قرآن کریم میں قَسَم کی اقسام

1,004

” قرآن کریم میں قَسَموں (Oaths)کی أنواع ”(١)
قرآن کریم میں قَسَموں کے حوالے سے گذشتہ مقالے میں ہم نے بیان کیا تھاکہ ” کلام میں قَسَم کی کیا اہمیت ہوتی ہے ، قرآن کریم میں بہت سے موارد میں کیوں قسموں کو استعمال کیا گیا ہے ، اِن قرآن کریم کی قَسموں اور عام انسانی قَسَموں کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے ، نیز قرآن کریم میں قَسَموں کا فلسفہ اور فائدہ کیا ہے ” ،گذشتہ مقالے میں ہم نے ”قرآن کریم میں قَسَموں کی أنواع ” کے عنوان سے بھی گفتگو کرنی تھی ، لیکن بحث کی طوالت کے باعث اِس عنوان کو آئندہ پر موکول کر دیا تھالہٰذا اِس زیرِ نظر مقالے میں ہم اِسی مذکورہ عنوان سے بحث کریں گے ، ” قَسَم ” اپنی افادیت اور استعمال کی کیفیت کے لحاظ سے اِبتداء میں دو نوع میں تقسیم ہوتی ہے ، قَسَم یا صریح و ظاہر ہوتی ہے ،یا غیر صریح و مُضمَر ، اور پھر یہ دونوں أنواع مزید دو دو صورتوں میں تقسیم ہوتی ہیں ، ہم بحث کے طولانی ہونے کی وجہ سے اِن أنواع کو دو حصّوں میں پیش کریں گے :
قرآن کریم میں قَسَموں کی أنواعالف : صریح و ظاہر قَسَم :وہ نوع جو قَسَم کے لئے وضع کئے گئے ألفاظ کے ساتھ ہوتی ہے ، اور وہ ألفاظ جو قَسَم کے لئے وضع کئے گئے ہیں یا تو حرف ہیں ، جیسے : ( باء ، تاء اور واؤ ) اور یا وہ ألفاظ فعل ہیں ، جیسے :(حَلَفَ ، أَقْسَمَ ، آلَاوراِیْتَلیٰ) اور یا وہ ألفاظ اسم ہیں ، جیسے: ( یَمِیْن ، أَیْمُن اور عَمْر ) ۔لیکن وہ ألفاظ جو فقط قَسَم کے ساتھ اختصاص رکھتے ہیں اور قَسَم کے علاوہ معنیٰ نہیں دیتے ، وہ فقط فعلِ أَقْسَمَ اور أحْلَفَہیں ، اور قَسَم کے أسماء میں سے لفظِ یَمِیْن اور أَیْمُن اُس وقت قَسَم کا معنیٰ دیتے ہیں ، جب اِنکی اضافت لفظِ ”اَللّٰہ ”کی طرف ہو ، لیکن اگر یہ لفظ ِ” اَ للّٰہ” کے غیر کی طرف مضاف ہوں ، تو قرینہ کے ساتھ قَسَم پر دلالت کریں گے ، کیونکہ اِن دونوں لفظوں (یَمِیْن وأَیْمُن ) کے متعدِّد معنیٰ ہیں ۔ ١اِسی طرح لفظِ ” عَمْر ” قَسَم کے لئے عین کے زبر ( فَتْحَہ) کے ساتھ آتا ہے ، کیونکہ یہ صورت اِسکی دیگر دو صورتوں (عُمْر و عُمُر)کی نسبت خفیف اور آسان تر ہے ، اور اِس لحاظ سے کہ زبان عرب میں قسم کا استعمال بہت زیادہ ہے ، اسلئے لفظِ ” عَمْر ” کے لئے خفیف صورت کو اختیار کیا گیا ہے ٢ ، یہ لفظ قرآن کریم میں اِسی صورت میں فقط ایک بار استعمال ہوا ہے : ( لعَمْرکَ اِنَّھُم لَفِی سَکْرَتِھِم یَعمَھُونَ)٣ ” اے پیغبرۖ ! آپکی عمر اور زندگی کی قسم کہ یہ لوگ سخت غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ”بعض لغت شناس اِس بات کے قائل ہیں کہ لفظِ ” عَمْر ” لفظِ ”اَللّٰہ” کی طرف مضاف نہیں ہوتا ، کیونکہ اِسکا معنیٰ ” زندگی اور حیات ” ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ” زندگی اور حیات ” کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے ، کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جس کا وجود اَزَلی ہے ، اور یہ لفظ اُسکے لئے میں استعمال ہوتا ہے کہ جس کیلئے حیات کا ہونا اور پھر ختم ہو جانا ، قابلِ تصوُّر ہو، لیکن اگر اِس لفظ ”عَمْر ” کا معنیٰ ” بقاء اور دوام ” قرار دیں ، تو اِس صورت میں اِسکی اضافت ذاتِ پروردگار عالم کی طرف بلا شکّ و شبہ کوئی مانع نہیں رکھتی ، اسلئے ہم اِس لفظ کا استعمال عربی أشعار میں ، لفظِ ” اَللّٰہ ” کی طرف اضافت کے ساتھ دیکھتے ہیں ، جیسے :اِذٰا رَضِیَتْ عَلیَّ بَنُو قُشَیْرٍ لَعَمْرُاللّٰہِ أَعْجَبَنی رِضٰاھٰا ٤” جب قبیلہ بنو قشیر مجھ سے راضی ہو جائے گا ، تو اللہ کی بقاء و دوام کی قَسَم ، اُنکا راضی ہونا مجھے تعجُّب میں ڈالے گا۔”یہ لفظ ”عَمْر ” زیادہ تر مخاطب کی ضمیر ” کاف ” اور یا متکلِّم کی ضمیر ” یاء ” کی طرف مضاف ہوتا ہے ، اور اگر لامِ ابتداء ، اِس لفظ پر داخل ہو ، تو مبتداء ہونے کی بناء پر مرفوع ہوتا ہے ، کیونکہ یہ لام ، کلام کی صدارت اور ابتداء چاہتا ہے ، اور اگر یہ لفظ لام ابتداء سے خالی ہو تو پھر یا تو مبتداء یا خبر ہونے کی بناء پر مرفوع ہوتا ہے ، (اور مبتداء یا خبر میں سے کسی کو ترجیح حاصل نہیں ہے ) اور یا یہ لفظ عاملِ جرّ کے حذف ہونے کی بناء پر منصوب ہوتا ہے ، جسے اصطلاحاً ” مَنْصُوْب بِنَزْعِ الْخٰافِضِ” کہتے ہیں اور حقیقت میں ” أُقْسِمُ بعَمْرِکَ” تھا اوراس سے فعلِ قَسَم اور حرفِ جرّ حذف ہو گئے ہیں ۔ ٥بعض اِس بات کے قائل ہیں کہ صریح اور ظاہر قَسَم وہ ہوتی ہے ، جس میں فعل قَسَم ، حروف قَسَم اور مُقْسَم بِہ( وہ چیز کہ جس کے ساتھ قسم کھائی گئی ہو )ذکر ہوئے ہوں، اور یا کم از کم اِن اُمور میں سے اکثر ذکر ہوئے ہوں ،اِس طرح سے کہ فعلِ قَسَم حذف ہوگیا ہو ، اور واؤِ قَسَم اُس فعل کے حذف ہونے پر دلالت کرے ، جیسے کہ قرآن کریم کی اکثر صریح اور ظاہر قسموں میں اِسی طرح سے ہے ۔٦نیزصریح و ظاہر قَسَم دو طرح کی ہوتی ہے :
اوّل :وہ قَسَم جو جملہ خبریہ کی تاکید کیلئے آتی ہے ، اور اُس خبر کی ، جو جوابِ قسم میں ہوتی ہے ،تاکید کرتی ہے ، اور قَسَم کی یہ نوع بہت زیادہ رائج اور مشہور ہے نیز یہی نوع قرآن کریم کی تمام صریح اور ظاہر قَسَموں کو شامل ہے ۔
دوم :وہ قَسَم جو جملہ اِنشائیہ کی تاکید کرتی ہے ، اور طلب ، سؤال ، أمر و نہی وغیرہ کیلئے آتی ہے ، اور قَسَم کی اِس نوع کو ” قسمِ استعطافی ” بھی کہتے ہیں ، جیسے : ” بِاللّٰہِ ھَلْ زَیْد قٰائِم؟” اور یہ قَسَم ، ہر صورت میں حرف ” باء ” کے ساتھ آتی ہے اور اِسکا استعمال بہت کم ہے ، نیزقرآن کریم میں اصلاً استعمال نہیں ہوئی ہے ۔ ٧
قرآن کریم میں قَسَم کے ألفاظزبانِ عرب میں زیادہ تر چار ألفاظ (قَسَم ، حَلْف ، یَمِیْن اور اَلِیَّة ) کے ذریعہ قَسَم کھائی جاتی ہے ، اور یہ چاروں لفظ کسی نہ کسی انداز میں قرآن میں استعمال ہوئے ہیں ، اِن چاروں ألفاظ میں سے ہر ایک کے غور سے سمجھنے اور اِنکے استعمال کو جاننے کے لئے ہم اِن چاروں ألفاظ کی بطور اختصار وضاحت پیش کرتے ہیں :
١۔ لفظِ قَسَم :عربی زبان میں (ق س م)کا مادّہ دو معنی کے لئے آتا ہے ، اگر سین کے سکون کے ساتھ(قَسْم)ہو تو اِسکا معنی ” مال کے کسی حصّے کا جزء جزء کرنا، یامال سے ہر ایک کے حصّے کو جدا کرنا” ہے ، اور اسکی جمع ”اَقسام ”آتی ہے ، لیکن اگر یہ مادّہ سین کے فتحہ کے ساتھ(قَسَم) ہو ، تو پھر بھی اسکی جمع ”اَقسام ” ہی ہے ،(جیسے: سَبَب و أَسْبٰاب)، اور اِس وقت اِسکا معنی ” قسم کھانا ” ہیں ۔ ٨اِس مادّہ (قَسَم) سے جو أفعال ، قَسَم کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ، وہ باب اِفعال (أَقْسَمَ)، باب مفاعلہ (قٰاسَمَ) جیسے : (و قٰاسَمَھُمٰا اِنّی لَکُمٰا لَمِنَ النّٰاصِحِیْنَ) ٩ ” اور (شیطان نے ) اُن دونوں سے قَسم کھائی کہ میں تمھیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں ” ، یہاں یہ فعل بابِ مفاعلہ سے دو نفر کے درمیان مشترک نہیں ہے ، بلکہ ” سٰافَرْتُ شَھْراً ” ]میں نے پورے ایک ماہ سفر کیا [ کی طرح ہے ، اور احتمالِ قوی یہ ہے کہ یہاں یہ فعل مبالغہ کیلئے آیا ہو، مبالغہ کی صورت میں آیت کا معنیٰ اِسطرح ہو گا ، ” اُس نے تاکیداً قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا یقینا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں ” ، لیکن اِس بات کا امکان بھی ہے کہ باب مفاعلہ ”قٰاسَمَھُمٰا” اِس آیت میں طرفین کے لئے (مشترک) ہو ، اور حضرت آدم و حوّا کے شیطان کی بات سننے کی وجہ سے ، یا اُسکی بات کو قبول کرنے کی وجہ سے ، اور یا اُس سے قسم کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے یہ فعل استعمال ہوا ہو ، نیز باب اِفتعال (اِقْتَسَمَ)، باب تفاعل (تَقٰاسَمَ) ، اور باب استفعال (اِسْتَقْسَمَ)بھی اِسی مادۂ قَسَم سے ، قسم کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ، لیکن قرآن کریم میں زیادہ تر باب اِفعال کے طور پرہی استعمال ہوا ہے ۔ ١٠” راغب اصفہانی ” اِ س لفظ کے بارے میں لکھتے ہیں ، ” قَسَم کی اصل ” قَسٰامَة” ہے اور ”قَسٰامَة” اُس قسم کو کہتے ہیں کہ جسے مقتول کے ورثہ پر تقسیم کیا جاتا ہے ، کیونکہ اُنھوں نے یہ دعویٰ کیا ہوتا ہے ، مثلاً کہ زید نے عمرو کو مارا ہے ، تو ضروری ہے کہ عمرو کے ورثہ میں سے ہر ایک ، قتل کا گواہ و شاہد نہ ہونے کی صورت میں ، اپنے اِس دعوے پر قسم کھائے۔” ١١بعض اِس بات کے قائل ہیں کہ ” قَسٰامَة ” وہ قَسَم ہے کہ جو مقتول کے خون کے وارثوں میں سے پچاس افراد ، اپنے مقتول کے خون کے استحقاق پر کھاتے ہیں ، اُس وقت جب وہ قاتل کو کسی ایک قوم میں سے قرار دیں ، لیکن قاتل کو مشخَّص طور پر نہ جانتے ہیں ، اور اگر مقتول کے خون کے وارثوں میں سے پچاس أفراد نہ ہوں ، تو جو موجود ہوں ، ضروری ہے کہ وہ پچاس قَسَمیں پوری کریں ، اور پھر یہ ” قَسٰامَة ” اسم ہو گیا ہے ہر اُس قسم کیلئے ، جو اپنے حق کے ثابت کرنے اور لینے کیلئے کھائی جائے ۔ ١٢لفظِ ” قَسَم ” اسم مصدر ہے یا حاصل مصدر اور یہ لفظ اپنے مختلف مشتقّات کے ساتھ 33بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے ، اور اکثر اِسکا استعمال قسم ہی کے معنیٰ میں ہوا ہے ، یہ لفظ فعل ماضی(أَقْسَمَ) کے طور پر تقریباً 8 بار اور فعل مضارع (یُقْسِمُ اور اِسکی جمع) کی مختلف صورتوں میں تقریباً 12بار ذکر ہوا ہے ١٣ ، اور ” ڈاکٹر خلیف ” کایہ خیال ہے کہ یہ مادّہ ” قَسَم” فقط مکّی آیات کے ساتھ اختصاص رکھتا ہے ۔ ١٤بعض محقّقین نے اِس مادّہ” قَسَم” کے دونوں معنی (جداجدا کرنا اور قَسَم کھانا)کے درمیان تعلُّق و اِرتباط بر قرار کیا ہے ، اُنھوں نے دوسرے معنی ، یعنی ” قسم کھانے ” کو پہلے معنی”جداجدا کرنے ” کی طرف پلٹایا ہے، اِسطرح سے کہ قسم بھی حق و باطل کوجدا جدا کرتی ہے اور اِن دونوں کے درمیان فاصلہ ڈالتی ہے، اور نزاع (جھگڑے ) وغیرہ میں دوسروں سے اپنا حق لینے کیلئے کھائی جاتی ہے ۔پس دونوں معنیٰ کی بازگشت ایک ہی مطلب کی طرف ہے ۔١٥
٢ ۔ لفظِ حَلْف :اِس مادّہ (ح ل ف) کے لئے بھی اصلی اور بنیادی طور پر دو معنی وجود رکھتے ہیں ، ایک قَسَم اور دوسرا عہد و پیمان، اور اِس دوسرے معنیٰ کی بازگشت بھی قَسَم ہی کی طرف ہے ، البتّہ کبھی لفظِ ” حَلْف ” تیز دھار چیز کے معنیٰ میں آتا ہے، ( جیسے لفظِ ” قَسَم ” جو قطع اور تقسیم کرنے کے معنیٰ میں آتا ہے ) کہا جاتا ہے ، ”سِنٰانُ حَلِیْف ” (یعنی تیز دھار تلوار ) اور ” لِسٰانُ حَلِیْف ” (یعنی کاٹنے والی زبان ) اور لفظ ِ ”حَلْف ”کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے: (حَلْف و حَلِف)،لیکن دونوں قَسَم کا معنیٰ دیتے ہیں ، حَلْف کا اصل معنی ” اَلْعَقْدُ بِالْعَزْمِ ” ( یعنی محکم اور مضبوط نیت و عقیدہ ) ہے ، اور ” حٰالِف ، حَلّٰافاور حَلّٰافَة ” ( بہت زیادہ قسم کھانے والا) کے معنی میں ہیں ، اور” أَحْلَفَ ، حَلَّفَ اور اِستَخْلَفَ ” تینوں فعل، قسم کی درخواست اور طلب کرنے کے معنیٰ میں آتے ہیں ۔ ١٦بعض محقِّقین نے اِس لفظ کو ” حاء ” کے فتحہ و کسرہ کے ساتھ بھی بیان کیا ہے (حَلْف و حِلْف) لیکن دونوں قَسَم ہی کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ، اور یہ ”حَلْف ” ایسی قَسَم ہے، جس کے ساتھ عہد و پیمان لیا جاتا ہے ، لیکن عرفِ عام میں ہر قَسَم کے لئے استعمال ہو تا ہے ، اور یہ لفظ ”دوام اور پائیداری ” کا معنیٰ بھی اپنے ہمراہ رکھتا ہے ، کہا جاتا ہے ، ” حَلَفَ فُلٰان وَ حَلِیْفُہ ” جب کوئی کسی دوسرے کے ساتھ قسم اور عہد و پیمان میں شریک ہو ۔ ١٧لفظِ ” حَلْف” اپنے مختلف مشتقّات کے ساتھ 13بار قرآن کریم میں آیاہے ، اور صرف ایک بار اسم مبالغہ کی صورت میں آیا ہے : (وَلٰا تُطِعْ کُلَّ حَلّٰافٍ مَھِیْنٍ)١٨ ، ” تو اے پیغمبر ۖ اُن منافقوں کی جو ہمیشہ قسم کھاتے رہتے ہیں ، اطاعت نہ کرنا ” ، اور باقی موارد میں بصورت فعل ذکر ہوا ہے ۔کیا لفظِ ” قَسَم ” اورلفظِ ” حَلْف” آپس میں مترادف ہیںبعض یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ لفظِ ” قَسَم ” اورلفظِ ” حَلْف” دونوں مترادف ہیں اور دونوں ایک ہی معنیٰ کو بیان کرتے ہیں١٩ ، لیکن دوسرے بعض اِس مترادف ہونے کو قبول نہیں کرتے ، کیونکہ لفظِ ” حَلْف ” قرآن کریم میں جن 13مقامات پر استعمال ہوا ہے ، بغیر کسی استثناء کے ، تمام موارد میں یا جھوٹی قسم کیلئے استعمال ہوا ہے ، اور یا قسم کھاکر توڑ دی گئی ہے ، اور اکثر موارد میں فعلِ ” حَلْف ” کی نسبت منافقین کی طرف ہے ۔علاوہ یہ کہ اِن میں سے گیارہ موارد میں یہ فعل ، فعلِ مضارع کی صورت میں آیا ہے ، جو کسی کام کے حادث ہونے اور مجدَّداً انجام پانے پر دلالت کرتا ہے ، یعنی فعلِ مضارع کی دلالت قسم کھانے والوں کے اپنی قسم پر ثابت قدم نہ ہونے پر ہے ، جیسے” وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ وَ مَا ھُمْ مِنْکُمْ” ٢٠ ، ” اور وہ (منافقین) ہمیشہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ بھی یقینا تم مومنین سے ہیں ، حالانکہ باطن میں تم سے ہم عقیدہ نہیں ہیں۔ ”فقط ایک مقام پر لفظِ ” حَلْف ” فعلِ ماضی کی صورت میں آیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :” ذٰٰلِکَ کَفّٰارَةُ أَیْمٰانِکُمْ اِذٰا حَلَفْتُمْ” ٢١ ، ” یہ ہے تمھاری قسموں کا کفارہ ، جب تم نے قسم کھائی ،(اور پھر توڑ ڈالی) ” ،اورقرآن کریم میں فقط یہی ایک مورد ہے ، جس میں فعلِ ” حَلْف ” کی ضمیر کی بازگشت مومنین کی طرف ہے ، لیکن اِس مقام پر بھی لفظِ ”حَلْف ” سے قسم کھانے (اور بعد میں توڑ دینے ) کی بناء پر قسم کا کفّارہ اُن پر مقرَّر کیاگیا ہے ٢٢ اور قرآن کریم نے بھی اِس ٹوٹی ہوئی قسم کو ” حَلْف ” سے تعبیر کیا ہے۔” ڈاکٹر عایشہ بنت الشاطی ” قَسَم اور حَلْف کے مترادف ہونے کو ردّ کرتے ہوئے لکھتی ہیں : لفظِ ” حَلْف ” بغیر کسی استثناء کے تمام موارد میں قسم توڑنے کے لئے آیا ہے ، لیکن لفظِ ” قَسَم” خواہ اِس فعل کی نسبت خداوند عالم کی طرف ہو ، یا خواہ اُس کے غیر کی طرف ، کہیں بھی اِس لفظ میں قسم کے توڑنے کا احتمال نہیں ہے ،پس اِندو نوں لفظوں میں کوئی ترادُف و یکسانیت نہیں ہے۔٢٣” جناب مختار سلامی ” ڈاکٹر عایشہ کی اس بات کا ، کہ لفظ ِقَسَم اور حَلْف ، آپس میں مترادِف نہیں ہیں ، جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :” چار مقامات ایسے ہیں جہاں غیر خدا کی طرف لفظِ ” قَسَم ” سے قسم کھائی گئی ہے ، اور اِن مقامات میں یا جھوٹی قسم کھائی گئی ہے اور یا قسم کے توڑنے کا احتمال موجود ہے،اور اگر اِن موارد کے مضمون و سیاق میں غور و فکر اور توجّہ کی جائے ، تو واضح ہوجاتا ہے ، کہ اِن میں سے اکثر موارد میں جھوٹی قسم کھائی گئی ہے ، جیسے : (۔۔۔ فَیُقْسِمٰانِ بِاللّٰہِ اِنْ ارْتَبْتُمْ لٰا نَشْتَرِیْ بِہ ثَمَناً۔۔۔)٢٤ ، ” اُن کو اللہ کی قسم دیں کہ ہم گواہی کیلئے ہرگز کوئی قیمت نہیں چاہیں گے” ، لیکن بعد والی آیات اس پر گواہ ہیں کہ یہ جھوٹی قسم ہے ، اور ابن جریر طبری نے اِس قسم کو ” فاجِرہ قسم ”سے تعبیر کیا ہے ٢٥ ، نیز اِسی طرح ایک دوسرے مقام پر لفظ ِ ” قَسَم ” سے قسم کھائی گئی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 🙁 وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ المُجْرِمُوْنَ مٰا لَبِثُوْا غَیْرَ سٰاعَةٍ کَذٰلِکَ کٰانُوْا یُؤْفَکُوْنَ ) ٢٦ ،” وہ دن جب قیامت برپا ہو گی ، مجرمین قسم کھائیں گے ، کہ وہ ایک ساعت (ایک گھنٹہ یا ایک گھڑی بھر ) سے زیادہ دنیا میں نہیں رہے ہیں ، اور وہ اِسی طرح سچّ اور حقیقت کی جگہ جھوٹ اور خلاف ِواقع بیان کرتے ہیں ” ، اِس آیت کا ذیل اِس قسم کے جھوٹے ہونے کو بیان کرتا ہے ، اور ” راغب اصفہانی ” کے مطابق ”یُؤْفَکُوْنَ” کا معنی ”اعتقادات میں حق سے باطل کی طرف پھرنا اورانحراف پیدا کرنا ہے ، اور نیز گفتار میں سچّ سے جھوٹ کی طرف پھرنا ہے۔” ٢٧پس ” قَسَم اور حَلْف ” دونوں ألفاظ میں تمام اہل لغت کے نزدیک ترادُف و یکسانیت پائی جاتی ہے اور عربی زبان میں مترادِف ألفاظ کا ہونا قابلِ انکار بھی نہیں ہے ، اور ایسے ألفاظ کا لغتِ عرب میں واقع ہونا ، خود ترادُف کے ممکن ہونے پر دلیل ہے ، عربی زبان میں ترادُف پیدا ہونے کا سبب ، موسمِ حجّ میں مختلف أقوام و قبائل کا مکّہ آنا ، اور اہل مکّہ و قریش والوں کے ساتھ لین دین اور دیگر معاملات انجام دینا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف زبانوں کے کلمات اور ألفاظ قریش کی لغت میں شامل ہو گئے ، اور قریش کے شعراء بھی اِن کلمات کو اپنے أشعار میں استعمال کرنے لگے، اور کیونکہ قرآن کریم بھی قریش کی زبان میں نازل ہوا ، لہٰذا اب یہ دونوں لفظ (قَسَم اور حَلْف ) ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اِن دونوں کے درمیان مکمل طور پر ترادُف حاصل ہو گیا ہے ۔٢٨
٣ ۔ لفظِ یمین :اِس کا مادّہ اصلی (ی م ن) ہے ، اور ” اَلْیُمْنُ ” کا معنیٰ ” برکت ” ہے اور نون سے پہلے یاء زیادہ کرنے سے ، لفظِ ”یَمِیْن ”بنتا ہے ، جو ” فَعیل ” کے وزن پر ہے ، اور اِس کے متعدّد معنیٰ ہیں ،جیسے : انسان کا سیدھا ہاتھ ، یا اُسکی سیدھی طرف ، یا اُسکی قدرت و طاقت ، یا مقام و منزلت وغیرہ، و نیز اِس لفظ کے معانی میں سے ایک معنیٰ ”قَسَم ” بھی ہے اور یہ لفظ لفظاً مؤنث ہے اور اِسکی جمع ” أَیْمَن و أَیْمٰان ” آتی ہیں ، لفظِ ” أیْمُن” میم کے ضمّہ کے ساتھ ، ” قَسَم ” کیلئے وضع کیا گیا ہے ، اور کبھی لامِ تاکید اِس پر داخل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے ، ”لَیْمُنُ اللّٰہِ ” اور اِس صورت میں اِسکا الف (ہمزۂ وصل ) ابتداء سے حذف ہو جاتاہے ، اور یہ ”لَیْمُنُ اللّٰہِ”ابتداء کی وجہ سے مرفوع ہے اور اِسکی خبر محذوف و مقدَّر ہوتی ہے ، اور اصل میں ”لَیْمُنُ اللّٰہِ قَسَمِی” تھا ۔٢٩کبھی لفظِ ” أَیْمُن ” سے نون حذف ہو جاتا ہے اور پڑھا جاتا ہے ، ” أیْمُ اللّٰہِ” اور ہمزہ کا کسرہ ” اِیْمُ اللّٰہِ ” بھی ذکر ہوا ہے ، اور بعض درمیان کی یاء بھی حذف کر دیتے ہیں، جیسے :” أَمُ اللّٰہِ ” ، اور کبھی فقط میم کو باقی رکھتے ہیں ، جیسے : ” مُ اللّٰہِ” اور بعض میم کی باء کے ساتھ شباہت کی وجہ سے میم کو کسرہ دیتے ہیں ، جیسے : ” مِ اللّٰہِ ”۔ اِ س لفظ ” أَیمُن ” کی مختلف صورتوں میں سے ” مِنِ اللّٰہِ ” بھی ہے ، جس کو تینوں طرح سے قسم کے اسلوب میں استعمال کیا جاتا ہے ، یعنی میم اور نون کے ضمّہ کے ساتھ ،” مُنُ اللّٰہِ ” اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ ” مَنَ اللّٰہِ ” اور دونوں کے کسرہ کے ساتھ ” مِنِ اللّٰہِ ” ۔٣٠لفظِ ” یَمِیْن” سے کوئی ایسا فعل مشتق نہیں ہوتا ،جو قسم کے معنیٰ پر دلالت کرے اور زمانے کے ساتھ بھی ملا ہوا ہو، اسلیئے نہیں کہا جاتا : ” یَمَنَ یا أَیْمَنَ” ، قرآن کریم میں یہ لفظ اسم کے طور پر مفرد ، جمع ، اسم تفضیل اور اسم مفعول کی صورت میں استعمال ہوا ہے، اور قرآن کریم کے استعمال کے موارد میں زیادہ تر سیدھے ہاتھ ، سیدھی جانب اور کسی کے مقام و منزلت کے بیان کرنے کے لئے آیا ہے ،اور قرآن کریم میں یہ لفظ ، قسم کے معنیٰ میں اکثر جمع (أَیْمٰان) کی صورت میں آیا ہے ، اور پانچ مقامات پر اِس طرح سے بیان ہوا ہے ، جیسے : (وَ أَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ أَیْمٰانِھِمْ) ٣١ ، ” اور انھوں نے اللہ کی سخت و پختہ قسم کھائی ” ، اور یہ روش و طریقہ سخت تاکید اور محکم قسم کو بیان کرتا ہے ۔بعض محقّقین لفظِ ” یَمِیْن ” کے اسلوب اور روش قسم میں استعمال کے بارے میں لکھتے ہیں : جو بھی یہ چاہتا تھا کہ قسم کھائے ، یا اپنے اور کسی دوسرے کے درمیان کوئی عہد و پیمان بر قرار کرے ، تو وہ دوسرے سے سیدھا ہاتھ ملاتا تھا ، اور دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں کو دباتے تھے ، اِس طرح گویا وہ اپنے عہد و پیمان کو مضبوط اور پختہ کرتے تھے،اور کیونکہ یہ ”یَمِیْن ” کا لفظ ” یُمْن ” کے مادّہ سے لیا گیا ہے ، جس کا معنیٰ ” برکت ” ہے ، لہٰذا ” یَمِیْنُ اللّٰہِ ” کہنے کے ساتھ کام میں برکت حاصل ہو جاتی ہے ، نیز دونوں کے سیدھے ہاتھ کا ایک دوسرے میں ہونا ، ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کی حمایت کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ۔ ٣٢
٤ ۔ لفظِ ألیّة:”أَلِیَّة ” ، فَعْلِیَة کے وزن پر ہے اور اِسکی جمع ”أَلٰایٰا”آتی ہے ، یہ لفظ بھی ” قسم ” کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ،یعنی ” آلَیْتُ” بمعنی ” حَلَفْتُ” ہے ، اور یہ لفظ قرآن کریم میں فقط دوبار استعمال ہوا ہے ،ایک بار بابِ افعال اور ایک بار باب اِفتِعال کی صورت میں آیا ہے ، جیسے :(وَ لٰایَأْتَلِ اُوْلُوْا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَ السَّعَةِ)٣٣ ،”تم میں سے صاحبانِ ثروت اور مال (بخشش اور تفضُّل ) کے ترک کرنے پر قسم نہ کھائیں ”، بعض نے اس ” وَلٰایَأْتَلِ” کو بابِ تفعُّل سے ”وَ لٰایَتَأَلّیٰ ” قرائت کیاہے ، لیکن مشہورقرّاء نے ” وَلٰایَأْتَلِ” ہی قرائت کیا ہے ۔شریعتِ مقدّسِ اسلام میں ” اِیلاء ” وہ قسم ہے ، جو شوہر اپنی بیوی سے مباشرت و ہمبستری ترک کرنے پر کھاتا ہے ، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :(لِلَّذِیْنَ یُوْلُوْنَ مِنْ نِسٰائِھِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أشْھُرٍ)٣٤ ،” وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ ایلاء کرتے ہیں (اور اُن سے مباشرت ترک کر نے پر قسم کھاتے ہیں ) اُنکے لئے چار ماہ انتظار کرنا ہے ” ،لیکن کبھی کسی کام سے بغیر شرط ہاتھ اُٹھا لیا جاتا ہے اور اس کو بھی ” اِیلاء ” کہتے ہیں ، لہٰذا یہ لفظ قسم کے معنیٰ میں وسعت پا گیا ہے ، اور قسم کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، اسلئے عربی اشعار میں کثرت سے استعمال ہوا ہے ٣٥ ،بعض لفظِ ” أَلِیَّة ” کو قَسَم کا معنیٰ دینے میں قَسَم کی صریح اور ظاہر نوع سے جانتے ہیں ، لیکن دوسرے بعض اِس لفظ کو قَسَم کے فعل کا قائم مقام قرار دیتے ہیں ، کیونکہ یہ لفظ اسلوبِ قسم میں بہت کم استعمال ہوا ہے ۔پس ” قَسَم ” کے اِن چاروں ألفاظ کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ کو بیان کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ قسم کھانے کے لئے کوئی خاص لفظ نہیں ہے ، بلکہ مختلف اسلوب و روشیں موجود ہیں ، جو ” قَسَم ”کے معنیٰ کا فائدہ دیتے ہیں ، اور حقیقت میں ” قَسَم ” کا اصلی مقصد ، خبر کو صحیح قرار دینا اور خبر پر تاکید کرنا ہوتا ہے ، لہٰذا ہر وہ لفظ جو اِس مقصد کو مکمل طور پر پورا کرے ، نحویین اُس جگہ قَسَم کو (اگر ظاہر نہ ہو تو ) مقدَّر مانتے ہیں ۔اِس لئے” علّامہ محمد حسین طباطبائی ” نے ” قَسَم ” کی تعریف اِس طرح کی ہے : ”خبر اور اِنشاء میں سے کسی ایک کے ، کسی دوسری ایسی چیز کے ساتھ ، جو شرافت اور اَرزش کی قابلیت رکھتی ہو ، ایک خاص طرح کا تعلُّق اورارتباط پیدا کرنا ”۔ ٣٦(جاری ہے)seydaqeel@yahoo.com…………………………………حوالہ جات١ ۔ علی ابو القاسم عون،اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْمِ ،، منشورات جامعة الفاتح ، ١٩٩٢م، ص١٢٨٢ ۔ مصدر سابق ص١٣٢٣ ۔ سورۂ حجر ، آیت ٧٢٤ ۔ ابو حیان اندلسی ، اَلْبَحْرُ الْمُحِیْطُ فی التَّفْسِیْرِ ، ج٦، بیروت ۔ دار الفکر ، ١٤١٢ہجری ، ص ٤٩٠٥ ۔ رجوع کریں : محمد المختار السلامی ،اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ ، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الغرب الاسلامی ، ١٩٩٩ م ، ص ٤٦٦ ۔ منّاع القطان ، مَبٰاحِث فی عُلُوْمِ الْقُرآنِ، الطبعة الرابعة ، بیروت ، مؤسَّسة الرسالة ، ١٣٩٦ق ، ص ٢٩٣ ؛ شعبان محمد اسماعیل ، اَلْمَدْخَلُ لِدِرٰاسَةِ الْقُرآنِ وَ السُّنَّةِ وَ الْعُلُوْمِ الْاِسْلٰامِیَّةَ، ج 1، الطبعة الاُولیٰ ، مصر ,دار الانصار ، ١٤٠٠ ق ، ص ٥٠٢٧ ۔ کاظم فتحی الراوی ، أَسٰالِیْبُ الْقَسَمِ فی الْلَغَةِ الْعَرَبِیَّةَ، الطبعة الاُولیٰ ، بغداد ، الجامعة المستنصریّة ، ١٣٩٧ء ، ص ٣٤٨ ۔ خلیل ابن احمد الفراھیدی ، کِتٰابُ الْعَیْنِ ، ج ٥ ،بیروت دار الکتب العلمیة ، ١٤٢٤ ق ، ص ٨٦ ؛ راغب اصفہانی ، اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، چاپ دوم ، دفتر نشر کتاب، ١٤٠٤ق ، ص ٤٠٣ ؛ابن منظور ، لِسٰانُ الْعَرَبِ، ج ١٢ ،قم مقدس ، نشر ادب الحوزة ، ١٤٠٥ ق ، ص ٤٧٨٩ ۔ سورۂ اعراف ، آیت ٢١١٠ ۔ رجوع کریں : اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ٢٤ ؛ سید علی اکبر قرشی ، قاموس قرآن ، ج ٦، تہران ، دار الکتب الاسلامیة ، بدون ِ تاریخ ، ص ٧١١ ۔ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ٤٠٣١٢۔ رجوع کریں : اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم، گذشتہ ، ص ٣٤ ؛ لِسٰانُ الْعَرَبِ ، ج ١٢ ، گذشتہ ، ص ٤٨١١٣ ۔ رجوع کریں : اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ٢٤ ؛ اَلْمَدْخَلُ لِدِرٰاسَةِ الْقُرآنِ وَ السُّنَّةِ وَ الْعُلُوْمِ الْاِسْلٰامِیَّة، ج ١، گذشتہ ، ص ٤٩٩١٤ ۔ ڈاکٹر یوسف خلیف ، دِرٰاسٰات فی الْقُرآنِ وَ الْحَدِیْثِ ، مصر ، دار غریب للطباعة ، بدون ِتاریخ ، ص ٢١٢١٥ ۔ رجوع کریں :اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم، گذشتہ ، ص ٣٤١٦ ۔ لسان العرب ، ج ٩، گذشتہ ، ص ٥٣ ؛ کتاب العین ، ج 3، گذشتہ ، ص ٢٣١ ؛ شیخ أمین بکری ، اَلتَّعْبِیْرُالْفَنِّیُّ فی الْقُرآنِ الْکَرِیْمِ ،ا لطبعة الثانیة ، بیروت ، دار الشروق ، ١٣٩٦ق ، ص ٢٤٨ ؛ اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم، گذشتہ ، ص ٣٥-٣٦١٧ ۔ قاموس قرآن ، ج ٢،گذشتہ ، ص ١٦٥ ؛ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ١٢٩١٨ ۔ سورۂ قلم ، آیت ١٠١٩ ۔ اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْمِ، گذشتہ ، ص ٣٧ ؛ اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ٢١ تا ٢٣، ص ٢٦ اور ص ٣٠٢٠۔ سورۂ توبہ ، آیت ٥٦ ؛ نیز رجوع کریں : سورۂ توبہ ، آیت ٧٤٢١۔ سورۂ مائدہ ، آیت ٨٩٢٢ ۔رجوع کریں : سورۂ مائدہ ، آیت : ٨٩، ” قسم کے اِس کفارے میں تخییر کی بھی رعایت کی گئی ہے اور ترتیب کی بھی ، پہلے تین چیزوں کے درمیان تخییر ہے ، دس مسکینوں کو کھانا کھلائے ، یا دس مسکینوں کو لباس پہنائے ، اور یا ایک غلام آزاد کرے ، اور اگر اِن تینوں میں سے کوئی بھی ممکن نہ ہو ، تو پھر تین دن پے در پے روزہ رکھے۔”٢٣۔ عایشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی ، اعجاز بیانی قرآن ،مترجم: حسین صابری ، تہران ، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی ، ١٣٧٦ ش ، ص ٢٣٣ تا ٢٣٧ ؛ نیز رجوع کریں : دِرٰاسٰات فی الْقُرآنِ وَ الْحَدِیْث ، ص ١١٢٢٤۔ سورۂ مائدہ ،آیت ١٠٦؛ نیز رجوع کریں : سورۂ مائدہ ، آیت ٥٣ ؛ سورۂ قلم ، آیت ١٧ ؛ سورۂ روم ، آیت ٥٥٢٥ ۔ محمد ابن جریر الطبری ، جٰامِعُ الْبَیٰانِ عَنْ تَأْوِیْلِ آیِ الْقُرآنِ ، ج ٧ ، بیروت ، دار الفکر ، ١٤١٥ ق ، ص ١٣٧٢٦ ۔ سورۂ روم ، آیت ٥٥٢٧ ۔ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ١٩٢٨ ۔ اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ، گذشتہ ، ص ٢٦و٣٠؛ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآن ، گذشتہ ، ص ٤٠٣٢٩ ۔ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص ٥٥٢-٥٥٣؛ لِسٰانُ الْعَرَبِ ، ج ١٣ ، گذشتہ ، ص ٤٦٢٣٠ ۔ لِسٰانُ الْعَرَبِ، ج ١٣ ، گذشتہ ، ص ٤٦٢٣١ ۔ سورۂ انعام ، آیت ١٠٩؛ نیز رجوع کریں : سورۂ مائدہ ، آیت ٥٣؛ سورۂ نحل ، آیت ٣٨؛ سورۂ نور ، آیت ٥٣ ؛ سورہ فاطر ، آیت ٤٢٣٢ ۔ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ، گذشتہ ، ص ٥٥٣ ؛ قاموس القرآن، ج ٧، گذشتہ ،ص ٢٧٣ ؛ فخر الدین الطریحی ، مَجْمَعُ الْبَحْرَیْنِ، ج ٤، تحقیق : سید احمد حسینی ، الطبعة الثانیة ، بدون ِتاریخ ، مکتبة نشر الثقافة الاسلامیة ، ١٤٠٨ق ، ص ٥٨٢ ؛ عبد الحمید الفراہی ، أَمْعٰان فی أَقْسٰامُ الْقُرآنِ ، القاہرة ، المطبعة السلفیة و مکتبتھا ، ١٣٤٩ ق= ١٩٣٠ء ، ص ١٤٣٣ ۔ سورۂ نور ، آیت ٢٢٣٤۔ سورۂ بقرہ ، آیت ٢٢٦٣٥ ۔ اَلْمُفْرَدٰاتُ فی غَرِیْبِ الْقُرآنِ ، گذشتہ ، ص٢٢ ؛ أَمْعٰان فی أَقْسٰامُ الْقُرآنِ ،گذشتہ، ص ١٨ و ٢٠ ؛ اَلتَّعْبِیْرُالْفَنِّیُّ فی الْقُرآنِ الْکَرِیْم ،ص ٢٤٨٣٦ ۔ محمد حسین طباطبائی ، اَلْمِیْزٰانُ فی تَفْسِیْرِ الْقُرْٰانِ، ج ٦، قم المقدَّسہ ، جماعة المدرِّسین فی الحوزة العلمیّة ، بدون ِ تاریخ ، ص ٢١٨
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.