سیرت حضرت امام زین العابدین(ع)

318

جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کے پورے المیہ میں مضمر ہیں اسے ہر اس کوشش کے ساتھ جو سلطنت بنی امیہ کے خلاف ہو رہی ہو کتنی قلبی وابستگی ہونا چاہئے اور اس وابستگی کے ساتھ بڑی مشکل بات ہے کہ وہ عواقب پر نظر کر سکے۔  ایسے موقعوں پر عام جذبات کا تقاضا تو یہ ہے کہ چاہے حب علی(ع) کے جذبہ میں کچھ کوششیں نہ ہوں صرف بعض معاویہ میں ہوں مگر ایسی کوششوں کے ساتھ بھی آدمی منسلک ہو جاتا ہے۔  فقط اس لئے کہ ہمارے مشترک دشمن کے خلاف ہیں خصوصاً جب کہ اس میں کامیابی کے آثار بھی نظر آ رہے ہوں جیسے عبداللہ بن زہیر جنہوں نے حجاز میں اتنا مکمل تسلط حاصل کر لیا تھا کہ جمہوری نظریہٴ خلافت کے بہت سے علماء قہر و غلبہ کی بنا پر ان کی باضابطہ خلافت کے قائل ہیں۔  جس کی تصدیق حفاظ سیوطی کی تاریخ الخلفاء سے ہو سکتی ہے۔  یا اہل مدینہ کی منظم کوشش جس نے عمال یزید کو وقتی طور سے سہی نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا مگر ایسی حالت میں جب کہ جناب محمد بن حنفیہ کی وابستگی ان تحریکوں سے کسی حد تک نمایاں ہو سکی،  امام زین العابدین کا کردار ان تمام مواقع پر اس طرح علیحدگی کا رہا کہ آپ کو ان تحریکوں سے کبھی وابستہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ علیحدگی ہی بڑے ضبطِ نفس کا کارنامہ ہے چہ جائیکہ آپ نے اس موقع پر مصیبت زدوں کے پناہ دینے کی خدمت اپنے ذمہ رکھی۔  چنانچہ مروان ایسے دشمن اہل بیت(ع) کو جب جان بچا کر بھاگنے کی ضرورت پیش ہوئی تو اپنے اہل و عیال اور سامان و اموال کی حفاظت کے لئے اگر کسی جائے پناہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ صرف حضرت امام زین العابدین(ع) تھے۔  اس کردار کا یہ نتیجہ تھا کہ جب پھر فوج یزید نے یورش کی مدینہ میں قتل عام کیا جو واقعہٴ حرہ کے نام سے مشہور ہے تو آپ کے لئے ممکن ہوا کہ آپ مظلومین مدینہ میں سے بھی چار سو بے بس خواتین کو اپنی پناہ میں لے سکیں اور محاصرہ کے زمانہ میں آپ ان کے کفیل رہیں۔ آپ کا مروان کو پناہ دینا بتا رہا تھا کہ آپ انہی علی بن ابی طالب(ع) کی روایات کے حامل ہیں جنہوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش  کی  تھی  اور حضرت  امام  حسین(ع)  کے جنہوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا تھا۔  وہی کردارآج امام زین العابدین(ع) کے قالب میں نگاہوں کے سامنے ہے۔ اسی کی مثال پھر اس وقت سامنے آئی جب یزید کی موت کے بعد انقلاب کے خوف سے حصین بن نمیر جو مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔  مضطربانہ اور سراسیمہ اپنے لشکر کو لے کر فرار پر مجبور ہوا اور مدینہ کی راہ سے شام کی طرف روانہ ہوا۔  بنی امیہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی نہ ان لوگوں کو کھانے کا سامان دیتا تھا نہ اونٹوں اور گھوڑوں کے لئے چارا مہیا ہو سکتا تھا۔  اتفاق سے امام زین العابدین(ع) اپنی زراعت سے غلہ اور چارا لے کر واپس جا رہے تھے۔  حصین نے بڑھ کر ملتجیانہ انداز میں کہا کہ یہ غلہ اور چارا میرے ہاتھ فروخت کر دیجئے۔  آپ نے فرمایا۔  ضرورت مند کی خاطر یہ بلاقیمت حاضر ہے۔  اس کرم کو دیکھ کر اس نے تعارف حاصل کیا کہ آپ ہیں کون؟  جب معلوم ہوا تو اس نے حیرت کے ساتھ کہا آپ نے پہچانا بھی ہے کہ میں کون ہوں؟  حضرت نے فرمایا: “میں خوب پہچانتا ہوں مگر بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کرنا ہم اہل بیت کا شعار ہے۔” حصین اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ گھوڑے سے نیچے اتر کر کہنے لگا کہ یزید تو ختم ہو چکا ہے آپ ہاتھ بڑھائیے میں اپنے پورے لشکر سمیت آپ کی بیعت  کرتا  ہوں  اور آپ  کی  خلافت  کو  تسلیم  کرانے  میں  کوئی  وقیقہ  اٹھا  نہ  رکھوں  گا اس پر آپ باندازِ تحقیر تبسم فرمایا اور بغیر کچھ جواب دیئے آگے روانہ ہو گئے۔ اس دور انقلاب کے ہنگامی تقاضوں سے اس طرح دامن بچانے کے باوجود اس سرچشمہ انقلاب یعنی واقعہ کربلا کی یاد کو برابر آپ ن ےتازہ رکھا۔  یہ زمانہ ایسا نہ تھا کہ عمومی مجالس کی بنا ہو سکتی اور عوام میں تقریروں کے ذریعہ سے اس کی اشاعت کی جاتی۔  اس لئے آپ نے اپنے شخصی تاثرات غم اور مسلسل اشکباری پر اکتفا کی،  جو بالکل فطری حیثیت رکھتی تھی۔  یہ مقاومت مجہول سے زیادہ غیرمحسوس ذریعہ تھا ان انقلابی اقدار کے تحفظ کا جو واقعہ کربلا میں مضمر تھے مگر آئینی طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اس گریہ پر پابندی عائد کر سکتی۔  یوں مظالم کربلا کی رود میں کسی آنکھ سے نکلنے پر نوک نیزہ سے اذیت دی جاتی ہو تو وہ  اور بات ہے مگر دور امن میں کسی انتہائی ظالم و جابر حکومت کے لئے بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جس کاباپ تین دن کا بھوکا پیاسا پس گردن سے ذبح کیا گیا ہو۔  اور جس کے گھر سے ایک دوپہر میں اٹھارہ جنازے نکل گئے ہوں اور جس کی ماں بہنیں اسیر بنا کر شہر بہ شہر اور دیار بہ دیار پھرائی گئی ہوں ان تاثرات کے اظہار سے روک سکے جو صرف رنج و ملال کی شکل میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے جاری ہوں۔  پھر بلاشبہ اس غیرمعمولی مسلسل گریہ میں جو پچیس برس تک جاری رہا  وہ عظیم تاثیر تھی جسے چاہے تاریخ کی سطحی نگاہ اسباب انقلاب میں شمار نہ کرے مگر واقعیت کی دنیا میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسلسل گریہ کے واقعات کو تاریخوں میں پڑھنے کے بعد طبیعت انسانی کے فطری تقاضوں کی بنا پر ہر شخص ایسا تصور کر سکتا ہے کہ غمزدہ اور ہمہ تن گریہ و آہ ہستی سے اس کے بعد یہ توقع کرنا غلط ہے کہ وہ علوم و معارف کی کوئی خدمت انجام دے سکے مگر نہیں “معراج انسانیت” تو اسی تضاد میں مضمر ہے کہ یہ غرق حسرت و اندوہ ذات بھی اپنے اس فریضہ سے جو بحیثیت نائب حق و رہنمائے خلق اس کے ذمہ ہے۔  غافل نہیں ہوتی۔  بے شک یہ دور ایسا پرآشوب تھا کہ آپ کے گردوپیش طالبان ہدایت کا مجمع نہیں ہو سکتا تھا۔  آپ کسی مجمع کو مخاطب بنا کر کوئی تقریر نہیں فرما سکتے تھے۔  نہ اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں سے سلسلہ مخابرت جاری فرما سکتے تھے اس لئے اس دور کے تقاضوں کے ماتحت آپ نے منفرد طریقہ “دعا و مناجات” کا اختیار فرمایا۔  یہ بھی مثل “گریہ” کے ایک لازم بظاہر غیرمتعدی عمل تھا۔  جو کسی قانون کی زد میں نہیں آ سکتا تھا مگر ان دعاؤں کو بھی جو “صحیفہ سجادیہ” کی شکل میں محفوظ ہیں جب ہم دیکھتے ہیں تو بلا کسی شائبہ مبالغہ و مجاز کے یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ہے کہ وہی روح جو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے نہج البلاغ والے خطبوں میں متحرک ہے وہی صحیفہ کاملہ کی ان دعاؤں میں بھی موجود ہے۔  صرف یہ کہ وہاں جو حکیمانہ گہراؤاور خطیبانہ بہاؤ ہے اس کی قائم مقامی یہاں اس سوزوگداز نے کی ہے جس کا دعاؤ مناجات میں محل ہے اور اس طرح اس کے سننے والوں میں دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شدت سے متاثر ہوتا ہے جو غالباً دوسروں کی اصلاح کے لئے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا اور اسی ذیل میں اخلاق و فرائضکے تعلیمات بھی مضمر ہیں۔  جو مدرسہ اہل بیت(ع) کے مقاصد خصوصی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں اس ذریعہ تبلیغ و تدریس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ممکن نہ تھا اورامام زین العابدین(ع) نے اس ذریعہ کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ حضرات کسی سخت ماحول میں بھی اپنے فرائض اور اہم مقاصد کو ہرگز نظرانداز نہیں کرتے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.