ہر شخص اپنے امام کے ساتھ محشور ہوگا

108

ہر شخص اپنے امام کے ساتھ محشور ہوگا
     
سورہ بني اسرائيل آيت نمبر ٧١ و ٧٢
يَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ فَمَنْ اُوْتِيَ کِتَابَہُ بِيَمِينِہِ فَاُولٰئِکَ يَقْرَئُ ونَ کِتٰبَھُمْ وَ لَايُظْلَمُونَ فَتِيلاً۔ وَ مَنْ کَانَ فِيْ ھٰذِہِ اَعْميٰ فَھُوَ فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْميٰ وَ اَضَلُّ سَبِيلاً۔
ترجمہ:
جس دن ہم ہر دور کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائيں گے تو جنہيں ان کا نامہ عمل ان کے داہنے ہاتھ ميں دياجائے گا تو يہ لوگ اطمينان کے ساتھ اپنا نامہ عمل پڑھيں گے اور ذرہ بھر بھي ان پر زيادتي نہ ہوگي۔ اور جو اس دنيا ميں اندھا (دل کا اندھا) ہے وہ آخرت ميں اندھا اور زيادہ کھويا ہوا تھا۔
نکات:
٭ ’’فتيل‘‘ کھجور کي گٹھلي کے درميان موجود باريک ريشہ کو کہتے ہيں۔ يہ لفظ بہت باريک، معمولي اور حقير چيز کے لئے کنايہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
٭ قرآن مجيدنے دو طرح کے پيشواوں کا ذکر کيا ہے؛ ايک نور اور ہدايت کا امام، اَئِمَّۃً يَھْدُونَ بِاَمْرِنَا (سورہ انبيائ۔ ٧٣) اور دوسرا گمراہي اور جہنم کا امام، اَئِمَّۃً يَدْعُونَ اِلَي النَّارِ (سورہ قصص۔ ٤١)۔ يہ دوسرا گروہ لوگوں کو زورِ بازو‘ رعب و دبدبہ اور لالچ و تضحيک سے اپني اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔
٭ابوبصير ۲ نے امام صادق سے عرض کي، ميں گواہي ديتا ہوں کہ آپٴ ميرے امام ہيں، امامٴ نے فرمايا: روزِ قيامت ہرگروہ اپنے امام کے ساتھ محشور ہوگا۔ سورج پرست سورج کے ساتھ اور چاند پرست چاند کے ساتھ۔
٭ روزِ محشر ايسے مناظر ہوں گے جہاں انسان مہر بہ لب اور گونگے ہوجائيں گے، کچھ نابينا ہوں گے۔ اُس دنيا کا اندھا پن اِس دنيا ميں حقائق سے چشم پوشي ہوگي۔
٭ روايات ميں بيان ہوا ہے کہ اگر کسي پر حج واجب ہوجائے ليکن وہ حج پر نہ جائے يا قرآن مجيد پڑھے ليکن اس پر عمل نہ کرے تو وہ روزِ قيامت اندھا محشور ہوگا۔
٭ دل کا اندھا ہونا آنکھوں سے نابينا ہونے سے بدتر ہے۔ اسي لئے حضرت عليٴ نے فرمايا: بدترين نابينائي يہ ہے کہ ہمارے فضائل سے نابينا ہو۔
٭ روزِ محشر اندھا ہونے کامسئلہ ديگر آيات ميں بھي بيان ہوا ہے۔ نَحْشُرُھُمْ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ عَليٰ وُجُوھِھِمْ عُمْياً لَايُظْلَمُونَ فَتِيلاً (بني اسرائيل ٩٧)
اسي طرح سورہ طہٰ کي آيت نمبر ١٢٥ ميں اندھے پن کي حالت ميں محشور ہونے کا ذکر ہے کيونکہ وہ اِس دنيا ميں مردہ دل تھے اور آيات ِ الٰہي کو فراموش نيز حق سے دو رہوگئے تھے۔
سوال: آيات ميں بيان ہوا ہے کہ گناہ گاروں سے کہا جائے گا اپنا نامہ عمل پڑھو: (اِقْرَآْ کِتَابَکَ) اگر وہ نابينا ہوں گے تو کتاب کس طرح پڑھيں گے؟
جواب: اندھا پن قيامت کے ايک موقع پر ہوگا جب کہ دوسرے موقع پر وہ بينا ہوں گے۔ چنانچہ جن حقائق کو وہ دنيا ميں پہچان نہيں سکے وہاں انہيں آشکار ا طور پر ديکھ ليں گے۔
٭ امام باقر نے فرمايا: جو شخص اس کائنات کو ديکھے اور اس سے عبرت نہ پکڑے يا بہرہ مند نہ ہوسکے وہ اس کي مانند ہوگا جس نے آخرت نہ ديکھي ہو اور دل کا اندھا ہو۔
پيغام:
١۔ قيامت کو فراموش نہ کرو۔ (يَوْمَ نَدْعُوا)
٢۔ روزِ محشر لوگوں کي تقسيم بندي ان کے رہبر اور رہنما کي بنياد پر ہوگي۔ (کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)
٣۔ انسان اپنے لئے نمونہ عمل اور رہبر کا انتخاب کرنے پر مجبور ہے۔ (کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)
٤۔ مسلمانوں کو رہبر کے مسئلے ميں لاتعلق يا غير جانبدار نہيں ہونا چاہيے۔ (کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ) کيونکہ روزِ قيامت اُن کے ساتھ ہي محشور ہوگا۔
٥۔ رہبر کا انتخاب اور اس کي اطاعت تاقيامت جاري رہے گي۔ (يَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)
٦۔ قيامت صرف انفرادي طور پر لوگوں کي عدالت نہيں ہوگي بلکہ امتوں، ملتوں، احزاب، مکاتب اور حکومتوں کا بھي محاسبہ ہوگا۔ (يَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)
٧۔ امامت اور ولايت انسان کي روزمرہ زندگي ميں جلوہ گر ہوتي ہے۔ ايسا نہ ہو کہ صرف عقيدتي سطح پر امامت کو تسليم کرے ليکن يہ عقيدہ اس کي زندگي کے ايک کونے ميں ہو۔ رہبر لوگوں کي سعادت يا شقاوت کي راہ ہموار کرتا ہے۔ (کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)
٨۔ روزِ محشر نيک سيرت لوگ اپنا نامہ عمل پڑھنے کے بعد خوش ہوں گے۔ (يَقْرَئُ ونَ کِتٰبَھُمْ) اور ايک دوسرے کو بلائيں گے تاکہ وہ بھي اس کا نامہ عمل پڑھے۔ (ھٰاوُمُ اقْرَئُ وا کِتٰبِيَہ)
٩۔ وہاں انسان اپنے اعمال کو تحرير شدہ پائے گا۔ (کِتابَہ)
١٠۔ روزِ محشر انسان کي عدالت ميں طلبي تحرير شدہ دلائل کي بنياد پر ہوگي۔ (وَ لَايُظْلَمُونَ فَتِيلاً)
١١۔ روزِ محشر جزا اور سزا مکمل طور پر عدل کي بنياد پر ہوگي۔ (وَ لَايُظْلَمُونَ فَتِيلاً)
١٢۔ آخرت ميں انسان کي دنيوي شخصيت منعکس ہوگي۔ (فِيْ ھٰذِہِ اَعْميٰ فَھُوَ فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْميٰ) وہاں کي بصيرت ، يہاں کي بصيرت کے باعث ہوگي۔ يہاں کا اندھا وہاں بھي اندھا ہي ہوگا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.