ائمہ اطہار کے ایرانی اصحاب
کتاب
ائمہ اطہار کے ایرانی اصحاب
کا مقدمہ جو عالیجناب حجة الاسلام استاد علی انصاری بوير احمدی نے تحریر فرمایا ہے کو ہم یہاں بطور تعارف کتاب پیش کر رہے ہیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے ایرانی اصحاب
مقدمہ
مكتب اسلام ایک عالمی, حقيقت پر مبني اور واقع بين دین ہے اسلام کے الٰہی علوم و معارف میں هر قسم کی برتریوں قوی برتری جوئی,ذات پات ,قبیلہ,نسل اور رنگ وغیرہ کی فضلیتوں برتریوں اور ہر قسم کے تفاخر اور مباہات کو بے فضول,حقیر اور گھٹیا شمار کیا جاتا ہے۔ يہ اصولي مکتب,کردار کا ملاک و معيار حقیقت انسانیت کے اصولوں پر عمل اور افضليت و برتری کا معیار تقوی اور ضروریات دینی پرعمل کو قرار دیتا ہے۔
اگرچہ مسلک تشیّع کی پیدائش عرب بلاد میں ہوئی لیکن یہ مسلک صرف عرب سرحدوں تک منحصر اور محدود نہیں رہا بلکہ اُنہی ابتدائی ایام میں بعض آزاد قوموں کے بزرگ اور عظیم افراد نے اسے پسند کیا اور عالم تشیّع کے عظیم المرتبت رہبر امیر المومنین علیہ السلام کی معیّت اور ہمراہی فرمائی۔
جس دن پیغمبر اکرم| نے اپنا یہ نورانی اور زندہ و جاوید کلام ارشاد فرمایا کہ: سلیمان ہمارے خاندان اور ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے ہیں۔ شائد اس کلام کے ذریعے آپ|جناب سلیمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ اوران کے بعدان کی آنے والی قوم کے خاندان اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں موثر کردار اور خدمات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے تھے۔
پيغمبر اسلام| کے علاوہ حضرت امام علي علیہ السلام بھی ايرانيوں سے اپنے دلی لگاؤ اور محبت کا اظهار فرماتے تھے۔
جس دن امير المؤمنين علیہ السلام کوفہ تشریف لائے جو کہ ايران کی سرحد سے نزديکترين شہر تھا اور یہاں پر سکونت فرمائی تو ايران کے لوگ آپ کي طرف متوجہ ہوئے۔ آنحضرت علیہ السلام کو جب گذشتہ مسلمان حکام سے مقائسہ کیا تو ان سے بالکل مختلف پایا۔ ان لوگوں نے جب عدالت پر مبنی علوی حکومت کی روش اور طریقہ کار کو دیکھا جو کہ بے سابقہ تھی تو دل و جان سے آپ کے مطیع و فرمانبردار ہوگئے, اور پورے زور و شور اور ہجوم کے ساتھ آنحضرت علیہ السلام کی محافل میں شرکت کرنے لگے۔
امير المؤمنين علي علیہ السلام ايرانيوں کو اپني طرف بلاتے,گرم جوشی کے ساتھ ان کا استقبال کرتے اور ان کے ساتھ مانوس ہو جاتے تھے اس موقعہ پر اشعث ابن قيس کندي نے امير المؤمنين علي علیہ السلام سے کہا:اس ترتيب سے ايرانيوں نے آپ سے ہماری بہرہ مندی اورفائدہ اٹھانے کي فرصتيں لے لي ہیں!
امير المؤمنين علي علیہ السلام نے اس طرح جواب ديا:
اگر ميں ايرانيوں کو ترجيح ديتا ہوں تو يہ اسلئے ہے کہ يہ لوگ آئندہ تمہيں دين کی نگهداری اور حفاظت کے لئے قدرت و طاقت کے ساتھ بلائيں گے, جس طرح تم لوگوں نے ان کو قدرت کے ساتھ اسلام قبول کرنے پر تيار و آمادہ کيا۔
اسلام ناب محمدی کے نظریات,عقائد, معارف اور علوم اسلام, اصلي اور بغير کسي انحراف و کجروي کے افضل ترین تفکرات پر مشتمل اور پوری دنیا کو شامل ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ موالی اور ایرانیوں پر اموی حکمرانوں اور خلفاء کا ظلم و ستم جس قدر بڑھتا جاتا تھا اور عربی افضلیت طلبی اسلام واقعی کے تفکر پر غلبہ پاتی جاتی تھی۔ایرانیوں کا اصلی اسلام محمدی اور تشیّع کی طرف جھکاو بڑھتا جاتا تھا۔چونکہ ایرانی اچھی طرح جان چکے تھے کہ اہل بیت علیہم السلام اور پیغمبر اکرم| کا خاندان ہی اصل میں اسلام کے حامی اور حقیقی اسلام کے نمونے ہیں۔
پيغمبراسلام| نے پورے عزم و ارادہ کے ساتھ جاهلانہ,تعصب اور نسلي تفاخرات و مباهات کے ساتھ مقابلہ کيا اور بشر خصوصاً مسلمانوں کي اتحاد کے لئے فراگیر اور انتھائي وسيع پیمانے پر کوشش فرمائیں۔پيغمبر اسلام| کے اهل بيت علیہم السلام بھي قوم پرستي کے جاہلانہ بے بنیاد تفکرات اور عربي افضليت طلبي کے خيالات کے مخالف تھے اور ہر قوم و نسل کے تمام مسلمانوں کي طرف مساوات و برابري کي نظر سے ديکھتے تھے اور فخر و مباھات کا معيار صرف تقويٰ کو قرار دیتے تھے۔
تشيع کے رہبروں اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے بہت سے ايراني اصحاب اور دوست تھے جيسے سلمان فارسي, ابوالاسود دوئلي, سعيد ابن فيروز, عبداللہ بن کثير, ميثم تمار, محمد بن سيرين, جابر بن حجاج, سعد بن حراث, اسماعيل بن عبدالرحمن , طاؤس بن کيسان, حماد بن ابي سليمان, مقاتل بن سليمان, جابر بن حيان, محمد بن سليمان اصفھاني, ھشام بن حکم, علي بن يقطين, يونس بن عبدالرحمن قمي, زکريا بن آدم قمي, فضل بن شاذان, حسين بن عبداللہ نيشابوري, حسين بن اشکيب خراساني, ابن بابويہ قمي, حسين بن روح نوبختي, محمد بن ابراہيم مہزيار وغيرہ
بعض جاہل لوگوں کي کوشش ہے کہ تشيع کو اسلام سے جدا کريں اور اس کی شکل گیری اور تشکيل پانے کي نسبت ايرانيوں کي طرف ديں اور تشیّع کو ایرانیوں کے اعراب سے شکت کھانے کے بعد ان کے انتفام جویانہ اہداف کا نتیجہ قرار دیں۔ بعض دوسرے دعويٰ کرتے ہيں کہ ايرانيوں نے تشيع کے ايجاد اور اس کو قوي کرنے سے اسے اپنے پرانے آداب اورکہن رسومات کي حفاظت کا وسيلہ قرار ديا ہے۔
تھوڑي سي تحقيق و جستجو سے اس قسم کے نظريات اور دعوے باطل ثابت ہوجاتے ہیں اورواضح ہو جاتا ہے کہ اس قسم کے شبھات, دشمني و تعصب کي وجہ سے پھیلائے جاتے ہیں اور حقيقت و واقعيت سے دور ہيں۔شیعہ ایک الٰہی اور اسلامی مذہب ہے جو خداوند متعال اور رسول اکرم| کے حکم سے ہم تک پہنچا ہے اور اہل بیت علیہم السلام کي امامت سے آگے بڑھا ہے۔
ايرانیوں نے عاقلانہ اور آزادانہ بنیادوں پر اسلام قبول کيا ہے اور رسول اکرم| کے بعد اس فرد کی تلاش میں تھےجس کي رہبري و ولايت حقيقي ہو اور جو بخوبی صراط مستقيم (سيدھے راستے) اور ابدی سعادت و کاميابي کي طرف ھدايت و رھبري کر سکے, چنانچہ انہوں نے کمال مطلوب کو پیغمبر اسلام| کے اس نورانی کلام میں پایاجس میں آپ| فرماتے ہیں:
«ان تولّوا علياً تجدوه هادياً مهديا يسلك بكم الطريق المستقيم»
اگر تم نے علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کر لیا تو اسے ایسا ہدایت یافتہ ہادی پاو گے جو تمہاری بخوابی راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرے گا۔
پيغمبراسلام| نے کئي بار علي علیہ السلام کي بلافصل ولايت اور تشيع کي اصالت و حقانيت بيان فرمائي ہے, ليکن ہم اختصار کي وجہ سے صرف ايک چھوٹي سی حديث جو بہت سے معاني پر مشتمل اور حقيقت کي حکايت کرنے والي ہے, کی طرف اشارہ کريں گے۔
”علي و شيعته هم الفائزون يوم القيامة“
علي علیہ السلام اور ان کے شيعہ قيامت کے دن کامياب ہيں۔
اہل بيت علیہم السلام کے ساتھ ایرانیواں کی محبت و عشق اہل بیت علیہم السلام بالخصوص امام حسین علیہ السلام کے لئے قربانی اور جانثاری کا باعث بنا۔ امام حسین علیہ السلام کی حمایت کے لئے کربلا میں ایرانیواں کا حاضر ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہونا چشم گیر اور قابل مشاہدہ ہے۔دانشمند بزرگوار علامہ شریف قریشی ۱۲ ایرانی شہداء جو معرکہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہوئے کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا لشکر دو عناصر عرب اور غیر عرب موالی پر مشتمل تھا۔ جن موالی میں سے بعض ایرانی ہونے کا افتخار رکھتے تھے۔
ايراني صدر اسلام سے ليکر اب تک علي علیہ السلام کے واقعي شيعہ, مؤمنين کے حامي اور ان کی پناہ گاہ تھے بعض شيعہ خصوصاً علوي حضرات نے جو بني اميہ اور بني عباس کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے ايران کے شہر طبرستان کےاھالي کےہاں پناہ لي اور طبرستان کے رہنے والے شیعہ لوگوں کے ساتھ مل کر ظالم حکام کے خلاف مقابلہ کيا اور عظيم تحولات کا منشا ثابت ہوئے۔
محمد علي حاجيلو لکھتے ہيں:
“طبرستان کے علویوں نے کربلا کے خونی حادثہ کو نمونہ قرار دیتے ہوئے خلفاء وقت کے مظالم اور انحرافات کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت زیادہ مجاہدت و جدوجہد کا مظاہرہ کیا, چنانچہ آخرکار اموی اور عباسی حکام کی نظروں اور تعرّض سے دور مستقل اور محفوظ مجاہدانہ مرکز کی تلاش میں طبرستان کی طرف جو اس وقت اپنے خاص محل وقوع اور موقعیت کی بنا پر مجاہدین کے لئے محفوظ پناہ گاہ شمار ہوتا تھا۔ متوجہ ہوئے اور اسے اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا۔اور یوں طبرستان کے علویوں نے علاقے کے سیاسی, اجتماعی, اور تہذیبی فراہم شدہ حالات اور زمینہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۵۰ ہجری قمری میں ایران میں پہلی مستقل شیعہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کے ايراني اصحاب ایسے بلند مقام و منزلت کے مالک تھے کہ وہ لوگ اہلبيت علیہم السلام کي نظروں ميں لوگوں کے دین و دنیا کے امين (امانتدار) شمار ہوتے تھے۔
شيخ طوسي علیہ الرحمہ لکھتے ہيں:
علي بن مسيّب نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کي: راستہ دور ہے اور ميں ہروقت آپ علیہ السلام کي خدمت ميں حاضر نہيں ہو سکتا, لہذا ميں احکام دين کے بارے ميں کس سے سوال کروں؟ امام نے فرمايا: زکريا ابن آدم قمي سے چونکہ وہ دين اور دنياء کا امانتدار ہے۔
اہل بيت علیہم السلام کے ایرانی اصحاب مختلف پہلووں اور کئی اعتبار سے عطیم منزلت و منقبت کے حامل تھے, لیکن ہم صرف نمونہ کے طور پر علمی جنبہ کے اعتبار سے ان کی عظمت و اہمیت کی طرف اشارہ کرے گے ۔
اسلام ابتدائے بعثت سے ہی تالیف و تصنیف کے بارے میں خاص اہمیت کا قائل تھا۔ليکن افسوس اسلام سے پہلے عرب معاشرہ اس نعمت سے محروم تھا۔ابن خلدون معتقد ہيں:صدر اسلام کے عرب معاشرہ ميں بہت کم افراد پڑھنے اور لکھنے کي قدرت و توانائي رکھتے تھے۔
اما پیغمبر اسلام| اور اہل بیت علیہم السلام کے ایرانی سلیمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے اصحاب کا شمار حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ پہلے کاتبان وحی میں سے ہوتا تھا۔ اور وحی کی تالیف اور تدوین میں ان کا عظیم کردار رہا ہے۔
شيعوں میں تاليف و تصنیف کا آغاز صدر اسلام سے مربوط ہے۔
دنياي اسلام ميں پہلي کتاب امير المؤمنين علي علیہ السلام نے لکھي ہے (قرآن کي کتاب کي صورت ميں جمع آوري کي ہے) آنحضرت علیہ السلام کے بعد سلمان فارسي, ابوذر غفاري, اصبغ بن نباتہ اور عبداللہ ابن ابي رافع نے بھي تاليف و تصنيف ميں قدم اٹھايا اور ان کے بعد امام زين العابدين علیہ السلام نے صحيفہ سجادیہ تاليف کي ہے۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کے ايراني اصحاب مختلف علمی موضوعات جيسے علوم قرآن, تفسير,شعر, حدیث اصول فقہ, کلام, تاريخ, ادبيات , لغت, سيرہ , رجال, اخلاق, رياضيات, و حساب علوم طبيعي…وغيرہ, ميں بہت سے علمي تاليفات و آثار کے مالک تھے۔
سلیمان بن عمر یا سليمان ابن عامر المعروف ابوالاسود دوئلي ديلم ؓ, گيلان کے رہنے والے اور ايراني ہیں۔ ابوالاسود دوئلي ؓ, فضلاء فصحا اور اسلام لانے والوں ميں سے پہلے طبقہ اور امير المؤمنين علي علیہ السلام کے شيعوں ميں سے ہیں۔ ابوالاسودؓ وہ پہلے عالم و دانشور تھے جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی رہنمائي کے ذريعے قرآن کي نقطہ گذاري کي, يعني قرآن کے اعراب کو منظم کيا اور حضرت علی علیہ السلام کی رھنمائيوں کے ذريعے علم نحو کي بنياد ڈالي۔
(شيعہ دانشوروں,محدثین اور مؤرخين نے بھي ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں یعنی امير المؤمنين علیہ السلام کے زمانہ سے ليکر امام حسن عسکري علیہ السلام کے زمانہ تک چھ ہزار چھ سو کتابيں تحرير کي ہيں)۔
البتہ ياد رہے کہ اس دوران ائمہ اطہار علیہم السلام کے ايراني اصحاب کا بھي فراوان اسلامی تاليفات ميں عظيم کردار رہا ہے ۔ نمونہ کے طور پر صرف ایک ایرانی دانشور جابر بن حيان نے تنھا دو سو سے زيادہ علمي آثار کی تاليف کي ہيں۔
نفیس و گرانقدر کتاب ائمہ اطہار علیہم السلام کے ایرانی اصحاب استاد ارجمند, محقق توانا جناب سيد حسن قريشي زيد عزّہ الشريف نے تحرير کي ہے۔معظم لہ نے جو مجمع جھاني شيعہ شناسي کي علمي انجمن کے برجستہ اعضاء ميں سے ہيں عمیق و دقيق اور بنيادي تحقيقات کے ذریعے اس ارزندہ کتاب کو تالیف کیا ہے۔
جزاه الله عن الاسلام اجراً, ادام الله توفيقاته.
سربرست اعلیٰ مجمع جہانی شیعہ شناسی
علی انصاری بویر احمدی
۱۔استاد حسن الاحسن” دفاع از حق“٥٥، ترجمہ دکتر سيد بھاء الدين الموسوي، ١٤٨٢، انتشارات تفاہم، تھران.
۲۔استاد حسن الاحسن”دفاع از حق“ ص٢٢، ترجمہ دکتر سيد بہاءالدين الموسوي، ١٤٨٢، انتشارات تفاہم، تہران.
۳۔”الفاظ المقرنه“ج٣، ص١٩٠؛”مذهب تشيع و آرمانهاي ملي ايرانيان“ ص٨٨؛”ريشه هاي تاريخي در ايران“ص٤٨، مجمع جھاني شيعہ شناسي.
۴۔محمد امين”فجر الاسلام“ترجمہ عباس خليلي، ج٢، ص١٢٢، تھران ١٣١٦ش.
۵۔خوارزمي”المناقب“ ص١٩٩؛ ابن عساکر”ترجمه الامام“ ج٣، ص٩٣، ٩٢؛ خطيب البغدادي”تاريخ بغداد“ ج١١، ص٤٧؛ طبرابي”المعجم الاوسط“ج٣، ص٩٤؛ ھيثمي”کشف الاستار“ ص٢٢٥؛ احمد بن حنبل”المسند“ ج١، ص٥٣٨, ح٨٥٩؛ احمد بن حنبل”فضائل الصحابه“ ج١، ص٢٣١؛ ابن کثير”اسد الغابه“ ج٤، ص١٠٦ حافظ حسکاني”شواهد التنزيل“ج١، ص٦٣، علامہ اميني”مناقب سيدنا علي علیہ السلام “ج٧، ص٢١، علامہ گنجي شافعي”کفاية الطالب“ ص١٦٣؛ علامہ ھيثمي”مجمع الزوائد“ج٥، ص١٧٦؛ حاکم نيشاپوري”مستدرک“ج٣، ص١٢٤؛ علامہ کشفي ترمذي”مناقب مرتضويه“ ص١١٧؛ قاضي ابن وليد”المعتصر“ج٢، ص٢٤٧؛ علامہ صفوري”نزهة المجالس“ ج٢، ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغہ، ج٢، ص٥٠ اور ج٩، ص٧٠؛ محب الدين طبري”ذخائر العقبي“ ج٢، ص٧٠؛ حافظ ابونعيم اصفهاني”حلية الاولياء“ ج١،ص٦٤؛ علامہ بدخشي”تحفة المحبين“ ص١٨١؛ علامہ اربلي”کشف الغمه“ ج١، ص٢٠٨؛ علامہ مجلسي”بحارالانوار“ ج٣٨، ص١٢٨؛ سيد صادق شيرازي”علي علیہ السلام في قرآن“ ج١، ص٣٦.
۶۔علامہ مناوي”کنوز الحقائق“ ص٨٢ اور ٨٣ ”فرائد السمطين“ج١٥٦؛ حسکاني ”شواهد التنزيل“ ج٢، ص٣٥٦؛ ”مناقب خوارزمي“ ص١٨٦؛ ”الدر منثور“ ج٦، ص٣٧٩؛ ”تفسير طبري“ ج٣٠، ص١٧١؛ ابن حجر مکي”الصواعق المحرقه“ص٩٦؛ شبلنجي”نور الابصار“ص٨٧؛ حميد محلي”محاسن الازهار“ص١٨:زرندي”ظم در السمطين“ گنجي شافعي”کفاية الطالب“ ص٢٤٦؛”فضائل امير المؤمنين“ ص١٠١ص٢١٩؛ ابن عساکر”ترجمة الامام علي علیہ السلام “ج٢، ص٣٤٨ اور ٤٢٢؛ محب الدين طبري ”بشارة المصطفي“ ص٩١ ديلمي”فردوس الاخبار“ ج٣، ص٨٨، ح٣٩٩١؛ شيخ سليمان حنفي، ”ينابيع الموده“ ص٢٥٧ اور ح٢، ص٦١؛ شافعي ھمداني”السبعين“ص٥١٤؛ علامہ امين ”مناقب سيدنا علي علیہ السلام “ ص٣٧، علامہ سبط ابن جوزي” تذکرة الخواص“٥٤.
۷۔”پژواک بردگان در نهضت حسينى“ ج٦، ص٣٧٨.
۸۔محمد علي حاجيلو”ريشه هاى تاريخى تشيع در ايران “ ص٧٧، مجمع جھاني شيعہ شناسي، قم، ١٣٨٦ش.
۹۔شيخ طوسي”اختيار معرفة الرجال“ ج٢، ص٨٥٧، مؤسسۃ آل البيت الاحياء التراث، قم، ١٤٠٤ ھ ق.
۱۰۔ابن خلدون، عبدالرحمان بن محمد”مقدمه“ص٤١٧، داراحياء التراث العربي، ١٤٨٠ ھ چ.
۱۱۔ابن النديم” الفهرست“ص٣٠٧، بيروت.
۱۲۔ابن شهر آشوب”معالم العلماء“ ص٢، منشورات المطبعۃ الحيدريۃ، نجف، ٣٨٠ ھ ق.
۱۳۔ابوطالب اصفهاني”حاشيه شرح سيوطي الفيه“ نقل از روضات الجنات، ج٤، ص٢٨٢.
۱۴۔طوسي”رجال“ ص٧٠.
۱۵۔ابوطالب اصفهاني”حاشيه بر شرح سيوطي الفيه نقل از روضات الجنات“ ج٤، ص٢٨٣.
۱۶۔شيخ حر عاملي، محمد بن احلسن”وسائل الشيعه“ ج٢٠، ص٤٩، المکتبۃ الاسلاميہ، تهران، ١٣٧٦ش.