قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے اوصاف(حصہ دوم)

276

اپنی قوم کا ہم زبان ہوناقرآن کریم میں پیغمبروں کی ایک اور عمومی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر پیغمبر کو امت کی زبان میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا ہے یعنی جو رسول جس مخصوص قوم کیلئے رسول بنا کر بھیجا گیا اس نے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کی ہے یہاں تک کہ جو پیغمبر پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ان کو بھی جس قوم کے درمیان بھیجا گیا ہے اور جس قوم کے درمیان انھوں نے زندگی بسر کی ہے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔مندرجہ ذیل آیات انبیاء علیہم السلام کا خود اپنی قوم کا ہم زبان ہونا بیان کرتی ہیں۔(فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَّکَّروُنَ)(١)”پس ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے کہ شاید یہ لوگ نصیحت مان لیں ”۔(نَزَلَ بِہ الرّوُحُ الْاَمِیْنُ۔عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنْذِرینَ۔بِلِسَانٍ عَرَ بِیٍّ مُبِیْنٍ)(٢)”اسے جبرئیل امین لے کرنازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہواہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں یہ واضح عربی زبان میں ہے ”۔یہ دوسری آیت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم عام فہم عربی زبان میں نازل ہوا ہے:(وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا بِلِسِانِ قَوْ مِہِ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ۔۔۔)(٣)”اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کو خود اس کی زبان دے کر بھیجا ہے تا کہ ان کے سا منے بیان کرسکے ”۔یہ آخری آیت اپنی قو م کا ہم زبان ہو نے کے علا وہ پیغمبر کے بھیجے جا نے کی غرض و غا یت کی طرف بھی اشارہ کر تی ہے : پیغمبر کو مبعوث کر نے کا ہد ف قوم تک اس ( پیغمبر )کے ذریعہ الٰہی اہداف و مقا صد پہنچانا ہے ۔ بنابرایں اگر پیغمبر کی زبا ن (جو قوم کے ساتھ رابطے کا اصل ذریعہ ہے ) اپنی قو م کی زبان سے مختلف ہو تو وہ کا مل طور پر…………..١۔سورئہ دخان آیت٥٨۔٢۔سورئہ شعراء آیت١٩٣۔١٩٥۔٣۔سورئہ ابراہیم آیت٤۔رسالت کا فریضہ ادا کر نے اور اپنے مبعوث ہو نے کے اہدا ف و مقا صد کو پو را کر نے میں کا میاب نہیں ہو سکے گا ۔
دعوتِ توحیدقر آ ن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے عمو می اوصاف میں سے ایک خدا ئے واحد کی عبا دت کی دعوت بھی ہے اور قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ تما م انبیاء علیہم السلام کی تبلیغ میں سرِ فہرست لوگو ں کو توحید کی دعوت دینا رہا ہے ارشاد ہو تا ہے:(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْااﷲَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ)(١)” اور در حقیقت ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسو ل ضرور بھیجا کہ کہے :لو گو !خدا کی عبا دت کرو او ر طاغوت کی پر ستش سے دور رہو ”۔( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْ لٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِ لَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ )(٢)” اور ہم نے آپ سے پہلے کو ئی رسو ل نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان پر وحی کی کہ میرے سوا کو ئی معبود نہیں پس میری عبا دت کیا کرو ”اوردوسرے سورہ میں ارشا د ہو تا ہے 🙁 اِذْجَائَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا تَعْبُدُ وْااِلَّا اﷲَ ۔۔)(٣)” جب ان کے پاس ان کے آگے ، پیچھے ہما رے پیغمبر آ ئے (اور کہا ) خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کر نا ”۔ہا ں ہر پیغمبر مسئلۂ تو حید اپنے خا ص طریقہ سے بیان کر تا تھا لیکن مجمو عی طور پر ان کی تعلیم کا ماحصل وہی خدائے یکتا کی پرستش تھی ۔ چنا نچہ بغیر کسی شک وشبہ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام الٰہی انبیا ء کی دعوت کی اصل روح اورحقیقتِ مشتر کہ یہی تو حیدمسئلہ اور خد ائے وحد ہُ لا شریک کی پر ستش رہی ہے ۔
معا شرہ میں رائج برا ئیو ں اور بد عنو انیو ں سے جنگتمام انبیاء علیہم السلام خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبا دت کی دعوت کے علاوہ کہ جس کی وہ سبھی عام طور پر دعوت دیا کر تے تھے اپنی امت میں رائج بد عنوانیو ں سے مقا بلے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے تھے ۔ نمونہ کے طور پر حضرت…………..١۔سورئہ نحل آیت ٣٦۔٢۔سورئہ ا نبیاء آیت ٢٥۔٣۔سورئہ فصلت آیت١٤ ۔شعیب کے زما نہ میں ”کم فروشی ”کا روا ج تھا ۔اس بنا ء پر حضرتِ شعیب علیہ السلام کوخا ص طور پر اس اقتصا دی بدعنوانی سے جنگ کے لئے بھیجا گیا تھا ۔وہ اپنی امت سے کہتے تھے 🙁 َوْفُوا الْکَیْلَ وَلاَتَکُونُوا مِنْ الْمُخْسِرِینَ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ۔وَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَہُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَْرْضِ مُفْسِدِینَ )(١)”(جب کو ئی چیز ناپ کر دو تو ) پیمانہ بھر کر دیا کرو (کم نہ دیا کرو ) اور (جب تو ل کر دو ) ٹھیک ترا زو سے (ڈنڈی سیدھی رکھکر )تو لو اور لو گو ں کے مال کی قیمت کم نہ لگا یا کرو ”حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی امت کے درمیان عام طور پر بد چلنی شا ئع و رائج ہو چکی تھی لہٰذا حضرتِ لوط علیہ السلام اس معا شرتی برا ئی سے مقا بلے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے خداوند عالم قر آنِ کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :(اَتَاتُوْنَ الذُّ کْرَانَ مِنَ العَٰلَمِیْنَ ۔وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم عَادُوْنَ )(٢)”کیا تم سا رے جہان کے لوگو ں میں مر دوں ہی کے پاس جا تے ہو ؟اور خدا وند عالم نے جو بیبیاں تمہارے وا سطے پیدا کی ہیں انھیں چھو ڑ ے ہو ئے ہو ( نہیں ) بلکہ تم لوگ اپنی حد سے نکل گئے ہو”۔
فضیلت کے اعتبا ر سے مرا تب کا فرقایک اور اصو ل جس پر قرآنِ کریم نے بہت زیا دہ زور دیا ہے یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درمیان فضیلتاور کما ل کے لحا ظ سے فرق ہو تا ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:(تِلْکَ الرُّ سُلُ فَضَّلْنَا بَعضَھُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۔۔۔)(٣)” ان میں بعض رسو لو ں کو ہم نے بعض دو سرے رسو لو ں پر فضیلت دی ہے۔۔۔”۔اور اس آیت سے ملتی جلتی دوسری آیت میں ارشاد ہو تاہے :(وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلَیٰ بَعْضٍ ) (٤)…………..١۔سورئہ شعرأ آیت ١٨١۔ ١٨٣۔٢۔سورئہ شعرا آیت١٦٥۔١٦٦۔٣۔سورئہ بقرہ آیت٢٥٣۔٤۔سورئہ اسراء آیت٥٥۔”اور ہم نے یقینا بعض پیغمبروں کو بعض پرفضیلت دی ہے ”۔ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تما م انبیائے الٰہی کما ل کے اعتبا ر سے مسا وی نہیں تھے اور معنوی مقا م کے اعتبار سے ایک دو سرے سے فر ق کر تے تھے ۔
اجر طلب کر نے سے پر ہیزانبیا ء علیہم السلام کی ایک اور مشتر کہ خصو صیت یہ ہے کہ انھو ں نے ہر گز اپنی امت سے رسا لت کی راہ میں اٹھا ئی جا نے والی طا قت فرسا زحمتو ں کے عوض کو ئی اجر و مز دوری نہیں طلب کی ۔ انبیاء کی زبا نی یہ بات صاف طور پر نقل ہو ئی ہے کہ وہ اپنی امت سے مخا طب ہو کر فر ما یا کر تے تھے :ہم تمہا ری رہنما ئی اور تعلیم و تر بیت کے عو ض تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتے کیو نکہ ہما ری اجرت خداوند عالم کے ذمہ ہے ۔ اس کے سلسلہ میں سب سے جا مع سورہ ، سورئہ شعراء ہے۔ جس میں پا نچ مقا مات پر پیغمبر وں کی داستان بیا ن کر نے کے بعد قرآن کہتا ہے:( وَمَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عََلیٰ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ)(١)”اور اس (تبلیغ رسالت ) کے بد لے میں تم سے کو ئی اجرنہیں چا ہتا میری اجرت تو بس سا رے جہان کے پالنے وا لے (خدا ) کے ذمہ ہے ”۔یہ آیت کہ جس میں حضرتِ نوح ، ہود، صا لح ، لوط اور شعیب علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی حکا یت بیان ہوئی ہے واضح طور پر اس واقعیت سے پر دہ اٹھا تی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کسی بھی طرح کی تو قع یا مطالبہ اپنی زحمتو ں کے سلسلے میں لوگو ں سے نہیں رکھتے تھے اور ان کی امید صرف اور صرف خدا وند عالم کے فضل و کرم سے وابستہ تھی ۔قر آن کریم کی چند آیات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖبھی گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی مانند لوگوں سے کسی طرح کے اجر کی تو قع نہیں رکھتے تھے :(وَمَا تَسْئَلُھُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ ھُوَ اِ لَّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْنَ )(٢)” اور تم اس (کام ) کے بد لے ان سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتے ۔ وہ (قرآن ) دنیا وا لو ں کے لئے نصیحت کےعلا وہ اور کچھ نہیں ہے ”۔…………..١۔سورئہ شعراء آیت١٠٩،١٢٧،١٤٥،١٦٤،١٨٠۔٢۔سورئہ یوسف آیت ١٠٤۔(قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِِیْنَ )(١)”(اے رسول )آپ ان سے کہد یں میں تم سے نہ اس (تبلیغِ رسالت ) کا کو ئی بد لہ چا ہتا ہو ں اور نہ میں ان لو گو ں میں ہو ں کہ خود ساختہ چیزو ں کی خدا کی طرف نسبت دیدوں ”۔بعض دو سری آیا ت میں اس حقیقت کو استفہا مِ انکا ری کی صو رت میں بیا ن کیا گیا ہے ۔(اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْراًفَھُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُوْ نَ)(٢)”(اے رسول ) کیا آپ نے ان سے (تبلیغِ رسالت کا ) کو ئی صلہ ما نگا ہے اور ان لو گو ں پر تاوان میں (وعدہ پو را کر نے کا ) بھا ری بو جھ پڑ رہا ہے ؟!”۔بغیر کسی شک و شبہ کے دو سو روں میں دہرا ئی جا نے والی اس آیت میں استفہام(اور سوالیہ انداز) استفہامِ انکا ری کی قسم سے ہے۔ لہٰذا اس آیت میں بھی ایک دو سرے رُخ سے یہی حقیقت بیان ہو ئی ہے کہ پیغمبراسلام نے اپنی امت سے تبلیغ رسالت کے سلسلے میں کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا ہے ۔ابھی ذکر شدہ تمام آیات میں کسی بھی قسم کے اجر کی درخواست کا مطلق طور پر انکا ر ہے لیکن بعض دو سری آیات سے اس سلسلہ میں ایک طرح کے استثنا ء کا پتہ چلتا ہے :(قُلْ لَاْ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ۔۔۔)(٣)”(اے رسول ) آپ کہدیں کہ میں اس ( تبلیغ رسالت ) کا اپنے قر ابتدا رو ں کی محبت کے سوا تم سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتا ”۔(قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍاِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیْلاً)(٤)”( ان لو گو ں سے )آپ کہد یں کہ اس (تبلیغ رسالت ) پر تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتا ہو ں مگر یہ کہ جو چا ہے اپنے پر ور دگار تک پہنچنے کی راہ اختیار کرے ”۔پہلی نظر میں ممکن ہے کو ئی یہ گمان کرے کہ مذ کو رہ دو آیتیں ایک استثنا ئے حقیقی ہیں اس معنی میں کہ پیغمبر اسلام ۖنے ( تمام انبیا ء علیہم السلام کے بر خلاف اور دوسری آیات میں مذ کورہ خود اپنی گفتگو کے بر خلاف ( کہ جن…………..١۔سورئہ ص آیت ٨٦۔٢۔سورئہ طور آیت ٤٠ اور سورئہ قلم آیت ٤٦۔٣۔سورئہ شو ریٰ آیت٢٣۔٤۔سورئہ فر قان آیت٥٧۔میں کلی طور پر ہر طرح کے اجر کے مطالبہ کی نفی کی گئی ہے ) ان دو نو ں آیات میں لو گو ں سے تبلیغ رسالت کا اجر اور بد لا طلب کیا ہے لیکن پہلی نظر میں پیش آ نے والا یہ تصور صحیح نہیں ہے کیو نکہ ان دونو ں آیتو ں کے مطالب پر غور و فکر کرنے سے یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ان چیزو ں میں سے نہیں ہے جو عام طو ر پر لوگ کسی عمل کے انجام دینے کے بعد مز دوری کے عنوان سے طلب کیا کر تے ہیں ۔ عر ف عام میں مزدو ری اس منفعت کو کہتے ہیں جو مزدوری دینے والا کسی مزدور کو دیتا ہے ۔ دوسرے لفظو ں میں یہ مز دو ری پا نے والا شخص ہے جو وہ اپنے انجا م دیئے گئے کام کے بد لے میں پا تا ہے اور اس کی منفعت سے بہرہ مند ہو تا ہے ۔ اجر ت کے اس مفہو م سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ اس میں جن چیز و ں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے یعنی ”الَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ”اور ”مَنْ شَا ئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رّبِّہِ سَبِیْلاً ” استثنا نہیں ہے (١) اس لئے کہ یہ وہ اجر تیں ہیں جس کا فا ئدہ خو د ذاتِ پیغمبر کی طرف نہیں پلٹتا بلکہ یہ تو امت اسلامی ہے جوخا ندا نِ پیغمبراکرم ۖ سے دو ستی کے ذریعہ الٰہی راہ پر گا مزن ہو کر فائد ہ اٹھا ئے گی ۔مندر جہ بالا بیان کی روشنی میں کسی کے ذہن میں یہ با طل خیا ل نہیں آنا چا ہئے کہ ( نعوذ باﷲ)پیغمبر اکرم مقام و منصب کے خوا ہا ں تھے اور ان کا مقصد لو گو ں کے درمیان محبوبیت حا صل کر نا تھا اور چا ہتے تھے کہ اُن کے بعد لو گو ں کی نظر اُن کے خا ندا ن پر مر کو زرہے ۔جی نہیں ، ایسا نہیں ہے بلکہ نبی اکر م ۖ آپ کے اقر باء سے محبت و مو دت اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ایک ایسا امر ہے جو بالآ خر خود لو گو ں کے فا ئدے میں ہے اور خود ان کی سعا دت اور کمال کے لئے ہے اور اصو لی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستثنیٰ کئے گئے دو نوں امر کی بر گشت با لآخر ایک ہی چیز کی طرف ہے ۔ اس لئے کے کسی بھی شک و شبہ کے بغیر پیغمبر اکرم ۖکی طرف سے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی وصیت، آپ کا کوئی ذاتی کام نہ تھا بلکہ خدا کے حکم کے تحت تھا۔پیغمبر اکرم ۖکو خداوند عالم کی طرف سے اس امر پر مامور کیاگیا تھاکہ آپ اہل بیت علیہم السلام کا رسالت کے تسلسل اور امت کی رہنمائی کے لئے جو اعلیٰ مقام رکھتے ہیں لوگوں کے گوش گذار فرمادیںاور بلاشبہ اہل بیت علیہم السلام سے تمسک خداوند عالم کی راہ پر چلنے کا کامل و واضح مصداق ہے ۔آخری دو آیتوں کی جو تفسیربیان کی گئی ہے اور زیادہ صراحت کے ساتھ مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے :
١۔( اجر ) کے مذکو رہ معنی کے مدِّ نظر علما ئے علم نحو کے اعتبار سے ان آیات میں استثنا ئے مذ کور استثنا ئے منقطع کی قسم سے ہے کہ جس میں مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے ۔(قُلْ مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَھُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَیٰ اﷲِ ۔۔۔)(١)اس آیت کی دو طرح سے تفسیر کی گئی ہے پہلی تفسیر کے مطابق جو مندرجہ بالا بیان سے مناسبت رکھتی ہے ۔ آیت میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖنے اجر و مزدوری کے طور پر جس چیز کا مطالبہ کیا ہے۔ حقیقت میں وہ وہی چیز ہے جس کا فائدہ خود لوگوں کی طرف پلٹتا ہے یعنی حقیقی اجر لینے والی خود امت ہے لیکن دوسری تفسیر کے مطابق آیت سر ے سے اجرت کی نفی کررہی ہے یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی تم سے اپنی رسالت کے عوض میرا مطالبہ ہے وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا۔ (جیسے کوئی قرض دینے والا مقروض سے کہتا ہے :اگر میراتم سے کچھ مطالبہ ہو تو وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا )۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آخر کی تین آیتوں کو دعائے ندبہ میں بڑے ہی اچھّے اور خوبصورت انداز میں ایک دوسرے سے مرتبط کرکے بیان کیاگیا ہے:(۔۔۔ثُمَّ جَعَلْتَ اَجْرَمُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ مَوَدَّتَھُمْ فِیْ کِتَا بِکَ فَقُلْتَ قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراًاِلَّاالْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ وَقُلْتَ مَاسَئَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَھُوَلَکُمْ وَ قُلْتَ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیْلاً فَکَانُوْاھُمُ السَّبِیْلُ اِلَیْکَ وَالْمَسْلَکَ اِلیٰ رِضْوَانِکَ ۔۔۔)”اس وقت تو (اے پر ور دگا ر )نے اپنے قرآن میں رسالتِ محمد ۖکی اجرت امّت کی اہل بیت سے محبت دوستی قرار دی جہا ں تو نے فر مایاہے :”اے رسول ”آپ کہدیں کہ میں اس( تبلیغ رسالت)کا اپنے قرابتداروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم (امتوں)سے کوئی صلہ نہیں مانگتااور پھر تونے فرمایا :”اے رسول”آپ (یہ بھی)کہدیںکہ (تبلیغ رسالت کی ) میں نے تم سے جو اجرت مانگی ہے وہ تمہارے ہی فائدہ میں ہے اور پھر تونے فرمایا :”(اے رسول )آپ یہ بھی کہدیں کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا مگر (یہ کہ ) خدا کی راہ پر چلے ۔پس (آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ )اہل بیت پیغمبر تجھ تک اور تیری جنت رضوان تک پہنچنے کا راستہ (اورر اہبر)ہیں ”۔…………..١۔ سورئہ سبا آیت ٤٧۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.