رسول اکرم ۖ نہج البلاغہ کی روشنی میں

184

رسول اکرم ۖ نہج البلاغہ کی روشنی میں
رسول اللہ ۖ اسوہ حسنہ :
معاشرے کو قابل عمل نمونے (آئیڈیل )کی ضرورت ہو تی ہے جس کی پہچان لازمی ہے ۔قرآن مجید اسلامی معاشرے کے لیے رسول اللہ ۖکو اعلیٰ ترین نمونہ (اسوہ) قراردیتا ہے ۔ارشاد ہو تا ہے ۔
” لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللهِ اُسْوَة حَسَنَة ” ١
”تمہارے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ۖکی زندگی ہے ۔ ”
لہذا انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم ۖکی ذات کے مختلف پہلوئوں کا دقت نظر سے مطالعہ کیاجائے اور اُسے معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ معاشرہ ان سے الہام لیتے ہو ئے ترقی اور سعادت کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔
امیر المومنین علی ـنے اسی بات پر زور دیا ہے ،وہ فرماتے ہیں :
”وَلقد کان فِی رَسُولِ اللّٰہِ ( صلّی اللہ علیہ وآلہ) کافٍ لَکَ فِی الْاسْوَةِ وَدَلِیل لَکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنیا وعَےْبِھَا وکَثْرَةِ مَخَازِےْھَا ، ومَسَاوِےْھَا،اِذ قُبِضَتْ عَنْہُ اَطْرَ فُھَا وَوُطِّئَتْ لِغَےْرِہ اَکْنَا فُھَا وَفُطِمَ عَنْ رَضَا عِھَا وَزُوِیَ عَنْ زخارِ فِھَا ” ٢
 
” یقینا رسول اکرم ۖ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لیے راہنما ہے اس لیے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اوردوسروں کے لیے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا ۔”
اسی خطبے میں آپ کے اُسوہ ہونے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :
”فَتَأَسَّ بنَبِےِّکَ الْاَ طےَبِ الاَ طْھَرِ صلی اللہ علیہ وآلہ فَاِنَّ فِیہ اُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی ، وعَزَآ ئً لِمَنْ تَعَزَّیٰ وَاَحَبُّ العِبَادِ اِلَی اللّٰہِ الْمُتَأَ سِّیْ بِنَبِےِّہ، وَالْمُقْتَصُّ لِاَ ثَرِہِ،قَضَمَ الدُّنیا قَضْماً وَلَمْ ےُعْرِھَا طَرْفاً اَھْضَمَ اَھْلَ الدُّینَا کَشْحاً وَاَخْمَصَھُمْ مِنَ الدُّنیا بَطْناً عُرِضَتْ عَلَےْہِ الدُّینا فَاَبیَ اَنْ ےَقْبَلَھَا ، وَعَلِمَ اَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ اَبْغَضَ شَےْئاًفَاَبْغَضَہُ وحَقَّرَ شئیاً فَحَقَّرَہُ ،وصَغَّرَ شَیاً فَصَغَّرہُ ۔وَلَو لَمْ ےَکُنْ فِےْنَا اِلَّا حُبُّنَا ما اَبْغَضَ اللّٰہُ وَرَسُولُہ ،وتعظیماً ما صَغَّرَاللّٰہُ ورَسُولُہ لَکَفٰی بِہ شِقَاقًا لِلّٰہِ وَمُحَادَّةً عَنْ اَمْ ِاللّٰہِ ”٣
” تم لو گ اپنے طیب و طاہر پیغمبر کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والوں کے لیے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلب گاروں کے لیے بہترین سامان صبر و سکون ہے ،اللہ کی نظرمیں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے رَسُول کی پیروی کرے اور ا ن کے نقش قدم پر قدم آگے بڑھائے ۔انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکر دیکھا بھی نہیں ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم پیٹ رہنے والے اور شکم تہی میں بسرکرنے والے تھے۔ان کے سامنے دنیا کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو پسند نہیں کیا تو آپ نے بھی اُسے ناپسند کیا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اُسے حقیر ہی سمجھا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اُسے پست قرارد یا ہے اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کو ئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا اور رسول ۖ کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا اور رسول ۖ کی نگاہ میں چھوٹے اور حقیر کو عظیم اور بڑا سمجھنے لگیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سر تابی کے لیے یہی عیب کافی ہے۔”
رسول اللہ ۖ کی نبوت وعدہ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ۖکی نبوت کا وعدہ دیا تھا اور گزشتہ انبیا ء کی زبانی آپۖ کی خبر دی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اُسے تکمیل کیا جس کی خبر پہلے دی تھی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ء سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ حضرت محمد ۖ پر ایمان لا ئیں اور لوگوں کو آپ ۖ کے بارے میں بشارت دیں اور جب آپ کوپائیں تو پیروی کریں قرآن مجید کی سورہ آل عمران میںجو انبیا ء کے میثاق کی بات کی ہے وہ اسی طرف اشارہ ہے ۔
ارشاد ہو تا ہے :
”وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِےْثَاقَ النَّبیےّنَ لَمَآ اَتَےْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہٰ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْ تُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط قَالُوْا اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْھَدُ وْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِےْنَ ”٤
”اور اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میںتمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں پھر آئندہ رسول تمہارے پاس آئے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کر ے تو تمہیں اس پر ضرور ایمان لا نا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنا ہو گی۔پھر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کر تے ہو اور میری طرف سے عہد کی ذمہ داری لیتے ہو انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کیا ۔اللہ نے فرمایا :پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔”
امیر المومنین نہج البلا غہ میں فرماتے ہیں :
”اِلٰی اَنْ بَعَثَ اللّٰہُ سبحانہ محمّدًا رسولَ اللّٰہِ صلّیٰ اللہ علیہ وَآلہ وسلم لِاَ نجاز عِدَ تِہ واِتْمام نَبُّوتِہ مأ خوذاً عَلیَ النبِےّن میثاقُہ مَشْہُورةً سِماتُہْ کریمًا مِےْلادُہُ ”
”یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد اور اتمام نبوت کے لیے محمد ۖکو مبعوث فرمایا جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا ۔جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود ومبارک تھی ۔”
اسی مطلب کو امیر المومنین علی ـنے ایک اور مقام پر واضح طور پربیان فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سے پہلے آنے والے تمام انبیا ء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ ہمارے نبی کے مبعوث ہونے کی خبر اور ان کے فضائل اپنی اپنی امتوں کو بیان کریں اور انہیں ان کے آنے کی بشارت اور تصدیق کرنے کا حکم دیں۔ ٥
آنحضرت ۖ کی بعثت کے وقت عربوں کی سیاسی اور معاشرتی حالت :
امیر المومنین علی ـخطبہ نمبر١ میں فرماتے ہیں :
”وَاَھلُ الْاَرْضِ ےَوْ مَئِذٍ مِلَل مُتَفَرِّقَة وَاَھْوَ آئ مُنْتَشِرَة وَطَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَة بَےْنَ مُشَبِّہٍ لِلّٰہَ بِخَلْقِہ اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِہ اَوْ مُشِےْرٍ اِلٰی غَےْرِہ فَھَدَاھم بِہ مِنَ الضَّلالَةِ وَاَنْقَذَھَُمْ بِمَکانِہ مِنَ الجَھَالَةِ” ٦
”اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب ،منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے ۔اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ،کچھ اس کے ناموں کوبگاڑدیتے کچھ اُسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کر تے تھے ۔پس خداوند عالم نے آپ ۖ کے ذریعہ سب کوگمراہی سے ہدا یت دی اور آپ کے وجود سے جہا لت سے با ہر نکالا۔”
خطبہ نمبر ٢میں انہوں نے عربوں کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں :
”وَالنّاسُ فِی فِتَنٍ اَنْجَذَمَ فَےْھا حَبْلُ الدِّین وتَزَعْزَعَتْ سَوَارِیِ الےَقِےْن وَاخْتَلَفَ النَّجْرُوتَشَتَّتَ الاَ مْرُ وضَاقَ المَخْرَجُ وعَمِیَ المَصْدَرُ فالْھُدَی خَامِل وَالْعَمَیَ شامِل عُصِیَ الرَّحٰمنُ ونُصِرَ الشَّےْطاٰنُ وخُذِلَ الِا ےْمٰانُ فَانْھَارَتْ دَعَائِمُہُ،وتَنَکَّرَتْ مَعَالِمُہُ ودَرَسَتْ سُبُلُہُ وعَفَتْ شُرُکُہُ اَطَاعُوا الشَّےْطانَ فَسَلَکُوا مَسَالِکَہُ وَوَرَدُوا مَنَا ھِلَہُ ،بِھِمْ سَارَتْ اَعْلَامَہُ وَقَامَ یوَ اؤُہُ فَی فَتَنٍ دَاسَتْھُمْ بِاَخْفَا فِھَا ،وَوَطِئَتْھُمْ بِاَظْلَافِھَا ،وقَامَتْ عَلیَ سَنَا بِکِھَا فَھُمْ فِےْھَا تَائِھُونَ حائِرُوْنَ جَاھِلُونَ مَفْتُونُونَ فِی خَےْرِ دارٍ ،وشَرِّ جِےْرَانٍ ،نُومْھُمْ سُہُود وکُحْلُھُمْ دُمُوع باَرْضٍ عَالِمُھَا مُلْجَم وجَا ھِلُھٰا مُکْرَم ”٧
”یہ بعثت اس وقت ہو ئی جب لو گ ایسے فتنوں میںمبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی ،یقین کے ستون متزلزل ہو گئے،اصول میں شدید اختلاف تھا اور امو ر میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے ،ہدایت گمنام تھی اور گمراہی بر سر عام ،رحمن کی نا فرمانی ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت ،ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا ،اس کے ستون گرگئے تھے اور آثار ناقابل شناخت ہو گئے تھے ،راستے مٹ گئے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہو گئی تھیں لو گ شیطان کی اطاعت میںاسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہورہے تھے انہیں کی وجہ سے شیطان کے پر چم لہرا رہے تھے اور اس کے عَلمَ سر بلند تھے ،یہ لو گ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیرون تلے روند دیا تھااور سُموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے ۔یہ لوگ فتنوں میں حیران وسرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے ایک ایسے گھر (مکہ )میں یہ لوگ تھے جو خود اچھا مگراس کے بسنے والے بُرے تھے ، جہاں نیند کی بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے ،اس سر زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معززو سرفراز تھا ۔ ”
حضرت علی ـ مزیدان کے حالات ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں۔
”بَعَثَہُ وَالنَّاسُ ضُلَّال فِی حَےْرَةٍ وخاطِبُونَ فِی فِتْنَةٍ ،قَدْ اسْتَھْوَتْھُمْ اْلاَھْوَائُ واسْتَزَلَّتھُمُ الْکِبْےِریائُ ، واسْتَخَفَّتْھُمُ الْجَاھِلِےَّةُ الجَھْلَائُ حَےَارَیٰ فِی زِلْزَالٍ مِنَ الآ مْرِ وَبَلاَ ئٍ مِنَ الجَھْلِ و مَبَالَغَ صلی اللہ علیہ وآلہ فِی النَّصِیحَةِ ومَضَی عَلیَ الطَّرِےْقَةِ، وَدَعَا اِلَی الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ ”٨
”اللہ سبحانہ نے آپ ۖکواس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میںسرگرداں تھے فتنوں میں ہا تھ پائوں ماررہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میںلغزش پیدا کر دی تھی،جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلائوں میںحیران وسرگرداں تھے ۔آپ ۖ نے نصحیت کا حق ادا کر دیا ،سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کوحکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔”
امیر المومنین علی ـنے اپنے دیگر خطبات میںبھی ان کے حالا ت کی تصویر کشی کی ہے ۔٩
آپ نے ایک اور مقام پر جاہلیت عرب کی وضاحت فرمائی ہے ۔
”یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ۖکو عالمین کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرنے والا اور اپنی وحی کا امین ‘بنا کر بھیجا ہے ۔اے گروہ عرب ! اُس وقت تم بدترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہر یلے سانپوں میںتم بودوباش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کر تے تھے ایک دوسرے کاخو ن بہاتے تھے اورقرابتداروںسے قطع تعلقی کرتے تھے ،بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے ۔’ ‘١٠
یہ جملے جناب امیر ـ نے عربوں کی تحقیر کرنے کرلیے نہیں فرمائے تھے بلکہ آپ نے چاہا کہ عظیم نعمتیں انہیں یاد دلائیں بالخصوص عربوں کے لیے عظیم ترین افتخار رسول اکرم ۖ کا ان کے درمیان مبعوث ہونا ،انہیں یا د لائیں یہ وہ وقت تھاجب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیۖکو ان کے درمیان بھیجاجن کی وجہ سے جہالت اور گمراہی کا انداھیرا چھٹ گیا اور ہر طرف آپ کے نور سے اجالا چھا گیا اور عرب دنیا تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گئی۔
رسول اللہ ۖکی بعثت کے مقاصد :
امیر المومنین علی ـ نے اپنے مختلف بیانات میں آنحضرت ۖ کی بعثت کے مقاصد یوں بیان فرمائے ہیں ۔
١۔حق کی طرف دعوت دینا:
”اَرْسَلَہُ دَاعِیاً اِلَی الحَقِّ وَشَاھِدًا عَلَی الخَلْقِ ” ١١
”اللہ نے پیغمبر اکرم ۖ کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا”
٢۔لوگوں کو عذاب الہی سے متنبہ اور ڈرانے کے لیے :
”اِنَّ اللّٰہ بَعَثَ مُحَمَّدًاصلّیٰ اللّٰہ علیہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نَذِےْرً لِّلْعٰالَمِےْنَ وَامِینًا عَلَی التَّنْزِیلِ ” ١٢
”بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ۖ کو تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا”
٣۔بت پرستی اور اطاعت شیطان کی ذلتوں سے نکالنا :
”فَبَعَثَ اللّٰہُ محمّداً ،صَلّٰی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَآلِہ بِالحقِّ لِےُخْرِج عِبَادَہُ الَاوْثَانِ اِلٰی عبادَة ،وَمَنْ طَاعَةِ الشَّےْطَانِ اِلیٰ طاعَتِہ ،بِقُرآنٍ قَدْ بَےَّنَہُ وَاَحْکَمَہُ لِےَعْلَمَ الِعبَادُ رَبَّھُمْ اِذجَھِلُوہ ، وَلِےُقِرُّوا بِہ اذجَحَدُوہُ ولِےُثْبِتُوہ بَعْدَ اِذْانَکَرُوہ”١٣
”پروردگار نے حضرت محمد ۖ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمن کی اطاعت کر ائیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تا کہ بندے اپنے رب سے جا ہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں ، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں ۔۔ ”
٤۔اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا :
”ثُمَّ اِنَّ اللّٰہ سبحانہ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّی اللہ علیہ وآلہ بالحَقِّ حین دَنَا من الدُّینا الْا نْقِطَاعُ ، وَاَقْبَلَ الآ خِرَةِ الِا طِلّاَعُ۔۔۔۔۔جَعَلَہُ اللّٰہُ بَلَاغاً لِرِسَالَتِہ ،وَکَرَامَةً لِاُمَّتِْہ ، وَ رَبِےْعاًلِاَھْلِ زَمانہ ورِفْعَةً لِاَ عْوَانِہ وَشَرَفاً لِاَ نْصَارِہِ ”١٤
”اس کے بعد اللہ سبحانہ نے حضرت محمد ۖ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی اور آخرت سر پر منڈلا نے لگی ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ ،امت کی کرامت ، اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور ان کا یارومددگار افراد کی شرکت کاواسطہ قرار دیا ”
دوران رسالت ،رسول اللہ ۖکی جانفشانی اور جدوجہد:
رسول خدا ۖنے اپنی بعثت کے اہداف کو کس طرح حاصل کیا اور الٰہی اہداف کو کیسے پایہ تکیمل تک پہنچایا ،اس بارے میں حضرت امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :
”اَرْسَلَہُ داعِیاً اِلَی الحَقِّ وشَاہِدًا عَلَی الْخَلْقِ مَبَلَّغَ رِسَالا تِ رَبِّہ غَےْرَ وَانٍ ولا مُقَصِّرٍ وَجَاھَدَ فِی اللّٰہِ اَعْدَائَ ہُ غَےْرَ وَاَھِنٍ ولا مُعَذِّرٍ اِمَامُ مَنِ اِتَّقیٰ وَبَصَرُ ِمنِ اھْتَدیٰ”١٥
”اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ۖ کو حق کی طرف بلانے والا ،او ر مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا تو آپ ۖ نے پیغام الٰہی کو مکمل طور پر پہنچا دیا نہ اس میں کوئی سُستی کی نہ کوتاہی ،اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اس میں نہ کو ئی کمزوری دکھائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا،آپۖ متقین کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔”
حضور ۖ کی جدوجہد کے متعلق فرماتے ہیں :
”اَرْسَلَہُ بوُجُوب الحُحَج، وظُھُورِ الفَلَجِ،وَاِےْضَاحِ المَنْھَجِ،فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صَادِعاً بِھَا وحَمَلَ عَلَی المَحَجَّةِ دَالّا ًعَلَےْھَا وَاَقَامَ اَعْلَامَ الِا ھْتِدَائِ ومَنَارَ الِضّےَائِ ، وَجَعَلَ اَمْرَ اسَ الِاسْلامِ مَتِینَةً وَعُرَیٰ الاِ ےْمٰانِ وَثِیقَةً ” ١٦
”اللہ تعالیٰ نے آپۖ کو نا قابل انکار دلیلوں ،واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت)کی راہنما ئیوں کے ساتھ بھیجا آپ نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا اورلوگوںکو سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی ۔ہدا یت کے نشان قائم کر دیے اور روشنی کے منارے استوار کر دیے اسلام کی رسیوں کو مضبوط بنا دیا او ر ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کر دیا ۔
آنحضرت ۖکا خاندان اور ان کا مقام و مرتبہ:
خطبہ ١٦١ میں بیان کرتے ہیں :
” اِبْتَعَثَہُ بالنُّور المُضِیئِ ،والبُرْھَانِ الجَلِیَّ وَالمِنْھاجِ البَادِی ،والکتاب الھَادِیْ، اُسْرَتُہُ خَےْرُ اَسْرَةٍٍ وَشَجَرَتَہُ خَےْرُ شَجَرَةٍ ،اغضا نُھَا مُعْتَدِ لَة ،وَثِمَارُ ھا مُتَھَدِّ لة ” ١٧
”پروردگار نے آنحضرت ۖکو روشن نور (واضح دلیل )نمایاں راستہ اور ہدا یت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ، آپ ۖکا خاندان بہترین خاندان اورآپ ۖکا شجرہ بہترین شجرہ ہے ، جس کی شاخیں معتدل ہیں اور ثمرات دسترس کے اندر ہیں ۔”
خطبہ١٠٦ میں بیان فرمایا ہے :
” اِخْتَارَہُ مِنْ شَجَرَ ةِ الْاَ نْبَےَائِ مِشْکَاةِ الِضّےَائِ وَذُؤَابَةِ الْعَلْےَائِ وَسُرَّ ةِ البَطْحائِ ومَصَاِبَےْحِ الظُّلْمَةِ، وےَنَا بِےْع اِلحِکْمَةِ”١٨
”رسول خدا ۖ کو اس نے انبیا ء کے شجرہ ،روشنی کے مرکز (آل ابراہیم )بلندی کی جبیں (قریش ) بطحاء کی ناف (مکہ)اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا ۔ ”
خطبہ٩٢ میں بیان کرتے ہیں :
” انبیا ء کرام کو پروردگار نے بہترین مقامات پر ودیعت رکھا اور بہترین منزل میں ٹھہرایا ، وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے ،جب ان میں سے کو ئی گزرے والا گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی یہاںتک کہ یہ الہیٰ شرف حضرت محمد ۖتک پہنچا اس نے انہیں بہترین نشوونما والے معدنوں اور ایسی اصلوں سے جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہت باوقار تھیں ،پیدا کیا اس شجرہ سے جس سے بہت سے انبیا ء پیدا کیے اور اپنے امین منتخب فرمائے ،پیغمبر ۖ کی عترت ،بہترین عترت اور ان کا خاندان شریف ترین خاندان ہے ،ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ہے جو سر زمین حرم پراُگا ہے اور بزرگی کے سایہ میں پروان چڑھا ہے ،اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے با لا تر ہیں۔ ”١٩
توصیف و تعریف :
”حضرت رسول خدا ۖ کے حقیقی اوصاف اور آپکی سچی تعریف اور دقیق ہے کہ انسان اس کی سحر انگیزی اور معنی کی گہرائی میں ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے،چنانچہ امیر المومنین ـ خطبہ نمبر ١٠٥میں آنحضرتۖ کی یوں تعریف کر تے ہیں ۔ ”
”حَتَّی بَعَثَ اللہُ محمّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ،شھیداً وبَشِیراً، ونذیراً،خَےَر الَبرِّےةِ طِفلاً،واَنْجَبَھَا کَھْلاً، وَاَطْھَرَ الْمُطَھَّرِےْنَ شِےْمَةً،وَاَجْوَدَ المُسْتَمطَرِےْنَ دِیمَةً ”٢٠
”یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ۖ کو امت کے اعما ل کا گواہ ،ثواب کی بشارت دینے والا ،اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ،جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہو نے پر بھی اشرف کائنات تھے ، عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ”
ایک اور مقام پر آپ ۖ کی مدح یوں کر تے ہیں :
”فَھُوَ اِمامُ مَنِ اتَّقٰی،وبَصیرَة مَنِ اھْتَدیٰ،سراج لَمَعَ ضَوْئُ ہ،وَشِھَاب سَطَعَ نُورُہ و زَنْد بَرَقَ لَمْعُہُ،سِےْرَتُہُ الْقَصْدُ،وسُنَّتُہُ الرُّشْدُوکَلَا مُہُ الْفَصْل،وحُکْمُہُ الْعَدْلُ،اَرْسَلَہُ عَلَیٰ حِےْنَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَھَفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ،غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ”٢١
”آپ ۖ اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے سر چشمہ بصیرت ہیں ،آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لَوْ دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے او ر ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ فشاں ہے ، ان کی سیرت میانہ روی،سنت رشد وہدایت ، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلا نہ ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ۖکو اس وقت بھیجا جب انبیا ء کا سلسلہ موقوف تھا اور بد عملی کا دور دورہ تھا ،اور امتوں پر غفلت چھائی ہو ئی تھی ۔”
ایک اور مقام میں بیان فرمایا :
”بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں آپۖ کا مقام بہترین مقام اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے ،نیک کرداروں کے دل آپ ۖ کی طرف جھکا دئیے گئے اور نگاہوں کے رخ آپۖ کی طرف موڑ دیے گئے ،اللہ نے آپۖ کے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے،لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا اہل ذلت کو با عزت بنا دیا ،اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کر دیا ،آپ کا کلام شریعت کا بیان اور آپ کی خاموشی احکام کی زبان ”٢٢
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق :
رسول اکر م ۖ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِےْمٍ ”٢٣
”بے شک آپ اخلا ق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں ”
خود آپ ۖ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ،آپ کا فرمان ہے :
”اِنَّما بعثت لاُ تَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ ”٢٤
یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلیٰ اخلاق وصفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں ، نہج البلاغہ میں جو آپۖ کے اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ ہے انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔
زہد و پارسائی :
حضرت علی ـفرماتے ہیں:
”قَدْ حَقَّرَ الدُّنْےَا وَصَغَّرَ ھَا وَأَھْوَنَ بِھَا وَھَوَّنَھَا ،وَعَلِمَ أَنَّ اللّٰہَ زَوَاھَا عَنْہُ اَخْتِےَاراً،وَبَسَطَھَا لِغَےْرِہِ احْتِقَاراً،فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْےَا بِقَلْبِہِ،وَأَمَاتَ ذِکْرَھَا عَنْ نَفْسِہِ ،وَأَحَبَّ أَن تَغِیبَ زِینَتُھَاعَنْ عَےْنِہِ، لِکَےْلَا ےَتَّخِذَمِنْھَا رِےَاشاً ،أَو ےَرْجُوَ فِیھَا مَقَاماً ،بَلَّغَ عَنْ رَبِّہِ مُعْذِراً،وَنَصَحَ لِأُ مَّتِہِ مُنْذِراً،وَدَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً”٢٥
” آپۖ نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا نتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہو ں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کر یں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا ”
اس بارے میں آنحضرت ۖ کی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں
”وَلَقَدْکَانَ صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَےْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ،ےَأ کُلُ عَلَیٰ اْلَٔا رضِ ،وَےَجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،وَےَخْصِفُ بِےَدِہِ نَعْلَہُ ،وَےَرْقَعُ بِےَدہِ ثَوْبَہُ،وےَرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَےُرْدِفُ خَلْفَہُ وَےَکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَےِْتہِ فَتَکُونُ فِیہِ التَّصَاوِیرُ ،فَےَقُولُ : (ےَا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِہِ غَےِّبیہِ عَنِّی ،فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَےْہِ ذَکَرْتُ الدُّنْےَا وَزَخَارِفَھَا)فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْےَا بِقَلْبِہِ،وَأمَاتَ ذِکْرَھَا مِنْ نَفْسِہِ ،وَأَحَبَّ أَنْ تَغِیبَ زِینَتُھَا عَنِ عَےْنِہِ ،لِکَےْلَا ےَتَّخِذَ مِنْھَا رِےَاشاً ،وَلَا ےَعْتَقِدَھَا قَرَاراً،وَلَاےَرْجُوَ فِیھَا مُقَاماً ،فَأَخْرَجَھَا مِنَ النَّفْسِ ، وَأَشْخَصَھَاعَنِ اَلْقَلْبِ،وَغَےَّبَھَاعَنِ اَلْبَصَرِ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَےْاً أَبْغَضَ أَنْ ےَنْظُرِ اِلَےْہِ ،وَأَنْ ےُذْکَرَ عِنْدَہُ ”٢٦
”رسول اللہ ۖزمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے
ہا تھ سے جو تی ٹانکتے تھے اور اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگائے تھے اور بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں ،انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے ”
حسن سلوک اور مہربانی :
قرآن مجید رسول اللہ ۖکی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اورمہربانی وعطوفت بیان کر تا ہے ، آپۖ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہو تا ہے۔
”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِےْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ”٢٧
”پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہو تے تو یہ لو گ آپ ۖ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے ”
حضرت علی ـ آنحضرتۖ کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
”وَاَطْھَرَ المُطَھِّرِینَ شِیمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِےْنَ دِےْمَةً ”٢٨
”عادات کے اعتبار سے آپۖ تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور بارا ن رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔”
لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا ۖکی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
”لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِےْز عَلَےْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِےْص عَلَےْکُمْ بِالْمُؤْمِنِےْنَ رَئُ وْف رَّحِےْم ” ٢٩
”فَلَعَلّکَ بَا خِع نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ ےُؤْ مِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِےْثِ اَسَفاً” ٣٠
حضر ت علی ـ نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں
ہا تھ پائوں مار رہے تھے ،نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ”
”فَبَالَغَ صلی اللہُ عیلہ وآلہ وسلَّم فِی النَّصِےْحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّرےْقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ”٣١
”چنانچہ نبی اکرم ۖنے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے ”
آنحضرت ۖ ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جا تے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کر تے تھے
اس بارے میں امیر المومنین ـ نے فرمایا :
”طبیب دَوَّاربِطِبِّہِ قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اھِمَہُ ،وَاَحْمَیٰ مَوَا سِمَہُ ےَضَعُ ذٰلِکَ حَےْثُ الحَاجَةُ اِلَےْہِ ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَآذانٍ صُمٍّ،وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِہ مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحَےْرَةِ”٣٢
”آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ،وہ اندھے دلوں ،بہرے کانوں گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ )میں جہاں ضرورت ہو تی ہے ،ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہو ئوں کی کھوج میں لگا رہتا ہو ۔”
شجاعت و بہادری :
امیر المومنین علی ـکہ جو خود ‘اشجع الناس ‘تھے وہ آنحضرت ۖ کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
”کُنَّا اِذَاحْمَرَّ الْبُأْسُ اتَّقَےْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ صلّیٰ اللّٰہُ عَلَےْہ وآلہ وسلّم فَلَمْ ےَکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنْہُ”٣٣
”ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی او ر دو گروہ بر سر پیکار ہو جا تے تو ہم آنحضرت ۖ کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپ ۖ کے علاوہ کو ئی بھی دشمن کے قریب نہ ہو تا”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پر امیر المومنین ـ کے تاثرات :
رسول خدا ۖ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا :
”بَاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّی یا رَسُولَ اللّٰہِ ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ےَنْقَطَعَ بِمَوْتِ غَےْرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَائِ وَاَخْبَارِ السَّمَائِ خعَّصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّیاً عَمَّنْ سِوَاکَ،وَعَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فیلَ سَوَائً ،ولَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بالصَّبْرِ وَنَھَےْتَ عَنِ الجَزَعِ ،لَاَ نْفَدْ نَا عَلَےْلَ مائَ النتُّؤُونِ ولَکَانَ الدَّائُ مُمَا طِلاً، وَالْکَمَدُمُحَالِفا ،وَقَلَّا لکَ ولٰکِنَّہُ مالا ےُمْلَکُ رَدُّہُ ،ولا ےُسْتَطَاعُ دَفْعُہُ ! بِاَبی انت اُمِّی! اذکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ،وَاجْعَلْنَا مِنْ بالِکَ ۔ ”٣٤
”یا رسول اللہ ! میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوں ،آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت ،الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہو اتھا ،آپ کا غم اہل بیت کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لیے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لیے عام ہواکہ سب برابر کے شریک ہو گئے ،اگر آپ نے صبرکا حکم نہ دیا ہو تا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہو تا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کر تا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہتا پھر بھی یہ گریہ و بکا اور حزن و اندوہ آپ کی مصیبت کے مقابلے میں کم ہو تا لیکن موت ایسی چیزہے جس کا پلٹانا کسی کے بس میں نہیں اور جس کا ٹال دنیا کسی کے اختیار میں نہیں ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان مالک کی بارگاہ میں ہمار ابھی ذکر کیجیے گا اور اپنے دِل میں ہمارا بھی خیال رکھیے گا ۔”
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
١۔ القرآن :سورہ الاحزاب ،آیت ٢١
٢۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٠،امامیہ پبلیکیشز١٩٩٩
نہج البلاغہ دکتر صبحی الصالح ،خطبہ ١٦٠،ص٢٢٦مرکز العبوث اسلامیہ ،ایران ١٣٩٥ء
٣۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٢
٤۔ القرآن ، آلعمران ،آیت ٨١
٥۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١،ص٩٠(بحار الا نوار ،١١،١٢)(بلاغ المبین ،ص٨٥)
٦۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١،ص٩٠
٧۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٢ ،ص٩٩
٨۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٩٣ ،ص٢٩٧
٩۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١٥٦ ،ص٤٢٧،خطبہ نمبر ١٨٩،ص٥٢٣
١٠۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٢٦ ،ص١٦٤۔١٦٥
١١۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١١٤ ،ص٣٤٣
١٢۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٩٤ ،ص٥٦٣۔٥٦٢
١٣۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١٤٥ ،ص٣٩٩
١٤۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٩٦ ،ص٥٧٠
١٥۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١١٤ ،ص٣٤٣
١٦۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٨٣ ،ص٥٠١
١٧۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٥٩ ،ص٤٣٥۔٤٣٤
١٨۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١١٠٦ ،ص٣١٩
١٩۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٢ ،ص٢٩٦
٢٠۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٤٥ ،ص٣٩٩
٢١۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٢ ،ص٢٩٦
٢٢۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٤ ،ص٢٩٨
٢٣۔ القرآن القلم ،آیت ٤
٢٤۔ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار ،ج ١٦ ،ص٢٨٧،ح١٤٢،موسئسہ الوفاء بیروت ،١٩٨٣ء
٢٥۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٧ ،ص٣٢٩۔٣٢٨
٢٦۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٥٨ ،ص٤٣٣۔٤٣٢
٢٧۔ القرآن ، آلعمران ،آیت ١٥٩
٢٨۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٣ ،ص٣١٢
٢٩۔ القرآن ،التوبہ ،آیت ١٢٨
٣٠۔ القرآن ،الکہف ،آیت ٦
٣١۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر٩٣ ،ص٢٩٧
٣٢۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر١٠٦ ،ص٣١٩
٣٣۔ نہج البلاغہ فصل فذکر فیہ شیئا ً من اختیار غریب کلامہ المتحاج الی التفسیر، حدیث ٩
٣٤۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر ٢٣٢،ص٦٤١۔٦٤٠
٭٭٭٭٭
مجلہ نور معرفت
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.