حضرت مہدی(عج)حضرت حسین(ع) کی اولادسے ہیں؟

180

حضرت امام مہدی کے حضرت امام حسین کی اولادسےہونے کی تائیدکرنے والی احادیث

شیعوں کی کتابوں میں کثیرتعدادمیں ایسی روایات موجودہیں کہ جن میں بارہ اماموں کے نام ذکرکیے گئے ہیں اوران کی ابتداء حضرت علی سے اوران کی انتہا حضرت امام مہدی پرہوتی ہے نیزایسی احادیث کہ جن میں پہلے امام نے بعدوالے امام کو معین کیا ہے
خوداہل سنت کی صحاح میں ایسی متعدد روایات ہیں جو آئمہ کی تعداد بیان کرتی ہیں اور ان کی مناقب وغیرہ کی کتابوں میں ایسی احادیث ہیں جو ان کے نام بھی بتاتی ہیں۔
نیز کئی ایسی احادیث ہیں جن کی صحت پراتفاق ہے اوروہ اس بات کوبیان کرتی ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اس وقت تک زندہ ہیں جب تک دنیا میں دوانسان ہیں اوریہ اس صورت میں ہی ہوسکتاہے کہ جب حضرت امام مہدی حضرت امام حسین کے نویں فرزند ہوں یہاں ہم ان میں سے صر ف ان احادیث کو ذکر کریں گے جنکے ذریعے فریقین کی کتابوں میں استدلال کیاگیاہے۔

 
 
 

حدیث ثقلین
اس میں شک نہیں کہ جب پیغمبراسلام کا انتقال ہو تواس وقت تک آپ کی احادیث کی مکمل طورپرتدوین نہیں ہوئی تھی جبکہ آپ نے قیامت تک باقی رہنے والی اپنی رسالت میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔
نیزاپنی امت پرشفیق اورمہربان ہونے کی وجہ سے اسے شتربے مہارکی طرح نہیں چھوڑدیاتھاتوپھرکس طرح انہیں تنہاقرآن کے سپردکردیتے کہ جس میں محکم ،متشابہ ،مجمل ومفصل اورناسخ ومنسوخ آیتیں موجود ہیں۔
اس کے علادہ اس کی آیا ت میں کئی کئی احتمالات پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سارے اسلامی فرقے اورمذاہب اپنی اپنی متضادآرا کوثابت کرنے کے لیے انہیں دلیل کے طورپرپیش کرتے ہیں
بالخصوص اس تناظرمیں کہ آپ کو علم تھا کہ جب آپ کی زندگی میں آپ پرجھوٹ بولا گیاتوپھرآپ کی وفات کے بعدکیاہوگا
اس کے ثبوت میں حضرت کی یہ حدیث ہے جسے عل، درایت کی کتابوں میں تواترلفظی کی مثال کے طور پر پیش کیاجاتاہے کہ آپ نے فرمایا:۔
"من کذب علی متعمد افلیتبوامقعدہ من النار"
لہذا معقول نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی شریعت کودوسرے لوگوں کے اجتہادکے رحم وکرم پرچھوڑجائیں اوراس کے لیے کوئی ایسا راہمنا اورجامع اصول معین نہ کریں جوپورے قرآن کا حقیقی علم رکھتا ہواورسنت کواس کی پوری تفاصیل کے ساتھ جانتاہو۔
پس رسالت کو بچانے اس کی حفاظت کرنے ،اسکی راہ کودوام بخشنے اورتمام عالم بشریت تک پہنچانے کے لیے ایک ہدایت گراورراہنما کاہونا بہت ضروری ہے یہیں سے حدیث ثقلین (قرآن وعترت )اور امت کے دین حق حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت واضح ہو
جاتی ہے۔
نیزواضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت غدیرخم جیسے مختلف مواقع اورمقامات پراورآخرمیں اپنی بیماری کی حالت کیوں اس پرزوردیتے رہے زیدبن اسلم پیغمبر سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:۔
"کا ننی قد دعیت فاجیب ،انی تارک فیکم الثقلین احد ھما اکبرمن الآخر:کتاب اللہ،وعترتی اھل بیتی فانظرواکیف تخلفونی فیھما ،فانھمالن یفتر قا حتی یردا علی العوض ،ان اللہ مولایی ،ولیی کل مومن۔من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعار من عاداہ"
"گویا مجھے نداآچکی ہے اورمیں نے اس پرلبیک کہہ دیا ہے میں تم میں دوگراں قدرچیزیں چھوڑکے جارہاہوں ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہیں۔اللہ کی کتاب اورمیری عترت اھل بیت دیکھنا میرے بعدتم ان دوکے بارے میں کیا روش اپناوگے یہ آپس میں ہرگزجدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس پہنچ جائیں گی۔
بیشک اللہ میرامولیٰ ہے اورمیں ہرمومن کا مولیٰ ہوں اورجس کا میں مولاہوں اسکے علی مولی ٰ ہیں اے اللہ اس کو دوست رکھ جوعلی کودوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کودشمن رکھے"(مستدرک حاکم ۳:۱۰۹۔)
ابوسعید خدری پیغمبراکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:۔
"انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بہ لن تضلو ابعدی ،احدھما اعظم من الآخر:کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الارض ،وعترتی اھل بیتی ،واھل لن یفترقا حتی یردا علی العوض ،فانظرواکیف تخلفونی فیھما"
"میں تم میں چھوڑکے جارہا ہوں جب تک تم اس سے تمسک رکھوگے میرے بعدہرگزگمراہ نہیں ہوگے ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے اللہ کی کتاب جو آسمان سے زمین تک درازہی ہے اورمیری عترت اھل بیت کہ دودونوں حوض کوثرپرمیرے پاس آنے تک آپس میں ہرگزجدانہیں ہوں گے پس دیکھنامیرے بعدتم ان دوکے بارے میں کیا روش اپناتے ہو(سنن ترمذی ۵:۶۶۲۔۳۷۸۶، اورحدیث ثقلین تیس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے اوربعدوالی میں اس کے راوی سینکڑوں کی تعدادمیں ہیں)
چنانچہ کبھی اہل بیت کو کشتی نجات کہا کبھی امت کے لیے امان اورکبھی باب حطہ سے تعبیرکیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کو پیغمبر سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ مباہلہ میں صرف وہی افراد آپ کے ہمراہ تھے جو اہل کساتھے اورآپ فرما رہے تھے:
"اللھم ھو ء اھل بیتی" "خدایا یہ میرے اھل بیت ہیں "اورصحابہ اس کلام کی خصوصیات کوسب سے زیادہ جانتے تھے ۔
اوراس میں جو حصراوراختصاص ہے اس سے وہ اچھی طرح واقف تھے اورابن عباس کا کہنا ہے کہ نوماہ تک پیغمبر ہر صبح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر کھڑے ہوکراس آیت کی تلاوت کرتے تھے۔(سید علی حسینی میلانی کی کتاب "حدیث الثقلین تواترہ فقہہ ")
انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا(الاحذب ۳۳:۳۳)پیغمبر اسلام کی در فاطمہ سلام اللہ علیھا پر کھڑے ہوکرآیت کریمہ کی تلاوت کرنے کے واقعے کے لئے ملاحظہ ہوطبری ۶:۲۲
اورپیغمبراکرم کا یہ عمل لوگوں کے اہل بیت علیھم السلام کو پہچاننے کے لیے کافی تھا
لہذا پیغمبر اسلام سے سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ امت قرآن کے ہمراہ کن لوگوں کے ساتھ تسمک کرکے گمراہی سے بچ سکتی ہے
اورامت (اورصحابہ)کو ان میں صرف پہلے شخص کوجاننے کی ضرورت تھی تاکہ پیغمبرکے بعدوہ دینی امورمیں اس کیطرف رجوع کریں اوروہ ان کوگمراہی سے بچا سکے۔پھروہ ہے کہ اپنے بعدایک شخص کومعین کرے جوامت کوگمراہیوں سے بچانے والا ہو اور یونہی اس کاسلسلہ چلتارہے یہاں رک کہ امر کو گمراہی سے بچانے والا آخری محافظ قرآن کے ہمراہ حوض کوثرپیغمبرکے پاس پہنچ جائے ۔
اور جب واضح ہے کہ حضرت علی بے شمار حدیثوں کی رو سے پیغمبراکرم کی طرف سے معین کیے گئے ہیں کہ ان میں سے ایک یہی حدیث ثقلین ہے توپیغمبر کے لیے ضروری نہیں تھا کہ ہرزمانے میں امت کوگمراہی سے بچانے والے ک نام لیں یہ مصلحت کاتقاضاہو
لحاظ ہرزمانے کے امام کی معرفت کا معیا ریاتو یہ ہے کہ سارے اماموں کوایک ہی دفعہ معین کردیا جائے یایہ کہ امام بعدوالے کو معین کرے اوروہ ا پنے بعد والے کو یہی وہ طبعی روش ہے جسے انبیاء اوراوصیا نے اپنایاتھا اورابتداء سے لے کرآج تک اس سے سبھی واقف ہیں۔
اہلبیت کی ماام پرطرفین سے بہت زیادہ حدیثیں ہیں اوراگرتاریخ کا مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوجائے گا کہ آئمہ علیھم السلام نے حکومت وقت کے سامنے اپنی امامت کا دعوی کیااوراپنے آپ کوکوامام قائدبارکرایااورآپ کے لاکھوں پیروکارآپ کوامام وقائدتسلیم کرتے تھے۔
اورہر امام اپنے پیروکار کو اپنے بعد والے امام کا نام بتارہاتھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ حکومت کی قیدوبند کی مصیبتیں جھیلتے رہے اورحکام کے ہاتھوں کبھی زہر سے اورکبھی میدان جنگ میں شہید کئے گئے۔
اوراگرایک امام نے اپنے بعدکسی امام کومعین نہ کیاجبکہ حدیث کی روسے معین کرناضروری تھاتواس کا مطلب یہ ہوگاکہ یہ امام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قرآن کے ساتھ رہے گا کیونکہ یہ حدیث ہرگزایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس پہنچ جائیں گے
واضح طورپردلالت کررہی ہے کہ ہرزمانے میں قرآن کے ساتھ عترت میں سے ایک امام ہوگااسی لئے ابن حجرکانظریہ ہے کہ جواحادیث اہل بیت کیساتھ تمسک کرنے کا حکم دیتی ہیں ان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت تک کوئی نہ کوئی فردہوگاجواسی تمسک کا اسی طرح اہل ہو گاجس طرح قرآن ہے۔
اس لیے وہ اہل زمین کے لیے امان ہیں اوریہ حدیث بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ میری امت کی ہرقوم میں میری اہلبیت کے عادل لوگ ہیں(صواعق محرقہ :۱۴۹)

حدیث:من مات ولم یعرف امام زمانہ
"جوشخص مرجائے اوراپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے"
یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ شیعہ سنی دونوں فرقوں کی اہم کتابوں میں موجود ہے اورا ن سب کی بازگشت ایک معنی اور ایک مقصد کی طرف ہے
اس کی صحت کے لیے کافی ہے کہ اسے اہل سنت میں سے بخاری اورمسلم نے(صحیح بخاری ۵:۱۳ باب الفتن ،صحیح مسلم ۶:۲۱۔۲۲۔۱۸۴۹
)اورشیعوں میں سے کلینی ،صدوق ان کے والد ، حمیری اورصفار نے روایت کیا ہے(اصول کافی ۱:۳۰۳۔۵،۱:۳۰۸۔۱،۲۔۳۷۸۔۲روضہ کافی ۸:۱۲۹۔۱۲۳، کمال الدین ۲:۴۱۲۔۴۱۳ ۔و۱۰،و۱۱،و۱۲،و۱۵)باب ۳۹، الامامة والبتصرة :۲۱۹۔۶۹،و۷۰و۷۱،قریب الاسناد:۳۵۱۔۱۲۶۰بصائر الدرجات :۲۵۹و۵۰۹و۵۱۰)
اوربہت سارے علماء نے اسے اتنے زیادہ طرق کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے(مسند احمد ۲:۸۳ ،۳:۴۴۶،۴:۹۶م ،مسند ابوداؤد طیالسی :۲۵۹طبرانی کی معجم کبیر۱۰:۳۵۰۔۱۰۶۸۷،مستدرک حاکم ۱:۷۷، حلیة الاولیاء ۳:۲۲۴، الکنی والاسماء ۲:۳، سنن بیہقی ۸:۱۵۲،۱۵۷، جامع الاصول ۴:۷۰نووی کی شرح مسلم ۱۲:۴۴۰ ،ذھبی کی تلخیص المستدرک ۱:۷۷و۷۷ا، ھیثمی کی مجمع الزوائد ۵:۲۱۸،۲۱۹،۲۱۳،۲۱۵،۳۱۲،تفسیر ابن کثیر ۱:۵۱۷، جیسا کہ کشی نے اس کو اپنے رجال :۲۳۵۔۴۲۸ میں سالم بن ابی حفصہ کے حالات میں ذکر کیاہے)
لہذاکو یہ اس کی سندمیں نقص نہیں کرسکتا اگرچہ ابن زھرہ نے یہ توہم کیا ہے کہ یہ روایت فقط کافی ہے(الامام الصادق ابوزھرہ :۱۹۴)
جبکہ بعیدنہیں ہے کہ یہ حدیث متواترہو اوراس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے اوروہ شخص یہ کہتاہے کہ امام جس کی معرفت کے مرنے والا جاہل کی موت مرتا ہے اس سے مراد بادشاہ اورحاکم ہے چاہئے ظالم اورفاسق ہی ہو !تواس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دلیل سے یہ ثابت کرے کہ ظالم وفاسق کی معرفت دین کاجزہے
اورپھر یہ کہ عقلا ء کے لیے فاسق اورظالم کی معرفت کے فوائد ہیں کہ اگر اس کی معرفت کے بغیرمرجائے تووہ جاہلیت کی موت مرا
بہرحال حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ ہرزمانے میں امام حق موجود ہے اوریہ بات تب ہی صحیح ہوسکتی ہے جب ہم حضرت امام مہد ی کے کو تسلیم کریں جو اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہے جیسا کہ ہم ثابت کرچکے ہیں

حدیث : ان الارض لاتخلومن قائم للہ بحجة
"زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی"
اس حدیث سے بھی طرفین نے استدلال کیا ہے اورانہوں نے اسے کئی طریقوں سے نقل کیا ہے
(اس حدیث کو اسکافی معتزلی نے المعیار والموازنہ میں ذکر کیا ہے :۸۱ابن قتیبہ نے عیون اخبار میں :۷،یعقوبی نے اپنی تاریخ میں ۲:۴۰۰، ابن عبدربہ نے العقد الفرید میں ۱:۲۶۵، ابو طالب مکی نے قوت القلوب فی معاملة المحبوب")میں ۱:۲۲۷، بیہقی نے المحاسن والمساوی میں :۴۰ خطیب نے اپنی تاریخ میں ۶:۴۷۹، اسحاق نخعی کے حالات میں ، خوارزمی حنفی نے مناقب میں :۱۳رازی نے مفاتیں الخیب میں ۲:۱۹۲، ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح میں جیسا کہ آیا ہے ابن عبدالبر نے المختصر میں :۱۲تفازانی نے شرح مقاصد میں ۵:۲۴۱ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ۶:۳۸۵اورکلینی نے اسے کئی طرق کے ساتھ طرق کے ساتھ حضرت علی سے اصول کافی میں ذکر کیا ے ۱:۱۳۲۔۷،۱:۲۷۰،۳،۱۔۲۷۴،۳،صدوق نے کمال الدین میں بہت سارے طرق سے ۱:۲۸۷۔۴باب ۵۲
اور۲۸۹۱ ۔۲۹۴۔۲باب ۲۶ اور۱:۱۰۳۰۲ باب ۲۶)
اوراسے حضرت علی کے جلیل القدر صحابی کمیل بن زیاد نخفی نے آپ سے روایت کیا ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے چنانچہ آپ ایک طویل کلام کے بعد فرماتے ہیں
"اللھم بلیٰ! لاتخلوالارض من قائم اللہ بحجة"
"اے خدایقینا ! زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی"
اورزمین کا حجت خدا سے خالی ہونا اس وقت ہو سکتا ہے جب حضرت امام مہدی پیدا ہو چکے ہوں اورابن ابی حدید نے اسے درک کر لیا تھا چنانچہ مذکورہ جملے کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"تاکہ زمانہ ایسے شخص سے خالی نہ ہوجائے جواللہ تعالی کی طرف سے لوگوں پرنگران اورمحافظ ہوتا ہے اورعین ممکن ہے کہ یہ (جملہ)مذہب شیعہ کے عقائد کو بیان کررہاہولیکن ہمارے علماء ابدال مراد لیتے ہیں"(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۸:۳۵۱)
اورابن حجرعسقلانی نے بھی بھانپ لیا تھا کہ یہ حضرت امام مہدی کی طرف اشارہ ہے چنانچہ کہتے ہیں" آخری زمانہ میں اورقیامت کے نزدیک حضرت عیسی ٰ کا اس امت کے ایک فردکے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کے صحیح ہونے پردلالت کرتاہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی(فتح الباری شرح صحیح بخاری ۶:۳۸۵)
نہج البلاغہ کی اس سے پہلی والی عبارت کودیکھ کریہ مطلب مزیدواضح ہوجاتا ہے فرماتے ہیں:۔
"یا کمیل بن زیاد،ان ھذہ القلوب اوعیة فخیرھااوعاھا ،فاحفظ عنی مااقول لک ثلاثة : فعالم ربانی ،ومتعلم علی سبیل النجاة وھمج دعاع اتباع کل ناعق یمیلون مع کل ریح لم یستضیوا بنور العلم ولم یلجاوالی رکن وثیق"
"اے کمیل بن زیاد! بیشک دل برتنوں کی مانندہیں پس بہترین دل وہ ہے جوزیادہ حفاظت کرنے والا ہے پس جوکچھ بھی کہہ رہا ہوں اسے خوبی یاد کرلو!
لوگ تین قسم کے ہیں عالم ربانی ،اوروہ متعلم جو نجات کے راستے پرگامزن ہے اورتیسرے وہ لوگ جوہرآوازدینے والے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اورہوا کے جھونکوں کے ساتھ مڑجاتے ہیں انہوں نے نورعلم سے روشنی حاصل نہیں کی اورکسی مضبوط پہاڑکی پناہ نہیں لی"
مزیدفرماتے ہیں:۔
اللھم بلیٰ لا تخلو الارض من قائم بحجة اما ظہر امشھورا، واما خائفا مغمورا، لئلا تبطل حجج اللہ و بیناتہ"
"خدایا ہاں ! زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی یا وہ ظاہراورمشہور ہے یاخوف زدہ اورگمنام ہے تاکہ اللہ تعالی کی واضح نشانیاں اوراحکام اورحجتیں معطل نہ ہوجائیں (نہج البلاغہ شرح شیخ محمد عبدہ ۴:۲۹۱۔۸۵،شرح ابن ابی الحدید ۱۸:۳۵۱)
اسی لیے حسین بن ابی علاء خفاف کی حدیث صحیح میں ہے کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق سے کہاکیایہ ممکن ہے کہ زمین پرکوئی امام نہ ہوتوانہوں نے ارشاد فرمایا :۔ نہیں(اصول کافی ۱:۱۳۶۔ ۱ باب ان الارض لاتخلو عن حجة اوراس کی سند یوں ہے ہمارے کئی علماء نے احمد بن محمد عیسیٰ سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے حسین بن ابوالعلاء سے اورانہوں نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے)
اوراگرحدیث ثقلین اورحدیث "من مات "اورحدیث الخلفاء اثناعشر"جس کا ذکرکے بعدمیں آئے گاکو مذکورہ بیان سے ملائیں تو معلوم ہوجائے گاکہ حضرت امام مہدی اگرواقعا پیدا نہیں ہوئے توحتما آپ سے پہلے والے امام زندہ ہوں گے لیکن کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اہل بیت علیھم السلام کے ان بارہ اماموں میں سے حضرت امام مہدی کے علاوہ کوئی اورامام زندہ ہے
بخاری نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن سمرہ سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے میں نے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا
یکون اثناعشر امیرا
بارہ امیر ہوں گے
پھر کوئی بات کہی جوسنائی نہ دی لیکن میرے والد نے مجھے بتایا کہ آپ نے فرمایاتھا:۔
"کلھم من قریش"
"وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے"(صحیح بخاری ۴:۱۶۴، کتاب الا حکام باب الاستخلاف اورصدوق نے اسے جابر بن سمرہ سے کمال الدین ۱:۲۷۲۔۱۹میں اورخصال ۲:۴۶۹۔۴۷۵ میں ذکر کیا ہے)
اورصحیح مسلم میں ہے کہ :۔
"ولایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ۔او یکون علیکم اثنا عشر خلیفہ کلھم من قریش"
"قیامت تک دین قائم رہے گایابارہ خلفا ء آجائیں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے"(صحیح مسلم ۲:۱۱۹ کتاب الامارہ باب الناس تبع لقریش میں اسے نو طرق سے ذکر کیا ہے)
اوراحمد نے اپنی مسند میں مسروق سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے "ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اوروہ قرآن پڑھ رہے تھے کہ انہیں ایک شخص نے کہا اے عبداللہ کیا تم لوگوں نے کبھی پیغمبر اسلام سے پوچھا تھا کہ اس امت کے کتنے خلیفے ہوں گے؟
انہوں نے کہا جب سے میں عراق میں آیا ہوں تجھ سے پہلے مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں کای پھر کہا ہا ہم نے پیغمبر سے سوال کیا تھا اورآپ نے فرمایا تھا
اثنی عشرہ کعدة نقبای بنی اسرائیل
"بنی اسرائیل کے سرداروں کی تعداد کے مطابق بارہ خلیفہ ہوں گے (مسند احمد ۵:۹۰،۹۳۔۹۷،۱۰۰ ،۱۰۶،۱۰۷اورصدوق نے اسے کمال الدین ۱:۲۷۰۔۱۶ میں ابن مسعود سے نقل کیا ہے)
ان احادیث سے مندرج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں
۱۔ خلفاء کی تعداد بارہ سے زیادہ نہیں ہو گی اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اوریہ شیعہ عقیدے کے مطابق ہیں
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آئمہ کو خلفاء نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کا جواب بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر کی مراد امارت اورخلافت کے مستحق ہیں ۔
خدانخواستہ کبھی بھی آپ کی مراد معاویہ ،یزید اورمروان جیسے لوگ نہیں ہوسکتے کہ جو اپنی خواہشات کیمطابق امت مسلمہ کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔
بلکہ خلیفہ سے مراد وہ ہے جسے یہ منصب خدا کی طرف سے ملے یہ اوربات ہے کہ دوسرے لوگوں حکومت پر قبضہ کرلیں
اسی لیے "عون المعبود فی شرح سنن ابی داود میں ہے"توربشتی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اوراس جیسی دیگر احادیث کا حل یہ ہے کہ ان سے مراد عدل قائم کرنے والے خلفاء ہوں کیونکہ درحقیقت وہی خلیفہ کے نام کے مستحق ہیں۔
اورضروری نہیں ہے کہ حکومت بھی ان کے ہاتھ میں ہو اور بطور فرض اس سے مراد حکومت کے زمامدار لوگ ہیں توانہیں خلیفہ کہنا مجاز ہوگا۔
جیسا کہ مرقات میں بھی اسی بات کہی گئی ہے (عون المعبود ۱۱:۶۲۶، حدیث ۴۲۵۹کی شرح)
۲۔ نبی اسرائیل کے سرداروں کے ساتھ تشبیہ دینے کا مطلب بھی یہ ہے کہ مراد یہی بارہ ہوں جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے
ولقد اخذ اللہ میثاق نبی اسرائیل وبعثنا منھم اثنا عشر نقینا
اوراللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد وپیمان لیا اوران میں بارہ سردار معین کئے(مائدہ ۵:۱۲)
۳۔ یہ ممکن نہیں کہ بارہ میں سے کوئی بھی خلیفہ روئے زمین پر نہ ہوبلکہ قیامت تک ان میں سے ایک کا وجود ضروری ہے چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح کے اسی باب میں ایک حدیث ذکر کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے
"لا یزال ھذا الامرفی قریش مابقی من الناس اثنان "
"قریش میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا اگرچہ دنیا میں دوشخص ہی باقی ہوں
اوریہ چیز بالکل شیعوں کے عقیدے کے مطابق ہے کہ بارہویں امام حضرت امام مہدی منتظر دوسرے زندہ لوگوں کی طرح زندہ ہیں اوروہ آخری زمانے میں ظاہر ہو کردنیا کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی۔
جیساکہ ااپ کی جد امجد حضرت محمد نے اس کے متعلق خوشخبری دی ہے اوریہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل سنت کبھی بھی بارہ خلفاء کے ناموں پر متفق نہیں ہوسکے حتی کہ بعض کو مجبور ہو کر یزید بن معاویہ ،مروان ،عبدالمالک اوردوسروں کو خلفاء کی صفت میں داخل کردیا اوراس سلسلہ عبدالعزیز تک پہنچادیا تاکہ بارہ کا عد د پورا ہوسکے(ان کے اقوال معلوم کرنے کے لئے ملاحظہ ہو مقریزی کی کتاب "السلوک لمعرفةدول الملوک ۱:۱۳۔۱۵،حصہ اول، تفسیر ابن کثیر ۲:۳۴سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۲ ، کی تفسیر میں شرح العقیدہ الطعاویة ۲:۷۳۶، سنن ابی داؤد پر حافظ ابن قیم کی شرح ۱۱:۲۶۳،شرح حدیث۴۲۵۹ ، الحاوی الفتاوی ۲:۸۵)
لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ عمرابن عبدا لعزیز کے بعد سب زمانے خلیفہ سے خالی ہوں جبکہ حدیث یہ کہتی ہے کہ قیامت تک ان کے وجود کے صدقے میں قائم رہے گا۔
بیشک ان احادیث کا اگر یہ معنی نہیں ہے توپھر ان کا کوئی صحیح معنی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ واضح ہے کہ ظاہری حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ان کی تعداد ان سے کئی گنازیادہ ہے جو احادیث میں آئی ہے
نیزوہ سب کے سب ختم ہوچکے ہیں اورمسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی پر نص بھی نہیں آئی وہ اموی ہوں یا عباسی۔چنانچہ قندوزی حنفی لکھتے ہیں کہ پیغمبراورحدیث ثقلین بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم کی مراد بارہ امام ہیں (ینا بیع المودة ۳:۱۰۵باب ۷۷"بعدی اثنا عشر خلیفہ"میرے بعد بارہ خلفا ہوں گے والی حدیث کی تحقیق)
یہ بات واضح ہے "یہ حدیث کے خلفاء بارہ ہوں گے بارہ اماموں کے تاریخی تسلسل سے پہلے کی ہے اورآئمہ کے دورکے مکمل ہونے سے پہلے یہ صحاح وغیرہ میں لکھی جاچکی تھی ۔پس یہ ایک محض خبر نہیں ہے بلکہ ایک ربانی حقیقت ہے جواس شخص کی زبان سے جاری ہوئی جو وحی الہی کے بغیربولتا نہیں تھا اس نے فرمایامیرے بعد بارہ خلیفے ہوں گے تاکہ یہ اس واقعی حقیقت کی گواہ ہو اوراس کی تصدیق کرے کہ جس کی ابتداامیرالمومنین حضرت علی سے ہوئی اورجس کی انتا حضرت امام مہدی پر ہو گی اوراس حدیث کی یہی معقول تفسیر ہو سکتی ہے(بحث حول المہدی شہید محمد باقر الصدر :۵۴۔۵۵)
اوراس حدیث کو غیب کی سچی خبر ہونے کی بنا پر نبوت کی دلیل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
رہا حدیث کو ان عباسی اوراموی خلفاء پر منطبق کرنا کہ جن کی منافقت جرائم اورقتل وغارفت کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی شان کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے عمر ابن عبدالعزیز کے زمانے تک دین کے باقی رہنے کی خبر دی ہے نہ قیامت تک۔

 
 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.