غيبت صغرى اور شيعوں كا ارتباط

110

پھراعتراض کرتے ہیں كہ توقيعات كو خود امام تحرير فرما تے تھے يا كوئي اور ؟ جواب میں ہم كہہ چكے ہيں كہ توقيعات كے كاتب خود امام ہيں _ يہاں تك خواص او رعلمائے وقت كے در ميان آپ كا خط ( تحرير ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھى طرح پہچا نتے تھے _ اس كے ثبوت بھى موجود ہيں _
محمد بن عثمان عمرى كہتے ہيں : امام كى طرف سے صادر ہونے والى توقيع كو ميں ببخوبى پہچا نتا تھا (بحارالانوار ج 51 ص 33)
اسحاق بن يعقوب كہتے ہيں : محمد بن عثمان كے ذريعہ ميں نے اپنے مشكل مسائل امام كى خدمت ميں ارسال كئے اور جواب امام زمانہ كے دستخط كے ساتھ موصول ہوا _ (بحارالانوار ج 51 ص 349 ، اثبات الھداة ج ، ص 460)
شيخ ابو عمرعامرى كہتے ہيں : شيعوں كى ايك جماعت سے ابو غانم قزوينى نے ايك موضوع كے بارے ميں اختلاف و نزاع كى _ شيعوں نے جھگڑا ختم كرنے كے لئے ايك خط ميں صورت حال لكھ كر ارسال كرديا اور جواب امام كى دستخط كے ساتھ موصول ہوا ” (بحار الانوار ج 53 ص 178) صدوق فرماتے ہيں : ” جو توقيع امام زمانہ نے اپنے دست مبارك سے ميرے والد كيلئے رقم كى تھى وہ ميرے پاس ابھى تك موجود ہے ” (انوار نعمانيہ طبع تبريز ج 2 ص 22)
مذكورہ افرادنے اس بات كى تو گواہى دى ہے كہ وہ خطوط امام زمانہ كى تحريرہوتے تھے ليكن اس سے يہ معلوم نہ ہو سكا كہ وہ كس طريقہ سے امام زمانہ كا خط پہچانتے تھے كيونكہ غيبت كے زمانہ ميں مشاہدہ كا امكان نہيں تھا اس كے علاوہ بعض اشخاص نے اس كے برخلاف كہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روايت كى ہے كہ صاحب الامر كى توقيعات وہ جو كہ عثمان بن سعيد اور محمد بن عثمان كے ذريعہ شيعوں تك پہنچتى تھيں ان كا وہى خط ہے جو امام حسن عسكرى كے زمانہ كى توقيعات كا تھا _ (بحارالانوار ج 51 ص 346)
پھر ابو نصر ہى كہتے ہيں : 304 ھ ميں ابوجعفر عمرى كا انتقال ہوا_ تقريباً وہ پچاس سال تك امام زمانہ كے وكيل رہے _ ان كے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھى شيعوں كو اسى خط ميں امام كى توقيعات ديتے تھے جس ميں امام حسن عسكرى كے زمانہ ميں لكھى جاتى تھيں (بحارالانوار ج 51 ص 352)_
دوسرى جگہ كہتے ہيں : امام زمانہ كى توقيعات محمد بن عثمان اسى خط ميں لكھتے تھے جس ميں امام حسن عسكرى (ع) كے زمانہ ميں ان كے باپ عثمان بن سعيد لكھتے تھے _ (بحار الانوار ج 51 ص 350)
عبداللہ بن جعفر حميرى كہتے ہيں : عثمان بن سعيد كے انتقال كے بعد صاحب الامر كى توقيعات اسى خط ميں صادرہوتى تھيں جس ميں ہم سے پہلے خط و كتابت ہوتى تھى _ (بحارالانوار ج 51 ص 349)
ان روايات سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ جو توقيعات عثمان بن سعيد او ر ان كے بعد محمد بن عثمان كے توسط سے لوگوں تك پہنچى ہيں ان كا خط بالكل وہى تھا كہ جس ميں امام حسن عسكرى كے زمانہ ميں توقيعات صادر ہوتى تھيں _ يہاں سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ توقيعات امام كے خط ميں نہيں تھيں بلكہ يہ كہا جائے كہ امام حسن عسكرى (ع) نے توقيعات اور خط و كتابت كيلئے ايك مخصوص محرّر مقرر كرركھا تھا جو كہ عثمان بن سعيد اور محمد بن عثمان كے زمانہ تك زندہ رہا _ يہ بھى كہا جا سكتا ہے كہ بعض توقيعات خود امام نے اور كچھ دوسروں نے تحرير كى ہيں _ ليكن يادرہے كہ زمانہ غيبت صغرى كے علماء اور شيعوں كے حالات اور توقيعات كے متن كے مطالعہ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ ان خطوط كى عبارت شيعوں كے نزديك موثق اور قابل اعتماد تھى اور وہ انھيں امام ہى كى طرف سے سمجھتے اور قبول كرتے تھے_
اختلافات كے سلسلے ميں مكاتبہ كرتے اور جواب كے بعد سراپا تسليم ہوجاتے تھے ، يہاں تك اگر كبھى كسى توقيع كے بارے ميں شك ہوجاتاتھا تو بھى مكاتبہ ہى كے ذريعہ حل كرتے تھے _ (بحار الانوار ج 53 ص 150)
على بن حسين بابويہ نے امام زمانہ كى خدمت ميں عريضہ ارسال كيا اور بيٹے كى پيدائشے كے لئے دعا كا تقاضا كيا اور اس كا جواب بھى ملا _ (بحار الانوار ج 51 ص 306)
جن علما نے غيبت صغرى اور نواب كا زمانہ درك كيا ہے ان ميں سے ايك محمد بن ابراہيم بن جعفر نعمانى ہيں _ انہون نے اپنى كتاب ” غيبت” ميں نوّاب كى نيابت اور سفارت كى تائيد كى ہے چنانچہ غيبت سے متعلق احاديث نقل كرنے كے بعد لكھتے ہيں : غيبت صغرى كے زمانہ ميں امام اور لوگوں كے درميان معين و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان كے توسط سے بيمار شفا پاتے اور شيعوں كى مشكلوں كے حل صادر ہوتے تھے ليكن اب غيبت صغرى كا زمانہ ختم ہوچكا ہے اور غيبت كبرى كا زمانہ آگيا ہے _ (كتاب ”غيبت” /91)
معلوم ہوتا ہے كہ توقيعات كے ساتھ كچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے كہ جن كى بناپر علمائے وقت اور شيعہ انھيں تسليم كرتے تھے _ شيخ حر عاملى لكھتے ہيں : ابن ابى غانم قزوينى شيعوں سے بحث كرتا اور كہتا تھا : امام حسن عسكري(ع) كے يہاں كوئي بيٹا ہى نہيں تھا _ شيعوں نے امام كى خدمت ميں خط ارسال كيا ، وہ بغير روشنائي كے قلم سے سفيد كاغذ پر لكھا جاتا تھا تا كہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان كے خط جواب ديا _ (اثبات الہداة ج 7 ص 260)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.