كلیسا كے جرائم
چونكہ عیسائیت كے پاس معاشرے كی تربیت وادارات كے لئے كوئی اصول و قوانین اور نہ ہی كوئی خاص سسٹم تھا، اس لحاظ سے یہ لوگ محروم و فقیر تھے اور یہی وجہ ہے كہ مذہبی رہنما كبھی بھی سیاسی، اجتماعی اور حكومت كے مسائل میں دخل نہیں دیتے تھے ۔ چھٹی صدی عیسوی تك یہی صورت برقرار تھی لیكن 756 ء میں قیصر نےجب اپنے اختیارات كا كچھ حصہ پوپ كے حوالے كردیا تو اسی وقت سے پادریوں كی سلطنت و حكومت، رعب و جلال كا دور شروع ہوا، اور ان كی مذہبی دستگاہ بھی مالی واقتصادی لحاظ سے قوی و مضبوط ہوئی اور پھر ارباب مذہب وسیاست میں اختلاف كا ہونا امر ناگزیر ہوگیا۔ اور بادشاہوں اور پادریوں كے درمیان ٹھن گئی ۔اب جو لوگ روحانیت مسیح كا مظہر كلیسا كو سمجھتے تھے وہ پادریوں كے ہوا خواہ ہوگئے اور ان كی پشت پناہی كرنے لگے (اور ایسے لوگ زیادہ تھے) نتیجہ یہ ہوا كہ دن بدن دستگاہ كلیسا كا اثر و نفوذ بڑھنے لگا یہاں تك كہ كلیسا بلا شركت غیرے مرد مان یورپ پر مطلق العنان حاكم بن گیا ۔نصرانیت كے مذہبی وسیع اختلاف سے پہلے ہر مسیحی شہر پر ایك اسقف (پادری حكومت كرتا تھا) اور چند شہروں كے اجتماع كا نام ولایت ہوتا تھا اور اس كا عہدے دار خلیفہ كہلاتا تھااور ریاست نصرانیت كا سب سے بڑا حاكم پوپ ہوتا تھا، تمام مذہبی امور میں اسی كو دخل كلی ہوتا تھا، اسقفوں اور خلفاء كا عزل و نصب بھی اس كے ہاتھ میں ہوتا تھا ۔ رفتہ رفتہ قسطنطنیہ كے مسیحی خلفاء یہ سوچنے لگے كہ پوپ كے اثر و نفوذ سے اپنے كو الگ كرلیں اور اپنے لئے ایك مستقل حوزہ بنالیں ۔خلفاء قسطنطنیہ اور پوپ كے دومیان چند شدید اختلاف كا نتیجہ یہ ہوا كہ 1052 ء میں ان كے درمیان اختلاف كلی ہوگیا اور اس طرح مسیحیت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ مشرقی یورپ قسطنطنیہ كی روحانیت كا تابع ہوگیا اور اپنے كو آرتھو ڈوكس كہلانے لگا اور مغربی یورپ لہستان سے لے كر اسپین تك پوپ ہی كی اطاعت میں باقی رہا اور یہ لوگ اپنے كو كیتھولك كہلانے لگے ۔ یہ دونوں مذہب جو آپس میں كلی اختلاف ركھتے تھے ایك دوسرے كے كفر كا فتوی دینے لگے ۔ سولھویں صدی كے اوائل میں پروٹیسٹنٹ نامی ایك مزید مذہب پیدا ہوا ۔ اس مذہب كے بانی لوتھر اور اس كے رفقاء كار نے جنت فروشی اور بخشش گناہ جیسے مسائل پر پوپ كی مخالفت كاپرچم بلند كردیا ۔ان لوگوں كا مقصد یہ تھا كہ كلیسا كو تمام برائیوں سے پاك كیا جائے لوتھر كے طرف داروں كی كثرت ہوگئی اور ان تمام انقلابات كا نتیجہ یہ ہوا كہ حضرت مسیح كا سیدھا سادا مذہب تین مختلف شعبوں میں بٹ گیا ۔پوپ كی تمام ترقوت و قدرت كے باوجود بارہویں، تیرہویں صدی میں پوپ كے بدعتوں كادور دورہ ہوگیا اور ایسی عقائدی ترقیاں جوپوپ كی نظرمیں مردود تھیں وہ پوپ اور كاتولیكیوں كے لئے باعث تشویش ہوگئیں ۔ نتیجتا 1215 ء میں اس كی بدعتوں كو روكنے كے لئے پوپ كی طرف سے ایك فرمان جاری ہوا اور اس فرمان كے بموجب فرانس، اٹلی، اسپین، جرمنی، لہستان اور دیگر مسیحی ملكوں كے ہر شہر میں ایك ادارہ بنام ” انگیزیسیوں ” قائم كیا گیا جس میں متھم افراد كو بلوا كر ان پر مقدمہ چلانے كے سزا دی جاتی تھی ۔یہ ادارہ اور اس كے لعنتی افراد اپنی اہرمنی قدرت كے زعم میں ہر قسم كی آزاد خیالی پر پابندی لگاتے تھے، انھوں نے رائے عامہ میں اتنا اضطراب پیدا كردیا تھا اگر كوئی متہم ہوجاتا كہ اس كے عقائد كلیسا كے افكار و عقائد كے خلاف ہیں تو جہنمی شكنجوں میں اس كو كس دیا جاتا تھا ۔ حدیہ ہوگئی تھی كہ اگر كبھی مردہ لوگوں پر بھی كفر و الحاد كا اتہام لگا دیا جاتا تھا تو مخصوص طریقے سے ان كی ہڈیوں كے صندوق پر محاكمہ كیا جاتا ” ویل ڈورانٹ ” اپنی تاریخ تمدن میں محاكمہ تفتیش كے خصوصیات اس طرح بیان كرتا ہے، محكمہ تفتیش دادرسی كے مخصوص آئین و قوانین ركھتا تھا، كسی بھی شہر میں دیوان محاكمات قائم كرنے سے پہلے كلیسا منبروں سے “فرمان ایمان” لوگوں كو سنایا جاتا تھااور ان سے كہا جاتا تھا كہ اگر كوئی شخص كسی ملحد، بے دین، بدعتی كاسراغ ركھتا ہوتو “محكمہ تفتیش” كو مطلع كردے ۔ ان لوگوں كو دوستوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں كی چغل خوری اور اتہام پرآمادہ كیا جاتا تھا ۔ ان كو تشویق اور ترغیب دی جاتی تھی ۔ چغل خوری كی مكمل حمایت كے وعدے كے ساتھ ساتھ ان كی بات كو راز میں ركھنے كا وعدہ كیاجاتا تھا ۔ جوشخص كسی ملحد كو پہچاننے كے بعد اس كو رسوا نہ كرے یا اپنے گھر میں چھپا لے خود وہ شخص ملعون و كافر اورقابل نفرین قرار دیا جاتا تھا ۔ كبھی مردے بھی متہم بكفروالحاد ہوتے تھے توان كا مخصوص طریقے سے محاكمہ كیا جاتا تھا ۔ان كی جائداد ضبط كرلی جاتی تھی، ان كے ورثاء محروم قرار دے دئے جاتے تھے، مردے كے كفر و الحاد كی خبر دینے والے كو میت كے مال كا 35 سے لے كر 50 فیصد تك وارث بنادیا جاتا تھا، مختلف مقامات پر اور مختلف زمانوں میں شكنجہ كا طریقہ بھی مختلف تھا، كبھی ملزم كے ہاتھوں كو پشت پر باندھ كر لٹكا دیا جاتا تھا اور كبھی اس طرح باندھ دیاجاتا تھا كہ حركت كرنا ممكن نہ ہو ۔اور پھر اس كے گلے میں اتنا پانی ٹپكایا جاتا تھا كہ اس كا دم گھٹ جاتا تھا كبھی بازوؤں اور پنڈلیوں كو رسیوں سے اتنا مضبوط كس كر باندھ دیا جاتا تھا كہ رسیاں گوشت میں پیوست ہوجاتی تھیں ۔یورپ میں مسیحی مذہبی مقامات كا اثر نفوظ اتنا بڑھ گیا كہ جرمنی و فرانس كے دس سے زیادہ بادشاہ اور سیاسی لیڈروں پر پوپ كے ذریعے كفر كا فتوی صادر كیا گیا اور حاكموں كو معزول كیا گیا ۔ كچھ كو تائب ہونا پڑا، مثلا جرمنی كے ہنری چہارم كو 1075 ء میں پوپ كے حكم سے بے اعتنائی برتنے پرگریگوری ہفتم كی طرف سے كافر قرادیا گیا ۔ اور اس كو حكومت سے معزول كردیا گیا مجبورا ہنری توبہ كرنے والوں كا لباس پہن كر پوپ كی خدمت میں معذرت كے لئے حاضر ہوا ۔ پوپ نے تین دن تك اس كو ملنے كی اجازت نہیں دی تین دن كے بعد اس كی توبہ كو قبول كیا ۔اسی طرح لوئی ہفتم كو پوپ “اینوسینٹ دوم كی طرف سے 1140 ء میں كافر قرار دیا گیا 1205 ء میں بادشاہ انگلستان” جان ” اور پوپ “اینوسیٹ دوم” كے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، بادشاہ نے اسقفوں پر حملہ كیا اور پوپ نے اس كے كفر كا فتوی دے دیا ۔ كچھ مدت بھی نہ گذرنے پائی تھی كہ پادشاہ نے مجبور ہوكر ایك اعلان كیا مجھے غیبی فرشتے نے خبر دی ہے كہ انگلستان و آئر لینڈ كو ” عیسی اور ان كے حواریین ہمارے ولی نعمت پوپ “اینوسینٹ” اور كاتولیك كے جانشینوں كے سپرد كردوں ۔ اس كے بعد ممالك مذكورہ پوپ كی نیابت میں ہمارے پاس رہیں گے اور ہم ان كے نائب ہوں گے اور ہم نے یہ طے كیا ہے كہ روحانیت روم كو ہرسال دوقسطوں میں ایك ہزار انگریزی چاندی كا پاؤنڈ دیا كریں گے اگر میں یامیری اولاد میں سے كوئی اس اقرار نامے كی مخالفت كرے تو وہ حق سلطنت سے محروم ہوجائے گا ۔مارسل لكھتا ہے كہ آزاد خیال اور پوپ كی حكم عدولی كے جرم میں پانچ ملیون اشخاص كو سولی پرچڑھادیا گیا ۔ ان كو سرحد مرگ تك پہونچنے سے پہلے مرطوب و تاریك گڑھوں میں بند كریدیا جاتا تھا ۔ 1481 ء سے پہلے 1499 ء تك یعنی 18 سال كے اندر اندر محكمہ تفتیش كے حكم پر 1020 آدمیوں كو زندہ جلادیا گیا ۔ 6860 آدمیوں كو دوٹكڑے كردیا گیا ۔ 97023 آدمیوں كو شكنجوں میں ا تنا كسا گیا كہ آخر كار ان كی روح قفس عنصری سے پرواز كرگئی ۔قرون وسطی میں “محكمہ تفتیش عقائد” كے حكم پر تین لاكھ پچاس ہزار دانشمندوں و مفكرین كو زندہ جلادیا گیا ۔وكٹر ہیوكو فرانس كا مشہور شاعر ورائٹر ارباب كلیسا و محكم تفتیش عقائد پر اس طرح نقد و تبصرہ كرتا ہے ۔ تاریخ ترقی بشر میں حیات كلیسا كو نہیں شمار كرنا چاہئے بلكہ اس كو صفحات تاریخ كے پس پشت قرار دینا چاہئے، كلیسا وہی تو ہے جس نے محض اس باپ كہ ستارے اپنی جگہ سے نہیں گرتے، پارنیلی كو تازیانے مار مار كر زخمی كردیا تھا اور كامپلاند كو صرف اس كے اس عقیدے كی بناء پر كہ اس دنیا كے علاوہ بے شمار اور دنیا میں بھی ہیں، ستائیس مرتبہ جیل بھیجا اور شكنجوں میں كسا، اور ہاروے كو محض اس بات پر شكنجے میں كسا كہ وہ بے چارہ یہ كہتا تھا كہ انسان كی رگوں میں خون حركت كرتا ہے جامد خون زندہ رگوں میں نہیں رہ سكتا اور گیلیلیوں كو توریت و انجیل كے بر خلاف حركت زمین كے عقیدے پر جیل بھیج دیا تھا ۔ یہ كلیسا وہی تو ہے جس نے كرسفر كولمبس كو ایك ایسے مسئلے پر جس كی پیش بینی ” سینٹ پال ” نے توریت وانجیل میں نہیں كی تھی جیل كی كال كوٹھری میں بندكردیا تھا، كیونكہ قانون آسمان كا كشف اور حركت زمین كا عقیدہ لامذہبیت كی علامت تھی ۔ ایسی بات كہنا جو خلاف مشہور ہو كلیسا دشمنی سمجھا جاتا تھا، یہ كلیسا وہی تو ہے جس نے پاسكال كو مذہب كے نام پر (مونٹی) كو اخلاق كے نام پر (مولر) كو مذہب اور اخلاق كے نام پر كافر قرار دیدیا تھا ۔كلیسا نے اپنے اثرات كا استعمال مسلمانوں كے خلاف بھی خوب خوب كیا ۔نجات بیت المقدس كے بہانے كشتوں كے پشتے لكادئے ۔ 1095 ء سے 1270 ء تك مسلمانوں كے خلاف صلیبی جنگ لڑی گئی ان صلیبی جنگوں كی بنیاد پوپ اور راہبوں كی كینہ توزی اور تعصب تھی ان لوگوں نے دھوكا دہی كے ذریعے پوپ كے لوگوں كو مسلمانوں كے خلاف ابھارا تھا صلیبی جنگوں كے شروع ہونے سے پہلے (اربن دوم) پوپ نے راہبوں اور مذہبی پیشواؤں كی ایك انجمن بنائی تھی اسی انجمن میں مسلمانوں سے جنگ كا حتمی فیصلہ كیاگیا تھا پوپ نے تمام اسقفوں و راہبوں كویہ حكم دیا تھا كہ لوگوں كو مسلمانوں سے جنگ كرنے پر ورغلائیں اور خود بھی فرانس میں اپنے ماننے والوں كوجنگ پر آمادہ كرتا رہا ۔ بیت المقدس پر قبضہ كرنےكے لئے پہلا عظیم لشكر ایك ملیون آدمیوں پر مشتمل تھا، یہ آدمیوں كا سیلاب جب چلاہے تو معلوم ہوتا تھا كہ پورا یورپ ایشیا كی طرف متحرك ہے پہلی منزل سے لوگوں كو غارت كرنا، دریا برد كرنا، آگ میں جلانا، مثلہ كرنا شروع كردیا تھا ۔ فوجی وغیر فوجی كا كیا سوال بچوں اور عورتوں كو تہہ تیغ كردیتے تھے تین سال كے بعد 1099 ء میں بیت المقدس پر قبضہ كرلیا ۔ حالانكہ اس كامیابی میں ان كو بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا، كیونكہ ایك ملیون لشكر میں سے صرف بیس ہزار افراد بچے تھے اور لاكھوں آدمی طاعون، بیماری، اور غیر مسلموں كے ہاتھ سے تباہ و برباد ہوگئے تھے، اس مذہبی لشكر كے وحشیانہ پن سے اطلاع كی خاطر میں اپنے محترم قارئین كے سامنے فرانس كے مشہور مورخ “گوسٹاوی لوبون” كی عین عبارت كا ترجمہ پیش كرتا ہوں، صلیبی مجاہدین كی بداعمالی و بدكرداری نے جو ان تمام حملوں میں ظاہرہوئی ان كو روئے زمین كے وحشی ترین، بے شعور ترین، اور درندہ ترین صفت كے لوگوں كی صفت میں لا كھڑا كردیا یہ نام نہاد مجاہدین اپنے ہم سوگندوں، دشمنوں، بیگناہ رعایا، لشكریوں، عورتوں بچوں، جوانوں كے ساتھ یكساں ظلم كرتے تھے اور بلاكسی تفریق كے سب كو قتل و غارت كرتے تھے، (رابرٹ) پادری جس نے چشم دید حالات بیان كئے ہیں وہ كہتا ہے ۔!ہمارا لشكر گزرگاہوں، میدانوں، كوٹھوں پر مسلسل گشت و حركت كرتا تھا اور قتل عام سے اس كو ایسی لذت ملتی تھی جیسے اس شیرنی كو قتل كرنے میں ملتی ہے جس كے بچے كو كوئی اٹھالے گیا ہو، ہمارا لشكر جوان و بوڑھے كے قتل میں كوئی فرق نہیں كرتا تھا، اپنی سہولت كی خاطر كئی كئی آدمیوں كو ایك رسی میں باندھ كر سولی پر لٹكا دیتا تھا، ہمارے لشكری ہر اس شخص كو قتل كردیتے تھے جو ان كے سامنے پڑ جاتا، مردہ لوگوں كا پیٹ چاك كردیتے تھے، زر و جواہر كا پتہ جہاں بھی چل جاتا تھا اس كو ڈھونڈنكالتے تھے یہاں تك كہ “بوہمانڈ” جو سردار تھا اس نے قصر میں جمع شدہ لوگوں كو حاضر كرنے كا حكم دیا، پھر عورت، مرد، بڈھے، ناتواں، بیكار قسم كے لوگوں كو قتل كردیا اور جوانوں كو بیچنے كے لئے انطاكیہ روانہ كردیا، اس خون آشام فوج كا افسر “گودفرے ہارڈ وین ولے” پوپ كو لكھتا ہے اگر آپ یہ جاننا چاہیں كہ بیت المقدس میں ہمارے ہاتھوں كیا بلا نازل ہوئی تو بس اتنا سمجھ لیجئے كہ رواق سلیمان اور معبد میں سے ہم میں سے كسی كا گزر ہوتا تھا تو گھوڑے زانوتك خون میں ڈوب جاتے تھے ۔یہ ان روح فرساواقعات كا معمولی سا نمونہ ہے جسے عیسائیوں نے قرون وسطی میں مفكرین و دانش مندان یورپ اور مسلمانوں كے ساتھ صلیبی جنگوں میں روا ركھا تھا ۔یوروپی ممالك میں انقیوزیشن كے شكنجوں اور سختیوں نے مفكرین اور دانش مندوں كو لزرہ براندام كردیا اور وہ لوگ كلیسا كے اس ظالمانہ ووحشیانہ برتاؤ سے لوگوں كو نجات دلانے پر آمادہ ہوگئے ۔ ارباب كلیسا اور دانش مندوں كا جھگڑا رفتہ رفتہ سخت سے سخت تر ہوگیا ۔ ارباب كلیسا كی طرف سے مفكرین كے لئے جو اختناق فكری اور انتقاد عقائد و افكار پیدا ہوگیا تھا اس كے باوجود علوم طبیعی روز بروز ترقی كررہے تھے جس كانتیجہ یہ ہوا كہ ارباب كلیسا كو پیچھے ہٹنا پڑا اور دانش مندوں، آزاد خیالوں، اور طرفداران علم كے لئے میدان خالی ہوگیا ۔كلیسا كی یہی بیہودہ سختیاں اور شرم آور مظالم كے سبب دانشمندوں كا ایك گروہ فطری طور پر دین سے بیزار ہوگیا اور ان كویہ غلط فہمی ہوگئی كہ دین جہالت واوہام كا طرفدار ہے اور علم و دانش كا دشمن ۔خلاصہ یہ كہ محكمہ تفتیش كے وحشیانہ رفتار، شرم آور مظالم نے آسمانی مذاہب كو شدید دھچكا پہنچا یا، اور جاہلوں كے دل میں عام طریقے سے تمام ادیان سے نفرت بیٹھ گئی ۔اسی طرح دولت و ثروت كی خاطر محروم و رنجیدہ افراد كے ساتھ كلیسا كی روش نے روس میں ایك شدید رد عمل پیدا كردیا اور لاشعوری طور پر كمیونسٹوں كی پشت پناہی كا سبب بنا اور كمیونسٹ لیڈر وسیع پیمانے پردین كے خلاف زہر پھیلانے لگے اور مزدور پیشہ افراد كو یہ باور كرانے میں كامیاب ہوگئے كہ مذہب تو سرمایہ داروں كی دستاویز ہے، جمہوریت سے پہلے روس میں كلیسا كے پاس جائداد منقولہ و غیر منقولہ اتنی تھی كہ اس كا حساب مشكل ہے كلیسا كی ذاتی ملكیت ملیونوں ہكتار اور بینكوں میں اس كا ذخیرہ سیكڑوں ملیون روبل طلائی تھا كلیسا اور معابد كو جنگلوں اور چراگاہوں سے وسیع فائدے حاصل ہوتے تھے ۔ ماہی گیری تجارت، صنعت وغیرہ سے بڑی بڑی آمدنیاں ہوتی تھیں ۔فردوف اس سلسلے میں لكھتا ہے كہ یہ كلیسا جو روس كا سب سے بڑا سرمایہ دار، سب سے بڑا زمیندار، سب سے بڑا بینك دار تھا ۔ دیہاتیوں سے بہت ہی بے رحمانہ طریقے سے نفع اندوزی كرتا تھا۔ اور تمام مزدوروں كو انجام سے بے خبر ہوكر بری طرح اپنے فلاح وبہبود كے لئے استعمال كرتا تھا، اس كا نتیجہ یہ ہوا كہ مزدوروں اور كلیسا كے دیہاتی خادموں كے دلوں میں ان كی طرف سے كینہ پیدا ہوگیا اور اس كو رہبری كے لباس میں غلامی كے طرفدار كہتے تھے یہ عیسائیت جو ایك دن آداب و رسوم كہنہ كی حافظ تھی اپنی تمامتر سابق درخشانیوں كے باوجود آج اپنے اصول و مبانی كو مضبوط بنانے كے لئے علم و تمدن كے ہرممكن ذریعے سے استفادہ كررہی ہے ۔كیا آپ جانتے ہیں كہ تنہا كیتھولك كلیسا چار ہزار تبلیغی انجمن ركھتا ہے جو دنیا كے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ انجمنیں مبلغ خطیرنشرواشاعت مسیحیت كے لئے خرچ كرتی ہیں ۔ اور ان كا تبلیغی سلسلہ تمام دنیا میں پھیلاہوا ہے، حدیہ ہے كہ كانگو، تبت، افریقہ كے وحشی ترین خطوں میں ان كی تبلیغ ہورہی ہے صرف انگلستان كا كلیسا تبلیغ پر سالانہ نوسو ملیون تومان خرچ كرتا ہے ۔ ہماری ساری تبلیغات پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس كے مقابلے میں تنہا اس كلیسا كا خرچ كہیں زیادہ ہے ۔اب تك صرف انجیل كا ایك ہزار سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچكا ہے ۔ صرف 1937 ء میں یعنی ایك سال میں تین اداروں نے انجیل كے 24 ملیون نسخے امریكہ میں تقسیم كئے ۔وٹیكن كا ایك اخبار جس كا نام ” اورسرواٹورےرومانو” ہے روزانہ تین لاكھ كی تعداد میں چھپتا ہے یہ علاوہ ان ماہناموں كے ہے جو ماہانہ كئی ملیون كی تعداد میں شائع ہوتے ہیں، اب تك مذہبی اداروں كی طرف سے 32 ہزار پرائمری اسكول، یونیورسٹی، اسپتال كھولے جاچكے ہیں ۔ دنیا میں چار قومی مذہبی ادارے ہیں جو صرف تبلیغات دین مسیح كی نشر واشاعت كرتے رہتے ہیں ۔ ایك وٹیكن میں ہے اور چوتھا عدیس ابابا میں كھولا گیا ہے ۔
اصولی طور پر عیسائی تبلیغ كے تین طریقے ہیں1) عہد جدید كے كتابوں ترجمے2) كلیسا و گرجا گھروں كی تعمیر3) “جمعیتہائے تبشیریہ” كے نام سے دنیا بھر میں تبلیغی جماعتوں كو بھیجنا ۔پروٹسٹینٹوں نے بھی ضرورت سے زیادہ اقدامات كئے ہیں چنانچہ ریڈرڈائجسٹ لكھتا ہے كہ ! كلیسا كی قدیمی رسم وصولی زكوۃ كی از سر نو تجدید كرنے كے لئے امریكہ میں پروٹسٹینٹوں نے كلیسا كو حیات نو بخشنے اور عظیم انقلاب لانے میں روحانی اور مادی دونوں لحاظ سے قابل ذكر ہے ۔ اہم رول ادا كیا ہے ۔1950 ء كے بعد سے كم از كم دن اداروں میں یہ رسم شروع ہوگئی ہے اور اس كے عجیب و غریب فائدے ظاہر ہوچكے ہیں ۔ اس كی وجہ سے بہت تبلیغی انجمنوں كا كام دگنا اور تگنا ہوگیا ہے ۔ كلیسا كے لئے سیكڑوں عمارتیں بنوادی گئی ہیں ۔ مبلغین كی جماعتیں داخلی اور خارجی طور پر بہت مضبوط ہوگئی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہوئی ہے كہ انجمنوں كی طرح افراد كو بھی یہ احساس ہوگیا ہے كہ اس قدیم طریقے كی پیروی سے كتنے نجات بخش نتائج پیدا ہوں گے ۔عیسائی مبلغین نہ تو یہودیوں سےخوف زدہ ہیں نہ ہندوؤں سے، اورنہ بودھ مذہب سے ڈرتے ہیں ۔ كیونكہ یہ سب دین ایك ایسی محدود قوم سے متعلق ركھتے ہیں جو اپنے دائرہ عمل سے آگے نہيں بڑھ سكے ۔ عیسائی مبلغین صرف اسلام سے خطرہ محسوس كرتے ہیں جس كی طرز فكر اور مخصوص خیالات سے دوست، دشمن سب ہی واقف ہیں، ویٹكن میں اسقفوں كے اجتماع كو خطاب كرتے ہوئے پوپ اعظم نے اپنی افتتاحی تقریر میں كہا: افریقہ میں عیسائیت اور مغربی اقوام كو اسلام سے جو خطرہ درپیش ہے وہ افریقہ میں كمیونسٹوں سے مغربی اقوام كو درپیش خطرے سے كہیں زیادہ ہے ۔بیرونی ملكوں میں اگرچہ اسلام تبلیغ صفر ہیں لیكن اسلام اپنی امتیازی صفت وسیع معارف و قدرت تحرك كی بناء پر دنیا كے بعض حصوں میں خصوصا افریقہ میں بہت ترقی كررہا ہے ۔ مظلوم سیاہ پوستوں كے لئے اسلام بہترین پناہ گاہ ہے اور كلیسا اس خطرے سے چشم پوشی نہیں كرسكتا ۔بلجیم كے دو تحقیقی اداروں نے لكھا ہے كہ: بیسویں صدی عیسوی كے ابتداء میں صرف كانگومیں چار ہزار مسلمان تھے جبكہ آج ” مانیہ ما ” اور ” كیوو ” اور ” اسٹانلی ویل ” میں مسلمانوں كی تعداد دو لاكھ 36 ہزار ہوگئی ہے ۔ مارسل كارڈر جویورپی عالم ہے اور اسلام كے مطالعے میں منفرد ہے اس كے قول كو رسالہ (پرو) چاپ راہر پیرس نے نقل كیا ہے كہ ” پہلے اسلام امیروں اور شاہزادوں كا مذہب تھا، لیكن آج مزدوروں كا مذہب ہوگیا ہے ۔ ایسے لوگوں كا مذہب جو بہتر اور آرام دہ زندگی كے لئے سیلاب كی طرح رواں دواں ہیں ۔ اب یہ بات ناقابل انكار حقیقت ہے كہ شمالی افریقہ سے جنوبی افریقہ كی طرف بڑی سرعت كے ساتھ اسلام بڑھ رہاہے اور صحیح مردم شماری سے اس كی تائيد بھی ہوتی ہے ۔رسالہ ” ریووڈی پیرس ” مسلمانوں، بت پرستوں، عیسائیوں كی افریقہ میں مردم شماری كا ذكر كرتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے كہ مسلمانوں كی تعداد زیادہ ہے ۔ لكھتا ہے: بطور كلی افریقہ كے آدھے كالے آدمیوں كو مسلمان ہی شمار كرنا چاہئے ۔ اسلام عجیب وغریب سرعت كے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ ہر سال تقریبا پانچ ہزار آدمی اسلام قبول كرتے ہیں اور یہ تیزی پہلے سے نہیں تھی بلكہ تقریبا اسی صدی كے اندر اندر یہ بات پیدا ہوئی ہے ۔ 1950 ء میں جامعہ ازہر كے چار فارغ التحصیل عالموں نے شہر (مباكو) میں ایك دینی مدرسہ كھولا جو اسلام كو بجلی كی طرح پھیلارہا تھا مگر حكومت فرانس نے اس كو بند كرادیا ۔نیلپس یونیورسٹی كے استاد و ڈاكٹر ” واكیا واگلیری ” لكھتے ہیں پتہ نہیں كیا بات ہے كہ اسلام ممالك میں غیر مسلموں كو ضرورت سے زیادہ آزادی، اور مسلمانوں كے پاس وسائل تبلیغ كی قلت كے باوجود آخری سالوں میں اسلام ایشیا اور افریقہ میں بڑی تیزی كے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ نہ معلوم اس دین میں كونسی اعجازی قوت پوشیدہ ہے یا كونسی طاقت اس كے ساتھ مخلوط كردی گئی ہے ۔ اور نہ معلوم كیا قصہ ہے كہ لوگ روح كی گہرائیوں كے ساتھ اسلام قبول كرتے چلے جارہے ہیں اور اسلامی دعوت پر لبیك كہہ رہے ہیں ۔عیسائیوں نے مسلمانوں كو تباہ كرنے كے اپنے سارے وسائل استعمال كرڈالے چنانچہ استاد محمد قطب لكھتے ہيں: جنوبی افریقہ میں انگریزوں كی ایك منظم كشتی رانی كی كمپنی ہے ۔اس كمپنی میں بہت سے مسلمان بھی كام كرتے تھے مگر چونكہ یہ كمپنی عیسائی ہے لہذا مسلمانوں كوكیونكر برداشت كرتی كمپنی نےمسلمانوں كو ایذا پہنچانے كا نیاڈھنگ اختیار كیا كہ مسلمانوں كو مزدوری كی جگہ شراب كی بوتلیں دینے لگی اور چونكہ مسلمانوں كے یہاں نہ صرف یہ كہ شراب نوشی حرام ہے بلكہ اس كی خرید رفروخت بھی حرام ہے ۔اس كا نتیجہ یہ ہوا كہ مسلمان شراب كی بوتلیں لے كر توڑ دیتے تھے، اس طرح بیچاروں كا كافی نقصان ہوتا تھا ۔ آخر كار ایك مسلمان قانون داں نے ان لوگوں كو مشورہ دیا كہ كہ ایسی مزدوری پر پہلے آپ لوگ اعتراض كریں اگراس كا كوئی اثر نہ ہو تو عدالت كا دروازہ كھٹكھٹائیں ۔ آپ جانتے ہیں اس مشورہ پر عمل كا نتیجہ كیا ہوا؟ جیسے ہی كمپنی كو اس كی اطلاع ہوئی اس نے تمام مسلمانوں كونكال باہر كیا بشر دوستی كا مفہوم یہ ہے ۔ !اسدور میں مبلغین اسلام كے لئے افریقہ میں بہت وسیع میدان موجود ہے ۔ اگر اسلامی مبلغین محنت و خلوص سے كام شروع كردیں تو افریقہ میں بہت زیادہ لوگ دل و جان سے اسلام قبول كرلیں گے ۔ افریقہ اس وقت ایك ایسے مذہب كی تلاش میں ہے جو جنبہ ہائے مادی و معنوی میں ہم آہنگی پیدا كرسكے ۔ اور معاشرے میں مساوات و برابری قائم كرسكے اورلوگوں كو صلح كی طرف دعوت دے سكے ۔ اور یہ بھی معلوم ہے كہ عیسائيت ان مسائل كو حل كرنے پر قادر نہیں ہے ۔ كیونكہ خود كلیسا نابرابری كا قائل ہے ۔ ابھی تك افریقہ میں كلیسا كی طرف سے اس بات كی اجازت نہیں ہے كہ ایك جگہ گورے اور كالے سب مل كر عبادت كرسكیں عمومی طور پر انگریزوں كا برتاؤ كالوں كے ساتھ غیر انسانی ہے، كانگوكے مرحوم لیڈر (لومومبا) پیرس كے ایك اخبار میں لكھتے ہیں: میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی كہ اسكولوں میں ہم كو یہ تعلیم دی جاتی ہے كہ عیسائیت كے اصول كا احترام كیا جائے ۔ اور اسكولوں كے باہر ان اصولوں كی خلاف ورزی كی جاتی ہے اور تمام انسانی تمدنی اصول كو پیروں تلے روندا جاتا ہے اور اس كی تعلیم اور ہم سیاہ پوستوں سے یورپی لوگوں كے برتاؤ میں زمین و آسمان كا فرق ہے ۔افریقہ اسلام كی سرعت انتشار سے نہ صرف عیسائی خوف زدہ ہیں بلكہ امریكہ كی تمام مذہبی انجمنیں خود امریكہ میں كالوں كے مشرف بہ اسلام ہونے سے پریشان ہیں اور اپنے تمام تر ذرائع كو ان كے درہم برہم كرنے میں استعمال كرتی ہیں ۔ آج كل شاید ہی امریكہ كا كوئی اخبار ہو جوكالوں كے خلاف تبلیغ میں مشغول نہ ہو ۔ حد یہ ہے كہ كچھ ممبران پارلمینٹ نے مسلمانوں پر (ركیك) حملہ كرنے كے بعد امریكہ كے رئیس جمہوریہ سے خواہش كی كہ سیاہ پوست مسلمانوں كی ساری انجمنیں توڑ دی جائیں اوران كے تمام اقدامات كو غیر قانونی قراردیدیا جائے ۔لیكن (بفضل الہی) سیاہ پوست مسلمانوں كی كوششوں كو جتنا جتنا روكا جارہا ہے ان كی تعداد میں اسی قدر اضافہ بھی ہوتا جارہاہے اور ان كے اقدامات اوران كی كوششیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں ۔اس وقت سیاہ پوستوں نے امریكہ كے 27 صوبوں میں 70 شعبے كھول ركھے ہیں ۔ اسی طرح شكاگو اور ڈیٹ رائٹ میں دو اہم اسلامی مركز موجود ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے بہت سے مراكز كھول ركھے ہیں ۔ متعدد مسجدیں بنا ڈالی ہیں ۔ كلمات محمد كے نام سے ایك روز آنہ اخبار بھی نكالتے ہیں اور امریكہ كے بعض شہروں میں تو یہ عالم ہے كہ جب یہ لوگ كوئی جلوس سڑك پر نكالتے ہیں تو مذہبی نشان اٹھاكے چلتے ہیں اور آگے آگے ایك منبر ہوتا ہے جس پر ” لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” لكھا ہوتا ہے ۔تمام سیاہ پوست مسلمان اپنے دینی فرائض كو كمال عقیدت سے ادا كرتے ہیں ان كی عورتیں اسلامی پردے میں رہتی ہیں، یہ لوگ عمومی طور پر گوشت یا دوسری چیزوں كو كوشش كركے ایسے قصاب و ایسی دوكانوں سے خریدتے ہیں جن كے یہاں چاند، ستارے كی تصویر بنی ہوتی ہے كیونكہ مسلمان ہونے كی یہ پہچان ہے كہ یہ لوگ بہت كوشش سے عربی زبان سیكھتے ہیں، اسكولوں اور كالجوں میں اپنے جوانوں كو تاكید كرتے ہیں كہ وہ قرآن كی زبان ضرور سیكھیں ۔ان كے اندر چوری، قتل وغیرہ قسم كے عیوب بالكل نہیں ہیں ۔ یہاں تك كہ دشمن یہ اعتراف كرنے پر مجبور ہوگئے كہ كالوں كے اسلام نے ان كی ہر قسم كی برائیوں اور عادتوں كو چھڑا دیا ۔مسیحی مبشرین جوافریقہ میں سرگرم تبیلغ ہیں وہ كسی قیمت پر یہ نہیں چاہتے كہ سیاہ پوست ترقی كریں اور ان كی طرح كے ہوجائیں، بلكہ وہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں كہ ایسے افراد تیار ہوں جو صرف كلیسا ہی كے تابع رہیں ۔ یہ ایك حقیقت ہے جس كو استاد ” وسٹرمین ” نے بیان كیا ہے وہ لكھتے ہیں: جب كوئی كالا مسلمان ہوتا ہے تو معاشرے كے افراد میں اس كا شمار ہونے لگتا ہے اور خود اس كے اندر بہت جلد خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ خود اپنی حیثیت كو پہچاننے لگتا ہے اور جلد ہی اس بات كا احساس كرلیتا ہے كہ اس عالم رنگ و بو كی ایك فردوہ بھی ہے اور یورپین سے محدود حد تك ارتباط ركھنے لگتا ہے ۔ وہ سیاہ پوست جو پہلے مہتروں جیسی زندگی بسر كرتا تھا اسلام لانے كے بعد ایسی عظمت كا حامل ہوجاتا ہے كہ خود یورپین اس كی تعظیم كرتے ہیں اوراس كے بر خلاف جب كوئی سیاہ پوست عیسائی ہوجاتا ہے تو اپنی حیثیت سیاہ پوست مسلمان سے بالكل جدا دیكھتا ہے ۔ كیونكہ ہم لوگوں كی (عیسائیوں) بنیادہی سیاہ پوستوں سے علیحدگی پر ركھی گئی ہے جب وہ ہمارے تمدن سے دوچار ہوتے ہیں تواس كا تحمل نہیں كرپاتے ہم نے نہ ابھی تك كالوں كو تعلیم دی ہے اور نہ خودان كو اس كا احساس ہے كہ ان كے اندر ممتاز خصوصیات موجود ہیں ۔ كیونكہ ہم نے كبھی اپنا فریضہ ہی یہ نہیں سمجھا كہ كالوں كے تمدن كی طرف توجہ دیں یاان كو ترقی دیں یا ان كی حالت كو اپنی حالت كے مطابق كریں ۔ہم ہمیشہ سیاہ پوستوں كا یورپین سے نہایت ناپسندی كے ساتھ تعارف كراتے ہیں اور ان كو ایك نہایت ہی بد صورت یورپی سمجھتے ہیں ۔ مگر اسلام ایك سیاہ افریقی كا تعارف اس طریقے سے كراتا ہے كہ وہ خود اپنی جگہ پر بھی محترم رہے اور دوسروں كی نظروں میں بھی محترم ہو ۔ وہ اجتماعی برابری جو اسلام نے ذاتا سیاہ پوست مسلمانوں كی دی ہے اس كا (عشر عشیر) بھی ہم سیاہ پوست عیسائی كے یہاں نہیں پاتے ۔ایسے بھی یورپی ہيں جن كی نظر میں كالوں كی كوئی وقعت نہیں ہے ان كی نظر میں خس وخاشاك میں زندگی بسر كرنے والا بے دین سیاہ پوست اور عیسا ئی سیاہ پوست ميں كوئی فرق نہیں ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو كسی ایسی فرصت كے منتظر ہیں كہ جس میں كالے مسلمان كالے عیسائی پر برتری كو آشكار كردیں ۔ یہی وجہ ہے كہ جن افریقیوں نے آخری زمانے میں عیسائی تعلیمات كو دیكھا ہے وہ آج نہ صرف مسلمان بلكہ مبلغ اسلام ہوگئے ہیں اور چونكہ افریقیوں كو اپنے یورپی بھائیوں سے مساوات كی كوئی امید نہیں ہے اس لئے وہ اسلام سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں اور اس بات كو بھی اچھی طرح سمجھ چكے ہیں كہ افریقہ میں اگر كوئی دین اختیار كرنے كے قابل ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔