آیت تطہیرکے کلمات کی وضاحت

949

آیت تطہیرکے کلمات کی وضاحت
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا.(سورة احزاب ۔ ٣٣)
ترجمہ : اے (پیامبر کے اہل بیت ) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ( ہر طرح کی ) برائی سے دور رکھے اور جو پاک رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔
رجس کامطلب:
رجس کا مطلب پلیدی اور گندگی ہے کیونکہ آیت میںرجس الف و لام کے ساتھ آیا ہے اس لئے ہر قسم کی گندگی اورپلیدی مراد ہے ، ایک وقت اس سے مراد انسان کی داخلی اور نفسانی گندگی ہے ، ایک وقت اس سے مراد ظاہری گندگی ہے خنزیرمجسم پلید ہے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ( و لحم الخنزیر فانہ رجس )( سورة انعام ۔ آیة ٥٤١)اور خنزیرکا گوشت بے شک پلیدہے۔
نیز معنوی پلیدی کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ (واماالذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم و ماتوا و ھم کافرون۔ (سورة توبہ ٥٢١) مگر جن لوگوں کے دل میں نفاق کی بیماری ہے تو ان کی (پچھلی ) خباثت پر ایک خباثت اور بڑھادی اور یہ لوگ حالت کفر ہی میں مرگئے۔
ایک اور مقام پر ارشادہو تا ہے :
( و من یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لا یومنون ) ( سورة انعام ۔ آیة ٥٢١)اور ( خدا ) جس کو گمراہی کی حالت میں چھوڑنا چاہتا ہے اس کے سینے کو تنگ، دشوار گذار کردیتا ہے ، گویا ( قبول ایمان ) اس کیلئے آسمان پر چڑھنا ہے ،جولوگ ایمان نہیں لاتے خدا ان پر برائی کو اسی طرح مسلط کردیتاہے
بہر حال یہ جس معنی میں بھی ہو انسان کی نسبت سے مراد وہی روحی اور معنوی پلیدی ہے چاہے وہ پلیدی کسی باطل عقیدہ کی بناپر ہو یا کسی برے یا نامطلوب عمل کی وجہ سے رجس کو دور کرنے سے مراد اعتقاد اور عمل باطل سے مصونیت اور عصمت ہے تطھیر کہ جو جملہ ( یطھرکم تطھیرا ) میں بیان ہواہے ( کہ جس میں مصدر تطھیر کے ساتھ تاکید کی گئی ہے ) رجس کے اثر کو دور اور زائل کرنے کے بعد پاک اور پاکیزہ کرنے کے معنی میں ہے ۔ اس سے مراد حق پر اعتقاد ہے ، یعنی حق کے لئے راسخ العقیدہ ہونا اور حق پر عمل پیرا رہناہے ۔
لہذا اس ارادہ کے ساتھ معنی یہ ہوا کہ خداوند متعال مستقل اور دائمی طور پر ہی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کو مقام عصمت عطا کرے اس طریقے سے کہ اعتقاد باطل اور عمل باطل کو آپ حضرات سے دور کرکے اس کی جگہ عصمت عطا کردی جائے تا کہ کسی بھی قسم کا باطل آپ کے نزدیک نہ آنے پائے ۔ جیسا کہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں ۔ ( عصمکم اللہ من الزلل و آمنکم من الفتن و یطھرکم من الدنس و اذھب عنکم الرجس و یطھرکم تطھیرا )
خداوند نے آپ لوگوں کو لغزشوں سے دور کردیا ہے اور انحرافات کے فتنوں سے امان دے دی ہے اور آلودگیوں سے پاک کردیا ہے اور پلیدی کو آپ سے دور کردیا ہے ، ایسا پاک کردیا ہے کہ جیسے پاک کرنے کا حق ہے ۔
آیہ شریفہ میں قابل توجہ نکات
پہلانکتہ ، اِنما عربی زبان میں حصرا اور محدود کرنے کے لئے آتا ہے جیسے ۔ انما لک عندی درھم ، یا انما فی الدار زید یعنی میرے پاس تمہارے لئے سوائے ایک درھم کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ یا گھر میں زید کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آیہ شریفہ میں مصداق اہل بیت کو محدود اور محصور کردیا ہے ۔
دوسرا نکتہ ، لفظ یریداللہ میں ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون ۔(سورة یس ۔ آیة ٢٨)
اس چیز کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا ) چاہتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جاتو ( فورا ) ہو جاتی ہے ۔
ارادہ تشریعی کی مثال کہ جس میں خداوند ارشاد فرماتا ہے:
یرید اللہ بکم الیسر ولایرید العسر…..(سورہ بقرہ ۔ آیة ٥٨ا)خدا تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج و لکن یرید لیطھر کم و لیتم نعمتہ علیکم …(سورة مائدہ ۔ آیہ٦)
خدا تو یہ چاہتا ہی نہیں کہ تم پر کسی طرح کی تنگی کرے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ پاک و پاکیزہ کردے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردے ۔
اگر مراد ارادہ تشریعی ہو تو یہ بات منافات رکھتی ہے کہ جو آیہ میں محصور اور محدودیت بیان ہوئی ہے یعنی جو چیز اھل بیت کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر انسان اور مسلمان سے متعلق ہے۔ خالق اپنے ہر بندے سے یہی چاہتا ہے کہ وہ تقوی الہی اختیار کریں اور برائیوں سے دور ہوجائیں اس میں محدود اورمحصور کرنے کی کیابات ہے ؟
تیسرا نکتہ ، آیت تطھیر میں ازواج شامل نہیں ہیں ۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ہم آیہ شریفہ سے یوں استدلال کرسکتے ہیں :
الف :اگر ہم آیہ تطھیر سے پہلے اور بعد کی آیات کو دیکھیں تو ہمیں ان میں حکم بیان ہوتا ہوا نظر آئے گا جبکہ آیت تطھیر میں ایک واقعہ سے خبردی جارہی ہے جیسے آیہ تطھیر سے پہلے ارشاد ہوتا ہے ( و قرن فی بیوتکن و لا تبرجن تبرج الجاھلیّة الاولی و اقمن الصلاة و آتین الزکاة و اطعن اللہ و رسول ….(سورة احزاب ۔ آیہ ٣٣)
اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گذشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح اپنا بناؤ سینگار نہ د کھاتی پھرو اور پابندی سے نماز پڑھا کرو اور زکات دیا کرو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
اور آیت تطھیر کے بعد ارشاد ہوتا ہے ( و اذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ و الحکمة ان اللہ کان لطیفا خبیرا(سورة احزاب ۔ آیہ ٤٣)
اے ( ازواج رسول ) تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں اور حکمت کی باتیںپڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو بیشک خدا بار یک بین واقف کار ہے اگر ہم آیت تطھیر کو ہٹالیں تو پہلی اور بعد والی آیات میں ارتباط ہونے کی وجہ سے کلام خدا میں کوئی خلل محسوس نہیں ہوگا
ب: ہرگز صحیح نہیں کہ خواتین کے لئے ضمیرمذکر ( عنکم ) استعمال کیا جاے اگر مراد ازواج رسول ہو تیںتو آیت تطھیر سے پہلی اور بعد والی آیات کی طرح یہاں پر بھی ضمیر مونث ( عنکن ) استعمال کی جا تی لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ یہاں ضمیر جمع مذکر( عنکم ) استعمال کی گی ہے کیونکہ آیت میں چار مرد اور ایک خاتون سے خطاب کیا گیا ہے لہذا ضمیر جمع مذکر کا استعمال قاعدہ کے مطابق ہے ۔
ایک سوال : البتہ ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی جس سے ہم عصمت اھل بیت کو ثابت کرتے ہیں اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں جبر ہے کیونکہ اھل بیت تو کوئی گناہ کرہی نہیں سکتے گو یا ان سے گناہ کرنے کی طاقت اور ارادہ سلب کر لیا گیا ہے جب کہ مذہب شیعہ میں جبر کے عقیدہ کو باطل سمجھا جاتا ہے ۔
جواب : یہ ہے کہ ارادہ تکوینی کہ جو خلقت کے معنی میںاستعمال ہو تا ہے یہاں پر اس سے مراد مقتضی ہے نہ یہ کہ علت تامہ ہو لہذا یہاں جبر نہیں ہے بلکہ اپنے ارادہ کے ساتھ وہ گندگیوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔
درحقیقت پیغمبروں اور ائمہ کے لئے جو کہا جاتا ہے کہ وہ معصوم ہیں اس سے مراد تقوی الہی کا وہ اعلی درجہ ہے کہ جوان لوگوں میں خداوند متعال کی عطا کردہ توفیق اور ان کے اختیار سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی گناہ انجام نہیں دے سکتے بلکہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ گناہوں کے مرتکب ہو سکیں لیکن گناہوں کی پلیدی ان کے سامنے اس طرح سے واضح ہوتی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے اس کی طرف نہیں جا تے یا بلکہ یوں کہا جائے کہ اگر کسی کو خداوند کی معرفت جتنی زیادہ ہو گی وہ خود بخود خدا کی منع کردہ چیزوں سے دور ہو تا جائے گا اور یہ لوگ کہ جو معرفت کے اعلی درجہ پر فائز ہوتے ہیں ، اور ایک لمحے کے لئے بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو یہ کیسے گناہوں کے مرتکب ہوسکتے ہیںگناہ تو وہ کرسکتا ہے جو خدا سے غافل ہوجائے جیسا کہ مولا امیر المومنین سے منسوب حدیث میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لو کشف الغطاء ما ازددت یقینا .(بحار الانوار ج ٠٤ص ٣٥١ ، ج٣ ٤ ص٥٣١،ج٦٤ص٥٣١، ج ٧٦ص١٢٣، ج ٩٦ص ٩٠٢، ج٠٧ص٢٤١، ج٧٨ص ٤٠٣،شرح نہج البلاغہ ابن حدید جلد٧ص ٣٥٢، ج٠١ص٢٤١ج ١١ص٩٦١)
اگر ( میرے اور خدا کے درمیان ) کا پردہ ہٹ بھی جائے تو میرے ایمان میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا ۔ یعنی معرفت خدا اور یقین کے اتنے اعلی اور اکمل درجہ پر فائز ہیں کہ جہاں مزید کسی یقین کی گنجائش نہیں ہے ۔
( ما عبدتک طمعا فی جنتک و لا خوفا من نارک ولکن وجدتک اھلا للعبادہ فعبدتک (بحار الانوار جلد ١٤ص٤١، ج٠٧ص ٧٩١، ج٢٧ص ٨٧٢)
( اے خدا ) میں نہ تیری جنت کی طمع میں عبادت کرتاہوں اور نہ ہی جھنم کے خوف سے بلکہ میں نے تجھ کو عبادت کے لائق پایا ہے لہذا تیری عبادت کرتاہوں ۔
پس ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ عبادت اور اطاعت خدا کی معرفت کی وجہ سے ہے نہ یہ کہ جبر کا عمل دخل ہے نہ ہی کسی جنت کی طمع یا جھنم کا خوف ہے ۔
اس کی سادہ سی مثال اس طرح سے ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بہت سی چیزوں سے منع کرتے ہیںکیونکہ اس سے بچوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ لیکن بچے اس عمل پر اصرار کرتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ والدین بلا وجہ ہم پر سختی کرتے ہیں ۔ والدین کا منع کرنا ان کی معرفت اور علم کے حساب سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس فعل کے برے نتیجے سے واقف ہوتے ہیں جبکہ بچے اس نتیجے سے لا علم یا اگران کو بتلا یا بھی جائے تو ان کو اس پر یقین نہیں آتا ۔
ایک اور سادہ مثال یہ ہے کہ اگر ہم کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے سامنے گلاس میں زہر ملا ہوا ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زہر کھا نے یا پینے سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے ہم اس کو استعمال کرنے کا اختیار رکھتے بھی ہیںہرگز ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔ اسی طرح یہی بات ان معصومین کیلئے بھی ہے کہ باطل عمل اور عقیدہ کی پلیدی ان کے نزدیک اتنی واضح ہے کہ کبھی اس چیز کے مرتکب نہیں ہوتے ۔
آیت تطہیر روایات اھل سنت کی نظر میں
اھل بیت سے مراد فقط محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ( صلواة اللہ علیھم اجمعین ) ہیں ۔ اس بارے میں روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ حتی بعض محققین تواتر ( تواتر سے مراد ہے کہ روایات کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ حتی جھوٹ یا غلط ہونے کااحتمال بھی باقی نہ رہ جائے )روایات کا ادعا کرتے ہیں ، اھل سنت کے معروف عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب شواھد التنزیل میں ٧٣١ روایات اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں نقل کرتے ہیں۔(شواہد التنزیل ج ٢ ص ٨١ سے لیکر ص ٩٣١ تک )
ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے نمونہ کے طور پر فقط چند ایک روایات کو بیان کریں گے ۔
١۔ مسند احمد بن حنبل : حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ :
ایک دن پیامبر ۖ میرے گھر میں تھے جناب فاطمہ زہرا ۖ سے آپ نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بیٹوں کو بلاؤ.
قالت فجاء علی و الحسین و الحسن فدخلوا علیہ فجلسو یاکلون من تلک الخزبزہ و ھو علی منامة لہ علی دکان تحتہ کساء خیبری قالت و انا اصلی فی الحجرة فانزل اللہ عزوجل ھذہ الآیہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ۔قالت فاخذ فضل الکساء ففشاھم بہ ثم اخرج یدہ فالی بھا الی السماء ثم قال ۖ اللھم ھولاء اھل بیتی و خاصتی فاذھب عنھم الرجس و طھرھم تطھیرا ۔ قالت فادخلت راسی البیت فقلت و انا معکم یا رسول اللہ ؟
قال ۖ انک الی خیر…..( مسند امام احمد بن حنبل ج ٦ ص ٢٩٢ طبع دار صادر بیروت ۔
رسول خدا ۖ کے بلانے پر امیر المومنین ، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام تشریف لائے اور رسول خدا ۖ کے ساتھ بیٹھ کر خربوزہ(پانی ، گوشت اور آثار و غیرہ سے مل کر بنتا ہے البتہ فارسی میں ایک قسم کا آبگوشت کہلاتا ہے ( لغت نامہ دھخدا ج ٦ ص ١٧٥٨)کھانے لگے جبکہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ جس پر توشک اور خیبری چادر بچھی ہوئی تھی ام سلمہ نے فرمایا : میں کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی پھر خداوند نے یہ آیت نازل فرمائی ، انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا.
ام سلمہ نے فرمایا : رسول خدا ۖ نے چادر کے اضافی حصہ کو لیکر سب پر اڑھادیا ، پھر اپنے دست مبارک کو باہر نکال کر آسمان کی جانب اشارہ کرکے فرمایا پروردگار ا ، یہ میرے اہل بیت ہیں اور میرے خواص ہیں ان لوگوں سے پلیدی دور کرکے ان کو پاک اور پاکیزہ کردے ۔
ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میںان کے پاس آئی اور رسول خدا ۖ سے کہا ، اے خدا کے رسول ۖ آیا میں بھی آپ لوگوں میں شامل ہوں ؟
رسول خدا ۖ نے فرمایا ، آپ اچھی جگہ پر ہیں ..
٢۔ صحیح مسلم : صفیہ بنت شیبہ حضرت عائشہ سے روایت کرتی ہیں کہ : قالت عائشہ خرج النبی ۖ عذاة و علیہ مرطہ مرمل من شعر اسود فجاء الحسن۔
ظاہری طور پر یہ پورا واقعہ اس آیة شریف کے نزول کیلئے مقدمہ چینی تھی کہ جو عصمت اھل بیت کو ثابت کرنے کیلئے سب سے محکم اور قوی دلیل ہے ۔
مکان دعا
واضح ہے کہ خدا سے ارتباط کے لیے کسی مکان کی محدودیت وشرط نہیں ہے ہر جگہ اور ہر مکان میں خدا سے ارتباط برقرار کرسکتے ہیںاور اس سے اپنی حاجات طلب کرسکتے ہیں لیکن یہ مسلم ہے کہ کچھ جگہیں اور مکان بلند وپاکیزہ ہیں کہ جہاں پربہتر طریقے سے عالم بالا سے قلبی توجہ رکھ سکتے ہیں اور خدا تعالی نے اس مکان کی عظمت اور اس کے آثار کو اس جگہ سے مخصوص کیا ہے کہ جو دوسری جگہ کو حاصل نہیں روایات واحادیث میں ان مکانوں میں سے کہ جو قابل توجہ اور مورد قبولیت دعا ہیں جیسے مسجد الحرام ،خانہ کعبہ ،حرم امام حسین خلاصہ امام حسین کے قبہ کے نیچے دعا مستجاب ہوتی ہے ۔
زیارت ناحیہ میں ہے کہ روضہ امام حسین کے قبہ کے نیچے دعا مستجاب ہوتی ہے : اسلام علی من الاجابة تحت قبتہ امام زمان کا سلام اس پر کہ جس کے قبہ کے نیچے دعا مستجاب ہوتی ہے ایک اور روایت میں ہے الشفاء فی تربتہ واجابة الدعا عند قبرہ کہ امام حسین کی تربت میں شفا ہے اور ان کی قبر کے نزدیک دعا مستجاب ہوتی ہے (حر عاملی وسائل الشیعہ ج٤١ ص ٠٦٧)اگر ان مکانوں میں سے کوئی میسر نہ ہو تو مسجد مقدس میں دعا قبول ہوتی ہے مکان کااثر دعا کے قبول ہونے کے لیے ایک روایت کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
ابوہاشم جعفری کہ جو امام ھادی کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن امام بیمار ہوئے تو مجھ سے اور محمد بن حمزہ اور دوسرے اصحاب سے چاہا کہ کوئی ایک امام حسین کے پاس میری طرف سے جائے تو ہم میں سے محمد بن حمزہ امام کے پاس گیا امام سے ملاقات کے بعد واپسی پر مجھ سے کہا کہ امام چاہتے ہیں کہ کوئی کربلا جاکر میرے لیے دعا کرے میں نے محمد بن حمزہ سے کہا کہ کس لئے امام سے نہیں کہا کہ میں کربلا جاتاہوں ابو ہاشم جعفری کہتا ہے کہ اس لئے امام سے نہیں کہا کہ خود امام کے لیے کربلا میں جاکر دعا کرتاہوں پھر میں امام کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں کربلا جاکر آپ کے لیے جاتاہوں اور آپ کے لیے دعا کرتاہوں پھر میں امام سے رخصت ہوااور راستے میں علی بن بلال سے ملا امام کے بارے میں بتایا علی بن بلال نے تعجب سے پوچھا کہ امام ھادی کو کربلا سے کیا کام ؟ یہ خود امام ہیں خود یہ عظمت رکھتے ہیں ان کی عظمت کربلا سے کم نہیں ہے؟
پھر جب امام ھادی کے پاس واپس آیا تو علی بن بلال کی بات نقل کی تو امام نے فرمایا: خانہ کعبہ سے رسول کی عظمت بلند وبالا ہے پھر کیوں رسول کعبہ کی زیارت کرتے تھے اور کیوں حجر اسود کوچومتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے؟جب کہ حرمت مومن کعبہ سے برتر ہے خدانے دستور دیا ہے کہ خانہ کعبہ کا طواف کریں یاایسے مکان ہیں کہ جن کوخدا دوست رکھتا ہے کہ وہاں جاکر خدا کو یاد کریں اور اس سے طلب کریں۔
میں بھی دوست رکھتا ہوں کہ کربلا جیسے مکان میں جاکر میرے لئیے دعا کی جائے پھر مجھ سے فرمایا: اے ابوہاشم کس لئیے یہ مطلب علی بن بلال سے نہیں کہا میں نے عرض کیا میں بھی اگر یہ نکات جانتا تو ضرور کہتا اور آپ کے حکم کے آگے چون چراں نہ کرتا (ابن قولویہ کامل الزیارات ص٣٧٢،مجلسی بحار الانوار ج٠٥ص ٤٢٢)
زمان دعا
جیسا کہ مکان دعا میں کسی طرح محدودیت نہیں لیکن مخصوص مکان میں دعا جلدقبول ہوتی ہے زمان ِدعا میں بھی اسی طرح ہے جس وقت چاہیں دعا کریں لیکن دعا وتوسل مخصوص اوقات میں جلدی قبول ہوتی ہے مثال کے طور پر روایات میں ہے کہ فرائض کے انجام دینے کے بعد بارش کے برسنے کے وقت ،شب جمعہ ،افطار کے وقت وغیرہ زیادہ امکان قبولیت دعا ہے حضرت یوسف کے واقعہ میں دیکھتے ہیں جب خطاو واشتباہ یوسف کے بھائیوں سے ہوئی تو اپنے والد حضرت یعقوب کے پاس آتے ہیں کہ ہمارے لئے طلب مغفرت کریں۔
حضرت یعقوب نے بھی ایک مخصوص وقت پر ٹال دیا :قالوا یابانا استغفر لنا ذنوبنا انا کنا خاطئین قال سوف استغفر لکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم (سورہ یوسف آیت ٧٩،٨٩)اس آیت کی تفسیر میں آیاہے کہ دعا کی تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ حضرت یعقوب چاہتے تھے شب جمعہ دعا کی قبولیت کا مناسب وقت ہے۔(بحرانی سید ہاشم تفسیر برہان ج٣ص ٦٠٢و٧٠٢)
توسل ودعا کس طرح کی جائے
اگرچہ ہرطرح پروردگار عالم کی طرف توجہ کی تاثیر سے انکار نہیں لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرناچاہیے کہ دعا میں وارد ہونے کے لیے کامل توفیق چاہیئے ہر کام میں اسی راستہ سے داخل ہوں جو اس کا راستہ ہے قرآن مجید میں ہے:
ولیس البر بان تاتو االبیوت من ظہورھا ولکن البر من اتقی واتوالبیوت من ابوابھا واتقوااللہ لعلکم تفلحون(سورہ بقرہ آیت ٩٨١)
دعا وتوسل کی بہترین راہ وروش ہمیں اہلبیت عصمت وطہارت نے بیان فرمائی ہے اور وہ ان کی ولایت کی قبولیت ہے کہ اس راہ میں خالصانہ کوشش کی جائے ،محمد بن مسلم اصحاب امام باقر اور امام صادق سے ایک حدیث نقل کرتے ہیںکہ میں نے امام سے پوچھا کہ کس کو آپ پہنچانتے ہیں کہ جو عبادت میں انتہائی خضوع وخشوع رکھتاہو لیکن آپ کی ولایت کو قبول نہ کرتاہو ااس کی عبادت اور اس کا دین اسے فائدہ دے گا؟ امام نے جواب میں فرمایا:
اے ابو محمد!ہم اہلبیت کی مثال اس خاندان کی طرح ہے کہ جو بنی اسرائیل میں تھا کہ جب چالیس دن خدا کی بارگاہ میں راز ونیاز کرتے تو ان کی دعا قبول ہوجاتی لیکن ان میں سے ایک نے چالیس شب دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی وہ آدمی حضرت عیسی کے پاس آیا اوردعا کے قبول نہ ہونے کی شکایت کی اور آپ سے اپنے لئے دعا کی درخواست کی حضرت عیسی نے وضو کیا دو رکعت نماز پڑھی اس کے لیے دعا کی تو اللہ نے جواب میں فرمایا:
کہ یہ آدمی جس دروازہ سے آنا چاہتا ہے وہ درست نہیں جب کہ تیری نبوت کا دل میں اقرار نہیں کرتا میں کس دلیل سے اس کی دعا قبول کروں اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کامل اعتقاد ہو اور اپنے خدا پر یقین محکم اور رسالت پیغمبر ۖپر یقین ہو اور ائمہ معصومین کی ولایت کا اقرار دعا کی قبولیت کے لیے لازم وضروری شرط ہے بغیر ولائے اہلبیت دعا وعبادت قبول نہیں ہوسکتی اہلبیت کی ولایت کا اقرار واعتقاد اور اس راہ میںکوشش پر چند واقعات قارئین کی نظر ہیں کہ جن کا ذکر مفید ہے۔
امام باقر فرماتے ہیں: لم یناد احد بشئی کما نودی بالولایة ( ١)(بحار الانوار ج ٨٦ ص ٩٢٣باب ٧٢ ح١ ، کافی ج٢ص ٨١)
( کوئی بھی چیز ولایت کی طرح سوال نہیں ہوگی )۔ اس طرح ایک اور روایت میں امام باقر سے نقل کرتے ہیں کہ قال بنی الاسلام علی خمسة اشیاء الصلاة والزکاة و الحج و الصوم والولایة ۔ فقال زرارہ فقلت : وای شی من ذلک افضل ؟فقال الولایة افضل لانھا مفتاحھن والوالی ھو الدلیل علیھن …..(٢)وسائل ج١ ص ٣١ باب ١ ( مقدمات عبادات ) ح٢)
حضرت نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے نماز، حج ، روزہ اور ولایت ۔ پھر زرارہ نے سوال کیا کہ : ان میں سے کونسی چیز سب سے زیادہ افضل ہے ؟
امام نے جواب میں فرمایا: ولایت سب سے زیادہ افضل ہے کیونکہ ولایت ان تمام چیزوں کی چابی ہے اور والی ان سب پر حجت ہے ………۔
مقصد یہ ہے تمام عبادات کی چابی ولایت ہے اور ولایت تمام ارکان دین سے افضل ہے ۔ اور روشن ہے کہ قیادت اور ولایت معصومین خداوند عالم کی جانب سے قرار دی گئی ہے۔ اور یہ خداوند کو ہی حق پہنچتا ہے کہ ہمارے لئے ولی اور رھبر معین کرے کیونکہ خداوند ہمارے تمام دنیا وی اور اخروی امور کا مالک ہے ۔ لھذا جو کوئی بھی اس ولایت کا پیروکار بنے گا اس اجر عظیم کا مستحق ہے ۔
اس کے بعد رسول خدا ۖ فرماتے ہیں ملائکہ محبین کو گھیرے میں لیکر جب تک وہ لوگ وہاں سے چلے نہیں جاتے ان کے لئے استغفار کر نا اس قصہ کی اہمیت کو بتلا تا ہے ۔
جبکہ ملائکہ کا نازل ہو نا ہی خاص ا ہمیت کا حامل ہے جیسے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ۔
ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکہ الا تخافوا و لا تحزنوا وبشروا بالجنة التی کنتم توعدون (سورة شعراء ۔ ١٢٢، ٢٢٢)
اور جن لوگوں نے سچے دل سے کہا کہ ہمارا پروردگار تو بس خدا ہے پھر وہ اسی پر قائم ہے ان پر رحمت کے فرشتہ نازل ہوں گے ( اور کہیں گے ) کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جس بھشت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی خوشیاں منائو۔
اس سے ثابت ہو تا ہے کہ نزول ملائکہ ہر کسی کے لئے نہیں بلکہ خالص اور حقیقی مومنین کیلئے ہو تا ہے ۔ اس کے بر عکس مطلب پر بھی قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ۔کیوں کہ ہر جنس اپنے جیسے سے مائل ہوتی ہے ۔
ارشاد رب العزت ہے :
ھل انبئکم علی من تنزل الشیاطین تنزل علی کل افاک اثیم ۔
کیا میں تم لوگوں کو بتادوں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوا کرتے ہیں یہ لوگ ہر جھوٹے بد کردار پر نازل ہوا کرتے ہیں ۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کوئی حدیث شریف کساء کو پڑھے گا یا اس کا ذکر کرے گا ملائکہ کے ساتھ ہم مجلس ہوگا ۔ اور یہ کہ ملائکہ محبین اھل بیت کے لئے استغفار کریں گے خود بہت اہمیت کا حامل ہے اور انسان کی زندگی و آخرت میں بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ جیسے کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :
فقلت استغفر وا ربکم انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم مدارا و یمددکم باموال و بنین و یجعل لکم جنات و یجعل لکم انھارا (سورة نوح ۔ ٠١ تا ٢١) پس میں نے ان سے کہا اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا ما نگو بے شک وہ بڑابخشنے والا ہے اور تم پر آسمان سے موسلا ھار پانی بر سائے گا اور مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا ۔
البتہ ممکن ہے یہ جمع ہونا ظاہری معنی ہو شاید مراد یہ ہو کہ جب تک ان کی روح اور قلوب ایک ساتھ ہیں اور جب تک ان کے دل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوجاتے اس رحمت اور استغفار کے مستحق رہیں گے۔
منقول ہے کہ محدث بزرگ مرحوم آیة اللہ حاج شیخ عباس قمی کہ جو متعدد علمی کتب کے مصنف ہیں کہ جن میں سے ایک مفاتیح الجنان ہے ان کے بیٹے مریض ہوگئے ڈاکڑوں نے اسے لاعلاج کردیا جب یہ بات شیخ عباس کو معلوم ہوئی تو اسی وقت انہوں نے اپنی ایک انگلی پانی کے ایک کپ میں ڈالی اور نکال کر کہا:
یہ پانی میرے بیٹے کو پلائو ان کے رشتہ داروں نے ایسے ہی کیا تو ان کا بیٹا شفا یاب ہوگیا تو مرحوم شیخ عباس سے پوچھا کہ کونسی دعا آپ نے پڑھی کہ جس کا یہ اثر ہوا ؟ انہوں نے جواب میں کہا ایک انگلی کہ جو اہلبیت کے فضائل ایک عرصہ تک لکھے اگر اس میں یہ اثر نہ ہوتا تو اسے اپنے ہاتھ سے جدا کردیتا!بہرحال اہم ترین مسئلہ کہ جو دعا اور توسل میں پیش آتا ہے وہ ہیں کہ کس طرح دعا کی جائے جس قدر دعا میں آلحاہ وزاری اور غور وفکر کرنا اور زیارت پیغمبر ۖوائمہ معصومین سے جو چیز ہمیں ملتی ہے۔
وہ یہ ہے کہ اس باب میں ان نکات کی رعایت کی جائے بطور مثال جب انسان اپنے وجود میں اپنی ناتوانی وکمزوری کا احساس کرتاہے اور خدا تعالی کی قدرت اور اس کی طرف انتہائی توجہ کرتاہے اور ائمہ معصومین کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتاہے تو لطف الہی اس کے شامل حال ہوتا ہے انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ خدا کی بارگاہ میں انتہائی خضوع وخشوع ،انقطاع از مخلوق اور توجہ بخدا ،مادی ودنیوی رابطہ کی بجائے روحانی ومعنوی رابطہ خدا سے رکھے ۔تاکہ خدا کی عنایات اس کے شامل حال ہوں یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ متعدد دعائوں اور معتبر زیارات کو خاندان عصمت وطہارت نے اپنے ماننے والوں کو یاددیں کہ جن کے معانی ومفاہیم میں دقت کی جائے تو ان کی عظمت وسربلندی واضح ہوجاتی ہے پھر کافی دعائیں وزیارات ہیں کہ جن کے ذریعہ آثار مادی ومعنوی حاصل ہوتے ہیں جیسے زیارت عاشوراء کہ جس کے بارے میں امام صادق نے مشکلات کے دور ہونے کی ضمانت دی ہے۔
کتاب زیارت عاشورا ء اور اس کے آثار میں مئولف نے عجیب واقعات کو نقل کیا (یہ کتاب پہلی بار انتشارات حبل المتین سال ٧١٣١ تین سو اکتیس واقعات پر مشتمل چھپی اور سال ٤٨٣١ ش ٤٩ واقعات کے اضافہ کے ساتھ چھپی ہے)ایک اور دعا کہ جو رفع مشکلات میں مورد ضمانت ائمہ معصومین علیھم السلام ہے وہ حدیث کساء ہے ۔
اس کتاب میں اس امر کے احیاء وتدوین کے لیئے چار فصلیں اور کچھ ضمیمہ اہلبیت خاندان عصمت وطہارت کے دوستوں کے لیے قرار دئیے ہیں کہ جو درج ذیل ہیں۔
 
 
 
 
 
 
حدیث کساء میں تحقیق
جس طرح پہلے بیان ہوچکاہے ایک امتیاز جو پیرو کار خاندان عصمت و طھارت کا ہے وہ یہ ہے کہ سختی و مشکل کے وقت معارف الہی اور احادیث اہلبیت علیھم السلام سے تمسک کر کے درست راستے کو کج و مشکل سے جدا کر لیتا ہے زندگی کی مشکلوں کو ادعیہ ، زیارت کو قرآن وروایات معصومیں سے کہ جو اس تک پہنچی ہیں اس کے ذریعہ اسکے بے پایان علم و قدرت سے اور خیر الہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک حدیث ، جو حضرت زہرا ۖ سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں بہت آثار وبرکات ہیں وہ حدیث کساء ہے اس فصل میں کوشش کی ہے خدا تعالی کی مدد کے ساتھ بہت اخصتارسے اس حدیث کی فضیلت ، سند حدیث اورمنابع و متن اس طرح رمز و اسرار حدیث کو بیان کیا آخر میں علماء و مراجع عظام کے نظریات کو بیان کریں گے امید ہے یہ گفتگو واہل بحث تحقیق اورسب اہلبیت عصمت و طھارت کے ماننے والوں کیلئے مفید ہو .
رسول خدا سے منقول حدیث کسا ء کی فضیلت و برکت کے لئے یہ کافی ہے اس کی راوی حضرت فاطمہ زہرا ۖہیں کہ حضرت علی نے رسول خدا سے پوچھا کہ خداوند متعال کی طرف سے اس واقعہ کی کیا فضیلت ہے ؟رسول خدا ۖنے جواب میں فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا یہ حدیث مجالس میں کسی ایک مجلس میں نقل کی جائے تو خداوند اس محفل و مجلس والوں پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے رحمت کے ملائکہ اس میں شرکت کرتے ہیں اور اس محفل کے شریک لوگوں کیلئے طلب مغفرت کرتے ہیں اس میں جو غمگین و پریشان ہو گا خدا اس کے غم دور فرمائے گا حضرت علی نے ان فضائل کو سن کر فرمایا خدا کی قسم ہے ہم اور ہمارے شیعہ دنیا و آخرت میں کامیاب و سعادت مند ہیں۔
آخر میں مولا امیر المومنین فرماتے ہیں خدا کی قسم ہم اور ہمارے شیعہ کامیاب ہوگئے پھر دوبارہ پروردگار کعبہ کی قسم کھاتے ہیں یہ جوامیر المومنین خدا کی قسم کھارہے ہیںاور کامیابی کی بشارت فرمارہے ہیں اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ یہ بات بہت روشن اور واضح ہے کیونکہ جب امام کہ جو خداوند کی طرف سے لوگوں کے لئے ولی قرار دیئے گئے ہوں اور وہ ولی بھی بے عیب ہوں اور مقام عصمت کے بھی اعلی درجہ پر فائز ہوں تو پھر جو کوئی ان کی پیروی کرے گا اور ان کے نقش و قدم پر چلے گا یقینا کامیاب ہوگا ۔
تو نتیجہ یہ نکلا کہ خدا ، رسول خدا ۖ اور وصی رسول خدا کا یہ قسم کھانا اس بات کی اہمیت کو بتلاتا ہے ۔ درحقیقت یہ خداوند عالم کی جانب سے معصومین اور ان کے پیروکاروں کیلئے تحفہ ہے ۔
٢۔ پیامبر خدا ۖ دوبارہ اپنے وصی علی کو خطا ب کر کے قسم کھاتے ہیں: والذی بعثنی بالحق نبیا و اصطفانی بالرسالة نجیا اور پھر فرماتے ہیں ۔ یہ حدیث جس محفل یا مجلس میں بھی پڑھی جائے اور ہمارے محبین وہاں پر ہوں تو جو کوئی دکھ و درد رکھتا ہو گا خداوند عالم ان کے دکھ و درد کو دور فرمائے گا جو کوئی حاجت رکھتا ہو گا خداوند عالم اس کی حاجت روائی کرے گا.
امیر المومنین دوبارہ قسم کھا کر فرماتے ہیں ہم اور ہمارے شیعہ کامیاب ہوگئے اور دنیا آخرت کی سعادت ہمیں اور ہمارے شیعیان کو نصیب ہوگئی آخر میں پھر پروردگار کی قسم کھاتے ہیں۔
یہ تمام دعاا ن کو جو عظیم الشان پیامبر حضرت محمد مصطفی ۖنے فرمائی ممکن نہیں ہے کہ خداوند عالم کی بارگاہ میںپلٹادی جائے مخصوصا جب امیر المومنین نے قسم کھا کر تاکید بھی کردی ہو۔
آخر میں خداوند متعال خالق کائنات سے طالب توفیق ہیں کہ بحق محمد وآل محمدہمیں ان کا شیعہ اور محب قرار دے آمین ۔

حدیث کسا کی سند
اب تک جو حدیث کساء کی سند کے متعلق تحقیقات ہوئی ہیں ان سے کچھ اسناد اور حوالہ جات ہمیں ملی ہیںکہ جودرج ذیل ہیں .
قدیم ترین کتاب جو ابھی ہمارے ہاتھ آئی کہ جس میں حدیث کساء کی سند کو نقل کیا ہے وہ کتاب غرر الاخبار و درر الاثار دیلمی ( ابو محمد الحسن بن محمد دیلمی صاحب کتاب ارشاد القلوب کہ جو علماء بزرگ آٹھویں ہجری ہیں ) محی الدین ( کہ جو آیة اللہ العظمی آقائی خوئی کے شاگرد ہیں ) اپنی کتاب آیة التطھیرص٨٨پر اس حدیث کو نقل کیاہے اور کہا کہ یہ نسخہ کتابخانہ شیر محمد ہمدانی میں دیکھا ہے .
ایک نسخہ مئوسسہ تحقیقاتی مکتبہ علامہ مجلسی سے ملا ہے کہ جو خطی نسخہ ہے کہ جو جلد ہی چھپ جائے گا اس متن اور منتخب طریحی متن کے درمیان جو اختلاف ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متن حدیث کساء مختلف طریقوں سے وجود میں ا یا ہے ( اس متن کی تصویر آخری صفحہ پر ہے)
ایک اور کتا ب کو جو ٣٣ ٠١ھ.ق میں کتابت ہوئی اس کا خطی نسخہ آیة اللہ العظمی مرعشی نجفی لا ئبریری میں ٤٥٩٨ نمبر پر محفوظ ہے ( اس نسخہ کی تصویر اس کتاب کے آخرمیں موجود ہے )
ایک اور کتاب کو جو متن حدیث کساء کو حضرت زہرا ۖ سے نقل کیا ہے وہ منتخب طریحی ( ص ٥٩٢چاپ لبنان ) ٩٧٩۔ ٥٨٠١ ھ ق گیارھویں ہجری کے علماء علامہ مجلسی کے ہم عصر ہیں کہ مختلف کتب لکھیں جیسے مجمع البحرین . تفسیر غریب القرآن و ضوابطہ الاسماء و الرجال و…..
علامہ مجلسی اور علامہ بحرانی نے اس حدیث کو منتخب طریحی سے نقل کیا ہے ( علامہ مجلس بحار الانوار ج ٤٤ ص ٢٤٢ و٤٤٢و بحرانی عوالم العلوم ج٧١ص ١٠١و ٤٠١)
آیة اللہ مرعشی نجفی نے بھی اس متن کو نقل کیا اور ان کی تعریف اس طرح کی ہے علامہ جلیل القدر و ثقہ فخر الدین محمد علی الطریحی الا سدی النجفی صاحب مجمع البحرین ( مرعشی نجفی سید شھاب الدین ملحقات احقاق الحق ج ٢ ص ٧٥٥)ایک اور کتاب میں حدیث کساء کی سند کا ذکر ہے وہ علامہ شیخ عبداللہ بحرانی صاحب کتاب عوالم العلوم کہ جو شاگرد علامہ مجلسی ہیں کتاب عوالم العلوم میں حدیث کساء کی عظمت کو بیان کیا احادیث اہل بیت کی کتاب کہ جس کو آیت اللہ محمد باقر موحد ابطحی نے اپنی زحمت و ہمت کے ساتھ زیر طبع سے آراستہ فرمایا:
اس نے حاشیہ کتاب عوالم ( نسخہ میرزا سلیمان یزدی حدیث کساء کی سند کو نقل کیا ہے : رائیت بخط الشیخ الجلیل السید ھاشم .یعنی میں نے سید ھاشم کے دستخط میں دیکھا کہ جو سید ماجد بحرانی سے نقل کیا اور انہوں نے حسن بن زین الدین الشھید ثانی سے انہوں نے مقدس اردبیلی سے انہوں نے علی بن عبدالعالی کہ وہ ضیاء الدین علی بن شھید اول سے انہوں نے اپنے باپ سے وہ فخر الدین محققین سے وہ علامہ حلی سے وہ شیخ محقق سے انہوں نے ابن حلی سے اور انہوں نے محمد بن ادریس حلی سے اور انہوں نے ابن حمزہ طوسی صاحب المناقب سے اور انہوں نے محمد بن شھر اشوب سے انہوں نے طبرسی صاحب سے اور انہوں نے حسن بن محمد بن حسن طوسی سے اور انہوں نے اپنے باپ شیخ الطائفہ سے اور انہوں نے شیخ مفید سے اورانہوں نے ابن قولویہ قمی سے انہوں نے مرحوم کلینی سے وہ علی بن ابراھیم بن ھاشم سے انہوں نے اپنے باپ سے۔
انہوں نے احمد بن ابی الفرید سے انہوں نے قاسم بن یحیی جلاء کوفی سے انہوں نے ابو بصیرسے انہوں نے ابان بن تغلب بکری سے انہوں نے جابربن یزید جعفی سے انہوں نے جابربن عبداللہ انصاری سے انہوں نے حضرت فاطمہ الزھراء ۖ سے اس سند میں بزرگوں کا نام ہے جیسے سید ھاشم بحرانی صاحب تفسیر برھان اور شیخ حسن بن زیدشھید ثانی مقدس اردبیلی ، سے کہ وہ علامہ حلی شیخ طوسی صاحب کتاب استبصار و تہذ یب الاحکام سے جو کتب اربعہ میں سے دوہیں۔
شیخ مفید ابن قولویہ ، شیخ کلینی صاحب کتاب کافی کہ جن کے متعلق امام زمان کا خطاب کہ الکافی کاف لشیعتنا کہ کافی کتاب ہماری شیعوں کیلئے کافی ہے پھر سندکاسلسلہ جابربن عبداللہ انصاری پر ختم ہوتا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا ۖ سے نقل کرتے ہیں اگر چہ علمی حیثیت سے اس سند کی بررسی و جانچ پڑتال ہوئی حضرت آیة اللہ سید محمد باقر موحد ابطحیی نے موضوع تحقیقات کے ساتھ اس کی بررسی کی ہے (آیة اللہ سید محمد باقر موحدابطحی نے بڑی جانفشانی سے اس سند کا خطی نسخہ سلیمانیہ یزد لائیبریری سے لے آئے اسے چھپوادیا ) بر حال اس حدیث کی سند کو اکثر بزرگ علماء نے بیان کیا ہے جیسے آیة اللہ مرعشی نجفی نے اپنی سند کی اہمیت کے بارے میںفرمایا:خدا نے عنایت فرمائی کہ حدیث کساء کو عوالم میں چھپوادیا کہ جس کو ہم نے دیکھا ہے ۔(بحرانی عوالم العلوم ج ٢ اور ١١ ص ٠٩٣.)
ایک اور کتاب میں حدیث کساء کی اسی سند کو ذکر کیا ہے کتاب نہج الحجة فی فضائل الائمہ علی نقی احسائی کہ جو چودھویں صدی کے علماء سے ہیں انہوں نے اس حدیث کی سند کوذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :
راوی حدیث الکساء من طرفنا مسبوطاعلی فضل شیعة آل محمد انہوں نے لکھاکہ اس حدیث کی سند مبسوط طریقوں سے منقول ہے خصوصا جو اس کتاب میں سند کا ذکر ہے اور عوالم العلوم کتاب میں عبارتوں کے اختلاف کے ساتھ ذکر ہے بارھویں صدی کے متعدد منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کساء اس وقت معروف تھی . آیة اللہ العظمی سید صادق شیرازی نے بھی حدیث کسا کو جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے :
عن والدی عن الشیخ عباس قمی ….یعنی میرے والد نے شیخ عباس قمی سے وہ میرزا حسن نوری سے وہ شیخ مرتضیٰ انصاری سے وہ ملا احمد نراقی سے وہ سید بحر العلوم سے انہوں نے وحید بھبھانی سے انہوں نے محمد اکمل کے باپ سے انہوں نے محمد باقر مجلسی سے انہوں نے اپنے باپ محمد تقی مجلسی سے انہوں نے شیخ بہائی سے انہوں نے اپنے باپ حسین عبدالصمد سے انہوں نے شھید ثانی سے انہوں نے علی بن بلال جزائری سے انہوں نے علی بن خازن حائری سے انہوںنے احمد بن فہد حلی سے انہوں نے ضیاء الدین علی بن شہید اول سے انہوں نے اپنے باپ محمد بن مکی عاملی سے انہوں نے فخر المحققین سے انہوں انہوں نے ابن نما حلی سے انہوں نے محمد بن ادریس حلی سے۔
انہوں نے ابن حمزہ طولی سے انہوں نے محمد بن شہر اشوب سے انہوں نے باپ الطائفہ سے انہوں نے شیخ مفید سے انہوں نے شیخ صدوق سے انہوں نے شیخ کلینی سے انہوں نے علی بن ابراھیم سے انہوں نے اپنے باپ ابراھیم بن ھاشم سے انہوں نے احمد بن محمد بن ریان بن تغلب سے انہوں نے جابر بن یزید جعفی سے انہوں نے جابربن عبداللہ انصاری رضوان اللہ علیھم اجمعین نے انہوں نے سیدہ صدیقة الکبری فاطمہ زہراء ۖ سے انہوں نے فرمایا :
قالت دخل علی ابن ابی رسول اللہ فی بعض الایام …..
اور دیگر کتب اوررسالہ آیة اللہ بافقی ملحقات احقاق الحق ج٢ص ٤٤٥اثر حضرت آیة اللہ مرعشی نجفی کتاب آیة التطہیرفی احادیث الفریقین آیة اللہ موحد ابطحی کتاب من فقہ الزہراء سید محمدصادق شیرازی ج١ص ٣٥ یہ کتاب ٠٢٣ صفحہ پر مشتمل ہے یہ کتاب فقہ استنباطی حدیث کساء ہے کہ جو بہت اہمیت کی حامل ہے اثر آیة اللہ محمد شیرازی ،کتاب حسین علوی دمشقی یہ سب کتب مزکورہ حدیث کساء کے معتبر ہونے پر دلیل ہیں۔
حدیث کساء کے بارے میں کچھ اہم نکات
ایک سوال کہ جو حدیث کساء کی سند کے متعلق ہے اس کے جواب میں چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو بہت اہم ہیں۔
١۔ بہت سی احادیث کے متعلق مختلف شبہات علمی وغیر علمی سوالات اس وجہ سے ہوئے کہ اس زمانہ میں تحقیقات وچھان بین نہیں ہوئی لیکن جان پڑتال سے یہ سب شبہات برطرف ہوجاتے ہیں جیسے زیارت عاشوراء میں بعض نے شبہات ایجاد کئے ان شبہات کا منہ توڑ جواب دیاگیا اور اس پر تحقیقات ہوئیں ۔
جیسے کتاب شفاء الصدور فی شرح زیارة العاشور یا مقدمہ کتاب زیارت عاشوراء اور اس کے آثار اسی طرح بعض نے زیارت ناحیہ میں کچھ سال پہلے تحقیقات انجام دیں کہ بعض نے اس کی سند کے اسناد پر اعتراض کیا تاکہ اس کا اعتبار نہ رہے لیکن حجة الاسلام سید ہدایة اللہ طالقانی کی تحقیقات نے اس زیارت کو بہت سی کتب شیعہ سے ذکر کیا جیسے کتاب المزار کبیر شیخ مفید اور دیگر کتب کا تعارف کرایا (بیشتر اطلاع کے لیے موحد ابطحی کی کتاب آیة التطہیر فی احادیث الفریقین ج٣کی طرف رجوع کریں)پس صرف اس دلیل سے کہ اب تک اس کی سند نہیں ملی لھذا اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا بلکہ اکثر کتب میں اس کی سند مذکور ہے۔
٢۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حدیث کساء کے مطالب اکثر احادیث وروایات میں مختلف طریقوں سے حد تواتر کے ساتھ نقل ہوئے ہیں اس طرح کہ دشمنان امام علی وحضرت زہراء ۖ وامام حسن وامام حسین نے ان مطالب کو نقل کیاہے بزرگ علماء نے بیان کیا ہے کہ جو موضوع حد تواتر تک پہنچ جائے لازم نہیں ہے کہ اس کی سند درجہ اعلی صحت واعتبار رکھتی ہو۔
٣۔ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر متن دعا یا زیارت بطور مستقیم معصومین علیھم السلام سے صادر نہ ہوئی ہو لیکن اس کا مفہوم ومطلب معصومین سے نقل ہوتو اس کے پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے جیسے دعائے ابوذر کہ جو صحابی پیغمبر ۖ ہے جبرائیل نے اس کے بارے میں سلام عرض کیا ہے کہ یہ دعا آسمان میں اور فرشتوں کے درمیان زمین کی نسبت زیادہ مشہور ہے (کلینی اصول کافی ج٢ص ٧٨٥وبحار مجلسی ج٣٢ص٠٠٤ باب کیفیة اسلام ابی ذر)
٤۔ آخر میں مناسب ہے کہ حضرت آیة اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یذدی صاحب کتاب عروة الوثقی کا نظریہ حدیث کساء کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ یہ عالم بزرگوار چندسوالوں کے جواب میں بیان کرتے ہیں :
اصل واقعہ کسائیہ معلومات میں سے ہے جیساکہ اکثر روایات آیة تطہیر میں وارد ہوئی ہیں ان سے استفادہ ہوتاہے ان میں سے ایک حدیث منتخب طریحی ہے لیکن حدیث کساء کو طریحی نے ایک خاص شکل وصورت میں نقل کیا ہے اصحاب کساء کی تعداد میں بہت سی روایات ہیں کہ جو قوی ہیں یہاں تک کہ ان میں سے مرسل بھی قابل ضرر نہیں ہیں (جیساکہ آپ نے ملاحظہ کیا بہت سے محققین اس حدیث پر اشکال کرتے ہیں بہت پرانا ماخذ حدیث کساء کا منتخب طریحی کو قرار دیتے ہیں۔
لیکن اب بھی اس بارے میں تحقیق کی گنجائش ہے کہ اس حدیث کے بعض حصہ کی طرف اشکال کرتے ہوئے کہتے ہیں : اس کا جواب صاحب عروہ نے بہت مناسب دیاہے) بہرحال اس واقعہ میں متعدد روایات ہیں بعض روایات سے استفادہ ہوتاہے کہ یہ واقعہ حضرت ام سلمہ کے گھر میں ہوا ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب زوجہ پیغمبر ۖ کے گھر میں ہوا ہے ایک روایت سے استفادہ ہوتاہے کہ یہ واقعہ حضرت زہراء ۖ کے گھر میں ہوا ممکن ہے اس اختلاف اخبار کو اس طرح دور کیا جائے کہ یہ واقعہ مختلف جگہوں پر ہواہے آیت تطہیر سے پہلے کئی دفعہ یہ واقعہ رونما ہوا اور آیت کے بعد بھی(بیشتر معلومات کے لیے موحد ابطحی کی کتاب آیة التطہیر ج٣کی طرف رجوع کریں)
چادر کے متعلق بھی روایات مختلف ہیں کہ جس کے نیچے اصحاب خمسہ تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ کساء خیبری تھی بعض میں کساء فدکی ہے اور بعض روایات میں ہے کہ کساء کوفی تھی اور بعض کی تعبیر خمیصہ سوداء ہے اور منتخب طریحی میں ہے کہ کساء یمانی تھی یہ اختلاف روایات بھی دلیل ہے کہ یہ واقعہ متعدد بار اور مختلف جگہوں پر رونما ہوا ہے ان میں سے ایک دفعہ حضرت زہراء ۖ کے گھر میں ہواہے یہ جواب دیا ہے البتہ یہ اشکال کہ حاجات پوری نہیں ہوتیں اس حدیث کے آخر میں اشارہ ہواہے یہ بھی قابل جواب ہے اس طرح کہ دعا کا قبول نہ ہونا شرائط کے نہ ہونے اور موانع استجابت دعا کی وجہ سے ہے اور یہ اشکال فقط حدیث کساء سے خاص نہیں ہے قرآن مجید کے متعلق بھی اشکال وارد ہواہے (سید کاظم طباطبائی یزدی کتاب سوال وجواب ص ٤٤٤)
٥۔ ایک اور اعتراض اس حدیث کے بارے میں کہ اس کو معصومین علیھم السلام کی طرف نسبت دینا حالانکہ کامل یقین ہے کہ یہ معصومین علیھم السلام سے صادر نہیں ہوئی یہاں تک کہ اس حدیث کے عدم صدور پر یقین ہے بناپر فتوی مراجع معصومین کی طرف نسبت دینا اس حدیث کی حرام ہے بلکہ مبطل روزہ ہے ۔
اس اعتراض کا جواب حدیث کساء کے متعلق اس طرح ہے کہ اولا اس حدیث کے منابع واسناد سے پتہ چلتاہے کہ قطعا عدم صدور قطعی یقینی نہیں ہے کہ معصوم سے یہ حدیث صادر نہ ہو ۔ثانیا اگر کسی کو ان منابع واسناد پر یقین نہیں آتا اور معصوم سے صدور میں متردد ہو ںبنابر مراجع عظام کے فتوی پر اگر اس طرح کی احادیث کو سند کے ذکر کے ساتھ نقل کرنا معصوم کی طرف جھوٹ کو برطرف کرتاہے اس بناپر کہ حدیث کساء کا محتوی ومطلب احادیث دیگر کے مطابق معصومین سے منقول ہے اور اس کے پڑھنے پر اعتراض وارد نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی سند پر علمی اعتراض بھی کیے جائیں سند کے ذکر کے ساتھ پڑھنا اور پھر اس متن کے ساتھ کہ جو اس کتاب میں ہے بہت تجربات ہوئے ہیں کہ کافی حوائج پوری ہوئیں اور برکات پر اکثر نے تائید کی ہے لھذا ایسی محفل برگزار کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ایسی محفلیں کہ جو امر ولایت اھلبیت علیھم السلام کے احیاء کی ہوں ان پر معصومین کی حتما نظر لطف ہوتی ہے اور ایسی محفلیں برکات وآثار عظیم کی حامل ہوتی ہیں۔
حدیث کساء میں بڑے اسرار و رموز ہیں
حدیث کساء کے بہت سے اسرار و رموز ہیں کہ جن میں دقت نظر کرنا اور اس حدیث کے الفاظ و معانی میں تدبر کرنے سے حاصل کرسکتے ہیں
١۔ حدیث کساء کے ابتدائی حصہ سے اس نکتہ کا استفادہ ہوتا ہے کہ واقعہ کسائیہ اور نزول آیت تطھیر حضرت فاطمہ ۖکے گھر میں ہواہے حالانکہ اکثر روایات کی دلالت اس پر ہے یہ واقعہ حضرت ام سلمہ کے گھر میں ہوا ہے بعض نے کوشش کی ہے کہ حدیث کساء موجودہ کو خدشہ دار کرنا چاہتے ہیں لیکن مرحوم آیة اللہ سید محمد کاظم یزدی نے ان کے اعترضات کے منہ توڑ جوا ب ہیں کہ ان کی کتاب میں مفصل ہیں اس کی طرف رجوع کریں (سوال وجواب فارسی ص ٤٤٤)
اور کتاب آیہ التطھیر فی احادیث الفریقین میں تفصیل سے بحث ہے (موحد ابطحٰی آیت التطھیر فی احادیث الفریقین ج ٣ باب تعدادواقعہ )
یہ واقعہ متعدد بارہوا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت فاطمہ الزھراء ۖ کے گھر میں ہوا ہے جیسے واثلہ کہ جواصحاب بزرگ پیغمبر سے ہے بہت سی روایات اس بارے میں نقل ہوئی ہیں اور اہل سنت کے بزرگ علماء نے ان روایات کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ایک روایت ان میں سے یہ ہے کہ عمار کہتا ہے میں واثلہ کے گھر گیاوہاںکچھ لوگ حضرت علی کو بر ا بھلا کہہ رہے تھے میں بھی وہاں ان کے ساتھ اس کام میں شریک ہوگیا اور برا کہنے لگا جب وہ واثلہ کے گھر سے چلے گئے تو واثلہ نے تعجب سے پوچھتا کیا ہے؟ تو بھی علی کو برا کہتا ہے ؟
میںنے کہاتجھے اس چیز سے مطلع نہ کروں کہ جو میںنے رسول خدا ۖ سے دیکھا اور سنا ہے ؟پھر واثلہ نے اس طرح کہا کہ ایک دن حضرت زہراء ۖکے گھر گیا حضرت علی کا پوچھا تو حضرت زہراء ۖ نے فرمایا علی رسول خدا کے پاس ہیں میں انتظار کرنے کیلئے بیٹھ گیا یہاں تک کہ رسول خدا کو علی کے ساتھ اس حال میں آئے دیکھا کہ حسن و حسین کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے گھر کے دروازے سے داخل ہوئے پھر علی و فاطمہ ۖ کو رسول نے اپنے برابر اور امام حسن و امام حسین کو اپنے زانو پررسول خدا ۖ نے بیٹھا یا اپنی چادر کو ان کے اوپر ڈالا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ( نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی مجمع الزوائدج ٩ ص ٧٦١ مسند احمد ٦٦ رقم ٢٠١ جسکا نی شواھد التنزیل ج ٢ ص ٢٤ ور مزید تفصیل آیة التطھیر فی احادیث الفر یقین موحد ابطحی ج٣ ( ص ٣٧٢رجو ع کریں )
اس بنا پر دوسرے اقوال بھی اس قول کی طرح بعید نہیں ہیں کہ یہ واقعہ ایک دفعہ اس صورت میں کہ حدیث کساء نقل ہوئی حضرت زہراء ۖ کے گھر میں ہوا ہے .
اگر ہمارے پاس اہلبیت کی فضیلت اور عصمت کوثابت کرنے کیلئے کوئی آیت روایت یا عقلی دلیل نہ بھی ہو تو یہ حدیث شریف ہمارے لئے کافی ہے ۔ اس حدیث شریف کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اس کو جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے نقل کرتے ہیں ۔
ہمارے پاس بہت کم احادیث ہیں کہ جو خود جناب سیدہ سے نقل ہوئی ہیں ، یہ ان نوادرات میں سے ہے۔ البتہ اس بات پر بھی توجہ رہے کہ اس حدیث کو جناب سیدہ بلا واسطہ خداوند اور جبرائیل امین سے نقل فرما رہی ہیں( کہ جیسے خدا نے فرمایا یا جبرائیل امین نے یوں کہا…..) یعنی آپ خود بغیر کسی واسطہ کے خدااور جبرائیل سے نسبت دے رہی ہیں ۔ جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ آپ نے خود خدااور جبرائیل سے سنا ہے نہ یہ کہ حضرت پیامبر ۖ کے توسط سے نقل کیا ہے۔
٢ ۔اس حدیث کے اسرار میں سے ایک اسکے آثار و برکات ہیں کہ جو اہلبیت علیھم السلام عصمت و طھارت کے محبین و دوستوں سے متعلق ہیں وہ یہ ہیں کہ اس حدیث شریف میں حضرت زہراء کو لوگوں کیلئے پناہ گاہ و ملجاء بیاں کیا گیا ہے۔
ہم حدیث شریف میں دیکھتے ہیں کہ جب پیامبر ۖ اپنے بدن میں ضعف اور کمزوری کا احساس کرتے ہیں تو حضرت زہرا ء کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی شخصیت کتنی با عظمت ہے کہ اولین و آخرین میں سب سے افضل اور اعلی شخصیت آپ کے پاس پناہ لے رہی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت پیامبر ۖ آپ کو ام ابیھا ( اپنے باپ کی ماں ) سے خطاب کیا کرتے تھے ۔ یعنی جیسے کوئی بچہ پریشان ہوتا ہے تو کس طرح اپنی ماں کے پاس پناہ لیتا ہے اگر چہ ہماری عقل معنی ام ابیھا کے سمجھنے سے قاصر ہے ۔
بالفاظ دیگر یہ حدیث شریف ایک بہت بڑا درس ہے کہ پیغمبر گرامی کا وجود جب احساس ناتوانی کرے( انی اجد فی بدنی ضعفا) توحضرت زہراء ۖ کے گھر پناہ لینے کے لے جائے حضرت زہراء ۖ نے دعا و تضرع سے رسول خدا ۖ کو خدا کی پناہ میں قرار دیا ( اعیذک باللہ یا ابتاہ من الضعف ) اس فعل سے رسول خدا کے رخسار مبارک کے آثار ناتوانی نورانیت میں تبدیل ہوگئے انکا چہرہ انور چودھویں کے چاند کی طرح چمکنے لگا ( واذا وجہ یتلالو کانہ البدر فی لیلة تمامہ و کمالہ )
اس بیان سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ لوگوں کی حاجات کے پورا ہونے اور پناہ گاہوں میں سے ایک پناہ گاہ حضرت زہراء ۖہیں کیونکہ پیغمبر اکرم ۖ مشکلات کے وقت حضرت زہراء ۖکی پناہ میں گئے ۔
یہاںاس نکتہ کی یاد آوری ضروری ہے کہ حاجات کے پورا ہونے اور پناہ گاہ کا ذکر حدیث کساء میں دوسری روایات معصومین / کے ھماھنگ و مطابق ہے احادیث میںہے کہ ایک دن ایک عرب بیابان نشین رسول خدا ۖ کے پاس مدد کیلئے آیا تو حضرت نے اسے فرمایا کہ انشاء اللہ اس عرب کو ہم کپڑے دیں گے کھانے سے سیر کرائیں گے اسکی ضرورت کو پوراکریں گے۔
پھر سلمان فاسی کو حضرت نے اپنی بیویوں کے گھروں کی طرف بھیجا لیکن حضرت سلمان فارسی خالی واپس آیا کہ جس کی معرفت کا یہ مقام ہے کہ السلمان منا اھل البیت سلمان ہم اھلبیت سے ہے پیغمبر اکرم ۖ سے عرض کرنے لگا کہ یہ مشکل فقط حضرت زہراء ۖکے گھر حل ہو سکتی ہے پھر حضرت زہراء ۖکے گھر آیا حضرت رسول خدا کاپیغام دیا حضرت زہراء ۖ نے وہ سب چیزیں دیں کہ جواس کی ضرورت تھی اور وہ عرب مسلمان ہوگیا ( بحرانی عوالم العلوم ج١١ ص ٨٦١)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دن ایک بوڑھا آدمی بھو کا پیاسا پرانے پھٹے لباس میں رسول خدا کے پاس حاضر ہوا اپنی مشکل بیان کی حضرت ۖ نے فرمایا : میرے پاس اب کچھ نہیں کہ تیری مشکل کو حل کروں البتہ تیری ایسے گھر کی طرف رہنمائی کرتاہوں کہ جو محب خدا و رسول اور محبوب خدا و رسول ہے اور جس نے رہنمائی کی گویا وہ اس مشکل کو حل کرنے یا نیکی کرنے والا ہے اس بوڑھے سے فرمایا:
ابھی حضرت زھرا ء ۖ کے گھر جاؤوہ تمہاری مشکل کو حل کریں گی جب وہ حضرت زہراء ۖ کے گھر گیا اور اسکی مشکل حل ہوئی تو واپسی پر رسول خداکے سامنے حضرت زہراء ۖکے حق میں اس طرح دعا کی:
اللھم اعط فاطمة مالا عین رات و لا اذن سمعت خدایا حضرت زہراء ۖکو وہ کچھ عطا فرما جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہواور نہ کسی کان نے سنا ہو رسول خدا نے آمین کہی پھر رسول خدا نے اپنی اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ان اللہ قد اعطی فاطمة فی الدنیا ذلک خدا نے فاطمہ کو اسی دنیا میں وہی عطا کیا ہے( بحرانی عوالم العلوم ص ٤٨١)
٣۔ فضیلت اور اہمیتِ ماجرا:
جناب سیدہ فرماتی ہیں صرت انظر الیہ و اذا و جھہ یتلا لو کانہ البدر فی لیلة تمامہ و کمالہ اس بات سے سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے ۔ کیونکہ جناب سیدہ یوں تو ہر روز اپنے والد معظم رسول خدا ۖ کی زیارت کیا کرتی تھیں لیکن آج کوئی اہم بات ہے کہ جس کی وجہ سے آپ چہرہ مبارک پیامبر ۖ کو ان الفاظ میں بیان فرمارہی ہیں کہ حضرت کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا ۔ جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آج رونما ہونے والا واقعہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ادب و احترام اور محبت و فضیلت:
اہل بیت علیھم السلام ایک دوسرے کیلئے محبت اور احترام کے کس قدر قائل تھے کہ جس کے نمونہ ہمیں حدیث شریف کے متعدد مقامات پر نظر آتے ہیں ۔
جب امام حسن تشریف لاتے ہیں تو اپنی والدہ گرامی کو سلام عرض کرتے ہیں کہ جس کے جواب میں جناب سیدہ کس قدر محبت سے جواب فرماتی ہیں اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے دل کے ٹکڑے ۔ اس سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ادب اور محبت کے ساتھ گفتگو کیا کریں ۔ اگر ان کوبلانا ہو تو کتنی نرمی کے ساتھ آواز دیں کیوں کہ اس طرز سخن گوئی کا خود آواز دینے والے اور بچے کی شخصیت کے اوپر بہت اثر ہو تا ہے ۔ البتہ یہاں پر اس بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔
حدیث شریف میں دیکھتے ہیں کہ جب امام حسن ، امام حسین یا امیر المومنین صلوات اللہ علیھم تشریف لاتے ہیں تو یہ سب ایک ہی چیز کو حس کرتے ہیں اور وہ ہے رسول خدا ۖ کی خوشبو اور یہ کہتے ہیں انی اشم عندک رائحة طیبة ۔ قبل ا س کے کوئی انہیں پیامبر ۖ کی موجود گی کی خبردے وہ خود وجود پاک پیامبر ۖ کو محسوس کر لیتے ہیں ۔
اسی طرح دیکھتے ہیں کہ جب امام حسن رسول خدا ۖ کے نزدیک تشریف لاکر سلام عرض کرتے ہیں ، اور آپ ۖ جواب میں فرماتے ہیں آپ پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے ۔ یہاں سے خود امام حسن اور بقیہ ائمہ اطھار کی نسبت رسول خدا ۖ کی اولاد ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
اور یہ جو جواب میں فرمایا اے میرے حوض کے مالک یعنی وہ حوض کوثر کہ جو ان اعطینک الکوثر ( سورة کوثر ۔١)
( اے رسول ۖ ہم نے تم کو کوثر عطا کیا) ۔ میں مجھے عطا ہوا ہے میرے بعد ارث میں تمہیں ملے گا اور در حقیقت تم اس کے مالک ہوگے یہاں پر پیغمبر اکرم ۖکا امام حسن کو صاحب حوض اور امام حسین کو شافع امتی اور علی کو صاحب لوائی فرمانا ان کے منصب کی طرف اشارہ ہے کہ میرے بعد ان کے منصب کو بھول نہ جانا یا کہیں غصب کرنے کی کوشش نہ کرناکیونکہ یہ امت کے رہبر وامام ہیں ۔
جب امام حسین بھی تشریف لائے تو نزدیک جا کر سلام کیا ۔ دونوں بزرگوار امام حسن اور امام حسین میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ کس قدر مودبانہ طریقے سے سلام کیا اور فرمایا ”یا من اختارہ اللہ …..کہ جس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اگر کسی بزرک یا محترم شخص کو سلام کرنا ہو تو کس طرح القابات یا خدا سے اس کی نسبت بیان کرتے ہوئے سلام کرنا چاہئے .
امام حسین کو دیئے گئے جواب میں دیکھتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا”یا شافع امتی ”یعنی اے میری امت کی شفاعت کرنے والے ۔ بہتر ہے کہ یہاں بیان کرتے چلیں کہ شفاعت پر اعتقاد کرنا ضروریات دین میں سے ہے اس سے پہلے کہ شرع مقدس اسلام کو بیان کرے خود عقل اور فطرت انسانی اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ تمام اقوام عالم اس بات پر متفق ہیں لیکن اختلاف اس کے مصادیق اور خصوصیات و شرائط میں ہے اب جبکہ شفاعت ضروریات دین میں سے ہے تو اگر کوئی اس بات کا منکر ہوجائے اور اس کا انکار تکذیب رسول ۖ کہلائے تو بغیر کسی شک و تردید کے وہ مرتد ہوجائے گا البتہ یہ مسائل فقھی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن کے جواب میں رسول خدا ۖ نے فرمایا میرے حوض کے مالک اور امام حسین کے جواب میں فرمایا میری امت کی شفاعت کرنے والے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امام حسن شفاعت نہیں کروا سکتے یا امام حسین حوض کے مالک نہیں ہو سکتے بلکہ سارے معصومین تمام فضائل اور مناقب میں مشترک ہیں۔
جیسا کہ متعدد روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے مانند(بحار الانوار ج٥٢ص ٣٦٣و ج٦٣ص٠٠٤) اولنا محمد و آخرنا محمد و اوسطنا محمد وکلنا محمد ۔
یہ ظاہری اختلاف جو ہمیں صفات میں نظرآتے ہیں وہ ان کے زما نے حالات اور واقعات کی وجہ سے ہیں ۔ جیسے صبر امام حسن ، شجاعت امام حسین ، عبادت امام سجاد یا علم امام باقر اور امام صادق صلوات اللہ علہیھم اجمعین اور اسی طرح بقیہ ائمہ اطھار ۔
ہر معصوم کی ان کے زمانے کی شرائط کے حساب سے بعض صفات اجا گر ہوسکیں اور بعض منظر عام پر نہ آئیں ۔
ہم دیکھتے ہیں جب امیر المومنین تشریف لاتے ہیں تو کس طرح اپنی شریک حیات کو احترام کے ساتھ سلام کرتے ہیں اور کتنی محبت کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ السلام علیک یا بنت رسول اللہ ۖ ۔
حضرت پیغمبر ۖ اور باقی ائمہ کو ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ خاص احترام کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ یہ دین اسلام ہی ہے کہ جو چودہ سو سال سے خواتین کے حقوق کیلئے فریاد کر رہا ہے ۔
جبکہ آج کی مغربی دنیا یا غیر مسلم حلقہ ہم پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم خواتین کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔ جبکہ فقط دو صدی پہلے غرب میں بعض ممالک اور مذاہب میں تو یہ بحث رہی کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ۔ یا مشرق میںہندوستان ہی کی مثال لے لیجئے کہ عورت کو اس کے مرنے والے شوہر کے ساتھ جلایا جاتا تھا اور بہت سی ایسی باتیں کہ جس کی گنجائش یہاں نہیں ہے ۔
خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے چودہ سو سال پہلے قرآن میں بیان ہو چکاہے کہ :
لھن مثل الذی علیھن بالمعروف و للرجال علیھن درجة ( سورة بقرہ:٨٢٢)
اور عورتوں کا مردوں پر ویسے ہی حق ہے جیسے مردوں کا عورتوں پر ہے البتہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے۔
خداوند عالم عورت اور مرد کے دو طرفہ احترام کا ذکر فرمارہا ہے جیسے مرد کیلئے عورت کے اوپر کچھ حقوق ہیں بالکل اسی طرح عورت کیلئے بھی مرد کے اوپر کچھ حقوق ہیں ۔ اور یہ جو آیة کے آخر میں اشارہ ہے(للرجال علیھن ّ درجة )
اس کی وجہ خلقت عورت اور مرد میں جسمانی اور روحی فرق ہے ۔ جیسے امیر المومنین نے فرمایا:
فان المراة ریحانة و لیست بقھرمانة ( مستدرک الوسائل ج ٤١ص ٥٢باب ٧٦ح١)
اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا ۖ بھی اسی طرح کنیت اور لقب کے ساتھ جواب دیتی ہیں ۔ علیک السلام یا ابا الحسن و یا امیر المومنین .
حضرت امیر المومنین بھی پیامبر خدا ۖ کو سلام کرنے کے بعد کساء میں آنے کی اجازت چاہتے ہیں کہ جس کے جواب میں رسول خدا ۖ آپ کو چار القاب کے ساتھ جواب دیتے ہیں ۔( علیک السلام یا اخی و یاو صی و خلیفتی و صاحب لوآئی )
رسول خدا ۖ سے برادری کا افتخار پوری تاریخ اسلام میں فقط حضرت علی بن ابی طالب کو عطا ہوا ہے ۔ اور بے شک یہ القاب ہی خلافت اور امامت امیر المومنین ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
آنحضرت ۖ آپ کو اپنا وصی ، جانشین اور علمدار کہہ رہے ہیں ۔
اس کے بعد کچھ باقی ہی نہیں رہ جاتا ہے کسی اور کے افضل یا اعلی ہونے کے بارے میں سوچ سکیں۔
پھر دیکھتے ہیں کہ حضرت زہرا ۖ جبکہ اپنے گھر میں ہیں چادر بھی آپ ہی کی ہے ۔ لیکن پھربھی اپنے والد محترم سے کس طرح احترام کے ساتھ کساء میں آنے کی اجازت چا رہی ہیں ۔
پنجتن اہل بیت :
اس کے بعد جب پنجتن کساء کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں تو رسول خدا ۖ نہایت اظہار یگانگی اور یکجہتی کے ساتھ پر معنی الفاظ میں فرماتے ہیں :١۔ اے خدا یہ میرے خصوصی گھر والے ہیں ۔ یعنی یہ میری ہر چیز کو جانتے ہیں اور میری کوئی بات ان سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
یہ میرے گوشت ہیں یہ میرا خون ہیں ۔ یعنی ہم سب ایک گوشت اور ایک خون سے بنے ہیں جملہ ( لحمھم لحمی و دمھم دمی ) میں اس بات کی طرف نشاند ہی کی گئی ہے کہ ہم سب ایک نور اور ایک چیز سے خلق ہوئے ہیں۔
متعدد روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں ۔
جیسے رسول خدا ۖ فرماتے ہیں ۔
یا علی خلق اللہ الناس من اشجار شتی و خلقنی و انت من شجرة و احدة و انا اصلھا و انت فرعھا فطوبی لعبد تمسک بہ اصلھا و اکل من فرعھا(بحار الانوار ج٥١ ص ٩١باب ١ ح٠٣)
اے علی خدا نے لوگوں کو مختلف درختوں سے خلق کیا ہے اور مجھے اور آپ کو ایک درخت سے خلق کیا ہے ۔ میں اس درخت کی جڑاور آپ اس کے تنے ہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں اس اضافے کے ساتھ بیان فرماتے ہیں :
انااصلھا و انت فرعھا و الحسن و الحسین اغصانھا فمن تعلق بغصن من اغصانھا ادخلہ اللہ الجنة (٢)بحار الانوار ج ٥١ ص ٠٢ باب ١ ح١٣)
میں اس کی اصل اور آپ اس کے تنے ہیں اور حسن و حسین اور اس کی شاخیں ہیں لذا اگر کوئی اس کی کسی بھی شاخ سے مل جائے تو خداوند عالم اس کو جنت میں داخل کردے گا۔
سمعت جدی رسول اللہ ۖ یقول خلقت من نور اللہ عزوجل و خلق اھل بیت من نوری وخلق مجیھم من نورھم…(بحار الانوار ج٥١ ص ٠٢ باب ١ح ٢٣)
اپنے نانا رسول خدا ۖ سے سنا ہے کہ وہ فرما رہے تھے میری خلقت خدا کے نور سے ہوئی ہے اور اہل بیت میرے نور سے ہیں اور ہمارے محبین اہل بیت کے نور سے خلق ہوئے ہیں۔
تخلیق کائنات پنجتن کے صدقے میں :
اس کے بعد خدا عالم اپنے ملائکہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتا ہے ۔ میں نے اس زمین و آسمان ، چاند و سورج ، ستارے و اقیانوس کو فقط ان لوگوں کیلئے اور ان کی محبت میں خلق کیا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی خلقت کا مقصد اور ہدف محمد ۖ و آل محمد ۖ ہیں ۔ متعدد روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں ۔ جیسے
قال رسول اللہ ۖ :
لما خلق اللہ تعالیٰ آدم البشر و نفخ فیہ من روحہ التفت آدم یمنة العرش فاذا فی النور خمسة اشباح سجدا و رکعا قال آدم : یا رب ھل خلقت احدا من طین قلبی ؟قال سبحانہ : ھولاء خمسة من ولدک لولا ھم ما خلقتک ۔ ھولاء خمسة شققت لھم خمسة اسماء من اسمائی ، لولاھم ما خلقت الجنة و لا النار و لا العرض و لا الکرسی و لا السماء و لا الارض و لا الملائکة و لا الانس و لا الجن یا آدم ھولاء صفوتی من خلقی بھم انجیھم و بھم اھلکھم …( فرائد لسمطین ج ١ ص ٦٣)
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم نے سوال کیا مجھ سے پہلے بھی تونے کسی کو مٹی سے بنایا ہے ؟ کے جواب میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے یہ پنجتن تمہاری اولاد میں سے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تمیں خلق نہ کرتا ۔ ان کے لئے اپنے ناموں میں سے پانچ نام مخصوص کر دیئے اگر یہ نہ ہوتے تو جنت جھنم کی آگ ، آسمان، کرسی ، زمین ، ملائکہ ، انسان اور جن کو بھی نہ بناتا…
اسی طرح ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : لما خلق اللہ آدم و نفخ منہ من روحہ عطس آدم و قال الحمد للہ فاوحی اللہ تعالی الیہ و حمدنی و عبدنی و عزتی و جلالی لولا عبد ان ارید ان اخلقھما فی دار الدنیا م خلقتک قال الہی فیکونان منی ؟
قال عزوجل :
نعم یا آدم ، ارفع راسک و انظر فرفع راسہ فاذا مکتوب علی العرض لا الہ اللہ محمد نبی الرحمة و علی مقیم الجنة و من عرف حق علی زکی و طاب ( مستدرک علی الصحیحین ج ١ ص١٤١)
یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں کہ خداوند عالم فرمارہا ہے اگریہ دوشخصیات نہ ہو تیس تو تم کو خلق نہ کرتا ….یہاں تک کہ دوبارہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے : اے آدم اپنے سر کو اٹھا کردیکھو ، حضرت آدم نے سر کو اٹھا کردیکھا تو آسمان پر لکھا ہوا تھا لا الہ الہ الا اللہ محمد نبی رحمت ہیں اور علی جنت میں مقیم ہیں ،اور جو کوئی حق علی کی معرفت رکھتا ہو گا وہ پاک اور کامیاب ہوجائے گا۔
اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل امین گویا تعجب کے ساتھ خدا وند عالم سے سوال کرتے ہیں ؟ چادر کے نیچے کون لوگ ہیں ؟ خداوند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے :
یہ نبی ۖ کے اہل بیت علیھم السلام معدن رسالت ہیں البتہ نبوت کے اہلبیت علیھم السلام اور رسالت کے معدن اور کان سے تعبیر کرنا بھی معنی رکھتا ہے ۔ یعنی رسالت کی اصل اور جڑہیں ۔
جیسا کہ دعا اور زیارات معصومیں میں بھی آیا ہے مانند زیارت جامعہ کبیرہ و…
اس کے بعد خداوند ارشاد فرماتا ہے ( ہم فاطمة و ابوھا و بعلھا و بنوھا)
یعنی ( یعنی یہ فاطمة ۖاور ان کے والد اور ان کے شوہر اور ان کے دو بیٹے ہیں )
اگر کسی کا کسی دوسرے شخص سے تعارف کرانا چاہیں تو قاعدہ یہ ہے کہ جو،ان میں سب سے زیادہ معروف اور اہم ہو اس کی نسبت سے متعارف کروایا جاتا ہے اور رسول خدا ۖ سے زیادہ کون معروف ہو سکتا ہے؟
لیکن اس کے با وجود ہم دیکھتے ہیں کہ پنجتن کا تعارف کرواتے وقت خداوند حضرت فاطمہ زہرا ۖ سے شروع کرتا ہے اور سب کو انہی سے نسبت دیتا ہے حضرت زہرا ۖ کو پنجتن کے لئے محور قرار دیا ہے ۔
یعنی سب آپس میں جناب سیدہ ۖ کی وجہ سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں ۔ اس سے حضرت زہرا ۖ کی بزرگی اور اعلی مقام کا پتہ چلتا ہے ۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوقات عالم اور اھل آسمانوں میں سب سے زیادہ معروف شخصیت جناب سیدہ ۖکی ہے۔
اور شاید یہ اسی وجہ سے ہے کہ روایات کے مطابق ملائکة جب تاریکی میں تھے تو جناب سیدہ ۖ کے نور کی برکت سے روشنی میں آئے ۔ اسی وجہ سے حضرت زہرا ۖ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ روایات میں نقل ہوا ہے کہ :
عن جابر عن ابی عبداللہ قال قلت لہ : لم سمیت فاطمة الزہرا الزہراء ؟ فقال لان اللہ عزوجل خلقھا من نور عظمة فلما اشرقت اضائت السماوات و الارض بنورھا و غشیت ابصار الملائکہ و حزت الملائکة للہ ساجدین و قالوا الھنا و سیدنا ما ھذا النور ؟
فاوحی اللہ ھذا نور من نوری (عوالم العلوم ج١١ص ١٦باب ٣ح٢)
آپ نیملاحظہ کیا کہ جب خداوند عالم نے حضرت زہرا ۖ کو اپنے نور سے خلق کیا اور جب اس نور نے پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لے لیا تو ملائکہ نے سوال کیا پروردگار !یہ کو نسا نور ہے ؟ جس کے جواب میں خداوند ارشاد فرماتا ہے یہ میرے نور میں سے ایک نور ہے۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا نور کہ جس کا ملائکہ سے واسطہ پڑاوہ حضرت زہرا ۖ کا نور تھا۔ اسی طرح ایک معروف روایت میں بیان ہوتا ہے ۔
عن رسول اللہ عن اللہ تبارک و تعالیٰ،قال : یا احمد لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمہ لما خلقتکما( عوالم العلوم ج ١١ ص ٦٣،مستدرک سفینة البحار ج٣ص ٤٣٣)
اس حدیث کا پہلا حصہ سب کتب شیعہ و سنی میں مختلف سند کے ساتھ ذکر ہے پوری حدیث کو طہرانی میرزا ابوالفضل شفاء الصدورفی شرح زیارت العاشور ج ١ ص ٥٢٢ میں ذکر کیا ہے واضح و روشن ہے کہ مرکز تخلیق کائنات حضرت زہراء ۖ ہیں .
ترجمہ حدیث:
رسول خدا ۖ نقل کرتے ہیںکہ خداوند عالم نے فرمایا:اے احمد اگر تم نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا اور اگر علی نہ ہوتے تو تمہیں خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہو تیں تو تم دونوں کو خلق نہ کرتا۔
اگر فقط اسی روایت کو دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ھدف اور مقصد خلقت کائنات رسول خدا ۖ کے بعد حضرت زہرا ۖ ہیںکیونکہ ضرورت دین اور مذھب کے مطابق ثابت ہے کہ ھدف نہائی اور آخری مقصد کائنات وجود پاک حضرت خاتم الانبیاء ہیں ۔ یہاںسے حضرت زہرا ۖ کے اعلیٰ درجات اور مقام کااندازہ ہوتا ہے ۔
حدیث کساء میں ایسی عبار تیں موجود ہیں کہ جو حضرت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں کہ جو حضرت زہراء ۖ بغیر کسی واسطہ کے خدا تعالی سے کلام کیا اور فرشتوں اور خدا کے درمیان اور آسمان کے رہنے والوں سے گفتگو کو یاد کیا گیا ہے
فقال عزو جل یا ملائکتی ویا سکان سمواتی انی ما خلقت سماء مبنیة …وفقال جبرائیل یا رب اتاذن لی ان اھبط الی الارض لا کون معصم سادسا ؟ .. .. وفقال اللہ نعم ..
اور جبرائیل کو بی بی نے دیکھا اور گفتگو کی یاحضرت زہراء ۖ نے جبرائیل اور پیغمبر کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے سنا :
ضبط الامین جبرائیل و قال السلام علیک یا رسول اللہ اس مطلب سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت زہراء ۖ کا بہت بڑا مقام و مرتبہ و منزلت ہے کہ جو خدا کے کلام فرشتوں اور جبرائیل کی گفتگو کو سنتی ہیں اس مطلب پر حدیث کساء کے علاوہ بقیہ بہت روایات ہیں جو دلالت کرتی ہیں صحف حضرت فاطمہ ۖ کہ جو علم ماکان و مایکون اس میں ہے۔
رحلت پیغمبر اکرم ۖ کے بعدحضرت جبرائیل امام حسین حضرت زہراء ۖ کے پاس آتے اور مطالب کو پیش کرتے حضرت زہراء ۖ ان مطالب کو حضرت علی سے بیان کرتیں اور حضرت علی ان کو لکھ لیتے ( بحرانی عوالم ج ٢ ص ٣٤٨ و ص ١١)
ایک اور حدیث میں ابو بصیر کہتے ہیں کہ حضرت امام صادق تین بار قسم یاد کرکے فرمایا خدا کی قسم کہ مصحف فاطمہ ۖ میں وہی مطالب تھے کہ جو قرآن میں ہیں حالانکہ ایک کلمہ بھی اضافی نہیں ہے اور ان مطالب کو خدا تعالی نے حضرت زہراء ۖ کوبیان فرمایا اس مصحف میں وہ علم ہے جو علم ماکان ہے ( عوالم ج ٢ ص ٣٤٨)
٥۔ حدیث کساء کے اسرار میں سے ایک بڑا راز یہ ہے کہ حضرت زہراء ۖ کا بڑا مقام ہے اور حدیث کساء میں ہے کہ جب جبرائیل خدا تعالی سے عرض کرتا ہے کہ اس کساء کے نیچے کون ہیں یہ پانچ ہستیاں اس قدر فضائل رکھتی ہیں کہ سب آسمان و زمین و موجودات ان کی برکت سے وجود میں آئے اور تخلیق ہوئے . خدا تعالی جواب میں فرمایا: ہے:
ھم فاطمة و ابوھا و بعلھا و بنوھا یہ فاطمہ ۖ اور انکے باپ اور انکے شوہر اور دو بیٹے ہیں اس عبارت سے واضح ہے کہ بی بی زہراء ۖ کا بہت بڑا مقام ہے کہ تعارف حضرت زہراء ۖ کے وجود سے ہو رہا ہے سب آسمان و فرشتوں کے درمیان یہ بتایا جار ہاہے کہ یہ فاطمہ ہیں کتب علمی میں ہے کہ ایک چیز کے تعارف کیلئے یا ایک شخص کے تعارف کیلئے ضروری ہے کہ چند چیزوں اور اشخاص سے استفادہ کیا جائے کہ جو مخاطب کیلئے آشنا ترو واضح تر ہوں۔
اس حدیث میں چار بڑی شخصیات کا ذکر ہے یعنی وجود مبارک ختمی مرتبت حضرت علی امام حسن امام حسین انکا تعارف حضرت زہراء ۖ کے وجود مبارک سے ہوا با الفاظ دیگر حدیث کساء میں محور و مرکز حضرت زہراء ۖ ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ فرشتگان الہی حضرت زہراء ۖ کے متعارف ہیںکہ آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ حضرت زہراء ۖ کے وجود کی برکت سے ہے ۔
جبرئل کے کساء میں آنے کی خواہش :
اس کے بعد حدیث شریف کساء میں دیکھتے ہیں کہ ملائکہ کے سر دار جبرائیل امین خداوند عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ مجھے بھی پنجتن علیھم السلام کے ساتھ کساء میں شامل ہونے کی اجازت دیں ۔ اور یہاں پر جبرائیل امین فرماتے ہیں : لا کون معھم سادسا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اہلبیت فقط پانچ افراد تھے جبھی جبرائیل نے فرمایا :
تا کہ انکے ساتھ چھٹابن جائوں ۔
یہی بات ان لوگوں کے قول کو ردکرتی ہے کہ جوازواج رسول کو اہل بیت میں شامل کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں علماء اھل سنت سے روایات بھی موجود ہیں کہ جو ازواج رسول کو اھل بیت سے جدا کرتی ہیں کہ جن کے حوالے اور مختصر سی بحث علیحدہ فصل میں بیان کی گئی ہے ۔ اور آیت شریفہ تطھیر میں موجود حصر اور محدودیت کو یہاں حدیث شریف میں خود تفسیر کردیا گیا ہے ۔
اس کے بعد جبرائیل امین تشریف لائے اور سلام کے بعد خداوند کے سلام اور مخصوص تحیت و اکرام پہنچانے کے بعد فرماتے ہیں ۔ رب العزت اپنی عزت اور جلالت کی قسم کھاکر فرماتا ہے آسمان و زمین ، چاند و سورج ، ستارے اور سمندروں کو فقط اور فقط آپ لوگوں کی محبت میں بنایا ہے ۔
اس کے بعد جبرائیل امین اجازت طلب فرما کر کساء میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
حدیث کساء میں پڑھتے ہیں کہ جب حضرت حسین اور حضرت امیر المومنین علی حضرت زھرا ء ۖ کے گھر میں آئے تو انہوں خوشبو کااحساس کیا ان تینوں شیخصیتوں نے فرمایا: کہ یہ پیغمبر اکرم کی خوشبو ہے ( انی اشم عندک رائحة طیبة …. سوال یہ ہے کہ یہ خوشبو کونسی خوشبو تھی ؟ کیا پیغمبر نے عطر لگایا تھا یا کوئی اور خوشبو تھی جو کچھ قرائن سے استفادہ کیا ہے وہ خوشبو خوشبو نبوت تھی اور خوشبو اہلبیت نبوت ہی محسوس کرسکتے ہیں .
احادیث میں بہت اہم اشارہ ہوا ہے کہ ہر آدمی میں ایک خاص خوشبو ہوتی ہے احادیث میں جنت کی خوشبو ( جیسے پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:
جب مجھے جنت کا اشتیاق ہو تا تو میں حضرت زہراء ۖکی خوشبو سونگھتا ہوں انہیں سے جنت کی خوشبو آتی ہے ( مجلسی بحار الانوار ج ٩٣ص ٥٥ )من لم یصلی علی آلی لم یجد ریح الجنة جو میری آل پر درود نہیں بھیجتا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا،۔ بحار ج ٤٩ص ٦٥سطر ٣ ) اور جہنم میں بد عقیدہ و بد رفتار انسانوں کی بد بو اچھے انسان کی خوش بو )( اولیاء الہی فرشتوں کی خوش بو سونگھتے ہیں)
١لف۔ اذ کان یوم القیامة احب اللہ ریحا منشنہ (بحار ج ٩٧ص ٥٢)
ب۔ حدیث میں ہے بغض آل محمدمیں کوئی مرجائے تو اس سے مردا ر کی بد بو آتی ہے بحار ج ٨ص ٠٢١ ) یا جو کسی مسلمان کی غیبت کرے .(قیامت کے دن اسکے منہ سے مردار کی بد بو آئے گی کہ جو اہل قیامت کوتکلیف دے گی یا اہل جہنم اس عالم کہ جس نے اپنے علم کو لوگوں سے چھپایا اس کی بد بو سے اذیت میں ہونگے( بحارج٢ ص ٥ ٣)
ج۔ حدیث میں ہے کہ جو مومن نیک کام کرنے کا قصد کرے تو فرشتے اس کے بدن سے خوشبو سونگھتے ہیں( بحار ج ١٧ص ٠٦٣ ) شاید اسی لئے حدیث کساء میں فرماتا ہے: کہ فرشتے ایسی محفل میں آتے ہیں اور خوشبو سونگھتے ہیں اور ایسی محفلوں میں آتے جاتے ہیں اس بنا پر انسان بھی اپنی روحانی پرورش سے ایسی خوشبو کو محسوس کر سکتے ہیں ۔
د۔حدیث میں ہے کہ جب حضرت زہراء ۖ پر احتضار کا وقت تھا جبرائیل اور ملک الموت نے سلام کیا بی بی نے فرشتوں کی آواز تھی اور انکی خوشبو سونگھی ( بحار ج٣٤ ص ٠٠٢بحرانی عوالم العلوم ج ٢ و ج١١ ص ١٧٠١)
بہر حال جو کچھ اس حدیث کساء کے متعلق کہنا ہے کہ پیغمبراکرم ۖ ایک خاص خوشبو رکھتے تھے کہ انبیاء کرام سے مخصوص ہے .
حضرت امیر المومنین علی ایک حدیث میں فرماتے ہیں .
انی اری الوحی والدساحہ و اشم ریح النبوة کہ میں حب نوروروح و رسالة کو مشاھدة کرتا تو اس سے نبوت کی خوشبو سونگھتا (نہج البلاغہ خطبہ ٨٩١ )اس طرح فرماتے ہیں ما شمت غبرة اطیب من رائحة النبی کوئی کستوری پیغمبر کی خوش بو سے زیادہ میں نے نہیں سونگھی (مجلسی بحار الانوار ج ٦ ١ص٩ ١)
یہ خوشبو فقط پیغمبر اکرم ۖ کی زندگی سے مخصوص نہیں تھی بلکہ رحلت کے بعدحضرت کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی ما اطیبک حیا و میتا ۔علی فرماتے ہیں کہ میں نے پیغمبر کے جسم اطہرسے موت کے وقت خوش بو سونگھی کہ جو انکی زندگی میں میں نے نہیں دیکھی نہ سونگھی ) (کلینی کافی ج ٦ ص ٨ ٥٣ مجلسی بحار الانوار ج ٤١ ص ٠ ٦٤) تشبیہ کے مقام پر یہ جملہ کہا جاتا ہے ما بعث اللہ نبیا الا و معہ رائحة السفر جل کسی پیغمبر کو خدا نے مبعوث نہیں کیا مگر اس کے ساتھ خوشبو بہ دانہ تھی ( بحار ج ٢٢ ص ٣٢٥)
٦۔ حدیث کساء کے بعض کلمات میں خدا تعالی اہلبیت علیھم السلام کی توصیف میں فرماتاہے:
کہ میں نے آسمان وزمین ،چاند ،ستارے وخورشید اور کشتیاں اور دریا کو اہلبیت علیھم السلام کی محبت میں پیدا کیا ۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ تمام موجودات جہان کو اہلبیت علیہم السلام کے وجود مبارک سے وجود عطاکیا یہ مطلب مختلف طریقوں سے احادیث اہلسنت وشیعہ میں ہے بعنوان مثال حضرت امام رضا کہ جب حضرت آدم کو مسجود ملائکہ قراردیا اور جنت میں داخل فرمایا تو یہ سوال حضرت آدم کے ذہن میں آیا کہ کیا مجھ سے برتر خدا نے کبھی کوئی مخلوق پیدا کی ہے؟
اس وقت خدا نے فرمایا: اے آدم عرش کی طرف دیکھو آدم نے عرش کی طرف نگاہ کی تو پنجتن کے نام دیکھے خدا تعالی نے آدم سے فرمایا:
یہ تیری نسل اور اولاد ہیں اور تجھ سے برتر وافضل ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو جنت وجہنم ……آسمان وزمین کو خلق بھی نہ کرتا ۔
ایک اورروایت میں ابو ہریرہ رسول خدا ۖ سے نقل کرتے ہیں :جب آدم نے عرش کی طرف دیکھا تو پانچ انوار کا مشاہدہ کیا خدا وند سے عرض کی یہ پانچ نور کیا ہیں؟ خدا تعالی نے جواب میں فرمایا: یہ پانچ انوار تیری اولاد ہیں ان کی محبت میں تجھے اور ساری کائنات کو خلق کیا اگر یہ نہ ہوتے تو جنت ودوزخ ،آسمان وزمین عرش وکرسی ،فرشتے وجنات اور انسانوں کو خلق نہ کرتا ۔
اے آدم مجھے اپنی عزت کی قسم اگر کسی نے ایک رائی کے دانہ کے برابر ان سے بغض رکھا تو میں اسے جہنم میں ڈالونگا . اے آدم یہ میری برگزیدہ مخلوق ہے میں ان کے ذریعہ لوگوں کو نجات دونگا اور انکے ذریعہ لوگوں کو ھلاک کرونگا اے آدم تجھے کوئی مجھ سے حاجت ہو تو انکا واسطہ دیناان سے توسل کرنا ( الحموینی فوائد السبطین ج ١ ص ٦٣ بحرانی سید ھاشم غایة المرام ص ٥ ابو عبداللہ الرازی اوار حج المطالب ص ١٦٤ شوشتری قاضٰ نور اللہ ا حقاق الحق ج٩ص ٣٠٢ البحرانی عوالم ج ١ ص ٢٢ ٧۔
ایک اور نکتہ جو قابل ذکر ہے کہ حدیث کساء کی محفل بر پا کر نے میں جوثواب ہے وہی خود حدیث کساء کے پڑھنے میں ہے۔
ما ذکر خبرنا ھذا من محفل من محافل اھل الارض و فیہ جمع من شیعتنا و مجینا و فیھم معھم مھموم الاوفر ج للہ ھمہ ولا مغموم الا و کشف اللہ غمہ ولا طالب حاجة الا وقضی اللہ حاجتہ …
حدیث کساء پڑھنے کا اجر:
حدیث شریف کساء کے آخر میں خدا ۖ اس حدیث شریف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس کو پڑھنے والے کیلئے دو مرتبہ دعا فرماتے ہیں ۔
١۔حضرت امیر المومنین پیامبر ۖ سے اس طرح زیر کساء بیٹھنے کی فضیلت کے بارے میں سوال فرماتے ہیں ۔ جس کے جواب میں پیامبر ۖ خداوند عالم کی طرح قسم کھاتے ہیں )
والذی بعثنی بالحق نبیا و الصطفانی بالرسالة نجیا(پھر اس کے بعد فرماتے ہیں:
جس مجلس اور محفل میں ہمارے چاہنے والے ہوں اور وہاں اس حدیث کا ذکر ہو یا پڑھی جائے خدا کی ر حمتیں ان پر نازل ہوں گی ۔
یہ اجر عظیم بڑے ھدف اور مقصد کی وجہ سے ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ولایت معصومین علیہم السلام ہے ۔ متعدد روایات میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
یہ ثواب ایک جداگانہ توسل حضرت زہراء ۖ سے ان کے وجود کی برکت پر دلالت کرتا ہے کہ ایسی مجالس کہ جو ذکر اھلبیت علیہم السلام برقرار ہوں احادیث میں ہے کہ جو ہم اہلبیت / کا ذکر کرے اور اس مجلس میں ہمارے شیعہ حاضرہوں اور معارف اہلبیت علیھم السلام و امر ولایت کو زندہ کریں ان کے حق میں معصومین علیھم السلام دعا کرتے ہیں۔
امام صادق فضیل سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے شیعہ ہماری مجالس برپا کرتے ہیں ؟جب امام نے جواب مثبت سنا تو فرمایا:
ان تلک المجالس احیھا فاحبوا اضرب یا فضیل رحم اللہ من احیا امرنا ۔
یہ مجالس ہیں کہ جو میں دوست رکھتا ہوں اے فضیل خدا رحمت کرے اس پر جو ہمارے امر کو احیا کرے بحار الانوار ج ٤٤ و ١٧ ص ٠٦٢ و ١٥٣
اس طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں علامہ مجلسی مراة العقول ج ٩ ص ٣٥) تفسیر حیاة لامرنا میں فرماتے ہیں ایسے جلسے و گفتگو کو جو اہلبیت کے امر کو زندہ رکھنے کا سبب ہوں جیسے علوم معارف اھلبیت علیھم السلام و امر امامت کا احیاء دین کی بقا کا باعث ہیں )
اس بنا پر حدیث کسا کی محافل بھی امر ولایت کے احیاء کا باعث ہیں ایسی مجالس و محافل کیلئے اہلبیت علیھم السلام اپنے ماننے والوں کو دعا دیتے ہیں۔
البتہ شرط یہ ہے کہ خالص نیت کے ساتھ ہوںاور ایسی گفتگو و کردار سے نہ ہوں کہ جن سے وہ ر اضی نہیں ہیں . اس بنا پرحدیث کساء کے بعض کلمات یہ ہیں کہ خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے ایسی مجالس و محافل پر جب تک کہ وہ جماعت متفرق نہ ہو فرشتے ان کیلئے طلب مغفرت کرتے ہیں۔
اگر اس جماعت میں کوئی غمگین و پریشان ہے تو اسکا غم دورکیا جاتا ہے اگر اس اجتماع میں کوئی حاجت مندہو تو خدا اسکی حاجت کو پورا فرماتا ہے
٨۔حدیث کسا ء کی محفل میں جو شیعہ حاضر ہوتے ہیں اور ان میں ذکر اہلبیت علیھم السلام پڑھتے اور سنتے ہیں ایسی مجلس کیلئے فرشتے طلب مغفرت کرتے ہیں ( ماذکر خبرنا ھذا فی محفل من محافل اھل الارض و منہ جمع من شیعتنا و محبینا الا و نزلت علیھم الرحمة و حفت بعد الملائکة و استغفترت لھم الی ان یتفرقوا …)
فرشتوں کا طلب مغفرت کرنا اھلبیت علیھم السلام عصمت و طہارت کے محبوں پردوسری روایات بھی اسکی تاکید کرتی ہیں بعنوان مثال عایشہ عاص کی بیٹی رسول خدا ۖ سے نقل کرتی ہے :
کہ جو جماعت اھلبیت علیھم السلام کے ذکر پر جمع ہوں تو ایسی مجالس میں شرکت کرنے والے فرشتے جب آسمان کی طرف جاتے ہیں تو دوسرے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں کہ ایسی خوشبو تم سے محسوس کر رہے ہیں کہ جو آج تک محسوس نہیں کی وہ ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ایسی مجلس میں تھے کہ جس میں محمد و آل محمد کا ذکر تھا ملائکہ ان سے کہتے ہیں ہمیں بھی وہاں لے چلو تا کہ باقی بچاہوا عطر و خوشبو ہمیں نصیب ہو ( قندوزی ینا بیع المودةص ٦٤ ٢ شوشتری احقاق الحق ج٩ ص ٠٠٥ مزید تفصیل کیلئے آیة التطھیر فی احادیث الفریقین ج ٢ ص ٧ ٢٣ پر رجوع کریں )
 
 
 
 
شھادت کے بعدلوگوںپرحضرت زہراء ۖ کی عنایات
حضرت زھہرء ۖ اور دوسرے افراد و اہلبیت علیھم السلام پیغمبر کی دستگیری و مشکل کشائی حاجت مندوں کیلئے فقط ان کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ معارف شیعہ کی بنا پر وہ زندہ و تا بندہ ہیں لوگوں کی مشکل ا ورانکے توسلات کا انہیں علم ہے اپنی عنایت و شفاعت اپنے دوستوں و محبوں کے شامل حال کرتے ہیں واقعات کہ جو اھل بیت علیھم السلام کی کرامات کے طور پر نقل ہوئے ہیں اس قدر ہیں کہ انکا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
طول تاریخ میں متقدمین لکھنے والے علمائے دین نے بھی انہیں لکھا اور وہ مستند کرامتیں ہیںبعنوان مثال دہ کتب کہ جوحضرت زہرا ء ۖکی منزلت و کرامات پر لکھی گئی ان میں سے ایک کتاب کرامات وعنایات فاطمہ زہراء ۖ و نہضت فاطمیہ ہے بعنوان نمونہ اس کتاب سے کچھ کرامات یہاں نقل کرتے ہیں .
١۔ ایک اولاد حضرت زہراء ۖ سے اس طرح نقل کرتا ہے کہ سال ٠٧٣١شمسی دوماہ مدینہ منوہ میں زواروں کی خدمت کرنے کیلئے بقیع میں تھا کہ ایک رات جب نئے زائر حرم میں آئے تو ان میں ایک مستور کے آہ و نالہ کی آواز سنی کہ جو زا ر قطار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی اے میری ماں (زھراء ) میری بیٹی مجھے لوٹا دیں دوسرے دن صبح ناشتے کے وقت پھر وہی آواز سنی ایک زائر سے میں نے پوچھا کہ یہ مستور کون ہے ؟
کس لیے زیادہ کر ارہی ہے اس نے جواب دیا کہ اسکی ٨١ سالہ بیٹی ہے کہ جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہے ڈاکٹروں نے اسے جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی بیٹی پانچ دن کے بعد مرجائے گی اس حالت میں وہ مکہ و مدینہ کا سفر کیا اور یہاں آکر حضرت زہراء ۖ سے متوسل ہورہی ہے یہاں اس حالت میں آئی کہ اسکی بیٹی بول نہیں سکتی تھی۔
لیکن سفر کیلئے گھر سے رخصت کے وقت و ہ ماں کی چادر کو پکڑ رہی تھی کہ مجھے اس حالت میں چھوڑ کر کہاں جارہی ہوماں نے کہامیں تیری شفا کیلئے اپنی ماںزھراء ۖ کے پاس جارہی ہوں اس طرح وہ یہاں پنچ کر غربت حضرت زہراء ۖ اور اپنی حالت پر گریہ کر رر ہی ہے ۔
جمعہ کی رات پہنچی تو سب دعاء کمیل پڑھ رہے تھے حرم رسول خدا ۖ کے جوار میں بقیع کی زیارت سے مشرف ہواتو دیکھا وہ مستور دعائے کمیل کے وقت اپنے گریہ پر سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے دعائے کمیل کے بعد میں اسکے نزدیک گیا اسے دلاسہ دیا اور کہا کہ تو حضرت زہراء ۖ کی مہمان ہے ضرور تیری بیٹی شفا یاب ہوگی .
اس تاریخ سے دس دن بعد ہوٹل کے مالک نے مجھے آواز دی کہ ایران سے ٹیلی فون ہے میں نے فون اٹھا یا تو وہی مستور تھی کہ جو کچھ دن پہلے یہاں فریاد و گریہ کر رہی تھی مجھ سے کہا کہ آج رات زیارت بقیع کیلئے جاؤ میری ماں زہراء ۖ کا شکریہ ادا کرو کہ میری بیٹی کو شفادی ہے میں نے کہا واقعہ کیا ہے ؟
کہنے لگی مکہ سے واپسی پر جب میں ایر پورٹ پر پہنچی تو میری وہی بیٹی میرے استقبال کیلئے پھولوں کا گلدستہ لے آئی ہے ایک ہاتھ میں پھول دوسرے ہاتھ میں ڈاکٹر کی رپوٹیں تھیںکہنے لگی اماں کہاںگئی تھیں۔
میری رپوٹ کودیکھو کینسر کا مجھ میںکوئی اثر ہی نہیں رہا ہے میں نے پوچھا کیسے ٹھیک ہوئی تو کہا:ایک سیاہ پوش مستور میرے کمرے میں آئی میرے بدن پر اپنا دست مبارک پھیرا مجھے خوشخبری دی کہ میں نے خدا سے تیری شفاعت طلب کی ہے اسی ذات نے قبول فرمایا ہے اسی وقت میں بیدار ہوئی تو میں نے احساس کیا کہ میں ٹھیک ہوگئی ہوں اب میں سلامتی کے ساتھ ہوں ( موحد ابطحی سید حجت، کرامات و عنایات فاطمہ زہراء ۖ و نہضت فاطمیہ ص ٥٨٢ و ٧٨٢)
٢ ۔ ایک باتقوی آدمی محب اہلبیت عصمت و طھارت علیہم السلام جناب ایک انجینیئرکہ جو ایک علمی گھرانے کا فردتھا نقل کرتا ہے کہ میرے ایک دوست میری بیماری سے کی وجہ سے کچھ سال پہلے ایران کے ہسپتال میں داخل تھا جو ڈاکٹر اسکا علاج کر رہا تھا وہ میرا دوست تھا مجھ سے کہا کہ اسکی بیماری سخت ہے یہ صعب الاعلاج ہے اور اپریشن سے بھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔
لہذا اسے گھرلے جاؤ وہ ایک مہینہ ہسپتال اور تین ماہ گھر میں بستربیماری پرلیٹارہا چند ماہ بعد وہ اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا ایک دن مجھے کہا کہ تنہا ئی میں میں آپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں میں نے اسے وقت دیا ایک دن وہ کہنے لگا کہ جب میں دل کے مرض میں مبتلا تھاڈاکٹروں سے لا علاج ہو کر گھر واپس بستر بیماری پر تھا کہ عجیب واقعہ دیکھا کہ ایک گھر کے صحن میں روشنی ستون کی طرح ظاہر ہوئی پھر میرے کمرے کی طرف آنا شروع ہوئی ۔
میں نے سوچا ملک الموت ہے آخر میں ایک سفید جوان ظاہر ہوا میں نے اس سے مہلت مانگی کہ میری بیٹی جوان ہے اسکا جہیز بنالوں مجھے مہلت نہیں دی میری پیشانی پر پسینہ آیا اپنی سخت حالت میں پریشان ہو کر کہا یا زہراء ۖ میری طاقت جواب دے چکی تھی وہ جوان سفید میرے پیچھے پیچھے گھر کے صحن میں آیا میں نے پھر کہا یا زہراء ۖ یا زہراء ۖ وہ جہاں سے وہ روشنی نمود دار ہوئی اسی جگہ وہ جوان غائب ہوگیا اب مجھے پند رہ سال ہونے کو ہیں کہ وہ آدمی اب تک زندہ ہے سال ٣٢٤١ ھ ق محرم ہے وہ اپنے کاموں میں مشغول ہے .
یہ ہے حضرت زہراء ۖ کی برکت کہ لا علاج کو شفا بخشتی ہے۔ ( موحد ا بطحی سید حجت کرامات و عنایات فاطمہ زہراء ۖ و نہضت فاطمیہ ص ٤٢ ۔ ٥٢)
 
 
 
 
 
حدیث کساء سے توسل کے متعلق بعض علماء و مراجع کا نظریہ
جیسا کہ بیان ہوا کہ حضرت زہراء ۖ کی عنایات اپنے شیعوںپراس سے کہیں زیادہ ہیں کہ سب کو تحریر کیاجائے ان میں سے ایک توسل حدیث کساء سے ہے کہ اس کے ذریعہ حضرت زہراء ۖ کے دسترخوان سے بہرہ مند ہوں اس حدیث کساء سے توسل اوراسکے آثار کو ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ بعض علماء و مراجع تقلید کے نظریات کو اس حدیث شریف کے متعلق ذکر کریں .
١۔حضرت آیة اللہ العظمی آقائے گلپائیگانی کی اس حدیث کساء کو پڑھنے کی سفارش ۔
حضرت آیة اللہ گلپائیگانی کے ایک رشتہ دار نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آیة اللہ گلپائیگانی کسی مشکل میں گرفتار ہوئے تو اس حدیث کسا ء سے متوسل ہوتے اگر کوئی اس عالم بزرگوار کے پاس اپنی مشکل بیان کرتا تو اس کو حدیث کساء کی سفارش فرماتے اور ایک حدیث کساء کا کتابچہ دیتے اور فرماتے اس حدیث کساء سے اپنی مشکل کو برطرف کرو یہاں تک کہ جب سرکاری عہدے دار انکے پاس گئے جنگ تحمیلی کی مشکل کے متعلق بات چیت کی تو جواب میں فرمایا اس حدیث کساء سے متوسل ہوں
٢۔آیة اللہ بھاء الدینی اور حدیث کساء
ایک سرکاری عہدے دار نے نقل کیا ہے کہ جب صدام بعثی نے شہر قم پر بمباری کرنا شروع کی اس شہر کے لوگ بہت پریشان ہوئے میں آیة اللہ حاج آقا محمد رضا بھاء الدینی کے گھر گیا ان سے رہنمائی طلب کی انہوں نے جواب میں فرمایا:
جب لوگ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں اہلبیت علیہم السلام سے توسل کا کہا اور خود بھی معصومین علیھم السلام سے عرض کیا کہ لوگ پریشان ہیں تو مجھے حضرت زہراء ۖسے اشارہ ملاکہ تم حدیث کساء سے توسل کرو تو میں نے تمام مساجد میں لوگوں کو حدیث کساء سے توسل کرنے کو کہاتوقم میںبمباری متوقف ہوگئی۔
اس سے عجیب تر یہ ہے کہ نقل کرتے ہیں ایک پایلٹ نے اپناجہاز اس علاقہ میں گرادیا اس سے جب انڑویوں لیا گیا تو کہاجب میں اس علاقہ پر حملہ کرنا چاہا تو دیکھا پورے علاقہ پر پانی ہی پانی ہے تو بم ایسے ہی ادھرا دھر پھینک دیئے ۔
٣۔آیة اللہ قاضی کی سفارش حدیث کساء پڑھنے کیلئے .
ایک مرجع بزرگوار تقلید فرماتے ہیں کہ آیة اللہ آقا سید علی قاضی استاد عرفان و اخلاق علامہ طباطبائی صاحب المیزان بہت زیادہ حدیث کساء پر اعتقاد رکھتے ہیں اگر کوئی ان کے پاس آتا اور اپنی مشکلات کاتذکرہ کرتا تو فرماتے:
حدیث کساء پڑھو اسی طرح آیة اللہ قاضی نے حدیث کساء کی محفل کے خاص آداب و شرائط کی طرف اشارہ فرمایا ہے بعنوان مثال فرماتے ہیں کہ حدیث کساء کے وقت عود کی لکڑی و حرمل دکھایا اورجلایاجائے.
٤۔آیة اللہ طیب زادہ نے حدیث کساء کی سفارش کی .
آیة الہ حاج میرزا محمد طیب زادہ ( یہ علماء بزرگوار اصفہان سے صاحب آثار از جملہ الشمس الطالعة شرح زیارت جامعہ ہیں کہ یہ توفیق رکھتے ہیں کہ اپنے بھائی حجة الاسلام حاج سید محمد رضا موحد ابطحی داماد آیة اللہ گلپائیگانی انکے درس میں جاتے۔
آیت اللہ طیب زادہ حاج میرزا ابوالقاسم گوگردی استاد طب حضرت آیة اللہ سید مرتضی موحد ابطحی اور دیگر بزرگوار علماء اصفہان ہیں ) حاجت قبول ہونے کیلئے حدیث کساء کی سفارش فرماتے تھے یہاں تک کہ اکثر افراد بہت سی مشکل کا ذکر ان کے پاس کرتے تو یہ عالم بزرگوار حدیث کساء پڑھنے کی تاکید کرتے حدیث کساء سے مشکلات کے حل کی بات اصفہان میں بہت معروف ہوگئی تھی .
٥۔آیة اللہ سید مھدی شیرازی اور حدیث کساء .
جب میں آیة اللہ سید محمد صادق شیرازی کے پاس بیٹھا تھا کہ حدیث کساء کی سند کی بات چلی تو فرمایا میرے والد مرحوم مھدی شیرازی حدیث کساء کی سند کو معتبر سمجھتے تھے (حضرت آیة اللہ شیرازی نقل کرتے ہیں :
جب خاندان شیرازی عراق سے ہجرت کی تو اس حدیث کساء کی سند مفقود ہوگئی الحمد للہ آخر میں میرے والد نے اس کی سند کو نقل کیا اور اسکی تصویر کہ جو آخر میں اجازہ کے ساتھ ذکر ہے ) ہر روز اس حدیث کو پڑھتے تھے مرحوم سید محمد شیرازی بھی جلد اول کتاب من فقہ الزھراء ۖ لکھتے ہیں میں اس حدیث کساء کو نقل کرتاہوں انکے والد کے طریقے سے کہ جو جابر بن عبداللہ انصاری نے حضرت زہراء ۖ سے نقل کیا ہے ۔
٦۔آیةاللہ فاضل ہر روزحدیث کساء پڑھا کرتے تھے.
جمعہ ٢١ ذی الحجة ٦٢٤١ ھ . ق اس عالم بزرگوار کے گھر گفتگو کرنے کیلئے گیا جو کچھ حدیث کساء کے متعلق لکھا ہے یہ سب تحقیقات انکے پاس لے گیا عرض کیا کہ اس کے متعلق آپکی نظر شریف کیا ہے تو فرمایا:
میرے والد بزرگوار بہت زیادہ معتقد تھے اور ہر روز اسے پڑھا کرتے تھے ( حضرت آیة اللہ فاضل قفقازی اساتید حوزہ اور ممتحن درس خارج تھے و آقائے بروجردی کے زمانہ میں بہت اعلی اخلاق وعلمی کمالات کے مالک تھے .
٦۔آیة اللہ موحد ابطحی حدیث کساء کے پڑھنے میں بہت پابندتھے.
آیة اللہ حاج سید مرتضی موحد ابطحی جو انی سے زیارت عاشوارا ء دعائے عھد و حدیث کساء روزانہ پڑھتے تھے خاص کر حدیث کساء کو فراغت کے وقت حفظ کرتے ( یہ بزرگوار ہم پر حق استادی و حق پدری رکھتے ہیں ان کے حالات سے بیش تر اطلاع کیلئے کتاب پدر و مادر نمونہ کہ جوانکے فرزند ارجمند جناب حجة الاسلام سید حجت موحد ابطحی نے لکھی رجوع فرمائیں ) انکی رحلت کے بعد انکے اس اثر ( حدیث کساء ) کو لکھا گیا اور چھپوادیا گیا انہوں نے ایک آدمی کو خواب میں دیکھا کہ جس نے دستور دیا اپنے بیٹے کی لکنت زبان کیلئے دس جلسے حدیث کساء کے برگزار کریں تو دس جلسے حدیث کساء کے برگزار کرنے سے اپنے بیٹے کی لکنت زبان سے شفا پائی .
٧۔حدیث کساء کے متعلق آیة اللہ قزوینی کا نظریہ
آیة اللہ سید محمد کاظم قزوینی حدیث کساء کی برکات و آثار کے متعلق لکھتے ہیں حدیث کساء کا محافل و مجالس میں طلب خیر وبرکت کیلئے پڑھنا استجابت دعا اور نزول رحمت و محبت خدا کی باعث ہے ہمیشہ طول تاریخ میں پیروکار مکتب اھلبیت علیھم السلام نے اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے۔
یہاں تک یہ سلسلہ ایک مناسب سیرہ شیعوں کے درمیان رائج ہوئی اس کے آثار و برکات اور لوگوں کا شفا یاب مشکلات سے خلاصی اور اس کی تلاوت سے برکات کا ظاہر ہونا واضح و روشن ہے .
حدیث کساء کی مجلس کے آداب
اگر چہ روایات معصومین علیھم السلام میں خاص آداب و شرائط اس دعا کے پڑھنے کے ذکر نہیں ہوئے لیکن عام جلسات و دعا و توسل کی شرائط میں حالت تضرع اور دنیا سے قطع رابطہ توجہ الی اللہ خضوع وخشوع سے پڑھنا اس کے توسل میں اضافہ و قبولیت کی تاثیر کا باعث ہیں
بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کو پڑھنے کے آداب ذکر کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آداب عمومی کا لحاظ کیا جائے یہ احتمال بھی ہے کہ بعض آداب الہامی ہوں کہ جو خاص توجہ سے پڑھنے کیلئے حاصل ہوئے ہوں کہ جس کی وجہ سے یہ سلسلہ ہے کہ حدیث کساء کے پڑھنے کے وقت آداب کو مدنظررکھا جائے۔
جیسے آیة اللہ بھا ء الدینی نے سفارش فرمائی کہ اس دعا کو پڑھنے پر خوشبو کے لئے عود کی لکڑی جلائی جائے مغرب و عشاء کے بعد کچھ آدمی ایک جگہ جمع ہو کر اسے پڑھیں ٤١ بار درود شریف پڑھیں پھر حدیث کسا کو شروع کریں اور حاضرینِ جلسہ کو کھانا دیا جائے و غیرہ جناب محمد جواد یزدی شیبانی بھی اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
کیونکہ حدیث کسا کے ذکر سے رفع بلیات اور حوائج کے پورا ہونے اور ثواب و فیض الہی حاصل ہوتا ہے کہ جو مجربات میں سے ہے یہ سب حدیث کساء کے آثار و برکات ، فیض الہی کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔
لہذا ان جلسوں میں شرکت کریں گو یا یہ بزرگوار ہستیاں بھی ان جلسوں میں حاضرہوتیں ہیں ( یزدی شیبانی محمد جواد تذکرة المصائب ص ١)
قبلہ کی طرف منہ کر کے مئودب بیٹھنا ، آداب اسلامی کی رعایت کرنا ….یہ ایسے آداب ہیں کہ جن کو جناب شیبانی لکھتاہے حدیث کساء کے جلسوں کے اور بھی آداب ہیں جیسا کہ اسکی طرف آیة اللہ سید علی قاضی نے اشارہ فرمایا کہ عود کی لکڑی جلائی جائے ….
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.