اگر مہدى عج مشہور ہوتے؟
اگر مہدى مشہور ہوتے؟
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ اگر مہدى موعود كى شخصيت اتنى ہى مشہور ہوتى اور صدر اسلام كے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذكورہ تعريض سنى ہوتيں تو اصولى طور پر اشتباہ اور كج فہمى كا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبكہ ديكھنے ميں تو يہ بھى آتا ہے كہ ائمہ اطہا ركى بعض اولاد كو بھى اس كى خبر نہ تھى،پس جعلى و جھوٹے مہدى جو كہ صدر اسلام ميں پيدا ہوئے انہوں نے خود كو اسلام كے مہدى كا قالب ميں ڈھال كر لوگوں كو فريب ديتے ہيں،نے كيسے كاميابى حاصل كى؟ اگر مسلمان مہدى كے نام،كنيت،ان كے ماں،باپ كے نام،ان كے بارہويں امام ہونے اور دوسرى علامتوں كے باوجود لوگ كيسے دھوكہ كھا گئے او رمحمد بن حنفيہ،محمد بن عبداللہ بن حسن يا حضرت جعفر صادق و موسى كا ظم (ع) كو كيسے مہدى سمجھ ليا؟
ہم ان کے جواب ميں جيسا کہ پہلے بھى عرض كر چكے ہیں كہ صدر اسلام ميں مہدى كے وجود كا عقيدہ مسلمانوں كے درميان مسلم تھا،ان كے وجود ميں كسى كو شك نہيں تھا _ پيغمبر اكرم وجود مہدي، اجمالى صفات،توحيد و عدالت كى حكومت كى تشكيل،ظلم و ستم كى بيخ كنى،دين اسلام كا تسلط اور ان كے ذريعہ كائنات كى اصلاح كے بارے ميں مسلمانوں كو خبر ديا كرتے تھے اور ايسے خوشخبريوں كے ذريعہ ان كے حوصلہ بڑھاتے تھے_ ليكن مہدى كى حقيقى خصوصيات اور علامتوں كو بيان نہيں كرتے تھے بلكہ يہ كہنا چاہئے كہ اس موضوع كو كسى حد تك راز ميں ركھتے او راسرار نبوت كے حاملين اور قابل اعتماد افراد ہى سے بيان كرتے تھے _
رسول اسلام نے مہدى كى حقيقى علامتوں كو على بن ابيطالب (ع)،فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بيان كرتے تھے ليكن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالى طور پر بيان كرتے تھے _ ائمہ اطہار بھى اس سلسلے ميں پيغمبر (ص) كى سيرت پر عمل كرتے اور عام مسلمانوں كے سامنے اسے مجمل طريقہ سے بيان كرتے تھے _ ليكن ايك امام دوسرے سے مہدى كى حقيقى و مشخص علامتيں بيان كرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بيان كرتا تھا _ ليكن عام مسلمان يہاں تك ائمہ كى بعض اولاد بھى اس كى تفصيل نہيں جانتى تھى _
اس اجمالى گوئي سے پيغمبر اور ائمہ اطہار كے دو مقصد تھے،ايك يہ كہ اس طريقہ سے حكومت توحيد كے دشمن ظالموں اور ستمگروں كو حيرت ميں ڈالنا تھا تا كہ وہ مہدى موعود كو نہ پہچان سكيں چنانچہ اسى طريقہ سے انہوں نے مہدى كو نجات دى ہے _ پيغمبر اكرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے كہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حكومت و قت اور حلفاء مہدى كو نام،كنيت اور ان كے ماں باپ و ديگر خصوصيات كے ذريعہ پہچان ليں گے تو يقينى طور پر انكے آبا و اجداد كو قتل كركے ان كى ولادت ميںمانع ہوں گے _ اپنى حكومت كو بچانے كے لئے بنى اميہ و بنى عباس ہر احتمالى خطرہ سے نمٹنے كيلئے تمام تھكنڈے استعمال كرتے تھے اور اس سلسلے ميں قتل و غارت گرى سے بھى درگزر نہيں كرتے تھے جس شخص كے متعلق وہ يہ سوج ليتے تھے كہ وہ ان كى حكومت كے لئے خطرہ بن سكتا ہے اسى كے قتل كے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان كا عزيز، خدمت گارہى ہوتا،اپنى كرسى كو بچان كيلئے وہ اپنے بھائي اور بيٹے كے قتل سے بھى دريغ نہيں كرتے تھے _ بنى اميہ اور بنى عباس كو مہدى كى علامتوں اور خصوصيات كى كامل اطلاع نہيں تھى اس كے باوجود انہوں نے احتمالى خطرہ كے سد باب كے لئے اولاد فاطمہ اور علويوں ميں سے ہزاروں افراد كوتہ تيغ كرڈالا،صرف اس لئے تاكہ مہدى قتل ہوجائے يا وہ قتل ہوجائے كہ جس سے آپ (ع) پيدا ہونے والے ہيں _ امام جعفر صادق (ع) نے ايك حديث ميں مفضل و ابو بصير اور ابان بن تغلب سے فرمايا:
” بنى اميہ و بنى عباس نے جب سے يہ سنا ہے كہ ہمارے قائم ستمگروں كى حكومت كا خاتمہ كريں گے اسى وقت سے وہ ہمارى دشمنى پر اتر آئے ہيں اور اولاد پيغمبر كے قتل كيلئے تلوار كيھنچ لى اور اس اميد پر كہ وہ مہدى كے قتل ميں كامياب ہوجائيں _ نسل رسول (ص) كو مٹانے ميں كوئي كسر نہيں چھوڑى ہے ليكن خدا نے اپنے مقصد كى تكميل كے لئے ستمگروں كو حقيقى واقعات كى اطلاع ہى نہ ہونے دى ”_ (كمال الدين جلد 2 ص 23)
ائمہ اطہار(ع) مہدى كى خصوصيات كے شہرت پا جانے كے سلسلے ميں اتنے خوفزدہ رہتے تھے كہ اپنے اصحاب اور بعض علويوں سے بھى حقائق پوشيدہ ركھتے تھے _
ابوخالد كابلى كہتے ہيں كہ : ميں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض كى مجھے قائم كا نام بتاديجئے تا كہ ميں صحيح طريقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمايا:
” اے ابوخالد تم نے ايسى چيز كے بارے ميں سوال كيا ہے كہ اگر اولاد فاطمہ سن ليں تو مہدى كو ٹكڑے ٹكڑے كرڈاليں گے ” _( غيبت شيخ ص 302)
اس اجمال گوئي كا دوسرا مقصد يہ تھا كہ كمزور ايمان والے دين كے تسلط سے مايوس نہ ہوجائيں كيونكہ صدر اسلام سے انہوں نے پيغمبر اكرم اور حضرت على (ع) پاكيزہ زندگى اور ان كى عدالت كا مشاہدہ كيا تھ ا اور دين حق كے غلبہ پانے كى بشارتيں سنى تھيں،ظلم و ستم سے عاجز آچكے تھے_ ہزاروں اميدوں كے ساتھ اسلام ميں داخل ہوئے تھے اور چونكہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،ان كے كفر كا زمانہ قريب تھا،ابھى ان كے دلوں ميں ايمان راسخ نہيں ہوا تھا اور تاريخ كے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسرى طرف بنى اميہ و بنى عباس كے كردار كا مشاہد كررہے تھے اور اسلامى معاشرہ كى زبوں حالى كو اپنى آنكھوں سے ديكھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہيں حيرت زدہ كرركھا تھا _ اس بات كا خوف تھا كہ كہيں كمزور ايمان والے دين اور حق كے غلبہ پانے سے مايوس ہوكر اسلام سے نہ پھر جائيں جن موضوعات نے مسلمانوں كے ايمان كى حفاظت كرنے،ان كى اميد بندھانے اور ان كے دلوں كو شاداب كرنے ميں كسى حد تك مثبت كردار ادا كيا ہے ان ميں سے ايك يہى مہدى موعود كا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار ميں رہتے تھے كہ مہدى موعود قيام كريں اور اسلام و مسلمانوں كے ناگفتہ بہ حالات كى اصلاح كريں ظلم و ستم كا قلع و قمع كريں اور قانون اسلام كو عالمى سطح پر رائج كريں _ ظاہر ہے اس كا نتيجہ اسى وقت برآمد ہوسكتا تھا كہ جب مہدى كى حقيقى علامتوں اور خصوصيات كہ لوگوں كو واضح طور پر نہ بتا يا جاتا ورنہ اگر مكمل طريقہ سے ظہور كا وقت اور علامتيں بتادى جاتيں اور انھيں يہ معلوم ہوجاتا كہ مہدى كس كے بيٹے ہيں اور كب قيام كريں گے _ مثلاً ظہور ميں كئي ہزار سال باقى ہيں تو اس كا مطلوبہ نتيجہ كبھى حاصل نہ ہوتا _ اسى اجمال گوئي نے صدر اسلام كے كمزور ايمان والے افراد كے اميد بندھائي چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام كو برداشت كيا _
يقطين نے اپنے بيٹے على بن يقطين سے كہا : ہمارے بارے ميں جو پيشين گوئياں ہوئي ہيں وہ تو پورى ہوتى ہيں ليكن تمہارے مذہب كے بارے ميں جو پيشين گوئي ہوئي ہيں وہ پورى نہيں ہورہى ہيں؟ على بن يقطين نے جواب ديا : ہمارے اور آپ كے بارے ميں جو احاديث وارد ہوئي ہيں ان كا سرچشمہ ايك ہى ہے ليكن چونكہ آپ كى حكومت كا زمانہ آگيا ہے لہذا آپ سے متعلق پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے پورى ہورہى ہيں _ ليكن آل محمد (ص) كى حكومت كا زمانہ ابھى نہيں آيا ہے اس لئے ہميں مسرت بخش اميدوں كا سہارا دے كر خوش ركھا گيا ہے _ اگر ہم سے بتاديا جاتا كہ آل محمد (ص) كى حكومت دو سو يا تين سو سال تك قائم نہيں ہوگى تو لوگ مايوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے ليكن يہ قضيہ ہمارے لئے اس طرح بيان ہوا ہے كہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) كى حكومت كى تشكيل كے انتظار ميں گزرتا ہے _ (غيبت شيخ طبع دوم ص 207)