قرآن وسنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی خصوصیات و معنوی اثرات

310

قرآن وسنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی خصوصیات و معنوی اثرات
ہجری قمری سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام “روزہ” ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ البتہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے ہی مختص ہے۔ اسی لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے “شہرالاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ:ماہ مبارک رمضان کو “رمضان” کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟۔ اس سلسلے میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر قول اپنی جگہ ایک دلیل رکھتا ہے لیکن ہم یہاں ان اقوال میں جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اسی کے ذکر پر اکتفا کریں گے:۱۔ رمضان “رمض” سے ماخوذ ہے جس کے معنی “دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے” کے ہیں۔ اسی لئے جلتی ہوئی زمین کو “رمضا” کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔ یا یہ کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلا دیتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:”انما سمی رمضان لان رمضان یرمض الذنوب”۔[رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے]۱۔۲۔ یہ کہ رمضان “رمضی” سے ماخوذ ہے جس کے معنی “ایسا ابر و باراں ہے جو موسم گرما کے اخیر میں آئے اور گرمی کی تیزی کو دور کر دے”۔ رمضان کا مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا ہے اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔۳۔ رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو خداوند عالم کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے لہذا خدا کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے رمضان کہلاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہے:”لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئو و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان”۔[یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان]۲۔
روزہ گذشتہ امتوں میں:تفسیر نمونہ میں مفسرین نے لکھا ہے: “موجودہ تورات اور انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ روزہ یہود و نصاری میں بھی تھا جیسا کہ “قاموس کتاب مقدس” میں بھی ہے۔ روزہ ہر زمانے کی امتوں، گروہوں اور مذہب میں غم و اندوہ اور اچانک مصیبت کے موقع پر معمول تھا”۳۔تورات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے چالیس دن تک روزہ رکھا جیسا کہ لکھا ہے: “جب میں پہاڑ پر گیا تاکہ پتھر کی تختیاں یعنی وہ عہد والی تختیاں جو خدا نے تمہارے ساتھ منسلک کر دی ہیں حاصل کروں اس وقت میں پہاڑ میں چالیس راتوں تک رہا، وہاں میں نے نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا”۴۔ یہودی جب توبہ کرتے اور رضای الہی طلب کرتے تو روزہ رکھتے تھے۔ اکثر اوقات یہودی جب موقع پاتے کہ خدا کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور تواضع کا اظہار کریں تو روزہ رکھتے تاکہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے روزہ اور توبہ کے ذریعے حضرت اقدس
” روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ ”
الہی کی رضا و خوشنودی حاصل کریں۵۔ احتمال ہے کہ “روزہ اعظم با کفارہ” سال میں مخصوص ایک دن کیلئے ہو جس کا یہودیوں میں رواج تھا البتہ وہ دوسرے موقتی روزے بھی رکھتے تھے مثلاً شلیم کی بربادی کے وقت رکھا گیا روزہ وغیرہ۶۔ جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی چالیس دن روزے رکھے۔ “اس وقت عیسی قوت روح کے ساتھ بیابان میں لے جائے گئے تاکہ ابلیس انھیں آزمائے۔ پس انہوں نے چالیس شب و روز روزہ رکھا اور وہ بھوکے رہے”۷۔ انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے حواری بھی روزہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ انجیل میں ہے: “انہوں نے اس سے کہا کہ کیا بات ہے کہ یحیی کے شاگرد ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں جبکہ تمہارے شاگرد ہمیشہ کھاتے پیتے رہتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب داماد ان میں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس وقت روزہ رکھیں گے”۸۔ کتاب مقدس میں بھی ہے: “اس بنا پر حواریین اور گذشتہ زمانے کے مومنین کی زندگی انکار لذات، بے شمار زحمات اور روزہ داری سے بھری پڑی تھی”۹۔
قرآن اور ماہ مبارک رمضان:قرآن مجید کی آیات میں ماہ مبارک رمضان اور فریضہ روزہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
۱۔ روزے کی تشریع:قرآن مجید روزے کی تشریع اور وجوب کے بارے میں ایک آیت میں صراحت سے فرماتا ہے: “یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون”[اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو]۱۱۔
۲۔ روزے کے چند اہم مسئلے:”ایاماً معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھو لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون”[گنتی کے چند دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کر لے، اور اسکی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت حاصل کرے وہ اس کیلئے بہترین ہے، تمہارے حق میں بہترین کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم یہ جان سکو”۱۲۔اس آیت سے روزے کے جو چند احکام اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:الف: معین اور مخصوص ایام میں روزے کا واجب ہونا،ب: معذور افراد کیلئے روزے کی قضا،
۳۔ ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات:قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 185 میں اس ماہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:”شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدۃ ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لا یریدکم العسر و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون”[ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالی تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاو]۔اس آیت کریمہ میں ماہ مبارک رمضان میں روزوں کے وجوب کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اسی بنا پر اسے دوسرے مہینوں پر برتری حاصل ہے۔ سب سے پہلی خاصیت یہ ہے کہ قرآن، جو ہدایت اور انسانی رہبری کی کتاب ہے اور جس نے اپنے قوانین اور احکام کی صحیح روش کو غیرصحیح راستے سے جدا کر دیا ہے اور جو انسانی سعادت کا دستور لے کر آئی ہے، اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ روایات میں ہے کہ تمام عظِم آسمانی کتابیں جیسے تورات، انجیل، زبور، صحیفے اور قرآن مجید اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔
روایات معصومین علیھم السلام اور ماہ مبارک رمضان:
۱۔ روزے کی اہمیت:حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”بنی الاسلام علی خمس دعائم علی الصلوۃ و الزکوۃ و الصوم و الحج
” اس آیت سے روزے کے جو چند احکام اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں: الف: معین اور مخصوص ایام میں روزے کا واجب ہونا، ب: معذور افراد کیلئے روزے کی قضا، ”
و الولایۃ”۱۳۔[اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت]۔
۲۔ روزہ داروں کی فضیلت:حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”نوم الصائم عبادۃ و صمتہ تسبیح و عملہ متقبل و دعاءہ مستجاب عند الافطار دعوۃ لا ترد”۱۴۔ [روزے دار کی نیند عبادت اور اسکی خاموش تسبیح اور اسکا عمل قبول شدہ ہے، اسکی دعا مستجاب ہو گی اور افطار کے وقت اسکی دعا رد نہیں کی جائے گی]۔
۳۔ روزے کی حکمت:حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:”فرض اللہ الصیام تثبیتاً للاخلاص”۱۵[خداوند متعال نے روزے کو اس لئے واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اخلاص کو محکم کرے]۔
۴۔ روزہ بدن کی زکات:حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”لکل شی زکوۃ و زکوۃ الابدان الصیام”۱۶[ہر چیز کی زکات ہے اور انسانوں کے بدن کی زکات روزہ ہے]۔
۵۔ روزہ عبادت خالص:حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا:”الصوم عبادۃ بین العبد و خالقہ لا یطلع علیھا غیرہ و کذلک لا یجاری عنھا غیرہ”۱۷[روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا]۔
۶۔ روزہ آتش جہنم کی ڈھال:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”الا اخبرک بابواب الخیر؟ الصوم جنۃ من النار”۱۸[کیا میں تمہیں نیکی کے دروازوں کی خبر نہ دوں؟ اسکے بعد فرمایا: روزہ آتش جہنم کی ڈھال ہے]۔
۷۔ روزہ محبوب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”ان من الدنیا احب ثلاثۃ اشیاء الصوم فی الصیف و الضرب بالسیف و اکرام الضیف”۱۹[میں دنیا میں سے تین چیزوں سے محبت کرتا ہوں، موسم گرما کا روزہ، راہ خدا میں تلوار چلانا اور مہمان کا احترام کرنا]۔
۸۔ زندگی کی مشکلات میں روزے سے مدد حاصل کرنا:”و استعینوا فی الصبر و الصلوۃ” کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں: “الصبر الصوم اذا نزلت بالرجل الشدۃ او النازلۃ فلیصم”۲۰[آیہ شریفہ کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام سے منقول ہے: صبر سے مراد روزہ ہے، جب بھی زندگی میں تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو روزہ رکھو اور اس سے مدد طلب کرو]۔
۹۔ برترین روزہ:حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:”صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیر من صیام البطن”۲۱[دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے برتر ہے]۔
۱۰۔ حقیقی روزہ:مولای متقیان حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:””الصیام اجتناب المحارم کما یمتنع الرجل من الطعام و الشراب”۲۲[روزہ محرمات الہی سے پرہیز کا نام ہے جیسا کہ انسان کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے]۔
۱۱۔ بے ارزش روزہ:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:”لا صیام لمن عصی الامام و لا صیام لعبد ایق حتی یرجع و لا صیام لامراۃ ناشزۃ حتی تتوب و لا صیام لولد عاق حتی یبر”۲۳[چند لوگوں کا روزہ صحیح نہیں: جو شخص امام معصوم علیہ السلام کی نافرمانی کرے، وہ غلام جو اپنے آقا سے بھاگ جائے، وہ عورت جو اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کرے، وہ فرزند جو والدین کا عاق ہو مگر یہ کہ غام واپس آ جائے اور عورت توبہ کر لے اور فرزند نیک بن جائے]۔
۱۲۔ برترین اجر و ثواب:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:”الصوم لی و انا اجزی بہ”۲۴[روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا اجر و ثواب دوں گا]۔
۱۳۔ شیطان کے چہرے کا سیاہ ہونا:حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”الصوم یسود وجھہ الشیطان”۲۵[روزہ شیطان کے چہرے کو سیاہ کر دیتا ہے]۔
۱۴۔ روزہ اور تندرستی:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا سافروا تستغنوا”۲۶[جنگ و جہاد کرو اور غنیمت حاصل کرو، روزہ رکھو تاکہ سلامت رہو اور سفر کرو تاکہ بے نیاز اور غنی ہو جاو]۔
۱۵۔ روزہ اور مغفرت:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”یا جابر ھذا شھر رمضان من صام نھارہ و
” سب سے پہلی خاصیت یہ ہے کہ قرآن، جو ہدایت اور انسانی رہبری کی کتاب ہے اور جس نے اپنے قوانین اور احکام کی صحیح روش کو غیرصحیح راستے سے جدا کر دیا ہے اور جو انسانی سعادت کا دستور لے کر آئی ہے، اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ ”
قام وردا من لیلۃ و عف بطنہ و فرجہ و کف لسانہ خرج من ذنوبہ کخروجہ من الشھر فقال جابر یا رسول اللہ ما احسن ھذا الحدیث فقال رسول اللہ یا جابر و ما اشد ھذا الشروط”۲۷[اے جابر، یہ ماہ رمضان کا مہینہ ہے، جس نے اس ماہ میں روزہ رکھا، رات دعا اور عبادت میں گزاری، پیٹ اور شرم گاہ کی عفت کا خیال رکھا اور زبان کو قابو میں رکھا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے ماہ رمضان سے نکل گیا۔ جابر نے عرض کی یا رسول اللہ یہ حدیث کس قدر اچھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر ان شروط پر عمل کرنا اور انکی رعایت کرنا بھی کس قدر مشکل ہے]۔
۱۶۔ فقراء کے ساتھ ہمدردی:امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”انما فرض اللہ عزوجل لیستوی الغنی و الفقیر۔۔۔۔۔۔۔ و ان یذیق الغنی مس الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع”۲۸[خدا نے مسلمانوں پر روزہ واجب کیا ہے تاکہ فقیر اور غنی برابر ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔ اور خدا نے روزے کے ذریعے اغنیا کو بھوک و پیاس کی سختی اور درد کا ذائقہ چکھانے کا ارادہ کیا ہے تاکہ وہ ضعفاء اور بھوکے پیاسے لوگوں پر رحم کریں]۔
۱۷۔ روزہ اور شہوات نفسانی کا خاتمہ:امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔۔۔ فاالصوم یمیت مراد النفس و شھوۃ الطبع فیہ صفاء القلب و طھارۃ الجوارح و عمارۃ الظاھر و الباطن و الشکر علی النعم و الاحسان الی فقراء و زیادۃ التضرع و الخشوع و البکاء و حبل الالتجاء الی اللہ و سبب انکسار الشھوۃ و تخفیف الحساب و تضعیف الحسنات و فیہ من الفوائد ما لا یحصی”۲۹[رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ خواہشات نفسانی اور طبیعت کی شہوت کو کمزور کرتا ہے، قلب کی پاکیزگی، بدن کے اعضاء کی صفائی کا باعث بنتا ہے اور انسان کے ظاہر و باطن کو آباد کرتا ہے۔ نیز نعمت کے شکر، فقرا پر احسان، اور پروردگار کی بارگاہ میں تضرع اور خشوع اور گریہ و زاری کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح خدا کی محکم رسی سے تمسک اور شہوت کے ختم ہونے اور حساب کتاب میں تخفیف اور نیکی کے دو برابر ہونے کے علاوہ بے شمار حسنات و فوائد کا موجب بنتا ہے]۔
۱۸۔ ماہ مبارک رمضان کا بہترین عمل:جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کی فضیلت میں ایک خطبہ بیان فرما رہے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا: ماہ مبارک رمضان میں بہترین عمل کون سا ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:”یا اباالحسن افضل الاعمال فی ھذا الشھر الورع عن محارم اللہ”۳۰[اے ابوالحسن، اس ماہ مبارک میں بہترین عمل محرمات الہی کی نسبت ورع اور تقوی اختیار کرنا ہے]۔
ماہ مبارک رمضان اور صحیفہ سجادیہ:امام زین العابدین علیہ السلام “دعائے استقبال ماہ رمضان” میں اس ماہ مبارک کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنے لطف اور احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ اپنے مہینہ یعنی رمضان کے مبارک مہینے، صیام کے مہینے، اسلام کے مہینے، پاکیزگی کے مہینے، تصفیہ و تطہیر کے مہینے، عبادت و قیام کے مہینے کو قرار دیا ہے۔ وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کیلئے رہنما اور ہدایت ہے، ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن صداقتیں رکھتا ہے چنانچہ تمام مہینوں پر اس کی فضیلت اور برتری کو آشکارا کیا۔ ان فراوان عزتوں اور نمایاں فضیلتوں کی وجہ سے جو اس کیلئے قرار دیں اور اسکی عظمت کے اظہار کیلئے جو چیزیں دوسرے مہینوں میں جائز کی تھیں اس میں حرام کر دیں اور اس کیلئے احترام کے پیش نظر کھانے پینے کی چیزوں سے منع کر دیا اور ایک واضح زمانہ اس کیلئے معین کر دیا۔ خدائے بزرگ و برتر یہ اجازت نہیں دیتا کہ اسے اس سے موخر کر دیا جائے۔ پھر یہ کہ اس کی راتوں میں سے ایک رات کو ہزار مہینوں کی راتوں پر فضیلت دی اور اسکا نام “شب قدر” رکھ دیا۔ اس رات میں فرشتے اور روح القدس ہر اس امر کے ساتھ جو اسکا قطعی فیصلہ ہوتا ہے اسکے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے نازل ہوتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی کی رات ہے جسکی برکت طلوع فجر تک دائم و برقرار ہے۔ اے اللہ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکی آل علیھم السلام پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ہدایت فرما کہ ہم اس مہینہ کے فضل و شرف کو پہچانیں۔ اسکی عزت
” روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا ”
و حرمت کو بلند جانیں اور اس کے روزے رکھنے میں ہمارے اعضاء کو نافرمانیوں سے روکنے اور ان کاموں میں مصروف رکھنے جو تیری خوشنودی کا باعث ہیں ہماری اعانت فرما تاکہ ہم بیہودہ باتوں کی طرف کان نہ لگائیں، ممنوع چیزوں کی طرف پیش قدمی نہ کریں، تیری حلال کی ہوئی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو ہمارے پیٹ قبول نہ کریں، تیری بیان کی ہوئی باتوں کے سوا ہماری زبانیں گویا نہ ہوں۔ صرف ان چیزوں کے بجا لانے کا بار اٹھائیں جو تیرے ثواب سے قریب کریں اور صرف ان کاموں کو انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچائیں”۳۱۔
روزے کے معنوی اثرات:۱۔ تربیتی اور اجتماعی اثرات:وجود انسانی میں روزے کے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اس کا اخلاقی پہلو اور تربیتی فلسفہ ہے۔ روح انسانی کو لطیف تر بنانا، انسان کے ارادے کو قوی کرنا اور انسانی مزاج میں اعتدال پیدا کرنا روزے کے اہم فوائد میں سے ہے۔ روزے دار کیلئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اسکے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اسکے قبضے میں ہے اور ہوا و ہوس اور شہوات و خواہشات اسکے کنٹرول میں ہیں۔حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔ وہ انسان جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہیں جب اسے بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ انکے پیچھے جاتا ہے۔ وہ درخت جو باغ میں نہر کے کنارے اگے ہوتے ہیں نازپروردہ ہوتے ہیں۔ وہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کر سکتے ہیں۔ ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر انہیں چند دن پانی نہ ملے تو پژمردہ ہو کر خشک ہو جائیں جبکہ وہ درخت جو پتھروں کے درمیان پہاڑوں اور بیابانوں میں اگتے ہیں انکی شاخیں شروع سے سخت طوفانوں، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریبان رہتی ہیں۔ ایسے درخت ہمیشہ مضبوط، سخت کوش اور سخت جان ہوتے ہیں۔روزہ بھی انسان کی روح اور جان کے ساتھ یہی عمل کرتا ہے۔ روزہ وقتی پابندیوں کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلے میں طاقت بخشتا ہے۔ چونکہ روزہ سرکش طبائع و جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہذا اسکے ذریعے انسان کے دل پر نور ضیاء کی بارش ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانات سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ “لعلکم تتقون” ان تمام مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کیلئے ڈھال ہے۔نہج البلاغہ میں عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام روزے کے بارے میں فرماتے ہیں:”والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق”۳۲[اللہ تعالی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو]۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:”ان للجنۃ باباً یدعی الریان لا یدخل منھا الا الصائمون”۳۳[بہشت کا ایک دروازہ ہے جسکا نام ریان یعنی سیراب کرنے والا ہے۔ اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے]۔
۲۔ روزے کے معاشرتی اثرات:روزہ انسانی معاشرے کیلئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور محروم افراد کی حالت زار کا احساس کر سکتے ہیں اور انکی مدد کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کر کے خداوند عالم صاحب قدرت لوگوں کو انکی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہو اور اگر یہ معاملہ حسی اور عینی پہلو اختیار کر جائے تو اسکا دوسرا اثر ہو۔ روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے۔ ایک مشہور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:”انما فرض اللہ الصیام لیستوی بہ الغنی و الفقیر ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مس الجوع فیرحم الفقیر و ان الغنی کلما اراد شیئا قدر علیہ فاراد اللہ
” دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے برتر ہے ”
تعالی ان یسوی بین خلقہ و ان یذیق الغنی من الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع”۳۴[اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں انکے لئے فراہم ہوتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اسکے بندوں کے درمیان مساوات ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و رنج کا ذائقہ چکھائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں]۔
۳۔ روزے کے طبی اثرات:طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک [کھانے پینے سے پرہیز] بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مشروح تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا لہذا مزاحم اور مجتمع چربیاں پیدا ہوتی ہیں یا اضافی شوگر کا باعث بنتا ہے۔ عضلات کا یہ اضافی مواد درحقیقت بدن میں ایک متعفن بیماری کے جراثیم کی پرورش کیلئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔ روزہ ان اضافی غلاضتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا دیتا ہے۔ درحقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس سے ہاضمے کی مشینری کی سروس ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسانی بدن کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے لہذا اس کیلئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ احکام اسلامی کی رو سے روزے دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جا سکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتا ہے: “روزہ ان بیماریوں کے علاج کیلئے خاص طور پر مفید ہے جو خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ [Appendicitis]، خارجی و داخلی قدیم پھوڑے، تپ دق، ٹی بی، اسکلیروز، نقرس، استسقار، جوڑوں کا درد، نوراستنی، عرق النساء، خراز، امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گردہ، امراض جگر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو انسانی بدن کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوتی ہیں مثلاً سرطان، سفلین اور طاعون وغیرہ کیلئے بھی شفا بخش ہے۔
حوالہ جات:۱۔ تفسیر نور، جلد 1، صفحہ 370،۲۔ ترجمہ و حواشی صحیفہ کاملہ، مفتی جعفر حسین، صفحہ 320،۳۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 42۷،۴۔ تورات، سفر تشینہ، فصل 9، شمارہ 9،۵۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،۶۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،۷۔ انجیل متی، باب 4، شمارہ 1 و 2،۸۔ انجیل لوقا، باب 5، شمارہ 33-35،۹۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،۱۰۔ تفسیر نمونہ، جلد 1، صفحہ 446،۱۱۔ سورہ بقرہ، آیت 183،۱۲۔ سورہ بقرہ، آیت 184،۱۳۔ بحار، جلد 76، صفحہ 257،۱۴۔ بحار، جلد 96، صفحہ 253،۱۵۔ بحار، جلد 96، صفحہ 368،۱۶۔ بحار، جلد 96، صفحہ 246،۱۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد 20، صفحہ 296،۱۸۔ روضۃ المتقین، جلد 3، صفحہ 228،۱۹۔ مواعظ العددیہ، صفحہ 76،۲۰۔ بحار، جلد 96، صفحہ 254،۲۱۔ غررالحکم، جلد 1، صفحہ 417،۲۲۔ بحار، جلد 96، صفحہ 294،۲۳۔ بحار، جلد 96، صفحہ 294،۲۴۔ روضۃ المتقین، جلد 3، صفحہ 225،۲۵۔ روضۃ المتقین، جلد 3، صفحہ 227،۲۶۔ بحار، جلد 62، صفحہ 294،۲۷۔ فروع کافی، جلد 4، صفحہ 87،۲۸۔ وسائل الشیعہ، جلد 7، صفحہ 3،۲۹۔ بحار، جلد 96، صفحہ 254،۳۰۔ وسائل الشیعہ، جلد 10، صفحہ 30،۳۱۔ صحیفہ کاملہ ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین، دعائے استقبال ماہ رمضان،۳۲۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر 252،۳۳۔ ترجمہ تفسیر نمونہ، جلد 1، صفحہ 443،۳۴۔ وسائل الشیعہ، جلد 7، باب اول
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.