امام رضا (ع) کے مختصر حالات

314

امام رضا (ع)اللہ کے نور کاٹکڑا،اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاہرین (ع)کی آٹھویں کڑی ہیں جن سے اللہ نے رجس کو دوررکھا اوران کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھا جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ مامون نے ائمہ طاہرین (ع) کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکروادیب عبداللہ بن مطرسے سوال کرتے ہوئے کہا: اہل بیت (ع) کے سلسلہ میں تمھاری کیا رائے ہے ؟عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا:میں اس طینت کے بارے میں کیاکہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوااوروحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آسکتی ہے ؟ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا (ع)بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا ۔ (١)وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام (ع)عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ (ع) کے سلوک ، ذات کی ہو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔۔۔ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:آپ (ع)کی پرورشامام (ع)نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔۔۔یہ امام موسیٰ بن جعفر (ع)کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع وپرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہائ،اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔اسی بلند وبالا بیت الشرف میں امام رضا (ع)نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔آپ (ع) کا عرفان اور تقویٰامام رضا (ع)کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیااور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیااگرامام (ع) اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ (ع) کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔آپ کے بلند وبالااخلاقامام رضا (ع)بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔ (٢)ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے :ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خداکی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔۔۔امام (ع)نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔امام (ع)اپنے جدرسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔آپ (ع)کا زہدامام (ع)نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوںنے دنیا میں زہد اختیار کیا، آپ (ع)کے جدبزرگوارامام امیرالمومنین (ع)نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔محمد بن عباد نے امام کے زہدکے متعلق روایت کی ہے :امام (ع) گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے، آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے ۔ (٣)دنیا میں زہد اختیار کرنا امام (ع)کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام (ع)کو ولی عہد بنایاگیا تو آپ (ع)نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا، حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدید کراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :”لوگوںکاکسی شخص کی اقتداکرنااس شخص کے لئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے ”۔آپ (ع)کے علوم کی وسعتامام رضا (ع)اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوںکہا ہے :میں نے علی بن موسی رضا (ع)سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوںمیں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے: ”میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ”۔ (٤)ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا (ع)کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ آپ (ع)نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔ (٥) ،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ (ع)اس کا جواب عطافرماتے تھے ۔ (٦)مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا (ع))سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔ (٧)بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ (ع)پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام (ع)سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوںسے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ہوجائیں۔اقوال زرینامام (ع)نے متعدد غررحکم،آداب ،وصیتیں اوراقوال ،ارشاد فرماتے جن سے لوگ استفادہ کرتے تھے یہ بات اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں عالم اسلامی کے سب سے بڑے استاد تھے اور آپ نے حکمت کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب اور ان کی تربیت کے لئے جدوجہد کی ہے ہم ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:عقل کی فضیلتاللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے اور امام (ع)نے بعض احادیث میں عقل کے متعلق گفتگو کی ہے جیسے :١۔امام رضا (ع)کا فرمان ہے :”ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے” ۔ (٨)یہ حکمت آمیز کلمہ کتنازیباہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑادوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوںسے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسادیتی ہے ۔٢۔امام (ع)کافرمان ہے :”سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے ”۔ (٩)بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتاہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اوراس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوںکو انسان سے دور کردیتا ہے اور اس کو نیکیوںکی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ۔جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے :”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”۔”جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی”۔محاسبۂ نفسامام (ع)کافرمان ہے :”جس نے اپنے نفس کا حساب کیا اس نے فائدہ اٹھایااور جو اپنے نفس سے غافل رہا اس نے گھاٹا اٹھایا”۔ (١٠)بیشک انسان کا اپنے نفس کا حساب کرنا کہ اس نے کون سے اچھے کام کئے ہیں اور کون سے برے کام انجام دیئے ہیں اور اس کااپنے نفس کو برے کام کرنے سے روکنا، اور اچھے کام کرنے کی طرف رغبت دلانا تو یہ اس کی بلندی نفس ،فائدہ اور اچھائی پر کامیاب ہونے کی دلیل ہے ،اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے غفلت کی تو یہ غفلت انسان کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے جس کے لئے قرار وسکون نہیں ہے ۔کارو بار کی فضیلتامام (ع)فرماتے ہیں :”اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مانند ہے ،یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے ”۔ (١١)سب سے اچھے لوگامام (ع)سے سب سے اچھے اورسب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ (ع)نے فرمایا: ”وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیںتووہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطاکیاجاتا ہے تو شکراداکرتے ہیں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں ”۔ (١٢)یہ حقیقت ہے کہ جب انسان ان اچھے صفات سے متصف ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے افضل اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور وہ کمال کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے ۔آپ (ع)کی نصیحتیںامام (ع)نے ابراہیم بن ابی محمود کو یوں وصیت فرمائی:”مجھے میرے والد بزرگوار نے انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے رسول اسلام (ص) سے نقل کیا ہے :جس نے کسی کہنے والے کی بات کان لگا کر سنی اس نے اس کی عبادت کی ،اگراس کہنے والے کی گفتگوخدا ئی ہے تو اُ س نے خدا کی عبادت کی اور اگراس کی گفتگو شیطانی ہے تو اس نے ابلیس کی عبادت کی یہاں تک کہ آپ (ع)نے فرمایا :اے ابو محمود کے فرزند : میںنے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کو یاد رکھو کیونکہ میں نے اپنی اس گفتگو میں دنیا و آخرت کی بھلا ئی بیان کر دی ہے”۔ (١٣)اس وصیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت (ع) کی اتباع اُن کے طریقہ ٔ کار کی اقتدا اور ان کی سیرت سے ہدایت حاصل کرنا واجب ہے ،بیشک اس میں نجات ہے اور ہلاکت سے محفوظ رہنا ہے اور اللہ کی راہ میں بڑی کا میابی ہے ۔مالدار اور فقیر کے درمیان مساواتامام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو سلام کے ذریعہ مالدار اور فقیر کے درمیان مساوات کر نے کی سفارش فرما ئی ہے :”جوشخص مسلمان فقیرسے ملاقات کرتے وقت اس کو دولت مند کو سلام کر نے کے علاوہ کسی اورطریقہ سے سلام کر ے تو خداوند عالم اس سے غضبناک ہونے کی صورت میں ملاقات کرے گا” ۔ (١٤)مومن کے چہرے کا ہشاش بشاش ہوناامام رضا (ع) نے اپنے اصحاب کو وصیت فرما ئی کہ مو من کا چہرہ ہشاش بشاش ہونا چا ہئے اس کے بالمقابل اس کا چہرہ غیظ و غضب والا نہیں ہو نا چاہئے امام (ع) فرماتے ہیں :”جس نے اپنے مومن بھا ئی کو خوش کیا اللہ اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے اور جس کے لئے اللہ نیکیاں لکھ دے اس پر عذاب نہیں کرے گا”۔ (١٥)یہ وہ بلند اخلاق ہیں جن کی ائمہ اپنے اصحاب کو سفارش کیا کرتے تھے تاکہ وہ لوگوں کے لئے اسوئہ حسنہ قرار پا ئیں ۔عام وصیتامام (ع) نے اپنے اصحاب اور باقی تمام لوگوں کو یہ بیش قیمت وصیت فرما ئی :”لوگو ! اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کے سلسلہ میں خدا سے ڈرو ،خدا کی مخالفت کے ذریعہ خدا کی نعمتوں کو خود سے دور نہ کرو ،یاد رکھو کہ خدا و رسول پر ایمان اور آل رسول میں سے اولیائے الٰہی کے حقوق کے اعتراف کے بعد کسی ایسی چیز کے ذریعہ تم شکر الٰہی بجا نہیں لاسکتے جو اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہو کہ تم اپنے مومن بھائیوں کی اُس دنیا کے سلسلہ میں مدد کروجو اُن کے پروردگار کی جنت کی جانب تمھارے لئے گذر گاہ ہے جو ایسا کرے گا وہ خاصانِ خدا میں سے ہوگا ”۔ (١٦)اس وصیت میں تقوائے الٰہی ،بھا ئیوں کی مدد اور اُ ن کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔کلمات قصارامام رضا (ع) کے حکمت آمیز کلمات قصارچمکتے ہوئے ستاروں کی طرح حکمتوں سے پُر ہیں :١۔امام (ع) نے فرمایا ہے :”اگر کو ئی ظالم و جابر بادشاہ کے پاس جائے اور وہ بادشاہ ان کو اذیت و تکلیف دے تو اس کو اس کو ئی اجر نہیں ملے گا اور نہ ہی اِس پر صبر کرنے سے اس کو رزق دیا جا ئے گا ”۔ (١٧)٢۔امام رضا (ع) کا فرمان ہے :”لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے ”۔ (١٨)٣۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں عافیت کے دس جزء ہوں گے جس میں نو حصے لوگوں سے الگ رہنے میں ہوں گے اور ایک حصہ خا مو شی میں ہو گا ”۔ (١٩)٤۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :”بخیل کے لئے چین و سکون نہیں ہے اور نہ ہی حسود کے لئے لذت ہے ،ملو ل رنجیدہ شخص کے لئے وفا نہیں ہے اور جھوٹے کے لئے مروَّت نہیں ہے ”۔ (٢٠)٥۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :”جس نے مو من کو خوش کیا خدا قیامت کے دن اُس کو خو شحال کرے گا”۔ (٢١)٦۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :”مومن، مومن کاسگا بھا ئی ہے ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی پر الزام لگایاملعون ہے ، ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو دھوکہ دیا ، ملعون ہے ،ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو نصیحت نہیں کی ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی کے اسرارسے پردہ اٹھایا ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کی غیبت کی ہے ”۔ (٢٢)آپ(ع) کو تمام زبانوں کاعلمامام (ع) تمام ز بانیں جانتے تھے، ابو اسما عیل سندی سے روایت ہے : میں نے ہندوستان میں یہ سنا کہ عر ب میں ایک اللہ کی حجت ہے، تو اُ س کی تلاش میں نکلا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ وہ امام رضا (ع) ہیںمیں اُ ن کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب آپ کی بارگاہ میں پہنچاتومیں نے آپ (ع)کو سندھی زبان میں سلام کیا امام (ع) نے سندھی زبان میں ہی سلام کا جواب دیا ،میں نے آپ (ع)کی خدمت مبارک میں عرض کیا: میں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک اللہ کی حجت ہے اور اسی حجت کی تلاش میں آپ (ع) کے پاس آیا ہوں تو امام (ع) نے فرمایا :”میں ہی اللہ کی حجت ہوں ”،اس کے بعد فرمایا :”جو کچھ تم سوال کرنا چاہتے ہو سوال کرو ‘ ‘میں نے آپ (ع) سے متعدد مسائل دریافت کئے تو آپ (ع) نے میری زبان میں ہی اُن کا جواب بیان فرمایا ۔ (٢٣)ابو صلت ہروی سے روایت ہے :امام رضا (ع) لوگوں سے اُن ہی کی زبا ن میں کلام کیا کرتے تھے ۔ میں نے امام (ع) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا :”اے ابو صلت میں مخلوق پر اللہ کی حجت ہوں اور اللہ کسی قوم پر ایسی حجت نہیں بھیجتا جو اُن کی زبان سے آشنا نہ ہو ،کیا تم نے امیر المو منین کا یہ کلام نہیں سُنا: ہم کو فصل خطاب عطا کیا گیا ہے ؟کیا وہ زبانوں کی واقفیت کے علاوہ کچھ اور ہے ؟”۔ (٢٤)یاسر خادم سے روایت ہے :امام رضا علیہ السلام کے بیت الشرف میں صقالبہ اور روم کے افراد تھے، امام ابو الحسن (ع) اُن سے بہت قریب تھے، میں نے آپ(ع) کو اُن سے صقلبی اور رومی زبان میں گفتگو کرتے سنا ہے اور وہ اُس کو لکھ کر آپ (ع) کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے ۔ (٢٥)اسی چیز کو شیخ محمد بن الحسن حرّ نے اس شعر میں قلمبند کیا ہے:وَعِلْمُہُ بِجُمْلَةِ اللُّغَاتِمِنْ أَوْضَحِ الاِعْجَازِ وَالآیَاتِ (٢٦)”تمام زبانوں سے آپ (ع)کی آشنا ئی آپ (ع)کا واضح معجزہ اور نشا نی ہے ”۔واقعات و حادثاتامام رضا (ع) متعدد واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی اُن کی خبر دیدیا کر تے تھے، اس سے شیعوں کے اس عقیدے کی تا ئید ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اسی علم سے نوازاہے جس سے اپنے رسول اور انبیاء (ع)کو نوازا ہے، اُن ہی میں سے امام (ع) نے یہ خبر دی تھی :مامون انپے بھائی امین بن زبیدہ کو قتل کرے گا ،جس کو اس شعر میں نظم کیا گیا ہے :فَاِنَّ الضِّغْنَ بَعْدَ الضِّغْنِ یَفْشُوعَلَیْکَ وَیُخْرِجُ الدَّ ائَ الدَّ فِیْنَا (٢٧)”بیشک کینہ کے بعد کینہ مسلسل کینہ کرنے سے تمھارے اوپر راز فاش ہو جا ئے گااور دبے ہوئے کینے ابھر آئیں گے ”۔ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون نے آپ (ع) کے بھا ئی امین کو قتل کردیا۔امام (ع) نے ایک خبر یہ دی تھی کہ جب محمد بن امام صادق (ع) نے مامون کے خلاف خروج کیا تو امام رضا (ع)نے ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فرمایا :اے چچا اپنے پدر بزرگوار اور اپنے بھائی (امام کاظم علیہ السلام)کی تکذیب نہ کرو ،چونکہ یہ امر تمام ہونے والا نہیں ہے ،تو اُس نے یہ بات قبول نہیں کی اور علی الاعلان مامون کے خلاف انقلاب برپا کر دیاکچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون کا لشکر جلو دی کی قیادت میں اس سے روبروہوا اُس نے امان مانگی تو جلو دی نے اس کو امان دیدی ،اور اس نے منبر پر جاکر خود کو اِس امر سے الگ کر تے ہوئے کہا :یہ امر مامون کے لئے ہے ۔ (٢٨)امام رضا (ع) نے برامکہ کی مصیبت کی خبر دی تھی ،جب یحییٰ برمکی ان کے پاس سے گزرا تو وہ رومال سے اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھا ۔امام (ع) نے فرمایا :یہ بیچارے کیا جانیں کہ اس سال میں کیا رونما ہونے والا ہے۔۔۔ اس کے بعد امام (ع) نے مزید فرمایا:مجھے اس بات پرتعجب ہے کہ یہ خیال کر تا ہے کہ میں اور ہارون اس طرح ہیں ، یہ فرماکر آپ (ع) نے اپنے بیچ اور انگو ٹھے کے پاس کی انگلی کو ایک دوسرے سے ملاکر اشارہ کیا۔ (٢٩)ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ جو کچھ امام (ع) نے فرمایا تھا وہ واقع ہوا ،یہاں تک کہ رشید نے برامکہ پر دردناک عذاب اور مصیبتیں ڈھائیں ،رشید نے خراسان میں وفات پائی اور بعدمیں امام رضا (ع) کواسی کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔یہ وہ بعض واقعات ہیں جن کی امام رضا (ع) نے خبر دی تھی اور ہم نے ایسے متعدد واقعات ”حیاةالامام رضا (ع)”میں ذکر کر دئے ہیں ۔آپ (ع) کی جود و سخامو رّخین نے آپ (ع) کی جود و سخا کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ یوں ہیں :١۔جب آپ (ع)خراسان میں تھے تو آپ(ع) اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کر دیا کر تے تھے ،عرفہ کا دن تھااور آپ (ع) کے پاس کچھ نہیں تھا ، فضل بن سہل نے اس پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا :یہ گھاٹے کا سودا ہے۔امام (ع) نے جواب میں فرمایا :”اس میں فائدہ ہے ،اس کو تم گھاٹا شمار نہ کروجس میں فائدہ نہ ہو”۔ (٣٠)اگر کو ئی شخص اجر الٰہی کی امید میں فقیروں کے لئے انفاق کر تا ہے تو یہ گھاٹا نہیں ہے، بلکہ گھاٹا تو وہ ہے کہ بادشاہوں اور وزیروں کے لئے ان کے سیاسی اورذاتی کاموں میں خرچ کیاجائے ۔٢۔ آپ (ع) کا ایک مشہور و معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ(ع) کی خدمت با برکت میں آکر عر ض کیا :میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے آباء و اجداد کا چا ہنے والا ہوں ،میں حج کر کے واپس آرہا ہوں ،میرے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور جو کچھ ہے بھی اس سے کچھ کام حل ہونے والا نہیں ہے، اگر آپ (ع) چا ہیں تو میں اپنے شہر واپس پلٹ جائوں، جب میرے پاس رقم ہو جا ئے گی تو میں اُس کو آپ (ع)کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، امام (ع) نے اُس کو بیٹھنے کا حکم دیا اور آپ (ع) لوگوں سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے جب وہ سب آپ (ع) سے رخصت ہو کر چلے گئے اور آپ (ع) کے پاس صرف سلیمان جعفری اور خادم رہ گئے تو امام اُن سے اجازت لیکر اپنے بیت الشرف میں تشریف لے گئے، اس کے بعد اوپر کے دروازے سے باہر آکر فرمایا : ”خراسانی کہاں ہے ؟”،جب وہ کھڑا ہوا تو امام (ع) نے اُس کو دو سو دینار دئے اور کہا کہ یہ تمھارے راستے کا خرچ اور نفقہ ہے اور اِ ن کو میری طرف سے صدقہ نہ دینا وہ شخص امام(ع) کی عطا کردہ نعمت سے مالا مال اور خوش ہو کر چلاگیا ۔ سلیمان نے امام(ع) کی خدمت میںیوں عرض کیا : میری جان آپ (ع) پر فدا ہو آپ (ع) نے احسان کیا اور صلۂ رحم کیا تو آپ (ع) نے اس سے اپنا رخ انور کیوں چھپایا ۔امام (ع) نے جواب میں فرمایا :”میں نے ایسا اس لئے کیا کہ میں سوال کرنے والے کے چہرہ میں ذلت کے آثاردیکھنا نہیں چا ہتا کہ میں اس کی حاجت روا ئی کر رہا ہوں ،کیا تم نے رسول خدا (ص) کا یہ فرمان نہیں سُنا کہ :چھُپ کر کی جانے والی نیکی ستّر حج کے برابر اورعلی الاعلان برائی انجام دینے والامتروک شمار ہوتاہو۔ کیا تم نے شاعر کا یہ شعر نہیں سنا :مَتیٰ آتہِ یَوماً لِاَطْلُبَ حَاجَةًرَجَعْتُ اِلیٰ أَھْلِْ وَوَجْھْ بِمَائِہِ (٣١)”جب میں ایک دن کسی حاجت کے لئے اس کے پاس آئوںتو میں اپنے اہل و عیال کے پاس پلٹا تو میری عزت اُن کی عزت سے وابستہ تھی ”۔قا رئین کرام کیاآپ نے امام رضا (ع) کی اس طرح انجام دی جانے والی نیکی ملاحظہ فر ما ئی ؟یہ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہے ۔٣۔ایک فقیر نے آپ کے پاس آکر عرض کیا :مجھے اپنی حیثیت کے مطابق عطا کر دیجئے ۔”لایسَعُنِیْ ذَلِکَ ۔۔۔”۔مجھ میںاتنی طاقت نہیں ہے ۔بیشک امام کی حیثیت کی کو ئی انتہا نہیں ہے ،امام کے پاس مال و دولت ہے ہی نہیں جو کسی اندازہ کے مطابق عطا کیا جائے ،فقیر نے اپنی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا :یعنی میری مروت کی مقدار کے مطابق۔۔۔امام (ع) نے مسکر اکر اس کی بات قبول کرتے ہوئے فرمایا :”ہاں اب ضرور عطا کیا جا ئے گا ۔۔۔” ۔پھر اس کو دو سو دینار دینے کا حکم صادر فر مایا ۔ (٣٢)یہ آپ (ع)کی سخاوت کے کچھ نمونے تھے ،اور ہم نے اِ ن میں سے کچھ نمونے اپنی کتاب حیاة الامام رضا (ع) میں بیان کر دئے ہیں ۔عبادتامام اللہ کی یاد میں منہمک رہتے اور خدا سے نزدیک کرنے والے ہر کام کو انجام دیتے تھے آپ (ع) کی حیات کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گزرا جو نور، تقویٰ اور ورع کا نمونہ تھا، آپ (ع) کے بعض اصحاب کا کہنا ہے : میں نے جب بھی آپ کو دیکھا تو قرآن کی یہ آیت یاد آگئی : (کَانُوا قَلِیلاً مِنْ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ )۔ (٣٣)”یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے ”۔شبراوی نے آپ(ع) کی عبادت کے متعلق کہا ہے :آپ(ع) وضو اور نماز والے تھے ،آپ ساری رات با وضو رہتے ،نماز پڑھتے اور شب بیداری کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جا تی ۔اور ہم نے آپ (ع)کی عبادت اور قنوت و سجود میں دعا کے متعلق اپنی کتاب ”امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کی سوانح حیات میں ”مفصل طور پر تذکرہ کر دیا ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.