علم رجال اور اُس کی اصطلاحات
علم رجال اور اُس کی اصطلاحات
بلال حسین جعفری
علم رجال کی تعریفعلم رجال وہ علم ہے کہ جس میں راویوں کے حالات پر بحث کی جاتی ہے اس جھت سے کہ ان کی روایت قبول کی جاسکتی ہے یا رد کی جائے متصف بہ صدق ہے یا کذب ۔علم رجا ل کی غرضراوی کو عادل وغیر عادل ،ممدوح یا غیر ممدوح ،مہمل یا مجہول ہونے کی حیثیت سے پہنچاننا تاکہ واضح ہوجائے اس کی روایت پر عمل کیا جاسکتاہے یا نہیں ۔علم رجال کا موضوعوہ راوی جو طریق حدیث میں واقع ہے، معتبر ہے یا غیر معتبر اس کے قول پر عمل کیا جاسکتاہے یا نہیں ۔علم رجال کے مسائلعلم بہ احوال اشخاص من حیث وثاقتہ وغیر وثاقتہ۔راوی کے حالات کاجاننا وثاقت وغیر وثاقت کے اعتبار سے۔علم رجال کی ضرورتعلمائے رجال نے علم رجال کی ضرورت پر کچھ ادلہ بیان کی ہیں ۔١۔حجیت قول ثقہ۔اس میں شک نہیں کہ ادلہ اربعہ کی دلالت اس بات پر ہے کہ بغیر علم کے عمل کرنا حرام ہے لھذا علم حاصل کیا جائے کہ فلاں راوی کی روایت صحیح ہے اور وہ راوی مورد اعتماد ہے تو پھر اس کا قول حجت ہے ورنہ حجت نہیں۔٢۔ صفات راوی کی طرف رجوع کیا جائے ۔٣۔ راویوں میں روایت گھڑنے والے اور کذاب راویوں کا احتمال ہے لھذا اخبار علاجیہ کے ذریعہ تحقیق کی جائے۔فرق علم رجال اور تراجمعلم رجال میں جوراوی روایت کی طریق میں واقع ہوتے ہیں ان کے حالات ثقہ وغیرثقہ ہونے کی حیثیت سے تحقیق کرتاہے ۔علم تراجم میں شخصیات کے عالم وغیر عالم ہونے پر بحث کی جاتی ہے البتہ کبھی کبھی یہ دو علم مل جاتے ہیں کہ فلاں راوی عالم ہے جیسے مرحوم کلینی وصدوق دوسرا فرق یہ کہ علم رجال کو مسلمانوں کے اعتبار سے مورد بحث قرار دیاجاتا ہے ۔علم تراجم مسلمان وغیر مسلمان ہونے یعنی ہردوکے لحاظ سے بحث کرتاہے ۔سب سے پہلے جس نے ان دوعلموں کو جدا کیا ہے وہ شیخ حر عاملی ہیںکہ اس پر کتاب قسم اہل رمل فی تراجم علم جبل عامل لکھی ہے ۔علم درایہ وعلم رجال میں فرقعلم رجال سند حدیث کی بحث کرتاہے اور علم درایہ متن حدیث میں یعنی علم رجال راوی کے ثقہ وغیر ثقہ کے بارے میں بحث کرتاہے ،اورعلم درایہ میں حدیث موثق وصحیح مورد بحث قرار پاتی ہیں۔فرق علم رجال وفہرستعلم رجال میںرجال کے طبقات پر بحث اس زمانے کے امام کے تابع ہونے کے لحاظ سے کی جاتی ہے یعنی ہر راوی کا طبقہ اس زمانے کے امام سے مربوط ہے جیسے پہلے حضرت رسول خدا ۖکے اصحاب پھر حضرت علی کے اصحاب ،اس پر جو کتب لکھی گئی ہیں اس کی مثال کتاب رجال شیخ طوسی رجال برقی،رجال کشی وغیرہ ہیں اور فہرست میں زمان راوی یا طبقات مورد توجہ نہیں ہوتے بلکہ بترتیب الفبا ء راویوں کی فہرست بیان کی جاتی ہے جیسے فہرست نجاشی جیسے الف سے ابراہیم ی تک جیسے یحیی ہے لکھی گئی ہے۔مذہب شیعہ میں علم رجال کا آغاز حضرت علی کے زمانہ سے ہوااور علمائے رجال حضرت علی کے اصحاب سے رجال کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جیسے عبیداللہ بن رافع کے حالات ثقہ ہونے کے اعتبار سے ۔البتہ کتب رجال، غیبت صغری کے بعد موجود ہیں لہذا ہم مصادر کی بحث میں ان کتب کا ذکرکریں گے کہ جو غیبت صغری میں لکھی گئی ہیں۔اس دور میں راویوں کے جرح وتعدیل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ،علم رجال کی طرف رجوع کرناہے تاریخ کی اس درازمدت میں علم رجال پر بہت کتب لکھی گئی ہیں، علامہ طہرانی نے کتاب مصنفی علم الرجال میں بیسیوں کتب کا تعارف کرایاہے یہاں پر ہم مصادر اولیہ وثانویہ کے بارے میںکچھ عرض کرتے ہیں:مصادر اولیہ علم رجالمصادر اولیہ میں سے جوپہلی کتب رجال ہیںوہ یہ ہیں ۔١۔ رجال کشی سب سے پہلی رجال کی کتاب ہے مرحوم کلینی ہمعصر تھے اور عیاشی کے شاگرد تھے اور شیخ مفید کے استاد تھے انہوں نے یہ کتاب طبقات کے اعتبار سے لکھی ان کی کتاب کی تہذیب شیخ طوسی نے کی کیونکہ اس کتاب میں کافی اغلاط تھیں اب جو کتاب موجود ہے مختصر رجال کشی ہے اس کتاب میں جرح وتعدیل نہیں کی گئی بلکہ روایات کو امام سے نقل کیاگیاہے اور راویوں کا سلسلہ ذکرکیاگیاہے ان کی ایک کتاب معرفة الناقلین عن ائمة الصادقین ہے بہرحال شیخ طوسی نے ان غلطیوں کو دور کرنے کے بعد نام بدل دیا اس کا نام اب ”اختیار معرفة الرجال” رکھاہے ۔اس کتاب میں راویوں کے نام ان کے طبقات کے لحاظ سے ذکر کیے ہیں اور ہر راوی کے نام کے ذیل میں ایک یا چند روایات نقل کی ہیں کہ جو اس راوی کے قابل مدح یا ذم پر دلالت کرتی ہیں۔٢۔ دوسرا مصدر فہرست نجاشی ہے! شیخ ابی العباس احمد بن علی بن احمد بن العباس مشہور نجاشی پیدائش ٣٧٢ ھ ق اور وفات ٤٥٠ ھ ق اس کتاب میں ١٢٦٩رجال شیعہ کا تذکرہ الفباء کی ترتیب سے ہے ۔اور اکثر راویوں کی جرح وتعدیل بھی ہے کیونکہ کتاب میں بہت زیادہ احتیاط کی گئی ہے یہ کتاب کثرت معلومات از جہت اوصاف راوی وانساب وخصوصیات راوی، کا بیان بتاتا ہے کہ انہوں نے فہرست شیخ طوسی کے بعد لکھی ہے لہذا فہرست طوسی بھی اس میں ہے ۔٣۔ ٤۔ تیسرا اور چوتھا مصدر! فہرست اور رجال طوسی، محمد بن الحسن ابوجعفر مشہور شیخ طوسی پیدائش ٣٨٥ھ ق وفات ٤٠٨ ھ ق ، خراسان سے بغداد کی طرف ہجرت کی شیخ مفید کے پاس درس پڑھا ہے شیخ مفید متوفی ٤١٣ ھ ق کے بعد تدریس شروع کی ان کی دو کتب فہرست اور رجال اس فرق کے ساتھ ہیں کہ فہرست ترتیب الفبا کیساتھ بغیر کسی جرح وتعدیل کے ہے اور رجال طبقات کی ترتیب کے ساتھ ہے پہلا طبقہ حضرت علی ـ کے اصحاب کو ذکر کیاہے کتاب فہرست میں نو سو(٩٠٠) راویوں کے نام ہیں ۔کتاب کے آخر میں ایک باب بعنوان” فیمن لم یرو عن الائمة ”ہے فہرست میں کل راوی نوسو( ٩٠٠) کا ذکر ان کی تالیفات کے ناموں کے ساتھ ہے ۔٥۔ پانچواں مصدر رجال برقی ہے تالیف احمد بن محمد خالد مشہور برقی پیدائش ٢٧٤ ھ ق متوفی ٣٨٠ ھ ق صاحب کتاب محاسن بعض لوگ کہتے ہیں یہ کتاب رجال شیخ طوسی سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے کیونکہ اصحاب ائمہ کے نام بغیر جرح وتعدیل کے ذکر کیے گئے ہیں۔ان کتب کو کتب خمسہ رجالی کہا جاتاہے ۔رجال کشی’ فہرست نجاشی’ رجال اور فہرست طوسی اور رجال برقی ، رجال برقی طبقات میں طبقات کا سلسلہ ذکر ہے کہ جو اصحاب رسول خدا ۖ سے لے کر اصحاب امام زمان تک ذکر ہے۔٦۔ چھٹا مصدر ۔رسالہ ابی غالب الذراری ہے کہ زرارہ بن اعین سے منسوب ہے کہ جو اولاد زرارہ سے ہے ان کا نام احمد بن محمدپیدائش ٢٨٥ ھ ق وفات ٣٦٨ ھ ق ،کنیت ابو غالب ہے ان کی قبر دامغان ،ایران میں ہے یہ کتاب مرحوم نے اپنے پوتے محمد بن عبد اللہ بن ابی غالب کے لیے لکھی ہے اس کتاب میں آل بکیر بن اعین کا تعارف کرایا ہے، تقریبا ایک سو دس(١١٠ ) کتب اور رسالوں کا ذکر ہے ۔٧۔ ساتواں مصدر۔ مشیخہ صدوق ہے کہ جو کتاب ”من لایحضر الفقٔیہ ” کے آخر میںد رج ہے تمام راویوں کا سلسلہ راویت اس مشیخہ میں ذکر ہے مرحوم صدوق پید ائش٣٠٦ ھ ق وفات ٣٨١ ھ ق ہے ۔٨۔ مشیخہ شیخ طوسی ہے جو کتاب تہذیب اور استبصار کے آخر میں ذکر کیاگیا ہے۔مصادر ثانویہ علم رجال١۔ قدیم ترین فہرست شیعہ، شیخ احمد بن حسین بن عبد اللہ غضائری کی ہے کہ جس میں کتب شیعہ اور راویوں کا ذکرہے اور یہ شیخ طوسی اور نجاشی کے معاصر اور ان کے استاد بھی تھے انہوں نے چارکتابیںلکھیں:١۔ فہرست مصنفات الاصحاب٢۔ فہرست اصول الاصحاب٣۔ الممدوحین٤۔ المذمومین یہ کسی کی توثیق کرنے میں بہت محتاط تھے کہ اکثر اصحاب ثقہ کو ضعیفقراردیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کاضعیف قراردینا کوئی مضر نہیں ۔٢۔ فہرست شیخ منتجب الدین یہ کتاب حافظ علی بن عبد اللہ رازی۔ابن حسن بن حسین بن حسن بن علی (٥٠٤۔٦٠٠ ہجری )کی تالیف ہے ان کی کتاب فہرست طوسی کی تکمیل کی غرض سے لکھی گئی یہ کتاب اگرچہ حجم کے لحاظ سے بہت کم ہے لیکن اہمیت کے اعتبار سے بڑابلند مقام رکھتی ہے ۔٣۔ معالم العلماء فی فہرس کتاب الشیعہ والاسماء المصنفین ،تالیف محمد بن علی بن شہر اشوب(٤٨٩۔ ٥٨٨ ہجری) انہوں نے یہ کتاب فہرست طوسی کی تکمیل کی غرض سے تحریر کی ہے اورایک سو بیالیس( ١٤٢) راویوں کا اضافہ کیا ہے ۔٤۔ رجال ابن دائود تقی الدین حسن بن دائود حلی ۔٥۔خلاصة الاقوال فی علم الرجال علامہ حلی حسن بن یوسف بن مطہر ۔جوامع الرجالیہ جو زمانہ متاخرہ میں لکھی گئیں۔١۔ مجمع الرجال ،ذکی الدین عنایة اللہ قھپائی کی کتاب ہے جو مقدس اردبیلی مرحوم کے شاگرد ہیں انہوں نے اس کتاب میں پانچ کتب مصادر اولیہ کو اس میں جمع کیا اور تحقیق کی ۔٢۔ منہج المقال فی علم الرجال ،مرحوم میرزا محمد بن علی بن استر آبادی متوفی ١٢٠٨ ھ ق یہ کتاب علم رجال کی تعریف اور اصطلاحات اور راویوں کے وثاقت پر بہت معتبر مانی جاتی ہے۔٣۔ نقد الرجال فی علم الرجال، سید مصطفی تفرشی متوفی ١٠١٥ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل الفباء کی ترتیب سے راویوں کے نام اور ان کے مختصرحالات زندگی پر لکھی گئی ہے ۔٤۔ منتہی المقال فی علم الرجال مرحوم ابی علی حائری ( ١٢٣٦۔ ١٣٢٧ہجری) یہ کتاب بھی چند جلدوں پر مشتمل ہے اس میں بھی ترتیب الفباء سے راویوں کے حالات زندگی اور وثاقت و ضعف راوی کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔جوامع رجالیہجو قدمائے رجال کے طریقے پر لکھی گئیں۔١۔ بہجة الامال فی علم الرجال ،مرحوم شیخ علیاری ۔٢۔ تنقیح المقال، شیخ عبد اللہ مامقانی متوفی ١٣٥١ ۔٣۔قاموس الرجال فی علم الرجال، شیخ محمد تقی تستری انہوں نے کتاب کے ابتداء میں تعلیقہ تنقیح المقال، علامہ مامقانی کی حیثیت سے لکھاہے ان کی بہت سی باتوں پر اشکال کیاہے اورتیرہ(١٣) جلدوں میں یہ کتاب ہے٤۔ جامع الرواةفی علم الرجال، شیخ محمد بن علی اردبیلی ،علامہ مجلسی کے شاگرد ہیں انہوں نے ایک جدت پیدا کی کہ راویوں کوحروف تہجی کی تر تیب کے ساتھ لکھا اور جرح وتعدیل کی اور تقریبا بیس سال میں یہ کام مکمل ہوا خصوصا راویوں کے طبقات اور ان کے حالات کے جمع کرنے پر اتنا بڑا عرصہ لگایا۔٥۔ معجم رجال الحدیث، مرحوم خوئی یہ کتاب اپنی جامعیت کے علاوہ جو امتیازی خصوصیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص کے حالات زندگی مفصل نقل کئے ہیں مثلا راوی اور مروی عنہ کے سلسلہ کو اچھے انداز میں تحقیق کے ساتھ ذکر کیا اوران کے اساتذہ کا ذکر بھی کیا جس سے راویوں کے تمام طبقات واضح ہوجاتے ہیں جس سے سند کی تحقیق کرنا آسان ہوجاتا اور مشترکات ِروات کا بھی پتہ چل جاتاہے۔معصومین کی کنیت جو روایات میں ذکر ہوئیںرسول خدا ۖ کی کنیت ابو القاسم یا خود حضرت کا نام آیاہے حضرت امیر المومنین کی کنیت ابو الحسن اول ہے امام حسن کو اکثر روایات میں ابو محمدسے یاد کیاجاتاہے امام حسین ـ کی کنیت دعائوں میں ابو عبد اللہ ، روایات میں، سید الشھداء ہے امام سجاد کا لقب زین العابدین ہے امام باقر کا کنیت ابو جعفر اور امام صادق کا ابو عبد اللہ آئی ہے، امام کاظم کی کنیت ابو ابراہیم ہے یا لقب عبد الصالح، امام رضا کو ابو الحسن ثانی سے یاد کیاگیاہے، امام تقی کی کنیت ابو جعفر ثانی امام ھادی کی کنیت ابو الحسن ثالث اور امام عسکری کی کنیت ابو محمد اور امام زمان کی کنیت رسول خدا کی کنیت پرہے۔راوی کی شرائط١۔ عقل ٢۔ بلوغ ٣۔ اسلام٤۔ ایمان، اکثر متاخرین کے نزدیک یہ شرط ضروری نہیں بلکہ وثاقت ہی کافی ہے یہی وجہ ہے کہ سکونی حفص بن غیاث، اہل سنت ، واقفیہ اور فطحیہ کی روایات کو موثق قراردیتے ہیں۔٥۔ عدالت ۔ایسا ملکہ جو نفس میں راسخ ہو جو تقوی کا لازمہ ہے اور گناہان صغیرہ وکبیرہ سے مانع ہے عدالت ان معنوں میں راوی کے لیے ضروری نہیں بلکہ موثق اور عدم کذب ہی کافی ہے جس کو اہل رجال ،عدالت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔٦۔ ضبط۔ یعنی راوی کا حافظہ قوی ہو، سہو ونسیان اور غلطی سے محفوظ ہو۔چند امور جو قبول روایت کے لیے راوی میں شرط نہیں١۔ مذکریعنی مرد،، ضروری نہیں بلکہ عورت بھی ہو تو کافی ہے جیساکہ بعض روایات بعض عورتوں سے منقول ہیں٢۔ آزاد اگر غلام بھی ہو تو روایت کرسکتاہے جیساکہ بعض روایات میں مولی فلاں کا ذکر ہے یعنی فلاں کا غلام٣۔ بینائی، اندھا راوی بھی قابل قبول ہے جیسے ابو بصیر۔٤۔ کتابت،بے سواد بھی راوی ہوسکتاہے اور ایسے راوی گزرے ہیں۔٥۔فقہ اور زبان عربی سے واقفیت ضروری نہیں٦۔ کتب اربعہ میں اس راوی کانام آیاہو یہ ضروری نہیںہےعدالت یا وثاقت ِراوی کی شناخت کے طریقے١۔ مروی عنہ کے ساتھ راوی کا اس قدر اٹھنا بیٹھنارہاہو کہ اس سے سمجھا جاسکے کہ راویمروی عنہ کی مراد اور مفہوم سے واقف ہے۔٢۔ راوی معروف ہو یعنی شہرت ومقبولیت راوی ،جیسے مرحوم کلینی اور مرحوم صدوق ۔٣۔ قرائن دلالت کریں جیسے کوئی مرجع یا فقیہء کا استاد ہے۔٤۔ علم رجال کے دو ماہر فن کی، گواہی راوی کی عدالت ووثاقت پر ہو۔٥۔ خود لوگوں میں مورد اعتماد ہو،اور اس کی بات پر لوگ اعتماد کرتے ہوں کسی بھی حوالے سے٦۔ وہ الفاظ جو کسی عدالت یاوثاقت کے لیے کسی معصوم سے راوی کے بارے میں نقلہوئے ہوںجیسے من اصحابنا وغیرہ۔تعارض وجرح وتعدیلجرح یعنی کسی کی طرف فسق کی نسبت دینا ،نسبت دینے والے کو جارح اور جس کی طرف نسبت دی گئی ہے اس کو مجرح کہاجاتاہے، اسی طرح تعدیل کی نسبت دینے والے کو معدل یا مذکی اور جس کی طرف دی گئی ہے اس کو عادل اور ذکی کہیں گے ۔علم رجال میں یہ بحث ہے کہ جار ح اور معدل میں سے کون مقدم ہے؟ اگر ایسا ہو تو بعض نے جارح کو اور بعض نے معدل کو مقدم کیا ہے لیکن درست قول یہ ہے کہ جس کی دلیل قوی اور متقن ہو وہ مقدم ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو دونوں کی دلیل کے بارے میں ادلہ اربعہ کی طرف رجوع کریں ورنہ رد کردیں۔وہ الفاظ جو راوی کے موثق وعادل ہونے پر دلالت کرتے ہیں١۔ ضابط ٢۔ عدل ٣۔ ثقة٤۔ ثقة فی الحدیث ٥۔ صحیح الحدیث ٦۔ فلاں حجة٧۔ ھو من مشایخ الاجازة ٨۔ من اجلاء الطائفة ٩۔ ثبت ضابط١٠۔ لاباس بہ ١١۔ مومن ١٢۔ من اہلبیتی١٣۔ ثقة ثقہ، تکرار لفظ اس کے موثق ہونے پر دال ہے ۔ ١٤۔ حافظ الحدیثیہ چند الفاظ رجال میں مروی عنہ سے راوی کے بارے میں استعمال کیے جاتے ہیں کہ جس سے اس کی روایت پر اعتماد کیاجاتاہے ۔وہ الفاط جو مذمت ،ضعف یا فسق پردلالت کرتے ہیں١۔ فاسق ٢۔ وضاع الحدیث ٣۔ یختلق الحدیث٤۔لیس بمرضی ٥۔ غال ٦۔ ناصب٧۔ کذاب ٨۔ فاسد العقیدة ٩۔ ملعون١٠۔ ساقط ١١۔ مستھم ١٢۔ متروک١٣۔ لیس بشئی ١٤۔ ضعیف١٥۔ مذاہب کسی کے فسق کو پہنچاننے کا طریقہ اس کا مذہب ہے رجال میں کثرت سے مذہب راوی کا تذکرہ آیاہے۔١صحابی کی تعریفالصحابی من لقی النبیۖمومنا بہ ومات علی الایمان٢لکن العرف یخصص ھذا الاسم بمن کثرت صحبتہ ٣اصحاب کی واحد صاحب یعنی ساتھی صحابی اسے کہتے ہیں کہ جس نے رسول خدا ۖ پر ایمان لایاہو اورحا لت ایمان پر مراہو ۔ لیکن عرف میں صحابی اسے کہتے ہیں کہ جوایک مدت تک رسول خدا ۖکے ساتھ رہاہو۔تابعینتابعی کی جمع تابعین ہے یعنی جس نے خود رسول ۖ کا دیدار نہ کیاہو بلکہ ان کے کسی صحابی کااسلام کی حالت میں ادراک کیاہو۔تبع تابعینجس نے کسی صحابی کو نہ دیکھا ہو بلکہ تابعین سے ملاقات کی ہو۔تابعین کے مراتب مختلف ہیں١۔ بڑے تابعین جسیے سعید بن مسیب٢۔ متوسط تابعین جیسے حسن بصری اور ابن سیرین٣۔ وہ لوگ جنہوں نے پہلے طبقہ سے روایت کی جیسے زہری اور قتادہ ٤مخضرم۔جس نے اسلام وجاہلیت کا زمانہ دیکھا ہو لیکن رسول خدا ۖسے صحبت کا شرف حاصل نہ ہوا جیسے حضرت اویس قرنیسند : احادیث کے راویوں کا سلسلہ کہ جنہوں نے متن حدیث کی خبر معصوم سے دی ہو۔متن: احادیث کے الفاظ کہ جس پر حدیث کا مفہوم صادق آئے ۔مسند: اصطلاح میں اس راوی کو کہاجاتاہے کہ جس نے راویوں کے سلسلہ کو نقل کیاہو۔محدث۔ اس راوی کو کہتے ہیں کہ جو حدیث کی اسناد کے سب راویوں کے حالات کو جانتاہواور سند کے ساتھ نقل کرے ۔حافظ: حافظ کا درجہ محدث سے بالاتر ہے کہ جو اتفاق واختلاف کے موارد اور راویوں کےطبقات وحالات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہومخرِج: جس نے حدیث کو اپنی کتاب میں مرجع حدیث کے ساتھ ذکر کیا ہومیر داماد فرماتے ہیں: کتب اصح سے محکم متن کے ساتھ استخراج کرےطبقہ: اس جماعت کو کہاجاتاہے کہ جو معمولا ہم عمرا ورہم عصر ہوں یا مشایخ کی ملاقات میںہم عمرا ورہم عصر ہو۔شیخ: استاد حدیث کو کہاجاتاہے کہ راوی اس سے حدیث یاد کرے اور کتب حدیث میںجہاں مطلق شیخ کا ذکر ہو اس سے مراد شیخ طوسی ہیں۔مشیخہ: محدث وصاحب کتاب کہ جس نے راویوں کے سلسلہ کو اپنی کتاب کے آخر میں ذکرکیاہو۔مولی: یہ لفظ سند حدیث میں کثرت کے ساتھ آیاہے مثلا مولی فلاں یہ لفظ تین معانی میںاستعمال ہواہے۔١۔ سید وسردار وآقا۔٢۔ غلام ۔٣۔ حلیف وہم پیمان ہو لیکن اکثر طور پر مولی سے مراد فلاں کا غلام ہی مراد ہوتاہے۔مملی: جو حدیث کو القاء کرے بیان کرے یعنی املاء لکھوائے۔مستملی: جو املائے حدیث کا اپنے استاد اور شیخ سے تقاضا کرے ۔معید: جو راوی حدیث کو اپنے استاد سے سن کر دوسروں کے لئے بیان کرے معمولا یہ اصطلاح یہ کلمہبرٰ مجالس ودروس پر اطلاق ہوتاہے کہ جہاں استاد کی آواز دوسروں تک نہیں پہنچ سکتی ایک یا چند افراد اس آواز کو پہنچانے میں سپیکر کاکام انجام دیتے ہیں جیسے غدیر خم میں پیغمبر اسلام ۖسے سن کر دوسروں تک اس پیغام کو پہنچایا تھا۔عدة: مشایخ حدیث کی ایک جماعت جن کے توسط سے حدیث نقل کی جائے جیسے مرحوم کلینی نے کتاب کافی میں فرمایا ہے: عدة من اصحابنا عن …معجم : حدیث خی کتاب جس میں روایات صحابہ وشیوخ کی ترتیب سے جمع آوری کی گئی ہومعمولا معجم احادیث کوحروف تہجی کی تر تیب سے بیان کیاجاتاہے جیسے معجم طبرانی احمد سے یونس تک راویوں کے نام ہیں۔نوادر: مرحوم وحید بھبھانی فرماتے ہیں:اس کتاب کوکہاجاتا ہے کہ جس میںمتفرقہ احادیث کی جمع آوری کی گئی ہوں لیکن بعض فاضل کہتے ہیں: معمولا روات کا تذکرہ معصوم تک ذکر ہو انہیں مخصوص واسطوں سے حدیث نقل کی گئی ہوں جیسے ثابت بن دینار کوفی، ابوحمزہ ثمالی کی مرتب کردہ دونوں کتب جہنوں نے امام زین العابدین کی مشہور اور اہم تالیف رسالہ حقوق کی حفاظت کا کارنامہ انجام دیا تھا ۔رجال وحدیث کے مصنفین کے نام کی بجائے رمز کاذکرشیخ صدوق(ق) شیخ طوسی(خ) فضل بن شاذان (فش) ابن عقدہ(عقد) ابن غضائری( غض)شہید ثانی (شہ) شیخ یوسف بحرانی (سف)سید بن طاووس(طس) الغیبة نعمانی(نی) سرائر ابن ادریس حلی( سر) بشارة المصطفی طبری(بشا) عیون ومحاسن شیخ مفید (عین) غررودرر سید مرتضی(غر) مصباح کفعمی (کف) البلد الامین کفعمی(لد) تفسیر فرات ابراہیم کوفی (فر) دائم الاسلام قاضی نعمان مصری (عا)پیغمبر اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے زمانے کے اصحاب کے لئے علم رجال میں رموز اصحاب پیغمبر ۖ (ل)اصحاب امیر المومنین (ی) اصحاب امام حسن ( ن) اصحاب امام حسین (سین) اصحاب امام زین العابدین (ین)اصحاب امام باقر (قر)اصحاب امام صادق (ق)اصحاب امام کاظم (ظم)اصحاب امام رضا (ضا)اصحاب امام تقی (ج) اصحاب امام ھادی النقی (دی)اصحاب امام عسکری (کر) وہ روات کہ جنہوں نے کسی معصوم سے روایت نقل نہیں کی(لم)کتب احادیث کے علم رجال میں رموزاصول کافی (کا)من لایحضر الفقیہ(یہ)تھذیب شیخ طوسی (یب)استبصار(صا) عیون اخبار الرضا (ن)علل الشرائع(ع)اکمال الدین(ک)توحید صدوق(ید)خصال صدوق(ل)الامالی صدوق(لی)ثواب الاعمال صدوق(ثو) معانی الاخبارصدوق(مع) قرب الاسناد حمیری(ب٩ بصائر الدرجات محمد بن حسن قمی(ئر) امالی طوسی(ما) غیبت طوسی(غط)مصباح المتہجد طوسی( مصبا)ارشاد حسن بن محمد دیلمی(شا) مجالس شیخ مفید (جا) اختصاص شیخ مفید (ختص)کامل الزیارات ابن قولیہ (مل) محاسن برقی(سن) تفسیر قمی (فس) ۔تفسیر عیاشی( شی) روضة الواعظین شیخ طبرسی(ضہ )اعلام الوری شیخ طبرسی(عم) مکارم الاخلاق طبرسی( مکا) مناقب شہر ابن آشوب( قب) کشف الغمہ علی بن عیسی اربلی( کشف) تحف العقول ابن شعبہ بحرانی (ف) تنبیہ ا لخواطر مجموعہ ورام(نبہ) نھج البلاغہ سید رضی( نہج) طب الائمہ ابو العباس مستغفری( طب)خرائج و جرائح قطب الدین رواندی(یج) طرائف سید بن طاووس( یف) جمال الاسبوع سید بن طاووس(جم) اقبال الاعمال سید بن طاووس(قل) مصباح الزائر سید بن طاووس(صبا)جامع الاخبار(جع)غوالی اللئالی ابن ابی جمہور احسائی(غو) کتاب لدعوات سید بن طاووس( مھج)رموز کتب اہل سنتصحیح بخاری( خ)صحیح مسلم( م) موطا ابن مالک(ط) جامع ترمذی( ت) سنن ابو داود( د) سنن نسائی( س) سنن ابن ماجہ( جہ)کتب رجال شیعہ کے رموزرجال کشی(کش )رجال نجاشی(جش) فہرست طوسی( ست) رجال طوسی( جخ)خلاصة الاقوال علامہ حلی (صہ) ایضاح الاشتباہ علامہ حلی( ضح)رجال برقی( قی)رجال ابن داود (د) فہرست ابن شہر آشوب( ب) فہرست منتجب الدین ( عہ) رجال عقیقی(عق) رجال کبیر یا رجال استر آبادی منھج المقال (ھج)۔تعلیقہ بھبھانی (تعق) امل الآمل شیخ حر عاملی( مل) مشترکات کاظمی ۔ہدایة المحدثین (مشکا) نقد الرجال تفرشی) (سف) مجمع الرجال قھپائی(مجمع) حاوی الاقوال جزائری (حاوی) خاتمہ مستدرک الوسائل حاجی نوری (خک) ٥کتب رجال کی طرف رجوع کرنے کاطریقہقدماء کی کتب رجال کا طریقہ مختلف ہے لیکن کتب متاخرین میں دیکھنے کا کرنے کا طریقہ آسان ہے، اور مختلف طریقوں پر کتب لکھی گئی ہیں کتب قدماء میں بعض اسامی کے اعتبار سے ہیں اور بعض طبقات کے اعتبار سے ہیں اور بعض حروف تہجی کی ترتیب سے ہیں ۔پہلا طریقہاگرچہ اکثر کتب متاخرین حروف تہجی کی ترتیب سے ہیں بعض کتب قدماء کی ترتیب ناقص ہے جیسے کتاب برقی وغیرہ جن کتب کی ترتیب اسامی کے اعتبار سے ہے جیسے رجال نجاشی ، فہرست طوسی میں ہر نام پر باب کا عنوان دیاگیاہے جسیے باب محمد، باب علی وغیرہ لیکن رجال طوسی میں مشترک عنوان ہے پھر جن کتب میں ترتیب ہے ان میں مشترک نام ہیں مثلا چارپانچ نام مشترک ہیں جیسے حسین بن سعید عن قاسم بن محمد بن علی عن ابی بصیر تو قاسم بن محمد کے نام پر چار نام ہیں۔ قاسم بن محمد خلقانی،قاسم بن محمد قیس ،قاسم بن محمد اصفہانی ،محمد بن قاسم جوہری ۔اسی طرح علی کے نام پر کتب رجال میں بہت سے نام ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں علی بن قاسم ہے یا علی بن فضال ہے یا علی بن محبوب ہے یا علی بن بلال ہے اسی طرح دیگر احتمالات مشترک اسامی میں محمد، علی ، حسن ،حسین وغیرہ ان اسامی میں تمیز دینا مشکل ہے متاخرین نے ایک طریقہ آسان بیان کیا ہے کہ اگر مشترک اسامی کو جدا کرنا چاہیں تو طبقات وزمان واستاد وشاگرد کی ترتیب سے ان کی تحقیق کریں تو ضرور اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے ۔اگر القاب وکنیت میں اشتراک ہو تو بھی طبقات وغیرہ کو دیکھیں کیونکہ متاخرین کی کتب کی ترتیب اس طرح ہے کہ پہلے اسماء پھر القاب پھر کنیت کا ذکر ہے لھذا اس طرح آپ راوی کے ثقہ یاغیر ثقہ ہونے کی تشخیص دے سکیں گے سہولت کیلیے اس طریقہ پر غور کریںاسامی اور القاب وکنیت کے ذریعہ تحقیق کریں۔دوسرا طریقہاسناد میں اسامی کودیکھیں اور پھر معصوم کے زمانے کو دیکھیں کہ یہ راوی کس زمانے میں تھا اور معصوم کا زمانہ اور راوی کا زمانہ ایک ہے یا مختلف اگر ایک ہے پھر اس راوی کے معاصر کون سے لوگ تھے کہ جن سے واسطہ کے ساتھ یہ نقل کررہاہے۔پھر اسی طرح کنیت والقاب کا بھی لحاظ کریں اس طرح مشترک اسامی کو ایک دوسرے سے جدا کرسکیں گے مثلا ایک سند میں ابو بصیر آیاہے وہ سند امام صادق سے ملتی ہے اس زمانہ میں چار نام کے ابو بصیر تھے یہ کون سا ابوبصیر ہے ؟ان کی کنیت والقاب کوجدا کرکے دیکھیں تو آخری تراجم میں ،ابوبصیر سے مراد ابوبصیر مرادی ہیں ان کی کنیت یحیی بن ابی القاسم ہے پھر متردد ہے کمیت بن بختری اور لیث بن مرادی میں اس طرح آپ دیکھیں امام کا صحابی کونسا مرادی یا بختری ہے؟ ا لبتہ بعض جگہوں پر اسامی مشترک میں تحریف ہے جیسے حسن اور حسین میں اور یزید اور برید میں تو یہاں مذکورہ بالا طریقہ تو کسی حد تک حقیقت کے قریب کردے گا ۔لیکن مشکل پھر بھی حل نہ ہوگی قدماء کی نسبت متاخرین نے آسان طریقہ ذکر کیا ہے اس کیلئے آیندہ محققین سے امید ہے کہ مزید تحقیق کریں تو شاید یہ مشکل بھی حل ہوجائے میری نظر میں وہی متاخرین کے طریقہ کے ساتھ اسامی ، کنیت اور القاب کے بعد بہترین طریقہ اس زمانے کے لوگوں کے اقوال ،روابط اور مذاہب کے لحاظ سے تحقیق کی جائے تو انشاء اللہ یہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔کتب رجال کی طرف رجوع کرنے کا فائدہ١۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ راویوں کی وثاقت وعدالت یا ضعف ومذہب معلوم ہوجاتاہے کیونکہ بعض میں اسامی ہیں بعض میں جرح وتعدیل ہے بعض میں وثاقت ومذہب کا ذکر ہے ۔٢۔ روایت کا اعتبار معلوم ہوجاتا ہے۔٣۔ راویوں کے حالات سے اس زمانے کے حالات، کسی حد تک معلوم ہوجاتے ہیں۔٤۔ اس زمانے کے مذاہب کا عروج وزوال معلوم ہوجاتاہے۔٥۔ اس زمانے کی ترقی یا روایات پر عمل کی نوعیت معلوم ہوجاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات١۔ علم الحدیث ودرایة الحدیث،کاظم شانہ چی دفتر انتشارات اسلامیہ وابستہجامع المدرسین قم ص١٨٥تا ٢٠٤سال چاپ١٣٥٤ ، عسقلانی ص٦٢۔ الاصابہ ص١٠٣۔ جامع الاصول جزری ج١ص ٧٤٤۔ تقریب التھذیب ابن حجر٥۔ علم الحدیث کاظم شانہ چی ص٢٤١، ٢٣٠