حکومت امام زمان

170

 
اعتراض کرتے ہیں كہ انسانوں كے درميان ان تما م رايوں اور عقائد كے اختلاف اور ديگر اختلافى مسائل كے باوجود يہ كيسے تصور كيا جا سكتا ہے پور دنيا كا نظم و نسق ايك حكومت كے اختيار ميں ہوگا اور روئے زمين پر صرف مہدى كى حكومت ہوگى ؟ جواب میں عرض کریں گے کہ اگر دنيا كے عمومى حالات اور انسان كى عقل و ادراكات كى يہى حالت رہى تو ايك عالمى حكومت كى تشكيل بہت مشكل ہے _ ليكن جيسا كہ گزشتہ زمانہ ميں انسان كا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہيں تھى جو آج ہے بلكہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ كے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھى نہيں ركے گا _بلكہ يقين كے ساتھ يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ انسان كى معلومات ميں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل ميں تعلق و تمدن اور اجتماعى مصالح كے درك ميں وہ اور زيادہ ترقى كرے گا _ اپنے مدعا كے اثبات كے لئے ہم گزشتہ زمانے كے انسان كے حالات كا تجزيہ كرتے ہيں تا كہ مستقبل كے بارے ميں فيصلہ كر سكيں _
يہ بات اپنى جگہ ثابت ہو چكى ہے كہ خودخواہى اور منفعت طلبى طبيعى چيز ہے اور اسى كسب كمال سعادت طلبى اور حصول منفعت كے جذبہ نے انسان كو كوشش و جانفشانى پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل كرنے كے لئے ہر انسان اپنى طاقت كے طاقت كو شش كرتا ہے اور اس راہ كے موانفع كو برطرف كرتا ہے ليكن دوسروں كے فائد كے بارے ميں غور نہيں كرتا _ ہاں جب دوسروں كے منافع سے اپنے مفادات وابستہ ديكھتا ہے تو ان كا بھى لحاظ كرتا ہے اور اپنے كچھ فوائد بھى ان پر قربان كرنے كے لئے تيار ہوجاتا ہے _ شايد اولين بار انسان خودخواہى كے زينہ سے اتر كر دوسروں كو فائدہ پہنچانے كے لئے شادى كے وقت تيار ہوتا ہے كيونكہ مرد و عورت يہ احساس كرتے ہيں كہ دونوں كو ايك دوسرے كى ضرورت ہے اور اسى احتياج كے احساس نے مرد و عورت كے درميان ازدواجى رشتہ قائم كيا ہے _ چنانچہ دونوں اس كو مستحكم بنانے كے سلسلہ ميں خودخواہى كو اعتدال پر لانے اور دوسرں كے فوائد كو ملحوظ ركھنے كے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت كے يك جا ہونے سے خاندان كى تشكيل ہوئي _ حقيقت ہے كہ خاندان كے ہر فرد كا مقصد اپنى سعادت و كمال كى تحصيل ہے ليكن چونكہ ان ميں سے ہر ايك نے اس بات كو محسوس كرليا ہے كہ اس كى سعادت خاندان كے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان كى سعادت كا بھى متمنى ہوتا ہے اور اس كے اندر تعاون كا جذبہ قوى ہوتا ہے _
انسان نے مدتوں خانوادگى اور خانہ بدوشى كى زندگى بسر كى اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں كے انكار نے ترقى كى اور انہوں نے اس بات كا احساس كيا كہ سعادت مندى اور دشمنوں سے نمٹنے كے لئے اس سے بڑے معاشرہ كى تشكيل ضرورى ہے _ اس فكر كى ترقى اور ضرورت كے احساس سے طائفے اور قبيلے وجود ميں آئے اور قبيلے كے افراد تمام افراد كے منافع كو ملحوظ ركھنے كے لئے تيار ہوگئے اور اپنے ذاتى و خاندانى بعض منافع كو قربان كرنے كيلئے بھى آمادہ ہوگئے _ اسى فكر ارتقاء اور ضرورت كے احساس نے انسان كو طول تاريخ ميں ايك ساتھ زندگى بسر كرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنى سكونت كيلئے شہر و ديہات آباد كئے تا كہ اپنے شہر والوں كے منافع كا لحاظ ركھيں اور ان كے حقوق سے دفاع كريں _
انسان مدتوں اسى ، نہج سے زندگى گزارتا رہا ، يہاں تك كہ حوادث زمانہ اور خاندانى جھگڑے اور طاقتوروں كے تسلط نے انسان كو چھوٹے سے ديہات كو چھوڑ كر شہر بنانے پر ابھارا كہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسايہ ديہات و شہروں سے ارتباط ركھنے كے لئے بھى ہے تا كہ خطرے اور طاقتور دشمن كے حملہ كے وقت ايك دوسرے سے مدد حاصل كرسكيں _ اس مقصد كے تحت ايك بڑا معاشرہ وجود ميں آيا او راس كے وسيع علاقہ كو ملك و سلطنت كے نام سے ياد كيا جانے لگا _
ملك ميں زندگى بسر كرنے والے انسانوں كى فكر نے اتنى ترقى كى كہ وہ اپنے ملك كى محدود سرزمين كو اپنا گھر سمجھتے ہيں اور اس ملك كے باشندوں كو ايك خاندان كے افراد شمار كرتے ہيں اور اس ملك كے اموال و ذخائر كو اس كے باشندوں كا حق سمجھتے ہيں _ اس ملكہ كے ہر گوشہ كى ترقى سے لذت اندوز ہوتے ہيں _ لسانى ، نسلى ، شہرى اور ديہاتى اختلافات سے چشم پوشى كرتے ہيں اور ملك كے تمام باشندوں كى سعادت كو اپنى سعادت و كاميابى تصور كرتے ہيں _ واضح ہے كہ اس ملك كے افراد ميں جس قدر فكرى ہم آہنگى و ارتباط قوى ہوگا اور اختلاف كم ہوگا اسى كے مطابق اس ملك كى ترقياں زيادہ ہوں گى _ انسان كا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانى سے حاصل نہيں ہوا ہے بلكہ وہ صديوں اور ہزاروں حوادث اور گوناگون تجربات كے بعد ترقى كے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _
ہزاروں سال كى طويل مدتوں اور حوادث زمانہ كے بعد انسان كى فكر نے ترقى كى اور كسى حد تك خودخواہى و كوتاہ نظرى سے نجات حاصل كى ليكن اب بھى خاصى ترقى نہيں كى ہے اس پر اكتفا نہيں كر سكتا _ آج بھى علمى و صنعتى ترقى كے سلسلہ ميں دنيا كے ممالك كے درميان خاص روابط برقرار ہوتے ہيں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ كے دوران طے كيا ہے اسے آج بھى گھنٹوں اور منٹوں ميں طے كررہے ہيں _ دور دراز سے ايك دوسرے كى آواز كو سنتے ہيں ، ديكھتے ہيں _ ملك كے حوادث و اوضا ع ايك دوسرے سے مربوط ہوگئے ہيں ايك دوسرے ميں سرايت كرتے ہيں _ آج انسان اس بات كا احساس كررہا ہے كہ وہ اپنے ملك كى سرحدوں كو محكم طريقہ سے بند نہيں كرسكتا اور تمام ممالك سے قطع تعلق كركے عزلت گزينى كى زندگى نہيں گزارسكتا _ عالمى حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتيجہ پر پہنچا ہے كہ ايك ملك كے معاشرہ اور اجتماع ميں يہ طاقت نہيں ہے كہ لوگوں كى سعادت و ترقى كى راہ فراہم كرسكے اور انھيں حوادث و خطرات سے بچا سكے _ اس لئے ہر ملك اپنے معاشرہ كو مضبوط بنانے كى كوشش كررہا ہے _
بشر كى يہ درونى خواہش كبھى جمہوريت كى صورت ميں ظاہر ہوتى ہے كبھى مشرق و مغرب كے بلاؤں كى صورت ميں نماياں ہوتى ہے كبھى اسلامى ممالك كے اتحاديہ كى شكل ميں وجود پذير ہوتى ہے كبھى سرمايہ دارى اور كميونسٹ نظام كے پيكر ميں سامنے آتى ہے _ اس اتحاد كى اور سيكڑوں مثاليں ہيں /و كہ روح انسان كے رشد اور اس وسعت طلبى كى حكايت كرتى ہيں _
آج انسان كى كوشش يہ ہے كہ عمومى معاہدوں اور اتحاد كو وسعت دى جائے ممكن ہے اس كے ذريعہ خطرات كا سد باب ہوسكے اور عالمى مشكلات و بحران كو حل كيا جا سكے اور روئے زمين پر بسنے والے انسانوں كيلئے آسائشے و رفاہ كے وسائل فراہم ہو سكيں _
دانشوروں كا خيال ہے كہ انسان كى يہ كوشش و فعاليت اور وسعت طلبى ايك عالمى انقلاب كا مقدمہ ہے ، عنقريب دنيائے انسانيت پر يہ حقيقت واضح ہوجائے گى كہ يہ اتحاد بھى محدود ہے لہذا عالمى خطرات و مشكلات كو حل نہيں كرسكتے يہ اتحاد صرف كسى درد كى دوا ہى نہيں كرتے بلكہ ايك دوسرے كے مقابل ميں صف آرا ہو كہ مزيد مشكلات كھڑى كرديتے ہيں _
انسان ابھى تجربہ كى راہ سے گزرہاہے تا كہ ان اتحادات كے ذريعہ جہاں تك ہوسكے خودخواہى كے احساس كو بھى ختم كرے اور عالمى خطرات و مشكلات كو بھى ختم كرے _ وہ ايك روز اس حقيقت سے ضرور آگاہ ہوگا كہ خودخواہى اور كوتاہ نظرى انسان كو سعادت مند نہيں بنا سكتى _ اور لا محالہ اس بات كا اعتراف كرے گا كہ روئے زميں كا ما حول ايك گھر كے ماحول سے مختلف نہيں ہے _ روئے زمين پر بسنے والے ايك خاندان كے افراد كى مانند ہيں _ جب انسان اس بات كو سمجھ جائے گا كہ غير خواہى ميں خود خواہى ہے تو اس وقت دنيا والوں كے افكار و خيالات سعدى شيرازى كے ہم آواز ہو كر اس بات كا اعتراف كريں گے _
بنى آدم اعضائے ايك ديگرند كہ در آفرينش زيك گوہرند
‘ انسان آپس ميں ايك دوسرے كے اعضاء ہيں كيونكہ انكى خلقت كا سرچشمہ ايك ہى ہے ‘
لوگ اس بات كو سمجھتے ہيں كہ جو قوانين و احكام اختلافات انگيز محدود نظام كے مطابق بنائے گئے ہيں وہ دنيا كى اصلاح كيلئے كافى نہيں ہيں _ عالمى اور اقوامى اتحاد كي انجمنوں كى تشكيل ، حقوق بشر كى تنظيم كى تأسيس كو اس عظيم فكر كا مقدمہ اور انسانيت كى بيدارى اور اس كى عقل كے كمال كا پيش خيمہ كہا جا سكتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑى طاقتوں كے دباؤں سے ابھى تك كوئي اہم كام انجام نہيں ديا ہے اور ابھى تك اختلاف انگيز نظاموں پر كاميابى حاصل نہيں كر سكى ہيں ليكن ايسے افكار كے وجود سے انسان كے تابناك مستقبل كى پيشين گوئي كى جا سكتى ہے _
دنيا كى عام حالت و حوادث كے پيش نظر اس بات كى پيشين گوئي كى جا سكتى ہے كہ مستقبل ميں انسان ايك حساس ترين دورا ہے پر كھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادى گرى يا خالص توحيد سے _ يعنى انسان يا تو آنكھيں بند كركے ماديت كو قبول كرلے اور خدا كے احكام كو ٹھكرادے يا خدا كو تخليق كى مشنرى كا حاكم تسليم كرے اور خدائي احكام كو ٹھكرا دے يا خدا كو تخليق كى مشنرى كا حاكم تسليم كرے اور خدائي احكام كا قلادہ اپنى گردن ميں ڈال لے اور عالمى مشكللات اور بشرى كى اصلاح آسمانى قوانين كے ذريعہ كرے اور غير خد ا قوانين كو ٹھكرادے _ ليكن يہ بات يقين كے ساتھ كہى جا سكتى ہے كہ انسان كا خداپرستى اور دين جوئي كا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہيں پڑتا ہے اور جيسا كہ آسمانى اديان خصوصاً اسلام نے پيشين گوئي كى ہے كہ آخر كار خدا پرستوں ہى كاگروہ كامياب ہوگا اور دنيا كى حكومت كى زمام و اقتدا صالح لوگوں كے اختيار ميں ہوگا اور انسانوں كا بڑا معاشرہ انسانيت كے فضائل ، نيك اخلاق اور صحيح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائيں گے اور سارے انسان ايك خدا اور اس كے احكام كے سامنے سر تسليم خم كرديں گے _ خداپرستوں كا گروہ اور حزب توحيد ايمان كے محكم و وسيع حصار ميں جاگزين ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجيد كى دعوت كو قبول كرے گا
قرآن مجيد نے دنيا والوں كے سامنے يہ تجويز پيش كى ہے كہ :
‘ آؤ ہم سب ايك مشترك پروگرام كو قبول كرليں اور يہ طے كرليں كہ خدائے واحد كے علاوہ كسى كى عبادت نہيں كريں گے اور كسى كو اس كا شريك نہ ٹھرائيں گے اور انسانوں ميں سے كسى كو واجب الاطاعت نہ سمجھيں گے _’ (آل عمران /94)
قرآن مجيد اس عالمى انقلاب كے پروگرام كے بارے ميں كہتا ہے كہ اسے نافذ كرنے كى صلاحيت صرف مسلمانوں ميں ہے _ رسول اكرم نے خبر دى ہے كہ جو شائستہ اور غير معمولى افراد انسان كے گوناگون افكار و عقائد اور متفرق رايوں كو يك جا اور ايك مركز پر جمع كريں گے اور انسانوں كى عقل كو كامل و بيدار كريں گے اور دشمنى كے اسباب و عوامل كا قلع و قمع كريں گے _ صلح و صفائي برقرار كريں گے _ وہ مہدى موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگى _ امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں كہ :
‘جب ہمارا قائم ظہور كرے گا تو بندوں كے سرپرہاتھ ركھ كر ان كے پراگندہ عقل و فكر كو ايك جگہ كرے گا اور ايك مقصد كى طرف متوجہ كرے گا اور ان كے
اخلاق كو كمال تك پہنچادے گا ‘ _ (بحار الانوار ج 52 ص 336)
حضرت على (ع) بن ابيطالب فرماتے ہيں :’ جب ہمارا قائم قيام كرے گا تو لوگوں كے دلوں سے عداوت و دشمنى كى جڑيں كٹ جائيں گى اور عالمى امن كا دور ہوگا ‘ (بحارالانوار جلد 52 ص 316)
امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں :’ ہمارے قائم كے ظہور كے بعد عمومى اموال اور زمين كے معاون و ذخائر آپ(ص) اختيار ميں آئيں گے _ (بحارالانوار ج 52 ص 351) (انتخاب از آفتاب عدالت از علامہ امینی رہ)
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.