امام (عج) کے قیام کے وقت عورتوں کا کردار

1,154

ظہور سے قبل و بعد عورتوں کے کردار سے متعلق روایات کی چھان بین کرنے سے چند قابل توجہ باتیں سامنے آتی ہیں، اگر چہ بعض روایات کی رو سے، اکثر دجال کے پیرو یہود اور عورتیں ہوں گی۔(۱)
لیکن انھیں کے مقابل، مومنہ اور پاکدامن عورتیں بھی ہیں کہ اپنے عقیدہ کی حفاظت میں زیادہ سے زیادہ کوشاں رہیں گی، ظہور سے قبل کے حالات سے بہت متاثر ہیں، اوربعض عورتیں ثبات قدم اور مجاہدانہ قوت کی حامل ہوں گی وہ جہاں بھی جائیں گی لوگوں کو دجال کے خلاف جنگ کی تبلیغ کریں گی، اور دجال کی انسانی ہیئت کے خلاف ماہیت کو آشکار کریں گی ۔
بعض روایتوں کے مطابق قیام کے وقت چار سو۴۰۰/ عورتیں امام کے ہمراہ ہوں گی نیز ان کی اکثریت دوا، دارواورمعالجہ میں مشغول ہو گی، البتہ عورتوں کی تعداد کے بارے میں کہ قیام کے وقت کتنی ہوں گی اختلاف ہے، بعض روایتوں میں ۱۳/عورتوں کانام ہے کہ ظہور کے وقت حضرت کے ساتھ ہوں گی ،شاید یہ عورتیں امام کی ابتدائی فوج میں ہوں، اور بعض روایات میں امام کی ناصر عورتوں کی تعداد سات ہزار آٹھ سو ذکر کی گئی ہے، اور وہ وہی عورتیں ہیں جو قیام کے بعد حضرت کے ہمراہ ہو کر حضرت کے کاموں میں مدد کریں گی۔
کتاب” فتن“ میں ابن حماد سے نقل ہے کہ دجال کے خروج کے وقت مومنین کی تعداد ۱۲۰۰۰/ ہزار مرد اور سات ہزار سات سو یا آٹھ سو عورتیں ہوں گی۔(۲)
رسو ل خدا فرماتے ہیں:حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) آٹھ سو مرد اور چار سوعورتوں کے درمیان نازل ہوں گے کہ وہ لوگ زمین کے رہنے والوں میں سب سے بہتر اور گذشتہ لوگوں میں صالح تر ہوں گے“(۳)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”خدا کی قسم تین سو کچھ افراد آئیں گے جس میں ۵۰/ عدد عورتیں ہوں گی “(۴)
مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” حضرت قائم ، (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ ۱۳/ عورتیں ہیں ،میں نے عرض کیا : وہ کیاکریں گی اوران کاکیا کردار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:زخمیوں کا مداوا، اور بیماروں کی تیمار داری کریں گی؛ جس طرح رسول اللہ کے ہمراہ تھیں، میں نے کہا: ان ۱۳/ عورتوں کا نام بتایئے ؟ آپ نے فرمایا:” قنوا دختررشید ہجری،ام ایمن ،حبابہٴ و البیہ،سمیہ مادر عمار یاسر، زبیدہ،ام خالد احمسیہ، ام سعید حنفیہ ،صیانة ماشطہ و ام خالد جھنیہ“(۵)
کتاب” منتخب البصائر“ میں دو عورتوں کانام وتیرہ اوراحبشیہ بھی مذکور ہواہے کہ جو حضرت کے اصحاب و یاور میں ہوں گی۔(۶)
بعض روایتوں میں تنہا عورتوں کے ہمراہ ہونے پر اکتفاء کیا گیا ہے اور ان کی تعداد بیان نہیں کی گئی ہے۔
تاریخی کتابوں میں عصر ظہور کی عورتوں کے ماضی کی تحقیق
مفضل ابن عمر کی روایت میں وضاحت کے ساتھ ان عورتوں کی تعداد جو حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ساتھ ہوں گی، ۱۳/ ذکر کی گئی ہے؛ لیکن اس تعداد میں بھی صرف ۹/ عورتوں کے اسماء اور خصوصیات بیان کی گئی ہے۔
اوران اسماء پر حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام)کی تاکیدنے مجھے مجبور کیاکہ ان کی سوانح حیات اور خصوصیا ت کی تحقیق کروں ۔اورتحقیق کے بعد ایسے نکتے ملے جو امام کی تاکید کا قانع کنندہ جواب ہیں۔
ان میں سے ہر ایک لیاقت رکھتی ہیں لیکن ان میںسے اکثر نے دشمنان خدا سے جہاد کے موقع پر اپنی صلاحیت کو ظاہر نہیں کیا ان میںسے بعض جیسے صیانہ جو چند شہیدوں کی ماں تھیں، اور خود بھی جانسوز حالت میں شہید ہوئیں ،اور دوسری سمیہ ہیں،جنھوں نے اسلامی عقیدہ کی دفاعی راہ میں سخت شکنجوں کو بر داشت کیا،اور آخر دم تک اپنے عقیدہ کا دفاع کرتی رہیں، انھیں میں ام خالد ہیں، جنھوں نے تندرستی کی نعمت کو قالب اسلام کی حفاظت میں گنوادی اور جانباز بنیں ،انھیں میںزبیدہ خاتون ہیں جنھیں دنیا کی چمک دمک اور مادی زرق وبرق نے اسلام سے منحرف نہیں کیا بلکہ بر عکس ہوا کہ ان امکانات سے عقیدہ کی راہ میں استفادہ کیا،اورحج برپا کرنے کے لئے جو اسلامی مظاہر اور دینی ارکان میں سے ایک ہے مدد کی،اور بعض دوسری خاتون نے امت اسلامی کے عظیم رہبر کی خدمت اور دایہ کا افتخار حاصل کیا ،اور معنویت سے خود کو اتنا آراستہ کیا کہ زبان زد خاص و عام ہو گئیں اور کچھ شہداء گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جنھوں نے نیم جان جسموں کو اٹھا یا اور ان سے باتیں کی ہیں ۔
ہاں، یہ وہ دل سوختہ ہیں جنھوں نے ہدایت کے فریضہ کی انجام دہی سے ثابت کیا کہ حکومت اسلامی کے وزنی بار کے ایک کونہ کا تحمل کیا جا سکتا ہے ۔
اب ان بعض کا تعارف کراتاہوں :
۱۔صیانة
کتاب ”خصائص فاطمیہ“ میں آیا ہے : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت میں ۱۳/ عورتیں زخمیوں کا معالجہ کرنے کے لئے زندہ کی جائیں گی،اور دنیا میں دوبارہ واپس آئیں گی۔ ان میںسے ایک صیانہ ہیں جو حضرت حزقیل کی بیوی، اور فرعون کی بیٹی کی آرایش گر تھیں، آپ کے شوہر حزقیل فرعون کے چچا زاد بھائی اور خزانہ کے مالک تھے اور اس کے بقول ،حزقیل اور،خاندان فرعون کے مومن ہیں اوراپنے زمانے کے پیغمبر حضرت موسیٰ(علیہ السلام) پر ایمان لائے ۔(۷)
رسول خدا نے فرمایا :” شب معراج مکہ معظمہ و مسجد اقصیٰ کی سیر کے درمیان اچانک ایک خوشبو میرے مشام سے ٹکڑائی، جس کے مانند کبھی ایسی بو محسوس نہیں کی تھی ،جبرئیل سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟
جبرئیل نے کہا: اے رسول خدا!حزقیل کی بیوی حضرت موسیٰ بن عمران پر ایمان تولائی تھی لیکن اسے پوشیدہ رکھے ہوئے تھی، اس کا کام فرعون کے حرم سرا میں آرایش کرنا تھا ،ایک روز وہ فرعون کی بیٹی کو آرایش کرنے میں مشغول تھی کہ اچانک کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور بے اختیار اس نے کہا: ”بسم اللّٰہ“ فرعون کی بیٹی نے کہا :کیا تم میرے باپ کی تعریف کر رہی ہو؟اس نے کہا: نہیں بلکہ میں اس کی تعریف کر رہی ہوں جس نے تمہارے باپ کو پید اکیا ہے ،اور وہی اسے نابود کرے گا فرعون کی بیٹی تیزی سے اپنے باپ کے پاس گئی اور کہنے لگی :جو عورت ہمارے گھرمیں آرا یش گر ہے، موسیٰ پر ایمان رکھتی ہے فرعون نے اسے بلایا اور کہا: کیا تم میری خدائی کی معترف نہیں ہو؟صیانہ نے کہا: ہر گز نہیں، میں حقیقی خدا سے دوری اختیار کرکے تمہاری پوجا نہیں کروں گی ، فرعون نے حکم دیا، کہ تنور روشن کیا جائے ،جب تنور سرخ ہو گیا، تو اس نے حکم دیا کہ اس کے تمام بچوں کو اس کے سامنے آگ میں ڈال دیا جا ئے ۔
جس وقت اس کے شیرخوا ر بچے کو جو اس کی گود میں تھا لے کر آگ میں ڈالنے لگے، صیانہ کا حال بُرا ہوگیا ،اور سوچا کہ زبان سے دین سے براٴت و بیزار ی کر لیں اچانک خدا کے حکم سے، بچہ گویا ہوا۔اور بولا: ”اصبری یا اُمّاہ اِنَّکِ عَلَی الْحَقْ“ مادر گرامی صبر کیجئے آپ حق پر ہیں فرعونیوں نے اس عورت کو بچے سمیت آگ میں ڈال دیا، اور اس کی خاک کو اس زمین پر ڈال دیا لہٰذا قیامت تک اس زمین سے خوشبو ،آتی رہے گی“(۸)
وہ ان عورتوں میں ہے جو زندہ ہو کر دنیا میں آئے گی اور حضرت مہدی کے ہم رکاب اپنا وظیفہ انجام دے گی۔
۲۔ام ایمن
آپ کانام برکہ ہے آپ حضرت رسول خدا کی کنیز تھیں جو والد بزرگوار، حضرت عبداللہ، سے انھیں میراث میں ملی تھیں ۔اور رسول خدا کی خدمت گذار تھیں۔(۹)
حضرت انھیںماں کہتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرے باقی اہل بیت میں ہیں۔
وہ اپنے شوہر عبید خزرجی سے ایک فرزند رکھتی تھیں ،اس لئے ام ایمن نام تھا ایمن ایک مجاہداور مہاجر تھا جو جنگ حنین میں شہید ہوا۔
ام ایمن وہ شخصیت ہیں کہ جب مکہ و مدینہ کے راستے میں ان پر پیاس کا غلبہ ہوا ،اور ہلاکت سے قریب ہوئیں تو آسمان سے پانی کا ڈول آیا،اسے پیا اس کے بعد پھر کبھی پیاسی نہ ہوئیں ۔ (۱۰)
انھوں نے رسول خدا کی رحلت کے وقت بہت گریہ کیا؛جب ان سے رونے کا سبب پوچھا گیا، تو جواب دیا: خدا کی قسم مجھے معلوم تھا کہ رحلت کریں گے، لیکن گریہ اس بات کا ہے کہ وحی منقطع ہوگئی ۔(۱۱)
اور انھیںحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فدک کے مسئلہ میں شاہد کے عنوان سے بھی پیش کیا تھاآخر کار عثمان کی خلافت کے دور میں انتقال کر گئیں۔
۳۔زبیدہ
آپ ہارون رشید کی بیوی اور شیعیان اہل بیت میں سے تھیں جب ہارون ان کے عقیدہ سے آگاہ ہواتو قسم کھائی کہ اسے طلاق دیدے آپ نیک کاموں سے معروف تھیں،وہ اس زمانے میں جب شہر مکہ میں ایک مشک پانی کی قیمت ایک دینار سونا تھی، تو ا نھوں نے حجاج اور شاید تمام مکہ والوں کو سیراب کیا انھوں نے پہاڑ اور دروں کو کھدوا کر حرم کے باہر ۱۰/ میل فاصلہ سے پانی حرم میں لائیں ،زبیدہ کی ۱۰۰ کنیزیں تھیں ،اور ساری کی ساری حافظ قرآن اور ہر ایک کا وظیفہ تھا کہ ایک دہم قرآن پڑھیں، اس طرح سے کہ رہائشی مکان تک قرآن کی آواز جائے۔(۱۲)
۴۔سمیّہ
اعلان بعثت کے بعدآپ ساتویں فرد ہیں جو اسلام سے متمسک ہوئیں، اسی وجہ سے ان کو بد ترین شکنجہ دیا گیا، جب رسول خدا کا گذر عمار اوران کے والدین کی طرف سے ہوتا اور دیکھتے کہ مکہ کی گرمی میں تپتی زمین پر شکنجہ دیا جارہا ہے تو فرماتے تھے:اے خاندان یاسر! صبر کرو؛ اور یہ جان لو کہ تمہاری منزل موعود ،جنت ہے ۔،نتیجہ کے طور پر آپ ابو جہل نابکار کے خونی نیزہ سے شہید ہو گئیں یہ اسلام کی پہلی شہیدہ خاتون ہیں۔(۱۳)
۵۔ام خالد
جب عراق کے حاکم یوسف بن عمر نے زید بن علی کو شہر کوفہ میں شہید کیا تو ام خالد کا ہاتھ شیعہ ہونے اور قیام زید کی طرف مائل ہونے کے جرم میں کاٹ ڈالاگیا۔
ابو بصیر کہتے ہیںمیں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں تھا کہ ام خالد کٹے ہاتھ لئے آئیں، حضرت نے کہا: اے ابو بصیر !ام خالد کی بات سننے کے خواہشمند ہو؟میں نے عرض کیا: ہاں اور اس سے مجھے مسرت ہو گی،ام خالد حضرت کے قریب گئیں بات کرنے لگیں،میں نے انھیں نہایت ہی فصیح و بلیغ پایا، حضرت نے بھی ولایت کے مسئلہ اور دشمنوں سے براٴت کے موضوع پر بات کی(۱۴)
۶۔حبابہٴ والبیہ
شیخ طوسی ۺ نے انھیں امام حسن (علیہ السلام) کے اصحاب میں شمار کیا ہے ،اور ابن داوٴد نے امام حسن ،حسین ،سجاد و باقر (علیہم السلام )کے اصحاب میں شمار کیا ہے اوربعض دیگر افراد نےامام رضاتک آٹھ معصوم امام ا صحاب میں شمار کیا ہے ،اسی طرح کہا گیا ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے شخصی لباس میں انھیں کفن دیا ہے ،آپ کی عمر وفات کے وقت ۲۴۰ / سال تھی آپ دو مرتبہ جوا ن ہوئی ہیں ایک بار حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے معجزہ سے اور دوسری بار آٹھویں امام کے معجزہ سے، وہی خاتون ہیں آٹھ معصوم امام نے ان کے ہمرا ہ جو پتھر تھااس پر اپنی انگوٹھی سے نقش کیا ہے ۔ (۱۵)
حبا بہٴ والبیہ کہتی ہیں: میں نے امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے عر ض کیا: خدا آپ پر رحمت نازل کرے،امامت کی دلیل کیا ہے؟ حضرت نے جواب میں کہا:اس سنگریزہ کو میرے پاس لاوٴ، تومیں اسے حضرت کی خدمت میں لائی ،حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنی انگوٹھی سے اس پر مہر کی اس طرح سے کہ اس پتھر پر نقش ہوگیا ،اور مجھ سے کہا:”اے حبابہ ! جو بھی امامت کا مدعی ہو اور اس پر میری طرح مہر کردے تو وہ امام اور اس کی اطاعت واجب ہے امام وہ شخص ہے جو کچھ جاننا چاہے جان لےتا ہے“
پھر میں اپنے کام میں مشغول ہو گئی، اور حضرت علی (علیہ السلام) رحلت کر گئے، تو پھر امام حسن (علیہ السلام) کے پاس آئی، جو حضرت علی کے جانشین تھے، اور لوگ ان سے سوال کر رہے ہیں؛جب مجھے دیکھا تو کہا: ”اے حبابہ والبیہ!“میں نے کہا:حاضر ہوں اے میرے سید و سردار ! آپ نے کہا:”جو تمہارے پاس ہے لے آوٴ“میں نے اس سنگریزہ کو حضرت کو دیا آنحضرت نے حضرت علی (علیہ السلام) کے مانند اپنی انگوٹھی سے مہر کی اس طرح سے کہ مہر کی جگہ نقش ہوگیا۔
پھر میں امام حسین (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی جب کہ وہ مسجد رسول خدا میں تھے، مجھے اپنے پاس بلایا،اور خوش آمدید کہا:اور فرمایا: جو تم چاہتی ہو اس کی دلیل موجود ہے، کیا تم امامت کی علامت چاہتی ہو ؟“میں نے کہا :ہاں میرے آقا! آپ نے کہا:”جو تمہارے پاس ہے لے آوٴمیں نے وہ سنگریزہ انھیں دیا، تو انھوں نے انگوٹھی سے اس پر نقش کر دیا۔امام حسین(علیہ السلا م) کے بعد امام سجاد (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچی جب کہ اتنی ضعیف ہو چکی تھی کہ میرے بدن میں رعشہ غالب تھا ،اس وقت ۱۱۳/ سال کی تھی آنحضرت رکوع و سجود میں تھے اس لئے میری طرف توجہ نہیں کی تو میں امامت کی نشانی دریافت کرنے سے مایوسی ہوگئی، آنحضرت نے اپنی انگلی سے میری طرف اشارہ کیا، ان کے اشارہ سے میری جو انی پلٹ آئیمیں نے کہا:اے آقا! دنیا کا کتنا حصہ گذر چکا ہے اور کتنا باقی بچاہے؟آپ نے کہا: گذشتہ کے متعلق ،میں نے کہا ہاں اور جوبچا ہے اس کے متعلق نہیں ۔
یعنی ہمیں گذشتہ کا علم ہے آیندہ غیب ہے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ،یا یہ کہ مصلحت نہیں کہ ہم بتائیں، اس وقت مجھ سے کہا: جو تمہارے پاس ہے اسے لے آوٴ میں نے حضرت کو سنگریزہ دیا، حضرت نے اس پر مہر کی پھر کچھ زمانے کے بعد امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی، آنحضرت نے بھی اس پر مہر کی، اس کے بعد امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے پاس آئی تو آپ نے بھی اس پر مہر کی،پھر سالوں گذر نے کے بعد امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی، آنحضرت نے بھی اس پر مہر کیا اس کے بعد امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچی تو آنحضرت نے بھی اس پر نقش کیا اس کے بعد، نو ماہ زندہ رہیں ۔(۱۶)
۷ ۔قنوا دختر رشید ھجری
اگر چہ آپ کی خصوصیات شیعہ وسنی کتابوں میں مذکور نہیں ہیں اصطلاحاًمہمل ہے۔ (۱۷) لیکن باپ کی اسیری ابن زیاد کے ہاتھوں ان کی شہادت کا قصہ خو د ہی بیان کرتی ہیں، عقیدہ میں پختگی ، اسلام میںپایداری و شیعت سے لگاوٴ اور حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت آشکار ہو جاتی ہے ۔
ابو حیان بجلی کہتا ہے: میں نے رشید ہجری کی بیٹی قنوا سے پوچھا : تم نے اپنے باپ سے کون سی روایت یا حدیث سنی ہے؟اس نے کہا:میرے باپ نے حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے نقل کیاہے : آنحضرت نے فرمایا:اے رشید ! تمہارا صبر کیسا ہوگا جب بنی امیہ کا منہ بولا بیٹا (ابن زیاد): تمہیں اپنے پاس بلائے اور دونوں ہاتھ پاوٴں اور زبان قطع کر ڈالے؟“میں نے کہا: آیا اس کا نتیجہ جنت ہے ؟ آپ نے کہا: اے رشید ! تم دنیاو آخرت میں ہمارے ساتھ ہو“
قنوا کہتی ہیں : خدا کی قسم کچھ دن بعد ابن زیاد نے میرے باپ کو بلایا اور ان سے کہا: علی سے بیزاری کرو،لیکن انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا،ابن زیاد نے کہا: تمہارے قتل کی کیفیت علی نے کیسے بیان کی ہے؟میرے باپ نے جواب دیا: میرے دوست علی نے مجھے اس طرح بتایا ہے کہ تم مجھے علی سے بیزاری کرنے کے لئے بلاوٴ گے لیکن میں تمہاری مراد پوری نہیں کروں گا؛پھر میرے دونوں ہاتھ پاوٴں اور زبان کاٹ ڈالوگے،ابن زیاد نے کہا : قسم خدا کی علی کی پیش گوئی کے خلاف تمہارے حق میں کروں گا، اس وقت حکم دیا کہ ان کے دونوں ہاتھ ،پاوٴں کاٹ دئے جائیں ۔
اور زبان سالم چھوڑد ی جائے، قنوا کہتی ہیں : میں نے اپنے باپ کو کاندھے پر اٹھا یا اور راستے میں پوچھا : اے بابا! آیا درد کا احسا س کرتے ہیں ؟تو انھوں نے کہا: نہیں صرف اتنا ہی جتنا مجھے مجمع کے دباوٴ سے ہوتا ہے، جب ہم اپنے باپ کو اٹھا کر ابن زیاد کے محل سے خارج ہوئے، تو لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے، میرے باپ نے موقع سے فائدہ اٹھا یا، اور کہا: قلم، دوات اور کاغذ لے آوٴ تاکہ تمہیں حادثات کی خبر دوں ،لیکن جب یہ خبر ابن زیاد کو پہنچی تو اس نے زبان قطع کرنے کا حکم دیا ،اور میرے باپ اسی شب شہید ہوگئے۔(۱۸)
 
حواشی
(۱)احمد، مسند، ج۲،ص۷۶؛فردوس الاخبار ،ج۵،س۴۲۴؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۱۵
(۲)ابن حماد، فتن ،ص۱۵۱
(۳)فردوس الاخبار، ج۵،ص۵۱۵؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۳۳۸؛التصریح، ص۲۵۴
(۴)عیاشی ،تفسیر ،ج۱، ص۶۵؛نعمانی ،غیبة، ص۲۷۹
(۵)دلائل الامامہ، ص۲۵۹اثبات الہداة، ج۳،ص۷۵
(۶)بیان الائمہ، ج۳، ص۳۳۸
(۷)ریاحین الشریعہ ،ج۵،ص۱۵۳؛خصائص فاطمیہ ،ص۳۴۳
(۸)منہاج الدموع، ص۹۳
(۹)تاریخ طبری، ج۲،ص۷؛حلبی سیرہ، ج۱، ص۵۹
(۱۰)عبد الرزاق، مصنف ،ج۴ ،ص۳۰۹ ؛الاصابہ، ج۴، ص۴۳۲
(۱۱)تنقیح المقال، ج۳ ،ص۷۰
(۱۲)وہی، ص۷۸
(۱۳)اسد الغابہ، ج۵ ،ص۴۸۱
(۱۴)معجم رجال الحدیث ،ج۱۴، ص۲۳،۱۰۸،۱۷۶؛ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۳۸۱
(۱۵)تنقیح المقال ،ج۲۳،ص۷۵
(۱۶)کافی، ج ۱،ص۳۴۶؛تنقیح المقال، ج۳، ص۷۵
(۱۷)اعیان الشیعہ،ج ۳۲،ص۶
(۱۸)اختیار معرفة الرجال ،ص۷۵ ؛شرح حال رشید ؛تنقیح المقال ،ج۱، ص۴۳۱،اور ج۳،ص۸۲؛معجم رجال الحدیث، ج۷، ص۱۹۰؛اعیان الشیعہ، ج۳۲،ص۶؛سفینة البحار ،ج۲ ۵،ص۳۵۷؛ریاحین الرشیعہ ،ج ۵ ، ص۴۰

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.