تربيت کے بارے ميں اسلام کا نظريہ

158

 
تربيت کے بارے ميں اسلام کا نظريہا سلام ،چونکہ ایک عالمی دین ہے اور ایک خاص جماعت اورایک معين زمان ومکان کو مدنظرنہيں رکهتا ہے ،اس لئے اس نے اپنی تعليم وتر بيت ميں “فطری انسان” کو مد نظر رکها ہے،یعنی اس نے اپنی نظر کو صرف انسانيت کی مخصوص بناوٹ پر متوجہ کيا ہے ،جس ميں ایکعادی اور عمومی انسان کے شرائط جمع ہو کرانسان کا مصداق بنتا ہے ،اس ميں کوئی فرقنہيں ہے کہ وہ عرب ہو یا عجم ،سياہ فام ہو یاسفيد فام ،فقير ہو یاامير،طاقتور ہو یا کمزور،عورتہو یا مرد،بوڑها ہو یا جوان اور دانا ہو یانادان ۔”فطری انسان “یعنی جو انسان خداداد فطرت کا مالک ہو اور اس کا شعوروارادہ پاک ہووتوہمات اور خرافات سے آلودہ نہ ہواہو،اسے ہم “فطری انسان کہتے ہيں”ا س ميں کسی قسم کا شک و شبہ نہيں کيا جاسکتا ہے کہ انسان کا دوسرے حيوانوںسے صرف یہ امتياز ہے کہ انسان اپنی طاقت سے مسلح ہے اورزندگی کی راہ طے کرنے ميں”عقل وشعور”سے کام ليتا ہے ،جبکہ دوسرے حيوانات اس خداداد نعمت سے محروم ہيں ۔ہ ر جاندار کی سر گرمی -بجز انسان کے -یک ایسے شعور ارادہ پر منحصر ہے کہ جسکا عامل صرف اس حيوان کے جذبات ہيں جو اپنے ظہور اور جوش سے اسے اس کے مقاصد کیطرف راہنمائی کرتے ہيں اور اسے فيصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہيں اور اس ارادہ کے نتيجہ ميں وہاپنی زندگی کی سر گرميوں کو بروئے کار لا کر آب و غذااور زندگی کی دوسری ضروریات کےپيچهے جاتا ہے ۔ی ہ صرف انسان ہے ،جو مہر ومحبت ،کينہ وعداوت دوستی ودشمنی اور خوف واميد کےشدید جوش وجذبہ اورجذب ودفع کے بارے ميں ہر قسم کے دوسرے جذبات کے علاوہ ایکعدالتی نظام سے بهی مسلح ہے ،جو مختلف جذ بات اور طاقتوں اور حقيقی مصلحتوں کےدرميان دعوی کی تحقيق کرکے عمل کی تشخيص دے کر اس کے مطابق فيصلہ دیتا ہے ۔کبهیجذبات کی شدید خواہش کے باوجود اس کے بر خلاف فيصلہ سناتا ہے اور کبهی قدرت اورجذبات کی کراہت کے باوجود حق ميں فيصلہ سناتا ہے اور انسان کو سر گرمی پر مجبور کرتا ہےاور کبهی ان جذبات اور طاقت کی مصلحتوں پر توا فق اور ان کی خواہش سے موافقت کا اعلانکرتا ہے ۔
اسلام ميں تعليم وتربيت کی بنيادا سی اصول پر کہ ہر نوع کی مکمل تر بيت اس نوع کی امتيازات اور مشخصات کی پرورش سے انجام پانی چاہئے ،اسلام نے اپنی تعليم وتربيت کی بنياد کو جذبات و احساسات کےبجائے “تعقل” کے اصول پر استوار کيا ہے ۔اسی لئے اسلام ميں دین کی دعوت، مقدس عقائدکے ایک سلسلہ ،اعلی اخلاق اور عملی قوانين کی طرف ہے،فطری انسان اپنی،بے لاگ اورتوہمات وخرافات سے خالی اپنی خداداد عقل سے، اسی کی حقيقت اور صحيح ہونے کی تائيدکرتا ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.