جنسی اخلاق اور جدید مفکرین کے نظریات

152

 تمام مسائل جنسی اخلاق و عادات کا حصہ ہیں۔ویل ڈیورنٹ کا نظریہجنسی اخلاق کا تعلق چونکہ انسانی اخلاق سے ہے اور اس میں (اثرانداز ہونے کی) غیر معمولی طاقت بھی موجود ہے’ لہٰذا وہ ہمیشہ سے اخلاق کا بہترین حصہ شمار ہوتا چلا آ رہا ہے’ ویل ڈیورنٹ لکھتا ہے:”جنسی تعلقات کی نگہداشت ہمیشہ سے اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی رہی ہے’ کیونکہ محض تولید نسل کی خواہش نہ صرف شادی کے دوران میں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف اس خواہش میں شدت و حدت سے اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں قانون شکنی اور فطری طریقے سے انحراف سے سماجی اداروں میں بدنظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔”(تاریخ تمدن’ ج ۱’ ص ۶۹)جنسی اخلاق کا سرچشمہیہاں سے ابتدائی طور پر جو علمی اور فلسفی بحث چل نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جنسی اخلاق کا سرچشمہ کیا ہے؟ عورت میں حیاء اور عفت کی خصوصیات کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟ مرد اپنی عورت کے معاملے میں اتنا غیرت مند کیوں ہے؟ کیا یہ غیرت دوسرے لفظوں میں وہی “حسد” تو نہیں جس کی انسان مذمت کرتا ہے اور استثنائی طور پر صرف اپنی بیوی کے معاملے میں اس جذبے کو قابل تعریف سمجھتا ہے یا یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے؟ اگر وہی “حسد” ہے تو اسے مستثنیٰ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اگر یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے تو اس کی کیا توجیہہ ہو گی؟ اسی طرح عورت کے ستر کھولنے’ فحاشی’ محارم سے شادی کرنے وغیرہ کو کیوں برا سمجھا گیا ہے؟ کیا ان سب کا سرچشمہ خود فطرت اور طبیعت ہے؟ کیا فطرت اور طبیعت نے اپنے مقاصد کے حصول اور انسانی زندگی کو منظم کرنے کے لئے’ جو کہ فطرتاً معاشرتی زندگی ہے’ انسان میں مذکورہ بالا جذبات اور احساسات پیدا کئے؟ یا اس کے دوسرے اسباب ہیں’ یعنی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ جذبات انسانی روح پر اثرانداز ہوتے رہے اور بتدریج انسانی اخلاق اور ضمیر کا حصہ بن گئے؟اگر جنسی اخلاق کا سرچشمہ طبیعت اور فطرت ہے تو موجودہ دور میں قدیم اور وحشی قبائل’ جن کا طرز زندگی ہنوز سابقہ اقوام کی طرح ہے’ کیوں ان خصوصیات سے بے بہرہ ہیں؟ جو کم از کم ایک مہذب انسان میں پائی ہیں۔ بہرحال اس کا سرچشمہ اور مقصد کوئی بھی ہو اور انسانیت کا ماضی کچھ بھی رہا ہو’ ہمیں اس پر شک کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انسان جنسی رویے کے بارے میں کونسا راستہ اختیار کرے جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟کیا قدیم جنسی نظام اخلاق ہی برقرار رکھا جائے یا اسے فرسودہ سمجھ کر اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جائے؟ویل ڈیورنٹ اگرچہ اخلاق کی بنیاد فطرت کی بجائے ان واقعات پر رکھتا ہے جو تلخ’ ناگوار اور ظالمانہ رہے ہیں’ تاہم اسے دعویٰ ہے کہ اگرچہ قدیم جنسی اخلاقی نظام میں قباحتیں موجود ہیں لیکن چونکہ وہ راہ تکمیل میں مناسب تر انتخاب کا مظہر ہے’ لہٰذا بہتر ہے اس کی حفاظت کی جائے۔ویل ڈیورنٹ بکارت کے احترام اور شرم و حیاء کے احساس کے بارے میں لکھتا ہے:”قدیم سماجی عادات و اطوار اس انسانی مزاج کا آئینہ دار ہیں’ جو ان میں کئی صدیاں گزر جانے اور بے شمار غلطیاں کرنے کے بعد پیدا ہوئے’ لہٰذا کہنا پڑے گا کہ اگرچہ بکارت کے احترام اور حیاء کا جذبہ نسبی امور ہیں اور شادی کے ذریعے عورت کو خرید لینے سے متعلق ہیں اور اعصابی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں’ تاہم ان کے کچھ سماجی فوائد بھی ہیں۔ ان عوامل کا شمار جنسیت کی بقاء کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہوتا ہے۔”(تاریخ تمدن’ ج ۱’ ص ۸۴)فرائیڈ اور اور اس کے شاگردوں کا نظریہ (ویل ڈیورنٹ سے) مختلف ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنسی معاملات میں قدیم اخلاقی نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جانا چاہئے۔ فرائیڈ اور اس کے ہم نواؤں کے خیال میں قدیم جنسی اخلاق کی بنیاد “محدودیت” اور “ممانعت” پر رکھی گئی ہے۔ آج انسان کو جن پریشان کن مسائل کا سامنا ہے وہ اسی ممانعت’ محرومیت اور خوف کے لامتناہی سلسلے سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ وحشتیں ان مسائل کو مزید الجھا دیتی ہیں جو ان پابندیوں کے باعث انسانی ضمیر پر مسلط ہو چکی ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.