«عبادت » نہج البلاغہ کی نظر ميں
نہج البلاغہ کا اجمالي تعارف
نہج البلاغہ وہ عظيم المرتبت کتاب ھے جس کو دونوں فريق کے علماء معتبر سمجھتے ھيں، يہ مقدس کتاب امام علي عليہ السلام کے پيغامات اور گفتار کا مجموعہ ھے جس کو علامہ بزرگوار شريف رضي عليہ الرحمہ نے تين حصوں ميں ترتيب ديا ھے جن کا اجمالي تعارف کچھ يوں ھے:
۱۔ حصہ اول: خطبات
نہج البلاغہ کاسب سے پھلا اور مھم حصہ امام علي عليہ السلام کے خطبات پر مشتمل ھے جن کو امام عليہ السلام نے مختلف مقامات پر بيان فرمايا ھے، ان خطبوں کي کل تعداد (۲۴۱ ) خطبے ھيں جن ميں سب سے طولاني خطبہ ۱۹۲ ھے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشھور ھے اور سب سے چھوٹا خطبہ ۵۹ ھے۔
۲۔ حصہ دوم: خطوط
يہ حصہ امام عليہ السلام کے خطوط پر مشتمل ھے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضيوں اور زکوٰة جمع کرنے والوںکے لئے لکھے ھيں، ان سبب ميں طولاني خط ۵۳ ھے جو آپ نے اپنے مخلص صحابي مالک اشتر کو لکھا ھے اور سب سے چھوٹا ۷۹ ھے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔
۳۔ حصہ سوم: کلمات قصار
نہج البلاغہ کا آخري حصہ ۴۸۰ چھوٹے بڑے حکمت آميز کلمات پر مشتمل ھے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ھے، يعني مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھي کھا جاتا ھے، يہ حصہ اگرچہ مختصر بيان پر مشتمل ھے ليکن ان کے مضامين بہت بلند پايہ حيثيت رکھتے ھيں جو نہج البلاغہ کي خوبصورتي کو چار چاند لگاديتے ھيں۔
مقدمہ
اسلام کي نظر ميں انسان جتنا خدا کے نزديک ھوجائے اُس کا مرتبہ و مقام بھي بلند ھوتا جائے گا اور جتنا اُس کا مرتبہ بلند ھوگا اسي حساب سے اُس کي روح کو تکامل حاصل ھوتا جائے گا۔ حتي کہ انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ھے کہ جو بلند ترين مقام ھے جھاں وہ اپنے اور خدا کے درميان کوئي حجاب و پردہ نھيں پاتا حتي کہ يھاں پہنچ کر انسان اپنے آپ کو بھي بھول جاتا ھے۔
يھاں پر امام سجاد عليہ السلام کا فرمان ھے۔ جو اسي مقام کو بيان کرتا ھے۔ امام سجاد عليہ السلام فرماتے ھيں:
”إلٰہي ہَبْ لي کمالُ الانْقِطَاعُ إليکَ وَ اٴَنرْ اٴبصارُ قلوبِنَا بُعينآء نَظَرَہَا إلَيْکَ حَتّٰي تَخْرَقُ اٴَبْصَارَ الْقُلُوْبِ حُجُبَ النُّوْرِ فَتَصِلَ إليٰ مَعْدَنِ الْعَظْمَةِ“۔[1]
”خدايا ميري (توجہ) کو غير سے بالکل منقطع کردے اور ھمارے دلوں کو اپني نظر کرم کي روشني سے منوّر کردے۔ حتي کہ بصيرت قلوب سے نور کے حجاب ٹوٹ جائيں اور تيري عظمت کے خزانوں تک پہنچ جائيں۔ اس فرمان معصوم سے معلوم ھوتا ھے کہ جب انسان خُدا سے متصل ھوجاتا ھے اس کي توجہ غير خُدا سے منقطع ھوجاتي ھے خدا کے علاوہ سب چيزيں اُس کي نظر ميں بے ارزش رہ جاتي ھيں۔ وہ خود کو خداوند کي مملوک سمجھتا ھے۔ اور اپنے آپ کو خدا کي بارگاہ ميں فقير بلکہ عين فقر سمجھتا ھے اور خدا کو غني بالذات سمجھتا ھے“۔
قرآن ميں ارشاد ھوتا ھے:
<عَبْدًا مَمْلُوکًا لاَيَقْدِرُ عَلَي شَيْءٍ>[2]
” انسان خدا کا زرخريد غلام ھے اور يہ خود کسي شئي پر قابو نھيں رکھتا ھے۔“
لہٰذا خداوندکريم کا قرب کيسے حاصل کيا جائے تاکہ يہ بندہ خدا کا محبوب بن جائے اور خدا اس کا محبوب بن جائے۔ معصومین علیھم السلام فرماتے ھیں: خدا سے نزدیک اور قرب الٰھی حاصل کرنے کا واحد راستہ اس کی عبادت اور بندگی ھے۔ یعنی انسان اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں فقط خدا کو اپنا ملجاٴ و ماوا قرار دے۔ جب انسان اپنا محور خدا کو قرار دے گا تو اُس کا ھر کام عبادت شمار ھوگا۔ تعلیم و تعلم بھی عبادة، کسب و تجارت بھی عبادة۔ ضردی و اجتماعی مصروفیات بھی عبادة گویا ھر وہ کام جو پاک نیت سے اور خدا کے لئے ھوگا وہ عبادت کے زمرے میں آئے گا۔
ابھی عبادت کی پہچان اور تعریف کے بعد ھم عبادة کی اقسام اور آثار عبادت کو بیان کرتے ھیں۔ تاکہ عبادت کی حقیقت کو بیان کیا جاسکے۔ خداوند سے توضیقات خیر کی تمنّا کے ساتھ اصل موضوع کی طرف آتے ھیں۔
عبادت کی تعریف:
”اَلْعِبَادَةُ ہِيَ الْخُضُوْعُ مِمَّنْ یَریٰ نَفْسَہُ غَیْرَ مُسْتَقِلٍ فِي وُجُوْدِہِ وَ فِعْلِہِ اٴَمَامَ مَنْ یَکُونُ مُسْتَقِلاً فِیْہَا“۔
” عبادة یعنی جھک جانا اُس شخص کا جو اپنے وجود عمل میں مستقل نہ ھو اُس کی ذات کے سامنے جو اپنے وجود و عمل میں استقلال رکھتا ھو “
یہ تعریف بیان کرتی ھے کہ ھر کائنات میں خدا کے علاوہ کوئی شئی استقلال نھیں رکھتی فقط ذات خدا مستقل اور کامل ھے۔ اور عقل کا تقاضا ھے کہ ھر ناقص کو کامل کی تعظیم کرنا چاھی یٴے چونکہ خداوند متعال کامل اور اکمل ذات ھے بلکہ خالق کمال ھے لہذا اُس ذات کے سامنے جھکاوٴ و تعظیم و تکریم معیار عقل کے عین مطابق ھے۔
عبادت کی اقسام:
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔ فرمایا:
”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَہْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[3]
”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ھے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ھے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ھے“۔
اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ھے۔
پھلی قسم :تاجروں کی عبادت
فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“
یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ھے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ھے۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ھے۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ھے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ھے۔
دوسری قسم :غلاموں کی عبادت
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ رَہْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔
امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ھے بلکہ غلاموں کی عبادت ھے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ھے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ھے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ھے۔
تیسری قسم :حقیقی عبادت
فرمایا:
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللهَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔
امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ھے۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ھے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ھے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ھے۔
نکتہ
ایسا نھیں ھے کہ پھلی دوقسم کی عبادت بے کار ھے اور اُس کا کوئی فائدہ نھیں ھے ھر گز ایسا نھیں ھے بلکہ امام علیہ السلام مراتب عبادت کو بیان فرمانا چاہتے ھیں۔ اگر کوئی پھلی دوقسم کی عبادت بجالاتا ھے تو اُس کو اس عبادت کا ثواب ضرور ملے گا۔ فقط اعلیٰ مرتبہ کی عبادت سے وہ شخص محروم رہ جاتا ھے۔ چونکہ بیان ھوا اعلیٰ عبادت تیسری قسم کی عبادت ھے۔
عبادت کے آثار
۱) نورانیت دل عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ھے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ھے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ھے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں :
”إنَ اللهَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔[4]
امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ھے۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“۔
۲) خدا کی محبت عبادت کا دوسرا اھم اثر یہ ھے کہ یہ محبت خُدا کا ذریعہ ھے۔ انسان محبوب خدا بن جاتا ھے اور خدا اس کا محبوب بن جاتا ھے۔ امام(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں۔
”طُوْبیٰ لِنَفْسٍ اٴَدَّتْ إلیٰ رَبِّہَا فَرْضَہَا َو عَرَکَتْ بِجَنْبِہَا ُبوٴسَہَا“۔[5]
”خوش قسمت ھے وہ انسان جو اپنے پروردگار کے فرائض کو انجام دیتا ھے اور مشکلات اور مصائب کو برداشت کرتا ھے اور رات کو سونے سے دوری اختیار کرتا ھے“۔
امام(ع) کے فرمان کا مطلب یہ ھے کہ انسان ان مشکلات کو خدا کی محبت کی وجہ سے تحمل کرتا ھے اگر امحبت خدا دل کے اندر نہ ھو تو کوئی شخص یہ مشکلات برداشت نھیں کرے گا۔ جیسا کہ ایک اور جگہ پر اس عظیم الشان کتاب میں فرماتے ھیں:
”وَ إنَّ لِلذِّکْرِ لَاٴہْلاً اٴَخَذُوْہُ مِنَ الدُّنْیَا بَدَلاً“۔[6]
” تحقیق اس ذکر (یعنی عبادت) کے اھل موجود ھیں جو دنیا کے بجائے اسی کا انتخاب کرتے ھیں “۔
یعنی اھل عبادت وہ لوگ ھیں جو محبت خدا کی بنا پر دنیا کے بدلے یاد خدا کو زیادہ اھمیت دیتے ھیں، اور دُنیا کو اپنا ھم و غم نھیں بناتے بلکہ دنیا کو وسیلہ بناکر اعلیٰ درجہ کی تلاش میں رہتے ھیں۔
۳) گناھوں کا محوھونا گناھوں کا محوھونا یہ ایک مھم اٴثر ھے۔ عبادت کے ذریعہ گناھوں کو خداوندکریم اپنی عطوفت اور سھر بانی کی بناپر محو کر دیتا ھے۔ چونکہ گناھوں کے ذریعے انسان کا دل سیاہ ھوجاتا ھے اور جب دل اس منزل پر پہنچ جائے تو انسان گناہ کو گناہ ھی نھیں سمجھتا۔ جبکہ عبادت و بندگی اور یاد خدا انسان کو گناھوں کی وادی سے باھر نکال دیتی ھے۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔
”إنَّہَا لَتَحُتَّ الذُّنُوْبَ حَتَّ الوَرَقِ“۔[7]
” تحقیق یہ عبادت گناھوں کو اس طرح جھاڑ دیتی ھے جیسے موسم خزاں میں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ھیں“۔
بعد میں امام(ع) فرماتے ھیں کہ رسول خدا نے نماز کو اور عبادت کو ایک پانی کے چشمے سے تشبیہ دی ھے جس کے اندر گرم پانی ھو اور وہ چشمہ کسی کے گھر کے دروازے موجود ھو۔ اور وہ شخص دن رات پانچ مرتبہ اس کے اندر غسل کرے تو یقینابدن کی تمام میل و آلودگی ختم ھوجائے گی، فرمایا: نماز بھی اسی طرح ناپسندیدہ اخلاق اور گناھوں کو صاف کر دیتی ھے۔
نماز کی اھمیت نماز وہ عبادت ھے کہ تمام انبیاء کرام نے اس کی شفارش فرمائی ھے۔ اسلام کے اندر سب سے بڑی عبادت نماز ھے جس کے بارے میں پیامبر اکرم(ص) کا ارشاد ھے۔ اگر نماز قبول نہ ھوئی تو کوئی عمل قبول نھیں ھوگا پھر فرمایا نماز جنّت کی چابی ھے اور قیامت کے دن سب سے پھلے نماز کے بارے میں سوال ھوگا۔
قرآن مجید کے اندر نماز کو شکر خدا کا ذریعہ بتایا گیا ھے۔ بعض حدیثوں میں نماز کو چشمہ و نھر سے تشبیہ دی گئی ھے جس میں انسان پانچ مرتبہ غسل کرتا ھے۔ اس کے علاوہ بہت سی احادیث نماز کی عظمت اور اھمیت پر دلالت کرتی ھیں امام علی(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں۔
”تَعَاہَدُوْا اٴمْرَ الصَّلاَةِ وَ حَافِظُوْا عَلَیْہَا وَ اسْتَکْثِرُوْا مِنْہَا وَ تَقَرَّبُوْا بِھا“۔[8]
”نماز قائم کرو اور اس کی محافظت کرو اور اس پر زیادہ توجہ دو اور زیادہ نماز پڑھو اور اس کے وسیلے سے خدا کا قرب حاصل کرو“۔
چونکہ خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ھے۔
<الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا>[9]
”نماز بعنوان فریضہٴ واجب اپنے اوقات میں مومنین پر واجب ھے“۔
پھر فرمایا :
”قیامت کے دن اھل جنت، جہنم والوں سے سوال کریں گے۔ کونسی چیز تمھیں جہنم میں لے کر آئی ھے وہ جواب دیں گے کہ ھم اھل نماز نھیں تھے“۔
پھر امام(ع) اس خطبہ ۱۹۹ میں فرماتے ھیں:
نماز کا حق وہ مومنین پہچانتے ھیں جن کو دنیا کی خوبصورتی دھوکہ نہ دے۔ اور مال و دولت اور اولاد کی محبت نماز سے نہ روک سکے۔ ایک اور جگہ پر امام(ع) فرماتے ھیں۔
”عَلَیْکُمْ بِالْمُحَافِظَةِ عَلیٰ اَٴوقَاتِ الصَّلاَة فَلَیْسَ مِنِّي مَنْ ضَیَّعَ الصَّلاةَ “۔[10]
”تم اوقات نماز کی پابندی کرو وہ شخص مجھ سے نھیں ھے جو نماز کو صائع کردے“۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ھیں:
”وَ اللهُ اللهِ فِي الصَّلاَةِ فَاِنَّہَا عُمُوْدُ دِیْنِکُمْ“۔[11]
”خدا را، خدا رانماز کو اھمیت دو چونکہ نماز تمھارے دین کا ستون ھے“۔
اس حدیث کے علاوہ اور بھی کافی احادیث اھمیت نماز کو بیان کرتی ھیں۔ چونکہ اختصار مدنظر ھے لہٰذا انھی چند احادیث پر اکتفاء کیا جاتا ھے۔ فقط ایک دو مورد ملا خطہ فرمائیں:
۱۔ نماز قرب خدا کا ذریعہ ھے امام(ع) نہج البلاغہ کے اندر فرماتے ھیں:
”اَلصَّلاَةُ قُرْبَانُ کُلِّ تَقِیٍ“۔
”نماز موجب قرب خدا ھے“۔
۲۔ نماز محور عبادات رسول گرامی اسلام (ص)فرماتے ھیں نماز دین کا ستون ھے سب سے پھلے نامہ اعمال میں نماز پر نظر کی جائے گی اگر نماز قبول ھوئی تو بقیہ اعمال دیکھے جائیں گے۔ اگر نماز قبول نہ ھوئی تو باقی اعمال قبول نھیں ھوں گے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”وَ اعْلَمْ اٴنَّ کُلَّ شَئيٍ مِنْ عَمَلِکَ تَبَعٌ لِصَلَاتِکَ“۔[12]
”جان لو کہ تمام دوسرے اعمال تیری نماز کے تابع ھونے چاھیں“۔
عظمت نماز امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر ارشاد فرماتے ھیں:
” لَیْسَ عَمَلٌ اٴَحَبُّ إلیٰ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الصّلٰوة۔۔۔“۔[13]
” نماز سے بڑھ کر کوئی عمل خدا کو محبوب نھیں ھے، لہٰذا کوئی چیز دنیاوی تجھے اوقات نماز سے غافل نہ کرے۔“۔
وقت نماز کی اھمیت امام علیہ السلام اسی کتاب میں فرماتے ھیں:
”صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِہَا الْمُوٴَقَّتِ لَہَا وَ لَا تَعْجَلْ وَقْتَہَا لِفَرَاغِ وَ لَاتُوٴَخِّرہَا عَنْ وَقْتِہَا لِاشْتِغَالٍ“۔[14]
”نماز کو معین وقت کے اندر انجام دو۔ وقت سے پھلے بھی نھیں پڑھی جاسکتی اور وقت سے تاخیر میں بھی نہ پڑھو“۔
امام(ع) جنگ صفین میں جنگ کے دوران نماز پڑھنے کی تیاری فرماتے ھیں۔ ابن عباس نے کھا اے امیر لمومنین ھم جنگ میں مشغول ھیں، یہ نماز کا وقت نھیں ھے۔ تو امام نے فرمایا۔ اے ابن عباس میں ” علی(ع)“ جنگ لڑ ھی نماز کے لئے رھا ھوں۔ امام(ع) نے زوال ھوتے ھی نماز کے لئے وضو کیا اور عین اول وقت میں نماز کو ادا کرکے ھمیں سبق دیا ھے کہ نماز کسی صورت میں اول وقت سے موٴخر نہ کی جائے۔
نماز تہجد یا نماز شب نماز شب یا نماز تہجد ایک مستجی نماز ھے جس کی گیارہ رکتیں ھیں۔ آٹھ رکعت نماز شب کی نیت سے اور دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھی جاتی ھے نماز شفع کے اندر قنوت نھیں ھوتا۔ اور نماز وتر ایک رکعت ھے۔ اور قنوت کے ساتھ جس میں چالس مومنین کا نام لیا جاتا ھے۔ یہ نماز معصومین(ع) پر واجب ھوتی ھیں۔ معصومین(ع) نے اس نماز پر بہت تاکید فرمائی ھے۔ چونکہ اس کے فوائد بہت زیادہ ھیں۔
نماز شب کی برکات ”قَیَامُ اللَّیْلِ مُصَحَّةُ الْبَدَنِ وَ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ عَزَّ وَ جَلَّ وَ تَعَرُّضٌ لِلرَّحْمَةِ وَ تَمَسَّکٌ بِاٴخْلَاقِ النَّبِیِّیْنَ“۔[15]
”۱۔نماز شب تندرستی کا ذریعہ ھے۔
۲۔خشنودی خدا کا ذریعہ ھے۔
۳۔ نماز شب اخلاق انبیاء کی پیروی کرنا ھے ۔
۴۔ اور باعث رحمت خدا وند ھے“۔
امام علی علیہ السلام نماز شب کی عظمت بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
”میں نے جب سے رسول خدا(ص) سے سنا ھے کہ نماز شب نور ھے تو اس کو کبھی ترک نھیں کیا حتّی کہ جنگ صفین میں ”لیلة الھریر “میں بھی ترک نھیں کیا“[16]
نماز جمعہ کی اھمیت نماز جمعہ کے بارے میں بھی امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں بہت تاکید فرمائی ھے:
حدیث اوّل:
” وَلَاتُسَافِرْ فِي یَوْمَ الْجُمْعَةِ حَتّٰی تَشْہَدَالصَّلَاةَ “۔[17]
”جمعہ کے دن سفر نہ کرو اور نماز جمعہ میں شرکت کرو۔ مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش نظرھو“۔
حدیث دوم:
” إنَّ عَلِیّاً کَانَ یَمْشِي إلَی الْجُمُعَةِ حَافِیاً تَعْظِیْماً لَہَا وَ یُعَلَّقُ نَعْلَیْہِ بِیَدِہِ الْیُسْریٰ“۔[18]
”امام علی(ع) جمعہ کے احترام میں ننگے پاوٴں چل کر نماز میں شریک ھوتے تھے اور جوتے ھاتھ میں ھوتے تھے“۔
——————
[1] مفاتیح الجنان، مناجات شعبانیہ، شیخ عباس قمی۔
[2] سورہ نحل آیت ۷۵۔
[3] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔
[4] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔
[5] نہج البلاغہ، خطبہ۴۵۔
[6] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔
[7] نہج البلاغہ، خطبہ۱۹۹۔
[8] نہج البلاغہ، خطبہ۱۹۹۔
[9] سورئہ نساء آیت ۱۰۳۔
[10] دعائم الاسلام، ح ۲، ص ۳۵۱۔
[11] نہج البلاغہ، خط ۴۷۔
[12] نہج البلاغہ، خط ۲۷۔
[13] شیخ صدوق الخصال ، ۶۲۱۔
[14]نہج البلاغہ، خط نمبر ۲۷۔
[15]قطب الدین راوندی۔ الدعوات، ص ۷۶۔
[16]بحار الانوار جلد ۴ ۔
[17]نہج البلاغہ، خط ۶۹۔
[18]دعائم الاسلام، ح ۱، ص ۱۸۲۔