان ميں كم كھوٹ پايا جاتا تھا اور انہيں اپنے خلاف (عمل توبہ ميں) يا اپنے طبقے كے خلاف (انقلابي عمل ميں) ابھارتے تھے۔ مستضعفين كا طبقہ بھي تمام كا تمام مومنين اور توحيد پرست انقلابيوں كے زمرے ميں نہيں رہا ہے ۔
قرآن ميں ايسے مختلف مقامات ہيں، جہاں اس نے مستضعفين كے بعض گروہوں كي مذمت كي ہے اور انہيں كافروں كے زمرے ميں قرار دے كر مشمول عذاب گردانا ہے۔ 5
پس نہ تمام مومنين كا تعلق مستضعف طبقے سے ہے اور نہ ہي تمام مستضعف مومنين كے طبقے ميں سے ہيں اور يہ مطابقت محض خالي اور بے معني دعويٰ ہے۔ البتہ يہ بات اپني جگہ درست ہے كہ بلاشبہ انبياء عليھم السلام پر ايمان لانے والے طبقے كي اكثريت كا تعلق ہميشہ مستضعف طبقے سے يا كم از كم اس طبقے سے رہا ہے، جو استحصال كرنے سے دور رہا ہے اور ان كے مخالفين كي اكثريت ان لوگوں كي رہي ہے، جو استحصال كرنے والے تھے، كيونكہ انسان فطرت ميں قبوليت كي جو صلاحيت ركھي گئي ہے۔ اگرچہ وہ سب ميں مشترك ہے اور ہر ايك ميں پائي جاتي ہے، ليكن كھوٹ اور موجودہ حالت كا عادي ہوجانے نے استحصالي سرمايہ دار اور خوشحال طبقے كے سامنے ايك ركاوٹ كھڑي كر دي ہے۔ ضرورت اس بات كي ہے كہ وہ اپنے آپ كو ان آلودگيوں كے انبار سے باہر نكاليں اور يہ ايك مشكل كام ہے اور بہت كم لوگوں كو اس ميں كاميابي نصيب ہوتي ہے، ليكن مستضعف طبقے كے سامنے ايسي كوئي چيز حائل نہيں، بلكہ وہ فطرت كي آواز پر لبيك كہنے كے علاوہ اپنے ان حقوق كو بھي حاصل كر ليتا ہے، جو اس سے چھن گئے تھے۔ان كا اہل ايمان كے گروہ سے ملحق ہونا ہم خرما، ہم ثواب كے مصداق ہے، يہي وجہ ہے كہ انبياء عليھم السلام پر ايمان لانے والوں كي اكثريت مستضعفين سے ہے جو غير اقليت ميں ہيں، ليكن مذكورہ صورت ميں تطابق اور مطابقت محض لغو اور بے معني ہے ۔
تاريخي ميٹريالزم كي بنيادوں اور ہويت تاريخ كے بارے ميں ميں قرآني نقطہ نظر كے درميان بڑا فرق ہے۔ بااعتبار قرآن روح ايك اصالت كي حامل ہے اور مادہ روح پر كسي طرح كا تقدم نہيں ركھتا۔ معنوي ضرورتيں اور معنوي ميلانات انساني وجود ميں اصالت كي حامل ہيں اور مادي ضرورتوں سے ان كي كوئي وابستگي نہيں، اسي طرح فكر بھي كام كے مقابل اصالت ركھتي ہے ۔
انسان كي روحاني و فطرى حيثيت اس كي اجتماعي حيثيت پر فوقيت ركھتي ہے۔ چونكہ قرآن فطرى اصالت كا قائل ہے اور ہر انسان كے اندر حتيٰ فرعون جيسے مسخ شدہ انسانوں ميں بھي ايك بالفطرت مقيد انسان كو ديكھتا ہے اور مسخ ترين انسانوں ميں بھي حق و حقيقت كي طرف ميلان كو ممكن جانتا ہے، اگرچہ يہ ميلان خفيف سا كيوں نہ ہو، اسي لئے پيغمبران الٰہي كا كام پہلے درجے ميں يہ تھا كہ وہ ظالموں اور ستم گروں كو نصيحت كرتے رہيں كہ شايد اس عمل سے ان كے اندر كا مقيد انسان اپني بندشوں كو توڑ كر باہر نكل آئے اور پليد اجتماعي حيثيت كے خلاف ان كي فطرى حيثيت كو بيدار كر لے اور ہم ديكھ چكے ہيں كہ بہت سے موارد ميں يہ كاميابي حاصل ہوئي ہے اور ”توبہ“ اسي كا نام ہے ۔
جناب موسيٰ عليہ السلام كو اپني رسالت كے پہلے مرحلے ميں يہ حكم ملا كہ فرعون كے پاس جائيں اور پہلے پند و نصيحت سے اس كي سوئي ہوئي فطرت كو بيدار كريں اور اگر اس ميں كاميابي نہ ہو، تو پھر مقابلے پر اتر آئيں۔ جناب موسيٰ عليہ السلام كي نظر ميں فرعون نے ايك انسان كو اپنے اندر اور بہت سے انسانوں كو باہر كي دنيا ميں قيد كر ركھا تھا۔ حضرت موسيٰ عليہ السلام نے پہلا كام يہ كيا، انہوں نے فرعون كے اندر چھپے ہوئے مقيد انسان كو اس كے خلاف ابھارا۔ دراصل جناب موسيٰ عليہ السلام اس فطرى فرعون كو كہ جو ايك انسان يا كم از كم اس كا بچا كھچا حصہ تھا، اسے اس اجتماعي حيثيت كے حامل فرعون كے خلاف ابھارنے پر مامور ہوئے تھے ۔
اذھب الي فرعون انہ طغي فقل ھل لك الي ان تزكي و اھديك الي ربك فتخشيٰ .
قرآن ہدايت، ارشاد، تذكر، موعظہ، برہان اور منطقي استدلال (قرآن كي اصطلاح ميں حكمت) كے لئے اہميت اور قوت كا قائل ہے۔ قرآن كي رو سے يہ امور انسان كو متغير كر سكتے ہيں۔ اس كي زندگي اور شخصيت كو بدل سكتے ہيں اور اس ميں ايك معنوي انقلاب پيدا كر سكتے ہيں۔ قرآن فكر اور آئيڈيالوجي كے كردار كو محدود نہيں جانتا۔ اس كے برعكس ماركسزم اور ماديت قيادت اور ہدايت كے كردار كو في نفسہ طبقہ كے لنفسہ طبقہ ميں تبديل ہونے تك محدود جانتا ہے، يعني طبقاتي تضادات كو خود آگاہي كي منزل تك پہنچا كر اس كا كام ختم ہو جاتا ہے ۔
ثانياً: يہ جو كہا گيا ہے كہ قرآن كا مخاطب ”ناس“ ہيں اور ”ناس“ اور ”محروم طبقہ“ دونوں برابر ہيں اور اس رو سے مخاطب اسلام محروم طبقہ ہے اور اسلامي آئيڈيالوجى، محروم طبقہ كي آئيڈيالوجي ہے اور اسلام اپنے پيروكار اور جانثار صرف محروم طبقے سے چنتا ہے، بالكل غلط ہے۔ اس ميں كوئي شك نہيں كہ مخاطب اسلام ”ناس“ ہيں، ليكن ”ناس“ كا مطلب انسان ہيں۔ يہ ايك عمومي گفتگو ہے، جو تمام انسانوں كے لئے ہے، كسي لغت اور كسي مروجہ عربي زبان ميں ”ناس“ محروم طبقے كو نہيں كہا گيا بلكہ طبقے كا مفہوم اس ميں آتا ہي نہيں، قرآن كہتا ہے:
للہ علي الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا.
”يعني صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے كہ وہ حج بجا لائيں ۔“
كيا يہاں يہ مفہوم نكلتا ہے كہ اس سے مراد محروم طبقہ ہے؟ اسي طرح قرآن ميں اكثريت كے ساتھ ”يا ايھا الناس“ كے الفاظ آئے ہيں اور كہيں بھي اس سے مراد محروم طبقہ نہيں بلكہ عوام الناس ہيں، قرآن كے تمام عمومي خطابات اس نظريہ فطرت سے ہم آہنگ ہيں، جسے قرآن نے خود پيش كيا ہے ۔
ثالثاً: قرآن كے بارے ميں يہ بات بھي درست نہيں كہ وہ اس بات كا مدعي ہے كہ تمام انبياء عليھم السلام تمام قائدين اور تمام شہداء صرف مستضعف طبقے سے ابھرتے ہيں۔ قرآن نے ہرگز ايسي كوئي بات نہيں كي ہے ۔
”ھو الذي بعث في الاميين ۔۔۔“
كي آيت كو استدلال بنا كر جو كہا گيا ہے كہ پيغمبر ”امت“ سے ابھرتا ہے اور ”امت“ عام لوگوں كے مساعي ہے، بڑي مضحكہ خيز بات ہے، ”اميين“، ”اُمّي“ كي جمع ہے اور يہ لفظ ناخواندہ كے مفہوم ميں آتا ہے۔ ”اُمّي“ امت سے نہيں ”ام“ سے منسوب ہے اور پھر ”امت“ اس معاشرے كا نام ہے، جس ميں بہت سے گروہ مختلف طبقات كے امكان كے ساتھ باہم جي رہے ہوں۔ امت ہرگز عام لوگوں كے طبقے سے عبارت نہيں ہے۔ اس سے زيادہ مضحكہ خيز استدلال وہ ہے، جو سورہ قصص كي پچھترويں آيت سے شہيدوں كے بارے ميں كہا گيا ہے۔ آيت يہ ہے:
ونزعنا من كل امۃ شھيداً فقلنا ھاتوا برھانكم.
اس آيت كي تفسير (جو دراصل مسخ ہے) اس طرح كي گئي ہے:
”ہم ہر امت (ہر طبقے) سے ايك شہيد كو (اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والے كو) اٹھاتے ہيں، يعني ان سے ايك انقلابي شخص كو ابھارتے ہيں اور پھر تمام امتوں سے كہتے ہيں كہ وہ اپنے اپنے برہانوں كو جو شہيد اور اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والي انقلابي شخصيتيں ہي ہيں، كو اپنے ساتھ لائيں ۔“
اولاً: يہ آيت ايك دوسري آيت كا حصہ ہے اور ان دونوں كا تعلق قيامت سے ہے:
ويوم يناديھم فيقول اين شركائي الذين كنتم تزعمون.
”قيامت كا دن وہ ہوگا، جس ميں خدا مشركوں كو آواز سے گا كہ كہاں ہيں وہ شركاء جن كا تم مجھ پر گمان كيا كرتے تھے ۔“
ثانياً: ”نزعنا“ كا مطلب جدا كرنا ہے، ابھارنا اور اكسانا نہيں ہے ۔
ثالثاً: شہيد كے معني اس آيت ميں خدا كي راہ ميں قتل ہونے والا نہيں بلكہ اعمال پر ناظر اور گواہ ہے اور قرآن مجيد ہر پيغمبر كو امت كے اعمال پر گواہ گردانتا ہے۔ قرآن ميں كہيں بھي لفظ ”شہيد“ اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والوں كے لئے نہيں آيا، لہٰذا جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرين عليہم السلام نے اسے آج ہي كے رائج مفہوم ميں استعمال كيا ہے، ليكن قرآن ميں يہ لفظ اس مفہوم ميں نہيں آيا، پس يہ بات ہماري نظر سے گذر رہي ہے كہ كس طرح نامربوط ماركسي نظريہ كي توجيہ كے لئے قرآن كي آيتوں كو مسخ كيا جارہا ہے ۔
رابعاً: انبياء عليھم السلام كے ہدف كے بارے ميں وہ كيا ہے؟ كيا ان كا پہلا اور اصلي ہدف عدل و قسط قائم كرنا ہے يا بندے اور خدا كے درميان ايمان اور معرفت كے تعلق كي برقراري ہے يا پھر دونوں ہي باتيں ہيں، يعني انبياء عليھم السلام بااعتبار ہدف ”ثنوي“ ہيں يا كوئي اور بات بروئے كار ہے۔ ہم نے ”نبوت“ كي بحث ميں اس پر گفتگو كي تھى، جسے اب دہرانا نہيں چاہتے۔ (”وحي و نبوت“ اسي سلسلے كي تيسري كتاب) اس منزل پر ہم موضوع كو پيغمبروں كے كام كي ”روش“ اور Method كے اعتبار سے پركھنا چاہتے ہيں۔ جيسا كہ ہم عملي توحيد كے مباحث ميں بھي عرض كر چكے ہيں (”توحيدي تصور كائنات“ اسي سلسلے كي دوسري كتاب) انبياء عليھم السلام تو بعض متصوفين كے انداز فكر كے مطابق انسان كي اصلاح كے لئے اپني تمام كوششوں كو اس پر صرف كرتے تھے كہ اسے باطني طور پر آزاد بنائيں تاكہ وہ اشياء سے اپنا رشتہ توڑ لے اور نہ ہي بعض مادي مكاتب كي طرح باطني روابط كي اصلاح و تعديل كے لئے ظاہري يا بيروني اصلاح و تعديل كو كافي سمجھتے تھے۔ قرآن نے ايك جملے ميں اس مسئلے كو حل كر ديا ہے:
تعالوا الي كلمۃ سوآء بيننا و بينكم ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرك بہ شياء ولا يتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللہ . (سورہ آل عمران، 64)
”اے اہل كتاب ايك ايسي بات كي طرف آجاؤ، جو ہمارے اور تمہارے درميان يكساں ہے كہ ہم سوائے خدا كے كسي كي پرستش نہ كريں اور اس كا كسي كو شريك نہ بنائيں اور حقيقي خدا كو چھوڑ كر ہم ميں كوئي كسي كو پروردگار نہ بنائے ۔“
ليكن گفتگو اس باب ميں ہے كہ كيا انبياء عليہم السلام اپنے كام كا آغاز اندر سے كرتے ہيں يا باہر سے؟ كيا پہلے وہ عقيدے، ايمان اور معنوي جذبے كے ذريعے سے اندروني يا باطني انقلاب برپا كرتے ہيں اور ان لوگوں كو جو توحيدى، فكرى، احساسي اور عاطفي انقلاب سے بہرہ مند ہوجاتے ہيں، انہيں اجتماعي توحيد، اجتماعي اصلاح اور عدل و انصاف كي برقراري كے لئے ابھارتے ہيں؟ يا پہلے مادي پلڑے ميں اپنا وزن ڈال كر يعني محروميوں، دھوكہ بازيوں اور زيادتيوں پر لوگوں كي توجہ مركوز كر كے انہيں حركت ميں لاتے ہيں اور اجتماعي شرك اور بے جا امتيازات كا قلع قمع كرنے كے بعد وہ ايمان، عقيدے اور اخلاق كي جستجو ميں نكلتے ہيں؟
انبياء عليھم السلام اور اولياء الٰہي كي روش كا تھوڑا سا مطالعہ اور اس پر تھوڑي سي توجہ بھي ہميں يہ بتاتي ہے كہ وہ اپنا كام مصلحتوں اور انساني اصلاح كے مدعيوں كے برعكس فكر، عقيدے، ايمان، معنوي اضطرار، عشق الٰہى، مبداء اور معاد كے تذكرے سے شروع كرتے ہيں۔ سوروں كي ترتيب، قرآن مجيد كي نازل شدہ آيتوں كا مطالعہ كہ وہ كن مسائل سے شروع ہوئي ہيں اور اسي طرح جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي سيرت كہ انہوں نے اپني تيرہ سالہ مكي زندگي اور دس سالہ مدني زندگي ميں كن مسائل پر توجہ دى، اس موضوع پر كافي روشني ڈالتي ہيں۔
خامساً: يہ ايك فطرى بات ہے كہ پيغمبر كے مخالفين رجعت پسندانہ منطق كے حامل تھے۔ ليكن اگر اس بات كو قرآن سے استنباط كيا جاتا اور وہاں ديكھا جاتا كہ انبياء عليھم السلام كے تمام مخالفين بلا استثناء اس منطق كے حامل تھے، تو يہ بات بھي سامنے آتي ہے كہ ان تمام مخالفين كا تعلق با حيثيت، خوشحال اور استحصال پسند طبقے سے تھا۔ قرآن سے جو بات سامنے آتي ہے، وہ يہ ہے كہ يہ منطق ان وڈيروں اور مخالفوں كي رہي ہے، جنہيں ملاء و مستكبر كہا جاتا ہے اور وہ لوگ جن كے ہاتھوں ميں بقول ماركس معاشرے كي مادي اجناس كي كنجي تھى، ان كي فكرى اجناس كو دوسروں تك پہنچاتے تھے اور يہ بات بھي فطرى ہے كہ پيغمبروں كي منطق، فكرى، تعقلي اور تقاليد و روايات سے پاك رہي ہے اور ايسا ہونا بھي چاہيے، ليكن اس كي وجہ ہرگز يہ نہيں ہے كہ طبقاتي محروميوں، مظلوميتوں اور استضعاف شدگيوں نے ان كے ضمير اور وجدان كو ايسا بنا ديا ہو اور يہ منطق ان كي محروميوں كا لازمي اور فطرى انعكاس ہو، بلكہ يہ اس لئے تھے كہ انہوں نے منطق، تعقل، عواطف اور انساني احساسات كي آغوش ميں پرورش پائي اور انسانيت نے انہيں رشد و كمال تك پہنچاديا۔ يہ بات ہم بعدميں بتائيں گے كہ انسان جس قدر انسانيت ميں رشد و كمال كي منزليں طے كرے گا اتنا ہي طبيعي اور اجتماعي ماحول سے اس كي وابستگي كم ہو جائے گي اور وہ وارستگي اور استقلال كي منزل كر لے گا۔ پيغمبروں كي مستقل منطق اسي بات كي متقاضي رہي ہے كہ وہ عادات و روايات و تقاليد كے پاپند نہ ہوں اور لوگوں كو بھي ان روايات اور اندھي تقاليد سے باز ركھيں ۔
سادساً: استضعاف كے بارے ميں بھي جو كچھ كہا گيا، وہ بھي قابل قبول نہيں، ليكن كيوں؟
اس لئے كہ اولاً قرآن نے اپني دوسري آيتوں ميں بڑي صراحت كے ساتھ تاريخ كي سرنوشت اور اس كے انجام كو كسي اور صورت ميں بيان كيا ہے، جب كہ ضمناً تاريخ كے تكامل كي جگہ كو بھي بيان كيا ہے اور وہ آيتيں اس آيت كے معني كي بالفرض كہ اس كا معني وہ ہو، جو بيان كيا جاتا ہے، شارح اور مفسر ہيں اور اسے مشروط بناتي ہيں۔
ثانياً: رائج و عام باتوں كے خلاف بنيادي طور پر استضعاف كي آيت نے كسي كلي اصول كو پيش نہيں كيا تاكہ اس ضمن ميں آنے والي آيتوں كے ساتھ موازنے كي منزل ميں كسي تفسير و توضيح كي يا آيت كو مشروط بنانے كي ضرورت ہو، يہ آيت اپني پہلي اور بعد كي آيت سے متصل ہے اور ان مربوط آيتوں پر توجہ سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ يہ آيت جس طرح كہ اس سے استدلال كياگيا ہے، كلي اصول كو بيان نہيں كر رہي۔ پس اس آيت كے بارے ميں ہماري بحث دو حصوں ميں منقسم ہوتي ہے۔ پہلے حصے ميں فرض كيا گيا ہے كہ ہم نے اس آيت كو اس كي پہلي اور بعد كي دس آيتوں سے جدا كر ديا ہے اور اسي سے ايك كلي تاريخي اصول اخذ كر ليا ہے، اس كے بعد اس كا دوسري آيتوں كے ساتھ موازنہ كرتے ہيں، جو اس آيت سے ماخوذ اصول كے برخلاف تاريخ كے ديگر اصولوں كي حامل ہيں، پھر ہم يہ ديكھتے ہيں كہ مجموعي طور پر ہميں اس سے كيا حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے حصے ميں گفتگو كا موضوع يہ ہوگا كہ يہ آيت بنيادي طور پر جس طرح كہ اس سے استدلال كيا گيا ہے، كلي تاريخ اصول بيان ہي نہيں كر رہي اور اور اب پہلے حصہ پر گفتگو ہوتي ہے۔ قرآن مجيد كي بعض آيتوں ميں تاريخ كي سرنوشت، اس كے سرانجام اور نيز تكامل تاريخ كے راستے اور مقام كے بارے ميں ضمناً گفتگو ہے اور يہ اسي وقت ميسر ہوگا، جب بے ايماني پر ايمان، فجور پر تقويٰ، بدعنواني پر اصلاح اور ناشائستہ عمل پر شائستہ عمل كي كاميابي ہوگي۔ سورہ نور كي 55ويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:
وعدا للہ الذين امنوا منكم و عملوا الصلحت ليستخلفنھم في الارض كما استخلف الذين من قبلھم وليمكنن لھم دينھم الذي ارتضي لھم وليبد لنھم من بعد خوفھم امنا يعبد و نني لا يشركون بي شيئا
اس آيت ميں جن لوگوں سے خلافت اور وراثت ارض كا وعدہ كيا گيا ہے اور انہيں حتمي كاميابي كي خوشخبري دي گئي ہے، شائستہ كار مومن ہيں۔ اس آيت ميں استضعاف كي آيت كے برخلاف جس ميں استضعاف شدگي اور محروميت و مظلوميت كا ذكر ہے، آئيڈيالوجيكل اور اخلاق و كردار جيسي صفات كا ذكر كيا گيا ہے اور درحقيقت ايك طرح كے عقيدے، ايك طرح كے ايمان اور ايك طرح كے كردار كي كاميابي اور آخري غلبے كا وعدہ كيا گيا ہے۔ بعبارت ديگر اس آيت ميں ايماندار، حقيقت پسندانہ اور راست كردار انسان كي كاميابي كا اعلان ہوا ہے۔ اس كاميابي ميں جس چيز كي نويد دي گئي ہے ۔
حوالہ جات
۱. مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ فرمائيں: جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايمان لانے افراد كے بارے ميں سورہ كہف آيت ۔28، جناب نوح عليہ السلام كي امت كے بارے ميں سورہ ہود آيت ۔111، جناب موسيٰ عليہ السلام كے پيروكاروں كے بارے ميں سورہ يونس آيت ۔83، جناب شعيب عليہ السلام پر ايمان لانے والوں كے بارے ميں سورہ اعراف آيت ۔88 ۔90، جناب صالح عليہ السلام كا ساتھ دينے والوں كے بارے ميں سورہ اعراف آيت ۔75۔76 ، طوالت سے بچنے كے لئے انہي آيتوں كا اشارہ كافي ہے۔
۲. فٹ نوٹ ميں سورہ جمعہ كي دوسري آيت: ”ھو الذي بعث في الاميين رسولا“ اور سورہ بقرہ كي 129ويں آيت كا ذكر ہے، جو اس بات كو ظاہر كرتي ہے كہ انبياء عليھم السلام كا تعلق ”امتوں“ سے ہے اور امتوں سے مراد محروم طبقے ہيں، ہم بعد ميں اس استدلال كا جائزہ ليں گے۔
۳. فٹ نوٹ ميں سورہ قصص كي آيت: ”ونزعنا من كل امۃ شھيدا“ كي طرف اشارہ كيا گيا ہے اور يہ فرض كيا گيا ہے كہ آيت اس مفہوم كو پيش كرتي ہے كہ اللہ كي راہ ميں شہيد ہونے والے ہميشہ ”امتوں“ اور چھوٹے طبقوں ميں سے ابھرتے ہيں، اس آيت كے بارے ميں بھي ہم اپنے مقام پر گفتگو كريں گے۔
۴. يہ لوگ اس بات كے اظہار كے بغير كہ ماركس كي تاريخي ماديت كا سانچہ بنا رہے ہيں، اپنے اول خول كو ”معرفت قرآني“ كے انعكاس كا غلاف چڑھا كر پيش كر رہے ہيں ۔
۵. سورہ نساء آيت97، سورہ ابراہيم آيت21، سورہ نساء آيات13 تا 37، سورہ مومن آيات47 تا50.