قرآن نهج البلاغه کے آئنیه میں

173

امیرالمومنین133ویں خطبه میں ارشاد فرماتے هیں:”وَ كِتَابُ اللَّهِ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ- نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُهُ-“(1)یعنی قرآن تمهارے سامنے اور تمهاری دسترس میں هے. دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں جیسے حضرت موسی اور حضرت عیسیٰکی کتابوں کے برخلاف، قرآن تمهارے اختیار میں هے.واضح رهے که گزشته امتوں میں خصوصاَ بنی اسرائیل کے یهودیوں میں مقدس کتاب عام لوگوں کے اختیار میں نهیں تھی ،بلکه توریت کے صرف چند نسخے علماء یهود کے پاس تھے اور تمام لوگوں کے لئے توریت کی طرف رجوع کرنے کا امکان نهیں پایاجاتاتھا.حضرت عیسیٰ کی آسمانی کتاب کی حالت تو اس سے بھی زیاده تشویشناک تھی اور هے،اس لئے که جوکتاب آج انجیل کے نام سےعیسائیوں کے درمیان پهچائی جاتی هے،یه وه کتاب نهیں هےجو حضرت عیسیٰپر نازل هوئی تھی.بلکه یه ان مطالب کا مجموعه هے جن کو کچھ افراد نے جمع کیا هے اور وه اناجیل اربعه(چار انجیلوں) کے نام سےمشهور هیں. اس بناپر گزشته امتوں کی وسترس آسمانی کتابوں تک نهیں تھی ،لیکن قرآن مجید کی حالت اس سےمختلف هے.قرآن مجید کےنزول کیفیت اور نبی اکرمﷺکی طرف سے اس کی قرائت وتعلیم کاطریقه ایسا تھا که لوگ اسے سیکھ سکتے تھے اور اس کی آیتیں حفظ کرسکتے تھے اور قرآن مکمل طور پر ان کی دسترس میں تھا اور هے.اس آسمانی کتاب کی ایک خصوصیت یه هے که خداوند متعال نے امت اسلام پر احسان کیا هے اور قرآن کریم کو هر طرح کے خطره سے محفوظ رکھنے کی ذمه داری خودلی هے.اس کے علاوه حضرت نبی اکرمﷺمسلمانوں کے یاد کرنے اور آیات الهی کی حفاظت کا اس قدر اهتمام کرتے تھے که رسول خداﷺهی کے زمانه میں بهت سے مسلمان حافظ قرآن هوگئے تھے اور نازل هونے والی آیات کے نسخے اپنے پاس رکھتے تھے وه بتدریج ان کو یاد کرتے تھے، بهرحال ان نسخوں سے نسخه برداری کے ذریعه یا ایک حافظ سے دوسرے حافظ کی طرف سینه در سینه نقل کے زریعے قرآن کریم تمام لوگوں کے پاس هوتاتھا.حضرت علیارشاد فرماتے هیں:” كِتَابُ اللَّهِ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ” کتاب خدا تمهارے درمیان هے تمهاری دسترس میں هے.”نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُهُ” اس جمله پر تاکید کرنا ضروری هے.حضرت علیفرماتے هیں:یه کتاب گویا(بولنے والی)هے اور اس کی زبان کند نهیں هوتی، بولنے سے تھکتی نهیں نیز کبھی اس میں لکنت نهیں هوتی، نیز کبھی اس میں لکنت نهیں هوتی، وه ایسی عمارت هے جس کے ستون گرنهیں سکتے اور ایسی کامیاب هے که جس کےدوست شکست نهیں کھا سکتے.
قرآن کابولناحضرت امام علینهج البلاغه میں ایک طرف قرآن کےاوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے هیں که یه کتاب،کتاب ناطق هے،خود بولتی هے،بولنے سے تھکتی نهیں ،اپنی بات اوراپنا مطلب خود واضح طورسے بیان کرتی هے.اور دوسری طرف،ارشاد فرماتے هیں:یه قرآن ناطق نهیں هے،اسے قوت نطق وگویائی دینی چاهئے اور میں هی هوں جواس قرآن کو تمهارے لئے گویا کرتاهوں.اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیاهے:”قرآن ،صامت ناطق”قرآن صامت بھی هے اور ناطق بھی .اس بات کےصحیح معنی کیا هیں؟معلوم هوتاهے که یه تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دومختلف نظریوں کو بیان کررهی هے که ایک نظریه کی روسے قرآن ایک مقدس کتاب هے جوکه خاموش هےاور ایک گوشه میں رکھی هوئی هے،نه وه کسی سےبولتی هے اور نه کوئی اس سےارتباط رکھتا هے، اور دوسرے نظریه کے لحاظ سے قرآن ایک گویا(بولنے والی) کتاب هے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قراردیاهے اور ان کو اپنی پیروی کی دعوت دی هے اور اپنے پیروؤں کوسعادت ونیک بختی کی خوشخبری دی هے.واضح هے که وه قرآن جس کی صفت صرف تقدس هو اور بس،جس کی آیتیں صرف کاغذ کےصفحوں پرنقش هوں اور مسلمان اس کااحترام کرتے هوں،اس کو چومتے هوں اور اس کواپنے گھرکی بهترین جگه پر محفوظ رکھتے هوں اور کبھی کبھی محافل ومجالس میں اس کی حقیقت اور اس کے معانی کی طرف توجه کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے هوں.اگر اس نگاه سے قرآن کودیکھیں تو قرآن ایک صامت(خاموش) کتاب هے جوکه محسوس آواز کے ساتھ نهیں بولتی،جوشخص ایسا نظریه قرآن کے متعلق رکھے گا وه هرگز قرآن کی بات نه سن سکے گا اور قرآن کریم اس کی مشکل کو حل نهیں کرے گا.اس بنا پر همارا فریضه هے که هم دوسرے نظرئیے کواپنائیں،یعنی قرآن کو ظابطه حیات سمجھیں ،اور خدائے متعال کےسامنے اپنے اندر تسلیم ورضا کی روح پیدا کرکے خود کو قرآن کریم کی باتیں سننے کے لئے آماده کریں که قرآن کی باتیں زندگی کا دستور هیں اسی صورت میں قر|آن ،ناطق اورگویا هے،انسانوں سےبات کرتاهے اور تمام شعبوں میں ان کی رهنمائی کرتاهے.اس توضیح کے علاوه جوکه هم نے قرآن کے صامت وناطق هونے کے متعلق بیان کی هے،اس کے اس سے بھی زیاده عمیق معنی پائے جاتے هیں اور وهی معنی حضرت علیکے مدنظر تھے اور ان هی معنی کی بنیاد پر آپ فرمایا هے که قرآن صامت هے اور اسے ناطق وگویا کرنا چاهئے اور یه میں هوں جوکه قرآن کوتمهارےلئے گویا کرتاهوں.اب هم قرآن کے صامت وناطق هونے کی توضیح دوسرے معنی کے اعتبار سے(یعنی حقیقت میں اس کےمعنی کی توضیح)پیش کررهے هیں:اگرچه قرآن کریم خداوند متعال کاکلام هے اور اس کلام الهیٰ کی حقیقت اور اس کے صاد ر اور نازل هونے کا طریقه همارے لئے قابل شناخت نهیں هے،لیکن اس وجه سے که اس کے نزول مقصد انسانوں کی هدایت هے، اس کلام الهی نے اس قدر تنزل کیا هے که لفظوں،جملوں اور آیتوں کی صورت میں انسان کے لئے پڑھنے اور سننے کےقابل هوگیا،لیکن اس کے باوجود ایسا بھی نهیں هے که اس کی تمام آیتوں کے مضامین عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس میں رکھنے کے قابل هوں اور لوگ خود نبی اکرمﷺ اورائمه معصومین علیهم السلام(جوکه راسخون فی العلم هیں)کی تفسیر وتوضیح کےبغیر آیتوں کےمقاصدتک پهنچ سکیں.مثال کے طور پر شرعی احکام ومسائل کے جزئیات کی تفصیل و توضیح قرآن میں بیان نهیں هوئی هے،اسی طرح قرآن کریم کی بهت سی آیتیں مجمل هیں اور توضیح کی محتاج هیں.اس بنا پر قرآن بهت سی جهتوں سے”صامت”هے، یعنی عام انسان اس کو ایسے شخص کی تفسیر و توضیح کے بغیر نهیں سمجھ سکتے جوغیب سے ارتباط رکھتاهے اور خدائی علوم سےآگاه هے.
پیغمبرﷺ اور قرآن کی توضیح وتفسیرنبی اکرمﷺکے فرائض میں سے ایک فریضه یه بھی هے که وه امت کے لئے، آیات الٰهی کی توضیح و تفسیر فرمائیں.قرآن کریم پیغمبرﷺ کو مخاطب کرکے فرماتاهے :٭ وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِم٭(2)هم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا اور آپ کافریضه هے که لوگوں کے لئے قرآن کی تلاوت کریں اور ان کے سامنے اس کے معارف کو بیان کریں،جیسا که اشاره کیا گیا که قرآن کلام الٰهی هے اور اس نے بهت تنزل کیا هے یهاں تک که الفاظ وآیات کی صورت میں آگیاهے اور مسلمانوں کے اختیارمیں هے،پھر بھی اس کے معارف اتنے عمیق اور گهرے هیں که عام انسانوں کے لئے قابل فهم نهیں هیں.لهذا قرآن اس اعتبارسے عام انسانوں کے لئے قابل فهم نهیں لهذا قرآن اس اعتبار سے عام انسانوں کے لئے صامت هے اور نبی اکرمﷺاور ائمه معصومیں علیهم السلام کی تفسیر کا محتاج هے.اس بناپر خداوندمتعال پیغمبراکرمﷺکو مخاطب کرکے فرمارها هے:”هم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا هے تاکه لوگوں کے سامنے اس کی تفسیر وتوضیح فرمائیں”.اس بنا پرقرآن کی آیتوں کی ایک خاص تفسیر هے جس کا علم نبی اکرمﷺاور ائمه معصومین علیهم السلام کے پاس هے، ان حضرات نے بھی قرآن کے معارف کو مسلمانوں کے اختیار میں دیا اور قرآن کے پیغام کو لوگوں تک پهنچایا.لهذا قرآن اس اعتبار سے ناطق هے اور نبی اکرمﷺاور ائمه معصومین علیهم السلام نے قرآن کے معارف کو بیان فرمایا،لیکن یه بات قابل توجه هے که قرآن اپنی بات مخاطب کی پسند سے بهتربیان کرتاهے خواه انسان کے دل کی خواهش کے موافق هو یا مخالف.نیز شیطان نما انسانوں کو یه حق نهیں هے که قرآن پر اپنی خواهشوں کو لادیں اور اپنی رائے سے کلام الٰهی کی تفسیر کریں ،اس کے متعلق هم آئنده تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے.قرآن کی صامت وناطق هونے کی بناپر حضرت علی ارشاد فرماتے هیں : نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُهُ”قرآن ایسا بولنے والاهے که که بولنے سے تھکتا نهیں،اور اپنے پیغام کو لوگوں تک پهنچاتا هے اور مسلمانوں پر حجت تمام کرتاهے.لهذا حضرت علی مذکوره جمله میں قرآن کا تعارف اس طرح کراتے هیں:کلام الٰهی ،قرآن تمهارے درمیان هے اور همیشه فصیح وبلیغ اور گویازبان سے فلاح ونجات کی طرف بلاتاهے،اپنے پیروؤں کو سعادت وکامیابی کی خوشخبری دیتاهے اور اپنی ذمه داری پورا کرنے سے نهیں تھکتا.خطبه 157میں حضرت علی قرآن کے متعلق اس طرح ارشاد فرماتے هیں:”ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ-وَ لَنْ يَنْطِقَ وَ لَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ-أَلَا إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي- وَ الْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي- وَ دَوَاءَ دَائِكُمْ وَ نَظْمَ مَا بَيْنَكُم‏”هاں!یه قرآن هے،پس اس سے چاهوکه تم سے بولے اس حال میں که هرگز قرآن(نبی اور ائمه معصومین علیهم السلام کی تفسیر کے بغیر)نهیں بولے گا.تمهیں چاهئے که نبی اکرمﷺاور معصومین علیهم السلام کی زبان کے زریعے قرآن کے معارف سے آشنا هو اور قرآن کے علوم کو انهیں سے دریافت کرو.قرآن الٰهی علوم ومعارف کاایساسمندر هے که اس گهرےاور اتھاه سمندر میں غواصی اور اس کے انسان سازموتیوں کا حصول فقط انهی حضرات کا نصیب هے جوعالم غیب سے ارتباط رکھتے هیں،خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یهی چاها هے که نبی اکرمﷺاور ائمه معصومیں علیهم السلام کے دامن سے متمسک هوکر،علوم اهلبیت علیهم السلام سے استفاده کرکے اور ان حضرات کی هدایت ورهنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں ،اس لئے که قرآن کے علوم اهلبیت علیهم السلام کےپاس هیں.نتیجه میں ان حضرات کی بات قرآن کی بات هے،اور جب ایساهے تونبی اکرمﷺاور اهلبیت علیهم السلام قرآن ناطق هیں. مذکوره بنیاد پر حضرت علی فرماتے هیں:”ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ وَ لَنْ يَنْطِقَ”یه قرآن هے اور دیکھو !تم امام معصوم کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفاده نهیں کرسکتے،یه امام معصوم هی هے جوتمهارے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتاهے اور تمهیں قرآن کے علوم ومعارف سے آگاه کرتاهے.حضرت علیاس مقدمه کو بیان کرکے قرآن کو ایک دوسرے زاوئیے سے قابل توجه قراردیتے هیں اورلوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے هیں، حضرت علیفرماتے هیں که امام معصوم هی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتاهے اور خودقرآن نهیں بولتا اور لوگ خودبھی قادر نهیں هیں که براه راست الٰهی پیغاموں کو حاصل کریں،تواب”أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ”میں تمهیں قرآن سے آگاه کرتاهوں اور قرآن کے علوم ومعارف کی تمهیں خبردیتاهوں،جان لو!که جوکچھ تمهاری ضرورت کی چیزیں هیں وه سب قرآن کریم میں موجود هیں،” أَلَا إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي وَ دَوَاءَ دَائِكُمْ وَ نَظْمَ مَا بَيْنَكُم‏”گزشته و آئنده کا علم قرآن میں هے اور تمهارے دردکی دوا اور تمهارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں هے،یه تم پر لازم هے که قرآن کریم اور علوم اهلبیت علیهم السلامسے استفاده کرکے اپنے امور کو منظم کرو!.(بقیه آئنده انشاه الله)

نهج البلاغه خطبه143.نحل،44.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.