ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے

102

اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیںتاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہوجائے یا کوئی بے خبر اسے بعیداز عقل نہ سمجھ بیٹھے۔
ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہوسکے۔
ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء (ع)کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوندعالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضاوقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔
خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت (Nature)کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آگئی تو کیا کہنا۔
یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کررہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میںاس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ (١)
انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہیں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ٨١ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔
ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔
مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ‘مغرب زدہ ہونا’ یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔ (٢)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
ظہور حضرت مہدی (ع) کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی (ع) کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت (ع) اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔
‘عقاد ‘ کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔
اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت (ع) سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ‘خلفائے راشدین’ میں شمار کرتے ہیں۔
انہوں نے مہدی (ع) اہل بیت (ع) کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت (ع) سے بغض و عناد کی عینک سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی (ع) بہرحال اولاد فاطمہ (ص) میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ(ص) کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ‘بعید’ قرار دے دیا۔
اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔
معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ‘مقالید الکنوز’ میں تحریر فرماتے ہیں ‘ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی (ع)سے متعلق عقیدہ کو ‘شیعی عقیدہ’ قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی (ع) سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔’
استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ‘ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون’ ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔
ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں :
١۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔
٢۔ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔
٣۔ آپ کے نزدیک ‘اسلامی عقیدہ’ کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟
اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟
اگر کسی موضوع سے متعلق ابی دائود صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ‘المہدی’، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ‘التوضیح’ اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟
پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیںکہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی (ع) کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔
١)۔ ایک مصری دانشور کہتا ہے کہ جب میں فرانس میں زیر تعلیم تھا تو ماہ رمضان میں ایک پروگرام میں شرکت کی، کالج کے پرنسپل نے میرے سامنے سگریٹ پیش کی تو میں نے معذرت کر لی،اس نے وجہ دریافت کی تو میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں روزہ سے ہوں،اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم بھی ان خرافات کے پابند ہوگے،پروگرام کے بعد ایک ہندوستانی پروفیسر نے جو اس پروگرام میں شریک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلینا، اگلے روز میں پروفیسر سے ملاقات کے لئے گیا وہ مجھے چرچ لے گئے اور دوسرے ایک شخص کو دکھا کر پوچھا، پہچانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا ہمارے پرنسپل ہیں، پروفیسر نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا عبادت میں مشغول ہیں،پروفیسر نے کہا یہ لوگ ہمیں تو دینی آداب و رسوم ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود پابندی کے ساتھ مذہبی امور بجا لاتے ہیں۔یہ خطرناک بیماری جو اغیار اور سامراجی طاقتوں کے پروپیگنڈہ کے ذریعہ ہمارے اندر پھیلتی جا رہی ہے اوران کی صنعتی ترقی سے مرعوب ہو کر ہم اپنی کمزوری کا احساس کرنے لگے ہیں اور یہ احساس دیمک کی طرح ہماری حیثیت، شخصیت اور ترقی پذیر اقوام کی آزادی ٔ فکر کو نابود کر رہا ہے.
بعض حضرات تو مغربی تہذیب کے دھارے میں اس طرح بہہ گئے ہیںکہ خود ان سے آگے بڑھکر دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق نظر آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس بیماری سے وسیع پیمانہ پر مقابلہ کی ضرورت ہے ،ایسا مقابلہ جس کی بنیاد عقل ومنطق اور اسلامی آداب و احکام کے احترام پر استوار ہو۔
حقیقت یہی ہے کہ بعض مشرقی افراد جب اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہیں تو مغربی تمدن کے سامنے سپرانداختہ ہو جاتے ہیں اور اپنی قومی و مذہبی عادات، اخلاق، لباس وغیرہ سب کچھ تج کر مغربی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپنا لیتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی انہیں کا طرز معاشرت اختیار کر لیتے ہیں لیکن مغربی افراد کا چونکہ ڈنکہ بجتا ہے لہذا وہ اپنے مال و ثروت، علم و صنعت اور مادی ترقی پر اکڑتے ہیں اور اپنے عادات و اطوار کتنے ہی پست، حیوانی اور خرافاتی کیوں نہ ہوں اہل مشرق کے سامنے فخر کے ساتھ انہیں بجا لاتے ہیں۔
بہت سے مشرقی افراد مغرب سے علم و ٹکنالوجی سیکھنے کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو ہی اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقوام مشرق ،مغرب پرست ہونے کے بجائے علم و صنعت و ٹکنالوجی حاصل کر کے اپنی زمین، معدنیات، سمندر، ہوا کے خود ہی مالک ہوتے… یہ لوگ اتنے مغرب زدہ اور مغرب پرست ہوتے ہیں کہ ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹائی وغیرہ کے بجائے اپنا قومی لباس پہن کر ان کے پروگرام میں شرکت کریں،معدودے چند افراد ہی اپنا لباس ترک نہیں
ایسے سربراہانِ مملکت کی ہے جو اہل مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ احساس کمتری کتنی بڑی لعنت ہے اور عزت نفس کتنا بڑا سرمایہ…
کرتے جیسے ہندوستان کے سابق صدرڈاکٹر ذاکر حسین یا حجاز ،مراکش اور بعض دیگر ممالک کے سربراہ بھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتے رہے، جب کہ اکثریت کتنا محترم ہے وہ مسلم سربراہ جس کے اعزاز میں اگر مغربی سربراہانِ مملکت دعوت کرتے ہیںتو دسترخوان پر شراب نہیں ہوتی، کتنا قابل فخر ہے وہ سربراہ جو ماسکو میں کمیونسٹ حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتا ہے، کتنا باعظمت و شرافت ہے وہ سربراہ جو امریکا میں بھی چرچ میںداخل نہیں ہوتا اور سودی قرض سے پرہیز کرتا ہے، کتنا عظیم مردآہن ہے وہ مسلمان کہ جو اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اپنی تقریر کا آغاز ‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’ سے کرتا ہے۔
کتنی پست اور حقیر ہے وہ مسلمان قوم جو قرآن پر تو فخر کرتی ہے نماز میں روزانہ بیس مرتبہ ‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’ کہتی ہے مگر اس کی کتابوں کے سر ورق سے یہ نورانی جملہ غائب ہے، کتنے ذلیل و خوار ہیں وہ لوگ جو اغیار کی روش اختیار کرتے ہیں کتنی حقیر ہے وہ قوم جو اپنی مذہبی اور قومی روش اورلباس کو چھوڑ کر اپنے پروگراموں میں دوسروں کا لباس اور طور طریقہ اختیار کرتی ہے اور جس کے مرد و زن اپنی شخصیت اور اعتماد نفس سے محروم ہیں۔
٢)۔ اندلس کی نام نہاد اسلامی حکومت نے کفار اور اغیار سے اسلامی اصولوں کے برخلاف ایسے معاہدے کئے کہ اس کے نتیجہ میں عیسائیت کے لئے دروازے کھل گئے۔ فحشاء و فساد اور شراب نوشی سے پابندی ختم ہو گئی عیسائیوں کی طرح سے مرد و عورت آپس میں مخلوط ہو گئے راتوں کو عیش و عشرت، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ پروگرام، رقص و سرور ، ساز و موسیقی نے اسلامی غیرت و حمیت کا خاتمہ کردیا ۔ غیر ملکی مشیران اسلامی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے اور آخر کاراسلامی اندلس ایک عیسائی مملکت میں تبدیل ہو گیا اور اسلامی علم و تمدن کا آفتاب اس سرزمین پر اس طرح غروب ہوا کہ آج اسلامی حکومت کے زرین دور کی مساجد، محلّات اور دیگر عالیشان عمارتوں جیسی یادگاروں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ البتہ یہ تاریخی اور یادگار تعمیرات آج بھی اپنی مثال آپ اور اس مملکت کے عہد زریں کے علم و صنعت کا شاہکار ہیں۔ خدا کی لعنت ہو فحشاء و فساد، ہوس اقتدار اور نفاق پرور ایسے ضمیر فروش اور اغیار پرست حکام پر…
 بشکریہ مہدی مشن ڈاٹ کام

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.